(تذکر و تدبر) مِلاکُ التأوِیل (۲۹) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

9 /

مِلاکُ التأوِیل (۲۹)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن
سُوْرَۃُ ھُوْد
(۱۸۱) آیت ۷۷
{وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْۗءَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ(۷۷)}
’’اورجب ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت متفکر ہوئے اور ان سے تنگی محسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑا سخت دن ہے۔‘‘
اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا:
{وَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْۗءَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۣ اِنَّا مُنَجُّوْکَ وَاَھْلَکَ اِلَّا امْرَاَتَکَ} (آیت۳۳)
’’اور جب ہمارے فرستادہ (فرشتے) لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت متفکر ہوئے اور ان سے تنگی محسوس کرنے لگے‘ تو انہوں نے کہا:نہ ڈرو نہ غمگین ہو ‘ ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو ‘سوائے تمہاری بیوی کے ‘بچا لیں گے۔‘‘
یہاں دونوں آیات کا ابتدائی حصّہ بالکل ایک ہے‘ سوائے اس کے کہ سورۃ العنکبوت کی آیت میں ’’لَمَّا‘‘ کے بعد ’’اَنْ‘‘ کا اضافہ ہے ۔تو ایسا کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’اَنْ‘‘ خفیفہ بعض دفعہ بطور حرفِ زائد لایا جا سکتا ہے‘ اور یہ دو طرح ہو سکتا ہے‘ قیاس کے ساتھ یا بغیر قیاس کے۔ بغیر قیاس کی مثال جیسے :  ع
کَاَنْ ظَبْیَۃٍ تَعْطُوْا اِلٰی وَارِقِ السَّلَم
گویا کہ وہ ایک ہرنی ہے جو ببول کے درخت کی پتیوں پر منہ مار رہی ہے ۔ اصل میں  ’’ کظبیۃ‘‘ ہونا چاہیے تھا لیکن حرفِ تشبیہ (کاف) کے بعد ’’اَنْ‘‘ کا اضافہ کر دیا گیا اور ’’لَمَّا‘‘ کے بعد بطور قیاس اضافہ کرنا جائز ہے۔
سورئہ ہود کی آیت میں اصل کے اعتبار سے ’’لَمَّا‘‘ بغیر ’’اَنْ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ آیا ہے اور پھر سورۃ العنکبوت میں تکرار سے بچنے کے لیے ’’لَمَّا‘‘ کو ’’اَنْ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ لایا گیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ دونوں سورتوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے تو اس کی کیا ضرور ت تھی؟توہم یہ کہیں گے کہ گو دونوں سورتوں میں کافی فاصلہ ہے لیکن چونکہ ’’لَمَّا‘‘ کے بعد ’’اَن‘‘ کا لایا جانا یا نہ لایا جانا دونوں جائز تھے‘ اس لیے جواز کی دونوں شکلوں کو لانے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا۔
پھر اگریہ کہا جائے کہ سورۃ یوسف میں بھی ’’اَنْ‘‘ کو لایا گیا ہے ‘ ملاحظہ ہو:{فَلَمَّآ اَنْ جَآئَ الْبَشِیْرُ} (آیت۹۶)’’اور پھر جب خوشخبری لانے والا آیا‘‘تو یہاں تو کوئی تکرار نہ تھی؟اس لیے اصل کے مطابق (یعنی بغیر ’’اَنْ‘‘ )کے لایا جانا تھا؟تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یعقوب ؑکے غم اور گریہ زاری پر ایک مدّت گزر چکی تھی جب کہ ان کے پاس خوشخبری لانے والا آیا‘ تو اس تاخیر کو دیکھتے ہوئے عبارت میں ’’اَنْ‘‘ کا اضافہ کر دیا گیا کہ جس سے خوشخبری لانے والے کے تاخیر سے آنے کا عندیہ ملتا ہے۔واللہ اعلم!
(۱۸۲) آیت ۸۱
{قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ ۭ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ ۭ }
’’انہوںنے کہا : اے لوط! ہم تمہارے ربّ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں‘ وہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے‘ تو تم اپنے گھر والوں کو لے کر رات کا کچھ حصّہ گزر جانے کے بعد چل کھڑے ہونا اور تم میں سے کوئی بھی مڑ کر نہ دیکھے‘ بجز تمہاری بیوی کے ‘ اسے بھی وہی کچھ پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچا ہے۔‘‘
اور سورۃ الحجر کی آیت ۶۵ میں ارشاد فرمایا:
{فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ(۶۵)}
’’تو پھر تم رات کے ایک حصّہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل کھڑے ہو‘ اور ان سب کے پیچھے رہنا‘ تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہاں چلتے جانا۔‘‘
یہاں تین سوالات پیدا ہوتے ہیں:
(۱) سورئہ ہود میں کہا گیا : ( اِلَّا امْرَاَتَکَ : سوائے تمہاری بیوی کے) اور سورۃ الحجر میں یہ استثناء نہیں ذکر کیاگیا۔
(۲) سورۃ الحجر میں ’’وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ‘‘اور (۳) ’’وَامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ‘‘ کے اضافی الفاظ ہیں جو سورئہ ہود میں نہیں ہیں؟
پہلے سوا ل کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الحجر کی مذکورہ آیت سے قبل ابراہیمؑ کے قصے میں کہا گیا:
{فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَ (۵۷) قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ (۵۸) اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ ۭ اِنَّا لَمُنَجُّوْھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۵۹) اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ ۙ اِنَّھَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۶۰)}
’’تو اے بھیجے جانے والےفرشتو! تم کس مہم پر آئے ہو؟انہوں نے کہا : ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے سوائے خاندانِ لوط کے ۔ ہم ان سب کو بچا لیں گے‘ سوائے اُس کی بیوی کے‘ اس کے بارے میں ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔‘‘
اب چونکہ سورۃ الحجر میں لوطؑ کی بیوی کا ذکر پہلے آ چکا تھا اس لیے بعدکی آیات میں اس کے ذکر کی ضرورت نہ رہی‘ جب کہ سورئہ ہود کی آیات میں پہلے کہیں لوطؑ کی بیوی کا ذکر نہیں آیا تھا اس لیے اس کا ذکر کیا جانا مناسب تھا۔
دوسرے اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الحجر‘ سورئہ ہود کے بعد کی سورت ہے‘ اور اس میں ان دو باتوں کا ذکر بحیثیت ِاضافہ کے ہے جو کہ سورئہ ہود میں بیان نہیں ہوئیں۔ اور یہ قرآن کا اسلوبِ بیان ہے کہ ایک قصہ کئی سورتوں میں بیان ہوتا ہے اور ہر جگہ موقع و محل کی مناسبت سے اس قصے کی جزئیات بیان کر دی جاتی ہیں۔
(۱۸۳) آیت ۸۲
{فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ(۸۲)}
’’اور پھر جب ہمار احکم آ گیا تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا اور اس پر تہ بہ تہ کنکریلے پتھروں کی بارش برسا دی۔‘‘
اور سورۃ الحجر میں ’’اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا‘‘ کے بجائے ’’اَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ‘‘(آیت۷۴)کہا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’عَلَیْھِمْ‘‘میں ضمیر قوم کی طرف لوٹتی ہے کہ جن کا تذکرہ پہلے آ چکا ہے۔ فرمایا: {اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(۵۸)}اور اسی مناسبت سے ضمیر جمع لائی گئی۔ اور اس کی نظیر سورۃ الذاریات کی یہ آیت بھی ہے :
{قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ (۳۲) لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ(۳۳)}
’’انہوںنے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں‘ تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں۔‘‘
یہاں بھی پہلے قوم کا ذکر ہے اور بعد میں ضمیر جمع ہے جو قوم کی طرف لوٹتی ہے۔اور قوم کے ساتھ ان کے مجرم ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ اس عذاب کا باعث بنا۔اور سورئہ ہود میں چونکہ یہ الفاظ (قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ ) نہیں ہیں اس لیے عذاب کی نسبت بستی (قریہ) کی طرف کر دی گئی۔ اور اس لحاظ سے ضمیر مؤنث ( عَالِیَھَا سَافِلَھَا) کا لانا زیادہ مناسب تھا۔ واللہ اعلم!
(۱۸۴) آیت ۹۶ـ۔۹۷
{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(۹۶) اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ۚ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ(۹۷)}
’’اور ہم نے موسیٰ کو بھیجا اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ‘ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف‘ تو انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی ‘اور فرعون کا کوئی حکم بھی درست نہ تھا۔‘‘
اور سورۃ غافر(المؤمن) میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ (۲۳) اِلٰی فِرْعَوْنَ وَھَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ کَذَّابٌ(۲۴)}
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ کو بھیجا اپنی آیات اور کھلی دلیلوں کے ساتھ‘ فرعون‘ ہامان اورقارون کی طرف تو انہوں نے کہا: یہ تو جادوگر ہے‘ جھوٹا ہے۔‘‘
اور سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۶)}
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ کو بھیجا اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو اُسؑ نے کہا کہ مَیں تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اور ان تین آیات سے ملتی جلتی تین اور آیات بھی ہیں۔ سورۃ المؤمنون میں ارشاد فرمایا:
{ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَاَخَاہُ ھٰرُوْنَ ڏ بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ (۴۵) اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَ(۴۶) فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ(۴۷)}
’’پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو بھیجا ‘اپنی آیات اور کھلی دلیلوں کے ساتھ‘ فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف‘ تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ بڑے سرکش لوگ تھے ۔پس انہوں نے کہا: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی قوم ہماری غلامی میں ہے!‘‘
اور سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا:
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ فَظَلَمُوْا بِھَا ۚ} (آیت ۱۰۳)
’’پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان (نشانیوں)کے ساتھ ظلم کیا(ان کا انکار کیا)۔‘‘
اور سورئہ یونس میں ارشادفرمایا:
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ ۢ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَھٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۷۵)}
’’پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور یہ لوگ ایک مجرم قوم تھے۔‘‘
یہاں سوال کی نوعیت یہ ہے کہ کچھ سورتوں میں آیات کے ساتھ ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کا بھی تذکرہ ہے اور کچھ میں نہیں۔ اسی طرح دو سورتوں میں موسیٰؑکے ساتھ ہارونؑ کا ذکر آیا ہے‘ باقی میں نہیں۔جبکہ سورۃ المؤمنون میں دونوں باتوں کا ذکر ہے یعنی ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کا بھی اور ہارون ؑکا بھی‘ تو اس کی کیا وجہ ہے؟
صاحب ’’ملاک التاویل‘‘ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں فرعونیوں کے بُرے طرزِعمل اور قبیح قسم کے جواب نقل کیے گئے وہاں بالمقابل یہ ذکر کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑکی ان کے بھائی ہارون اور اللہ کی متعدد نشانیوں سے مدد کی جن کا اظہار ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ اورجہاں ایسا نہیں ہے تو وہاں یا تو ہارونؑکا ذکر نہیں ہے یا ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔
اضافات از مترجم
صاحب ِ’’ملاک التاویل‘‘ کی وضاحت معاملے کو مزید اُلجھا رہی ہے یا یہ کہ میرا اپنا فہم اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ موسیٰؑ وہ واحد نبی اور رسول ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ۱۳۶ مرتبہ آیا ہے اور ۳۴سورتوں میں موسیٰؑ کی سرگزشت بیان ہوئی ہے۔ ہارونؑ کو حضرت موسیٰؑ کی خواہش اور دعا کے نتیجے میں ان کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اس لیے ان کا ذکر حسب موقع آیا ہے۔ نام کے ساتھ ۱۹ مرتبہ ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورتوں کے اعتبار سے ۱۳ سورتوں میں ان کا ذکر موجود ہے اور ان کا یہ ذکر مندرجہ ذیل مباحث سے متعلق ہے:
(۱) موسیٰؑ کی دعا کہ انہیں ان کے ساتھ ایک معاون کے طور پر بھیجا جائے اور پھر اس دعا کے قبول کیے جانے کا تذکرہ۔
(۲) دونوں کے مابین مکالمات کا بیان۔
(۳) فرعون کی طرف موسیٰ ؑکی معیت میں بھیجے جانے کا تذکرہ۔
(۴) دونوں کو الفرقان عطا کیا گیا۔
(۵) کئی دوسرے انبیاء کے ساتھ ان کے نام کا ذکر کیا گیا۔
(۶) ربّ موسیٰ وہارون کہاگیا۔
(۷) ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان اور اللہ کی طرف سے سلام کا تذکرہ۔
اس تفصیل سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ سرگزشت بنی اسرائیل میں اصل مقصود و محور تو موسیٰؑ ہیں‘ ہارونؑ کا تذکرہ کہیں ضمناً اور کہیں موقع و محل کی مناسبت سے آیا ہے۔
اب رہی دوسری یہ بات کہ موسیٰؑ کو آیات (نشانیوں) اور ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کے ساتھ بھیجا گیا تو بقول مولانا امین احسن اصلاحی آیات سے عام نشانیاں (جن میں قبطیوں اور فرعون پر اتارے جانے والے عذاب شامل ہیں) مراد لی جائیں اور ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ سے حضرت موسیٰؑ کوعطا شدہ سب سے بڑا معجزہ یعنی عصائے موسیٰ مراد لیا جائے تو پھر اس قول کی روشنی میں جہاں ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کے الفاظ نہیں بھی ہیں وہاں اس کی جگہ ’’آیۃ‘‘ ‘ ’’بَیِّنَۃ‘‘ اور ’’الحقّ‘‘ کے الفاظ سےیہی مفہوم ادا کر دیا گیا ہے۔
ملاحظہ ہو کہ بنی اسرائیل اور موسیٰؑ کا قصہ ان سات سورتوں میں قدرے تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے:
البقرۃ ‘ الاعراف ‘ یونس ‘ طٰہٰ ‘ الشعراء ‘ القصص ‘ غافر
حضرت موسیٰؑ کا نام تین مرتبہ سات سورتوں میں‘ دو مرتبہ پانچ سورتوں میں اور ایک ایک مرتبہ پندرہ سورتوں میں لایا گیا ہے۔
اب ہم ان چھ سورتوں کی ان آیات کا تذکرہ کریں گےجو صاحب ’’ملاک التاویل‘‘ نے ذکر کی ہیں‘ اور جس سوال کو اُنہوں نے اٹھایا ہے‘ مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
(۱) سورۃ الاعراف میں موسیٰؑ کا قصہ نہایت تفصیل سے بیان ہوا ہے جو کہ آیت۱۰۳ سے آیت ۱۵۷ تک پھیلا ہوا ہے۔ اور قصے کی تفصیل اس بات کی متقاضی ہے کہ ہارونؑ کا بھی بخوبی تذکرہ ہو۔ ’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْن‘‘ کا لفظ موجود نہیں لیکن اس کی جگہ بَیِّنَۃ (کھلی کھلی نشانی) اٰیَۃ (نشانی) اور معجزہ عصائے موسیٰ کے ظہور کے بعد فَوَقَعَ الْحَقُّ (اور پھر حق ظاہر ہو گیا) کے الفاظ لائے گئے جو سب کے سب ’’سلطان مبین‘‘ پر دلالت کرتے ہیں۔
(۲) سورئہ یونس کی سترہ آیات میں یہ قصہ بیان ہوا ۔ ابتدا میں نوحؑ کا ذکر ہوا اور پھر کہا گیا:
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَاۗءُوْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ} (آیت۷۴)
’’پھر اس کے بعد ہم نے رسول بھیجے ان کی قوموں کی طرف تو وہ ان کے سامنے کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔‘‘
رسولوں کا ذکر صیغہ جمع کے ساتھ کیا گیا تو کم از کم تین رسولوں کا ذکر آ گیا یعنی موسیٰ‘ ہارون اور یونسعلیہم السلام کا۔ اور ’’سلطان مبین‘‘ کی جگہ موسیٰؑ کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے سب سے بڑے معجزے کو ’’الحق‘‘ سے تعبیر کر دیا گیا۔ فرمایا:
{فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ھٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶)}
’’اور جب ہماری طرف سے ان پر حق آ چکا تو انہوں نے کہا :بے شک یہ کھلا کھلا جادو ہے۔‘‘
{قَالَ مُوْسٰٓی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَکُمْ ۭ اَسِحْرٌ ھٰذَا ۭ وَلَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ(۷۷)}
’’موسیٰ نے کہا کہ کیا تم حق کے بارے میں جب وہ تم پر آ چکا‘ کہتے ہو کہ وہ جادو ہے!اور جادوگر تو فلاح نہیں پاتے۔‘‘
(۳) سورئہ ہود کی صرف چار آیات میں موسیٰؑ کے قصے کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اس لیے قصے کے ضروری عناصر کا بیان ہو گیا۔یعنی موسیٰؑ کا عام نشانیوں‘ سلطان مبین (یعنی خاص نشانی) اور فرعون کا ذکر آ گیا۔ اختصار کی بنا پر ہارونؑ کا تذکرہ نہیں ہوا۔
سورۃ المؤمنون میں قصہ موسیٰ ؑکے تمام مرکزی عناصر کا چند آیات میں بیان کر دیا گیا ہے یعنی موسیٰؑ اور ہارونؑ کا بھیجا جانا‘ ان کے ساتھ نشانیوں اور سلطان مبین کا ہونا اور فرعونیوں کا اپنے انجام سے دوچار ہونا۔
(۵) سورۃ غافر میں بھی سورۃ المؤمنون کی طرح آیات‘ سلطان مبین اور فرعون کی طرف بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ ہارونؑ کا ذکر نہیں ہے۔
(۶) سورۃ الزخرف میں ’’اٰیَۃ‘‘ کے اوپر زیادہ زور ہے۔ فرمایا:
{ وَمَا نُرِیْھِمْ مِّنْ اٰیٰۃٍ اِلَّا ھِیَ اَکْبَرُ مِنْ اُخْتِھَا} (آیت ۴۸)
’’اور نہیں دکھاتے ہیں ہم انہیں کوئی نشانی مگر وہ اپنی بہن (اپنے جیسی پہلی نشانی) سے زیادہ بڑی ہوتی تھی۔‘‘
اور خلاصہ کلام یہ ہوا کہ موسیٰؑ وہ واحد نبی ہیں جن کے نام کی صراحت کے ساتھ ان کی داستانِ حیات‘ ان کے مشن اور بنی اسرائیل کے ساتھ ان کی پیہم جدّوجہد کو بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے موضوع کا تنوع اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ مذکورہ بالا نکات کو جگہ جگہ مختلف انداز میں بیان کیا جائے ‘واللہ اعلم!
--- ------------------------------------------
(۱۸۵) آیت ۱۱۷
{وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ(۱۱۷)}
’’اور تیرا رب بستیوں کو ان کے ظلم کی بنا پر ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب کہ وہاں کے لوگ اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘
اور سورۃ القصص میں ارشاد فرمایا:
{ وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا ۚ وَمَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَاَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ(۵۹)}
’’اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک کہ وہاں کی بڑی بستی میں ایک رسول نہ بھیجے جو ان پر ہماری آیات پڑھ کر سنائے‘ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں اِلاّ یہ کہ وہاں کے لوگ ظلم کرنے والے ہوں۔‘‘
دونوں آیات میں کچھ الفاظ کا اختلاف ہے ‘جیسے:

               سورۂ ھود              سورۃ القصص

(۱)          وَمَا کَانَ رَبُّکَ          وَمَا کَانَ رَبُّکَ          

                                      وَمَا کُنَّا

(۲)          لِیُھْلِکَ                  مُھْلِکَ
                                      مُھْلِکِیْ

(۳)          وَاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ        حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا

                                     اِلَّا وَاَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ

تو یہ تین سوال ہوئے۔
پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ سورئہ ہود کی مذکورہ آیت سے قبل ارشاد فرمایا:
{فَلَوْلَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ ۚ } (آیت ۱۱۶)
’’پھر تم سے پہلے کے زمانے میں ایسے صاحبِ خیر لوگ کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد کرنے سے روکتے‘ (ایسے ہوئے) لیکن بہت تھوڑے کہ جنہیں ہم نے بچا لیا۔‘‘
یعنی اگر وہاں ظلم(بمعنی گناہ اور شرک) کرنے والے لوگ تھے تو ایسے لوگ بھی تھے جو خود بھی نیکوکار تھے اور لوگوں کو ظلم کرنے سے روکتے بھی تھے اور ایسی صورت میں ہماری سُنّت یہی ہے کہ ہم ایسی بستی کو ہلاک نہیں کرتے۔ لیکن اکثر ایسا ہوا ‘جیسے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں بتایا گیا:
{کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط} (المائدۃ:۷۹)
’’وہ جس منکر کو کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے۔‘‘
یہاں فعل ’’لِیُھْلِکَ‘‘ لایا گیا ہے جس میں تکرار کا مفہوم ہے۔ یعنی اگر ان میں بُرائی سے روکنے والے لوگ موجود رہتے تو ہم ان بستیوں کو ہلاک نہ کرتے۔ اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی وجہ سے باقی لوگوں پر رحم فرماتا ہے۔لیکن اگر ان کا فساد جاری رہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کو ہلاک کرتا رہتا ہے۔ تو ’’فعل‘‘ کا لایا جانا تکرار چاہتا ہے جبکہ ’’اسم‘‘ میں تکرار نہیں ہے۔ جیسے ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ ڪ} (الملک:۱۹)
’’کیا وہ پرندوں کو نہیں دیکھتے اپنے اوپر صف بستہ پَر پھیلائے ہوئے ہیں اور اس وقت بھی جب وہ پَر سکیڑ لیتے ہیں۔‘‘
یہاں دیکھئے کہ ’’ قابضات‘‘ بطور اسم نہیں لایا گیا بلکہ اس کی جگہ ’’یَقْبِضْنَ‘‘ بطور فعل لایا گیا جس میں تکرار کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔
اب آیئے سورۃ القصص کی آیت کی طرف جس میں بجائے فعل (یُھْلِک) کے اسم (مُھْلِک) لایا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو کہ چند آیات قبل ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(۵۱)} (القصص)
’’اور ہم پے در پے لوگوں کے لیے اپنا کلام لاتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کر لیں۔‘‘
یعنی ایک نبی کے بعد دوسرا نبی بھیجتے رہے تاکہ انہیں یاد دہانی ہوتی رہے‘ اور اس بات کا تذکرہ کئی جگہ پر آیا ہے۔ فرمایا:
{وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ(۲۴)} (فاطر)
’’اور کوئی اُمّت نہیں گزری ہے مگر اس میں ایک ڈرانے والا رہا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (۱۵)} (الاسراء)
’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں حتیٰ کہ ہم ایک رسول نہ بھیج دیں۔‘‘
اور جب اس بات کو واضح کر دیا کہ ہم بار بار یاد دہانی کراتے رہے ہیں تو اس کے بعد اس سُنّت ِالٰہی کا تذکرہ کیا کہ :
{ وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا}
اور یہاں بجائے فعل کے اسم لایا گیا ‘کیونکہ یہاں تکرار مراد نہ تھی بلکہ ایک سُنّت ِثابتہ کا بیان کرنا مقصود تھا۔
رب کی نسبت دونوں آیتوں میں محمدﷺ کی طرف کی گئی ہے جس میں نبیﷺ کی عظمت‘ اللہ کے ہاں ان کی قدر و منزلت کا بیان کرنا مقصود ہے۔ اور ایک لطیف پیرائے میں نبیﷺ اور ان کی اُمّت کو تسلی بھی دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان میں اہل خیر باقی رہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ظلم کی انتہا تک پہنچ جائیں تو پھران پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔اسی آیت میںدوسری مرتبہ {وَمَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی} کہا گیا تاکہ بار بار اسی لفظ کا اعادہ نہ ہو جو پہلے بھی آ چکا ہے اور خاص طور پر جب وہ لفظ اسی آیت میں پہلے آ چکا ہے۔ اس طرح کلام میں تنوع پیدا ہوجاتا ہے جس سے کلام کا حسن اور بڑھ جاتا ہے۔ ہماری اس وضاحت میں تینوں سوالوں کا جواب آ گیا ہے ۔واللہ اعلم!
سُوْرَۃُ یُوْسُف(۱۸۶) آیت۲
{ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (۲)}
’’بے شک ہم نے اسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘
اور سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
{ اِنَّآ جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۳)}
’’بے شک ہم نے اسے قرآنِ عربی بنایا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔‘‘
سوال یہ ہے کہ دونوں آیات کا مضمون ایک ہی ہے لیکن پہلی آیت میں’’اَنْزَلْنٰہُ‘‘کہا گیا اور دوسری آیت میں ’’جَعَلْنٰہُ‘‘ تو اس فرق کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورئہ یوسف کی آیت اس حیرت انگیز قصے سے قبل ایک تمہید کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنےدامن میں ایسے محیر العقول واقعات سمیٹے ہوئے ہے جو اہل عرب اور قریش کے نزدیک غیر معروف تھے۔ اور اہل کتاب تو یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم سوائے ان کے اور کسی کے پاس نہیں ہے تو پھراللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ’’ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا‘‘کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ اے اہل کتاب! اور اے اہل عرب! جان لو کہ محمدﷺ کوئی سنی سنائی بات نہیں کہہ رہے ‘وہ ایسا قصہ بیان کر رہے ہیں جس کی تصدیق اہل کتاب بھی کر رہے ہیں اور یوں اس قصے کا انزال نبیﷺ کی رسالت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
سورۃ الزخرف کاسیاق و سباق بالکل مختلف ہے‘ اس سورت میں سامانِ عبرت بھی ہے اور ایک لطیف پیرائے میں یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ فرمایا:
{اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ(۵)}
’’کیا ہم اس نصیحت کو اس بنا پر تم سے ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو!‘‘
یہ لطافت کاعظیم شاہکار ہے! اور پھر ارشاد فرمایا:
{وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(۹)}
’’اور اگر تم ان سے پوچھو گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ کہیں گے انہیں تو اُس نے پیدا کیا ہے جو غالب ہے‘سب جاننے والا ہے۔‘‘
اور پھر اس سورت کی اکثر آیات میں نصیحت حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کا اسلوب دراز ہوتا جاتا ہے۔ سیبویہ نے ’’جَعَلَ‘‘ کے معانی میں سے ایک معنی یہ بھی بتایا ہے: ـ صَیَّرَ یعنی کسی چیز کو ایک شکل سے دوسری شکل دے دینا۔ جیسے کہا جاتا ہے:’’جَعَلْتُ الطِّینَ خَزَفًا‘‘ مَیں نے مٹی کو ٹھیکرےمیں تبدیل کر دیا۔یعنی یہاں تبدیلی کا مفہوم پایا جاتاہے۔ تو پھر مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس قرآن کو ہدایت اور نور بنا دیا ہے۔اگرچہ اس قرآن سے نصیحت و موعظت حاصل کرنے والے اور عبرت پکڑنے والے عدم سے وجود میں آنے والے ہیں‘ لیکن وجود میں آنے کے بعد وہ اس قابل ہوں گے کہ ان سے خطاب کیا جا سکے۔ اور اس قرآن کی وجہ سے ان کی حالت میں جو تبدیلی واقع ہو گی تو اس لحاظ سے قرآن کے لیے ’’جَعَلْنَا‘‘ کے الفاظ مناسبت رکھتے ہیں ۔لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم ہے‘ مخلوق نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخلوق کا وصف ہے کہ وہ زائل ہو سکے۔اور اس لحاظ سے دونوں آیات اپنی اپنی جگہ گہری مناسبت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم!
(۱۸۷) آیت ۲۲
{ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ۭ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۲۲)}
’’اور جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ گیا ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم سے نوازا۔ اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ القصص میں ارشاد فرمایا:
{وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓی اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ۭ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)}
’’اور جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ گیا اور توانا ہو گیا تو ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم سے نوازا ‘اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
سوال بالکل ظاہر ہے‘ ایک آیت یوسفؑ کے بارے میں ہے اور دوسری موسیٰؑ کے بارے میں‘ لیکن دوسری آیت میں ’’اسْتَوٰٓی‘‘ کا اضافہ ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے‘ واللہ اعلم‘ کہ ’’اَشُدَّہٗ‘‘ (شدید ترین یا مضبوط ہونا)سے عمر کا کون سا حصّہ مراد ہے؟کیا چالیس برس سے پہلے پہلے کا یا چالیس کے بعد کا بھی؟سورۃ الاحقاف میں ارشاد فرمایا:
{حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً} (آیت۱۵)
’’یہاں تک کہ جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچ گیا اور چالیس سال کا ہو گیا۔‘‘
اور اس آیت سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے کہ ’’اَشُدَّہٗ‘‘ کا زمانہ چالیس سے پہلے کا ہے اور پھر اس کے بعد چالیس سال تک پہنچنے کا ذکر ہے۔
پختگی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں انسان کے قویٰ کامل ہو جاتے ہیں ‘ اس کے اعمال میں نظم و ضبط پایا جاتا ہے‘ معاملات کو سلجھانے کا داعیہ موجود رہتا ہے‘ بات چیت کو سمجھنے اور معاملات کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس زمانے کی ابتدا بلوغت سے یا بلوغت سے قبل ہی ہوجایاکرتی ہے‘پھروہ روبہ ترقی کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ عقل کی پختگی حاصل ہو جاتی ہے‘ جسے ’’اَشُدَّہٗ‘‘سے تعبیر کیا گیا ۔اور پھر چالیس برس کا ہو جانا تو عقل کی معراج ہے۔ نبی مکرمﷺ کو چالیس برس ہوتے ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا۔لیکن یحییٰ بن زکریا کے قصے میں کہا گیا:
{وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا(۱۲)} (مریم)
’’اور ہم نے انہیں لڑکپن ہی میں قوتِ فیصلہ سے نوازا تھا۔‘‘
تو ظاہر ہے کہ یہ چالیس برس سے بہت پہلے کی بات ہے‘ اور جب یوسف کو ایک غیر آباد گہرے کنویں میں پھینک دیا گیاتھا تو ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
{وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۱۵)} (یوسف)
’’اور ہم نے اس پر وحی کی کہ تم انہیں (ایک دن) ان کے اس عمل کے بارے میں بتائو گے اور وہ اس کا شعور نہ رکھتے ہوں گے۔‘‘
یہ ان پر ابتداءِ وحی کا زمانہ ہےاور یہ وحی علم و حکمت کے بغیر تو نہیں ہو سکتی۔ موسیٰؑ جب فرعون کے ڈر سے فرار ہوئے تو ان پر وحی کی ابتدا ہو گئی تھی :
{فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَھَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۲۱)}(الشعراء)
’’تو پھر میں نے تم سے راہِ فرار اختیار کی تو اللہ نے مجھے قوتِ فیصلہ سے نوازا اور مجھے رسولوں میں سے (ایک) بنا دیا۔‘‘
اور قرآن ہی کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب وہ شیخ ِمدین کی بیٹی سے نکاح کر چکے تھے اور مصر کی طرف واپس روانہ ہو رہے تھے۔ اور اس سے قبل ان کے ساتھ مصر میں وہ واقعہ ہو چکا تھا کہ جس میں انہوں نے ایک قبطی کو اپنے گھونسے سے موت سے ہمکنار کر دیا تھا او رپھر جب ان کے قتل کیے جانے کی سازش کا انہیں علم ہوا تو وہ مصر سے چلے آئے تھے۔ اور اس طرح ان کی ابتدا ءِ رُشد سے ’’اَشُدَّہٗ‘‘ تک پہنچنے کی داستان کا علم ہو جاتا ہے‘ اور یہاں ان کے قویٰ کے درجہ کمال تک پہنچنے کو ’’اسْتَوٰی‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس کے مقابلے میں جب یوسفؑ پر گہرے کنویں میں وحی کی گئی ‘ تو وہ ’’اَشُدَّہٗ‘‘ کے سن کو تو پہنچ گئے تھے لیکن حالت استواء تک نہیں پہنچے تھے ‘جس کا تذکرہ حضرت موسیٰؑ کے ضمن میں کیا گیا۔ اس لیے یہی مناسب تھا کہ یوسفؑ کے تذکرہ میں لفظ ’’اسْتَوٰی‘‘ استعمال نہ ہو۔ اہل تفسیر نے مجملاً اس بات کا تذکرہ کیا ہے جسے ہم نے کھول کر بیان کر دیا ہے ۔واللہ اعلم!
(۱۸۸) آیت ۱۰۹
{ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَھْلِ الْقُرٰی ۭ}
’’اور ہم نے تمہارے سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد‘ جن پر ہم وحی کرتے تھے‘ بستیوں والوں میں سے۔‘‘
اور سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۳)}
’’اور ہم نے تمہارے سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے‘ تو پھر پوچھ لو یاد کرنے والوں سے اگر تم نہیں ـجانتے۔‘‘
اور سورۃ الانبیاء میں ارشاد فرمایا:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ} (آیت۷)
’’اور ہم نے آپ سے قبل نہیں بھیجے مگر مرد جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔‘‘
اور سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ ۭ } (آیت۲۰)
’’اورآپ سے قبل ہم نے رسولوں کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلا کرتے تھے۔‘‘
اب سوال کرنے والا سوال کر سکتا ہے کہ پہلی دو آیات میں ’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ ارشاد فرمایا اور آخری دو آیات میں ’’مِنْ‘‘ نہیں لایا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب عرض ہے ‘ واللہ اعلم‘ کہ سورئہ یوسف کی مذکورہ آیت سے قبل ارشاد ہوا:
{ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ(۱۰۶)}
’’اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر یہ کہ وہ شرک کیا کرتے تھے۔‘‘
اور پھر فرمایا:
{ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۰۸)}
’’اللہ پاک ہے اور مَیں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
ان آیات میں جوزورِ بیان ہے وہ ایسا ہے جیسے قسم کھائی جا رہی ہو ‘ اور اس مناسبت سے ’’مِنْ‘‘ کا لایا جانا بہتر تھا کہ جو استغراق (یعنی عمومی شمولیت) پر دلالت کرتا ہے ۔اور ایسے ہی سورۃ النحل میں بھی مذکورہ آیت سے قبل ارشاد فرمایا تھا:
{وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ۭ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ۘ } (آیت۴۱)
’’اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم ان کے لیے دنیا میں اچھا ٹھکانا مہیّا کر دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو اور بڑا ہے۔‘‘
اب رہی سورۃ الانبیاء کی آیت تو اس سے قبل کُفّار کا یہ انکار بیان کیا گیا ہے کہ رسول بشر کیسے ہو سکتے ہیں؟ { ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج} (آیت۳)’’کیا وہ نہیں ہے مگر تم جیسا ایک آدمی؟‘‘
اور پھر انہوں نے کسی نشانی کا بھی مطالبہ کیا:
{فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(۵)}
’’تو وہ پھر کوئی نشانی لے کر ہمارے پاس آئیں جیسے پہلے پیغمبر بھیجے گئے تھے۔‘‘
یہاں ان لوگوں کی طرف سے دو باتیں پیش کی گئیں:رسول ہے تو پھر بشر کیوں ہے؟ یعنی اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ اور دوسرے یہ کہ وہ کوئی معجزہ‘ کوئی نشانی ہمیں دکھائے۔ اور ان دونوں اعتراضات کے پیش کرنے والوں کا حال اس آیت کی روشنی میں جان لیا گیا ہے :
{مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰہَا ۚ} (آیت۶)
’’اور ان سےپہلے جو بستیاں ہم نے ہلاک کر دیں وہ ایمان نہیں لائی تھیں۔‘‘
یہ لوگوں کی ایک قسم کا بیان ہو گیا تو دوسری قسم کا بیان بھی ضروری تھا اور وہ یہ کہ آپ سے پہلے جو رسول آئے تھے وہ انسان ہی تھے‘ فرشتے نہ تھے‘ اس لیے نبی مکرمﷺ کو مخاطب کر کے کہا گیا:
{ وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ} (آیت۷)
’’اور ہم نے تم سے قبل نہیں بھیجے مگر مرد جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔‘‘
تو یہاں صرف ’’قَبْلَکَ‘‘ کہا گیا کہ پہلے گروپ کے ضمن میں بھی ’’مَااٰمَنَتْ قَبْلَھُمْ‘‘ کہا گیا تھا۔ یہاں بھی ’’مِن‘‘ کا اضافہ نہیں تھا تو بالمقابل دوسرے گروہ کے لیے بھی ’’مِنْ‘‘ نہیں لایا گیا تاکہ دونوں گروہوں کے بیان میں مماثلت رہے۔
اور یہی معاملہ سورۃ الفرقان کی آیت کا بھی ہے جہاں بھی صرف ’’قَبْلَکَ‘‘ لایاگیا ہے۔ اور وہ اس لیے کہ یہ آیت اس اعتراض کے جواب میں ہے جو اس سے قبل ذکر کی گئی ہے:
{وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ۭ} (آیت۷)
(ترجمہ گزر چکا ہے)
یہاں یہ آیت ان کے اعتراض کے جواب میں آئی ہے‘ اس لیے یہاں قسم والا معاملہ نہیں تھا اور اس لیے ’’مِنْ‘‘ کے اضافے کی ضرورت بھی نہ تھی۔تو واضح ہو گیا کہ جو آیت جیسے آئی ویسے ہی اپنے مقام پر آئی ہے اور انتہائی مناسبت اور عمدگی کے ساتھ آئی ہے۔ واللہ اعلم!
ضمیمہ از قلم مترجم
مناسب معلوم ہوتاہے کہ ’’جَعَلَ‘‘ کے معانی کے بارے میں کچھ مزید تفصیل دی جائے۔ صاحب ِلسان العرب نے ’’جَعَلَ‘‘ کے یہ چند معانی ذکر کیے ہیں:
(۱) اگر اس کا مفعول ایک ہی ہو تو بمعنی : بنایا‘ رکھا‘ پیدا کیا۔شاہد کے طور پر ہم یہ چند آیات نقل کرتے ہیں:
(i){تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا(۲۱)} (الفرقان)

’’برکت والی ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برجیاں بنائیں اور اس میں ایک روشن چراغ اور پُرنور چاند بنایا۔‘‘
(ii){وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ۭ} (الانبیاء:۳۰)
’’اور ہم نے پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کر دیں۔‘‘
(۲) اور اگر اس کے دو مفعول ہوں تو اس کے متعدد معانی ہو سکتے ہیں‘ جیسے ’’صَیَّرَ‘‘ اُسے ایک دوسری حالت میں تبدیل کر دیا:
(i){ لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ(۶۵)} (الواقعۃ)

’’اور اگر ہم چاہیں تو اس (کھیتی) کو چورا چورا کر دیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے رہ جائو۔‘‘
(ii) {اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا } (الزخرف:۳)

بمعنی : ہم نے اسے عربی قرآن میں بیان کیا ہے ۔
(iii)کسی کو نام دینا۔ فرمایا:
{وَجَعَلُوا الْمَلٰئِۗکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭ} (الزخرف:۱۹)

’’اور انہوں نے فرشتوں کو جوکہ رحمٰن کے بندے ہیں‘ مؤنث بنایا۔‘‘
(۳) عراق کے معاصر لغت کے عالم ڈاکٹر فاضل صالح السامرائی نے یہ نکتہ رقم فرمایا ہے کہ ’’خَلَقَ‘‘ کے بعد اگر ’’جَعَلَ‘‘ آئے تو مراد یہ ہوگا کہ ایک چیز کو پہلے اللہ تعالیٰ عدم سے وجود میں لائے اور پھر اس موجود چیز سے دیگر شکلیں بنائیں۔ اس کی قرآن میں متعدد مثالیں ہیں:
(i){وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِھْرًا ۭ } (الفرقان:۵۴)

’’اور وہی ہے جس نے پانی (یعنی نطفہ) سے انسان کو بنایا اور پھر اُسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا۔‘‘
(ii){اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗئِلَ لِتَعَارَفُوْ ا ۭ} (الحجرات:۱۳)

’’بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہیں قوموں اور قبائل میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘
(۴) یہاں ایک اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا} (آیت۱)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‘ جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور (پھر اسی کی جنس سے)اس کا جوڑا پیدا کیا۔‘‘
اور سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا:
{ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا }(آیت۱۸۹)
’’اور وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
یہاں ’’خَلَقَ‘‘ کے بعد ’’جَعَلَ‘‘ آیا ہے تو اس کا معنی بھی سورۃ النساء کی روشنی میں ’’خَلَقَ‘‘ نہیں ہونا چاہیے؟ کیونکہ دونوں آیات بالکل مماثل ہیں۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سورۃ الاعراف میں {وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا} سے سیّدہ حوا مراد نہیں ہیں‘ اس لیے کہ اگر پوری آیت پڑھی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں قصہ کسی اور شخص کا ہے۔ پہلے آیت ملاحظہ ہو:
{ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَاج }
’’اور وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور پھراسی( کی جنس) سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کے ساتھ سکون حاصل کر سکے۔‘‘
{فَلَمَّا تَغَشّٰىھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ۚ}
’’اور پھر جب اسے ڈھانکا (فطری تعلق قائم کیا) تو اسے ہلکا سا حمل ہوا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی۔‘‘
{فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ(۱۸۹)}
’’اور جب وہ (بوجہ حمل) بوجھل ہو گئی تو دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تُو ہمیں بھلا چنگا (بچہ) عطا کرے تو ہم شکر گزار لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
{فَلَمَّآ اٰتٰىھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَاۗءَ فِیْمَآ اٰتٰىھُمَا ۚ فَتَعٰلَی اللہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (۱۹۰)}
’’اور جب اللہ نےان دونوں کو ایک بھلا چنگا (بچہ) عطا کر دیا تو ان دونوں نے جو کچھ اللہ نے انہیں دیا تھا اس میں شریک بنانے شروع کر دیے۔ توپھر جو کچھ وہ شرک کرتے ہیں اللہ اس سے بہت بلند و بالا ہے۔‘‘
یہاں بقول حسن بصریؒ کے ‘شروع میں تو اللہ کی اس سُنّت کا بیان ہوا کہ اللہ نے تمام انسانوں کو ایک شخص یعنی آدم سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا لیکن اس کے بعد انسانوں کی ایک بدخصلت کا ذکر کیا کہ وہ پہلے تو اللہ سے اولاد مانگتے ہیں اور وہ بھی صحت مند اولاد‘ لیکن جب ان کی مراد بَر آتی ہے تو وہ اس کا شرکیہ نام رکھ دیتے ہیں جیسے ’’عبدالعزیٰ‘‘ (عزیٰ بت کا غلام ) یا اس کی صحت و عافیت کی خاطربتوں پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں جو کہ شرک ہے اور اللہ شرک سے بری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان اعمال کی نسبت اللہ کے نبی آدمؑ اور ان کی بیوی حواؑسے نہیں کی جا سکتی‘ اس لیے یہی کہا جائے گا کہ سورۃ النساء کی آیت میں تو اس بات کا بیان ہے کہ دنیا میں انسان کے آنے کی ابتدا کیسے ہوئی لیکن سورۃ الاعراف میں اس بات کا ذکر ہو رہا ہے کہ آدم و حوا کی تخلیق کے بعد اولادِ آدم میں شرک کاآغاز کیسے ہوا۔ یہی قول ابن کثیر نے بھی راجح قرار دیا ہے۔ ہمارا اس آیت کو لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لفظ ’’جَعَل‘‘ سے حضرت آدم کی خلقت کے بعد ایک دوسرے مرحلے کو یاد دلانا مقصود ہے جو عرصہ بعد ظہور پذیر ہوا۔
قرآن کریم میں ’’جَعَل‘‘ کا یہ مفہوم بے شمار آیات میں بیان ہوا ہے۔ ہم یہاں اختصار کی خاطر صرف سورۃ النحل کی چار آیات درج کیے دیتے ہیں جن میں ’’جَعَلَ‘‘ کا لفظ آٹھ دفعہ آیا ہے اور مذکورہ مفہوم (یعنی خَلَقَ کے بعد کا مرحلہ) کی تائید کرتا ہے:
{وَاللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا} (آیت۷۲)
’’اور اللہ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی جوڑے پیدا کیے۔‘‘
{وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً . . . . .} (آیت۷۲)
’’اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے عطا کیے . . . . .‘‘
{وَاللہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ۙ وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ۙ . . . . .} (آیت۷۸)
’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری مائوں کے بطن سے نکالا جب کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے لیے آلہ سماعت‘ آنکھیں اور دل بنائے . . . . .‘‘
{وَاللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا} (آیت۸۰)
’’اور اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو رہائش بنایا۔‘‘
{وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَھَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ اِقَامَتِکُمْ}
’’اور تمہارے لیے چوپائوں کی کھالوں سے وہ کجاوے بنا دیے جو تم اپنے سفر کے دوران اور اپنی اقامت کے دوران بڑے ہلکے محسوس کرتے ہو۔‘‘
{وَاللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلاً} (آیت۸۱)
’’اور اللہ نے جو کچھ پیدا کیا اس میں سے تمہارے لیے کچھ سائے کا باعث بنایا(یعنی پہاڑیاں) ۔‘‘
{وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا} (آیت۸۱)
’’اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائیں(یعنی غار)۔‘‘
{وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ ۭ} (آیت۸۱)
’’اور تمہارے لیے ایسے کرتے بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور ایسی زرہیں بنائیں جو تمہیں لڑائی کی حالت میں بچاتی ہیں۔‘‘
اور مزید شواہد کے لیے سورۃ الروم کی آیت ۲۱ اور ۵۴‘ سورۃ السجدۃ کی آیت۸‘ سورۃ الزمر کی آیت۶‘ سورئہ فاطر کی آیت۱۱‘ سورۃ الفرقان کی آیت۵۴ اور سورۃ الحجرات کی آیت۱۳ ملاحظہ ہوں جہاں پہلے ’’خَلَقَ‘‘ آیا ہے اور پھر ’’جَعَلَ‘‘ کا لفظ لایاگیا ہے۔