(حسن معاشرت) لِعان کا بیان اور اس کا حکم - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

9 /

لِعان کا بیان اور اس کا حکم
پروفیسر حافظ قاسم رضوان

لِعان اور ملاعنت کے معنی ایک دوسرے پر لعنت اور غضب الٰہی کی بددعا کرنے کے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت میں میاں بیوی دونوں کو چند خاص قسمیں دینے (اُٹھانے) کو لِعان کہا جاتا ہے۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے یا اپنے بچے کے بارے کہے کہ یہ میرے نطفے سے نہیں‘ اور وہ عورت جس پر الزام لگایا گیا ہے وہ اس الزام کو جھوٹا کہے اور اس بات کا مطالبہ کرے کہ مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی گئی ہے‘ اس لیے میرے شوہرپر تہمت زنا کی حدّ (حدّ ِ قذف) جاری کی جائے ‘یعنی اسے اسّی کوڑے لگائے جائیں۔ اس صورتِ حال میں شوہر سےمطالبہ کیا جائے گا کہ اپنے الزامِ زنا پر چار عینی گواہ پیش کرے۔ اب اگر اُس نے چار گواہ پیش کر دیے تو عورت پر حدّ ِزنا جاری کی جائےگی‘ اور اگر وہ چار گواہ نہ لا سکا تو زوجین میں لِعان کرا دیا جائے گا۔ لِعان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے شوہر سے کہا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ ان الفاظ سے جو قرآن مجید میں مذکور ہیں‘ یہ شہادت دے کہ مَیں اس الزام میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر مَیںاس معاملے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ۔اگر شوہر یہ تمام الفاظ کہنے سے گریز کرے اور انہیں ادا نہ کرے ‘ تو پھر اس کو قید کر دیاجائے گا اور اُسے کہا جائے گا یا تو اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرو یا مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ پانچ مرتبہ یہ قسمیں کھائو۔ جب تک وہ ان دونوں میں سے کوئی کام نہ کرے‘ اس کو قید رکھا جائے گا ۔ اگر اس نے اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لیا تو اس پر حدّ ِقذف یعنی تہمت زنا کی شرعی سزا جاری ہوگی اور اگر الفاظ ِمذکورہ کے ساتھ اُس نے پانچ مرتبہ قسم کھا لی ‘ تو پھر بیوی سے ان الفاظ سے پانچ مرتبہ قسم لی جائے گی جو قرآن میں عورت کے لیے مذکور ہیں۔ اگر بیوی قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کو اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک کہ وہ یا تو شوہر کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے جرمِ زنا کا اقرار کرے اور اس پر حدِّزنا جاری کر دی جائے‘ یا پھر وہ الفاظِ مذکورہ کے ساتھ پانچ مرتبہ قسم کھائے۔
اگر زوجین قسمیں کھا لیتے ہیں تو اس صورت میں لِعان مکمل ہو گیا اور وہ دونوں دنیا کی سزا (حدّ) سے تو بچ گئے‘جبکہ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ ان دونوں میں سے کون جھوٹا ہے ‘لہٰذا اسے آخرت میں لازماً سزا مل کر رہے گی۔ میاں بیوی کے درمیان جب لِعان ہو گیاتو وہ ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتےہیں اور کبھی بھی ان کا باہمی نکاح نہیںہوسکتا۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کو طلاق دے کر آزاد کر دے اور اگر وہ طلاق نہ دے تو حاکم (قاضی/ جج) ان دونوں میں تفریق کر کے نکاح ختم کر سکتا ہے۔
شریعت ِاسلامی میں لِعان کے قانون کاشوہر کے جذبات و نفسیات کی رعایت کی بنا پر نفاذ ہوا ہے‘ کیونکہ کسی پر الزامِ زنا لگانے کے قانون کی رو سے یہ ضروری ہے کہ الزام لگانے والا چار عینی گواہ پیش کرے اور جو یہ نہ کر سکے تو پھر اس پر تہمت ِزنا کی حدّ جاری کی جائے گی۔ عام آدمی کےلیے تو یہ ممکن ہے کہ جب چار گواہ میسّر نہ ہوں تو وہ الزام لگانے سے باز رہے تاکہ تہمت کی سزا سے بچ سکے۔ لیکن ایک شوہر کے لیے یہ معاملہ بہت سنگین ہے کہ اُس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیااور کوئی عینی گواہ موجود نہیں۔ اب اگر وہ بولے تو تہمت زنا کی سزا پائے اور نہ بولے تو پھر ساری عمر خون کے گھونٹ پیتا رہے۔لہٰذا شوہر کے معاملے کو عموم سے الگ کر کے اس کا مستقل قانون بنا دیا گیا۔ گویا لِعان صرف میاں بیوی کے درمیان ہی ہو سکتا ہے‘ دوسروں کا اس سے تعلق نہیں۔
کتب حدیث میں اس حوالے سے دو واقعے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے آیاتِ لِعان کا شانِ نزول کون سا واقعہ ہے‘ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ امام قرطبی ؒنے آیات کا نزول مکرر مان کر دونوں واقعات کو شانِ نزول قرا ردیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ (شارح صحیح بخاری) اور امام نووی ؒ(شارح صحیح مسلم) نے دونوں میں تطبیق دے کر ایک ہی نزول میںدونوں کو مذکورہ آیات کا شانِ نزول قرار دیا ہے اور ان کی توجیہہ زیادہ واضح ہے۔ ایک واقعہ حضرت ہلال بن اُمیہ ؓاور ان کی بیوی کا ہے ‘جو صحیح بخاری میں بروایت حضرت ابن عباسؓمذکور ہے۔ اس واقعہ کا ابتدائی حصہ ابن عباسؓہی کی روایت سے مسنداحمد میں اس طرح آیا ہے:
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم (سورۃ النور)میں حدّقذف سے متعلقہ آیات نازل ہوئیں تو انہیں سن کر انصارِ مدینہ کے سردار سعد بن عبادہؓنے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ آیات اسی طرح نازل ہوئی ہیں؟رسول اللہﷺ (کو حضرت سعد بن عبادہؓ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر بڑا تعجب ہوا اور آپؐ) نے حضرات انصار کو مخاطب کر کے فرمایا: آپ سن رہے ہو کہ آپ کے سردار کیا بات کہہ رہے ہیں؟لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ ان کو ملامت نہ فرمائیں‘ ان کے اس کلام کی وجہ ان کی شدّتِ غیرت ہے۔ پھر حضرت سعدؓ نے خود عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیات حق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں‘ لیکن مجھے اس بات پرتعجب ہے کہ اگر مَیں بے حیا بیوی کو اس حال میں دیکھوں کہ غیر مَرد اس پر سوار ہے‘ توپھر کیا میرے لیےیہ جائز نہ ہوگا کہ میں اس کی ڈانٹ ڈپٹ کروں اور وہاں سے الگ کر دوں؟ بلکہ میرے لیے تو یہ لازم ہوگا کہ مَیں چار آدمیوں کو لا کر یہ حالت دکھائوں اور اس پر گواہ بنائوں۔ جب تک مَیں گواہوں کو جمع کروں گا وہ مَرد تواپنا کام کر کے بھاگ جائے گا ۔(اس موقع پر حضرت سعدؓ کے مختلف الفاظ منقول ہیں لیکن ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے‘ قرطبی)۔ ‘‘

آیاتِ حدّ قذف نازل ہونے اور حضرت سعد بن عبادہؓکے اس کلام پر تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ حضرت ہلال بن اُمیہ ؓکا واقعہ پیش آیا۔ وہ قدرے رات کو (عشاء کے وقت) اپنی زمین سے واپس ہوئے تو گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک مَرد کو بچشم خود دیکھا اور ان کی باتیں بھی اپنے کانوں سے سنیں ‘مگر (موقع پر) کوئی اقدام نہ کیا‘ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب انہوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ یہ واقعہ سن کر حضورﷺ کا دل آزردہ ہوا اور آپؐ نے اسے بڑا بھاری محسوس کیا۔ ادھر حضرات انصار جمع ہوگئے اور آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ جو بات ہمارے سردار سعدؓ بن عبادہ نے کہی تھی ‘ اسی میں ہم مبتلا ہو گئے۔ اب قانونِ شرعی کے مطابق رسول اللہﷺ ہلالؓ بن اُمیہ کو حدِّقذف اسّی کوڑے لگائیں گے اور لوگوں میںہمیشہ کے لیے ان کی شہادت غیر مقبول (مردود) ٹھہرائی جائے گی۔ مگر ہلالؓ بن اُمیہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس مصیبت سے نکالیں گے۔ صحیح بخاری کی روایت میںیہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے حضرت ہلالؓ کا معاملہ سن کر ان سے قرآنی حکم کے مطابق یہ بھی فرما دیا کہ یا تو اپنے دعویٰ پر بینہ (چار عینی گواہ) لائو‘ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حدّ ِ قذف جاری ہو گی۔ اس پر حضرت ہلال بن اُمیہ نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ مَیں اپنے کلام (دعویٰ) میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے کہ) اللہ تعالیٰ لازماً کوئی ایسا حکم نازل فرمائیں گے کہ جو میری پیٹھ کو حدّ ِقذف کی سزا سے بَری کر دے گا۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ حضرت جبرائیل ؑقانونِ لِعان کی یہ آیات لے کر نازل ہوئے:
{وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍم بِاللّٰہِ لا اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۶) وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ(۷) وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍم بِاللّٰہِ لا اِنَّہٗ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ(۸) وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۹) وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ (۱۰)} (النور)
’’اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر زنا کا الزام لگائیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے سوا اور گواہ نہ ہوںتو ایسے ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ یقیناً سچا ہے۔اور پانچویں بار یہ کہے کہ اس پرا للہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹاہو۔اور اس عورت سے یہ بات سزا کوٹال سکتی ہے کہ وہ چار دفعہ گواہی دے اللہ کی قسم کے ساتھ کہ وہ (اس کا شوہر) یقیناً جھوٹا ہے ۔اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہو۔اور اگر تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا‘ بہت حکمت والا ہے (تو خود سوچ لو کہ تمہارا کیا بنتا!)۔‘‘
ابویعلیٰ نے یہی روایت حضرت انس بن مالکؓسے بھی نقل کی ہے ‘ اس میں یہ بھی ہے کہ جب آیاتِ لِعان نازل ہوئیں تو آنحضرتﷺ نے حضرت ہلال بن اُمیہؓ کو بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مشکل کاحل نازل فرما دیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ اب حضورﷺ نے ہلال بن اُمیہ کی بیوی کو بھی بلوایالیا۔ جب دونوں میاں بیوی جمع ہو گئے تو آپﷺ نے بیوی سے اس معاملے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ میرا شوہر ہلال بن اُمیہ مجھ پر جھوٹاالزام لگاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی ہے جو (اللہ کے عذاب سے ڈر کر) توبہ کرے اور سچّی بات ظاہر کردے؟اس پر ہلال بن اُمیہؓ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ مَیں نے بالکل سچّی بات کہی ہے اور جو کچھ کہا ہے حق کہا ہے۔ تب حضور ِ اَقدسﷺ نے حکم دیاکہ نازل شدہ آیاتِ قرآنی کے مطابق دونوں میاں بیوی سے لِعان کرایا جائے۔ پہلے حضرت ہلالؓ سے کہا گیا کہ تم چار مرتبہ ان الفاظ سےشہادت دو جو کہ قرآن میں مذکور ہیں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مَیں اپنے الزام میں سچا ہوں۔ انہوں نے اس کے مطابق چار مرتبہ اس کی شہادت دی۔ جب پانچویں شہادت کی باری آئی جس کے الفاظِ قرآنی یہ ہیں کہ اگر مَیں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو‘ اُس وقت حضورﷺ نے تاکید کے طور پر ہلال بن اُمیہ ؓسے فرمایا کہ دیکھو ہلال! اللہ سے ڈرو‘ کیونکہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے اور اللہ کاعذاب لوگوں کی دی ہوئی سزا سے کہیں زیادہ سخت ہے ۔اور یہ پانچویں شہادت آخری شہادت ہے اور اسی پر فیصلہ ہونا ہے۔ اس پر ہلال بن اُمیہ ؓنے عرض کیا کہ مَیں قسمیہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس شہادت پر آخرت کا عذاب نہیں دیں گے (کیونکہ یہ بالکل سچّی شہادت ہے) ‘ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺمجھے دنیا میں حدّ ِ قذف کی سزا نہیں دیں گے‘ اور پھر انہوں نے پانچویںشہادت کے الفاظ بھی ادا کر دیے۔
اس کے بعد آپﷺ نے ہلال بن اُمیہ کی بیوی سے بھی اسی طرح کی چار شہادتیں (قسمیں) لیں۔ اس نے بھی ہر دفعہ قرآنی الفاظ کے مطابق یہ شہادت دی کہ میرا خاوند جھوٹا ہے۔ جب پانچویں شہادت کی باری آئی تو حضورﷺ نے فرمایاکہ ذرا ٹھہرو۔پھر اس عورت سے آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ پانچویں شہادت آخری ہے اور اللہ تعالیٰ کا عذاب لوگوں کے عذاب (یعنی زنا کی حدّشرعی) سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ سن کر وہ قسم کھانے سے جھجکنے لگی۔ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہی اور پھر آخر میں کہا : واللہ! مَیں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی‘ اور پانچویں شہادت بھی ان الفاظ کے ساتھ ادا کردی کہ اگر میرا شوہر سچا ہے تو مجھ پر اللہ کاغضب ہو۔ یوں لِعان کی کارروائی مکمل ہو گئی تو رسول اللہﷺ نے ان دونوں میاں بیوی میں تفریق کر دی (نکاح ختم کر دیا) اور یہ فیصلہ فرمایا کہ اس حمل سے جو بچّہ پیدا ہوگا وہ عورت کا بچّہ کہلائے گا‘ اسے باپ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا اور نہ بچے کو مطعون کیا جائے گا (اور نہ ہی اس کی ماں پر تہمت لگائی جائے گی)۔
دوسرا واقعہ بھی صحیحین میں مذکور ہےاور امام بغوی ؒنے بروایت حضرت عبداللہ بن عباس ؓاس طرح نقل فرمایا ہے کہ زنا کی تہمت لگانے والے پر حدّ ِ قذف جاری کرنے کے احکام جب حضورﷺ پر نازل ہوئے تو آپؐ نے (اجتماعِ جمعہ میں) منبر پر کھڑےہو کر یہ آیات لوگوں کو سنائیں۔ مجمع میں حضرت عاصم بن عدی انصاریؓ بھی موجود تھے ۔ وہ یہ سن کر کھڑے ہو گئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ! میری جان آپ پر قربان ہو‘ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو کسی مَرد کے ساتھ ملوث دیکھے ‘تو اگر وہ اپنے آنکھوں دیکھے واقعہ کو بیان کرے تو اس کواسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے اس کی شہادت مردود (ناقابل قبول) ہو جائے گی اور مسلمانوں کے نزدیک وہ فاسق کہلائے گا۔ ایسی حالت میں ہم گواہ کہاں سے لائیں گے ‘ اوراگر گواہوں کی تلاش میں نکلیں گے تو گواہ آنے تک وہ مَرد بھاگ چکا ہوگا ------ یہ وہی سوال تھا جو پہلے واقعہ میں حضرت سعدبن عبادہؓ نے کیا تھا ------ اس کے بعد یوں ہوا کہ حضرت عاصمؓ بن عدی کےچچا زاد بھائی عویمرؓ‘ جس کا نکاح اپنی چچا زاد بہن خولہ سے ہوا تھا‘ نے ایک روز دیکھا کہ اس کی بیوی خولہ اُس کے دوسرے چچازاد شریک بن سحماء کے ساتھ مبتلائے معصیت ہے۔ عویمرؓ نے آکر یہ واقعہ حضرت عاصمؓ بن عدی سے بیان کیا‘ یہ سن کر آپؓ نے اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ اگلے روز جمعہ میں حضرت عاصمؓ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کیا :اے اللہ کے رسولﷺ! پچھلے جمعہ جو سوال مَیں نے آنجنابؐ سے کیا تھا‘ افسوس کہ مَیں خود اس میں مبتلا ہو گیا‘ کیونکہ میرے ہی گھر والوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا ہے۔
امام بغوی ؒنے ان دونوں کو حاضر کرنے اور پھر آپس میں لِعان کرانے کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ صحیحین کے مطابق اس کا خلاصہ حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ کی روایت میں یوں مذکور ہے کہ عویمر عجلانیؓ نے حضور ﷺسے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مَرد کوملوث دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس کے نتیجے میں لوگ اسے قتل کر دیں گے۔ پھر وہ کیا کرے؟نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تمہار ے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں حکم نازل فرما دیا ہے‘ جائو بیوی کو لے کر آئو۔حضرت سہلؓ بن سعد (راوی) کہتے ہیں کہ ان دونوں کو بلا کر حضورﷺ نے مسجد کے اندر (شرعی طریقےسے) لِعان کرایا۔ جب دونوں طرف سے پانچوں شہادتیں پوری ہو کر لِعان (کا عمل) مکمل ہوا تو عویمر عجلانیؓ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اگر اب مَیں اس کو بیوی بنا کر رکھوں تو گویا مَیں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے‘ اس لیے مَیں اسے تین طلاق دیتا ہوں۔
چند اہم مسائل
لِعان کے حوالے سے چند اہم مسائل ملاحظہ ہوں:
مسئلہ۱: جب میاں بیوی کے درمیان حاکم (قاضی) کے سامنے لِعان مکمل ہو جائے‘ تو عورت اپنے مَرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے‘جیسے کہ حرمت رضاعت ابدی ہوتی ہے۔ ارشاد ِنبویﷺ ہے: ((الـمُتَلاعِنَانِ لَا یَجْتَمِعَانِ ابدًا))(سنن ابی داوٗد)’’لِعان کرنے والے میاں بیوی دوبارہ کبھی (نکاح میں) جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘ حرمت تو لِعان کا عمل مکمل ہوتے ہی ثابت ہوجاتی ہے‘ لیکن عورت کا کسی دوسرے شخص سے عد ت کے بعد نکاح کرنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک تب جائز ہوگا جب کہ مَردلِعان کے بعد طلاق دے دے یا زبان سے کہہ دے کہ مَیں نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔اگر مَرد ایسا نہ کرے تو حاکم (قاضی) ان دونوں میں تفریق کا حکم دے گا اور اس سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔ پھرعدتِ طلاق (تین حیض) پورے ہونے پر عورت آزاد ہو گی اور کسی بھی دوسرے شخص سے اس کا نکاح جائز ہو گا۔
مسئلہ۲: لِعان کی تکمیل کے بعد عورت کے حمل سے جو بچّہ پیدا ہو گا وہ اس کے شوہر کی طرف منسوب نہیں ہوگا‘بلکہ اُس کی نسبت اس کی ماں کی طرف کی جائے گی۔ حضورِ اَقدسﷺ نے ہلال بن اُمیہؓ اور عویمر عجلانی ؓسے متعلقہ معاملے میں یہی فیصلہ فرمایا۔
مسئلہ۳: لِعان کے بعد اگرچہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے‘ اس کا عذابِ آخرت توپہلے سے زیادہ بڑھ گیا مگر دنیا کی سزا بہرحال اس سے ساقط ہو گئی۔ اسی طرح دنیا میں اس عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ’ولدالزِّنا‘ کہنا بھی کسی طور پر جائز نہیں ہو گا۔حضور اکرمﷺ نے حضرت ہلال بن اُمیّہ سے متعلقہ قضیہ کے فیصلے میں یہ بھی حکم فرمایا ((وَقَضٰی بِاَنْ لَا تَرْمِی وَلَا وَلَدَھَا))۔
لِعان کی شرائط
آیت قرآنی {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ}چونکہ عام ہے اس لیے امام شافعی‘ امام مالک اور امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جو زوجین (شوہر اور بیوی) ایسے ہوں کہ ان کے درمیان طلاق ہو سکتی ہو تو ان کے درمیان لِعان کا حکم بھی جاری ہوگا‘ خواہ وہ دونوں آزاد ہوں یا مملوک یا ایک آزاد ہو اور دوسرا مملوک‘ دونوں عادل ہوں یا دونوں فاسق یا ایک عادل ہو اور دوسرا فاسق‘ بلکہ دونوں کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں‘ ایک مسلمان ہو اور دوسرا کافر (کتابی) ‘ یا پھر دونوں کافر ہوں۔ البتہ امام مالک ؒنےکفر ِفریقین کی صورت میں اختلاف کیا ہے‘ کیونکہ ان کے نزدیک کافروں کا آپس میں نکاح ہی صحیح نہیں ہوتا‘ اس لیے طلاق بھی صحیح نہیں ہوتی اورجب طلاق ہی صحیح نہیں تو لِعان بھی جائز نہیں ہو سکتا۔
امام ابوحنیفہؒ کا قول ہےکہ جب تک دو شرطیں نہ ہوں گی‘ لِعان جائزنہ ہوگا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ مَرد شہادت (گواہی) کا اہل ہو یعنی مسلمان‘ آزاد‘ عاقل اور بالغ ہو ۔دوسری شرط یہ ہے کہ عورت ایسی ہو کہ اس کے قاذف (زنا کی تہمت لگانے والا) کو حدّ لگائی جا سکتی ہو۔ یعنی کہ مسلمان ‘ آزاد‘ عاقل‘ بالغ ہو اور اس سے پہلے اس کی طرف نسبت ِزنا نہ کی گئی ہو۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول کے مطابق اگر عورت ایسی ہو کہ اس کے قاذف پر حدّ ِزنا جاری کی جا سکتی ہو اور مَرد غلام ہو یا کافر ہو یا اس پر تہمت ِزنا لگ چکی ہو‘ اب ایسا مَرد عورت پر تہمت ِزنا لگائے‘ تو لِعان کا حکم جاری نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ اگر حاکم (قاضی)مناسب سمجھے تو مَرد کو تعزیری سزا دے سکتا ہے۔
شوہر کے فاسق ہونے کی صورت میں لِعان کا حکم دینا جائز ہو گا‘ اگرچہ فاسق کی شہادت عام حالات میں قابل قبول نہیں‘ لیکن مخصوص حالات میں قاضی چاہے تو قبول کرسکتا ہے۔ اسی طرح امام صاحب کے نزدیک ان صورتوں میں نہ حدّ ِ قذف ہے نہ لِعان‘ عورت باندی یاکافرہ یا نابالغ یاپاگل ہو‘ یا اس نے نکاحِ فاسد کیا اور پھر شوہر نے اسی حالت میں اس سے ہمبستری کر لی ہو‘ یا اس کا کوئی بچّہ ہو جس کا باپ نامعلوم ہو‘یااس نے اپنی تمام عمر میں زنا (خواہ ایک مرتبہ) کیا ہو اور پھر توبہ کر لی ہو۔ ان تمام صورتوں میں حدّ ِ قذف اور لِعان کے علاوہ حاکم (قاضی) مناسب سمجھے تو عورت کو تعزیری سزا دے سکتا ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒنے جو عورت کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ ایسی ہو کہ جس کے قاذف کو شرعی حدّ لگائی جا سکتی ہو‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر سے حدّ ِ قذف دور کرنے کے لیے لِعان کا حکم دیا گیا ہے۔ جن احادیث میں لِعان والی آیات کا نزولِ سبب بیان کیا گیا ہے‘ ان سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت ہلالؓ بن اُمیہ سے فرمایا کہ ہلال! تم کو بشارت ہو‘ اللہ نے تمہارے لیے کشائش پیدا کر دی ہے‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کے حق میں لِعان حدّ ِ قذف کا بدل ہے۔ اسی لیے تو نبی کریمﷺ نےفرمایا کہ اللہ سے ڈرو‘ دنیا کا عذاب (شرعی حدّ) آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان (ہلکا) ہے۔ پس جب ایسی عورت ہی نہ ہو کہ جس کے قاذف پر حدّ ِ قذف جاری ہو سکتی ہو‘ تو پھر حدّ کا بدل یعنی لِعان کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
دوسری شرط امام اعظم نے یہ بھی لگائی ہے کہ شوہر شہادت (گواہی) کا شرعاً اہل ہو ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:{وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ}’’ان کے پاس سوائے اپنے آپ کے اور کوئی گواہ نہ ہو‘‘۔خدائے بزرگ و برتر نےاس آیت میں خود ازواج (شوہروں) کو شہداء (گواہ) قرار دیا ہے‘ کیونکہ ’’اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ‘‘ کا نفی سے استثناء کیا ہے اور نفی سے استثناء تو اثبات ہوتا ہے (گویا ترجمہ یوں ہو گا کہ اور نہ ہوں ان کے لیے گواہ سوائے اس کے کہ وہ خود اپنے آپ ہی گواہ ہوں)۔
{فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍم بِاللّٰہِ لا اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۶)}’’تو ان میں سے ایک (یعنی مَرد) کی شہادت یہی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہہ دے کہ بلاشبہ مَیں سچا ہوں‘‘۔امام شافعی نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ یہاں ’شَہٰدٰتٍ‘ سے مراد گواہیاں نہیں بلکہ قسمیں ہیں۔ کیونکہ لفظ شہادت میں گواہی اور قسم دونوں معنوں کا احتمال ہے‘ لیکن لفظ ’بِاللہِ‘ سے قسم کا معنی محکم ہو گیا۔ لفظ ’’اَشْھَدُ‘‘ کہہ کر اگر کوئی قسم مراد لے تو قسم ہو جائے گی‘گویا ’’شَہٰدٰتٍ‘‘کالفظ بول کر قسمیں مراد لینے کا احتمال تھالیکن لفظ ’’بِاللہِ‘‘ نے اس کے معنی کو متعین کر دیا۔ شریعت میں اپنی ذات کے لیے خودشہادت دینا قابل قبول نہیں لیکن کوئی اپنے لیے قسم کھا سکتا ہے۔ اس کی بھی شریعت میں کوئی نظیر نہیں کہ ایک مقام پر (ایک ہی وقت میں) ایک ہی شخص بار بار شہادت ادا کرتا ہو‘ البتہ قسم کی تکرار کی مثال موجود ہے جیسا کہ ’’قسامت‘‘ میں ہوتا ہے۔(قسامت سے مراد یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی لاوارث لاش ملے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہاہو تو وہاں کی مقامی آبادی یا قرب و جوار کے پچاس شخص یہ قسم کھائیں گے کہ ہمارا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں‘ باقی کارروائی اسلامی حکومت کرے گی۔)
اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ شہادت (گواہی) کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ جبکہ قسم نفی کے لیے‘ اور یہ ناقابل تصوّر ہے کہ حقیقت ِشہادت کا تعلق ایک ہی امر سے ہو‘ لامحالہ ایک کے حقیقی اور دوسرے کے مجازی معنی پر عمل واجب ہو گا ۔ اب گویا لفظ شہادت کا مجازی معنی (یعنی قسم) مراد ہوگا اور جب ’’شہادت‘‘ سے قسم مراد ہو گی تو پھر لِعان کے لیے شہادت (گواہی) کا اہل ہونا لازم نہ ہو گا ۔ احناف کا کہنا ہے کہ بے شک اپنے لیے خود شہادت دینے اور بار بار ایک مقام پر شہادت ادا کرنے کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ہے ‘ تو پھر دوسرے کے لیے قسم کھانے کی بھی مثال کوئی نہیں ہے‘ اور کسی حکم کو واجب کرنے کے لیے قسم کھانا بھی تو شریعت میں کہیں موجود نہیں ہے ۔ قسم تو دفع ِحکم کے لیے ہوتی ہے‘ نہ کہ ایجابِ حکم کے لیے۔ پس جس ہستی کو موجود کرنے‘ معدوم کرنے اور جیسا چاہے ویسا حکم دینے کا مکمل اختیار و استحقاق ہے‘ جب ایک محل میں دونوں امور کو ابتداء ً ً مشروع کرنا اس کے لیے جائز ہے‘ تو پھر اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ ابتداء اس کو مشروع کر دے (اورا س کا ابتداء ًقانون بنا دے ‘ اب نظیر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں) ۔رہا اپنے لیے خود شہادت دینے کی مثال‘ تو سورئہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {شَھِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ} (آیت ۱۸) ’’اللہ خود گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں‘‘۔ حضورﷺ نے جو مؤذن کو اذان میں ’’اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ اور’’اَشْھَدُ اَنَّ مُـحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘کہتے سنا تو فرمایا: ((اَنَا اَشْھَدُ‘ اَنَا اَشْھَدُ)) ’’مَیں بھی شہادت (گواہی) دیتا ہوں‘ مَیں بھی شہادت دیتا ہوں‘‘۔اللہ کے رسولﷺ کا اپنی رسالت کی شہادت دینا گویا خود اپنے لیے شہادت (گواہی) دینا ہے۔
رہا یہ سوال کہ اس جگہ تکرار ِشہادت کیوں ہے؟تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کے گواہ جب کوئی شہادت یا ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہوں تو اس کی جگہ (قائم مقام) یہ چار شہادتیں بطور بدلیت ضروری قرار پاتی ہیں‘ کیونکہ تہمت کے وقت اپنے لیے ایک شہادت قبول نہیں کی جا سکتی‘ اس لیے تکرار ِشہادت ضروری قرار پائی۔ اگر تہمت کا موقع نہ ہو تو ایک شہادت بھی اپنے لیے قبول کی جاتی ہے جیسا کہ درج بالا آیت اور حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ پس کسی تہمت کے مقام پر اپنے لیے بار بار شہادت دینا اور قسم سے اس کو پختہ کرنا اور کاذب (جھوٹا) ہونے کی صورت میں اپنے لیے لعنت اور غضب ِخداوندی کی بددعا کرنا اور لعنت و غضب کااپنے آپ کو مستحق ظاہر کرنا ‘ بعید از فہم و قیاس نہیں ہے۔
{وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ(۷) }’’اور پانچویں شہادت یہ ہو کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو‘‘۔اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر تہمت ِزنا لگائے یا یوں کہے کہ یہ حمل میرے سے نہیں ہے‘ دونوں اہل لِعان بھی ہوں اور عورت قذف کی سزا کا مطالبہ کرے‘ تو شوہر پر لِعان کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اب اگر مَرد لِعان سے انکار کر دے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک حاکم (قاضی) اس کو قید رکھے‘ جب تک کہ وہ اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار نہ کرے۔ اگر وہ خود اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لے تو اس پر حدّ ِ قذف جاری کی جائے۔ باقی تینوں ائمہ کے نزدیک صورت ِمذکورہ میں قید نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ لِعان سے انکار کرتے ہی مَرد پر حدّ ِ قذف جاری کی جائے گی‘ کیونکہ قذف تو حدّ ِشرعی کے اجراء ہی کو چاہتا ہے‘ لِعان کی صورت تو شوہر کی سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے نکالی گئی ہے۔ جب قاذف (تہمت لگانے والا) خود اپنی سچائی ظاہر کرنے سے قاصر ہو تو پھر فوراً حدّ شرعی جاری کرنے کا مستحق ہو جاتا ہے‘ نہ کہ قید کرنے کا۔ امام شافعی کے نزدیک لِعان کے انکار کرنے سے آدمی فاسق ہوجاتا ہے‘ امام مالک کے نزدیک صرف انکار سے فاسق نہیں ہوتا۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ آدمی کا لِعان سے انکار کرنا ‘گویا اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار ہے۔ لیکن اس میں کسی قدر شبہ ہے‘ کیونکہ اس نے صراحتاً اقرارِ کذب نہیں کیا۔ اب مجبوراً اس کو قید کیا جائے گا تاکہ وہ یا تو لِعان کرنے پر تیار ہو جائے یا پھر اپنے جھوٹے ہونے کا واضح اقرار کرے‘ تاکہ اس پر حدّ ِقذف جاری کی جا سکے۔
اگر شوہر لِعان کر لے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت پر بھی لِعان کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہ انکار کرے تو حاکم(قاضی) اس کو قید کر دے اور اتنی مدّت قید رکھے کہ وہ لِعان کے لیے تیار ہو جائے یا پھر زنا کا اقرار کر کے شوہر کی تصدیق کر دے۔ لِعان اس وقت تک متحقق نہیں ہوتا جب تک کہ عورت بھی لِعان نہ کرے(کیونکہ لِعان باب مفاعلہ سے ہے اور دونوں اطراف کی شرکت کے بغیر باب مفاعلہ کا مصدر متحقق اور پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا)۔ اس لیے صرف شوہر کے لِعان کرنے سے زوجین میں تفریق نہیں ہو سکتی‘ جب تک کہ بیوی بھی اس کے ساتھ لِعان نہ کرے۔ امام شافعی کے نزدیک اگر شوہر نے لِعان کر لیا تو میاں بیوی میں تفریق واقع ہو گئی اور اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو گئی۔ کیونکہ ارشادِ نبویؐ ہے: ((اَلْمُتَلَاعِنَانِ اِذَا تَفَرَّقَا لَا یَجْتَمِعَانِ اَبَدًا))(رواہ البیھقی فی السنن الکبری:۷ /۴۰۹)’’دونوں (میاں بیوی) لِعان کرنے والے جب جدا ہو گئے تو آئندہ کبھی جمع نہیں ہوں گے‘‘۔ اب بچّہ ہونے کی صورت میں اس کی نسبت بھی باپ کی طرف نہیں ہو گی۔
{وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍم بِاللّٰہِ لا اِنَّہٗ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ(۸)} ََََ’’اور عورت سے عذاب کو دور کر دے گا چار مرتبہ اللہ کو گواہ کر کے یہ شہادت دینا کہ وہ (یعنی شوہر) جھوٹا ہے۔‘‘ یہاں الْعَذَابِ سے مراد حدّ ِزنا ہے‘ جیسے آیت قرآنی {فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصِنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ} میں العذاب سے مراد حدّ ِزنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی حضرت ہلال کی بیوی سے فرمایا تھا : ((وَاِنَّ عَذَابِ اللہِ اَشَدُّ مِنْ عَذَابِ النَّاسِ))’’اور اللہ کا عذاب لوگوں کے عذاب (یعنی حدّ ِزنا) سے زیادہ سخت ہے‘‘۔ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ‘ کا یہ مفہوم ہے کہ یہ شخص جو کہ زنا کی تہمت مجھ پر لگا رہا ہے یا اپنا بچّہ پیدا ہونے کا انکار کررہا ہے‘ ان دونوں باتوں میں یہ جھوٹا ہے۔ یا پھر یہ مطلب ہے کہ پہلی بات میں جھوٹا ہے‘ یایہ مراد ہے کہ دوسری بات میں جھوٹا ہے۔
امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک شوہر کے لِعان کرتے ہی بیوی پر حدّ زنا واجب ہو جاتی ہے‘ لیکن پھر جب بیوی بھی لِعان کر لیتی ہے تو وہ حدّ ساقط ہو جاتی ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک عورت کے لِعان کرنے سے صرف حدّ ِزنا کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔ اگر مَرد گواہوں سے زنا ثابت کر دے تو لِعان بیکار ہے‘ حدّزنا اس سے ساقط نہیں ہو گی۔ اب اگر عورت نے لِعان سے انکار کر دیا تو حدّ زنا اس پر واجب ہوگئی۔امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر عورت لِعان سے انکار کر دے تو اس کو قید کر دیا جائے گا‘ اور وہ اس وقت تک قید رہے گی کہ یا تو وہ لِعان کرے اور یا پھر مَرد کی تصدیق کرے۔ اگر اس نے مَرد کی تصدیق کر دی تو وجوبِ لعان کا سبب(عورت کا انکار) ختم ہو گیا۔ اس لیے اس پر لِعان کا حکم باقی نہ رہا۔ صاحب ِتفسیر کے نزدیک اب اس پر حدّ زنا واجب ہو گئی۔ (جاری ہے)***