(حرفِ اوّل) پس چہ باید کرد اے مسلمانانِ عالم! - ڈاکٹر ابصار احمد

9 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پس چہ باید کرد اے مسلمانانِ عالم!ڈاکٹر ابصار احمد

ڈیڑھ دو ماہ قبل شعبہ ادارت ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی جانب سے درج ذیل سوال چنیدہ اصحاب کو بھیج کر راہنمائی کی خواہش کی گئی:
’’عصر حاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟‘‘
ہیچ مدان راقم کا جوابی مراسلہ قارئین ’’حکمت ِقرآن‘‘ کے مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے:
نائب مدیر جناب سلیم منصور خالد نے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے لکھا ہےکہ ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بیسویں صدی میں بلندپایہ اسلامی مفکر سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ - ۱۹۷۹ء) نے مارچ ۱۹۳۳ء میں جاری کیا۔اس رسالے نے گزشتہ ۹۱ برسوں میں علمی‘ فکری اور عملی سطح پر مسلم اُمّت کی راہنمائی کی ہے۔ آج یہ تاریخی ماہ نامہ معروف اسلامی دانشور اور محقق پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں شائع ہو رہاہے۔ مولانا مودودی نے اس ماہ نامہ میں اپنے اسلامی افکار کو پیش کرنے کے ساتھ لگ بھگ ایک دہائی بعد اصولی احیائی تحریک ’’جماعت اسلامی‘‘ کی تاسیس کی‘ جو تادمِ تحریر برصغیر کے تینوں ممالک میں قائم اور فعال ہے۔ قبل تقسیم اور پاکستان میں آٹھ دہائیوں کے دوران جماعت اسلامی فکری اور عملی اعتبار سے جن تبدیلیوں سے دوچار ہوئی ہے‘ اس کا ہلکا سا تنقیدی جائزہ راقم نے ’’نیرنگی ٔسیاست ِدوراں‘‘ کے عنوان کے تحت ایک تحریر میں لیا ہے۔(خصوصی شمارہ سہ ماہی’ ’حکمت ِقرآن‘‘ جنوری- جون ۲۰۲۳ ‘صفحات ۷۸ - ۸۳) تعجب ہے کہ محترم نائب مدیر نے اپنے خط میں جماعت کا تذکرہ بالکل ہی گول کر دیا۔ اسے صرف غیرشعوری تسامح پرتو ہرگز محمول نہیں کیا جاسکتا۔یہاں اصغر گونڈوی کا شعر صورت حال کی صحیح عکاسی کرتا نظر آتا ہے : ؎
نمودِ جلوئہ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
چلیےاگر آپ نے صرف علمی‘ فکری اور مسلم اُمّت کی فکری ونظری راہنمائی تک محدود رہنا ہے تووابستگانِ فکر ِ مودودی کے زیر ِانتظام پاکستان کی حد تک جو دو ادارے اسی کام کے لیے وقف ہیں‘ ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ ستمبر۱۹۶۳ء کو کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی افتتاحی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے مولانا نے اکیڈمی کے اغراض و مقاصد کے ضمن میں اہل مغرب کے مادی فلسفہ حیات کی تفہیم و تغلیط پر زور دیا اور مادر پدر آزاد جدیدیت کے طلسم کو توڑنے کا عندیہ دیا۔اکیڈمی نے متعدد کتابیں اور تحقیقی و علمی جرائد بھی باقاعدگی سے شائع کیے ہیں۔ جرائد میں پندرہ روزہ ’’معارف فیچر‘‘ راقم دلچسپی سے دیکھتا اور اس کے مشمولات کو مفید اور معلومات افزا پاتا ہے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے ۶۰سالہ علمی نگارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک یادگاری مجلہ ’’عصر حاضرمیں اسلامی تہذیب کی علمی و ادبی جہتیں‘‘حال ہی میں شائع کیا ہے جس کے مرتّب ڈاکٹر خالد امین ہیں۔ خاکسار کی رائے میں محولہ بالا سوال اس اکیڈمی سے وابستہ ریسرچ سکالرز اور محققین کے سپرد ایکcommisioned assignment کے طور پر کیا جانا چاہیے۔
دوسرا ادارہ جو نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر خورشید احمد صاحب نے خود ذاتی دلچسپی سے اسلام آباد میں قائم کیا وہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز(IPS)ہے۔ صدر ضیاء الحق کے زمانے میں پروفیسر صاحب کے پاس کچھ عرصے کے لیے سینیٹر ہونے کے علاوہ وزارت بھی رہی اور۱۹۸۰ ءاور۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں ان کا شمار ہائی پروفائل influencers میں رہا ہے ۔ اس ادارے سے بھی توقع یہ تھی کہ وہ گلوبل جیوپولیٹکل معاملات کے ساتھ اسلام کی نظریاتی اساسات اور اقدار کو بھی نمایاں کرنے میں حصہ لے گا۔ البتہ راقم کی رائے میں یہ ادارہ چند ریجنل issues پر مذاکرات اور مباحث تک محدود رہا ہے جبکہ دوسری جانب اسلام کا بھی مغربی دنیا کے مقتدر حلقوں اور اکیڈیمیا کے لیے قابلِ قبول سوفٹ امیج پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
سوال پر مشتمل مختصر تحریر میں جناب سلیم منصور خالد نے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر مسلمانوں کی محکومیت اور بیچارگی کا رونا رویا ہے‘تو دوسری جانب خود مسلمانوں میں فکری تضادات اور انتشار کے بحران کا ذکر بھی کیا ہے۔ راقم کی رائے میں محترم نائب مدیر کا یہ انداز عصر رواں میں عمومی طور پر پائے جانے والے culture of complaint کا مظہر ہے‘ اور ایک طرح سے ہماری منصوص دینی تعلیمات سے محجوبی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا’’دار تکلیف‘‘ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں ہمیں مکلّف ٹھہرایا گیا ہے‘ یعنی شرعی تکالیف (بمعنی فرائض و واجبات) ہم پر لازم ہیں اور ان پر حتی المقدور عمل کے حوالے سے ہم سے آخرت میں باز پُرس ہو گی۔
تاریخ اسلامی کے آغاز ہی سے ہمارے دینی اساطین و اسلاف حق کے ساتھ تمسک اور اعتزاز بالدین کی اہمیت اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ خلق قرآن کے مسئلہ پر جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو’ ’محنۃ‘‘ (inquisition) کے دوران سخت ترین حکومتی تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا گیا تو کچھ مسلمانوں نے افسوس کے ساتھ امام سے کہا:أو لا تری الحق کیف ظھر علیہ الباطل (کیا آپ دیکھتے نہیں باطل کیسے حق پر غالب آ گیا)؟ اس موقع پر امام احمد بن حنبلؒ کا جواب سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔آپؒ نے فرمایا:
کلا، ان ظھور الباطل علی الحق ان تنتقل القلوب من الھدی الی الضلالۃ، وقلوبنا بعد لازمۃ للحق
’’باطل کا حق پر غلبہ اور تسلط تب ہوتا ہے جب قلوب و اذہان ہدایت سے گمراہی کی جانب منتقل ہو جائیں۔ (درآں حالیکہ) ہمارے دل اب بھی حق کے ساتھ چمٹے اور جڑے ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچہ اصل تشویش ناک صورت حال وہ ہے کہ جس میں حق انسان کے قلب میں مغلوب ہو جائے‘ ایمان متزلزل اور اعتزاز بالدین برائےنام رہ جائے۔ اسلام کے غلبے اور فرماں روائی کے سلسلے میں ہمارے اکابر کا ایک اہم قول بھی ملتا ہے جو از حد ہمت افزا ہے:
دولۃ الباطل ساعۃ، دولۃ الحق الٰی قیام الساعۃ
’’باطل کی قیادت و غلبہ تھوڑے وقت کے لیے جب کہ حق کی سربلندی اور فرماں روائی قیامت تک کے لیے ہے۔‘‘
اسی مفہوم کو شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ نے اپنے ترجمہ قرآن میں سورۃ الفتح کی آیت ۲۸ میں ’’اظہارِ دین‘ ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فوائد میں تحریر کیا ہے کہ اسلام کا غلبہ ظاہر میں بھی ایک مدّت رہا اور یہ دلیل سے ہمیشہ غالب ہے۔ تہذیب ِجدید بگ ٹٹ آزادی کے نشے میں ایسی چُور ہوئی ہے کہ اجتماعی زندگی کے دائمی آئین اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انسان کی آزادیاں اس کی مصیبت کا سبب بن گئیں‘ اس لیے کہ وہ فطری حدود سے متجاوز ہوگئیں۔ انفرادیت پسندی کے ڈانڈے عمرانی اور سیاسی نقطہ ٔنظر سے نراج (anarchy) اور عدم اقرار (nihilism) سے جا کر مل جاتے ہیں۔ چنانچہ نٹشے کا فلسفہ خودی عدل و مساوات کی اخلاقی اقدار اور مملکت و معاشرت کی ذمہ داریوں کو ڈھکوسلا بتاتا ہے۔
جدید مغربی فلسفہ وفکر کا گہرا تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اخلاق و تہذیبی اقدار کی مابعد الطبیعی بنیاد (anchoring)کا اب کوئی تصور نہیں رہا ۔ پولینڈ کے فلسفی زگمنٹ بائومین کی کتاب Life in Fragments (ٹکڑوں میں بٹی زندگی)بتاتی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں پڑھے لکھے لوگ ذہنی طور پر ایک خلا (void) اور انکارِ کُل(nihilism) میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ راگ رنگ اور فری سیکس کے پاپولر کلچر نے عوام و خواص سب کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ گریکورومن فکر اور عیسائیت کی وجود اور کائنات کے حوالے سے بنیادی روحانی تعبیر کو ترک اور anti-essentialist پوزیشن لینے نے ان کے پورے اسلوبِ ہستی اور بین الانسانی اندازِ تعلق کو یکسر تبدیل کر دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب وہاں انسان ہونا خود معرضِ خطر میں ہےاور بہت سے نام نہاد علمی مقالے اور کتابیں پوسٹ ہیومن سیناریو سے متعلق شائع ہو رہی ہیں۔ جرمن فلسفی ہائیڈیگر‘ ناسا کا چیف سائمن راموHusserl‘ امریکی نفسیات دان اور سوشل نقاد ایرک فروم‘ ہربرٹ مارکوزے‘ اڈرنو اوریاک ہائمر کی اہم کتاب The Dialectic of Enlightenment کامطالعہ مغرب کے فلسفہ روشن خیالی کو خرافات قرار
دیتا ہے۔عصر حاضرمیں مطلقیت اور آفاقیت بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ امریکی فلسفی ایڈم کرش (Adam Kirsch) کی کتاب The Revolt Against Humanity: Imagining a Future without Us کے مشمولات اس ضمن میں ازحد چشم کشا اور مایوس کن ہیں۔مشل فوکو (فرانسیسی دانشور) کا تو خیال ہے کہ انسان ڈیڑھ دو سو سال میں صفحہ ہستی سے غائب (erase) ہو جائے گا۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ چونکہ انسان نے گزشتہ تاریخی ادوار میں نیچر اور حیوانی انواع کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا‘ چنانچہ اب اس کا یہاں سے ہٹ جانا اور غائب ہو جانا ہی بہتر ہے۔ اس پوزیشن کو وہ Anthropocene Anti-humanismکا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ’ ’انسانیت‘‘ ہی کے تصور اور تعین کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ یعنی ہمیں ’’انسان‘‘ کے اس پورے تصوّر کو تج دینا ہو گا جو تمام مبنی بر وحی ادیان اور عرفانی لٹریچر میں مذکور ہے۔آزادی‘ ڈویلپمنٹ‘ پروگریس اور لامتناہی سائنسی/ ٹیکنالوجیکل ترقی کے ساتھ اب موت کو بھی شکست دینے کا دعویٰ ہے‘ اگرچہ اس میں یہ یقیناً کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔بہرحال دوسری جانب مغرب ہی میں بعض ایسے سنجیدہ فکر اور علمی تجزیہ و تحلیل کے مفکرین بھی ہیں جنہوں نے متعدد اہم تصانیف میں مغرب کی ٹیکنالوجیکل اور ڈیجیٹل ترقی پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ اسے انسانیت کے لیے انتہائی منفی بھی قرار دیا ہے۔ ان میں متعدد دوسرے تہذیب حاضر کے نقاد مصنّفین کے ساتھ کارل آر ٹرومین اور جان گرے کے رشحاتِ قلم مغربی تہذیب وکلچر سے ازالہ سحر (disillusionment)کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔مزید برآں‘ ’’ہیومن کنڈیشن‘‘کی کلچرل اور نفسیاتی ناہمواریوں کے بارے میں سخت ذہنی کرب اور تشویش کے ساتھ بنیادی سوالات اٹھاتے ہیں۔
راقم کا خیال ہے کہ اب مغرب میں اکیڈیمیا کے کچھ اعلیٰ حلقوں میں بنیادی علمی سوالات کو وجودی اور روحانی تناظر(perspective) میں دیکھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں یورپ اور امریکہ کے مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات و خواتین کا بالخصوص حلقہ بگوشِ اسلام ہونا اور اسلامی ممالک میں طویل عرصہ قیام پزیر رہ کر دینی علوم کو انتہائی محنت سے حاصل کرنا اور پھر اسلام کی حقانیت کو نہ صرف اپنے آبائی خطوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرنا قابل غور ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ وطن عزیز پاکستان اور پوری دنیا میں بالعموم قرآن و سُنّت کی تعلیمات کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا زمانہ دورِ زوال اور غربت ِاسلام کا دَور ہے۔ بانی انجمن خدام القرآن و تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے قرآن و سنت کی تعلیمات اپنے فہم کے مطابق نصف صدی سے زیادہ عرصہ پاکستان اور کئی غیر ممالک میں انتہائی پُرجوش اور انقلاب آفریں انداز میں پھیلائیں۔ دوسری جانب بعض اسلامی دعوتی و سیاسی جماعتیں جدیدیت کی تہذیبی مرادات (پروگریس اور اقتصادی فلاح) کو مذہبی اصطلاحات کی آڑ میں آگے بڑھانے کے عمل تک محدود ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کی پیوندکاری سے اب کام نہیں چلے گا۔ ضرورت سطحی باتوں اور نعروں سے باہر نکل کر دین متین کے ثوابت و محکمات کو صحیح عقیدے کی روشنی میں اس طرح پیش کرنے کی ہے کہ وہ مفہومات سے اوپر اُٹھ کر وجودی و ایمانی احوال کے طو رپر محسوس ہوں۔ عصری سماجیات کے دقائق و معارف پر گہری نظر رکھنے والے جناب حامد کمال الدین ر قم طراز ہیں:
’’...... نظام سے تو شریعت خداوندی یہاں بہت پہلے فارغ کرائی جا چکی۔ اب تو وہ ذہنوں سے کھرچ دی جانے لگی ہے ۔’’معاشرے‘‘ سے بے دخل ٹھہرائی جانے لگی ہے۔ ’’نظام‘‘ کی بحثیں اٹھانے والے خدارا معاملے کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں۔ اس جنگ کا محاذ فی الوقع ’’سماج‘‘ ہے‘ نظام نہیں ہے۔ یعنی صحیح معنوں میں ایک غربت اسلام جو ہمیں درپیش ہے۔ یہاں آپ کو ’’تعلیم عقیدہ‘‘ کی سطح پر آنا اور جاہلیت کے ساتھ ایک گہرا اختلاف اٹھانا ہو گا۔ ایک ’’سماجی محاذ‘‘ اٹھانے تک جانا ہو گا۔ اسے ’’ملتوں‘‘ اور تہذیبوں کی آویزش بنانا ہو گا۔ مسئلے کو ’’شرک اور توحید‘‘ کی بنیاد پر لینا ہو گا‘ کیونکہ ہیومن ازم کے ساتھ فی الواقع ہمارا اسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس سے کم سطح کا کوئی بھی علاج مرض کو اور بھی تقویت دے گا۔‘‘
[مصنف کی فکر انگیز کتاب’ ’انسان دیوتا کے حق میں پاپ‘‘ (www.eaqaz.org)سے اقتباس]
مندرجہ بالا سطور کے مطابق ہمارے اسلامی سیکٹر کو ایکٹوازم کے غیر مؤثر افعال کو کم کر کے مؤثر اور نتیجہ خیز مشاغل کی طرف جانا چاہیے۔ معاملے کو کسی ایک عدد ’’سیاسی سکیم‘‘ یا سالوں پر محیط ’’تعلیمی و تربیتی پروگرام‘‘ میں  محصور جاننا نتائج کے اعتبار سے سخت مایوس کن رہا ہے۔ ہمیں سیکولرازم‘ ہیومن ازم اور جدیدیت یا بالفاظِ دیگر ’’ایمان بمقابلہ کفر‘‘ کے مباحث کو فرد سے افراد اور سماج تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اوّل الذکر سیاسی ایکٹوازم اور مؤخر الذکر دعوتی و علمی و تعلیمی فعالیت میں جوہری تنوع ہے۔ پُرجوش تقاریر کےبجائے علمی واصلاحی مجالس اور حلقات کا اہتمام اُمّت کی روایت میں افراد میں پائیدار ذہنی و قلبی تبدیلی لانے جبکہ سماج میں دین اور دینی شعائر کے لیے ایک غلغلہ پیدا کرنےکا کارگر منہج رہا ہے۔ چنانچہ یہ برادر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دروسِ قرآنی ہی کا پھیلائو (proliferation) ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن کی قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج کے فارغ التحصیل طلبہ دینی روایت کے وارثین کا کردار ادا کرتے ہوئے دعوت و اشاعت ِقرآنی کا کام اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں کر رہے ہیں۔ فلِلّٰہ الحمد والشکر!
محترم پروفیسر خورشید احمد گزشتہ کئی دہائیوں سے انگلستان میں مقیم ہیں اور مغرب میں شائع ہونے والی اہم کتابوں سےاغلباً انہیں آگاہی دی جاتی ہوگی۔ راقم کا خیال ہے کہ وہ کورین نژاد دانشور اور سوشل تھیورسٹ بیان چل ہان (Byung Chull Han)کےفکر سے واقفیت رکھتے ہوں گے۔ یہ فلسفی عہد حاضر میں نیو لبرل ازم‘ کیپٹل ازم اورڈیجیٹل ٹیکنالوجیزکے نتیجے میں ہونے والی نظاماتی تبدیلیوں اور انسانی صورت حال میں واقع ہونے والے تغیرات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ ہان کا ایک مضمون Why Revolution is Impossible Today از حد اہمیت کا حامل ہے ۔ مسلمان امت میں احیائی کام کرنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ پچھلی صدی میں جتنی بھی انقلابی تحریکات اٹھی ہیں‘ دینی ہوں یا لادینی‘ وہ جس نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں‘ وہ ’’سسٹم یا نظام کیا ہے؟‘‘ کے سوال کا کوئی نہ کوئی جواب واضح طور پر اپنے بیان میں یا اپنے تصوّرات میں ایک پوشیدہ مفروضے کے طور پر رکھتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انہی بیانات یا مفروضوں پر آج بھی معاملات اور تگ و تاز جا ری ہےجبکہ سسٹم کے تقلبات پر چنداں توجہ نہیں دی گئی۔حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کا شوق تو آپ سے کچھ تقاضا نہیں کرتا لیکن انقلاب کا ذوق ندرتِ فکر و عمل کا طالب ضرور ہے۔ ہان جدید ڈیجیٹل ماحول میں زیست کرنے والوں کو homo digitalis قرار دیتا ہے۔ ہر سسٹم اپنے devotional objects پیدا کرتا ہے ۔ ڈیجیٹل عہد کا یہ معروض’ ’سمارٹ فون‘‘ ہے جس نے فرد کو اندر باہر ہر دو طرح سے بدل دیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سمارٹ فون کی سکرین پر ہر وقت مادیت اور نفس پرستی پر مبنی تصاویر اور شیطانی کلچر کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ مادہ پرستی اور فحش مظاہر و مناظر لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان مناظر سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں اور ہماری عائلی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جو اپنی تشکیلی ساخت میں  متعدد عناصر و عوامل کا ماحصل اور مرہونِ منت ہے۔ کچھ عوامل و عناصر تاریخی ہیں اور ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ کچھ عناصر کو ظہور پزیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔تاریخی عناصر میں روم و یونان کا کردار‘ قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے باطل عقائد اور پُرتشدد عمل‘ احیائے علوم‘ روشن خیالی‘ عقلیت اور اصلاحِ مذہب کی تحاریک‘ سائنسی انڈسٹریل انقلاب‘ انقلابِ فرانس وغیرہ ہیں جو تمام جغرافیائی طور پر یورپ مرکز ہیں۔ ان تمام عناصر کے مجموعی نتائج کو ہم بعنوان ’’جدیدیت‘‘ معنون کرتے ہیں جس کی علمیت‘ مابعد الطبیعیات اور اقدارِ ماضی کی اکثر روایتوں سے نسبت ِتضاد رکھتی ہیں۔اسی کے نتیجے میں ایک جدید انسان نے جنم لیا جو اپنے تئیں خود آگاہ مگر حقیقتاً خودو خدافراموش‘ خود مختار و خود مکتفی اور ماضی سے قطعی مختلف شعورِخویش کا حامل تھا۔ آفاق کا حس کی شرط اور اساس پر جبکہ انفس کا جبلت کی بنا پر ادراک کرتا تھا۔ اس جدید انسان اور اس کے نظریات و تصورات کی یورپ سے ہمارے ہاں برآمد بذریعہ استعمار(colonialism)ہوئی۔
عہد ِحاضر کی تشکیلی ساخت میں وہ عناصر جو چند دہائیوں سے معرضِ وجود میںآئے ہیں وہ انفارمیشن و ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز‘ سائبر سپیس اور اب مصنوعی ذہانت (AI) ہیں۔ ان کی آمد اپنے اثرات میں سب سےوسیع اور نفوذ و تاثیر میں بہت گہرا واقعہ ہے۔ یہ جدیدیت کا سب سے جدید مظہر ہے۔ جدیدیت نے جس طاقت اور معیشت کے نظام کو جنم دیا تھا اس کو سائبر سپیس کی صورت میں گھر میسر آ گیا ہے ۔ علم اور تعلق کا مطلب اور درو بست تبدیل ہو گیا ہے۔ جدید معاشروں میں دینی اور روایتی زندگی کے اگر کوئی امکانات تھے تووہ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی علوم‘ تعلقات‘ تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں اعلیٰ و ادنیٰ‘ بلندی وپستی‘ معیاری و غیر معیاری ‘ اخلاقی و غیر اخلاقی کی تقسیم کو محفوظ رکھنے والے خطوط و معیارات اب دھندلاتے جا رہے ہیں۔ اس کو بعض فلسفی مابعد جدیدیت قرار دیتے ہیں‘لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ جدیدیت ہی کا تسلسل اور اس کے منطقی اور انتہائی نتائج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی مسلسل تغیر پذیر صورت حال ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں اور ایک جال ہے جس کا ہم شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حاضر و موجود صورت حال کی معرفت اور جدیدیت کے کچھ نسبتاً تازہ مظاہر کو بنائے تفہیم و تجزیہ قرار دیے بغیر حالات کی درست تفہیم اور صائب نظاماتی تجزیہ (systemic analysis) ممکن ہے؟ المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کی ایک نسبتاً پرانی تفہیم پر کلی نظاماتی تحلیل و تجزیہ کی بنا استوار کی جاتی ہے۔ نظام کی سطح پر تبدیلی کو انقلاب قرار دینا ایک خاص تاریخی صورت حال کا نتیجہ ہے اور تاریخی مؤثرات کی کارفرمائی اس میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ بجائے انقلاب اور تبدیلی کے ان تصورات‘ جو اپنا ایک خاص تاریخی سیاق و سباق رکھتے ہیں‘کا استناد مذہبی متون میں تلاش کیا جائے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنے عہد میں ہونے والے تغیرات سے متعلق رکھا جائے۔ سسٹم کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں‘ انسانی نفس پر ہونے والی تاثیرات او ر طاقت و معیشت کے تصوّرات میں ہونے والے تحولات کا ادراک کیا جائے اور ایسا زندہ تناظر دریافت کیا جائے جو حاضرو موجود اسلوبِ حیات سے متعلق ہو۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو باطل کی نئی صورتوں اورہیئتوں کو زیر بحث لایا جائے۔ یہ راقم کے خیال میں ایک طرح کی وہ گہری جہاں بینی ہے جسے علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں نمایاں کیا ہے : ؎
جہاں بانی سے ہے دشوارتر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
پچھلے صفحات میں کورین نژاد جرمن فلسفی بیان چل ہان کا ذکر نظاماتی تبدیلیوں اور انسانی صورت حال میں واقع تغیرات کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ‘مفصل وضاحت اور تحریکات کے لیے اس کی اہمیت قرآن اکیڈمی (مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور) کے ذکی الحس‘ بیدار شعور اور نکتہ سنج نوجوان سکالر مکرم محمود نے اپنے ایک مفصل مضمون’’نظاماتی تفہیم اور ہمہ گیر تحول کا مسئلہ‘‘ (دیکھیے ’حکمت ِقرآن‘ شمارہ جولائی- ستمبر ۲۰۲۲ء (صفحات ۵۱ - ۶۵)۔ ان کی متعدد نگارشات ماہ نامہ’ ’البرہان‘‘ اور ’’حکمت قرآن‘‘ میں چھپنے والی بھی بہت وقیع اور لائق مطالعہ ہیں۔مندرجہ بالا چند پیراگراف مکرم محمود کے مطالعات سے اخذ و استفادہ پر مبنی ہیں۔) میں بڑی محنت اور ژرف نگاہی کے ساتھ تحریر کی ہے۔ یہ تحریر نہایت فکر انگیز اور معلومات سے پُر ہے۔اس کا مطالعہ داعیانِ حق کے ذہن میں علمی بصیرت اور فکری عمق پیدا کرے گا۔
ہمارے جدیدیت گزیدہ اور مغرب پرست خواتین و حضرات کے علمی و ذہنی افق پر نظر ڈال لیجیے۔ ان میں  کثیر تعداد متداول علوم ---- سائنسی و سماجی علوم ---- پڑھے ہوئے ہیں‘لیکن سماجی علوم وہی جن کی ترتیب و تسوید مغربی ممالک کے دانشوروں نےکی۔ چنانچہ تہذیب و تمدن کے تمام مباحث میں لادینیت والحاد ان کے اذہان کو آلودہ کر گیا۔ وہ نظریات اور ’’گمانوں کے لشکر‘‘ اور محدود فکری پیراڈائم کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور ’’یقین کا ثبات‘‘(’’ساقی نامہ ‘‘ میں علامہ اقبال کے شعر میں مستعمل الفاظ:یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر:گمانوں کے لشکر ‘ یقیں کا ثبات ) انہیں حاصل نہیں ہے۔آزادیٔ فکر اور ہیومن ازم کے افکار سے متاثر ہو کر یہ دانشور حضرات خبط ِعظمت کا شکار ہو گئے ہیں۔ کاش انہوں نے کبھی کچھ وقت اور صلاحیت اپنے دین کے مطالعے میں بھی صرف کی ہوتی‘ تو انہیں معلوم ہوتا کہ مسلمان کی بنیادی شناخت مخلوق‘ عبد اور تابع فرمان وجود ہے جس کے ہر قول ‘ عمل‘ نیت کا آخرت میں حساب لیا جائے گا۔ کتاب اللہ(قرآن کریم) اورسُنّت ِرسولﷺ ہمارے لیے دو انتہائی روشن ہدایت کی قندیلیں ہیں اور ہم ایمان و یقین اور اعمال صالح اور عبودیت کے ساتھ زندگی بسر کر کے آخرت کے دائمی انعام و اکرام سے نوازے جا سکتے ہیں۔
برسرِاقتدار حلقوں کی ترجیحات اور مجبوریوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم داعیانِ اسلام کو بہرحال اپنے حصے کا کام بھرپور انداز میں کرنا ہے اور دورِ جدید کے فتن‘ کفر و الحاد اور تشکیک و ارتیاب کو گہرائی میں سمجھ کر ابطال کرنا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ اور جذبہ اسلامی کے حامل افراد کے لیے قدیم ’’علم الکلام‘‘ کے اصول‘ منہج اور مباحث سے تعارف حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور کلچرل شناخت و قوت جہاں ایک درجے میں مظاہر (وضع قطع‘ لباس وآدابِ مجلس) میں بھی ہے‘ اس کی اصل روح ایک جاندار عقیدے (ایمان بالغیب) میں ہے اور وہ ایسا واضح‘ ثابت اور محکم عقیدہ ہے جس کا اثبات ہمیں قرآن کریم کے ہر صفحے پر ملتا ہے۔ پھر اس کی پشت پر ایک کامل شریعت اور اُسوئہ رسولﷺ ہے جس کا بیان معلوم و متوارث مراجع رکھتا ہے۔ ایمانیات کے اسی بیانیے کو ہمارے سلف صالحین اور اَساطین اُمّت نے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قوتِ اَخذ و تجزیہ سے نوازا تھا‘ نیا بصیرت افروز قالب عطا کر کے تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ہمارا یہی تُراثِ علمی مغربی ڈسکورس کے غلبے اور اذہان کی غلامی اور ماتحتی کے اس دور میں تریاق کا کام کر سکتا ہے۔ داعیوں کی اعلیٰ علمی حیثیت و صلاحیت ہی سیکولر گلوبلائزیشن اور ہمارے ملک میں اس کے پھیلائو اور اثرات کا توڑ کر سکتی ہے۔
معاشرے میں ایمانی حقائق کی سرایت و نفوذ (osmosis)اور رفتہ رفتہ ایک خداشناس تہذیب کی بازیافت مؤسس انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے کتابچے ’’اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ:کرنے کا اصل کام‘‘ میں واضح کیے گئے پروگرام کے تحت اسی وقت ممکن ہےکہ جب ہم بڑے پیمانے پر تشکیک و الحاد کو علمی طور پر counterکر کے حقائق و معارفِ دین سماج کے ذہین افراد تک مؤثر انداز میں منتقل کریں۔ اس کام کی انجام دہی حلقات‘ سلسلہ درس و تدریس یا اکیڈمی اور چھوٹی چھوٹی مجالس (collectives )کی شکل میں بھی ممکن ہے‘ جس میں طلبہ‘ جوئیانِ حق اور تشنگانِ علوم اسلامیہ مستفیض و مستفید ہوں اور اپنے قلوب و اذہان کو ایمان و یقین کے نور سے منور کر رہے ہوں۔ساتھ ہی یہ ایمان و عقیدہ ان کے وجودی احوال میں محقق ہو کر ان کے اخلاق و اعمال کو نہ صرف قرآن و سُنّت کے قالب میں ڈھال دے بلکہ وہ دینی تعلیمات و اقدار کے داعی بھی بن جائیں۔ اس طرح وہ تہذیب اور معاشرے کی سطح پر حقیقی اور دیرپا اسلامی تبدیلی کا باعث بنیں۔
اللّٰھم ارنا الحق حقًّا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلًا وارزقنا اجتنابہ