(فکر و نظر) جدیدیت کا تصوّرِ حقیقت - ڈاکٹر محمد رشید ارشد

9 /

جدیدیت کا تصوّرِ حقیقتڈاکٹر محمد رشید ارشد
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فلسفہ‘جامعہ پنجاب‘لاہور

حقیقت یا تصوّرِ حقیقت ایک کلاسیکی اصطلاح ہے۔ جدیدیت میں حقیقت کا لفظ یا تو مجبوراً استعمال کیا جاتا ہے یا کسی اور مفہوم میں صرف ہوتا ہے۔اگر ہم حقیقت کو اس کے کلاسیکی ‘فلسفیانہ اور مذہبی سیاق و سباق میں رکھ کر یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جدیدیت میں اس کے بارے میں کیا مفاہیم یا تصوّرات پائے جاتے ہیں تو ہمیں کوئی بامعنی چیزہاتھ نہیں لگے گی۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جدیدیت کی تکمیل شدہ علمیات و اخلاقیات میں حقیقت اپنے معروف سیاق و سباق میں ایک بے معنی لفظ ہے۔اس کے بے معنی ہونے کا سب سے بڑا سبب اہلِ جدیدیت کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں زمان و مکان کی نفی کا رویہ پایا جاتا ہےاور علم میں حواس کے بنیادی ترین کردار کا انکار ضروری ہوجاتاہے۔ اگر معدودے چند جدید مفکرین مثلاً ہیبرماس وغیرہ حقیقت کو اس کے کسی قدر معروف معنی میں استعمال کرتے بھی ہیں تو اس کا locale ماضی نہیں مستقبل ہوتا ہے۔ یعنی ان لوگوں نے حقیقت کو تقریباً غایت کےمفہوم میں سمجھا ہے۔
اس پس منظر میں یہ سوال جب تک اپنے روایتی معانی سے کاٹ کر نہیں اٹھایا جائے گا جدیدیت میں کسی تصوّرِ حقیقت کی تلاش ناممکن رہے گی۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ حقیقت موجود ہے اور واحد الوجود ہے مگر اس کی تعبیرات میں اختلاف اور تضاد ہے ۔ جدیدیت میں کوئی متعین حقیقت موجود ہی نہیں ہے۔ہاں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ جدیدیت میں حقیقت کی جگہ کس Ideaکو دی گئی ہے وہ آئیڈیا‘ origin of existence کا آئیڈیا ہے۔ جدیدیت میں حقیقت کی جگہ origin کو رکھا گیا ہے۔ مبدأ وجود یا مصدرِ موجودات وغیرہ کا تصوّرغیر روایتی نہیں ہے ‘کلاسیکی روایتوں میں مبدأ حقیقت ہی کی ایک حالت ہے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ حقیقت کے دو بنیادی احوال ہیں‘ ایک ذاتی اور دوسرا فعلی۔ حقیقت خود موجود ہے‘یہ اس کا ذاتی حال ہے اور اس کے ساتھ ہی حقیقت بنائے وجود بھی ہے ‘ یہ اس کی فعلی شان ہے‘ تو بنائے وجود ہونے کی جہت سے حقیقت کو مبدا ٔبھی کہا جاتا تھا لیکن جدیدیت میں origin یا تو منطقی ہے جس سے علم کی تشکیل ہوتی ہے یا محض طبیعی ہے جس سے وجود کی نمود ہوئی ہے۔
روایت میں وجود اور موجود میں ایک اٹل امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا لیکن جدیدیت میں یہ امتیاز لایعنی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو جدیدیت میں حقیقت ایک eventہے جس سے موجودات و معلومات یعنی ایک series of eventsوجود میں آئی ہے۔ origin ہونے کے پہلو سے حقیقت کی productive فعلیت کلاسیکی روایت کے تصوّر کے مطابق نزولی نہیں ہے بلکہ افقی ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اس کی وجہ سے وجود میں آنے والی ہر شے کا substance of beingایک ہی ہے ۔مثال کے طور پر ‘ہر شے مادی ہے تو حقیقت بھی مادہ ہی ہے۔اور پھر یہ کہ جدیدیت کی بنائی ہوئی تاریخ ِ وجود میں حقیقت‘ پہلے لمحےکو کہتے ہیں جو اگلے لمحات میں ضم ہوگیا یعنی دوسرے لفظوں میں فنا ہوگیا۔ اس کا اقرار تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کے موجود ہونے کا تصوّر نہیں باندھا جاسکتا۔ دوسری جہت سے دیکھیں تو خصوصاً جدیدیت کے سماجی علوم میں حقیقت کا لفظ اگر استعمال ہوتا ہے تو زیادہ تر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ ایک fact اور دوسرا مقصد۔ اگر مقصد کے تصوّر میں بھی دوام‘ وحدت اور ماورائیت ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ حقیقت کے لفظ کو ترک کرنے کے باوجود اس کے معنی کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ لیکن جدیدیت میں مقصد اپنی کسی بھی تعریف میں مذکورہ بالا معانی نہیں رکھتا‘ کیونکہ یہ وجود کے mechanics اور علم کے مسلمات کا حصّہ نہیں ہے بلکہ ضرورت یا خواہش کے تابع ہے۔ یعنی مقصد افادی ہوسکتا ہے مگر واحد نہیں ہوسکتا‘ مطلق نہیں ہوسکتا‘ دائمی نہیں ہوسکتا۔ تو مختصر یہ کہ جدیدیت کا کوئی ایسا تصوّرِ حقیقت نہیں ہے جس کا اس منہج پر مطالعہ کیا جاسکے جو کلاسیکی تصوّرِ حقیقت کا جائزہ لینے میں استعمال ہوتاآیا ہے۔
اگر ہم اس سوال کو ایک بڑے تناظر میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کیا جدیدیت میں اپنے بنیادی تصوّرات پائے جاتے ہیں جن سے ’’وجود ‘ کائنات اور انسان کیا ہے؟‘‘ کا غلط یا صحیح پورا جواب مل سکتا ہو تو روایتی تصوّرِ حقیقت اصل میں ’’خدا کیا ہے؟ ‘‘ کا directبیان تھا اور اس بیان سے بننے والے حدود میں ’’کائنات کیا ہے؟‘‘ اور ’’ انسان کیا ہے؟‘‘ کے مطلق اور حتمی جوابات بھی مل جاتےتھے۔ اس ڈھب پر اگر جدیدیت کا تجزیہ کیا جائے تو چند منتشر اور بے ربط نتائج سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس بڑے تناظر کی ابھی بات کی گئی وہ یہی ہے کہ جدیدیت کی ontology کیا ہے cosmologyکیا ہے Anthropology /Psychologyکیا ہے؟ وغیرہ اور ان سب میں کوئی ایک مشتر ک امر ہے یا نہیں۔جیسے کہ روایت میں یہ چاروں discipline دراصل حقیقت واحدہ کے مختلف وجودی اور اعتباری مراتب تھے۔ اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ کیا جدیدیت میں ایسا ہی نظم وجود اور دروبست ِ علم ہے تو اس کا جواب ایک قطعی نفی میں ہوگا۔تو اب ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم جدیدیت اور روایت کے تقابل کی فضا سے نکل کر صرف یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جدیدیت کا علم الوجود کیا ہے؟ جس سے حقیقت‘ کائنات اور انسان کی تعریفات جنم لیتی ہیں اور ان کی معلومیت کے اسالیب طے پاتے ہیں‘ تو اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ تمام تر جدید علم الوجود اور علم الکون‘ علم ِ طبیعیات اور natural sciences پر استوار ہیں۔ یعنی جدیدیت کا ایک خاص نظریۂ علم ہے جو مذہب اور فلسفےسے نہیں طبیعی علوم سے پیدا ہوا ہے اور اسی نظریۂ علم سے وجود اور حقائقِ وجود کا مطالعہ کرنے والے مناہج اور ان مناہج کو استعمال میں لا کر حاصل ہونے والے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ وجود اپنی کائناتی ساخت میں Big Bang سے شروع ہوتا ہے اور حیاتیاتی تسلسل میں ایک dead cell سے ۔ یعنی Big Bang اور حیاتیاتی ارتقا جدیدیت کی ساری cosmologyاور ontology کی اساس ہے۔ اس طرح کیPrincipeal Physicality کے ماحول میں حقیقت کا وہ تصوّر ظاہر ہے کہ نہیں پنپ سکتا جو اپنی ساخت میں مابعد الطبیعی ہے بلکہ اپنی فعلیت میں بھی غیر زمانی مکانی ہے۔ اگر ہم جدید ontology کے بنیادی اجزا ءکی فہرست بنانا چاہیں تو وہ کچھ یوں ہوگی:
(۱) مادہ اپنی کسی بھی نئی پرانی تعریف میں اصلِ وجو د ہے۔
(۲) مادہ مخلوق نہیں ہے‘یعنی اس سے پہلے کا ہر تصوّر لغو ہے۔
(۳) زمان و مکان سے باہر نہ وجود ہے نہ شعور۔
(۴) صرف شے اور واقعہ حقیقی ہے۔ وجود و موجود کے تصوارت محض مفروضے ہیں اور ان کی عینیت و غیریت پر ہونے والی تمام بحثیں مہمل ہیں۔
(۵) مابعد الطبیعیات یعنی زمان و مکان سے وجودی ماورائیت کا دعویٰ بس شاعری میں کیا جاسکتا ہے‘علم میں نہیں۔ مابعد الطبیعی موقف ذہن اور شے دونوں کو مسخ کردیتا ہے۔
یہ تو ہوا جدید ontology اور cosmology کا اصولی خلاصہ۔ اب جدید تصوّرِانسان یعنی جدید Psychology اور Anthropology کے بنیادی نکات جمع کیے جائیں تو وہ کم و بیش یہ ہوں گے:
(۱) انسان آزاد ہے اور اپنی پابندی کا فیصلہ خود کرتا ہے۔
(۲) انسان چونکہ مخلوق نہیں ہے اس لیے وہ کسی خالق کا بندہ نہیں ہے۔
(۳) انسان یہ جان چکا ہے کہ اس دنیا کے بعد اس کے لیے کوئی اور دنیا نہیں ہے۔ اس زندگی کے بعد اس کے لیے کوئی زندگی نہیں ہے‘ اس لیے اسے کسی ماورائی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان خدا کا خالق ہے مخلوق نہیں۔
(۴) انسان آزاد ہے‘خودمختار ہے‘ self guided ہے ‘ انسان کے لیے بس یہی دنیا اور یہی زندگی ہے‘انسان کو کسی عقیدے کی نہیں بلکہ ہر صورتِ حال میں کارآمد اس علم کی حاجت ہے جسے صورتِ حال کی تبدیلی کے ساتھ بدلا جاسکے۔
(۵) علم کی طرح انسانی اخلاق بھی اضافی ہیں۔ انسان خدا کے ہونے کی نشانی نہیں بلکہ اس کے نہ ہونے کی دلیل ہے‘ یعنی جزا و سزا کے تصوّرات انسان کی توہین ہیں۔
(۶) انسان کا اجتماعی وجود مساوات پر ہے۔ یہ مساوات ایک پہلو سے organicہے اور دوسرے پہلو سے قانونی۔اس کی آزادی پر قدغن کوئی اورنہیں بلکہ یہ خود ہی لگا سکتا ہے۔
(۷) انسان ایک خلا لے کر پیدا ہوتا ہے جسے اس کا ماحول بھرتا ہے کوئی آسمانی فطرت یا ہدایت نہیں۔
روایت اور جدیدیت میں اختلاف کی اصل نوعیت جاننی ہو تو بس ایک نکتے پر توجّہ مرتکز کرنا چاہیے اور وہ ہے تصوّرِ انسان۔ جس تصوّرِانسان پر عالم ِجدید کا بلا استثنا اجماع ہے اس کو تسلیم کرلینے کے بعد دیگر اصولی تصوّرات میں اختلاف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ انسان شروع سے وجود کیا ہے؟ اور علم کیا ہے؟ کے سوالوں سے بننے والی فضا میں رہتا چلا آرہا ہے۔ تاریخ انسانی میں ان کے دو ہی جوابات دیے گئے جس میں سے ہر ایک تمام حقائق کا احاطہ کرتا ہے‘ ایک جواب روایت نے دیا اور دوسراجواب جدیدیت نے۔ ان دونوں میں مغائرت اور تضاد کے سوا کوئی نسبت نہیں ہے۔