(ریاست و سیاست) نصب ِامامت اور جدید تصوّراتِ ’’ریاست‘‘ - مکرم محمود

9 /

نصب ِامامت اور جدید تصوّراتِ ’’ریاست‘‘مکرم محمودابتدائیہ
اس تحریر کامطمح نظر یہ ہے کہ ’’امامت‘‘کے مبحث کوسامنے لایاجائے اور دیکھاجائے کہ ہمارے قدیم علماء نے اس مسئلے پرکس جہت سے کلام کیاہے اوردین میں اس امر کی کیااہمیت وضرورت اور کیامقام ومرتبہ ہے‘ تاکہ دین کی جہت اجتماعیت عیاں ہوجائے اور انفرادیت پرستوں پرایک حُجّت ہوجائے۔ ہمارے یہاں ان اہل فکر و دانش میں جو مغربی فکر و علوم اور دور جدید میںمسلمانوں کی پستی اور احیاء کو مو ضوع بناتے ہیں‘ موقف کی تشکیل یا تو مغربی جدیدیت کے ز یر اثر ہوتی ہے یا اس کے ردّ عمل میں۔ دونوں صورتوں میں اَخذ ِ موقف اپنی روایت سے نہیں کیا جاتااور بعد میں استناد کے لیے الہامی اور غیر الہامی متون کو کھنگالا جاتا ہے۔ الہامی متون کا یہ آلاتی استعمال دین کو تعبیرات کا ایک کھیل بنا دیتا ہے۔reductionistic طرز عمل اپنانے کی وجہ سے کبھی ’’انفرادیت‘‘ اور کبھی ’’اجتماعیت‘‘ پر ایک غیر متوازن توجّہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ دورِ جدید سے پہلے ہمارے متون میں اس مبحث کو کیسے برتا جاتا تھا اس کو سامنے لایا جائے۔
پھر تُعرف الاشیاء باضدادھا کے اصول کے مطابق یہ ضروری معلوم ہوا کہ ہم جس جدیدتاریخی عہد میں زیست کرتے ہیں اس عہد کے معماروں اور کاریگروں یعنی مغربی مفکرین کے ہاں اجتماعیت اور ریاست کے مباحث کا مبدأ کیاہے اور وہ اپنی نہادوساخت اورخاص طورپر مقصد و غایت میں ہماری روایت میں پائے جانے والے تصوّرِ نصب ِامامت سے کس حدتک مختلف و متضاد ہے۔ ان کے ہاں ان موضوعات پر تفصیل سے کلام کیاگیاہے جبکہ ہمارے یہاں بحث اجمال کی حدود میں ہی رہی ہے۔ اس کی وجہ بھی آگے بیان کی جائے گی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ معاہدہ عمرانی (Social contract) کا نظریہ ہی وہ تخم ہے جس سے تقریباًتمام مغربی تصوّرات ریاست وسیاست جیسے پھوٹے ہیں۔ یہی وہ اصل خبیث ہے جوجدیدقومی ریاست کووجہ جواز فراہم کرتیْ ہے اور طاقت اور sovereignty کے مرکز کوخدا سے انسان کی طرف منتقل کردیتی ہے۔ اسی لیے ایک اصولی گفتگو کے بعد اس نظریے کی بنیادی ساخت اور اساطین پر اختصار سے کلام کیاگیاہے۔
پھرایک اہم موضوع یہ ہے کہ کیا جدید ’’اسلامی ریاست ــــ‘‘ممکن ہے؟ اس پرکچھ اصولی باتیں وائل حلاق کے نظریات کوسامنے رکھ کر کی گئی ہیں۔ ہماری قدیم کتابوں میں حکمت عملی اور حکمت نظری کی ایک مفید تقسیم کی جاتی رہی ہے جس کے ضمن میں سیاست ِمدن کامبحث بھی آتاہے۔ اس کا تذکرہ بھی کیاگیاہے۔ آخر میں نصب ِامامت کے وجوب پرکتب عقیدہ وکلام سے چند اقتباسات کاترجمہ دیاگیاہے۔ خاص طورپرامام غزالی ؒ کی الاقتصاد کانصب امام کے وجوب پرباب لائق دیدہے۔ کوشش یہ کی گئی ہے کہ کچھ مباحث کو سامنے لایاجائے اور اگرضمنی طور پر کچھ نتائج سامنے آتے ہیں توان کو بھی دیکھ لیا جائے۔ بالکل متضاد تصوّرات کو بیک وقت سامنے لاناا ن کے تضاد کے اظہار کے لیے کافی ہوجاتاہے اور تضادات کو الگ سے نذرِ قلم کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی۔ دورِ حاضر میں نصب ِ امامت کے امکانات اور طریقہ کار پر بوجوہ بحث نہیں کی گئی۔
اصولی بحث
انسانی ارادہ جانب ِوجود اور جانب ِعدم‘ ہردوجہات سے عمل سے متعلق ہوتاہے یعنی کچھ کرنے اور نہ کرنے کی جہت سے۔ آسان الفاظ میں کہاجائے توانسان نے اس جہان میں کچھ کرناہے اورکچھ نہیں کرنا۔انسانی ارادہ کسی عمل سے جانب ِوجود سے متعلق ہواور کسی عمل سے جانب ِعدم سے اس کاتعلق انسان کے اعتقاد سے ہے۔ مبدأ اور معاد کے بارے میں انسان کااعتقاداس کے عمل کومتعین کرتاہے۔ یعنی انسان کو کیاکرنااور کیانہیں کرناچاہیے؟ یہ سوال ان دوسوالات کی فرع ہے کہ مَیں کہاں سے آیاہوں اور مجھے کہاں جانا ہے؟ ان دوسوالات کے جوبھی جوابات انسانی شعور قبول یاتخلیق کرے گاوہ اس کے عمل کی جہت کا تعین کریں گے۔ ا س لیے کہاجاسکتاہے کہ انسانی اعمال کا تعلق فروعات سے ہے‘ اصول سے نہیں۔ اب چاہے وہ عمل سیاسی ہو‘معاشرتی ہویاانفرادی‘یعنی اس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوکہ اس کے نفس کے نفع یاضرر‘کمال یانقصان کاباعث بنے‘ یااس کاتعلق انسانوں کے باہمی تعلقات سے ہویاانسانوں کے نظم اجتماعی سے‘ یہ سب اعمال فروعی ہیں اور اعتقاد کے تابع ہیں۔ اعتقاد وجودی بھی ہوتاہے‘ عدمی بھی‘ مثبت بھی ہوتاہے‘ منفی بھی۔ اگر میں اس بات کو مانتاہوںکہ میں باتفاق وجود میں آگیااور موت کامطلب مٹّی میں مل کر مٹّی ہوجاناہے تویہ مبدأ اور معاد کے بارے میں میرے اعتقاد کا بیان ہے۔
یہاں اصول کو ہم درجہ اعتقادپر رکھ رہے ہیں اور فروع کو درجہ اعما ل پر۔ فروعات تابع اصول ہوتی ہیں یعنی عمل تابع اعتقاد ہوتاہے (یہ کوئی لازمی امرنہیں‘ بعض اوقات عمل خلافِ اعتقاد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ معتقدات کا دل میں راسخ نہ ہونا یا دوسرے اسباب و بواعث ِاعمال مثلاًجبلّت وشہوت کا غلبہ ہوجاناہے۔) بات کہنے کی یہ ہے کہ علمِ عمران ہو‘ علمِ معاملات ہو‘ علمِ سیاست وریاست ہو‘ یہ سب علوم اور ان میں زیربحث مسائل فروعی ہیں‘ اصولی نہیں۔ ان کو اصول بنالینااصول وفروع میں پائی جانے والی اس فطری تفریق کو برقرار نہ رکھ سکنے کا‘ مبدأ ومعاد کے سوال کو دیس نکالادے ڈالنے کا‘ مبحث ِوجود اور حقیقت ِوجود کوپس ِپشت ڈال دینے کا اور انسان پرستی کافطری نتیجہ ہے۔ اور یہی عہدِ جدید کے معماروںکے ہاں ہوا۔ اسی لیے ہمارے ہاں کتب عقیدہ وکلام میں امامت کی بحث آخر میں ضمناًآتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسئلہ عملی وفرعی ہے۔ ان کتب میں امامت کی بحث کے ادخال کی علماء دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ایک تویہ کہ کچھ باطل فرقوں نے امامت کو اصل من اصول الدِّین قرار دیا اور اس کے نصب کو اللہ پرواجب ٹھہرایا (مراد اہل تشیع ہیں) ان کارد کیاجائے۔ دوسرا یہ کہ کچھ لوگوں کے ہاں یہ مبحث ایک خالص سیاسی مبحث ہے کہ گویادین کے عملی احکامات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا بھی ردّ کیاجائے اور بتایا جائے کہ فروعاتِ دین میںاس مسئلے کا ثبوت متعدد دلائل سے ظاہر وباہر ہے۔ اور یہ کہ دین کے بہت سے اجتماعی احکامات پر عملدرآمد اس کے بغیربالکل ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ہمارے علماء نے اس پرعند الامکان وجوب کا حکم لگایا ہے۔ جیسا کہ آخر میں آنے والے اقتباسات سے’ ان شاء اللہ‘ معلوم ہوجائے گا۔ غور کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس مبحث (نصب ِامامت) کی بنیاد بھی دینی معتقدات ہیں اوراس کی غایت بھی دین کا قیام‘ نظم وانتظام او ر تنفیذ ِاحکام تشریعیہ ہے۔
مغربی سیاسی مفکرین نے انسانوں کے اجتماعی اور سیاسی مسائل کواصولی قرار دیا‘ کیونکہ انسان اور اس دنیا کی اہمیت دوچندہوگئی تھی اور مبدأ ومعاد کے بارے میں کوئی مثبت اعتقاد باقی نہ رہا تھا۔ اصل مسئلہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ انسانوںکے اجتماعی معاملات کو اس طریقے پرمنظّم کیاجائے کہ انسانی حقوق اور آزادی کی بہترین طریقے پر حفاظت ہو اورا یسی ہیئت ِاجتماعیہ یاریاست کو ناگزیربنیادوں پر اختیار کیاجائے کہ انسانوں کی خود ارادیت اور قائم بالذاتیت (Self Determination and Autonomy) پر حرف نہ آئے۔ ان کے ہاں اگر اختلاف ہے تو اسی بات پر ہے کہ یہ خود ارادیت اور قائم بالذاتیت انفرادی ہوگی یااجتماعی۔یعنی انسانی انفرادیت کی اہمیت زیادہ ہے یاانسانی اجتماعیت کی؟ بالفاظِ دیگر انسان بحیثیت فردمقصود بالذات ہے یا بحیثیت نوع؟ اگرنوع کومقصود بالذات مانا جائے توپھر یہ سوال جنم لیتاہے کہ نوعی مفادات کاتعین کون کرے گا؟ اس کا جواب یہی دیاجاتاکہ اہل جاہ و دانش یاوہ ناگزیر مرکزی قوتِ قاہرہ ونافذہ (ریاست) جسے انسان اپنے اجتماعی معاہدے سے جنم دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام انسانuniversal reason رکھنے کے باوجود اس کے استعمال میں یکساں نہیں ہوتے اور ذاتی اوراجتماعی مفاد کاخود تعین نہیں کرپاتے۔ انفرادیت پسندوں کے ہاںاس بات پر زور ہے کہ آزادی کا ایک ایسا دائرہ (Area of non encroachment) بہرحال ہونا چاہیے جہاں کوئی خارجی دخل اندازی نہ ہو اور انسان اپنی آزادی کا اظہارجس طریقے پر چاہے کر سکے۔ مگراجتماعیت پسند یہ کہتے ہیں کہ انسانوں کو صرف آزادی ہی نہیں دینی بلکہ آزادی کے استعمال کے صحیح طریقے بھی بتلانے ہیں کہ سب انسان اس قابل نہیں ہوتے کہ ان طرق کا علم ازخود حاصل کرپائیں۔ یہ وہی اختلاف ہے جسے ہم آزادی کے مثبت تصوّر(Positive conception of freedom) اور آزادی کے منفی تصوّر (Negative conception of freedom) کے عنوان سے جانتے ہیں۔ انفرادیت پرستوں کے ہاں منفی جبکہ اجتماعیت پسندوں کے ہاں مثبت تصوّرِ آزادی پر زور ہے۔ اس اختلاف کی تفہیم وہ بنیادی کلید فراہم کرتی ہے جس سے مغرب کے اکثر معاشی‘ عمرانی اور سیاسی نظریات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اگر کہیں بظاہر شدید اختلاف بھی نظر آتاہے‘ مثلاًسرمایہ داری اور اشتراکیت کا‘ تو وہ بھی آزادی کی تعبیر پرہے‘ نفس آزادی کاقدرِ اعلیٰ اور اصلی ہونے پر نہیں۔ اب معاہدۂ عمرانی کے حوالے سے اختصار سے کچھ عرض کیاجاتاہے۔
معاہدئہ عمرانی Social Contract
مغربی فلسفہ ٔریاست کے بنیادی سوالات یہ ہیں کہ ریاست کی وجہِ جواز کیا ہے؟ ریاست کی طاقت کی حدود کیا ہیں؟ فرد اور ریاست کا تعلق کیا ہے؟ وہ کون سا موقع ہو گا اور کون کون سی شرائط پوری ہوں گی تو ریاست کے خلاف خروج اور اس کو الٹنے کی کدوکاوش جائز قرار دی جائے گی؟ معاہدۂ عمرانی (social contract)کا نظریہ ان تمام سوالات کے جوابات دینے اور ان کو ایک خاص تناظر میں سمجھنے کا سب سے مقبول مغربی کلاسیکی سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ریاست کے وجود کا جواز اور اس کی حدودِ طاقت کا تعین‘ شہریوں کا شہریوں اور حاکم کے ساتھ ایک حقیقی یا فرضی سماجی معاہدہ ہے۔(۱)
اس نظریے کو بیان کرنے والے تین بڑے سیاسی فلسفیThomas Hobbes (1588-1679), John Locke (1632-1704) اور Jean Jacques Rousseau (1712-1778) ہیں۔ ان مفکرین کے خیال میں تہذیب و تمدن کا قیام اور ریاست کا وجود اس سماجی معاہدہ کا نتیجہ ہے۔ یہ اس معاہدے سے پہلے ایک مفروضہ فطری حالت (state of nature) کے قائل ہیں جو تہذیب سے عاری اور سیاست سے خالی تھی۔ اس فطری حالت کے بارے میں ان تینوں کے نظریات مختلف ہیں۔ اس کا ہم آگے تذکرہ کریں گے۔
اس فطری حالت کو برقرار رکھنا انسان کے سماجی تعلقات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا۔ انسانوں کے مزاجوں اور مفادات کے اختلافات باہمی مخاصمت اور جنگ و جدال کو جنم دیتے ہیں۔ اس سے نکلنے کے لیے ایک عمرانی معاہدہ کیا جاتا ہے اور ہر انسان اپنے کچھ حقوق کو اس شرط پر قربان کرنے کے لیے تیّار ہوتا ہے کہ معاہدہ کے تمام فریقین یہی کام انجام دیں گے۔ حقوق کی یہی قربانی ایک مرکزی قوتِ قاہرہ و نافذہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے جسے ریاست کہا جا تا ہے۔ یہ مرکزی طاقت یا ریاست اپنے کو وجود بخشنے والوںکو عوض کے طور پر بہت سے فوائد فراہم کرتی ہے اور حفاظت و امن و امان کی ذمہ داری کا بار اٹھاتی ہے‘ یعنی ریاست انسانی تہذیب اور معاشرے کی حفاظت کا سبب قرار پاتی ہے۔ اور ان فوائد اور مقاصد کا حصول بنیادی حقوق میں سے کچھ کو قربان کیے بغیر نہ ہو سکتا تھا۔ یعنی انسان کی بنیادی ترین قدر آزادی کی حفاظت اس کے کچھ حصّہ کو قربان کیے بغیر ممکن نہ تھی۔
اس فطری حالت کے حوالے سے تھامس ہابس کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ایک جنگ اور انارکی کی حالت ہے۔
( a war of all against all)۔ اس میں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں ہوتی جو اس کے تدارک کا بندوبست کرسکے۔ ایسی صورت حال میں انسانوں کے لیے یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ وہ ایک عمرانی معاہدہ کریں اور ایک مرکزی طاقت کو مختارِ کل قرار دے کر اپنی حفاظت اور امن کا بندوبست کریں۔ ہابس اس طاقت کو مطلق العنان قرار دیتا ہے۔ اس کی کتاب Leviathan (جس میں اس نے یہ نظریات بیان کیے ہیں) کا مطلب ہی ’’قوی الجثہ دیو‘‘ ہے۔ اس مرکزی قوتِ قاہرہ اور نافذہ کے خلاف خروج صرف اُس وقت جائز ہوگا جب وہ اپنے بنیادی وظیفے یعنی حفاظت اور امن و امان کے قیام کو انجام نہ دے سکے۔
John Locke کے خیال میں انسانوں کو کچھ فطری حقوق حاصل ہیں۔ ان میں وہ بنیادی طور پر تین کا ذکر کرتا ہے:
۱) حق ِحیات (Right to life)
۲) حق ِآزادی (اظہارِ رائے اور عمل کی آزادی Right to liberty)
۳) حق ِملکیت (Right to property)
ان حقوقِ فطریہ کی بہتر حفاظت اور ان کے استعمال کے مواقع وہ مرکزی قوت فراہم کرتی ہے جو معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور جسے ریاست کہا جاتا ہے۔ اس طاقت کی حدود کا تعین اس کے بنیادی مقصد سے ہوتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد بنیادی حقوق کی مساوات کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کے خلاف بغاوت کا جواز تبھی پیدا ہوگا اگر وہ اپنے اس بنیادی وظیفے کو انجام نہ دے پائے۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ جان لاک کے نظریات کا اثر American Declaration of Independenceپر بہت زیادہ ہے۔
روسو Noble Savage (مقدّس حیوان) کے تصوّر کا قائل ہے اور سمجھتا ہے کہ ’’فطری حالت‘‘ ایک پُرامن حالت ہے۔ بہت سے انسانی رذائل پیدا ہی انسانی اجتماع سے ہوتے ہیں‘ ان کو انسانی اجتماع سے قبل کی فطری حالت میں تلاش کرنا فعلِ عبث ہے۔ مگر انسان کو اپنی ضروریات و حاجات کی تکمیل کے لیے دوسروں سے متعلق ہونا پڑتا ہے۔ مزاجوں اور مفادات کے اختلاف کے نتیجے میں تصادم لازماً پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں عمرانی معاہدہ ناگزیر ٹھہرتا ہے تاکہ انسانوں کے باہمی اختلافات کو دور کیا جائے۔ وہ ریاست اور افراد کی آزادی اور اختیار میں کوئی نسبت ِ تضاد نہیں پاتا۔ مرکزی قوتِ قاہرہ و نافذہ general will ہی کی نمائندہ ہوتی ہے۔ افراد کی انفرادی آزادی و اختیار اس general will ہی میں مضمر ہوتا ہے۔General willکسی قوم کے یا ایک ریاست کے شہریوں کے اجتماعی مفادات و مصالح ہی کا دوسرا عنوان ہے۔ اگر فرد کی انفرادی آزادی اس general will کے خلاف ہو جائے تو فرد پر ریاست کے جبر کا جواز فراہم ہو جاتا ہے۔ اور اگر مرکزی طاقت general will کی نمائندہ نہ رہے بلکہ اپنے مفاد کا سوچے تو بغاوت و خروج کا جواز جنم لیتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ لاک اور ہابز کے تصوّرات سے مطلق العنان ریاست جنم لے سکتی ہے مگر روسو کے تصوّرات اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ مگر یہ مغالطہ will of all اور general will میں فرق نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔Will of all انسانوں کی انفرادی ارادوں اور خواہشات کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک descriptive بیان ہے (یعنی ’’کیا ہے‘‘ کو ظاہر کرتا ہے) جبکہ general will ایک normative بیان ہے (جو ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کو ظاہر کرتا ہے)۔ Will of all اور general will میں اگر تضاد پیدا ہوگا تو Will of all کو طاقت کے استعمال سے general will کے مطابق بنایا جائے گا۔ طاقت کا استعمال ضرورت کے مطابق کیا جائے گا۔ جہاں physical طاقت سے کام چلے گا وہاں اس کو استعمال کیا جائے گااور جہاں soft یا smart power
کی احتیاج ہوگی وہاں اس کو کام میں لایا جائے گا۔ گویا یہ بات جدید ریاست کے بارے میں درست ہے کہ
"Sovereignty belongs to modern state."۔۔۔ Sovereigntyکا یہ تصوّر ہی اس بنیادی فرق کو ظاہر کرتا ہے جو جدید ریاست اور اسلامی حکومت کے درمیان ہے اور اسی سے وہ اعتراض بھی سمجھ میں آتا ہے جو ’’اسلامی ریاست‘‘ کے تصوّر پر کیا جاتا ہے کہ ریاست ایک جدید Eurocentricتصوّر ہے‘ جیسےCarl Shmittنے کہا کہ: "State is only possible in the west" اور یہ کہ تصوّراتِ ریاست secularized theological concepts ہیں۔(۲) یعنی ریاست نے خدا کی جگہ لے لی ہے اور وہ کسی دوسرے کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتی۔ اور ’’ریاست‘‘ ایک بامعنی اور اقداری اصطلاح ہے اور ریاست کہتے ہی اس کو ہیں جو absolute power رکھتی ہے۔Max Weberنے بھی ریاست کو "monopoly of violence"سے تعبیر کیا ہے۔(۳) تشدد کا اختیار ریاست کے پاس ہے اور اس کا جواز اس کو قانون فراہم کرتا ہے‘ وہ قانون جو خود جدید ریاست ہی کی تخلیق ہے۔ Max Weber کے خیال میں جدید ریاست کی تعریف اس کے مقصد یا غایت کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اختیار کو دیکھ کر کی جاتی ہے اور وہ اختیار بنیادی طور پر تشدد کا اختیار ہے جس کا جواز وہ اپنے باہر سے اخذ نہیں کرتی بلکہ اس کا جواز وہ خود ہے۔
یہ ہم دیکھ آئے ہیںکہ معاہدۂ عمرانی ہی جدید ریاست کی تخلیق کی بنیاد بنا ہے۔(۴) جب ایک دفعہ انسانوں کی اجتماعیت معاہدہ کے نتیجے میں اختیار مرکزی قوتِ قاہرہ و نافذہ کو سونپ دیتی ہے تو ریاست وجود میں آتی ہے جو اَفراد سے بالکل الگ وجود کی حامل ہوتی ہے۔ آسمانی بادشاہ (خدا) کا تصوّر ہی زمینی بادشاہ کی مرکزی طاقت کی شان و شوکت کو ماند کرتا تھا۔ جب آسمانی بادشاہ کا تصوّر بے وقعت ہو گیا اور حکومت کرنے والوں کو حکومت کرنے کا جواز آسمان کے بجائے زمین سے ملنے لگا‘وہ زمین جو اُن کے پاؤں کے نیچے ہے تو حکومت کرنے والوں اور مرکزی طاقتوں نے ہی خدائی کا اعلان کر دیا اور کسی اور طاقت کو ماننے سے انکار کر دیا۔
اب رہی بات ان norms اور معیارات کی جن کی بنیاد پر جدید ریاست طاقت کا استعمال کرتی ہے تو وہ ان عقائد و نظریات سے جنم لیتے ہیں جو Modern Project یا Project of Enlightenment نے فراہم کیے ہیں۔ یہ عقائدو نظریات الوہیت ِ انسانی‘ ترقی‘ آزادی (Human Soveriegnity, (Unrestrained Progress, Unlimited Freedom) ہیں۔ ان کی خارجی manifestation مارکیٹ ہے۔(۵) یعنی مارکیٹ ان معیارات کی واحد شکل ہے جو ریاست کی حدود و دائرہ کار کو متعین کرتے ہیں۔ خاص طور پر مارکیٹ کی Globalization کے بعد عہد Neo liberalismمیں مارکیٹ کی شرائط پرریاست اور مارکیٹ کے درمیان معاہدہ طے پاچکا ہے۔ گویابات نیشن سٹیٹس سے آگے جاچکی ہے۔(۶)
ویسے یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ جب ’’سسٹم‘‘ کی بحث کی جاتی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اپنی حقیقت و ماہیت میں کیا ہے تو کہاجاتاہے کہ ’’سسٹم‘‘ وہ ہے جوطاقت کے تمام اداروں کو ایک نظم میں لے آئے۔ یہاں یہ سوال جنم لیتاہے کہ سسٹم کاخارجی مظہر ریاست ہے یا مارکیٹ؟ اس کے دونوں جوابات دیے جاتے ہیں‘ مگر اس عہد neo liberalism میں پلڑا مارکیٹ کی طرف جھکا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یہ بحث اس وقت مقصودنہیں ہے۔ اب وائل حلاق صاحب کے تصوّرِ ناممکن ریاست کاایک مختصر بیان کیاجاتاہے جوبعض پہلوئوں سے بہت مفید ہے۔
ناممکن ریاست(The Impossible State)
وائل حلاق کی Impossible State"ـ"The ایک اہم سوال اٹھاتی ہے کہ کیا’’اسلامی ریاست ‘‘ممکن ہے؟ حلاق کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جدیدقومی ریاست او ر جدیدشہری دونوں ایک خاص تاریخی‘ نظریاتی اور جغرافیائی عمل کے نتائج ہیں۔ جدیدقومی ریاست اپنی ایک منفرد اٹھان اور متعین خصوصیات رکھتی ہے۔ یہ خصوصیات وصفات ہی جدید ریاست کی تحدید کرتی ہیں۔ جدید ریاست ایک خاص تصوّرِ انسان رکھتی ہے۔ ریاستی مشینی ڈھانچے میں وہی لوگ’’ کارآمد‘‘ہوتے ہیں اور وہی کھپ سکتے ہیں جواس تصوّرِ انسان پر مبنی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ انسانوں نے ایک خاص تاریخی اور نظریاتی صورت حال میں ریاست کو جنم دیا اور ریاست سے’’ شہری‘‘ کی تولید ہوئی۔ جدیدریاستوں میں روایتی انسان نہیں جدید شہری پائے جاتے ہیں۔ اخلاق اور قانون میں ایک حد ِفاصل قائم کردی جاتی ہے اور قانون کو اَخلاق پرحکمران قرار دیا جاتا ہے۔ حلاق کے خیال میں ’’اسلامی حکومت‘‘ جو ماضی میں رہی ہے اس سے بالکلیہ ایک مختلف چیزہے۔ اس لیے ’’اسلامی ریاست‘‘ ایک ناممکن ریاست ہے کہ ’’اسلامی‘‘ اور ’’ریاست‘‘ (جدید معانی میں) کا اجتماع‘ اجتماعِ ضدین ہے۔ اسلامی نظام ِحکومت میں اختیارِ تقنین (Legislation) صرف خدا کے پاس تھا اور قانون اور اخلاق میں کوئی دوئی متصور نہ تھی‘ کیونکہ دونوں کا منبع ایک تھا۔ اگر کسی ضرورت کے تحت دوئی پید اکی بھی جائے توگویاقانون اخلاق کے تابع تھا۔ یعنی اخلاق او ر قانون کااجتماع جوکل بناتاتھا وہ اخلاقی تھا۔ حلاق کے خیال میں جدید ریاست ایک وحدت ہے۔ Separation of powerکی جوبات جدیدریاست کے حوالے سے کی جاتی ہے وہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ تاریخ میں اگر کہیں صحیح معنی میں Separation of powerپائی جاتی تھی تووہ اسلامی نظام حکومت تھا۔ بہرحال اسلامی حکومت کیاتھی یاکیانہیں یہ جاننے کے لیے ہمیں حلاق صاحب کی احتیاج نہیں‘ مگر جدیدریاست پر اُس نے مفید گفتگو کی ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ ان پانچ ساختی خصوصیات کاذکر کرتے ہیں جو حلاق صاحب نے جدید ریاست کی بیان کی ہیں:
(۱) جدیدقومی ریاست ایک خاص تاریخی Euro centric (یورپ مرکز) صورت حال کانتیجہ ہے۔ ریاست کے بارے میں علم سیاسیات کے ڈسکورس میں یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کاوش کی جاتی ہے کہ یہ ایک مجرد‘ ماورائی اور لازمانی چیز ہے۔
(۲) جدیدریاست sovereignہے یعنی کلی طور پر خودمختار ہے۔ قانون اسیsovereign کے ارادے کا اظہار ہے۔ گویا جدید ریاست نے خدا کی جگہ لے لی ہے۔ یہیں سے’’ شہری‘‘ کے لیے ’’قربانی‘‘ کاتصوّر جنم لیتاہے کہ کسی بھی شہری کی جان سے واحد چیزجوزیادہ قیمتی ہے وہ ریاست کاوجود اور سا لمیت ہے۔
(۳) تقنین (تشکیل وایجادِ قانون) اور تشدد کاکامل اختیار ریاست کے پا س ہے۔ یہ قانون ہی ہے جوشہریوں کی ’’آزادی‘‘ کوممکن بناتا ہے۔اور یہی ان کی آزادی کو محدود کرتاہے۔ Libertyاور Sovereignty ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ قانون کانفاذ جبر کے بغیر نہیں ہوسکتا۔یہ Monopoly of voilence ہی ہے جوریاست کو قانون بنانے اوراس کے نفاذ کی طاقت فراہم کرتی ہے۔
(۴) ریاست ایک ایسے عقلی‘ انتظامی ڈھانچے کی حامل ہوتی ہے جوکسی مشین کی طرح کام کرتا ہے اور جسے بیوروکریسی(Bureaucracy) کہاجاتاہے۔ (جس طرح مشین میں کوئی ’’انسانی صفات‘‘ نہیں پائی جاتیں اسی طرح بیوروکریسی بھی ان صفات سے بالکلیہ عاری ہوتی ہے اور اپنے اندر بسنے اور کارِمعاش انجام دینے والوں کو بھی dehumanizeکردیتی ہے۔) بیوروکریسی ہی وہ tool اور ذریعہ انتظام ہے جس کے ذریعے جدید ریاست اپنی حاکمیت مطلقہ کوقائم اور جبرکونافذ رکھتی ہے۔
(۵) معاشرہ جدید ریاست سے الگ اپناوجود نہیں رکھتایارکھ سکتا۔ اس کو Politicization of the Cultural/Socialکہا جاتا ہے۔ جدید ریاست گویاہرجگہ موجودہے اور ایک وحدتِ کلی کی مانند ہے جو فرد‘ معاشرہ‘ تمدن‘ ثقافت اور تہذیب سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
حلاق کے جدید ریاست کے بارے میں اس بیان سے کچھ جہات اور اس کی Practical Implications کے حوالے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس میں ان مفکرین کے لیے غوروفکر کا سامان ہے جو جدید ریاست اور اس کے اداروں کو غیر اقداری چیز سمجھتے ہیں اور ان کو ’’انسانیت‘‘ کے مجموعی ’’عمرانی ارتقاء‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
اب ہم ’’نصب ِ امامت‘‘ کی بحث کی طرف جانے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری روایت میں سیاست کو انسانی علم وحکمت اور انسانی ضرورتوں سے متعلق کرکے کس طرح دیکھا گیا ہے۔ سیاست ِمدینہ کو حکمت عملی کے ضمن میں ہمارے قدیم حکماء واہل دانش سمجھتے آئے ہیں۔ حکمت ِعملی اور حکمت ِنظری کی جس تقسیم کاہم آگے ذکرکریں گے یہ قدیم فلاسفہ کے ہاںبھی پائی جاتی ہے اور ہمارے علماء اور حکماء نے اس کے مفید ہونے کے سبب اس کو قبول کیا ہے اور اس کے تحت علوم کی تقسیم کی ہے۔
حکمت اور سیاست ِمُدن
حکمت بہت سے معانی میں مستعمل ہے مگر اس کی ایک تعریف یہ ہے کہ حکمت حقائقِ موجودہ کے علم کو کہتے ہیں۔ وہ علم جو شے اور واقعہ کے مطابق ہو اور اس سے نفسِ انسانی کو کوئی حقیقی کمال بھی حاصل ہو۔ اس تعریف کے مطابق دیکھا جائے تو حکمت تمام علوم کو شامل ہے‘ کیونکہ تمام علوم میں حقائقِ موجودہ کو ہی کسی نہ کسی حیثیت سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ موجودات انسان سے تعلق کی نسبت سے دو حصوں میں منقسم ہیں:
(۱) وہ موجودات یا وہ افعال جن کے وجود کے ساتھ ہماری قدرت اور اختیار متعلق ہے یعنی وہ اختیاری ہیں۔
(۲) وہ موجودات یا وہ افعال جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
موجودات کی دوسری قسم کو موضوع بنانے والے علم کو ’’حکمت ِنظریہ‘‘ کہتے ہیں اوراس کی تین قسمیں ہیں :
۱) الٰہیات ۲) طبیعیات ۳) ریاضیات
الٰہیات ایسی اشیاء وحقائق کا علم ہے جو ماوراءِ مادّہ وطبیعیات ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جووجودِ ذہنی میں بھی مادہ کے محتاج نہیں۔ ریاضیات میں اَعداد سے بحث کی جاتی ہے۔ خارج میں تو عدد کسی معدود کے بغیر نہیں ہوتا‘مگر ذہن میں عدد کو معدود کی احتیاج نہیں‘ یعنی اَعداد مجرد تصوّرات ہیں۔ علم طبیعیات میں ایسی اشیاء سے بحث کی جاتی ہے جو تصوّر اور خارج دونوں میں بغیر مادہ کے موجود نہیں ہوتے۔ البتہ علم طبیعیات میں ان موجودات سے جو قوانین اخذ کیے جاتے ہیں وہ ذہنی ہوتے ہیں‘ خارج میں ان کا وجود نہیں ہوتا۔ مثلاً قانونِ علت۔(۷)
موجودات کی پہلی قسم کو موضوع بنانے والے علم کو ’’حکمت ِ عملیہ‘‘ کہتے ہیں اور اس کی تین قسمیں ہیں:
۱) تہذیب ِ اخلاق ۲) تدبیر ِ منزل ۳) سیاست ِمُدن
تہذیب ِ اَخلاق میں نفس کی تہذیب اور اس کو اصلِ بندگی پر قائم رکھنے کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے۔ تدبیر منزل میں ایک گھر میں رہنے والے افراد کے باہمی معاملات کو خیر پر استوار رکھنے اور گھر کا نظام احسن طریقے پر چلانے کے طریقوں اور اصولوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ سیاست ِ مدن میں انسانوں کی ہیئت ِ اجتماعیہ کو خیر اور امن پر قائم رکھنے کے اصولوں پر غور کیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ انسانوں کے اجتماعی معاملات کو بہتر طریقے پر چلایا جائے اور اجتماعی مسائل کو عمدہ طریقے پر حل کیا جائے۔ یہ ایک مرکزی طاقت کے قیام کے بغیر ممکن نہیںہے (یہیں سے نصب ِ امامت کی بحث پیدا ہوتی ہے)۔ اس علم میں اس بات پر بھی بحث کی جاتی ہے کہ کیا انسان اجتماعی زندگی کے ایسے اصول بنا سکتا ہے جو خیر اور افادیت دونوں کو محیط ہوں اور اس میں خیر افادیت پر غالب ہو۔ یعنی وہ اصول ایسے ہوں کہ جو ایک ایسی انسانی اجتماعیت کو تشکیل دیں‘ جس میں فرد حق اور خیر پر قائم رہ سکے اور یہ امن و امان کے بغیر ممکن نہیں۔ افادیت کو یہاں صرف اس زندگی تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ وہ افادیت جو انسان کی کل زندگی سے متعلق ہو کہ جس زمان و مکان میں انسان کو جتنا رہنا ہوگا اس کو اتنی ہی اہمیت دی جائے گی۔ معاد اگر لا محدود ہے تو محدود کو لا محدود سے کیا نسبت؟ افادیت کے ان معانی میں جو حیاتِ عارضی اور حیاتِ ابدی دونوں کو شامل ہوں‘ افادیت اور خیر یکجان ہو جاتے ہیں۔ ابن ِ خلدون خلافت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
حمل الکافۃ علی مقتضی النظر الشرعی مصالحھم الاخرویۃ و الدنیویۃ الراجع الیھا
’’لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانا جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوتی ہوں اور دنیوی بھی جن کا نتیجہ آخر کار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے۔(۸)
اس تعریف کا مقصد خلافت کو ملکِ طبیعی اور ملکِ سیاسی سے الگ کرنا ہے۔ ملکِ طبیعی میں مطلق العنان حکمران اپنی اغراض اور خواہشات کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے اور رعایا کو ان کے مطابق چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ملکِ سیاسی میں عقل کے استعمال سے منافع اور مضارِ اجتماعی کو جانا جاتا ہے اور لوگوں کو اس کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ یہ تقریباً وہی نظریہ ہے جو مغربی مفکرین میں سے Communitarian Liberals نے اختیار کیا ہے اور جو آزادی کے مثبت تصوّر پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی ہر انسان اپنی آزادی کے اس طرح سے استعمال کرنے کے طریقوں سے ضروری طور واقف نہیں ہوتا جو انفرادی اور اجتماعی انسانی بہبود کا باعث بنے‘ اس لیے اس کی آزادی کی حفاظت کے لیے اس کو آزادی کے استعمال کی ’’متعین‘‘ شکلوں اور اہداف کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ آئیے اب نصب ِامامت کی بحث کی طرف چلتے ہیں۔
نصب ِامامت
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس موضوع پرہمارے قدیم متون میں بہت زیادہ ’’اصولی ‘‘ گفتگو نہیں پائی جاتی‘ زیادہ تر بحث فقہی اور عملی احکامات سے متعلق ہوتی ہے۔ شروع میں امام کے نصب کا استحسان ازروئے عقل اور وجوب ازروئے شرع ثابت کیا جاتا ہے۔ پھر امام کی شرائط وخصوصیات اور اس کے فرائض کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ امام سے مراد وہ سلطان و حاکمِ مطاع ہوتا ہے جو احکامِ شرعیہ کو جاری و نافذ کرتا ہے اور امن و امان اور نظم و انتظامِ سلطنت کا اس طریقے پر ذمہ دار ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے شریعت پر چلنا آسان ہو جائے‘ ابوابِ خیر کو زیادہ کھولا جائے اور ابوابِ شر کو حتی الامکان بند کیا جائے۔
’’سیاستہ شرعیہ‘‘ پرالگ سے کتابیں بھی موجود ہیں‘ مثلاًامام ماوردی کی ’’الاحکام السلطانیۃ ‘‘ اور امام ابن تیمیہ ؒکی ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘۔ لیکن ان کامعاملہ بھی وہی ہے جیسا کہ عرض کردیاگیا۔ کتب عقیدہ وکلام کے آخر میں بھی ’’امامت‘‘ کا مبحث پایا جاتا ہے۔ ان کتب میں ’’امامت‘‘ کے مبحث کے اِدخال کی دووجوہات ہم ’’اصولی بحث‘‘ کے ضمن میں بیان کرآئے ہیں۔ اوّل تویہ تھی کہ ثابت کیاجائے کہ امامت اصل من اصول الدِّین نہیں ہے اور اس کانصب خداپرواجب نہیں ہے‘ جیسا کہ روافض کا عقیدہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے‘ خالص سیاسی مسئلہ نہیں اوردین کے اجتماعی اوامر تشریعیہ کی تنفیذ اس کے بغیر ممکن نہیں۔
’’اصولی‘‘ بحث کے فقدان کی وجہ بھی ہم ذکر کرآئے ہیںکہ ہمارے یہاں یہ بحث ’’عملی ‘‘ اور ’’فرعی ‘‘رہی ہے۔ عہدِ جدید میں کچھ مسلمان مفکرین نے اس کو ’’اصولی ‘‘بنایاہے تویہ عہدِجدید کے تقاضوں اوراثرات کا شاخسانہ ہے۔ عہدِ جدید میں مسلمان مفکرین نے اس پر کس انداز سے کام کیاہے یہ ہمارا اس وقت کاموضوع نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ بہت حدتک مغربی سیاسی اور ریاستی تصوّرات کاچربہ ہی ہے۔ اس وقت ہمارا مقصد یہی ہے کہ یہ واضح ہو جائے کہ ہمارے قدیم متون میں ’’نصب ِامامت‘‘ کو کس طریقے پر بیان کیاگیا ہے اور اسے کیاحیثیت دی گئی ہے۔ ہم یہاں جواقتباسات نقل کریں گے وہ چار کتب عقیدہ وکلام سے لیے گئے ہیں۔ امام سعدالدین تفتازانی کی ’’شرح المقاصد‘‘ اور ’’شرح العقائد‘‘سے‘ عضد الدین الایجی اور سیّدشریف کی ’’شرح المواقف‘‘ اور امام غزالی کی ’’الاقتصاد‘‘ سے۔ ’’الاقتصاد‘‘ کے ایک پورے باب کا ترجمہ کیاگیا ہے۔ طوالت کی وجہ سے اس باب کا صرف ترجمہ دیاجارہاہے ۔
امام سعدالدین تفتازانی ’’شرح العقائد‘‘ کے آخر میںامامت کے مبحث کے تحت لکھتے ہیں :
ثم الاجماع علی ان نصب ا لامام واجب وانما الخلاف فی انہ یجب علی اللہ او علی الخلق بدلیل سمعی او عقلی والمذھب انہ یجب علی الخلق سمعا لقولہ من مات ولم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ جاھلیۃ و لان الامۃ قد جعلوا اھم المھمات بعد وفات النبی علیہ السلام نصب الامام حتی قدموہ علی الدفن وکذا بعد موت کل امام و لان کثیرا من الواجبات الشرعیۃ یتوقف علیہ کما اشار الیہ بقولہ
’’پھر اجماع اس بات پر ہے کہ امام (اور خلیفہ) مقرر کرنا واجب ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ اللہ پر واجب ہے یا مخلوق پر‘ دلیل سمعی سے واجب ہے یا عقلی سے‘ اور (اہلِ حق کا) مذہب یہ ہے کہ مخلوق پر دلیل سمعی سے واجب ہے۔ نبی علیہ السلام کے ارشاد فرمانے کی وجہ سے کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اسے اپنے زمانہ کے امام اور خلیفہ کا پتہ ہی نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا‘ اور اس لیے کہ اُمّت نے نبی علیہ السلام کی وفات کے بعد سب سے اہم کام امام اور خلیفہ مقرر کرنے کو قرار دیا۔ حتیٰ کہ اس کو (نبی علیہ السلام کی) تدفین پر بھی مقدّم کیا۔ اسی طرح ہر امام کی موت کے بعد (اس کی تدفین سے پہلے اگلا خلیفہ منتخب کیا) اور اس لیے کہ بہت سے واجباتِ شرعیہ امام پر موقوف ہیں (جو اس کے بغیر انجام ہی نہیں پا سکتے) جیسے امام نسفی(۹)نے اپنے اگلے قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔‘‘
والمسلمون لا بد لھم من امام یقوم بتنفیذ احکامھم و اقامۃ حدودھم و سد ثغورھم و تجھیز جیوشھم و اخذ صدقاتھم و قھر المتغلبۃ و المتلصصۃ و قطاع الطریق و اقامۃ الجمع و الاعیاد و قطع المنازعات الواقعۃ بین العباد و قبول الشھادات القائمۃ علی الحقوق و تزویج الصغار الصغائر الذین لا اولیاء لھم و قسمۃ الغنائم و نحو ذلک من الامور التی لا یتولاھا احاد الامۃ فان قیل لم لا یجوز الاکتفاء بذی شوکۃ فی کل ناحیہ ومن این یجب نصب من لہ ریاسۃ العامۃ قلنا لانہ یودی الی منازعات و مخاصمات مفضیۃ الی اختلال امر الدین والدنیا کما نشاھد فی زماننا ھذا فان قیل فلیکتف بذی شوکۃ لہ الریاسۃ العامۃ اماما کان او غیر امام فان انتظام الامر یحصل بذالک کما فی عھد الاتراک قلنا نعم یحصل بعض النظام فی امر الدنیا ولکن یختل امر الدین و ھو الامر المقصود الاھم والعمدۃ العظمی
’’اورمسلمانوں کے لیے کوئی امام ہونا ضروری ہے جو ان پر احکام شریعت نافذ کرے اور ان پر حدود قائم کرے اور ان کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور ان کا لشکر تیار کرے اور ان سے صدقات وصول کرے اور ظالموں‘ غاصبوں اور چوروں اور ڈاکوؤں کو مغلوب کرے اور جمعہ و عیدین کی نمازوں کا انتظام کرے۔ اور لوگوں کے درمیان واقع ہونے والے جھگڑوں کا خاتمہ کرے اور حقوق پر قائم کی جانے والی شہادتیں قبول کرے اور ان نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرے جن کا کوئی ولی نہیں۔ اور اموالِ غنیمت تقسیم کرے اور ان کے علاوہ وہ سارے کام(انجام دے) جنہیں امت کے عام افراد نہیں سنبھال سکتے۔ پس اگر کہا جائے کہ ہر علاقہ میں کسی شوکت اور طاقت والے شخص کو کافی سمجھ لینا کیوں نہیں جائز ہے اور ایسا شخص مقرر کرنا کہاں سے واجب ہے جس کو (تمام بلادِ اسلامیہ پر) ریاستِ عامہ حاصل ہو۔ ہم جواب دیں گے کہ اس لیے کہ وہ ایسے باہمی جھگڑوں کا ذریعہ بنے گاجو دین اور دنیا کا کام بگڑ جانے کا سبب ہو ں گے‘ جیسا کہ ہم اپنے اس زمانے میں مشاہدہ کر رہے ہیں(کہ مسلمان حکمران آپس میںدست بگریباں ہیں) پھر اگر یہ کہا جائے کہ ایسے شخص کو کافی سمجھ لیا جائے جس کو تمام بلادِاسلامیہ پر ریاستِ عامہ حاصل ہو۔ خواہ وہ امام ہو (یعنی امامت کے اوصاف و شرائط مثلا قریشی ہونے کے ساتھ متصف ہو) یا غیر امام ہو(یعنی امامت کے اوصاف و شرائط کے ساتھ متصف نہ ہو مثلاً وہ غیر قریشی ہو) اس لیے کہ (دین و دنیا کے) کاموں کا انتظام اس سے ہو جائے گا جیسا کہ (مسلمان)ترک بادشاہوں کے عہد میں تھا۔ ہم جواب دینگے کہ ہاں دنیوی امور کا کچھ انتظام (مثلا اسلامی سرحدوں کی حفاظت‘ اسلامی لشکر کی تیاری وغیرہ کا کام تو ہو جائے گامگر دین کے کام (مثلاً جمعہ اور عید کی نمازیں قائم کرنے وغیرہ) میں خلل پڑے گا (کیونکہ ان کاموں کے لیے امام کا ہونا ضروری ہے) حالانکہ یہی (امورِ دین کا انتظام ہی امام مقرر کرنے سے) اہم مقصود ہے۔‘‘
امام تفتازانی شرح المقاصد‘ الفصل الرابع فی الامامۃ میں لکھتے ہیں:
وھی ریاسۃ عامۃ فی امر الدین والدنیا خلافۃ عن النبی ﷺ و احکامہ فی الفروع الا انہ لما شاعت من اھل البدع اعتقادات فاسدۃ مخلۃ بکثیر من القواعد ادرجت مباحثھا فی الکلام
لا نزاع فی ان المباحث الامامۃ بعلم الفروع الیق لرجوعھا الی ان القیام بالامامۃ و نصب الامام الموصوف بالصفات المخصوصۃ من فروض الکفایات وھی امور کلیۃ تتعلق بھا مصالح دینیۃ او دنیویۃ لا ینتظم الامر الا بحصولھا فیقصد الشارع تحصیلھا فی الجملۃ من غیر ان یقصد حصولھا من کل احد ولا خفاء فی ان ذلک من الاحکام العملیۃ دون الاعتقادیۃ وقد ذکر فی کتبنا الفقھیۃ انہ لا بد للامۃ من امام یحیی الدین و یقیم السنۃ و ینتصف للمظلومین ویستوفی الحقوق و یضعھا مواضعھا

’’یہ (امامت) دین و دنیا کے معاملات میں عمومی غلبہ و حکمرانی ہے جو اللہ کے نبیﷺ سے خلافت کی صورت میں منتقل ہوتی ہے۔ اس مبحث کا تعلق فروعات سے ہے۔ مگر جب اہلِ بدعت کی طرف سے بہت سے فاسد اعتقادات پھیل گئے جو قواعدِ دین سے مناسبت نہیں رکھتے تھے تو اس علم(امامت) کے مباحث کو علمِ کلام میں شامل کرنا پڑا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ امامت کی بحث علم الفقہ ہی میں مناسب ہے اور اس بات میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قیامِ امامت اور تنصیبِ امام‘ جو کچھ خاص صفات کا حامل ہو‘ فرضِ کفایہ ہے۔ یہ ایسا کلی اور عام معاملہ ہے جس سے دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہیں۔ انتظامِ امر (دینی و دنیوی) اس کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ نصبِ امامت کے امر کی مخاطب پوری امت ہے ہر ایک سے الگ الگ اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اس حکم کا تعلق عمل سے ہے عقیدہ سے نہیں۔ ہماری فقہ و قانوں کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ امت کے لیے ایک امام ضروری ہے جو دین کو زندہ کرے‘ سنت کو قائم کرے‘ مظلوموں کو انصاف فراہم کرے‘ حقوق کو پورا کرے اور حقوق کو ( یا افراد و اشیاء کو) اپنے جائز مقام پر رکھے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
قال المبحث الاول نصب الامام واجب علی الخلق سمعا عندنا و عند عامۃ المعتزلۃ وعقلا عند بعضھم و علی اللہ عند الشیعۃ
الاول: الاجماع حتی قدموہ علی دفن النبی ﷺ
الثانی: انہ لا یتم الا بہ ما وجب من اقامۃ الحدود و سد الثغور و نحو ذلک مما یتعلق بحفظ النظام
الثالث: ان فیہ جلب المنافع و دفع مضار لا تحصی و ذلک واجب اجماعا فان قیل ویتضمن مضارا ایضا قلنا لا یعبا بھا لقلتھا
الرابع: وجوب طاعتہ و معرفتہ بالکتاب والسنۃ وھو یقتضی وجوب حصولہ وذلک نصبہ

’’امام کا نصب مخلوق پر واجب ہے۔ یہ حکم ہمارے اور اکثر معتزلہ کے نزدیک سمع(شریعت) سے ثابت ہوتا ہے۔ کچھ معتزلہ اس کو ازروئے عقل واجب مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع کے نزدیک نصبِ امامت خدا پر واجب ہے۔ (آگے ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ان مندرجہ ذیل وجوہات سے ثابت ہوتا ہے۔)
پہلی وجہ: یہ اجماع سے ثابت ہے۔ صحابہ نے نصبِ امامت کو اللہ کے نبی ﷺ کی تدفین پر ترجیح دی۔
دوسری وجہ: کیونکہ اس کے بغیر بہت سے واجبات مثلاََ حدود اللہ کو قائم کرنا‘ سرحدوں کی حفاظت کرنا اور اور اس طرح کے دوسرے معاملات جن کا تعلق نظام(نظم و انتظام )کی حفاظت سے ہے۔
تیسری وجہ : اس میں ان گنت منافع کا حصول ہوتا ہے اور مضرتوں سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اور یہ(جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت) واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امامت کے قیام کے نتیجے میں کچھ مضرتیں بھی پیدا ہو سکتی ہیں‘ ہم یہ جواب دیں گے کہ قلتِ ضرر کی وجہ سے ان کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا جائے گا۔
چوتھی وجہ: امام کی اطاعت اور معرفت ازروئے کتاب و سنت واجب ہے۔ اس بات سے اس(امام) کا حصول بھی واجب قرار پاتا ہے۔ اسی کو نصبِ امامت کہتے ہیں۔ ‘‘
کچھ آگے جا کر امام تفتازانی انہی وجوہات کی شرح بھی بیان کرتے ہیں۔ ایک مقام پر نصبِ امامت کے سبب سے جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وذلک لان الاجتماع المودی الی صلاح المعاش والمعاد لا یتم بدون سلطان قاھر یدرا المفاسد و یحفظ المصالح و یمنع ما یتسارع الیہ الطباع و یتنازع علیہ الاطماع
’’یہ اس لیے کہ ایک ایسی اجتماعیت کا قیام جو معاش و معاد دونوں کی صلاح کا باعث بنے بغیر ایک سلطانِ قاہر کے ممکن نہیں ہے۔ وہ جومفاسدکو دور کرے‘مصلحتوں کا حصول ممکن بنائے اور طبیعت سے مغلوب لوگ جن کاموں کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں اور اہلِ حرص و طمع جن معاملات پر تنازعہ کھڑا کر دیتے ہیں ان کو اس سے روکے۔‘‘
آگے جا کر یہ بات بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی ایک علاقے میں حکمرانوں یا مرکزی قوتوں کی کثرت ہو جائے تو یہ دُنیوی نظم و انتظام میں اختلال کا باعث بنے گا۔ پھرکہتے ہیں:
ولو اقتصرت ریاستہ علی امر الدنیا لفات انتظام امر الدین الذی ھو مقصود الاھم والعمدۃ العظمی
’’اگر غلبہ و حکمرانی امر دُنیوی کی درستی تک ہی محدود رہ جائے تو امورِ دینیہ کا نظم و انتظام فوت ہو جائے گاجو مقصودِ اصلی اور تمام معاملات کا ذروہ سنام ہے۔‘‘
سید شریف‘ عضد الدین الایجی شرح المواقف‘المرصد الرابع فی الامامۃ‘المقصد الاول فی وجوب نصب الامام میں لکھتے ہیں:
الامامۃ ریاسۃ عامۃ فی امور الدین والدنیا
’’امامت امورِدینی اور امورِ دنیوی میں عمومی غلبہ و اقتدار کا نام ہے۔‘‘
ھی خلافۃ الرسولﷺ فی اقامۃ الدین
’’امامت اللہ کے نبی ﷺ کی پیروی و خلافت ہے دین کی اقامت کے لیے۔‘‘
درج ذیل منتخب حصّہ امام غزالی کی کتاب ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ کے بابِ ثالث کی پہلی فصل ہے۔ امام صاحب نے ان دو تین صفحات میں پوری بحث کا خلاصہ سامنے رکھ دیا ہے۔ امام صاحب کا ایک خاص انداز ایجاز و اختصار کا ہے جس میں بنیادی نظری اور عملی گفتگو ہوتی ہے اور اس موضوع پر تمام مباحث کو ان بنیادی نظری اور عملی اصولوں پر سمٹا ہوااور مرکوز دکھایا جا سکتا ہے۔ جدید طرز پر ’’فکری گفتگو‘‘ جس میں غیر ضروری طوالت سے کام لیا جاتا ہے خلط ِ مباحث ہوتا ہے اور بہت سے الفاظ و اصطلاحات کے معانی واضح نہیں ہوتے‘ اس سے امام صاحب کا کلام بلند و منزہ ہے۔
باب وجوب نصب الامام:
ترجمہ: ’’ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ نصبِ امامت کا وجوب عقل سے ثابت ہے‘ کیونکہ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ وجوب کا ماخذ محض شرع ہے۔(عقل کا) کام بس یہ ہے کہ واجب کے حوالے سے یہ بات بیان کر دے کہ اس کے کرنے میں فائدہ ہے اور اس کے نہ کرنے یا چھوڑنے میں نقصان و مضرت۔ اور اس (عقلی) پیمانے پر نصب ِ امامت کے وجوب کا انکار نہیں کیا جا سکتاجبکہ اس میں بہت سے دنیوی فوائد کا حصول ہے اور بہت سی مضرتوں سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم اس کے وجوب پر دلیلِ قطعی شرعی قائم کریں گے اور اس کے اجماع سے ثابت ہونے پر کفایت نہیں کریں گے‘ بلکہ اجماع جس بنا پر ہے اس کو سامنے لائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ امر دینی کا نظم و انتظام (نظام) صاحبِ شرع سے قطعی طور پر مقصود بالذات ہونا ثابت ہے اور یہ ایسا قطعی مقدّمہ ہے کہ اس میں اختلاف کو فرض نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس کے ساتھ ایک دوسرا مقدّمہ جوڑتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نظامِ دینی حاصل (قائم) نہیں ہو سکتا بغیر ایک ایسے امام کے جس کی اطاعت کی جائے۔ پس ان دونوں مقدّمات سے ہمارا وہ دعویٰ صحیح ثابت ہو تا ہے کہ نصبِ امام واجب ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ دوسرا مقدمہ ہمیں تسلیم نہیں ہے کہ دین کا نظام بغیر امام کے حاصل نہیں ہو سکتا تو ہم یہ جواب دیں گے کہ اس پر دلیل یہ ہے کہ نظامِ دین‘ نظامِ دنیا کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور نظامِ دنیا بغیر ایک ایسے حاکم کے جس کی اطاعت کی جائے ممکن نہیں ہے۔ بس یہ دو مقدّمات ہیں ان میں سے کس سے اختلاف ہے؟
اگر یہ کہا جائے کہ تم نے یہ کیوں اور کیسے کہہ دیا کہ نظامِ دین بغیر نظامِ دنیا کے متصور نہیں‘ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ نظامِ دین تو حاصل ہی دنیا کی خرابی سے ہوتا ہے‘ کیونکہ دین و دنیا تو آپس میں ضد ہیں‘ ایک کی تعمیر میں مشغولیت دوسرے کو لازماََ خراب کرے گی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کلام اس انسان کا ہے جو بالکل نہیں سمجھتا کہ ہم دنیا سے کیا مراد لے رہے ہیں۔ دنیا ایک مشترک لفظ ہے‘ اس کا اطلاق کبھی تو عیش و عشرت‘ لذات میں انہماک اور حاجات اور ضرورتوں سے آگے بڑھ جانے پر ہوتا ہے اور کبھی ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی میں موت سے پہلے پیش آتی ہے۔ پہلے والا اطلاق تو ضد ِ دین ہے اور دوسرا دین کی شرط ہے۔ پس اسی طرح وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو مشترک الفاظ کے معانی میں تمیز نہیں کر پاتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ دین کا نظام معرفت و عبادت سے ہے اور ان دونوں تک نہیں پہنچا جا سکتا مگر صحت ِ بدن اور بقائے حیات کے اور بقدرِ ضرورت کھانے‘ کپڑے اور مکان کے اور آفتوں سے امن کے۔ اور قسم کھاتا ہوں کہ ( آگے امام صاحب حدیث نقل کرتے ہیں) ’’جس نے امن کی حالت میں صبح کی اپنے بستر پر اور اس کا بدن عافیت سے تھا اور اس کے پاس ایک دن کا کھانا بھی تھا تو گویا اس کے لیے تمام دنیا اکٹھی کر دی گئی ہے۔‘‘ اور انسان اپنے بدن‘ روح‘ مال‘ مسکن اور خوراک کے اعتبار سے مکمل طور پر تو حالت ِ امن میں نہیں ہو سکتا بلکہ بعض اعتبارات سے ہو سکتا ہے اور یہی مقصود ہے (ان سب میں کامل امن و اطمینان کی حالت اس دنیائے دوں میں متصور نہیں) پس دین کا نظم و انتظام ان سب اہم امور میں بقدرِ ضرورت امن کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو جس انسان کا اکثر وقت ظالموں کی تلواروں سے بچاؤ میں اور غلبہ کے لیے قوت کے حصول میں صرف ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو کب اور کیسے علم اور عمل کے لیے فارغ کر پائے گا‘ حالانکہ یہی دونوں سعادتِ اخروی کے وسیلے ہیں۔
پس یہ ثابت ہوا کہ نظامِ دنیا بقدرِ حاجت و ضرورت نظامِ دین کی شرط ہے۔
دوسرا مقدّمہ یہ ہے کہ دنیا کا انتظام اور جان و مال کا تحفظ ایک حاکمِ مطاع کے بغیر ممکن نہیں۔ (میری اس بات کی دلیل کے طور پر) تم ان اوقاتِ فتن کا مشاہدہ کر سکتے ہو جب حکمرانوں اور سلاطین کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ حالات برقرار رہے اور کسی دوسرے حاکم یا سلطان کے نصب سے اس کا تدارک نہ کیا جائے تو تلواریں نکل آتی ہیں اور فتنہ و غارت گری بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اشیائے خور و نوش (عدمِ انتظام کی وجہ سے) کی کمی‘ مال مویشی کی ہلاکت اور صنعتوں کا تبا ہ ہونا بھی شامل ہو جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ جو چیز لگتی ہے اُچک لے جاتا ہے۔ اور اگر کوئی زندہ بچ بھی گیا تو اس کے پاس علم و عبادت کے لیے فراغت میسّر نہیں ہوتی اور اکثر تو تلواروں کے سائے تلے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ (امام صاحب اپنے زمانے کے حوالے سے ان واقعات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جب ایک بادشاہ کے مرنے پر مدّعین ِ سلطنت و بادشاہت تلواریں لے کر نکل آتے تھے‘ بہت افراتفری کا سماں ہوتا تھااور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جاتا تھا۔ اب انتقالِ اقتدار کے کچھ’ ’پُر امن‘‘ طریقوں کے آنے کے بعد اس طرح کے معاملات تو کم ہی پیش آتے ہیں (اگرچہ یہ انتقالِ اقتدار کا ’’پُر امن طریقہ‘‘ بدترین تشدد‘ استحصال اور قتل و غارت کے بعد پوری دنیا پر بالجبر نافذ کیا گیا ہے۔) مگر استحصال اور نظمِ دنیوی کی خرابی دائم رہتی ہے‘ کیونکہ اس طریقے سے حکومتیں بدلتی ہیں ریاست نہیں اور نظامِ اقتدار وہی قائم رہتا ہے جس کے ہوتے ہوئے علم و عبادت کے لیے فراغت اسی طرح مشکل ہوتی ہے جس طرح امام صاحب بیان کررہے ہیں۔)
اسی وجہ سے یہ کہا گیا کہ دین اور سلطان توام (ایک گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ) ہیں۔ (سلطان سے مراد ایک شخصیت بھی ہے اور دین کا غلبہ اور قوت بھی ہے۔) اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ دین بنیاد ہے اور سلطان اس کا محافظ۔ جس کی بنیاد مضبوط نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے اور جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی عاقل اس بات میں شک نہیں کرے گا کہ چونکہ خلقِ خدا میں مختلف طبقات پائے جاتے ہیں اور ان کی خواہشات مختلف اور آراء متباین ہیں‘ اگر ان کو اور ان کی آراء کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور ان کے لیے کوئی ایسی رائے نہ ہو جس کی سب پیروی کریں اور وہ ان کو جمع کرے تو ہر بندہ دوسرے کی وجہ سے ہلاکت میں جا پڑے گا۔ اور یہ مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں‘ مگر یہ کہ ایک سلطانِ قاہر ہو جس کی اطاعت کی جائے اور وہ سب آراء کو جمع کر سکے۔
پس یہ ظاہر و باہر ہے کہ نظم وانتظامِ (نظامِ) دنیوی کے لیے اطاعت ِ سلطان ضروری ہے‘ اور نظام ِ دنیا ضروری ہے نظامِ دین کے لیے اور نظامِ دین ضروری ہے کامیابی و سعادتِ اخروی کے لیے اور یہ انبیاء کا قطعی اور واضح طور پر مقصود ہے۔ پس نصب ِ امام کا وجوب ضروریاتِ شرعی میں سے ہے جس کو چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
نتائج:
مندرجہ بالابحث اور حوالوں سے ہم یہ نکات سمجھ سکتے ہیں :
(۱) ’’قومی ریاست‘‘ایک جدیدتصوّر ہے اور جدیدیت کی پیداوار ہے۔ ایک خاص جغرافیہ میں اس نے جنم لیا ہے۔ اس جغرافیہ سے اس کی ’’برآمد‘‘ بذریعہ استعمار Colonial Expansion ہوئی ہے۔ یہ انسانیت کے کسی مفروضہ ’’عمرانی ارتقاء‘‘ کا نتیجہ نہیں ہے۔
(۲) نصب ِامامت کی بحث میںجدیدمغربی تصوّرات حقوقِ انسانی و انسانی حاکمیت کاکوئی تصوّر نہیں ملتا جبکہ جدیدریاست وسیاست کی پوری عمارت ہی اس پر تعمیرہوئی ہے۔
(۳) دنیوی نظم وانتظام بھی امامت کی بحث میں مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ مقصود بالتبع یا بالعرض ہے۔ مقصودِ اعلیٰ واصلی دین پرعمل اور تنفیذ احکامِ تشریعیہ ہے۔ یعنی دین دنیوی نظم وانتظام کے لیے نہیں آیابلکہ دنیوی نظم وانتظام اور امن و امان کی حاجت اس لیے ہے کہ اس کے بغیرمکمل دین پر عمل ممکن نہیں۔
(۴) نصب ِامامت کا جدید تصوّر انسانی آزادی اور اس کی حفاظت سے کچھ تعلق نہیں‘ جبکہ معاہدۂ عمرانی کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی مرکزی قوتِ قاہرہ یعنی ریاست کو اساسی نظریاتی توجیہہ یہی تصوّر فراہم کرتا ہے۔
(۵) تقنین (legislation) کا اختیار امام کے پاس نہیں(مباحات کے دائرہ میں ہے مگر یہاں کلی اختیار کی بات ہو رہی ہے) اس کا کام تنفیذ ِاحکام ہے‘ وہ احکامات جوقرآن وسُنّت کی واضح نصوص سے اخذہوتے ہیں‘ اور انسانوں کے باہمی معاملات کی دیکھ بھال ہے۔ جدیدریاست legislation کامکمل اختیار اپنے پاس رکھتی ہے اور Absolutely Sovereign ہے۔
(۶) دین ایک انفرادی مسئلہ نہیں۔ اجتماعیت دین کاجزوِ لاینفک ہے مگراجتماعیت بھی اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ اس لیے مقصود ہے کہ انسان کے لیے خدا کی عبادت ومعرفت کوممکن بنایاجائے۔ یعنی اس کا ماحول پیدا کیاجائے تاکہ خدا کی رضا اورسعادتِ اخروی کاحصول ممکن ہوسکے۔
(۷) تصوّراتِ ریاست وسیاست کوہمارے ہاں اصولی بحث کاموضوع بنانا اس لیے ممکن نہ تھاکہ ہماراجہانی تصوّر انسان مرکز نہیں ہے۔ جدیدیت انسان پرستی Humanism کا ہی دوسرا عنوان ہے۔ جدیدیت ہی کے بطن سے جدید ریاست وسیاست کاتولد ہواہے۔
(۸) امامت کی بحث میں معاہدہ ٔ عمرانی یااس سے ملتے جلتے کسی تصوّرکاکوئی تذکرہ نہیں۔ (ہمارے بعض جدید علماء و مفکرین نےSocial contractکو Islamiseکرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام انسانوں کو خلافت حاصل ہے‘ وہ اپنے اس حق خلافت کوایک معاہدے کے ذریعے ایک امام کے سپرد کردیتے ہیں۔(۱۰)
اس قسم کی کوئی بات ہماری ر و ایت میں نہیں پائی جاتی بلکہ اس سے قطعی متضاد تصوّرات ضرور پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ امام کے نصب میں ایک عام آدمی کاکوئی عمل دخل نہیں‘ یہ اہل حل و عقد کی بیعت ہی سے ہوتا ہے۔
(۹) نصب ِ امامت اُمّت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ بات واضح طورپر مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتی ہے۔ یہاں سے ان حضراتِ متجددین کا بھی ردّ ہوتا ہے جو اس کو اُمّت کی ذمہ داری نہیں سمجھتے اور اجتماعی احکاماتِ تشریعی کا مخاطب و مکلّف صرف حاکم کو قرار دیتے ہیں اور اس کے غیاب کی حالت میں اس کے نصب کو اُمّت پر واجب نہیں جانتے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ علماء وجوبِ نصب ِ امام کے ساتھ امکان اور اختیار کی شرط بھی لگاتے ہیں‘ یعنی اگر ممکن ہواور اختیار میں ہو تو پھر واجب ہے۔ جیسا کہ امام الحرمین ابو المعالی الجوینی اپنی کتاب غیاث الامم من التیاث الظلم(امتوں کا تحفظ ظلم کی آ لودگیوں سے۔ یہ امامت و سیاست کے موضوع پر ایک شاندار کتاب ہے) میں فرماتے ہیں کہ فنصب الامام عند الامکان واجب ۔
(۱۰) خلافت و نصب ِامامت اُمّت کے ذ مے واجب ہے‘ کیونکہ یہ ایک واجب کا مقدّمہ ہے۔ اور وہ واجب تنفیذ ِاحکاماتِ تشریعیہ ہے۔ لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب (جس کام کے بغیر واجب کی تکمیل نہ ہو سکے تو وہ بھی واجب قرار پاتا ہے۔)
تلک عشرۃ کاملۃ
حواشی
(۱) کیا واقعی بالفعل ’’جدید قومی ریاست‘‘ کی تہ میں معاہدۂ عمرانی کارفرما ہوتا ہے؟ یہ الگ بحث و سوال ہے۔ صائب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ بالفعل ایسا کبھی نہیں ہوا‘ نہ ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ چند افراد یا ایک طبقہ ہی اپنی اجارہ داری اور جبر قائم کرتے ہیں۔ یہ نظریہ دو کام کرتا ہے۔ ایک تو طاقت اور اقتدار کے منبع کو خدا کے بجائے انسان کو سونپ دیتا ہے۔ دوسرا ’’جدید ریاست‘‘ کو نظریاتی justification فراہم کرتا ہے کہ گویا تمام لوگ شامل اقتدار ہیں۔ درحقیقت یہ محض ایک التباس ہے۔ اس کو جس طرح بیان کیا جاتا ہے یہاں ہم نے اسی پر بات کی ہے۔
(۲) دیکھیے Carl Schmitt Schmitt (1888-1985) Political Theology ایک جرمن سیاسی مفکر ہے۔ وائل حلاق نے "The Impossible State" میں اس کے بہت سے نظریات سے استفادہ کیا ہے‘ خاص طور پر اس کے تصوّر "political"سے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’پولیٹیکل‘‘ ایک جدید تصوّر ہے اور مغربی عقلیت کا نتیجہ ہے۔ پولیٹیکل کا کوئی تعلق اخلاقیات اور جمالیات سے نہیں۔ قانون اور اخلاق کی دوئی کے تصوّر کو یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس کا ایک اور کارآمد نظریہ "State of Exception" کا ہے‘ کہ sovereign وہی ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کون سی انسانی سماجی اور سیاسی صورت حال ایسی ہے جہاں قانون لاگو نہیں ہو گا یا فی الفور ایسے قوانین بنائے اور لاگو کیے جائیں گے جن کو عام طور پر rational نہیں سمجھا جاتا اور انسانوں کی سماجی‘ سیاسی اور معاشی زندگی کے لیے مضر سمجھا جاتا ہے۔کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کو اس تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ sovereignity اب کسی ایک ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عالمی طور پر جو طرق اس وائرس سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے گئے وہی اکثر ریاستوں کو اختیار کرنے پڑے‘ بہت کم قومی ریاستوں کی طرف سے مزاحمت سامنے آئی۔
(۳) دیکھیے Max Weber, Economy and society
(۴) یا ریاست کی تخلیق کے بعد مفروضہ ’’ معاہدہ عمرانی‘‘ کے ذریعے اس کو نظریاتی justification فراہم کی گئی ہے۔
(۵) مارکیٹ سے مراد بازار نہیں ہے۔ مارکیٹ کا دائرہ روایتی بازار سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ زندگی کے چند ہی گوشے شاید اب مارکیٹ کے دائرہ اثر سے باہر رہ گئے ہیں۔ایک مثال سے سمجھا جائے توروایتی تعلیم و تعلم کا روایتی بازار سے کوئی براہراست اور ضروری تعلق نہیں تھا جبکہ ہمارے جدید تعلیمی ادارے Circle of the market کا حصّہ ہیں اور Rationality of the market پر چلتے ہیں۔
(۶) یہاں ہم نے ریاست کے حوالے سے جو بات کی ہے وہ Nation state کے تنا ظر میں کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مارکیٹ کے عالمی ہونے کے بعد قومی ریاستیں گویا ایک عالمی ریاستی نظام کے اجزاء ہیں جو اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں۔ یہ عالمی ریاستی نظام طاقت اور سرمائے کا گٹھ جوڑ ہے اور ایک وجود مجرد ہے جس کی تحدید ممکن نہیں۔ قومی ریاستوں کے حوالے سے بھی یہ بات کی جاتی رہی ہے کہ اس میں اقتدار کا مرکز واضح طور پر معلوم نہیں ہے۔اب اس عالمی ریاستی نظام کا عفریت بے قلب ہونا تو بالکل واضح ہے۔ نیشن سٹیٹ کی تعریف Territory,People and Power سے کی جاتی ہے۔ مابعد نیشن سٹیٹ عہدیا مارکیٹ کی Globalization کو Age of Deterritorialization بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نیشن سٹیٹس کی Territory سرمائے کی Unhindered Mobility میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے نادر عقیل انصاری کا اس موضوع پر بے مثال مضمون ’’ریاست کا معاصر بیانیہ ‘‘ ماہنامہ ’’جی‘‘ جولائی تا اکتوبر 2013 ء)
(۷) جدید دور میں بے تحاشاعلوم پیدا ہوچکے ہیں۔ علوم میں اختصاص کادور ہے۔ ہرضمنی موضوع کو ایک الگ علم بنا دیا گیا ہے۔ علوم کا افقی پھیلائو توبہت ہے مگر گہرائی عنقا ہے۔ علوم کی compartmentalizationنے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ہم نے جویہاں تقسیم نقل کی ہے یہ قدیم طرز پرہے مگر غور کیاجائے تواس تقسیم کے تحت نئے پیدا ہونے والے علوم کی placementبھی ممکن ہے۔
(۸) مقدمہ ابن خلدون‘ الباب الثا لث‘ الفصل الخامس و العشرون
(۹) متن امام نسفی کا ہے اور اس پر شرح امام تفتازانی کی ہے۔ دیے گئے اقتباس میں دونوں کے متون شامل ہیں۔
(۱۰) بہرحال یہ ایک جدید تعبیر ہے جس پر کچھ اشکال وارد ہوتے ہیں اور اسے کچھ شرائط کے ساتھ قبول بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ السیاسۃ الشرعیۃ کے معاملات اجتہادی ہیں۔ یہاں فوراً حق و باطل کا فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایسے معاملات میں ہمارا جدید اجتہاد‘ مغربی استعماری تصوّرات و نظریات کی اسلام کاری میں صرف ہوتا ہے۔ تصوّرات و مفاہیم کسی خلا میں موجود نہیں ہوتے بلکہ اپنا ایک اقداری اور مابعد الطبیعیاتی سیاق و سباق رکھتے ہیں۔ اس طرح کے مغربی تصوّرات و نظریات کی ’’درآمد‘‘ بذریعہ اجتہاد جن میں فوری اعتراض کی وجہ بظاہر معلوم نہیں ہو رہی ہوتی‘ دین کے مفاہیم اور نظامِ مراتب میں ایک غیر محسوس سی تبدیلی لے آتے ہیں جس کا اس وقت ادراک نہیں ہوتا مگر کچھ عرصے میں اس کے اثرات و نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔