(فہم القرآن) ترجمۂ قرآن مجید مع صرفی و نحوی تشریح - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

9 /

ترجمۂ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ یُوسفآیات ۳۶ تا ۴۲{وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ ۭ قَالَ اَحَدُ ھُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰىنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْٓ اَرٰىنِیْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ ۭ نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہٖ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۶) قَالَ لَا یَاْتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا ۭ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ ۭ اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ (۳۷) وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَاۗءِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ۭ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ ط ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ(۳۸) یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (۳۹) مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ۭ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۴۰) یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًا ۚ وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ ۭ قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ(۴۱) وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ ۡ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ(۴۲)}
ترکیب
(آیت۳۸) مِلَّۃَ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے اٰبَاءِ حالت ِجر میں ہے اور اس کا بدل ہونے کی وجہ سے اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ حالت ِجر میں ہیں۔ (آیت۳۹) صَاحِبَانِ کو حرفِ ندا نے نصب دی تو صَاحِبَیْنِ ہوا اور مضاف ہونے کی وجہ سے یٰصَاحِبَیْ ہوا۔پھر آگے ملانے کے لیے ی کو کسرہ دی گئی۔ (آیت۴۲) بِضْعَ ظرف ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے اور سِنِیْنَ تمییز ہے۔
ترجمہ:
وَدَخَلَ :اور داخل ہوئے

مَعَہُ :ان ؑکے ساتھ
السِّجْنَ :قید خانہ میں

فَتَیٰنِ :دو نوجوان
قَالَ اَحَدُ ھُمَآ :کہا دونوں کے ایک نے

اِنِّیْٓ اَرٰىنِیْٓ :کہ مَیں دیکھتا ہوں خود کو
اَعْصِرُ خَمْرًا:(کہ) مَیں نچوڑتا ہوں شراب

وَقَالَ الْاٰخَرُ :اور کہا دوسرے نے
اِنِّیْٓ اَرٰىنِیْٓ :کہ مَیں دیکھتا ہوں خود کو

اَحْمِلُ :(کہ) مَیں اٹھاتا ہوں
فَوْقَ رَاْسِیْ : اپنے سر کے اوپر

خُبْزًا :کچھ روٹیاں
تَاْکُلُ الطَّیْرُ :کھاتے ہیں پرندے

مِنْہُ :اس میں سے
نَبِّئْنَا :آپ خبر دیں ہم کو

بِتَاْوِیْلِہٖ :اس کے انجام (یعنی تعبیر) کی
اِنَّا نَرٰىکَ :بے شک ہم دیکھتے ہیں آپ کو

مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ:خوب کاروں میں سے
قَالَ :انہوںؑ نے کہا

لَا یَاْتِیْکُمَا :نہیں آئے گا تم دونوں کے پاس
طَعَامٌ :وہ کھانا

تُرْزَقٰنِہٖٓ :جو تم دونوں کو دیا جاتا ہے
اِلَّا نَبَّاْتُکُمَا :مگر(یہ کہ) مَیںخبر دے دوں گا تم دونوں کو

بِتَاْوِیْلِہٖ :اس کے انجام (ـیعنی تعبیر)کی
قَبْلَ :اس سےپہلے

اَنْ یَّاْتِیَکُمَا :کہ وہ آئے تمہارے پاس
ذٰلِکُمَا مِمَّا :یہ اس میں سے ہے جس کا

عَلَّمَنِیْ :علم دیا مجھ کو
رَبِّیْ :میرے رب نے

اِنِّیْ تَرَکْتُ :بے شک مَیں نے چھوڑا

مِلَّۃَ قَوْمٍ:اس قوم کے مذہب کو

لَّا یُؤْمِنُوْنَ :جو ایمان نہیں لاتے
بِاللّٰہِ :اللہ پر

وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ :اور وہ لوگ آخرت کا
ھُمْ کٰفِرُوْنَ :ہی انکار کرنے والے ہیں

وَاتَّبَعْتُ :اور مَیں نے پیروی کی
مِلَّۃَ اٰبَاۗءِیْٓ :اپنے آباء و اَجداد کے دین کی

اِبْرٰھِیْمَ:جو ابراہیم ؑ کا ہے
وَاِسْحٰقَ :اور اسحاقؑ کا ہے

وَیَعْقُوْبَ :اور یعقوبؑ کا ہے
مَاکَانَ لَنَآ :نہیں ہے ہمارے لیے

اَنْ نُّشْرِکَ:کہ ہم شریک کریں
بِاللّٰہِ :اللہ کے ساتھ

مِنْ شَیْءٍ :کسی بھی چیز کو
ذٰلِکَ :یہ

مِنْ فَضْلِ اللہِ :اللہ کے فضل میں سے ہے
عَلَیْنَا :ہم پر

وَعَلَی النَّاسِ:اور لوگوں پر
وَلٰکِنَّ :اور لیکن

اَکْثَرَ النَّاسِ :لوگوں کے اکثر
لَا یَشْکُرُوْنَ:شکر نہیں کرتے

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے جیل کے دونوں ساتھیو!
ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ :کیا الگ الگ کئی پرورش کرنے والے

خَیْرٌ :بہتر ہیں
اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ :یا واحد اللہ

الْقَھَّارُ:جو پوری طرح غالب ہے
مَا تَعْبُدُوْنَ :تم لوگ بندگی نہیں کرتے

مِنْ دُوْنِہٖٓ:اس کے علاوہ (کسی کی)
اِلَّآ اَسْمَاۗءً :مگر کچھ ایسے ناموں کی

سَمَّیْتُمُوْھَآ:تم لوگوں نے نام رکھے جن کے

اَنْتُمْ:تم نے

وَاٰبَاۗؤُکُمْ :اور تمہارے آباء و اَجداد نے
مَّآ اَنْزَلَ اللہُ :نہیں اتاری اللہ نے

بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ :جس کی کوئی بھی سند
اِنِ الْحُکْمُ :نہیں ہے فیصلے کا اختیار

اِلَّا لِلہِ:مگر اللہ کا
اَمَرَ :اُس نے حکم دیا

اَ لَّا تَعْبُدُوْٓا :کہ بندگی مت کرو
اِلَّآ اِیَّاہُ :مگر اُسی کی

ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ:یہ ہی سیدھا دین ہے
وَلٰکِنَّ :اور لیکن

اَکْثَرَ النَّاسِ :لوگوں کی اکثریت
لَا یَعْلَمُوْنَ :علم نہیں رکھتی

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے جیل کے دونوں ساتھیو!
اَمَّآ اَحَدُکُمَا :وہ جو ہے تم دونوں کا ایک

فَیَسْقِیْ:تووہ پلائےگا
رَبَّہٗ :اپنے آقا کو

خَمْرًا:شراب
وَاَمَّا الْاٰخَرُ :اوروہ جو ہے دوسرا

فَیُصْلَبُ:تو وہ صلیب دیا جائے گا
فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ :پھر کھائیں گے پرندے

مِنْ رَّاْسِہٖ :اُس کے سر میں سے
قُضِیَ الْاَمْرُ :فیصلہ کیا گیا کام کا

الَّذِیْ فِیْہِ :وہ جس کے بارے میں
تَسْتَفْتِیٰنِ :تم دونوں پوچھتے ہو

وَقَالَ لِلَّذِیْ :اور انہوںؑ نے کہا اس سے جس کے لیے
ظَنَّ :انہوںؑ نے گمان کیا

اَنَّہٗ نَاجٍ: کہ وہ نجات پانے والا ہے
مِّنْہُمَا :دونوں میں سے

اذْکُرْنِیْ:تم ذکر کرنا میرا

عِنْدَ رَبِّکَ :اپنے آقا کے پاس

فَاَنْسٰہُ :توبھلا دیا اس کو
الشَّیْطٰنُ :شیطان نے

ذِکْرَ رَبِّہٖ :اپنے آقا سے ذکر کرنے کو
فَلَبِثَ :تو وہؑ رہے

فِی السِّجْنِ:جیل میں 
بِضْعَ سِنِیْنَ:چند سال (تک)

نوٹ:خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے آیات ۳۷ تا ۴۰ میں جو حضرت یوسفؑ کی تقریر دی گئی ہے وہ اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے۔ بائبل اور تالمود میں کہیں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ وہ حضرت یوسفؑ کو محض ایک دانش مند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں‘ مگر قرآن نہ صرف ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے‘ بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت کا کام انہوں نے قید میں ہی شروع کر دیا تھا۔ پھر حضرت یوسفؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت ِتبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنے خواب کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپؑ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو مَیں تمہیں ضرور بتائوں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ یہ علم مجھے کہاں سے ملا ہے۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے ربّ نے مجھے دیا ہے۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپؑ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی کے دل میں تبلیغ حق کی دھن سمائی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور ایک نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑ پن اور جھگڑالو پن سے انہیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)
آیات ۴۳ تا ۴۹{وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُھُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۭ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(۴۳) قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(۴۴) وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْھُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمْ بِتَاْوِیْلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ(۴۵) یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُھُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۙ لَّعَلِّیْٓ اَرْجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَعْلَمُوْنَ(۴۶) قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْۢبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْکُلُوْنَ (۴۷) ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَھُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(۴۸) ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیْہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیْہِ یَعْصِرُوْنَ(۴۹) }
س م ن
سَمِنَ یَسْمَنُ (س) سِمَنًا وَ سَمَانَۃً : موٹا ہونا‘ فربہ ہونا۔
سَمِیْنٌ ج سِمَانٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : موٹا‘فربہ۔ زیر مطالعہ آیت۴۳
اَسْمَنَ(افعال) اِسْمَانًا: فربہی لانا‘موٹا کرنا۔ {لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ(۷)} (الغاشیۃ) ’’وہ نہ موٹا کرے اور نہ ہی بے نیاز کرے بھوک سے۔‘‘
ع ج ف
عَجِفَ یَعْجَفُ (س) عَجَفًا : دبلا ہونا‘ پتلا یا باریک ہونا۔
عَجِفٌ ج عِجَافٌ (صفت): دبلا۔زیر مطالعہ آیت۴۳۔
غ ی ث
غَاثَ یَغِیْثُ (ض) غَیْثًا : بارش برسانا۔ زیر مطالعہ آیت ۴۹
غَیْثٌ (اسم ذات بھی ہے) :بارش {وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج} (لقمان:۳۴) ’’اور وہ اُتارتا ہے بارش کو۔‘‘
ض غ ث
ضَغَثَ یَضْغَثُ (ف) ضَغْثًا :(۱) بات کو خلط ملط کرنا۔ (۲) سوکھی اور ہری گھاس کو ملانا۔
ضِغْثٌ ج اَضْغَاثٌ :(۱) پراگندہ خیالات۔ زیر مطالعہ آیت۴۴ ۔(۲) سوکھی اور ہری گھاس کا مُٹھا۔ {وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا} (صٓ:۴۴) ’’اور آپؑ پکڑیں اپنے ہاتھ میں ایک مٹھی گھاس۔‘‘
ترجمہ:
وَقَالَ الْمَلِکُ :اور کہا اُس بادشاہ نے

اِنِّیْٓ اَرٰی :کہ مَیں دیکھتا ہوں (خواب میں)
سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ :سات موٹی گائیں

یَّاْکُلُھُنَّ:کھاتی ہیں ان کو
سَبْعٌ عِجَافٌ :سات دبلی (گائیں)

وَّسَبْعَ :اور سات
سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ :سبز خوشے

وَّاُخَرَ:اور دوسرے
یٰبِسٰتٍ :سوکھے

یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ:اے سردارو
اَفْتُوْنِیْ :تم لوگ بتائو مجھ کو

فِیْ رُءْیَایَ:میرے خواب (کے بارے) میں
اِنْ کُنْتُمْ :اگر تم لوگ

لِلرُّءْیَا:خواب کی
تَعْبُرُوْنَ:تعبیر بتاتے ہو

قَالُوْٓا:انہوں نے کہا
اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ:خوابوں کے پراگندہ خیالات ہیں

وَمَا نَحْنُ:اور ہم نہیں ہیں 
بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ:ایسے خوابوں کی تعبیر کے

بِعٰلِمِیْنَ :جاننے والے
وَقَالَ الَّذِیْ :اور کہا اُس نے جس نے

نَجَا مِنْھُمَا :نجات پائی ان دونوں میں سے
وَادَّکَرَ :اور اُس نے یاد کیا

بَعْدَ اُمَّۃٍ :ایک مدّت کے بعد
اَنَا اُنَبِّئُکُمْ :مَیں خبر دوں گا تم لوگوں کو

بِتَاْوِیْلِہٖ :اس کی تعبیر کی
فَاَرْسِلُوْنِ:پس تم لوگ بھیجو مجھ کو

یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ: یوسف! اے سچے!
اَفْتِنَا :آپؑ بتائیں ہم کو

فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ: سات موٹی گائیوں (کے بارے) میں 

یَّاْکُلُھُنَّ:کھاتی ہیں ان کو

سَبْعٌ عِجَافٌ :سات دبلی (گائیں)
وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ :اور سات سبز خوشوں (کے بارے میں)

وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ:اور دوسرے سوکھے
لَّعَلِّیْٓ اَرْجِعُ :شاید مَیں لوٹوں

اِلَی النَّاسِ:لوگوں کی طرف
لَعَلَّھُمْ یَعْلَمُوْنَ:شاید وہ لوگ جان لیں

قَالَ :انہوںؑ نے کہا
تَزْرَعُوْنَ :تم لوگ کھیتی اُگائو گے

سَبْعَ سِنِیْنَ:سات سال
دَاَبًا :لگاتار

فَمَا حَصَدْتُّمْ:پھر جو تم لوگ کاٹو
فَذَرُوْہُ :تو چھوڑ دو اس کو

فِیْ سُنْۢبُلِہٖٓ :اس کے خوشے میں
اِلَّا قَلِیْلًا :مگر تھوڑا سا

مِّمَّا :جن میں سے
تَاْکُلُوْنَ :تم لوگ کھائو گے

ثُمَّ یَاْتِیْ :پھر آئیں گے
مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ :اس کے بعد

سَبْعٌ شِدَادٌ:سات شدید (سال)
یَّاْکُلْنَ مَا :وہ کھائیں گے اس کو جو

قَدَّمْتُمْ:تم لوگوں نے آگے بھیجا (یعنی بچا رکھا)
لَھُنَّ :ان (سالوں) کے لیے

اِلَّا قَلِیْلًا :مگر تھوڑا سا
مِّمَّا :اس میں سے جو

تُحْصِنُوْنَ:تم لوگ محفوظ رکھو گے (بیج کے لیے)
ثُمَّ یَاْتِیْ :پھر آئے گا

مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ:اس کے بعد
عَامٌ فِیْہِ :ایک ایسا سال جس میں

یُغَاثُ النَّاسُ :بارش برسائی جائے گی لوگوں پر

وَفِیْہِ یَعْصِرُوْنَ:اور اس میں وہ لوگ نچوڑیں گے

آیات ۵۰ تا ۵۷{وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَاۗئَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْئَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ ۭ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ(۵۰) قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ ۭ قُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَy ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَاَنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَاۗئِنِیْنَ(۵۲) وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ۭ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ(۵۴) قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَاۗئِنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(۵۵) وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ۚ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَاۗءُ ۭ نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶) وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ(۵۷)}
ب و ل
بَالَ یَبُوْلُ (ن) بَوْلًا : اندر کی چیز کو باہر نکالنا۔ جیسے بلغم تھوکنا‘ ناک صاف کرنا وغیرہ۔
بَالٌ: (۱) دل میں چھپی ہوئی بات‘ حقیقت ۔ زیر مطالعہ آیت۵۰۔ (۲) ظاہری حالت ‘حال۔ {سَیَھْدِیْھِمْ وَیُصْلِحُ بَالَھُمْ(۵)} (محمد) ’’وہ ہدایت دے گا ان کو اور اصلاح کرے گا ان کے حال کی۔‘‘
ح ص ح ص
حَصْحَصَ (رباعی) حَصْحَصَۃً : پوشیدہ بات کا ظاہر ہونا‘ سامنے آنا‘ زیر مطالعہ آیت ۵۱۔
ترکیب
(آیت۵۱) مَا مبتدأ خَطْبُکُنَّ خبر ہے‘ لیکن اِذْ کی وجہ سے اس جملہ اسمیہ کا ترجمہ ماضی میں ہوگا۔ (آیت۵۲) لِیَعْلَمَ کی ضمیر فاعلی عزیز مصر کے لیے ہے۔ اور اَنِّیْ کی ضمیر متکلم حضرت یوسفؑ کے لیے ہے۔ (آیت۵۳) اِلَّا مَا رَحِمَ میں جو مَا ہے‘ اس کے لیے حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی ترجیح یہ ہے کہ اس کو مَا ظرفیہ مانا جائے‘ جیسے مَا دَامَ میں ہے۔
ترجمہ:
وَقَالَ الْمَلِکُ :اور کہا اُس بادشاہ نے

ائْتُوْنِیْ بِہٖ:تم لوگ لائو میرے پاس اس کو
فَلَمَّا جَاۗءَہُ :پھر جب آیا اُنؑ کے پاس

الرَّسُوْلُ:پیغام لانے والا
قَالَ ارْجِعْ :تو انہوںؑ نے کہا:تُو واپس جا

اِلٰی رَبِّکَ:اپنےآقا کی طرف
فَسْئَلْہُ :پھر پوچھ اس سے

مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ:ان عورتوں کی کیا حقیقت ہے جنہوں نے
قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ :کاٹا اپنے ہاتھوں کو

اِنَّ رَبِّیْ :بے شک میرا رب
بِکَیْدِھِنَّ :ان عورتوں کی چالبازی کو

عَلِیْمٌ:جاننے والا ہے
قَالَ :(بادشاہ نے) کہا

مَا خَطْبُکُنَّ : تم عورتوں کا کیامدعا تھا
اِذْ رَاوَدْتُّنَّ :جب تم عورتوں نے پھسلایا

یُوْسُفَ :یوسفؑ کو
عَنْ نَّفْسِہٖ :اس کے نفس سے

قُلْنَ :انہوں نے کہا
حَاشَ لِلہِ :پاکیزگی اللہ کی ہے

مَا عَلِمْنَا :ہم نے نہیں جانی
عَلَیْہِ :اس پر

مِنْ سُوْۗءٍ:کوئی بھی برائی
قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ:کہا عزیز کی عورت نے

الْئٰنَ :اب
حَصْحَصَ الْحَقُّ :سامنے آ گیا حق

اَنَا رَاوَدْتُّہٗ :مَیں نے پھسلایا اس کو
عَنْ نَّفْسِہٖ :اس کے نفس سے

وَاِنَّہٗ:اور بےشک وہ
لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ :یقیناً سچ کہنے والوں سے ہے

ذٰلِکَ :یہ (اس لیے) ہے

لِیَعْلَمَ :تاکہ وہ (عزیز مصر) جان لے

اَنِّیْ:کہ مَیں (یوسفؑ ) نے
لَمْ اَخُنْہُ :اس کی خیانت نہیں کی

بِالْغَیْبِ :پوشیدگی میں
وَاَنَّ اللہَ :اور یہ کہ اللہ

لَا یَھْدِیْ :منزل تک نہیں پہنچاتا
کَیْدَ الْخَاۗئِنِیْنَ :خیانت کرنے والوں کی چال بازی کو

وَمَآ اُبَرِّیُٔ :اور مَیں بَری نہیں کرتا
نَفْسِیْ :اپنےنفس کو

اِنَّ النَّفْسَ :بے شک نفس
لَاَمَّارَۃٌ :یقیناً بار بار اُکسانے والا ہے

بِالسُّوْۗءِ :برائی پر
اِلَّا مَا رَحِمَ :مگر جب رحم کرے

رَبِّیْ:میرا رب
اِنَّ رَبِّیْ :بے شک میرا رب

غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے
وَقَالَ الْمَلِکُ:اور کہا اُس بادشاہ نے

ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ :لائو میرے پاس اس کو
اَسْتَخْلِصْہُ :مَیں چُن لوں گا اس کو

لِنَفْسِیْ :اپنے لیے
فَلَمَّا کَلَّمَہٗ:پھر جب اس نے بات کی انؑ سے

قَالَ اِنَّکَ:تو اُس نے کہا :بے شک تم
الْیَوْمَ :آج سے

لَدَیْنَا :ہمارے پاس
مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ :ایک امانت دار معزز ہو

قَالَ اجْعَلْنِیْ :انہوںؑ نے کہا تم بنا دو مجھ کو
عَلٰی خَزَاۗئِنِ الْاَرْضِ:زمین کے خزانوں پر (وزیر)

اِنِّیْ:بے شک مَیں
حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ:علم رکھنے والا نگران ہوں

وَکَذٰلِکَ :اوراس طرح

مَکَّنَّا :ہم نے اختیار دیا

لِیُوْسُفَ: یوسفؑ کو
فِی الْاَرْضِ :اس سرزمین میں

یَتَبَوَّاُ :(کہ) وہ اقامت اختیار کریں
مِنْھَا :اُس میں سے

حَیْثُ یَشَاۗءُ :جہاں وہ چاہیں
نُصِیْبُ :ہم پہنچاتے ہیں

بِرَحْمَتِنَا :اپنی رحمت کو
مَنْ نَّشَاۗءُ :اسے جسے ہم چاہتے ہیں

وَلَا نُضِیْعُ:اور ہم ضائع نہیں کرتے
اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ :خوب کاروں کے اجر کو

وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ :اور یقیناً آخرت کا اجر
خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ :بہتر ہے ان کے لیے جو

اٰمَنُوْا :ایمان لائے
وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ:اور تقویٰ اختیار کرتے رہے

نوٹ:آیت۵۰ سے ۵۳ تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے اس کا کوئی ذکر بائبل اور تالمود میں نہیں ہے‘ حالانکہ وہ اس قصہ کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسفؑ فوراً چلنے کو تیار ہو گئے۔ تالمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے‘ اس کا بیان ہے کہ بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو۔ چنانچہ شاہی کارندوں نے یوسفؑ کو قید سے نکالا ‘ حجامت بنوائی‘ کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا‘ وہاں زرو جواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسفؑ ہکّا بکّا رہ گیا۔شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تھاتو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سے ہم کلام ہوتا اور ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھئے کہ قرآن ان کی قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب ِنظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کون سی تصویر پیغمبری کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ (تفہیم القرآن)