(حرفِ اوّل) دین واخلاق سے عاری قومی سیاست - ڈاکٹر ابصار احمد

9 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دین واخلاق سے عاری قومی سیاستڈاکٹر ابصار احمد۲۰۱۸ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے سیاسی افق پر بہت سے نئے چہرے نمودارہوئے اور ان سے بہت سی روشن امیدیں بھی وابستہ کی گئیں۔ اس نئی اور نسبتاً جوان قیادت سے خوش کن توقعات کی ایک وجہ تو ان کا موروثی سیاست دان نہ ہونا تھا‘ دوسرے یہ کہ ان کے وعدوں‘ دعووں اوروعیدوں نے بہت سے طبقوں کو اپنا حامی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والے کئی آزاد امیدوار بھی ان سے آ ملے۔ کچھ خود آئے اور کچھ لائے گئے۔ بہرحال وفاقی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت کی کابینہ میں دو طرح کے وزراء اور مشیر تھے: ایک تو وہ جنھیں سیاسی اصطلاح میں’’لوٹے‘‘ کہا جا سکتا ہے اور دوسرے وہ نوآموز اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے نابالغ سیاستدان تھے جو پہلی دفعہ قسمت آزمانے نکلے تھے اور سیاسی شعور سے نابلد تھے۔ ان وزراء کا گمان یہ تھا کہ ان مخدوش حالات کی اصل ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں ورنہ مملکت خداداد کو سنوارنا چند مہینوں کی بات ہے۔ کبھی دو مہینے اور کبھی سو دنوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دینے کے بلند بانگ دعوے آئے روز ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ حالات سے واقفیت نے انہیں اعتراف پر مجبور کیا کہ ملک کو استحکام کی جانب لے جانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے‘بقول جاوید اختر:
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر ‘ نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
بہت سے زرد چہروں پر غبارِ غم ہے کم بے شک ‘ پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے!
حکومتی نمائندوں کی جانب سے سابق حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی‘ ہر تباہی اور ہر خرابی انہی کے نامۂ اعمال میں ڈال کر محض دعووں کے سہارے نظام چلتا رہا بلکہ گھسٹتا رہا۔
دوسری جانب‘حسبِ معمول حزبِ اختلاف نے انتخابات میں دھاندلی اور دھوکہ دہی کا الزام عائد کرکے از سرِ نو انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ ان کی جانب سے احتجاجی دھرنے مظاہرے جاری رہے اور وہ حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے۔حزبِ اختلاف میں غم و غصے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انتخابات میں بہت سے ایسے رہنما بھی اپنے آبائی علاقوں سے شکست سے دوچار ہوئے جہاں سے انہیں ایک فیصد بھی شکست کا امکان نہیں تھا۔ستم بالائے ستم‘ وہ امیدوار جنھیں ان کے بالمقابل فتح حاصل ہوئی‘ ظاہری حالات میں ان کی فتح کی ایک فیصد امید نہیں تھی۔ ایسےارکان ایک دو نہیں متعددہیں۔
اسی دوران وبا کے پھیلاؤ نے کچھ وقت کے لیے سیاسی منظر نامے پر ایک سکوت ساطاری کردیا۔حکومتی کارکردگی بھی یقیناً متاثر ہوئی اور معاشی طور پر صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں عدم استحکام نظر آیا۔وبا کا معاملہ ذرا کم ہوا توایک بار پھر احتجاجی مظاہروں اوردھرنوں‘ اور دوسری جانب سے الزام اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب کی بار ایک بڑے لشکر کے ساتھ دار الحکومت کا محاصرہ بھی کیا گیا لیکن بوجوہ محاصرہ نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔باعث ِ افسوس یہ ہے کہ حکومتی ارکان نے بھی غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مخالفین کے خلاف ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ تقریروں میں وہ لہجہ اور الفاظ نظر آئے جو کسی بھی طرح ایک ماہر سیاست دان کو زیب نہیں دیتے۔حکمت کی جگہ نادانی اور کبر نے لے لی۔
بالآخر‘ گزشتہ سال تمام مخالف جماعتوں نے متحد ہو کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا۔ وہ جو کبھی ایک دوسرے کی شکل دینے کے روادار نہ تھے‘ آج ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور القاب اور خطاب عطا ہو رہے تھے۔ اس اتحادی گروہ نے کئی جلسوں اور مشوروں کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک ِ عدمِ اعتماد پیش کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت چاہتی تو اس تحریک کے پیش ہونے سے قبل عام انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر کے مزید مہلت حاصل کر سکتی تھی‘ لیکن انہیں یہ زَعْم تھا کہ حکومت کے اتحادی انتہائی مخلص اور وفادار ارکان ہیں جو کسی صورت اپنے قائد سے انحراف نہیں کر سکتے۔ اسی خوش فہمی میں ریاستی عہدے دارایک بار ڈینگیں مارنے اور دعوے کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے گئے۔ مخالفین کی تذلیل‘ توہین اور تردید میں ہر حد سے گزر گئے۔ بعض خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے والےدوراندیش رہنماؤں نے اب بھی وقار کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا لیکن ان کی آواز دھونس دھمکیوں اور الزام تراشیوں میں گم ہو کر رہ گئی۔ حکومت کے اتحادی ایک ایک کر کے حزبِ اختلاف سےآ ملے‘ اور جب معتدبہ تعداد حکومت مخالف اتحادیوں کو حاصل ہو گئی تو حکومتی عہدے داروں کی آنکھ کھلی‘ لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ منحرف ارکان کو ملک دشمن‘ غدار‘ امریکی ایجنٹ اور دولت کے پجاری قرار دیا گیا۔ انہیں اس انحراف پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان دھمکیوں کے ساتھ ان سے واپسی کا مطالبہ کیا گیا جو کسی بھی طرح سیاسی طور پر درست نہیں تھا۔ان کو عدالت کے ذریعے نااہل قرار دینے کی کوشش کی گئی جو کارگر نہ ہو سکی۔ اسی دوران مارچ میں عدم اعتماد کی درخواست جمع کرادی گئی۔
اس درخواست کے جمع ہوتے ہی وزیر ِاعظم کے اختیارات محدود ہو گئے۔ بہت سے مخلص دوستوں نے مشورہ دیا کہ وزیر ِاعظم از خود مستعفی ہو کر اس تنازعے کو حل کر دیں لیکن انہیں کسی معجزے کا انتظار تھا۔ تحریک ِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے لیے اسپیکر کے پاس ۱۴ دن کی مہلت ہوتی ہے۔ اس مہلت سے تجاوز آئین کی خلاف ورزی شمار کی جاتی ہے۔ حکومت اس رائے شماری کو مؤخر کرتی رہی۔ اس دوران ایک نئے دعوے کے ساتھ وزیر ِ اعظم میدان میں اترے‘ اور وہ دعویٰ یہ تھا کہ عدم اعتماد امریکی ایجنڈا ہے جو روس کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کو Absolutely Notکہنے کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں استحکام آئے‘ اور وہ اسے اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘ اسی لیے وہ موجودہ حکومت کو برطرف کر کے اپنی من پسند حکومت لا رہا ہے۔ اس تحریک کو امریکی سازش قرار دیا گیا اور اس سازش کے ثبوت کے طور پر ایک دھمکی آمیز خط جلسۂ عام میں لہرایا گیا۔ بقول ان کے‘ اس خط میں تحریر تھا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان کو استحکام ملے گا اور فائدہ ہوگا‘ اور اگر یہ تحریک ناکام ہوجاتی ہے تو اس ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحث چھڑ گئی جس میں امریکی سازش اور دھمکی آمیز خط موضوعِ بحث تھے۔ کہا گیا کہ تحریک ِعدمِ اعتماد پیش ہونے سے ایک دن قبل یہ خط دفتر ِخارجہ کو موصول ہوا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کو اس تحریک کا علم تھا‘ گویا یہ انہی کہ شہ پر پیش کی گئی ہے۔
حکومت پر دباؤ بڑھا تو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ حزبِ اختلاف کا خیال تھا کہ رائے شماری کی جائے گی۔ پورے ملک میں یہ فضا بنا دی گئی تھی کہ آج وزیر ِ اعظم کا آخری دن ہے۔ حکومت مخالف اتحادیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ اچانک وزیر اعظم کے ’’سرپرائز‘‘ نے اتحادیوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ تحریک غیر ملکی سازش کا حصّہ ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ اس رولنگ سے وزیر اعظم کے اختیارات واپس آگئے۔ حکومت کے حامی اپنے قائد کی ذہانت پر خوشی سے پھولے نہ سمائے اور جشن منانے لگے۔ وزیر ِاعظم صاحب کو اندازہ تھا کہ اتحادی چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دباؤ بڑھتا چلا جائے گا‘ چنانچہ انہوں نے صدرِ مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز ارسال کردی جس پر فوری عمل ہوا اور اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ اعلان کیا گیا کہ جلد عبوری وزیر ِاعظم کا تعین کیا جائے گا اور تین مہینے کے اندر عام انتخابات کروائے جائیں گے۔ انہی انتخابات کا مطالبہ تین مہینے قبل کیا گیا تھا لیکن اس وقت انہیں حالات کے اس رخ کا اندازہ نہیں تھا۔
اتحادیوں نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور عدالت جانے کا اعلان کیا۔ قصہ مختصر‘ عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دی‘ امریکی سازش کا یکسر انکار کیا اور صدرِ مملکت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اگلے دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور رائے شماری کرانے کا حکم صادر کیا۔ وزیر اعظم صاحب کے پاس اب بھی استعفے کے مشورے پہنچے لیکن انہوں نے ’’آخری بال‘‘ تک کھیلنے کا عزم کر رکھا تھا۔ اب جب معاملہ واضح ہو چکا تھا تو حکومت کے لیے یہی بہتر تھا کہ فوری طور پر رائے شماری کرائے اور اس بحران کو ختم کردے۔ بقول شاعر:
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم!
لیکن یہاں بھی قریب الاختتام حکومت کی بوکھلاہٹ نے اسے نادانی پر اکسایا اور وقت ِ موعود پر رائے شماری سے گریز کیا گیا۔ عدالت کے حکم پر اسی دن رائے شماری ہونا تھی اور رات بارہ بجے دن تبدیل ہوجاتا تو توہین ِ عدالت کے جرم میں بہت سی گرفتاریاں متوقع تھیں۔ حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ عدالتیں اس معاملے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گی۔ چنانچہ رات دس بجے دارالحکومت میں بھونچال سا آگیا۔ سپریم کورٹ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ‘ پولیس‘ ہسپتال ہر ہر ادارہ متحرک ہو گیا۔ تعطیلات منسوخ ہو گئیں۔ عدالتی عملے کو فی الفور ملازمت پر پہنچنے کے احکام جاری ہوئے۔ قومی اسمبلی کے گرد سپاہیوں نے گھیراؤ کر لیا‘ حتیٰ کہ قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں اور ہتھکڑیاں بھی موقع پر پہنچادی گئیں۔ بعض مخلص دوستوں نے اب بھی وزیر ِ اعظم کو استعفے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے ’’آخری بال‘‘ کا انتظار کیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا‘ حکومتی ارکان اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے بھی اجلاس کی صدارت سے گریز کیا۔ پینل میں موجود سابق اسپیکر کی سربراہی میں اجلاس شروع ہوا اور کثرتِ رائے سے تحریک ِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی وزیر اعظم کو عدم اعتماد پر برطرف کیا گیا۔ وزیر اعظم صاحب برطرفی کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہوگئے۔
یہ تو تھی اس اقتدار کے عروج و زوال کی مختصر داستان‘ لیکن حکومت ہونا یا نہ ہونا تو ایک وقتی بات ہے‘ جسے اقبال نے کہا تھا کہ ع ’’حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی!‘‘ جو چیز نہایت قابلِ افسوس ہے وہ ہماری قوم کا لہجہ اور رویّہ ہے جو اس سارے عرصے کے دوران نظر آیا۔ منتخب ارکان نے اپنے سیاسی حریفوں کے لیے جس طرح کے تبصرے‘ نازیبا کلمات‘ برے القاب اور بے بنیاد الزامات کا استعمال کیا اور ان سے پارٹی لیڈروں نے اخذ کیا اور اس کی تشہیر کی اور پھر شہروں‘ محلوں اور گلیوں تک ان غیر انسانی غیر اخلاقی رویوں کی گونج سنائی دیتی رہی انتہائی شرم ناک ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بات صرف زبانی نہیں رہی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر سوشل میڈیا پر جس طرح کی گفتگو اور تبصرے کیے گئے اور بالخصوص مخالفین کی مضحکہ خیز تصاویر اور ان پر جملے لکھ کر خاکے اڑائے گئے وہ انتہائی قابل افسوس اور انسانیت کے لیے باعث شرم ہے۔ اس طرح کی طنزیہ تصاویر جنھیں اصطلاح میں’’ میمز‘‘ کہہ سکتے ہیں‘ ان سے انسانیت کا جس طرح سے چہرہ مسخ کیا گیا وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ ہم سب کے لیے قابلِ توجّہ پہلو یہ ہے کہ ان سارے الزامات‘ غیر اخلاقی مواد اور طنزیہ اور مضحکہ خیز تصاویر کو فروغ دینے میں ہمارے اردگرد کے بہت سے لوگ شامل ہیں۔ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سمجھائیں‘ ان کی تربیت کریں اور انہیں اس بات کی تعلیم دیں کہ سیاست ہو یا کوئی بھی شعبہ‘ مخالفت میں اخلاقیات کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ مزیدیہ کہ ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی طبقے میں سے بھی بہت سے لوگ ان نامناسب امور میں اپنے اوقات کا خون کر رہے ہیں۔ اوّلاً ہم اپنی اور پھر اپنے متعلقین کی اصلاح اور تربیت کی فکر کریں تاکہ اس غیر شرعی اور غیر اخلاقی رویے کو آنے والی نسلوں میں منتقل ہونے سے روکا جاسکے۔آخر میں شاعر ِ مشرق کے کچھ اشعار بلا تبصرہ نقل کرتا ہوں:

کہتا تھا عزازیل خداوند جہاں سے

پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کف خاک!

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب

دل نزع کی حالت میں‘ خِرد پختہ و چالاک!

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت

مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک!

تجھ کو نہیں معلوم کہ حورانِ بہشتی

ویرانی ٔجنّت کے تصوّر سے ہیں غم ناک؟

جمہور کے اِبلیس ہیں اربابِ سیاست

 

باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!

قارئین میرے ساتھ اس امر پر متفق ہوں گے کہ یہ بات اپنی جگہ انتہائی قابلِ رنج و الم ہے کہ مذکورہ بالا سارا ہنگامہ ماہِ شعبان اور اس کا کلائمکس ماہِ رمضان کی بابرکت ساعتوں میں اسلامیانِ پاکستان سے سرزد ہوا۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کا ذوق و شوق خاص طو رپر قرآن کریم کی تلاوت اور سماعت کی طرف ہونا چاہیے ۔ تراویح کی نفلی نماز کے ساتھ کلام اللہ کو ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ سمجھنے کی جو تحریک بانی تنظیم اسلامی اور مؤسس انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ۱۹۸۴ء سے شروع کی تھی‘ بحمدا ِللہ نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بعض دوسرے ممالک میں ائمہ اور خطباء کرام بھی اس کی طرف متوجّہ ہوئے ہیں۔ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ اس سے لوگوں میں تقویٰ‘ خداخوفی اور آخرت کی جواب دہی کا ایمانی فکر پختہ ہو گا اور یہی ان کے اجتماعی امور اور ملکی سیاست میں کردار و رویّہ کی بہتری پر منتج ہو گا۔
قرآن اکیڈمی کے سکالرز نے علوم دینی کے کلاسیکل مراجع و مصادر کے گہرے مطالعہ اور فہم کے علاوہ جدیدیت (Modernity) اور جدید سوشل سائنسز کا مطالعہ بھی گہرائی اور تنقیدی نگاہ سے کیا ہے جس کی کچھ جھلکیاں آپ کو ’’جدیدیت کا تصوّرِ حقیقت‘‘ اور ’’نصب ِامامت اور جدید ریاست‘‘ اور ’’مباحث ِعقیدہ‘‘ مضامین میں ملیں  گی۔ علوم و افکار میں ایسی اصالت ‘ایسی غزارتِ علمی اور ایسی گہرائی اور بے ساختگی کہیں اور مشکل سےملتی ہے۔ علمی دلچسپی رکھنے والے قارئین حکمت قرآن کی طرف سے ان پر تبصروں کا انتظار رہے گا۔

راقم کو جامع القرآن قرآن اکیڈمی میں تراویح کے ساتھ مکمل دورئہ ترجمہ وتشریح کی سماعت کی توفیق ملی ہے جو عزیزم حافظ عبداللہ محمودکروا رہے ہیں۔ ان کا رجوع دین کے حقیقی مصادر و روایت کی جانب ہے‘ جسے وہ انتہائی مؤثر اور پُرجوش انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب ‘ کاہلی اور غفلت اور روشن خیالی جس کا صحیح نام ’’معاصر ِ جاہلیت‘‘ ہے‘ کو خوب واضح کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پوری انسانی زندگی کو ایمانی و اخلاقی بنیاد پر قائم کرنا اسلامی مفہوم کی رو سے تہذیب کا جزو اصیل ہے۔ وہ دو طرزِ حیات کے درمیان فرق و تفاوت خوب واضح کرتے ہیں ۔ ایک طرف توحید پر قائم اور توحید سے ہم آہنگ طرزِحیات‘ جس کی ایک ایک بات خدائی مصدر سے ماخوذ اور پیغمبر اسلام ﷺ پر نازل شدہ وحی سے مستنبط ہے‘ تو دوسری طرف شرک پر قائم اور کفر سے ہم آہنگ ایک طرزِ حیات جو خدائی تنزیل کے سوا ہر چشمہ سے ماخوذ ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہِ رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللھم آمین!