مباحث ِعقیدہ(۱۰)مؤمن محموداللہ خالق ‘اَفعال مخلوقات ہے
اہل ِسُنّت کے ہاں صفت ِقدرت تمام ممکنات سے متعلق ہے ‘یعنی کوئی ممکن ایسا نہیں ہے کہ جو اللہ کی صفت ِ قدرت سے پیدا نہ ہورہا ہو۔ اس کے بہت سے دلائل ہیں۔اللہ خالق کل شیء اور اسی طرح بہت سی نصوص ہیں۔ لیکن معتزلہ نے یہاں اختلاف کیا ہے ۔انہوںنے کہا ہے کہ کچھ ممکنات ایسے ہیں کہ جن سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت بلاواسطہ متعلق نہیں ہوتی بلکہ بالواسطہ ہوتی ہے اور وہ ہیں انسان کے اعمال۔انسانی اعمال اللہ کی قدرت ِقدیمہ سے برآمد نہیں ہوتے بلکہ انسان کی قدرت ِحادثہ سے برآمد ہوتے ہیں ۔ معتزلہ کا مشہور موقف ہے کہ وہ خلق اعمال کے قائل نہیں ہیں جبکہ اہل ِسُنّت خلق ِاعمال کے قائل ہیں ‘اس معنی میں کہ جو شے بھی ہے چاہے وہ فعل ہوچاہے وہ عین ہو( عین کوئی شے ہے جوحسی ہے‘ جسدی ہے ) سب کے سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوق ہیں۔یہ اہل سُنّت کاموقف ہے جس سے معتزلہ نے اختلاف کیا ہے ۔
امام بیہقی نے ’’کتاب الاعتقاد‘‘ میں ایک باب قائم کیاہے : القول فی خلق الافعالکہ افعال کی تخلیق کے بارے میں اہل سُنّت کا قول کیاہے ۔اس حوالے وہ کچھ آیات لے کر آتے ہیں ۔ہمارے سامنے وہ آیات بھی آجائیں گی کہ جس کے ذریعے اہل سُنّت استدلال کرتے ہیں کہ انسانی اعمال کاخالق بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔سب سے پہلے وہ کہتے ہیں :
{ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ ۚ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ(۱۰۲)} (الانعام)
’’وہ ہے اللہ تمہار ا رب! اُس کے سواکوئی معبود نہیں ہے۔ وہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے ‘ پس تم اُسی کی بندگی کرو۔اور وہ ہر شے کا کارسازہے۔‘‘
آگے فرماتے ہیں :’’فدخل فیہ الاعیان والافعال من الخیر والشر‘‘کہ اس میں افعال واعیان دونوں داخل ہیں‘ کیونکہ شے کی لغوی تعریف میں فعل بھی ہوتاہے ۔جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے شے پیدا کی تواگرآپ لغت کے اعتبار سے کہیں :فعلتُ شیئًا مَیں نے کچھ کیا‘تویہاں شیئا میرا فعل ہے۔فعل پر بھی شیء کے لفظ کااطلاق ہوتاہے ۔چنانچہ شَیْء میں تمام موجودات بھی شامل ہیں اورانسانی افعال بھی ۔اور تفسیر کاقاعدہ یہ ہے کہ آپ بغیر کسی دلیل کے تخصیص نہیں کرسکتے ‘یعنی جب فرمایا:خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ اور معتزلہ ہم سے آکرکہیں کہ کُلّ شَیْء میں انسانی اعمال داخل نہیں ہیں‘ انسانی اعمال کاخالق خود انسان ہے توہم کہیں گے یہ تخصیص کسی دلیل کی بنیاد پرہونی چاہیے اور وہ دلیل اتنی قوی نہیں ہے بلکہ وہ شبہات ہیں جس کی بنیاد پرتم ان آیات کے عموم میں تخصیص کررہے ہو۔
اس کے بعد فرماتے ہیں‘سورۃ الرعد کی آیت ہے :{اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْہِمْ ط}(آیت۱۶)’’کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک ٹھہرا لیے ہیں جنہوں نے تخلیق کی ہے اُس کی تخلیق کی طر ح‘تو یہ تخلیق اُن پر مشتبہ ہو گئی ہے؟‘‘ یعنی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس نے کوئی تخلیق کی ہوجس طرح اللہ نے تخلیق کی ۔اگر ایسا ہوجاتاتوگویا مشرکینِ مکّہ کے پاس دلیل ہوتی کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرلیں۔کیونکہ جو خالق ہے وہی معبود ہونا چاہیے ۔اگر اللہ کے سوا کوئی خالق ہوتاتو یقیناًاس کی عبادت کی کوئی نہ کوئی دلیل مل جاتی ۔توجب کسی شریک نے کوئی تخلیق نہیں کی تواللہ کے سوا عبادت بھی کسی کی نہیں ہونی چاہیے ۔اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی اگر اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہوتاکسی بھی شے کاتویہ آیت اپنے عموم پرباقی نہ رہتی ۔اوراس کے بعد فرمایا:{قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ } کہ ہرشے کا خالق اللہ ہے۔اس کے بعد کہتے ہیں :فنفی ان یکون خالق غیرہ ونفی ان یکون شیء سواء غیر مخلوق یعنی اس بات کا بھی انکار کردیاکہ اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہواور اس بات کا بھی انکار کردیاکہ کوئی شے اللہ کی مخلوق نہ ہو۔اب دلیل دیتے ہیں :فلوکانت الافعال غیرمخلوقۃ لکان اللہ خالق بعض الاشیاء دون جمیعا کہ اگر اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہوتایاانسانی افعال اللہ کی مخلوق نہ ہوتےتویقیناً اللہ کے سوا خالق کا اثبات ہوجاتااور یہ اس آیت کی تفسیر اور فہم کے خلاف ہے۔دلیل یہ ہے کہ اگرمَیں اپنے عمل کاخالق خود ہوںگا تویقیناً میرے اس عمل کاخالق خدا نہ ہوا ۔توگویایہ بات ثابت ہوگئی کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جوغیر اللہ نے پید اکی ہیں۔اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ انسانی اعمال ہوں یااعیان ہوں سب کا خالق اللہ ہے ۔
اس کے بعدا یک عقلی دلیل دیتے ہیں‘بلکہ عقلی سے زیادہ تھوڑی جذباتی دلیل ہے ۔کہتے ہیں:معلوم ان الافعال اکثر من الاعیان یہ بات معلوم ہے کہ جو چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں‘مثلاً سات ارب انسان ہیں تو سات ارب انسانوں سے ان کے افعال زیادہ ہیں ۔یعنی سات ارب انسان مستقل فعل کررہے ہیں‘ کوئی ہاتھ ہلارہا ہے ‘کوئی بول رہا ہے ‘کوئی پی رہا ہے ‘کوئی چل رہا ہے ‘کوئی سوچ رہا ہے ۔گویاانسانی اعمال توکثرت میں ہیں اوراگر انسان اپنے اعمال کاخالق ہوتاتووہ شے جو اللہ کی تخلیق سے نکل جاتی اور زیادہ ہوتی اس سے کہ جواللہ کی تخلیق میں داخل ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ تواعیان کاخالق ہے ‘اجساد کاخالق ہے ‘افعال کا خالق نہیں ہے اور افعال اجساد سے زیادہ ہیں توزیادہ چیزیں اللہ کی تخلیق سے خارج ہوجائیں گی ۔فرمایا :ایسا توہونہیں سکتااور یہ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ میں تخصیص ہوگئی۔ پھر ایک اورجگہ فرماتے ہیں کہ سب سے اشرف شے جوا س کائنات میں ہے وہ اللہ پرایمان لانا‘اللہ سے محبت کرنا‘اللہ سے ڈرنا‘اللہ کی عبادت کرناہے اوریہ سب کے سب انسانی اعمال ہیں ۔اگر ان انسانی اعمال کوتم اللہ کی مخلوق قرار نہیں دوگے توکائنات میں سب سے اشرف شے اللہ کی مخلوق نہیں رہے گی اور یہ قول قابل ِقبول نہیں ہے ۔
اس کے بعد مشہور ترین آیت نقل کرتے ہیں جس سے اہل ِسُنّت استدلال کرتے ہیں اوریقیناًوہ استدلال بہت قوی ہے ۔
{قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ(۹۵) وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)} (الصافات)
’’( حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم سے خطاب کررہے ہیں )فرمایا:کیاتم عبادت کرتے ہوان کی جن کوتم خود تراشتے ہو؟حالانکہ (وائوحالیہ ہے ) اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیاہے اور تمہارے اعمال کو بھی پیدا کیا ہے۔ ‘‘
{ وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo}(لغوی بحث)
اس کی دونحوی ترکیبیں ہوسکتی ہیں اور دونوں میں اہل سُنّت ہی کی دلیل ہے ۔{ وَاللہُ خَلَقَکُمْ} ’’اللہ نے تمہیں پیدا کیا‘‘یعنی ہمارے جسموں کو۔ اس میں توہمارے اور معتزلہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہےکہ ہم کس کی مخلوق ہیں ۔ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔اختلا ف آیت کے اگلے ٹکڑے میں ہے: {وَمَا تَعْمَلُوْنَ} اب یہ ما موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی ۔ ما کی بہت سی اقسام ہیں: ما نافیہ‘ ما مصدریہ ‘ ما موصولہ‘ ما زائدہ وغیرہ۔یہاں ماموصولہ ہے ۔موصولہ اس ما کوکہتے ہیں جو الذی کے معنی میں ہو۔اور مامصدریہ ا س کوکہتے ہیں کہ جس کے بعد جو فعل آرہا ہے ‘چاہے وہ ماضی ہویامضارع ‘وہ مصدری معنی میں چلا جاتا ہے۔تو مامصدریہ جب تَعْمَلُوْنَ پر آئے گاتو اس تَعْمَلُوْنَ کی جگہ آپ عمل بھی رکھ سکتے ہیں۔اب ہم پہلے ترجمہ کرتے ہیں مامصدریہ کے اعتبار سے : {وَاللہُ خَلَقَکُمْ} ’’جبکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمہیں بھی‘‘ {وَمَا تَعْمَلُوْنَ} ’’اور جو کچھ تم بناتے ہو(اس کو بھی)۔‘‘یعنی عَملکم اللہ نے تمہیں بھی اور تمہارے عمل کو بھی پیدا کیا۔تویہ بالکل واضح ہے کہ اللہ تمہارا بھی خالق ہے اور تمہارے عمل کا بھی خالق ہے ۔یہ اہل سُنّت کی قوی ترین نقلی دلیلوں میں سے ہے۔ عقلی دلائل توبہت سے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کی یہ آیت بھی قریب قریب نص ہے اس مسئلے پر کہ اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کاخالق ہے اور احادیث توبہت کثرت سے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ انسانی عمل اللہ کی مشیت اور اللہ کے علم سے خارج نہیں ہوتا۔
دوسری ترکیب ہے کہ ہم کہیں :{ وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)}میں ماموصولہ ہے الذی کے معنی میں تویہ ما موصولہ مفعول بہ مقدّم ہوجائے گاتعملون کا۔اس اعتبار سے ترجمہ یوں ہوگا کہ ’’اللہ نے تمہیں پیدا کیااور جوتم اپنے عمل کے ذریعے شے بناتے ہو(اس کو بھی)‘‘وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے ۔پہلے ترجمے میں تراشنے کا عمل بھی اللہ کی خلق ہے اور دوسرے ترجمے میں بتایا کہ جوتم تراش کرشے بنالیتے ہووہ بھی تمہاری مخلوق نہیں ہوتی‘ بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی مخلوق ہے ۔یعنی تمہارے ہاتھ سے بننے والی جتنی بھی ایجادات ہوں ‘جوبھی تم بناتے ہو‘تراشتے ہو‘ سنوارتے ہووہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں ۔دونوں اعتبارات سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اگر تمہارے ہاتھ سے نکلنے والی شے اللہ کی مخلوق ہے تویقیناً تمہارا یہ عمل بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی تخلیق ہے ۔
معتزلہ کاکمزور استدلال
یہ ایک مشہور آیت ہے جس کے ذریعے اہل سُنّت نے اس مسئلے پر استدلال کیا ہے ۔کہاجاسکتاہے کہ کیامعتزلہ کو یہ آیت نظر نہیں آئی؟نظر آئی ہے لیکن انہوں نے ایک تاویل کرلی۔اس تاویل کی وجہ سے معتزلہ کو کسی نے کافر نہیں کہا۔وہ قرآن یاکسی حدیث کا انکار نہیں کررہے ہوتے ‘بلکہ کچھ تاویل لے آتے ہیں‘ چاہے وہ تاویل عربی زبان میں بعید ہواور اتنی مناسب نہ ہو‘لیکن پھر بھی ایک ادنیٰ گنجائش کی وجہ سے ا ن سے کفرکا حکم زائل ہوجاتا ہے۔انہوں نے بہت سی تاویلیں کیں۔ ایک تاویل یہ کی کہ {وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)} ’’اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تم نے تویہ عمل نہیں کیانا‘‘۔یعنی انہوں نے مانافیہ کردیا۔یہاں ماموصولہ اور ما مصدریہ کی بجائے انہوں نے کہا کہ مانافیہ ہے ۔جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:
{اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَھُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَامًا فَھُمْ لَھَامٰلِکُوْنَ(۷۱)} (یٰسٓ)
’’کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دیے‘ جن کے اب یہ مالک بنے پھرتے ہیں۔‘‘
یہاں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ہم نے تمہیں بنایا ہے ‘تم اپنے خالق تونہیں ہو۔
{اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ ھُمُ الْخٰلِقُوْنَ(۳۵)} (الطور)
’’کیا یہ بغیر کسی کے بنائے ہو ئے خود بن گئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں؟‘‘
{وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ ط}(یٰسٓ:۳۵)’’اور یہ سب ان کے ہاتھوں نے تو نہیں بنایا۔‘‘
یعنی یہ سارا کچھ ہم نے کیا‘ ان کے ہاتھوں نے نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ نفی کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ سب مخلوق اللہ کی ہے ۔انسان کو بھی اللہ نے پیدا کیا اورکائنا ت کوبھی ۔لیکن یہاں معتزلہ کی بات تھوڑی سی بعیدازقیاس بن رہی ہے‘کیونکہ {وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)} میں اگر یہ تاویل ہوتی کہ یہاں مانافیہ ہوتاتوزیادہ مناسب ماضی کا صیغہ لانا تھاکہ وَاللہ خلقَکُمْ وَمَا عَمِلْتُمْ اور تم نے نہیں کیاتھا ۔یہ اب وماتعملون میں مضارع کاصیغہ استمرار کے اوپر دلالت کررہا ہے کہ یہ شے بھی مستقل جاری ہے۔ توگویا جو بھی تم مستقل بنارہے ہویاکوئی عمل کررہے ہووہ بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق ہے۔ بہرحال یہ توایک لغوی بحث ہے‘ لیکن آپ کے سامنے یہ بات آگئی ہو گی کہ اہل سُنّت کی دلیل یہاں اللہ کے فضل سے قوی ہے اور یہ آیت اس مسئلے میں نص تونہیں ہے کہ ا س میں تاویل کا احتمال نہ ہولیکن اس کے اندر ایک قوی اشارہ موجود ہے اور یہ قریب النص ضرور ہے ۔
اگلی آیت یہ نقل کرتے ہیں :
{وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ ۚ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۰۱)} (الانعام)
’’ اور اُس نے تو ہر شے کو پیدا کیا ہے‘ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
دونوں چیزیں بالکل ایک ساتھ لائے ہیں کہ جس طرح کوئی شے اللہ کے علم سے خارج نہیں ہے اسی طرح کوئی شے اللہ کی تخلیق سے خارج نہیں ہے ۔یعنی ایک ہی آیت میں دونوں چیزوں کو جمع کیاکہ {وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۰۱)} میں تخصیص نہیں ہے اسی طرح {خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ ۚ} میں بھی کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جس طرح کوئی شے اللہ کی تخلیق سے خارج نہیں ہے بعینہ اسی طرح کوئی شے اللہ کے علم سے خارج نہیں ہے ۔
پھر ایک اور بہت خوبصورت دلیل دیتے ہیں :
{وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْھَرُوْا بِہٖ ۭ اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۱۳) اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۴)} (الملک)
’’اور (دیکھو!) چاہے تم اپنی بات کو چھپا کر بیان کرو یا بلند آواز سے بیان کرو(وہ اس کو جانتاہے)۔وہ تو اس سے بھی واقف ہے جو تمہارے سینوں کے اندر پنہاں ہے۔کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ اور وہ بہت باریک بین ہے ‘ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
یہ بہت دقیق نکتہ ہے‘ کیونکہ پہلے انسانی اعمال کا ذکر کیاکہ {وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ} اپنے قول کو چھپا لو‘ {اَوِاجْھَرُوْا بِہٖ }یاظاہر کردو ‘ دونوں صورتوں میں {اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۳)} اللہ توسینوں کے حالات سے بھی واقف ہے ۔پھر دلیل پیش کی :{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط} ’’جوپیدا کرتا ہے وہی نہ جانے گا؟‘‘کس شے کو جاننے کی بات ہورہی ہے ؟انسانی قول کو!چاہے چھپا لوچاہے ظاہر کرو۔ دلیل یہ ہوئی کہ انسان کا قول اللہ سے مخفی نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اللہ کی تخلیق ہے۔ گویا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے اعمال کو اللہ سے چھپا اس لیے نہیں سکتے کہ اللہ ہی تو تمہارے اعمال کاخالق ہے‘ لہٰذا وہی نہیں جانے گاتوکون جانے گا!
اسی طرح ایک اور دلیل سورۃ النجم کی آیت ہے:{وَاَنَّـہٗ ہُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی(۴۳) وَاَنَّہٗ ھُوَ اَمَاتَ وَاَحْیَا(۴۴)} ’’اور(اللہ ہی) وہ ذات ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی۔ اور وہی مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔‘‘موت وحیات میں بات واضح ہے ‘ اس میں معتزلہ کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے ‘اللہ ہی مارتا ہے ۔اختلاف انسانی اعمال کے بارے میں ہے ۔ ضحک(ہنسنا)اور بکی (رونا)انسانی اعمال میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان افعال کی نسبت بھی اپنی طرف کی ہے کہ وہی ہنساتاہے اور وہی رُلاتا ہے ۔
ایمان اورکفراللہ کی مخلوق ہیں
اب اس پرامام بیہقی استدلال فرماتے ہیں کہ دیکھو انسان کا ہنسنااور انسان کا رونااللہ ہی نے پید اکیا ہے۔اس کے بعد کہتے ہیں کہ کئی دفعہ کافر ہنستا ہے ‘خوش ہوتا ہے کسی مسلمان کو قتل کرکے اور کئی دفعہ وہ روتا ہے اس وجہ سے کہ مسلمان اس پر غالب آگئے ۔ یعنی کافرکا ہنسنا کفر ہوا اور کافر کا رونا بھی کفر ہوا۔کیونکہ وہ مسلمان کے غالب آنے پر رورہا ہے تویہ رونا کفر کی علامت ہے ۔اگر وہ مسلمان کو قتل کرکے خوش ہورہا ہے تویہ خوشی بھی کفر کی علامت ہے ۔ا س کے مقابلے میں مسلمان اگر کافر وںپرغالب آجائے تووہ خوش ہوتاہے اور اگر کافر اُس پر غالب آجائیں تووہ روتا ہے ۔مسلمان کاہنسنا اوررونا ایمان ہے ‘کافر کاہنسنا اوررونا کفر ہے ۔اس آیت سے دلیل بناتے ہیں کہ گویا ایمان اور کفر بھی اللہ کی مخلوق ہے ۔کیونکہ جب {اَضْحَکَ وَاَبْکٰی(۴۳)}کہہ دیا‘توہنسنااور رونا کبھی ایمان کی وجہ سے ہوتاہے کبھی کفر کی وجہ سے ہوتاہے ‘دونوں صورتوں میں انسانی عمل برآمد ہوتاہے اور دونوں صورتوں میں ان دونوں اعمال کا خالق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے ۔یہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایمان اور کفر کاخالق بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے ۔
اسی طرح ایک اور آیت لے کر آئے ہیں :
{فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ قَتَلَھُمْ ۠ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی ۚ }(الانفال:۱۷)
’’پس (اے مسلمانو!) تم نے انہیں قتل نہیں کیا‘ بلکہ انہیں اللہ نے قتل کیا۔اور جب آپؐ نے (ان پر کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ آپؐ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔‘‘
میدانِ بدرمیں جب رسول اللہﷺ نے مٹّی اٹھا کر پھینکی اور کہا:((شَاھَتِ الْوُجُوْہ))چہرے بگڑ جائیں تو وہ آپﷺ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پھینکی تھی ۔پھر اسی طرح سورۃ الواقعہ کی آیت نقل کرتے ہیں:
{ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ(۶۴) لَوْنَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ(۶۵)}
’’کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں‘پھر تم بیٹھے رہو باتیں بناتے ہوئے۔‘‘
یہاں بھی زراعت کا جوفعل ہے اس کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف کی‘ حالانکہ انسان یہ کام کر رہا ہوتا ہے ۔معلوم ہو اکہ انسان کا عمل بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق ہے ۔
پھر آپ کو معلوم ہے کہ خیر اور شر دونوں اللہ کی مخلوق ہیںاور اس کے بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ احادیث توبالکل واضح ہیں ‘لیکن قرآن مجید کی آیت ملاحظہ ہو:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ(۱) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (۲)} (الفلق)
’’کہو کہ مَیں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔(مَیں پناہ میںآتا ہوں) اس کی تمام مخلوقات کے شر سے۔‘‘
فلق کے رب کی پناہ میں آتا ہوںاس شرسے جواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پیدا کیا ہے ۔معلوم ہوگیا کہ کائنات میں خیر ہو یا شر ہو‘ ہرشے کا خالق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے ۔بہرحال خلق اعمال کے بارے میں اہل سُنّت کایہ موقف ہے ۔یعنی انسانی اعمال کی بات ہورہی ہے ۔جب ہم عمل بولتے ہیں توجانوروں کے اعمال کی بات نہیں ہے بلکہ مکلّفین کے اعمال مراد ہیں اور مکلّفین میں انسان اورجن دونوں شامل ہیں ۔
معتزلہ اگر اتنے ہی برے تھے اور انہوں نے انکار کردیا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کاخالق نہیں ہے‘گویا انہوں نے اللہ کے سواکوئی اور خالق ثابت کردیا‘تو وہ کیسے کفر کے حکم سے بچ گئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔یعنی اہل سُنّت کاموقف ہی ٹھیک ہے لیکن معتزلہ کا موقف اس طرح کانہیں ہے کہ وہ واضح طو رپر کہہ رہے ہوں کہ اللہ کے سوا بھی کوئی خالق پایا جاتا ہے ۔وہ بھی یہ الزام نہیں مانیں گے ۔وہ بھی یہ آیا ت پڑھتے ہیں : {اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ} (الانعام)توانہوں نے بحیثیت مجموعی ایک تاویل کی ہے کہ دیکھو!اللہ ہی خالق ہے لیکن بالواسطہ ہے بلاواسطہ نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک قدرت پیدا کردی ہے اور یہ قدرت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلوق ہے۔اس قدرت کے پیدا ہوجانے کے بعدانسان اس قدرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اعمال پیدا کردیتاہے۔ وہ جوعمل اب اس قدرت کے بعد پیدا ہوتا ہے وہ براہِ راست (بلاواسطہ)اللہ کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ وہ اس قدرت کو استعمال کرکے پیدا کیاجاتا ہے جس قدر ت کواللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت کردیا ہے ۔یہ بات بظاہر اتنی بری نہیں لگ رہی۔ مَیں نے ان کاموقف اس لیے بیان کیاکیونکہ آج کل اہل سُنّت میں بھی بہت سے علماء اور دوسرے لوگ یہی موقف بیان کرتے ہیں۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک قدرت دی ہے ‘اس کی بنا پرانسان اپنا عمل کرتا رہتاہے ۔
کسب ِاعمال
یہ بات ایک لحاظ سے درست ہے ‘لیکن اہل سُنّت اس مسئلے پر بھی معتزلہ سے لڑائی کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ انسانی عمل براہِ راست اللہ کی تخلیق ہوتا ہے ‘قدرت ِحادثہ کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتا۔قدرت حادثہ سے مرا دہے کہ انسان کے اندر جو قدرت رکھی گئی ہے ۔پھر کیسے پیدا ہوتاہے ؟یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کو انہوں نے کسب کہا ہے ۔یعنی انسان اپنے اعمال کا’خالق‘ نہیں ہے بلکہ ’کاسب‘ ہے ۔انسان خلق نہیں کرتا ‘کسب کرتاہے ۔یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے بہرحال اہل سُنّت کاموقف یہی ہے کہ انسان خلق نہیں کرتا کسب کرتا ہے ۔معتزلہ کہتے ہیں انسان قدرت کی بنا پرخلق کرتا ہے ۔یعنی قدرت اللہ نے پیدا کردی ہے اور اس قدرت سے جو عمل پیدا ہورہا ہے اس وقت وہ بلاواسطہ اللہ کی کسی قدرت کے تابع نہیں ہوتا‘وہ انسانی قدرتِ حادثہ کے تابع ہوتاہے۔یہ موقف ٹھیک نہیں ہے ۔ اہل سُنّت نے کہا انسان کے اندر قدرت ِحادثہ ہے۔معتزلہ والی یہ بات درست ہے کہ انسان کے اندر قدرت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے ‘لیکن اس قدر ت کے نتیجے میں جوعمل پیدا ہوتا ہے وہ بھی بلاواسطہ اللہ ہی تخلیق کررہا ہوتاہے ‘وہ اس قدر ت کے نتیجے میں نہیں ہوتا۔شاید آپ کہہ رہے ہوں گے کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ۔اس وقت جومسئلہ آپ کے ذہنوں میں آرہا ہے اسی سے نکلنے کے لیے معتزلہ نے خلق اعمال کو اللہ کی تخلیق سے نکالااور انسانی عمل داری میں ڈالا۔اور وہ مسئلہ یہی ہے کہ اگر انسان اپنے اعمال کاخالق نہیں ہے تومحاسبہ کس بنیاد پرہے؟اس بارے میں ان کا ایک اصول ’’عدل‘‘ کا ہے جو ان کے اصولِ خمسہ میں سے ایک ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرعدل ضروری ہے ۔ان کے خیال میں اگر انسان اپنے اعمال کاخود خالق نہیں ہوگا توعدل نہیں ہوگا۔ایک خاص تصور کے تحت انہوں نے یہ سمجھا کہ قیامت کے دن جومحاسبہ ہوناہے اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اعمال کاخالق ہو۔اہل سُنّت کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اس مسئولیت اور جواب دہی کے لیےخالق ہونا ضروری نہیں ہے ‘بس کاسب ہونا کافی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بھی انسانی اعمال کی جونسبت انسان کی طرف کی ہے وہ کسب کی ہے :
{لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج} (البقرۃ:۱۳۴)
’’اُن کے لیے تھاجو انہوں نے کمایا اور تمہار ے لیے ہو گا جو تم کمائو گے۔‘‘
بہرحال اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل سُنّت کے ہاں کوئی ممکن الوجود شے اللہ کی قدرت سے خارج نہیں ہے ۔اس کائنات میں جو بھی ہوتاہے ‘چاہے وہ کوئی شے ہویاعمل ہووہ سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بلاواسطہ تخلیق ہوتی ہے او ر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ماننا ضروری ہے ۔لہٰذا اہل سُنّت کے کچھ بڑے اصولوں میں سے ایک بڑا اصول خلق اعمال کاہے کہ اعمال کاخالق اللہ تعالیٰ ہے ۔۔لہٰذا معتزلہ سے ان کی ایک بڑی لڑائی اس مسئلہ پرتھی۔
مسئلہ شر(Problem of Evil)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب ہرشے کا خالق ہے توکائنات میں شر بھی ہے ‘کچھ وجودی شر(Natural Evil) ہے ‘ کچھ اخلاقی شر (Human Evil) ہے ۔یہ ایک مشہور مسئلہ ہے جوآج بھی بنائے استدلال بنتاہےکہ کائنات میں شرہے‘ لہٰذا خدا نہیں ہے ۔خدا رحم کرنے والا ہے ‘ہرشے پر قادر ہے ۔جب رحم کرنے والا بھی ہے‘ ہرشے پر قادر بھی ہے توشر کاوجود سمجھ میں نہیں آتا۔یہاں فی الحال اس حوالے سے ہم صرف یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ایک حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں ہوسکتی‘ اس کا کیامطلب ہے ۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:((الخیر کلہ بیدک ‘والشر لیس الیک)) ’’اے اللہ !خیر کل کا کل تیرے ہاتھ میں ہے اورشر کی نسبت تیری طرف نہیں ہے‘‘ ۔کیاا س کامطلب یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ شر کو اللہ کی مخلوق سے نکال رہے ہیں؟اسی طرح ہم یہ مشہور آیت پڑھتے ہیں :
{قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۲۶)} (آل عمران)
’’کہو اے اللہ! تمام بادشاہت کے مالک!کل ملک تیرے اختیار میں ہے‘ تُو حکومت اور اختیار دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور تُوسلطنت چھین لیتا ہے جس سے چاہتا ہے‘ اور تُو عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہےاور تُو ذلیل کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب خیر ہے۔یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
اسی طرح ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ بارہا ہمیں ادب سکھایاگیا ہے کہ شر کی نسبت اللہ کی طرف نہ کرو۔ جیسے {صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ} ’’راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا‘‘۔اس کے بعد یہ نہیں کہاکہ ان کا نہیں جن پر تُونے غضب کیا‘بلکہ وہاں اسم مفعول آگیا: {غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَّا الضَّآلِّیْنَ} ’’جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔‘‘توغضب تواللہ نے ہی کیاہے ۔دوسری جگہوں پر فرمایاکہ ان پر اللہ کا غضب ہوا {وَغَضِبَ اللہُ عَلَیْھِمْ}(الفتح:۶) لیکن یہاں ادب کالحاظ کرتے ہوئے ’’غَضَبَتْ‘‘ نہیں کہا بلکہ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کہہ دیا۔
اسی طرح سورۃ الجن میں جنات کی زبانی بھی ایک کمال ادب کا مظاہرہ کیاگیا۔یعنی جنات جب آسمانوں پر جاکربیٹھتے تھے اور پھر انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کاکلام سنا اور انہیں معلوم ہوگیا کہ آسمانوں پرپہرے اس وحی کی حفاظت کے لیے لگے تھے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بیٹھا کرتے تھے اور جوبھی کوئی بات سن لیتا تھا توا س کے پیچھے ایک شہابِ ثاقب آتا تھا۔اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ
{وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًا(۱۰)}
’’اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لیے کسی شر کا ارادہ کیا جا رہا ہےیا ان کے لیے ان کے رب نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔‘‘
یعنی شر کے ساتھ اُرِیْدَ مجہول کا صیغہ لے کر آئے ہیں ۔اور جب خیر کے ارادے کا ذکر کیاتوصیغہ معروف ذکر کرکے اللہ کی طرف نسبت کردی ۔توکیاشر کاارادہ کسی اور نے کیا؟تویہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ادب سکھایاہے۔
اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا:
{مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۡ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ۭ وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَکَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا(۷۹)}
’’(اے مسلمان!) تجھے جو بھلائی بھی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ خود تیرے نفس کی طرف سے ہے۔اور (اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو تو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہ کے طو رپر۔‘‘
توگویابرائی کی نسبت نفس کی طرف کردی اور خیر کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف کی۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نعوذباللہ ‘شر اللہ کی خلق سے نکل گیا؟بالکل یہ مطلب نہیں ہے ۔کیونکہ دوسری آیات یادوسری احادیث میں وضاحت سے بتادیا کہ شر بھی اللہ کی تخلیق ہے ۔علماء نے کہا کہ یہاں دوچیزیں بتائی جارہی ہیں ۔ایک چیز یہ ہے کہ جب تم اللہ سے دعا کرویااللہ کو خطاب کروتوادب کاقرینہ ملحوظِ خاطر رہے ۔ایسا نہ ہوکہ تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف ایسی اشیاء کی نسبت شروع کردوکہ جونسبت توبرحق ہے لیکن اس سے بے ادبی کاایہام ہوتاہے ۔جیسے علماء نے مثال دی کہ اللہ زمین وآسمان کا خالق ہے ‘لیکن کچھ ایسی چیزوں کا خالق بھی ہے جن کوہم حقیر سمجھتے ہیں ‘مثلاً خنزیر۔آپ یاخالق السماوات والارض کہہ کر اللہ کو خطاب کرسکتے ہیں ‘لیکن نعوذباللہ ‘اس قسم کی کسی مخلوق کاخالق کہہ کراللہ کو خطاب نہیں کریں گے‘ حالانکہ اللہ اس شے کا خالق توہے۔اللہ سے خطاب کرتے وقت کچھ آداب پیش نظر رہنے چاہئیں۔ مطلب یہ ہے کہ شر اگرچہ اللہ کی مخلوق ہے لیکن اللہ سے خطاب کرتے وقت شر کی نسبت اللہ کی طرف نہ کرو۔
شر کی تخلیق شر نہیں اور شر اضافی ہوتاہے
دوسرا مطلب اس کا یہ لیاگیاکہ شرقضا میں نہیں ہوتا مقضیٰ میں ہوتا ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کوئی شے فرماتے ہیں یاکوئی حکم جاری فرماتے ہیں توکچھ لوگوں کے لیے وہ شر ہے ‘کچھ کے لیے وہ خیر ہے ‘کیونکہ شرمطلق تونہیں ہوتاکہ اپنی تمام حیثیتوں میں وہ شے شر ہو‘کسی اعتبار سے خیر ہے کسی اعتبار سے شر ہے ۔شروہ ہوتاہے اضافی طور پر ‘لیکن اس حیثیت سے کہ اللہ نے اسے جاری فرمایاہے وہ خیر ہی خیر ہے ۔تووہ اپنے جزوی وجود میں شر ہے اور اس حیثیت سے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قضا ہے خیر ہی خیرہے ۔توباعتبار قضا وہ خیر ہوتاہے‘ ہاں باعتبار مقضیٰ یعنی جزوی وجود کے اعتبار سے ‘اپنے کچھ جزوی اثرات اور نتائج کے اعتبار سے وہ شر بھی ہوسکتا ہے ۔ علماء نے کہاکہ اگر انسان کی نگاہ ایسی وسیع ہوجائے کہ وہ پورے وجود کو دیکھ سکے تواسے معلوم ہوجائے گاکہ یہ شے جو اس نے جزوی شر کے طور پردیکھی تھی اس کل وجود میں خیرہی خیر ہے۔ لیکن انسان کی نگاہ محدود ہے اور اللہ کاعلم اسے حاصل نہیں ہوسکتا۔یعنی اگر وہ اللہ کے علم سے دیکھتا تووہ شر کو نہ دیکھتالیکن کبھی بھی اللہ کے علم سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی مثال ہمارے بزرگوں نے اس طرح دی کہ تین سال کے بچے کو جب کڑوی دوائی پلائی جاتی ہے تووہ نہیں پینا چاہتا اور اسے پیتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ باپ میرے اوپر ظلم کررہا ہے‘ لیکن وہ کہتے ہیں اگر بالفرض اس بچے کو وہ علم دے دیاجائے اور وہ شعور دے دیاجائے جواس وقت باپ کا ہے تووہ فوراً کہے گا کہ باپ ٹھیک کررہاہے ۔ یہ علم اور شعور اسے بیس پچیس سال بعد حاصل ہوجائے گا۔کیونکہ یہ اتنافاصلہ نہیں ہے جوطے نہ کیاجاسکے ‘لیکن خدا کے علم اور بندے کے علم کے درمیان جو فاصلہ ہے اس کو کبھی نہیں طے کیا جاسکتا۔لہٰذا اسے کبھی بھی وہ تناظرحاصل نہیں ہوگا‘وہ وجود کا نظارہ نہیں ہوگا جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جب فیصلہ فرمارہے ہوتے ہیں تووہ کل وجود کو جانتے ہیں ‘کل وجود کو دیکھتے ہیں ۔وہ جزوی شر اس کلی وجود میں اللہ کی قضا کے اعتبار سے خیر ہی خیرہوتا ہے‘لیکن ہمارے لیے وہ شرہوجاتا ہے۔ پھرہم جب اس کی نسبت اللہ کی طرف کریں گے تووہ خیر ہوجائے گا۔توکفر‘کفر ہے اور کفرشر ہے ۔لیکن جب آپ کہیں گے کہ دنیا میں کفر کاوجود کیوں ہے ‘اللہ نے کیوں فیصلہ فرمایا ہے کہ کفر دنیا میں وجود رکھے تووہ اللہ کی قضا کےاعتبار سے خیر ہے۔ علماء نے پھر تفصیلی بتایا کہ کفر کے وجو دمیں کیاخیر ہے ۔یہاں تک کہ بعض علماء نے ابلیس کے وجودکےبہت سے فوائدبتائے کہ اس وجود سے کیاکیاکچھ ہورہاہے‘یعنی اس وجودسے کیاکیاحکمتیں برآمد ہوئی ہیں۔ اگرچہ ابلیس اپنے لیے شر ہے اور دوسروں کے لیے بھی شر ہے لیکن اللہ کی قضا کے اعتبار سے وہ خیر ہی خیرہے ۔یعنی ابلیس خیر نہیں ہے ‘اللہ کی قضا خیر ہے ۔گویا ابلیس کاپیدا کرنااور ابلیس کادنیا میں برقرار رکھنابحیثیت قضائے الٰہی خیرہے اوربحیثیت ابلیس جو وجود شخصی اور وجود جزوی ہے اس اعتبار سے وہ شر ہے ۔
مسئلہ شر اورایمان بالآخرۃ
باقی اصل مسئلہ تویہ ہے کہ جس پرشر آتا ہےاسے تکلیف ہوتی ہے توہمیں بتایاگیاہے کہ دنیا کوایک خاص حیثیت سے جانیں اوروہ حیثیت یہ ہے کہ دنیا میں اللہ ربّ العزت نے تمہیں مزے کرنے کے لیے نہیں بھیجا۔یعنی اللہ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ تم دنیا میں جائو اور عیش کرو‘بلکہ دنیا کوامتحان کی جگہ قرار دیااور کہاکہ آخرت اس کا جوڑا ہے۔ اگرآپ آخرت کے ساتھ جوڑکر دنیا کو دیکھیں تویہاں کی تکلیفیں ہلکی ہوجاتی ہیںاور اگر آپ آخرت کو نکال دیں تویقینا ًدنیا اندھیرہے ۔ ایک خوبصورت حدیث ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص جس نے دنیا میں شرہی شر دیکھاہوگا‘تکلیف ہی تکلیف دیکھی ہوگی اس کوجنت میں ڈبکی لگوائی جائے گی ‘یعنی جنت کا صرف ایک نظارہ کرایا جائے گا ۔پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کبھی تم نے شر دیکھا ہے یاتکلیف دیکھی ہے؟وہ کہے گاکہ کبھی تکلیف نہیں دیکھی ۔ساری تکلیف دہ حیات کااحساس اس کے جنت میں ایک لمحے کے وجود کے بعدرفع ہوجائے گااورجو نعمتیں وہ دیکھے گااس کے مقابلے میں کہے گاکہ شر توتھا ہی نہیں ۔یعنی اگر اس کی وجہ سے مجھے یہ مل گیا ہے تویقیناً مَیں نے شر کبھی نہیں دیکھا۔اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص جس نے دنیاعیش وعشرت میں گزاری ہوگی اور کبھی اس پرتنگی او ر مصیبت نہ آئی ہوگی‘اسے جب جہنم میں ایک سیرکروائی جائے گی‘ پھر اس سے پوچھا جائے گاکہ تم نے کبھی خیر دیکھا؟تووہ کہے گاکہ مَیں نے کبھی خیر نہیں دیکھا۔چنانچہ اگر آپ آخرت سے جوڑکردنیا کو دیکھیں اوردنیا کے بارے میں یہ جانیں کہ یہ امتحان گاہ ہے اور اللہ عزوجل نے یہاں آزمانے کے لیے بھیجا ہے تووجودی شر کو دیکھنے کاتناظر بدل جاتاہے ۔
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(۲)}
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی ۔‘‘(الملک)
اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ تکلیفوں سے آزمائوں گا:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (۱۵۵)} (البقرۃ)
’’اورہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سےاور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔اور (اے نبیﷺ!) آپ بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو۔‘‘
اور ساتھ یہ بھی فرمایا:
{الۗمّۗ (۱) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)} (العنکبوت)
’’الف‘ لام‘ میم۔کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا؟‘‘
مسئلہ شر پتا نہیں حل ہوتا ہے یانہیں ہوتا‘لیکن وہ شرجوانسان پرواقع ہوتاہے اس کی حدت کو ختم کرنے والی شے آخرت پر ایمان ہے ۔یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرایمان ہوکہ اگر مَیں نے صبر سے کام لیا تواللہ آخرت میں اجر دے گا۔ سورۃ الزمر میں جوآتاہے کہ
{اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰)}
’’یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر پورا پورا دیا جائے گا بغیر حساب کے۔‘‘
اس کے ذیل میں اللہ کے نبی ﷺ سے ایک صحیح حدیث مروی ہے ۔آپﷺ نے فرمایا :قیامت کے دن کہا جائے گاکہ ’’مُبْتَلُوْنَ‘‘ جن کو دنیا میں آزمایاگیا وہ کہاں ہیں ؟توکچھ لوگ اٹھ کر آجائیں گے جنہوں نے دنیا میں آزمائش میں وقت گزارا ہوگا۔ انہیں کچھ خاص قسم کی خلعتوںاور خاص قسم کے انعاما ت سے نوازا جائے گا۔اس پروہ لوگ جنہوںنے دنیا میں ابتلا نہیں دیکھی تھی کہیں گے :کاش کہ ہمارے جسموں کو تلواروں اور قینچیوں سے اُدھیڑا گیا ہوتا اورہم بھی صبرکرتے ‘کیونکہ وہ صبرکرنے والوں کا اجر دیکھ رہے ہوں گے۔(جامع ترمذی) اگرچہ اللہ سے عافیت مانگنی چاہیے او ر آزمائش کا سوال کبھی بھی نہیں کرناچا ہیے ‘اور اللہ کے نبیﷺ کی دعا بھی یہی ہے : ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ))(رواہ ابن ماجہ)لیکن اگر آزمائش آجائے توجان لینا چاہیے کہ یہ دنیا بےہنگم طریقے پر نہیں چل رہی‘بغیر کسی قانون کے نہیں چل رہی‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور یقیناً آخرت میں ایک گھر ہے جو راحت کا گھر ہے ۔دنیا اصلاً دارالحیوان یعنی رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔
دوبارہ جی اٹھنے پرقدرت اور علم سےاستدلال
یہ جان لینا چاہیے کہ ہرشے اللہ کی تخلیق ہے اورخلق قدرت سے ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ پیدا فرماتے ہیں توپیدا فرمانے کے لیےقدرت اور علم درکار ہیں۔اسی طرح علماء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جہاں بھی دوبارہ جی اٹھنے پر استدلال فرماتے ہیں وہاں بھی اپنی ایسی دوصفات کے ذریعے استدلال کرتے ہیں کہ مَیں قادر بھی ہوں اور میرے پاس علم بھی ہے ۔جیسے سورئہ قٓ کےشروع میں کافروں کے اعتراض کا ذکر کیاکہ وہ کہتے ہیں کہ دوبارہ کیسے اٹھیں گے :
{ ءَاِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ (۳)}
ََ’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے (تو ہم پھر سے زندہ کیے جائیں گے؟) یہ لوٹایا جانا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘
یہ بعیدازقیاس بات ہے ‘یہ توانہونی بات ہے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ پھر جواب دیتے ہیں :
{اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ(۶)}(قٓ)
’’تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں آسمان کی طرف جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور کیسے اسے مزین کیا ہے اور اس میں کہیںکوئی رخنہ نہیں ہے۔‘‘
اگلی آیات میں قدرت کا بیان مزید وضاحت سے ہوا ۔پھر اس کے بعدعلم کابیان آگیا:
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶)}
’’اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اُس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ۔اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
اورشروع بھی علم کے بیان سے کیا تھا :
{قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ ج وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ (۴)}
’’ہم خوب جانتے ہیں کہ زمین ان میں سے کیا چیز کم کرتی ہے۔اور ہمار ے پاس تو ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی موجودہے۔‘‘
علم سے شروع کیا‘پھرقدرت پر گئے ‘پھر دوبارہ علم پر آئے ۔تویہ دوصفات ہیں:علم وقدرت ‘جس سے اللہ تعالیٰ استدلال فرماتے ہیں کہ ہم دوبار ہ پیدا کرنے پربھی قادرہیں ۔جتنی بھی تخلیق ہورہی ہےوہ سب اللہ کی صفت ِقدرت سے انجام پذیر ہوتی ہے اورہم اللہ کی قدرت اور علم کے مظاہر دیکھتے ہیں ۔اللہ کا علم ہے ‘اللہ کی قدرت ہے اور ارادہ بھی اسی کے ذیل میں ہے ۔
خلاصہ مسئلہ قدرت وشر
ہم قدرت کی تعریف دیکھ چکے ہیں کہ صفت ِوجود ی ہے اور ممکنات سے متعلق ہوتی ہے اور ہمیشہ سے اللہ کے لیے ثابت ہے ۔ پھر ہم نے دیکھاکہ صفات نہ عین ذات ہیں نہ غیرذات ہیں۔اس کے بعدہم نے دیکھا کہ قدرت تمام ممکنات پر حاوی ہے یعنی کوئی شے اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے‘ چاہے وہ انسانی اعمال ہوںیا اعیان ہوں ۔اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ شربھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوتاہے اور وہ شر نسبی ہوتا ہے‘مطلق نہیں ہوتا۔یعنی کائنات میں مطلق شر کوئی شے نہیںہے ‘یہاں تک کہ ابلیس بھی مطلقاً شر نہیں ہے‘ اس کے وجو دمیں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں ۔چنانچہ ابلیس نہ ہوتا توبہت سے لوگ اللہ کے ولی نہ بنتے۔جیسے مولاناجلال الدین رومی کے ایک شعر کامفہوم ہے کہ اگر شہوت کی آگ نہ ہوتی توتقویٰ کاحمام گرم نہ ہوتا۔شہوت کی آگ رکھی ہے توکوئی شخص متقی قرار پائے گا۔مقضی وہ شے ہے جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے ۔ایک ہوتی ہے قضااور ایک مقضی ۔اصل میں قضا مصدر ہے‘ اللہ کا فعل ہے جبکہ مقضی اسم مفعول ہے۔وہ شے جو قضا کے نتیجے میں وجود میں آرہی ہے وہ شے شرہوسکتی ہے لیکن اللہ کی قضا اور اللہ کا فعل شر نہیں ہے ۔یعنی اس کو وجود میں لانا شر نہیں ہے‘ شرکووجود میں لانا خیر ہے ۔یعنی شربحیثیت شر‘شر ہے لیکن شرکو وجود میں لاناشر نہیں ہوتا۔اس کو ہمارے علماء یوں کہتے ہیں کہ(خلق القبیح لیس بقبیح) ’’قبیح شے کا پیدا کرنا ( خلق کافعل) قبیح نہیں ہے ۔‘‘
شے حادث او رقدرتِ قدیمہ کے مابین تعلق کا مسئلہ
اللہ ربّ العزت کی قدرت قدیم ہے اوراس سے جو چیزیں وجود میں آرہی ہیں وہ حادث ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات میں کوئی تغیرنہیں ہوتا۔ہم جب ارادہ کرتے ہیں تو ہماراارادہ اور ہماری قدرت قدیم تونہیں ہوتی‘مگر اللہ کی قدرتِ قدیم میں تغیر نہیں ہورہا ‘کوئی قدرتِ حادثہ نہیں پیدا ہورہی ۔اس قدرت قدیم سے حادث شے کیسے پیدا ہوگی ؟حادث کاسبب توکوئی حادث ہونا چاہیے ۔یہ بحث تھوڑی سی مشکل ہے لیکن کچھ لوگو ںکے لیے شاید فائدہ مند ہو۔ہمارے علماء نے کہا کہ حادث کا سبب حادث ہونا ضروری نہیں ہے ‘یہ کوئی منطقی یاعقلی قاعدہ نہیں ہے ۔کوئی بھی شے وجود میں آئے گی تواس کالازماً کوئی سبب ہوگا۔لیکن یہ کہناکہ سبب حادث ہونا چاہیے ‘یہ ضروری نہیں ہے۔ سبب قدیم ہوسکتا ہے ۔قدرت قدیمہ ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہورہی اوراسی قدرت قدیمہ سے جب ارادہ ہواتو وہ بھی قدیم تھاکہ کب شے وجود میں آئے گی ۔وہ شے وجود میں آجاتی ہے بغیر اس کے کہ اس ذاتِ عالیہ یاصفات میںکوئی تبدیلی ہو۔ وہاں کوئی قدرت حادثہ پیدا نہیں ہوتی جس سے کوئی شے حادث وجود میں آئے ۔وہ قدیم رہتی ہے اور شے حادث وجودمیں آجاتی ہے ۔
کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح قدرتِ قدیمہ سے ایک حادث شے وجود میں آرہی ہے ‘کچھ اس کی وجہ خدا کو انسان پرقیاس کرنا ہے ۔جس طرح ہمارے اندرکوئی ارادہ پیدا ہوتا ہےاسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اچانک سوچ کر کچھ کرلیاہوگا۔ قدرت اورارادہ قدیم کیسے ہوسکتے ہیں ۔توجن لوگوںکو یہ بات سمجھ میں نہ آئی انہو ں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں قدرتِ حادثہ پیدافرماتے ہیں ‘اس سے مخلوق پیدا ہوتی ہے ۔ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ جب قدرتِ حادثہ پیدا فرماتے ہیں تویہ قدرتِ حادثہ کس قدرت سے پیدا ہوتی ہے ؟اگر وہ کہیں کہ قدرتِ قدیمہ سے پیدا ہوتی ہے توپھر یہ قدرتِ حادثہ کو بیچ میں لانے کی کیاضرورت تھی‘قدرتِ قدیمہ سےبلاواسطہ مخلوق ہی پیدا ہوجائے گی ۔ اس اعتراض سےبچنے کے لیے انہوں نے کہا کہ مخلوقات قدرتِ حادثہ سے پیدا ہوتی ہیں ‘یہ قدرتِ حادثہ ایک اور قدرتِ حادثہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ سلسلہ الیٰ مالانہایہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔یعنی اللہ کی ذات‘ نعوذباللہ‘ محل حوادث قرار پاتی ہے۔ قدرتِ حادثہ ہروقت وہاں پیدا ہورہی ہے توہروقت کوئی مقدور پیدا ہورہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہروقت کوئی مخلوق ہوتی ہے‘یعنی کبھی بھی ایسا نہیں ہواکہ اللہ کے ساتھ کوئی مخلوق نہ ہو۔کوئی بھی مخلوق اپنی ذات میں قدیم نہیں ہے‘ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مخلوق کوئی نہ ہو۔توحوادث ہمیشہ سے چل رہے ہیں‘ infinite regression ہے ۔اور یہ ہمارے متکلمین کے ہاں ممکن بھی نہیںہے۔ لیکن جولوگ اس کے قائل ہوئے انہوں نے اللہ کی ذات کومحل حوادث بھی مان لیاکہ اللہ کی ذات میں بھی تبدیلیاں ہوتی چلی جاتی ہیں اور جب محل حوادث مان لیا توپھر کیونکہ اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے تویہ حوادث بھی ہمیشہ سے ہیں۔ چنانچہ حوادث لااول لھا کا تصورپیدا ہواکہ ایسے حوادث جو ماضی میں infinite chainرکھتے ہیں ‘ جس کو لامتناہی سلسلہ بھی کہتے ہیں۔پھر اس کے نتیجے میں قدم نوعی کے قائل بھی ہوگئے ۔قدم نوعی کا مطلب ہے کہ اپنے فردکے اعتبار سے توہر مخلوق حادث ہے لیکن مجموعہ کے اعتبار سے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مخلوق نہ ہو‘نوع کے اعتبار سے مخلوق قدیم ہے ۔اہل سُنّت کے نزدیک یہ خطرناک مسئلہ ہے او ر اس میں بھی اندیشہ کفر ہے۔ قدم شخصی پرتوکفرکا حکم لگایاگیاہے کہ جو مانے کہ یہ عالم قدیم ہے یامادہ قدیم ہے یافارم لس میٹر یا substanceقدیم ہے تو وہ کافر ہے۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ کوئی شے بعینہ توقدیم نہیں ہے لیکن سلسلہ وجود قدیم ہے کہ کبھی بھی یہ نہیں ہواکہ اللہ تھا اور کچھ نہ تھا۔بہرحال اس میں بھی علماء نے کہا کہ اندیشہ کفر ہے ‘ واضح طور پرکافر تونہیں کہہ رہے مگر اس عقیدے کی وجہ سے اہل سُنّت سے توخارج ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ایک فاعل مختار کی حیثیت سے سامنے نہیں آتے بلکہ ایک ایسے وجود کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں جس سے مخلوق کا پیدا ہوناضروری ہوتاہے ۔یہ بھی ایک موقف ہے جوخطرناک ہے جس کا اہل سُنّت کے علماء نے ردکیاکہ کوئی شے نہ فرد کے اعتبا رسے نہ نوع کے اعتبارسے اللہ کے ساتھ قدیم ہے‘بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے ارادے سے اس مخلوق کوپیدا کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تونہ پیدا کرتا۔
تعلق صلوحی(Potential)اور تعلق تنجیزی(Actual)
ہمارے علماءِ کلام قدرت کے تعلقات کے حوالے سے بھی کلام کرتے ہیں۔قدرت کے تعلقات سے مراد یہ ہے کہ ایک کو تعلق صلوحی(potential) اوردوسرے کوتعلق تنجیزی(actual)کہتے ہیں۔ابھی جو مَیں نے قدم نوعی کانظریہ بیان کیاہے ‘اسی کے رد میں اہل سُنّت نے یہ دوتعلقات بیان کیے ہیں ۔تعلق صلوحی کا مطلب یہ ہے کہ بالقوۃ(potentially) اللہ تعالیٰ کی قدرت کسی وقت بھی مخلوق کے پیدا کرنے پرقادر ہے ۔یعنی قدرت صالح ہے کہ وہ کبھی بھی مخلوق کو پیدا کردے‘لیکن یہ تعلق صلوحی جب تک ہوتاہے تومقدور یعنی مخلوق کا پیدا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔بس اللہ تعالیٰ قادرہیں ‘پیدا کرسکتے ہیں ۔قادرکا مطلب یہ نہیں کہ لازماًمقدور پیدا ہوجائے ‘خالق ہیں بمعنیٰ کہ خلق کرسکتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ مخلوق ہو۔اورجب وہ شے پیدا ہوجاتی ہے اللہ کے ارادے سے توپھر جوتعلق قدرت کا اس شے سے ہوتاہے ‘وہ تعلق تنجیزی (بالفعل)ہوتاہے ‘یعنی اب وہ شے قدرت کی وجہ سے وجود پذیر ہوگئی ہے ۔آپ نے نوٹ کیاہوگا کہ تعلق میں تبدیلی آرہی ہے یعنی تعلق صلوحی تھا اور اب تعلق تنجیزی ہوگیا۔
ا ہل سُنّت پراعتراض کرنے والوں نے کہا کہ دیکھو تم نے بھی تبدیلی مان لی‘ تعلق میں توتبدیلی آگئی۔یعنی تعلق قدرت کااس شے کے ساتھ صلوحی تھااب تنجیزی ہوگیاتووہ شے وجود میں آگئی اوروہ تعلق بدل گیا۔تنجیزی‘انجاز سے ہے یعنی وہ شے اختتام پذیر ہوگئی۔اس کاجواب علماء نے دیا کہ جوتعلق ہوتاہے یہ ایسے نسبی امرہیں کہ جن کا خارج میں وجود نہیں ہوتا۔مثلاً ایک صاحب میرے دائیں طرف بیٹھے ہیں‘ اگروہ اُٹھ کے ادھر آجائیں تووہ میرے بائیں طرف آجائیں گے ۔نسبت بدل جائےگی۔پہلے دائیں طرف تھے اب بائیں طرف ہیں ‘لیکن کیااس نسبت بدلنے کی وجہ سے میری ذات میں کوئی تغیر واقع ہوا ہے؟نہیں ‘بلکہ مَیں اپنی جگہ اسی طرح بیٹھا رہوں گا البتہ آ پ کی اضافت بدل جائے گی ۔آپ دائیں بائیں یاآگے پیچھے جارہے ہیں تو اضافی تعلقات میں تبدیلی کی وجہ سے ذات یا صفات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات وصفات ہرقسم کی تبدیلی سے ماورا ہیں ۔اللہ کی ذات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا‘کیونکہ تغیریاتونقص کی طرف ہوتا ہے یاکمال کی طرف ہوتاہے ۔ نقص کی طرف محال ہے کہ اللہ کی ذات میں کوئی نقص واقع ہوجائے ۔اسی طرح جانب کمال کی طرف تغیر کا مطلب ہےکہ اللہ میں مزید کمال کی حاجت ہے اورا بھی کامل اور مکمل نہیں ہے ۔لہٰذا وہاں تغیر ان دونوں معانی میں نہیں سوچا جاسکتا۔بس یہی بتانامقصود ہے کہ ذات کے بارے میں اور اس کی حقیقت کے بارے میں یہ جان لو کہ وہ تمہارے تصور سے ماورا ہے ۔یہ ساری باتیں اصلاً اسی لیے ہیں ‘یہ حقیقت کابیان نہیں ہے‘ یہ محض تقریب الی الذہن کے لیے ہے او ر خود انسانی ذہن کی کم مائیگی کی طرف اشارہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اُس سے حقیقی تعلق پید اکرنے کی توفیق عطا ہو اوراللہ کی قدرت پر واقعی ہمارا ایمان کامل ہواور ہم اپنے آپ کو اور کل وجود کو اللہ کی قدرت قدیمہ کے سامنے واقعی عاجز‘ محتاج اور فقیر دیکھیں ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے لیے اصل چیز اُس کی معرفت ہے۔ باقی محض ذہنی عمل ہی مقصود بالذات نہیں ہوناچاہیے ۔
اقولی قول ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
tanzeemdigitallibrary.com © 2025