(حرفِ اوّل) علم و یقین سے محرومی کے عواقب و اثرات - ڈاکٹر ابصار احمد

9 /

علم و یقین سے محرومی کے عواقب و اثرات

 ڈاکٹر ابصار احمد

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عالم اسلام اور پاکستان میں ایک نظریاتی وقائع نگار کی دلچسپی کے بہت سے واقعات ظہور پذیر ہوئے جن میں سے کچھ انتہائی تکلیف دہ اور اندوہناک جبکہ چند دوسرے بظاہر مثبت اور خوش آئند نظرآتے ہیں۔ دلخراش سانحہ سیالکوٹ کی تفصیلات کا بیان تحصیل حاصل ہے۔ اخبارات کی مفصل خبروں اور کالموں میں اس پر شدید مذمّت کا اظہار کیا گیا ہے جس میں بظاہر توہین رسالت کے نام پر ایک غیر مسلم غیر پاکستانی کو ہجوم نے بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا اور لاش کو آگ بھی لگا دی۔ صرف کوئی احساسِ انسانیت سے عاری سنگدل ہی اس واقعے پر دل گرفتہ نہ ہوگا۔ تاہم اس حادثہ فاجعہ کو مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کا شاخسانہ قرار دے کر مذمت کرنا کافی نہ ہو گا‘ بلکہ درحقیقت اس کے پس منظر میں بہت سنجیدہ اور گمبھیر مسائل وابستہ ہیں۔ تشدد‘ انتہائی سفاکانہ خون ریزی کے اسباب اور بالخصوص ہجوم (mob) کی نفسیات کو سمجھے بغیر اس طرح کے غیر انسانی جرائم کے اسباب اور تدارک کے بارے میں کوئی مثبت حکمت عملی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ راقم کےمطالعے میں اس وقوعہ سے متعلق ایسی کوئی خبرنظرسے نہیں گزری کہ فیکٹری کے مالکان یا ڈائریکٹرز میں سے ذمہ دار لوگوں نے پریانتھاکماراکے غیر مسلم ہونے اور سینئر مینیجر کی حیثیت سے ورک فورس کی ڈیوٹی اور فیکٹری کی عمومی صفائی اور خاص طو رپر مختلف اشتہارات یا بل بورڈز کے بارے میں سخت گیر پالیسی اور حساسیت کو کئی سال کی ملازمت کے دوران کیوں نہ بھانپا۔ اور پھر یہ بھی کہ ایک غیر مسلم کے حوالے سے کارکنان فیکٹری کے پریانتھا کمارا کے ساتھ رویے پر ان کی نظر ہونی چاہیے تھی۔ اگر اس میں تلخی اور مخالفت کا عنصر تھا ‘اور یقیناً ایسا ہی تھا ‘تو ظاہر ہے کہ اس کا پُرتشدد اظہار اچانک نہیں‘بلکہ لوگوں کی شکایات رفتہ رفتہ بڑھی ہوں گی اور اس میں تعداد کے اعتبار سے کثیر ورکرز کی شمولیت ہوئی ہو گی‘ جو غیظ و غضب اور احتجاج سے برانگیختہ ہو کر چند لوگوں کے نعروں اور ہاہاکار سے ایک جم غفیر کی شکل اختیار کر کے شائستگی اور اخلاق کی تمام حدود پارکر گیااور ایک جان کو تلف کرنے پر اتر آیا جس کی حرمت کے بارے میں تاکید انہوں نے بارہا مساجد کے علماء سے سنی ہو گی۔
توہین ِرسالت اور شتم خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفیٰﷺ کا فیکٹر اس میں البتہ ایک دینی وفقہی مسئلہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض مذہبی عناصر جذباتیت کو ہر ایسے ایشو میں ہوا دیتے ہیں جبکہ خالصتاً فقہی اعتبار سے یہ انتہائی سنجیدگی ‘ بردباری اور فقہاء و جمہور علماء شریعت کی آراء سے آگاہی کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمارے دوست اور کرم فرما ڈاکٹر محمد امین صاحب (مدیر ماہنامہ ’البرہان‘) نے اس مسئلے کے تمام پہلوئوں کی تنقیح کر کے چند روز بعد ہی فیس بک وال پر مفصل پوسٹ لگا دی‘ جو ہر اعتبار سے جامع اور اہل سُنّت کے اجماعی موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ وہ توہین رسالت کے ضمن میں کمزور موقف رکھنے والے مغرب زدہ علماء کو اللہ کے خوف کی تلقین کرتے ہیں ۔ اور بجا طور پر شاکی ہیں کہ ایک نام نہا د اسلام پسند صدر نے نفاذِ اسلام کے نام پر ۱۹۷۹ء میں حدود (قوانین) کو آئینی و قانونی ڈھانچے کا حصّہ تو بنا دیا لیکن عملاً حالت یہ ہے کہ پچھلے ۴۲ سال میں ایک بھی حد نافذ نہیں ہوئی۔ انہوںنے اس میں پاکستان کے مقتدر طبقات اور دینی جماعتوں دونوں کی مداہنت اور منافقت کو تفصیل سے بیان کر کے آخر میں یہ نتیجہ واضح کیا ہے کہ مغرب کی الحادی تہذیب کے علم بردار بیرونی ممالک کے دبائو کی وجہ سے مسلمان ملکوں میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ بعض جدید علمائے اسلام ‘ائمہ سلف‘محدثین اور فقہاء کی تصریحات پر مبنی شاتم رسول کی حد کو ہی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ’پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی۔ اسباب و علاج‘ کے موضوع پر جاوید احمد غامدی صاحب کی حالیہ تقریر (جو وزیراعظم جناب عمران خان نے اپنے انسٹا گرام میں شیئر کی ہے) پربہت مدلل نقد و تبصرہ کیا ہے اور اسے انتہائی غلط قرار دیا ہے۔ یہ قیمتی مضمون فیس بک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ ویسے یہ دونوں تحریریں’البرہان‘ کے جنوری ۲۰۲۲ءکے شمارے میں بھی شائع کر دی گئی ہیں۔راقم قارئین حکمت قرآن سے عرض گزار ہے کہ وہ ان تحریروں کا مطالعہ کر کے توہین رسالت کے ضمن میں مضبوط ترین پوزیشن اور فقہی معلومات میں اضافہ کریں۔ مجھے اس موقع پر حارث المحاسبیؒ کے ’رسالۃ المسترشدین‘میں پڑھا ہوا حضرت عمرؓکا ایک اثر یاد آ رہا ہے :’’ لا خیر فی قوم لیسوا بناصحین ولا خیر فی قوم لا یحبون الناصحین‘‘( اس قوم میں کوئی خیر و خوبی نہیں جس میں نصیحت کرنے والے نہ ہوں اور وہ قوم بھی خیر و خوبی سے تہی دست ہے جو ناصحین سے محبّت نہ کرے)۔واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد امین انتہائی حساس اور پیچیدہ قومی و ملّی معاملات میں فقہی بحث و تمحیص اور تنقیح کر کے عامۃ المسلمین کے لیے دینی نصیحت و خیر خواہی کا حق ادا کر رہے ہیں اور ہمیں ان کے لیے محبّت اور عزّت و احترام کے جذبات رکھنے چاہئیں۔
اسی context میں جناب ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے ایک نجی ٹی وی پروگرام کی گفتگو میںجو باتیں کیں وہ بھی ازحد فکر انگیز اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ ان کے مذکورہ نکات میں درج ذیل پانچ حکومتی سطح پر ایک مکمل پالیسی اور جامع حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔
(i) ہجوم اُس وقت تشدد پر اُترتا ہے‘ جب قانون پر عمل درآمد کرنے والے ذمہ داران ناکام رہتے ہیں یا سرے سے کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
(ii) مذہبی طبقہ لوگوں کو انسانی حقوق کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے بارے میں بتائے اور وعظ و تلقین کا حق ادا کرے۔
(iii) توہین رسالت ﷺ کے حقیقی مجرم کو سزا دینا افراد کا کام نہیں‘ حکومت کا کام ہے۔
(iv) وفاقی شرعی عدالت میں ’توہین رسالتﷺ‘ کے جائز اور بروقت فیصلے کے لیے قانونی‘ شرعی اور فقہی بصیرت رکھنے والے علماء کو ذمہ داریاں تفویض ہوں۔
(v) توہین رسالت ﷺ کیس کا فیصلہ ایک ماہ میں ہونا چاہیے۔
(vi) توہین رسالتﷺ کا الزام غلط ثابت ہونے پر جھوٹا الزام لگانے والے کو سخت سزا دی جائے۔
راقم کی رائے میں شاتم رسولﷺ کے کیس عدالتوں پر باہر کے اور خود اندرونی دبائو کے سبب سے نہ صرف انتہائی تاخیر اور قانونی موشگافیوں کی نذر ہوتے رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے دینی حمیت اور دلوں میں نبی اکرمﷺ کی سچی محبّت رکھنے والے دین دار لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ ہماری عدالتیں کچھ نہیں کرتیں۔ چنانچہ وہ اپنے طور پر اقدام کرنے کا جواز نکال لیتے ہیں۔اللھم اھدنا الصراط المستقیم‘ آمین!
سعودی عرب میں کرائون پرنس حقیقتاً کلی اختیارات کے مالک حکمران محمد بن سلمان کی مغرب زدگی اور ویسٹرنائزیشن کی پالیسی روز افزوں ہے۔ جدہ میں بہت بڑا اور طویل فلم فیسٹیول اور ریاض میں میوزک کنسرٹ جس میںہزاروں کی تعداد میں خواتین و مرد حضرات نے مہنگے ٹکٹ خرید کر یہ پروگرام دیکھے‘ اس بات کے ثبوت ہیں کہ اب سعودی عرب دجالی تہذیب کے گلوبل اثرات سے پورے طو رپر مغلوب اور وہاں کا حکمران طبقہ مغربی (امریکی) اور صہیونی ریشہ دوانیوں کے شکنجے میںپوری طر ح آ چکا ہے ۔ولی عہد محمد بن سلمان کا اسرائیل کے جوار میں ایک بہت بڑے شہر (نیوم) کی تعمیر اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین آرائش و تزئین بھی ایک بڑا اور نازک سوال سامنے لاتے ہیں کہ ان ارب ہا ارب ڈالرز کی دولت کو اُمّت ِمسلمہ کی بہبود و خوشحالی کی بجائے ہر قسم کی اخلاقی و دینی حدود سے بالاتر عشرت کدوں کو سجانے میں کیوں صرف کیا گیا؟
سعودی حکمران اپنے آپ کو ’خادم الحرمین‘ کہلوانے کا شرف رکھتے ہیں۔ اس حیثیت میں پوری مملکت کو شرک و کفر اور بدعات کی ہر آلائش سے پاک کر کے انہیں توحید و ہدایت کا مرکز بنانا اور یہاں اللہ ربّ العزت کے آئین (قانونِ شریعت) کو بالادست اور غالب قانون کی حیثیت سے منوانا‘ ظلم و تعدی کے ضابطوں کا قلع قمع کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے‘ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ ریاض اور جدہ کے مخلوط ڈانس اور میوزک پروگراموں میں شرکت کرنے والے نوجوان مرد و عورت نے سرمستی کے عالم میں جس طرح غیر ملکی پرفارمرز کو نہ صرف والہانہ سراہا بلکہ ساتھ ہی وہ قومی جھنڈے بھی جوش و خروش سے لہرائے جس پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی شرم ناک اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والے افعال ہیں جو مغرب زدگی اور اباحیت کے پرستار شہزادوںکی سرپرستی میں وہاں ہوئے ہیں۔ دوسری جانب دین اسلام سے بے وفائی اورپسپائی کاایک اور مظہر یہ ہے کہ وہاں سرکاری سطح پر تبلیغی جماعت جیسی بے ضرر اور غیر سیاسی جماعت کے دعوتی کام پر پابندی لگا دی گئی ہے اور مملکت اور مساجد میں ان کا داخلہ غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ حجازِ مقدّس وہ جگہ تھی جہاں پوری دنیا سے ملّت ِاسلامیہ اپنے قلوب کو منور کرنے اور ایمانی حرارت اندوزی کے لیے آتے تھے‘ لیکن وہاں کے حکمرانوں نے اس کا کیا حشر کر دیا اور حلیہ بگاڑ دیا کہ اب ہر طرف شیطان اور اس کے حواری فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔نیز حرمین شریفین میں عبادات پر تحدید وقت اور دوسری طرح طرح کی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔’الدین النصیحۃ‘ پر عمل کرتے ہوئے جن جری سعودی خطباء حضرات نے بھی چند الفاظ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کے ضمن میں کہے تو انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنا کر پس ِزنداں ڈال دیا گیا۔ اور کچھ معروف علماء تو عرصے سے قید و بند کی آزمائش اور تعذیب کا شکار ہیں۔
مثبت اور خوش آئند واقعات میں وطن عزیز میں وزیراعظم جناب عمران خان کا قومی رحمۃ للعالمین اتھارٹی کو قائم کرنا ہے جس کا قیام ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔ اس اتھارٹی میں کچھ سکالر اور علماء پاکستان سے باہر کے ہیں اور کچھ مقامی۔ راقم کے اندازے کے مطابق اس اسلامی جہت میں پیش رفت کےاصل محرک اور آئیڈیالاگ ڈاکٹر اعجاز اکرم ہیں جو امریکہ میں تعلیم کے حوالے سے مذاہب‘ عمرانی علوم اور انٹرنیشنل پالیٹکس پر بہت گہری علمی نظر رکھتے ہیں اور ساتھ ہی مغرب کے تہذیب و تمدن اور فکریات میںجدیدیت کے انتہائی منفی اثرات کے بھی قائل ہیں۔ پندرہ سولہ سال لاہور کے معروف ایلیٹ تعلیمی ادارے LUMSمیں پڑھانے کے بعد قطر اور پھر اب کچھ عرصے سے چین کی ایک یونیورسٹی میں گلوبل پولیٹکس اور دوسرے مضامین کی تدریس کر رہے ہیں۔ عمران خان سے ان کا رابطہ خصوصی الٰہی سکیم کے تحت ہی ہوا ہے۔ کیونکہ وہ پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور تمدنی زوال اور اس کے تدارک کے ضمن میں جو لائحہ عمل پیش کرتے ہیں وہ خاصا ریڈیکل اور غیر معمولی طور پر انقلابی ہے۔ اس کی تفصیلات اور اس پر ہمارے جمہوریت پسند‘ لبرل اور سیکولر حضرات کی تنقید انگریزی اخبارات (بالخصوص روزنامہ ڈان) میں شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر اعجاز اکرم کے تجزیے کے مطابق عالمی سطح پر ایک مکمل تبدیلی (global reset) ہونے جارہی ہے ‘ اور اگر ہم اس گلوبل تبدیلی سے پہلے پہلے اپنے گھر کو نہیں سنبھالتے تو ہمیں بہت خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کا مبسوط مقالہ بہت پُرمغز‘ پُراز معلومات اور بصیرت افروز ہے۔ انہیں پاکستان کے جدیدیت پسند اور سیکولر سوچ کے حامل تعلیم یافتہ لوگوں پر ترس آتا ہے کہ وہ ان تجاویز کو زیرغور لانے پر تیار نہیں جو آسمانی (الوہی) قوانین ‘ روایتی سیاسی و ثقافتی حکمت‘ جدید ریاستی نظام اور آفاقی اصولِ انصاف پر مبنی ہیں۔ انہوں نے نیٹ پر موجود اپنے مفصل مضمون میں کھل کر بحیثیت قوم اور ریاست اپنے ’’قبلہ‘‘کو درست کرنے اور اسلام‘ اسلامی تعلیمات اور روحانی اقدار کی طرف عزم و استقلال کے ساتھ واپس آنے کی پُرزور دعوت دی ہے۔ ڈاکٹر اعجاز اکرم کے ان خیالات سے انسپریشن لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی تقاریر اور بیانات میں اسلام‘سیرتِ رسولﷺ‘ روحانی اقدار اور اخلاق و معاملات میں قرآن و سُنّت ِرسولؐ کی پیروی کی طرف پکار میں ازحد تیزی اور دلسوزی پیدا ہو گئی۔ وہ قبل ازیں کرپشن اور جنسی جرائم میں اضافے کے خلاف تو آواز اٹھا ہی رہے تھے لیکن اب آگے بڑھ کر تمام اخلاقی برائیوں اور ملک و ملّت دشمن رویوں کے علاج کے لیے انہوں نے بالخصوص نوجوانوں میں دینی و اخلاقی شعور و آگہی اور سیرت رسولﷺ سے راہنمائی میں کردار سازی کا عندیہ بھی زور شور سے دیا ہے۔
وزیراعظم ایک طرف دین کی طرف پیش قدمی کے اپنے یہ عزائم بار بار بیان کرتے ہیں اور انہیں عصرحاضر میں ریاست مدینہ کی بازیافت کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت سے اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دوسری جانب ایک سرکاری ترجمان اور سینئر وفاقی وزیر انتہائی بودا فلسفہ جھاڑتے ہوئے بیان دیتے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا نہیںچاہتے تھے‘انہوں نے توبس مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنایا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ استخلاصِ وطن اور تحریک پاکستان سےواقفیت رکھنے والا کوئی عام شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا‘ کیونکہ اس موضوع پر مخلص اور معروضی نقطہ نظر رکھنے والے اصحابِ علم نے اتنا کچھ لکھاہے کہ اس کا انکار صرف کوئی انتہائی غبی اور متعصب شخص ہی کر سکتا ہے۔ کیا وزیرموصوف اپنے لیڈر کو یہ نقطہ نظر سمجھا سکیں گے جو پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ صرف عقل و فہم سے عاری شخص ہی یہ گمان کر سکتا ہے کہ ریاست مدینہ کسی سیکولر ریاست کا نام تھا۔ یہ تو خدائے واحد کی حاکمیت‘ ربّانی تنزیل اور شریعت کی بنیاد پر قائم ریاست تھی۔ عمران خان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسروں سے پہلے کم از کم اپنی ٹیم کے افراد میں تو فکری ہم آہنگی اور دین و مذہب کے لیے وہ تڑپ پیدا کریں جو وہ خود رکھتے ہیں۔
جہلم کے نزدیک سوہاوہ میں وزیراعظم نے القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد سال ڈیڑھ سال قبل رکھا تھا۔ اس یونیورسٹی کے مقاصد میں تصوّف‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور تہذیب و تمدن کے مطالعات شامل ہیں۔LUMS کے ایک سابق پروفیسر ڈاکٹر ذیشان اس کے وائس چانسلر تعینات کیے گئے ہیں ‘ جو دینی ذوق کے ساتھ ساتھ ظاہراً بھی متشرع ہیں۔ اس میں تعمیرات ابھی جاری ہیں ‘لیکن ایک اکیڈمک بلاک کی تعمیر مکمل ہونے اور سو کے لگ بھگ طلبہ و طالبات کے داخلے اور تدریس کے آغاز کے بعد ایک پروگرام وہاں رکھا گیا جس میں امریکہ میں پاکستانی نژاد سکالر ڈاکٹر یاسر قاضی جو نیشنل رحمۃ للعالمین اتھارٹی کے نامزد ممبر بھی ہیں‘ خاص طور پر بلائے گئے۔ دِقت نظر سے دیکھا جائے تو جہاں اس اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز اکرم اپنے محولہ بالا مضمون میں جامعات اور دانش گاہوں میں پائی جانے والی علمیاتی ڈسکورس کی بے ترتیبی یا بحران و تشکیک کا علاج روایتی (traditional) اسلام کے مقدّسات اور مسلمات کے حوالے سے کرنا چاہتے ہیں‘ ڈاکٹر یاسر قاضی امریکہ میں اب ریفارمسٹ اسلام کے داعی ہیں اور مغرب میں پائی جانے والی ملحدانہ تہذیب و فکر کے دبائو سے متاثر ہو کر بہت سے ایشوز میں لبرل مسلم خواتین و حضرات سے compromiseکرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔[امریکہ ہی میں پیدا ہونے والے اور ہارورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ دانیال حقیقت جو (Daniel Haqiqatjou) کی ویب سائٹMuslimskeptic.comپر پائی جانے والی متعدد ویڈیوز میں دانیال نے اگرچہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے شیخ ڈاکٹر یاسر قاضی سے دین کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ لیکن اب یاسر قاضی مغربی تہذیب و کلچر کی بہت سی خرابیوں(فیمنزم‘ LGBT‘ لبرل اسلام وغیرہ) میں متفق علیہ عقائد سے بہت انحراف کر چکے ہیں۔] سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی کے پروگرام میں وائس چانسلر اور خود وزیراعظم نے بھی انہیں خصوصی اہمیت دی۔ بعد ازاں بہت مختصر وقت میں انہوں نے لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور LUMS میں بھی خطابات کیے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی چونکہ سوہاوہ کے پروگرام میں بھی مدعو تھے‘ اس لیے غالباً وہ ڈاکٹر یاسر قاضی سے لاہور میں اپنی یونیورسٹی میں خطاب کے لیے وقت لینے میں کامیاب ہو گئے۔ بخاری آڈیٹوریم میں ان کا خطاب سورۃ الکوثر کے مضامین پر خاصا ایمان افروز تھا‘ لیکن ان کی دینی فکر کا جدید ٹرینڈ لمز کے مختصر خطاب میں کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کا موضوع ہی ان کی جدید فکری نہج کا پتا دیتا ہے :

Islam for Today : Between Liberal Reform and Fundamentalist Conservatism
امریکہ ہی سے نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کے لیے نامزد ممبر ڈاکٹر حمزہ یوسف کی طرح یاسر قاضی بھی سورئہ آل عمران کی آیت۶۳ :
{قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍۢ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۶۳)}
’’(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہےکہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریںاور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیںاور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ ٹھہرائے۔پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو (اے مسلمانو!) تم کہو آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں۔‘‘
کا حوالہ دیتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چونکہ توحید کے دعوے دار اور مطالب ایک سے زیادہ پائے جاتے ہیں اس لیے ہمیں توحید کا صرف وہ تصور مقصود ہے جو رسول اللہﷺ کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ علماء ِ عقیدہ نے ایمان اور کفر کی بنیاد توحید پر نہیں رکھی‘ بلکہ اس پر کہ رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی ہربات کو ماننا‘یعنی جو تصوّرِ توحید رسول اللہ ﷺکے واسطے سے پہنچا ہے۔ لہٰذا ایمان کی تعریف کی گئی : تصدیق الرسولﷺ فی کل ما جاء بہ من الدین ضرورتًا۔ یعنی اللہ کے نبیﷺ کی تصدیق کرنا اور اُس کی جو بھی آپؐ لے کر آئے ہیں دین میں سے‘ اس میں توحید بھی ہے۔ اور اسی طریقے پر کفر ہے : تکذیب الرسولﷺ ‘ جو شے رسول ﷺ لے کر آئے ہیں ‘ جوآپ سے لانا تواتر اور ضرورتاً ثابت ہے ‘ اس کی تکذیب کرنا کفر ہے۔ ڈاکٹر یاسر قاضی نے مدینہ یونیورسٹی میں آٹھ دس سال کی طویل اور محنت طلب علوم الدین کی تعلیم حاصل کی ہے اور بعد ازاں امریکہ کی Yale یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ہے‘جس کے زیراثر وہ مسلّمہ روایتی اسلام اور فقہی موقف سے خاصےہٹ گئے ہیں۔مزیدبرآں مغربی دنیا کے تہذیبی مؤثرات ہی کچھ ایسے ہیں کہ وہ جدید اکیڈیمیا میں پائی جانے والی فکر اور منہج کے سحر میں آ گئے ہیں۔ چنانچہ کلام اللہ کی تفہیم کے لیے وہ جدید طرزِ فکر hermeneuticsکو استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے تحت اب ان کے ہاں مخلوطیت(syncretism) اور تکثیریت(pluralism) کے حق میں رجحان نظر آتا ہے۔ اور اس طرح وہ مغربی دنیا کے انتہائی متجدد اور لبرل خواتین و حضرات کی تائید و تصویب کر رہے ہیں۔
اسی دوران جناب وزیر اعظم نے لاہور آ کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شیخ ابوالحسن الشاذلی ریسرچ سینٹر کا افتتاح کیا اور اس کی تعمیر کے لیے ایک خطیر رقم مختص کرنے کا اعلان کیا۔ یہ سینٹر بھی تصوّف‘ سائنس اور ٹیکنالوجی اور معاشرے پر ان کے اثرات پر ریسرچ اور مطالعات کے لیے قائم کیا جا رہا ہے۔ یہ سینٹر مقامی اور انٹرنیشنل سکالرز کے لیے درس و تدریس اور تحقیق کے مواقع فراہم کرے گا۔ اس کے مقاصد میں بین المذاہب ہم آہنگی اور سماج کی اخلاقی و روحانی تربیت و افزائش ہے۔ پھر ابھی ایک ہفتہ قبل عمران خان نے معروف عالمی دانشوروں اور اصحابِ فکر و نظر کے سامنے ملّت ِاسلامیہ اور بالخصوص نوجوان نسل میں اخلاقی بے راہ روی‘ بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور کرپشن کے تدارک کے لیے تجاویز مانگیں اور یہ کہ وہ کس طرح قرنِ اوّل سے راہنمائی لے کر پاکستان میں ریاست ِمدینہ کو replicateکر سکتے ہیں۔ یہ پروگرام مکالمے کی شکل میں بزبان انگریزی ہوا۔ اس سے ایک مثبت فائدہ یقیناً یہ ہو گا کہ عالم اسلام اور خاص طو رپر پاکستان کے انگلش میڈیم میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اسلامی سکالرز کے ساتھ ایک طرح کا ذہنیdisconnectختم ہو گا اور ان میں سنجیدگی سے اسلامی معارف و اقدار کے بارے میں اپنا علم بڑھانے کا شوق پیدا ہو گا۔دعا ہے کہ وزیر اعظم (جنہوںنے اس قسم کے ڈائیلاگ معروف عالمی دانشوروں اور اصحاب علم و فضل سے گاہے گاہے جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے) عالم اسلام کے نوجوانوں اور اکیڈمک کمیونٹی کو اسلام کی حقانیت اور کردار سازی کے حوالے سے re-engageکرنے میں کامیاب ہوں۔
وزیراعظم عمران خان کے ذہن میں دفعتاً روحانیت اور تصوّف کے تصوّرات اور قوم کے اخلاقی کردار میں بہتری کے لیے اس کی ا ہمیت کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ وہی تصوّف ہے جسے بانی تنظیم اسلامی اور مؤسس انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ حدیث جبریلؑ کی روشنی میں ’’احسانِ اسلام‘‘ کہتے ہیں اور جو کاملتاً قرآن و سُنّت اور احادیث نبویہ پر مبنی ہے اور یقیناً مطلوب ہے؟اس میں زہد و ورع اور احوالِ باطنی کے ساتھ دعوت و ارشاد اور غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد لازمی عنصر رہے ہیں‘ جبکہ سلسلہ شاذلیہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان میں اس حلقہ کے مقدّم جناب سہیل عمر ہمارے اسلاف کے ٹھیٹ اسلامی تصوّف کی بجائے پیرنیلزم (perennialism) کو اپنی نگارشات میں پیش کرتے ہیں جس کی مغرب میں زوردار آواز فرتھ جوف شوآن نے اٹھائی تھی‘ جس کے مطابق اسلام ہی سچائی اور حق کا واحد مصدر نہیں ہے بلکہ حق دیگر مذاہب میں بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ مختلف مذاہب ایک عالمگیر سچائی کی الگ الگ تعبیرات ہیں۔ گویا اسلام حق کا واحد دین نہیں ہے‘ بلکہ یہودی اور مسیحی مذاہب بھی درست ہیں کیونکہ وہ حقانیت ہی کی مختلف تشریحات ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز اکرم بھی ان خیالات کی بابت اپنے ذہن میں نرم گوشہ رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ ابراہیمی اور بعض دوسرے مذاہب میں مابعد الطبیعیاتی اور تقدیسی عنصر پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے پرسپکٹو میں خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ پر ایمان لانا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو ماننا اور اس پر عمل لازمی شرط ہے۔ صحیح بخاری میں وارد ایک حدیث کے الفاظ:’’محمدٌ ﷺ فرقٌ بین النّاس‘‘ کے مطابق رسول اللہﷺ پر ایمان لانا اسلام اور کفر کے درمیان فرق و امتیاز کی بنیاد ہے‘ اور آخرت میں نجات کا مدار بھی اسی پر ہے۔ علم و یقین سے محرومی اور سیکولر ایجوکیشن کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے لگ بھگ سو برس پہلے کیا خوب اشعار کہے تھے :  ؎
دانش حاضر حجابِ اکبر است
بُت پرست و بُت فروش و بُت گر است

---------
چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں
علم حاضر سے ہے دین زار و زبوں

حکمت قرآن کے گزشتہ کچھ شماروں سے ’مباحث ِعقیدہ‘ سلسلہ وار قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان سے علم العقیدہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ خاص طو رپر دورِ حاضر میں جو دورِ تشکیک و اضطراب ہے‘ عقائد ِحقّہ کے قطعیت کے ساتھ بیان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ انہی مباحث عقیدہ میں استاذ مؤمن محمود نے اردن کے ایک متکلم سید عبداللطیف فودہ کا تذکرہ کیا ہے جو ماشاء اللہ حیات ہیں اور ٹھوس علمی کام کر رہے ہیں۔ زیرنظر شمارے میں ان صاحب کے تعارف ‘ کچھ مخصوص اقتباسات کے ترجمہ اور علم العقیدہ یا علم الکلام کی دورِ حاضر میں اہمیت و معنویت پر مشتمل ایک تحریر شامل کی جا رہی ہے جو عزیزم مکرم محمود کی کاوش ہے۔
- - - - - - -- - - - - -- - - - -
انگریزی زبان میں مسلم جرنلزم کی تأسیس اور شاندار آبیاری و ترقی کے سلسلے میں ایک اہم شخصیت جناب محمدحاشر فاروقی (پ:جنوری۱۹۳۰ء) لندن میں ۱۱ جنوری ۲۰۲۲ء کو اس دارِ فانی کو خیرباد کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حاشر فاروقی صاحب راقم سے چند برس قبل ۱۹۶۳ءمیں زراعت سے متعلق ایک مضمون (Entomology) میں ڈاکٹریٹ کے لیے انگلستان پہنچے۔ زراعت کی تعلیم انہوں نے کانپور (انڈیا) میں حاصل کی اور بعد ازاں کراچی سے مذکورہ بالا فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لےگئے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چنانچہ وہ ڈاکٹریٹ کو آخری مراحل میں ترک کر کے گلوبل مسلم صحافت کی طرف متوجہ ہوئے اور اچھے کیریئر کی پرواہ کیے بغیر پورے عزم اور دعوتی جذبےکے ساتھ لندن سے مئی ۱۹۷۱ء سے پندرہ روزہ ’’امپیکٹ‘‘ انٹرنیشنل (آغاز میں پندرہ رو زہ اور کچھ عرصہ بعد ماہانہ) کی اشاعت کا آغاز کیا۔ جس میں عالم ِاسلام کے حالات کی رپورٹنگ‘ اہم واقعات پر ازحد متوازن تبصرے اور تعلیم ‘ سماج‘ اقتصادیات اور مختلف خطوں میں سیاسی اُتار چڑھائو پر گہری بصیرت اور تجزیاتی عمق والی تحریریں شائع کیں۔ اس طرح عالمی مسلم اُمہ میں واقعاتی خبروں کے ساتھ ساتھ خرد افرو ز دینی شعور اور اسلامی حمیت و جذبہ کو پروان چڑھایا۔ وہ اس سے قبل U.K کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (FOSIS)کے پرچے کے لیے بھی سیاسی طنز اور اسلامی نقطہ نظر پر مبنی کالم لکھتے رہے جو ایک طرح سے انگریزی زبان میں اسلامی جرنلزم کا آغاز تھا۔ پہلے پہل وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ۱۶صفحات کا سادہ چھپائی والا پرچہ تھا۔کچھ عرصہ مالی بحران کا شکار رہنے کے بعد اچھے دنوں میں یہ بڑے سائز اور رنگین عمدہ کاغذ کے ۵۰ صفحات پر نکلتا رہا‘تاآنکہ ۲۰۰۵ء میں مالی مشکلات کی بنا پر اس کی اشاعت بند کر دی گئی۔ حاشر فاروقی صاحب بے لاگ تجزیہ نگاری‘ اور انگریزی زبان کے الفاظ کے دروبست اور nuances کو پہچانتے ہوئے مختلف واقعات اور اہم سیاسی و ثقافتی تحریروں پر انتہائی فکر انگیز سرخیاں لگاتے جس سے پرچے کی ریڈر شپ کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا۔ انہوں نے کئی حضرات کو امپیکٹ انٹرنیشنل میں معاونت کے دوران ایک اچھے ٹرینر کی حیثیت میں صحافت کے میدان کے لیے تیار کیا۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی ہیں جنہوںنے فاروقی صاحب کے انتقال کے بعد ایک webinarمیں ہوسٹ کا کردار بحسن و خوبی ادا کیا۔ امپیکٹ میں شائع ہونے والی پہلی تحریر First thing Frist کے عنوان سے کراچی کے جناب خالد بیگ لکھتے رہے جو ہر اعتبار سے وقیع اور تزکیہ نفس اور اخلاق کے ضمن میں سبق آموز ہوتی تھیں۔ (امپیکٹ کے کچھ پرچے قرآن اکیڈمی کی لائبریری میں بھی موجود ہیں)
حاشر فاروقی صاحب کی پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ ذہنی و فکری مناسبت او راشتراکِ عمل گزشتہ ساٹھ سال پر محیط رہا۔ چنانچہ وہ لیسٹر میں قائم کردہ اسلامک فائونڈیشن کے ٹرسٹیز میں بھی شامل تھے۔راقم کی حاشر فاروقی صاحب کے ساتھ آخری ملاقات اگست ۱۹۹۴ء میں ہوئی جہاں امریکہ سے واپسی پر برادر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ساتھ چند روز لندن میں قیام کا موقع ملا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا امپیکٹ انٹرنیشنل کے لیے ایک طویل انٹرویو بھی انہوں نے ریکارڈ کیا ۔عالمی اسلامی تحریکات پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی تھی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دین متین کے لیے کی گئی مساعی کو شرفِ قبولیت بخشے اور انہیں بہترین اجر سے نوازیں۔ آمین!

***