لِعان کا بیان اور اُس کا حکم(۲)پروفیسر حافظ قاسم رضوان
ریٹائرڈ صدر شعبہ اسلامیات و مطالعہ پاکستان‘ گورنمنٹ کالج آف کامرس‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور
لعان کے احکام
امام مالک ‘ امام زفر‘ اور (ایک روایت کے مطابق) امام احمد کا قول ہے کہ جب میاں بیوی دونوں لِعان کر لیں تو زوجین میں فرقت ہو جاتی ہے‘ خواہ حاکم(قاضی) نے فیصلہ نہ کیا ہو۔ لیکن امام ابوحنیفہ ‘ اما م محمد‘ امام ابویوسف اور(ایک روایت کے حوالے سے) امام احمد کے نزدیک زوجین کے لِعان کرنے کے باوجود حاکم(قاضی) کے فیصلے سے پہلے فرقت (علیحدگی)نہیں ہو پاتی‘ فریقین(میاں بیوی) کے لِعان کرنے کے بعد حاکم(قاضی) پر تفریق کر ادینا واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک یہ علیحدگی ایک طلاق بائنہ کے حکم میں ہو گی‘ باقی ائمہ کے نزدیک طلاق بائنہ نہیں بلکہ اس کو فسخ نکاح قرار دیا جائے گا۔ اس قول کی دلیل یہ ہے کہ حرمت رضاعت کی طرح لِعان سے بھی دوامی حرمت ہو جاتی ہے(یہی فسخ کہلاتا ہے)۔ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓکی روایت سے آیا ہے کہ حضور ﷺ نے لِعان کرنے والے مَرد وعورت دونوں سے فرمایا: ’’تمہارا حساب اللہ کے ذمہ ہے‘ یقینی بات ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ (مَرد کو مخاطب کر کے فرمایا) اب تیری اس پر کوئی راہ نہیں(یعنی اس عورت سے ملنے کا اب تیرے لیے کوئی راستہ نہیں بچا‘ گویا دوامی انقطاع ہو گیا)۔ اس (مَرد) نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول! میرا مال (یعنی جو مہر مَیں نے ادا کیا تھا اس کا کیا ہوگا)؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر تُو نے اس پر سچّا الزام لگایا ہے تو مال(مہر) اس علت کا معاوضہ ہو گیا جو اس سے جماع کر کے تو نے حاصل کی تھی۔(یعنی تو عورت سے مباشرت کر چکا ہے‘ مہر اس کا معاوضہ ہو گیا)‘اور اگر تُو نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو یہ مال بہت دور چلا گیا‘ اس لیے تیرے لیے اب کوئی مال نہیں ہے۔ ابو دائود میں حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت کردہ اور دارقطنی میں حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓسے روایت کردہ احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ (لِعان کر چکنے کے بعد) دونوں میں(دوامی) تفریق کرا دی جائے اور آئندہ کبھی دونوں (نکاح کے ذریعے سے)نہ مل پائیں۔
صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے آیاہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے لِعان کیا۔ لِعان کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے دونوں میں تفریق کرا دی اور بچے کا نسب ماں سے ملا دیا(گویا لِعان کرنے والے مَردکو اُس بچے کا باپ قرار نہیں دیا اور نہ ہی بچے کو ولدالزنا کہا۔ دوسروں کو بھی یہ کہنے سے منع فرمایا) ۔ سنن ابی دائود میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے‘ حضرت ہلال بن اُمیہؓ کے واقعہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے لِعان کے بعد فیصلہ فرما دیاکہ (تفریق کے بعد) عورت کا نفقہ اور رہنے کی جگہ(سکنیٰ) دینا مَرد کے ذمے نہیں ہے‘ کیونکہ دونوں میں تفریق(فسخ) ہوئی ہے۔ نہ عورت بیوہ ہوئی ہے اور نہ ہی مَرد نے اس کو طلاق دی ہے۔ لِعان کے بعد جب دوامی حرمت ثابت ہو گئی تو اب حاکم(قاضی) کی تفریق کی حاجت نہیں رہتی۔ دوامی حرمت تو اسی طرح نکاح کے منافی ہے جس طرح کہ حرمت رضاعت نکاح کے خلاف ہے۔ اسی لیے حرمت لِعان کو فسخ نکاح مانا جائے گا‘ طلاق بائنہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ احناف میں امام ابویوسف کے قول پر قضائے حاکم پرتفریق موقوف نہیں رہتی‘ کیونکہ قضائے حاکم سے پہلے ہی لِعان پر حرمت جمہور علماء کے اتفاق سے ثابت ہے۔
لِعان کر لینے کے بعد اگر شوہر خود اپنی تکذیب کر کے اپنے جھوٹا ہونے کا اظہار کر دے تو کیا عورت سے دوبارہ اس کا نکاح ہو سکتا ہے؟ امام مالک اور مام شافعی کے نزدیک اس کا اقرار تکذیب تو مان لیا جائے گا لیکن صرف اس حد تک کہ جھوٹی تہمت زنا لگانے سے جو ضرراس کو پہنچتا ہے وہ پہنچ جائے گا‘ اور جو فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ نہ پہنچے گا۔ یعنی حدّ ِ قذف تو شوہر پر جاری کی جائے گی اور بچّہ بھی اسی کا مانا جائے گا لیکن حرمت دوامی دورنہ ہو گی‘ نکاح ختم ہو جائے گا اور وہ اُس عورت سے دوبارہ کبھی نکاح نہ کر سکے گا۔ حرمت دوامی کی حد تک امام ابوحنیفہ کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اگرلِعان کے موقع پر شوہر نے کہا کہ یہ (ہونے والا) بچّہ مجھ سے(میرے نطفہ سے) نہیں ہے تو حاکم(قاضی) لِعان کے بعد بچے کا نسب اس شخص سے نہیں جوڑے گا‘ بچے کے نسب کو ماں سے منسلک کیا جائے گا ۔ اس صورت میں لِعان کے وقت شوہر کو یہ الفاظ کہنا ہوں گے کہ مَیں نے جو اپنا(یہ) بچّہ ہونے کا انکار کیا ہےتو اللہ گواہ ہے کہ مَیں اس قول میں سچّا ہوں۔ بیوی بھی لِعان میں ان الفاظ کا اضافہ کرے گی۔
صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے ہے کہ حضور ِاَقدس ﷺ نے ایک شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان لِعان کرایا‘ مَرد نے اپنا بچّہ ہونے کا انکار کیا۔ حضور ﷺ نے دونوں میں تفریق کرا دی اور بچے کے نسب کا الحاق اس کی ماں سے کر دیا۔
اگر مَرد نے اپنی عورت سے کہا کہ تیرایہ حمل مجھ سے نہیں ہے تو امام ابوحنیفہ‘امام زفر اور امام احمد کے نزدیک لِعان کا حکم نہیں دیا جائے گا(گویا نہ مَرد پر حدّ ِ قذف جاری ہو گی اورنہ ہی عورت کو زانیہ قرار دیا جائے گا)۔ کیونکہ بچّہ ہونا یقینی نہیں ہے(ممکن ہے حمل ہی نہ ٹھہرا ہو)۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک (دونوں میں) لِعان کرایا جائے گا۔ ان کی دلیل ابودائود کی وہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہلال اور ان کی بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ بچے کی نسبت باپ کی طرف نہ کی جائے‘ نہ اس کو ولدالزنا قرار دیا جائے اور نہ ہی اس کی ماں کو زنا کے ساتھ متہم کیا جائے۔ نیز جو شخص اس عورت کو زنا اوربچے کو ولد الزنا ہونے کے ساتھ متہم کرے اس پر حدّ ِ قذف جاری کی جائے۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا کہنا ہے کہ اگر(مَرد کے کہنے کے بعد)بچّہ چھ ماہ سے کم مدّت میں پیدا ہو گا تو لِعان واجب ہو جائے گا۔ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے پیدا ہونے تک لِعان نہیں کرایا جائے گا‘ اگر چھ ماہ سے کم مدّت میں بچّہ پیدا ہو گیا تو لِعان واجب ہو گا ورنہ نہیں۔
حضرت ہلال بن اُمیہؓ کے واقعہ والی حدیث کے بعض طرق روایت میں آیا ہے کہ زوجین کے درمیان لِعان بچے کی ولادت کے بعد کیا گیا تھا ۔ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ تو نے زنا کیا ہے اور تیرا حمل زنا کا ہے‘ تو پھر بالاتفاق لِعان کرنا ہو گا‘ کیونکہ شوہر نے صراحت کے ساتھ زنا کا ذکر کیا ہے۔ اس صورت میں بقول امام شافعی حاکم(قاضی) نفی نسب کا فیصلہ کر دے گا(یعنی یہ حکم دے گا کہ یہ بچّہ شوہر کا نہیں ہے‘ کسی اور کا ہے)۔ حضرت ہلال بن اُمیہؓ کے واقعہ میں حضورِ اَقدس ﷺنے بچے کے نسب کا الحاق ہلال کے ساتھ نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت ہلال نے جس وقت اپنی عورت پر الزام لگایا‘ اس وقت وہ حاملہ تھی۔ اگر بچے کے پیدا ہونے کے بعد شوہر اپنے بچے کا انکار کر دے تو امام شافعی کے نزدیک اس کا انکار صحیح مانا جائے گا‘ بشرطیکہ بچے کی ولادت کی خبر سنتے ہی اس نے انکار کر دیا ہو۔ اس صورت میں لِعان کیا جائے گا۔ لیکن اگر ولادت کی خبر سنتے ہی شوہر نے کچھ نہیں کہا‘ بعد میں اس کے نسب کا انکار کیا‘ تو نسب صحیح مانا جائے گا(اس کا انکار غلط ہو گا) اور اب(قذف کی بنا پر) لِعان کرنا ہو گا۔ امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ ولادت کی مبارکباد کے وقت اگر شوہر نے انکارِ نسب کر دیا تو اس کا انکار صحیح مانا جائے گا۔ ابواللیث کی روایت کے مطابق امام صاحب نے انکارِ نسب کے لیے تین روز کی مدّت مانی ہے۔حسن کی روایت میں سات روز کا لفظ آیا ہے‘ جبکہ صاحبین کے نزدیک پوری مدّت ِنفاس میں انکارِ نسب ہو سکتا ہے۔ ظاہر قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ ولادت کی خبر سن کر اگر فوراً انکارِ نسب کر دیا گیا ہو تو اسے مانا جائے اور اگر کچھ مدّت خاموشی سے گزر گئی ہو تو پھر انکارِ نسب کو صحیح قرار نہ دیا جائے‘ کیونکہ(موقع ِاظہار میں) خاموشی رضا مندی کی علامت ہے۔ جبکہ دقیق قیاس(استحسان) کے مطابق مَرد کو سوچنے اور غور کرنے کے لیے کچھ مدّت اور موقع ملنا چاہیے‘ بغیر غور کیے اگر مَرد بچے کا انکار ِنسب کر دے گا(اور واقعتاً وہ بچّہ اس کا ہو) تو یہ حرام ہے ۔اور اگر وہ بچّہ دوسرے کا ہے‘ اس کو وہ اپنا بچّہ قرار دے دے تو یہ بھی حرام ہے(اپنے بچے کا باپ کسی دوسرے کو قرار دینا یا کسی دوسرے کے بچے کا باپ اپنے آپ کو ظاہر کرنا‘ دونوں ہی گناہ کبیرہ ہیں)۔ ابودائود اور نسائی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جس عورت نے کسی دوسری قوم کے آدمی کو اپنی قوم میں شامل کیا(یعنی کسی غیر مَرد سے زنا کر کے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے شوہر کا بتایا) وہ اللہ کی رحمت سے خارج ہو گئی اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنّت میں داخل نہیں فرمائے گا۔ اور جس مَرد نے دیدہ دانستہ اپنے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے پردہ کر ے گا(یعنی اللہ کا دیدارا سے نصیب نہ ہو گا) اور اگلے پچھلے لوگوں کے سامنے اس کو ذلیل و رسوا کرے گا۔
صحیحین میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوبکرہ ؓکی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’(اسلام (کی حالت) میں کسی نے غیر باپ کو اپنا باپ قرار دیا اور وہ جانتا بھی ہے کہ جس شخص کی طرف وہ اپنے باپ ہونے کی نسبت کر رہا ہے وہ اس کا باپ نہیں ہے تو(ایسی صورت میں) جنّت اس پر حرام ہے‘‘۔ اگر بچے کی پیدائش کے وقت باپ موجود نہیں تھا تو واپس آنے کے بعد انکارِ نسب کے لیے امام ابوحنیفہ ؒکے قول کے مطابق مبارکباد دینے کی مدّت کے برابر مدّت کافی ہے‘ جبکہ صاحبین کے نزدیک مدّتِ نفاس کے برابر وقت دیا جائے گا۔ اگر شوہر کو اپنی بیوی کے زنا کا یقین ہو گیا یا کسی مخصوص شخص سے زنا کرنے کی خبر مشہور ہونے کی بنا پر پختہ گمان ہو گیا اور تائیدی قرینہ بھی موجود ہے‘ جیسے شوہر نے بیوی کو اس مخصوص شخص کے ساتھ بذاتِ خود تنہائی میں دیکھ لیا‘ تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر عورت سے کوئی بچّہ پیدا ہوا‘ حالانکہ اس نے بیوی سے مباشرت ہی نہیں کی‘ اب اس کو یقین ہو گیا کہ یہ بچّہ مجھ سے نہیں ہے‘ تو انکارِ و لدیت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر شوہر نے بیوی سے قربت تو کی تھی لیکن قربت سے ابھی چھ ماہ نہیں گزرنے پائے تھے کہ بچے کی ولادت ہو گئی یا پھر دو سال گزرنے کے بعد ولادت ہوئی‘ تو بھی باپ کے لیے بچے کے نسب سے انکار کر دینا جائز ہو گا۔ البتہ اگر چھ ماہ سے اوپر اور دوسال کے اندر بچے کی ولادت ہوئی یا حیض نہ آنے کی وجہ سے استبراءِرحم (اس سے مراد یہ معلوم ہونا ہے کہ رحم میں نطفہ ہے یا وہ اس سے صاف ہے اور اس کی نشانی حیض کا آنا یا نہ آناہے)نہیں ہوا‘ تو اس صورت میں بچے کی ولدیت سے انکار کرنا باپ کے لیے ناجائز ہے ‘ اور حیض آنے کے وقت سے اگر چھ ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ ولدیت سے انکار کر سکتا ہے۔(۲)
ضابطہ ٔلعان کی دفعات
اسلام میں آیت لِعان‘ روایاتِ حدیث‘ خلفائے راشدہ کے نظائر اور شریعت کے اصول عامہ قانونِ لعان کے وہ ماخذ ہیں‘ جن کی روشنی میں فقہاء نے لِعان کا ایک مفصل ضابطہ بنایا ہے‘ اس کی اہم دفعات درج ذیل ہیں:
(۱) جو شوہر اپنی بیوی کی بدکاری کو دیکھے اور لِعان کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اس کے قتل کا مرتکب ہو جائے‘ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا ‘کیونکہ اسے بطور خود حدّ جاری کرنے کا اختیار نہ تھا۔دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہو گا بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہو جائے (یعنی فی الواقع اس نے بیوی کے زنا کے ارتکاب پر ہی یہ فعل کیا ہے)۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں ‘ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی فعل تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید یہ شرط لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو‘ ورنہ کنوارے کو قتل کرنے پر قاتل سے قصاص لیا جائے گا ‘ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت معاف کیا جائے گا جبکہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے‘ یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کر چکا ہو کہ وہ قاتل کی بیوی سے زنا کر رہا تھا ۔نیز یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو۔
(۲) لِعان زوجین کے گھر بیٹھے آپس میں نہیں ہو سکتا‘ اس کے لیے عدالت جانا ضروری ہے ۔(یعنی قاضی کا فیصلہ لازم ہے۔)
(۳) لِعان کے مطالبے کا حق صرف مَرد کے لیے ہی نہیں بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کر سکتی ہے‘ جبکہ شوہر اس پر بدکاری کا الزام لگائے یااس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔
(۴) کیا لِعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہو سکتا ہے یا دونوں کے حوالے سے اس کے لیے کچھ شرائط ہیں؟اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو‘ وہ لِعان کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لِعان کے لیے کافی ہے‘ خواہ زوجین مسلمان ہوں یا غیر مسلم‘ غلام ہوں یا آزاد‘ مقبول الشہادۃ ہوں یا نہ ہوں‘ اور مسلمان شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر احناف کہتے ہیں کہ لِعان صرف ایسے مسلمان زوجین ہی میں ہوسکتا ہے جو کہ قذف کے جرم میں سزایافتہ نہ ہوں۔ اگر مَرد اور عورت دونوں غیر مسلم ہوں یا غلام ہوں یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزایافتہ ہوں‘ تو ان کے درمیان لِعان نہیں ہو سکتا۔ نیز اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طور پر کسی غیر مَرد سے ملوث ہو چکی ہو‘تب بھی لِعان صحیح نہ ہو گا۔ یہ شرائط احناف نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک قانونِ لِعان اور قانونِ قذف میں اس کے سوا کوئی اور فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف (تہمت لگانے) کا مرتکب ہو تو اس کے لیے شرعی حدّ ہے اور اگر شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لِعان کر کے حدّ سے بری ہو سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لِعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ مزید برآں حنفیہ کےہاں چونکہ لِعان کی قسمیںشہادت کی حیثیت رکھتی ہیں اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو بھی ان قسموں کی اجازت نہیں دیتے جو کہ شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں احناف کے موقف کے مقابلے میں شوافع کا مسلک اصح ہے۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف ِزوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جزو نہیں بنایابلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے۔ اس لیے اس کو قانونِ قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو کہ قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لِعان کے الفاظ آیت قذف سے مختلف ہیں اور دونوں کے حکم الگ الگ ہیں‘ اس لیے قانون لِعان کو آیت لِعان سے ہی اخذکرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے ‘مثلاً آیت ِقذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو کہ پاک دامن عورتوں(محصنات) پر تہمت لگائے‘ لیکن آیت لِعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گنہگار بھی رہی ہو ‘اگربعد میں توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کر لے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو ایسی صورت میں آیت لِعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کر دینے کی اس کے شوہر کو کھلی چھٹی دے دو‘ اس لیے کہ اس عورت کی زندگی کبھی داغدار رہ چکی ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ قذف ِزوجہ اور قذف ِاجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کا کوئی واسطہ نہیں‘ نہ جذبات کا‘ نہ عزت کا‘ نہ معاشرت کا‘ نہ حقوق کا اور نہ ہی نسل و مذہب کا۔ اس کے چال چلن سے ایک آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی باوقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو بس یہ کہ اسلامی معاشرے کو بدچلنی اور بداخلاقی سے پاک دیکھنے کا اس میں جوش وو لولہ ہو۔ اس کے برعکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں بلکہ کئی طرح کا ہوتا ہے اور بہت ہی گہرا ہوتاہے۔ وہ اس کے نسب‘ اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے‘ اس کی زندگی کی شریک ہے‘ اس کے رازوں کی امین ہے‘ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس آدمی سے وابستہ ہیں ۔ بیوی کی بدچلنی سے شوہر کی غیرت اور عزت پر‘ اس کے مقام و مرتبہ پر اور اس کی آنے والی نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر کس حیثیت سے ایک ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج اور برتائوایک جیسا ہو۔ کیا ایک ذمی‘ ایک غلام یا ایک سزا یافتہ آدمی کے لیے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ ملوث دیکھ لے یا اس کو پختہ یقین ہو کہ اس کی بیوی کسی دوسرے سے حاملہ ہے ‘توپھرکون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لِعان کا حق نہ دیا جائے؟اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں ایسے شخص کے لیے اور کیا چارئہ کار ہے ؟
قرآن پاک کا منشا تو صاف طو رپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بدکاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر‘ اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بےجاانکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہو سکتی ہے۔ یہ صورت اور ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے‘ اور قرآن کریم کے الفاظ میں بھی کوئی بات ایسی نہیں ہے جو صرف اس کو انہی لوگوںتک محدود کرنے والی ہو۔ باقی یہ استدلال کہ قرآن نے لِعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے‘ اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی‘ اس کا تقاضا تو پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادۃ شوہر قسمیں کھا لے اور بیوی قسم کھا نے سےکترائے تو اس کو رجم کر دیا جائے‘ کیونکہ اس پر بدکاری کی شہادت قائم ہو چکی ہے۔ لیکن عجب بات یہ ہے کہ اس صورت میں احناف رجم کا حکم نہیں لگاتے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو شہادت کی حیثیت نہیں دیتے‘ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت قرار نہیں دیتا‘ ورنہ عورت کو چار کی بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیا جاتا۔
(۵) لِعان محض کنائے اور استعارے یا اظہارِ شک و شبہ پر لازم نہیں آتا‘بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جبکہ شوہر واضح اورصریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے‘ یا پھر صاف الفاظ میں نومولود کو اپنا بچّہ تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ امام مالک اور لیث بن سعد اس پر مزید یہ اضافہ کرتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ بھی کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔
(۶) اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلوتہی کرے تو امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے مطابق اسے قید کر دیا جائے‘اورجب تک وہ لِعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا تسلیم نہ کر لے‘ اسے نہ چھوڑا جائے۔ اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں شوہر کو حدّ ِ قذف لگائی جائے۔ جبکہ امام مالک‘ امام شافعی‘ حسن بن صالح اور لیث بن سعد کا کہنا ہے کہ لِعان سے کترانا اور بچنا خود ہی اقرارِ کذب ہے‘ اس لیے ایسے مَرد پر حدّ ِ قذف واجب ہو جاتی ہے۔
(۷) اگر شوہر کے قسم کھاچکنے کے بعد عورت لِعان سے پہلوتہی کرے تو احناف کے نزدیک اسے قید کر دیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لِعان نہ کرے یا پھر زنا کا اقرارنہ کر لے‘ جب کہ امام مالک‘امام شافعی‘ حسن بن صالح اورلیث بن سعد کے مسلک کی رو سےاس صورت میں اسےرجم کر دیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دور ہو گا جبکہ وہ بھی قسم کھا لے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھا رہی اس لیے وہ لازمی طور پر عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں ایک کمزوری کا پہلو یہ ہے کہ قرآن اس مقام پر عذاب کی نوعیت تجویز نہیں کر تا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اب اگر یوں کہا جائے کہ سزا سے مراد زنا کی سزا ہی ہو سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدّ ِ زنا کےلیے قرآن مجید نے صاف طور پر چار عینی گواہوں کی شرط لگائی ہے‘ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر سکتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جائے اور بیوی پر لِعان کے احکام مرتب ہو سکیں‘ مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہوجائے۔عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار نہ صرف شبہ بلکہ بڑا قوی شبہ پیدا کر دیتا ہے‘ لیکن شرعی ضابطے کے مطابق شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملے کو مَرد کی حدّ ِ قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے‘ جبھی اسے لِعان پر مجبور کیا جاتا ہے‘ مگر اس کے برعکس درج بالا صورت میں عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے‘ کیونکہ وہ عورت کے اپنے اقرار یا چار عینی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔
(۸) اگر بوقت لِعان عورت حاملہ ہو تو امام احمد بن حنبل کے نزدیک لِعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مَرد اس حمل سے برئ الذمہ ہو جائے اور بچے کی نسبت اس کی طرف قرار نہ پائے‘ قطع نظراس کے کہ مَرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔امام شافعی کا کہنا ہے کہ مَرد کا الزامِ زنا اور نفئ حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں‘ اس لیے مَرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح انکار نہ کرے‘ وہ نومولود الزامِ زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا‘ کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا حمل بھی زنا سے ہی ہو۔
(۹) امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل دورانِ حمل شوہر کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر ان کے نزدیک لعان جائزہے۔ امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر شوہر کے الزام کی بنیاد زنا پر نہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے بیوی کو ایسی حالت (ایسے وقت) میں حاملہ پایا ہے جبکہ اس کے خیال میں وہ حمل اس کا نہیں ہو سکتا‘ تو اس صورت میں لِعان کو وضع حمل تک ملتوی کر دینا چاہیے۔بسا اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کر دیتی ہے اور درحقیقت وہ حمل نہیں ہوتا۔
(۱۰) اگر باپ ہونے والے بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لِعان لازم ہوجاتا ہے۔یہ امر بھی متفق علیہ ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کر لینے کے بعد (خواہ یہ قبول کرنا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال ہوں جیسے پیدائش پر مبارک باد وصول کرنے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے یا اس کی پرورش میں دلچسپی لینے کی صورت میں) باپ کو پھر انکارِ نسب کا حق نہیں رہتا‘اور اگر ایسا کرے گا تو حدّ ِقذف کا مستحق ہو جائے گا۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکارِ نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پررہا جبکہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے‘ اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ گھر سے غائب تھا اور اس کی غیر حاضری میں ولادت ہوئی تو جس وقت شوہر کو علم ہو وہ انکار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے ہاں اگر بچے کی پیدائش کے ایک دو روز کے اندر (سوائے اس کے کہ اس میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جسے معقول تسلیم کیا جا سکے) باپ انکار کر دے تو لِعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے فارغ ہوجائے گا‘لیکن اگر وہ سال دو سال کے بعد انکار کرے تو لِعان لازماً ہو گا مگر باپ بچے کی ذمہ داری سے بَری نہ ہوسکے گا۔ امام ابویوسف کے نزدیک باپ کو بچے کی ولادت یا اس کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر انکارِ نسب کا حق ہے‘ اس کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا۔
(۱۱) شوہر طلاق دینے کے بعد اگر مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابوحنیفہ کی رائے کے مطابق لِعان نہیں ہو گا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا۔اس لیے کہ لِعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اب اس کی بیوی نہیں ہے‘ ماسوائے اس کے کہ طلاقِ رجعی ہو اور مدّت ِرجوع کے اندر شوہر الزام لگائے۔جبکہ امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ورنہ شوہر کو طلاقِ بائن کے بعد بھی لِعان کا حق حاصل ہے ‘کیونکہ وہ عورت کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لِعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔
(۱۲) لِعان سے مہر ساقط (ختم) نہیں ہوتا ‘ خواہ شوہر کا الزام حقیقت میں صحیح ہویا غلط۔ بہر صورت خاوند کو مہردینا پڑے گا۔ یا اگر ادا کر چکا ہے تو اس کو واپس مانگنے کا حق حاصل نہیں۔
(۱۳) لِعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
(ا) متفق علیہ نتائج یوں ہیں:عورت اور مَرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مَرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچّہ صرف ماں کا قرار پائے گا‘ نہ باپ کی طرف منسوب ہو گا‘ نہ اس سے میراث پائے گا۔ ماں اس کی وارث ہو گی اور وہ ماں کا وارث ہو گا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو بھی حق نہ ہو گا‘ خواہ لِعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لِعان کے بعد عورت پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حدّ ِ قذف کا مستحق ہو گا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہوگا اور عورت دورانِ عد ت مَرد سے نفقہ اور مسکن (جائے رہائش) پانے کی حق دار نہ ہو گی۔ عورت اس مَرد کے لیے دائمی حرام ہو جائے گی۔
(ب) اختلاف دو مسئلوں میں ہے : ایک یہ کہ لِعان کے بعد عورت اور مَرد کی علیحدگی کیسے ہوگی؟اس مسئلے میں امام مالک ‘ لیث بن سعد اور امام زفر کا کہنا ہے کہ مَرد اور عورت دونوں جب لِعان کر لیں تب علیحدگی ہو جاتی ہے۔ امام شافعی کے نزدیک جس وقت مَرد لِعان سے فارغ ہو جائے اسی وقت علیحدگی خود بخود واقع ہو جاتی ہے‘ عورت کا جوابی لِعان کرنا لازم نہیں۔امام ابوحنیفہ‘ امام ابویوسف اور امام محمد کہتے ہیں کہ لِعان سے فرقت (علیحدگی) خودبخود ہی واقع نہیں ہو جاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر‘ ورنہ حاکم(قاضی) ان کے درمیان علیحدگی کا اعلان کرے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ لِعان کی بنیاد پر علیحدہ ہو جانے کے بعد کیا زوجین کا دوبارہ ملاپ ممکن ہے؟ اس حوالے سے حضرت عمر ‘ حضرت علی‘ حضرت عبداللہ بن مسعود(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)‘ امام مالک‘ امام ابویوسف‘ امام زفر‘ سفیان ثوری‘ اسحاق بن راہویہ‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد(رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم)کی رائے کے مطابق جو زوجین لِعان سے باہمی طور پر جداہو جائیں‘ وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں‘ دوبارہ باہم نکاح کرنا چاہیں بھی تو کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس سعید بن مسیب‘ ابراہیم نخعی‘ شعبی‘ سعید بن جبیر‘ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے مسلک میں اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حدّ ِ قذف جاری ہو جائے تو لِعان کے بعد بھی زوجین کے درمیان دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے حرام کرنے والی چیز لِعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں حرمت بھی قائم رہے گی‘ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو پھر لِعان ختم اور زوجین کےدرمیان باہمی حرمت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔(۳)
لِعان ہو جانے کے بعد لازم آنے والے احکام کے بارے میں فقہاء کے مابین کئی مسائل میں اختلاف ہے:
(ا) کیا لِعان سے تفریق لازم آتی ہے یا نہیں؟جمہور فقہاء کی رائے کے مطابق لِعان سے خود ہی تفریق واقع ہو جاتی ہے‘ اس لیے کہ اس سلسلہ میں مشہور احادیث موجود ہیں کہ حضورﷺ نے لِعان کرنے والے زن و شو کے درمیان تفریق فرما دی۔ امام مالک نے ابن شہاب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ لِعان کرنے والوں کے درمیان تفریق واقع ہوجانا ہی سُنّت ہے۔ (لِعان کے حوالے سے) فرمانِ رسولﷺ ہے: ’’تمہیں اپنی بیوی پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا‘‘۔ امام عثمان بتی اور فقہائے بصرہ کا کہنا ہے کہ لِعان کے بعد تفریق لازم نہیں آتی ‘ کیونکہ یہ حکم آیت لِعان میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی احادیث میں اس کی وضاحت ہے‘ بلکہ حدیث مشہورکے مطابق جب لِعان کرنے والے شوہر نے حضورﷺ کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو آنحضورﷺ نے شوہر کے اس فعل کی تردید نہیں فرمائی۔ نیز لِعان کا مقصد حدّ ِ قذف کا اسقاط ہے‘ اس لیے اس سے وہ تحریم ثابت نہیں ہوگی جو بینہ (ثبوت) سے ثابت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے جمہور فقہاء کی دلیل یہ ہے کہ لِعان کے بعد میاں بیوی میں اس قدر نفرت‘ بےتعلقی‘ بے شرمی اور حدود اللہ کی پامالی ہو چکی ہوتی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ دوبارہ ان کا ملاپ نہ ہو سکے۔ زوجیت کی بنیاد تو مودّت‘ محبّت اور باہمی قلبی تعلق ہوتا ہے جو کہ زوجین کے درمیان بالکل ختم ہو چکا۔ اب اس کی کم از کم سزا دائمی علیحدگی ہونی چاہیے۔
(ب) لِعان کے بعد تفریق کب لازم آتی ہے اور کیا لِعان کے بعد تفریق کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے؟وقت تفریق کے بارے میں امام مالک‘ لیث اور ایک جماعت فقہاء کی رائے یہ ہے کہ زوجین کے لِعان سے فارغ ہوتے ہی تفریق واقع ہو جاتی ہے۔ امام شافعی کے مطابق شوہر کے لِعان کر چکنے کے بعد تفریق واقع ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ حاکم (قاضی) کے حکم سے تفریق واقع ہوتی ہے (یعنی اس کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے) اور یہی رائے امام ثوری اور امام احمد بن حنبل کی ہے۔ امام مالک کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے لِعان کے پورا ہونے پر تفریق فرمائی۔ آپﷺ نے لِعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان تفریق فرما دی اور ارشاد ہوا : ’’تم دونوں کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘ تم میں سے ایک لازماً جھوٹا ہے‘ اب شوہر کا بیوی پر کوئی اختیار (حق) باقی نہیں رہا‘‘۔ امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ عورت کے لِعان سے خود اس کی حد ساقط ہو جاتی ہے اور شوہر کا لِعان انکارِ نسب میں مؤثر ہے۔ گویا تفریق میں مَرد کا لِعان ہی مؤثر ہوا۔ امام مالک اور امام شافعی کی مشترکہ دلیل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے لِعان کرنے والے میاں بیوی کو لِعان کر چکنے کے بعد باہمی تفریق کے بارے میں آگاہ فرمایا‘ اس سے معلوم ہوا کہ لِعان تفریق کا سبب ہے۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ زوجین کے درمیان تفریق حضورﷺ کے اس حکم سے ہوئی جو کہ آپ نے شوہر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اب تمہیں اپنی بیوی پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ نیز حضورﷺ کا فیصلہ لِعان کے صحیح ہونےکی شرط بھی ہے (یعنی خود لِعان کی صحت کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے)۔ وجہ اختلاف یہ ہے کہ حدیث مشہور میں نبی اکرمﷺ کا حکم تفریق صریحاً واضح نہیں ہے‘ کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ شوہر نے خود ہی سبقت کر کے بیوی کو طلاق دے دی۔ جبکہ اصول یہی ہے کہ تفریق طلاق سے ہی ہوتی ہے اور ابدی تحریم کا کوئی واضح حکم شرعی موجودنہیں۔ چنانچہ جن فقہاء نے اس اصول کو ترجیح دی ہے ان کے نزدیک عدالت کا فیصلہ تفریق لازمی ہے (کہ عدالت کا فیصلہ تفریق بھی طلاق کے حکم میں ہی ہے۔)حاکم (قاضی) کا حکم (عدالتی فیصلہ) کے شرط ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کیا لِعان ان احکام میں سے ہے جن کی صحت کے لیےحکم ِحاکم لازم ہوتا ہے یا نہیں؟
(ج) اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ لِعان سے تفریق واقع ہو جاتی ہے تو کیا یہ تفریق فسخ نکاح ہے یا پھر طلاق؟امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ فسخ نکاح ہے اور امام ابوحنیفہ کے ہاں یہ طلاقِ بائن ہے۔ امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ لِعان سےدائمی حرمت ثابت ہو جاتی ہے ‘ اس لیےیہ حرمت ان عورتوں کے مشابہ ہو جائے گی جو دائمی طور پر حرام (محرمات) ہیںـ ۔ امام ابوحنیفہ اس تفریق کو عنین(نامَرد شخص) کی تفریق کے مشابہ قرار دیتے ہیں‘ جبکہ یہ تفریق عدالتی فیصلے کے ذریعے ہوئی ہو۔(۴)
لِعان‘ مفاعلت کا مصدر ہے‘ لغوی معنی ہے دھتکارنا اور رحمت سے دور کرنا۔شرح میں لِعان ان چار شہادتوں اور لعن اور غضب کو کہتے ہیں جو میاں بیوی کے درمیان جاری ہو۔ اس مجموعہ کا نام لِعان اس وجہ سےرکھا گیا کہ اس میں لعن مذکور ہے‘ جیسے رکوع پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نماز کا نام رکوع اور تشہد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے التحیات کا نام تشہد رکھ دیا گیا ۔ رہی یہ بات کہ لِعان نام کیوں رکھا گیا جبکہ اس میں غضب کا بھی ذکر ہے تو وجہ یہ ہے لعن مَرد کی جانب سے ہوتا ہے اور غضب عورت کی جانب سے ۔ اب ظاہر ہے کہ جو چیز یا بات مَرد سے متعلق ہوتی ہے وہ مقدم ہوتی ہے ‘ اسی لیے نام رکھنے میں لعن کو ترجیح دی گئی نہ کہ غضب کو۔ رہی یہ بات کہ عورت کی شہادت کو لفظ لعن کی بجائے لفظ غضب کے ساتھ کیوں ضروری ٹھہرایا گیا؟تو جواب یہ ہے کہ عورتیں اپنے کلام میں بکثرت لعنت کا لفظ استعمال کرتی ہیں‘ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوتا ہے : ((تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ)) (متفق علیہ)’’تم (عورتیں) بکثرت لعنت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی نعمتوں کا انکارکرتی ہو‘‘۔ پس زیادہ لعنت کرنے کی وجہ سے ان کی نظروں سے اس کی قباحت ہی ختم ہوتی جاتی ہے‘ اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ لعنت کرنے کے اقدام پر جری ہو جائیں۔ اسی مصلحت کے پیش نظر عورت کی شہادت کو لفظ غضب کے ساتھ ملایا گیا ہے‘ تاکہ وہ جھوٹی قسم اٹھانے سے باز رہے۔
ابوبکر رازی نے مختصر الطحاوی کی تشریح میں ایک حدیث کا ذکر کیا ہے کہ چار زوجین ایسے ہیں جن میں لِعان نہیں ہوتا :
(ا) یہودیہ جو مسلمان مَرد کے تحت ہو (ب) نصرانیہ جو مسلمان مَرد کے تحت ہو
(ج) مملوکہ (باندی) جو آزاد مَرد کے تحت ہو (د) آزاد عورت جو غلام کے نکاح میں ہو
اگر شوہر نے لِعان کیا تو عورت پر بھی لِعان کرنا واجب ہوگا‘ اس کی ابتدا شوہر سے کی جائے گی۔ حسن نے ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ دورانِ لِعان شوہر عورت سے خطاب کے لفظ اپنی گواہی میں لائے اور یوں کہے کہ زنا کا عیب جو مَیں نے تجھ پر لگایا‘ کیونکہ یہ احتمال کو بالکل ختم کر دیتا ہے۔ لِعان کرنے سے جو علیحدگی واقع ہو گی‘ احناف کے نزدیک وہ طلاقِ بائن کے حکم میں ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جیسے ایک سال کی مہلت کے بعد قاضی اگر عنین (نامَرد)اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کر دے تو یہ تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے‘ اسی طرح یہاں قاضی کی تفریق سے جو علیحدگی ہوئی وہ طلاق بائن ہو گی۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اس تفریق سے مقصود عورت سے ظلم دور کرنا ہے اور یہ طلاق بائن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلم نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ اللِعان تطلیقۃ بائنۃ’’لِعان طلاق بائنہ ہے‘‘۔
اگر شوہرنے اپنی ایسی بیوی پر زنا کا عیب لگایا جو کہ نابالغ یا دیوانی ہے‘ تو زوجین کے درمیان لِعان نہیں ہوگا۔ دلیل یہ ہے کہ صغیرہ (نابالغ) اور مجنون (دیوانی) کے قاذف (تہمت لگانے والا) کو حدّ نہیں لگائی جاتی‘ اگرچہ ان کا قاذف اجنبی مَرد ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حکم اس وقت ہے جبکہ شوہر نابالغ یا دیوانہ ہو‘کیونکہ یہ دونوں شریعت کے مخاطب نہ ہونےکی وجہ سے شہادت کی اہلیت نہیںرکھتے جو کہ لعان کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح اگر گونگے نے اپنی بیوی پر (اشارے کنائے سے) زنا کا عیب لگایا تو یہاں بھی لِعان نہیں ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ لِعان واضح اور صریح قذف (تہمت)سے متعلق ہوتا ہےجب کہ حدّ ِ قذف بھی صریح قذف سے واجب ہوتی ہے۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ تیرا حمل مجھ سے نہیں ہے تو اس سے نہ لِعان واجب ہو گا اور نہ ہی حدّ۔ لِعان واجب نہ ہونے کا قول امام ابوحنیفہ‘ امام زفر اور امام احمد کا ہے‘ جبکہ امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک اگر مَرد کے تہمت لگانے کے وقت سے چھ ماہ سے کم وقت میں عورت نے بچّہ جنا تو حمل کی نفی کر دینے سے لِعان واجب ہو جائے گا ۔ایک عورت نے اگر ایک ہی حمل سے دو بچے جنے اور ان کے درمیان چھ ماہ سے کم کی مدّت ہے‘ اب اس کے شوہر نے پہلے بچے کے نسب کی نفی اور دوسرے کا اقرار کیا ‘ پہلے کا اقراراور دوسرے بچے کے نسب کی نفی کی‘ تو اس صورت میں اس شخص سے دونوں بچوں کا نسب ثابت ہوگا۔ دلیل یہ ہے کہ دونوں جڑواں بچے ایک ہی نطفہ سے پیدا ہوئے ہیں‘ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بچہ اس کا ہو اور دوسرا نہ ہو‘ اس لیے دونوں بچوں کا نسب اسی خاوند سے ثابت ہو گا۔ البتہ اس (شوہر) پر حدّ ِ قذف جاری کی جائے گی‘ کیونکہ اس نے تہمت لگائی اور رجوع نہیں کیا (اس طرح اپنے آپ کو جھوٹا ثابت کیا)۔
حواشی
(۱) معارف القرآن از حضرت مفتی محمد شفیع‘ سورۃ النور‘جلد:۶‘ص:۳۵۶ تا ۳۶۲‘ طبع اکتوبر۱۹۹۰ء‘ ادارۃ المعارف‘ کراچی۱۴۔
(۲) تفسیر مظہری از قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی‘ تشریحی ترجمہ از مولانا سید عبدالدائم الجلالی‘ جلد۸‘ سورۃ النور‘ آیات ۶ تا ۱۰‘ ص۲۷۷ تا ۲۹۴‘ طبع ۱۹۸۰ء‘ ایچ ایم سعید کمپنی‘ پاکستان چوک‘ کراچی
(۳) تفہیم القرآن از سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ جلدسوم‘ سورۃ النور‘ آیات۶ تا۱۰‘ ص:۳۵۹ تا ۳۶۳‘ بار پنجم‘ طبع ۱۹۸۶ء‘ ادارہ ترجمان القرآن‘ لاہور
(۴) کتاب النکاح و کتاب الطلاق ازعلامہ ابن رشد‘ مترجم ساجد الرحمٰن صدیقی‘ کتاب الطلاق‘ لِعان کا بیان‘ پانچویں فصل‘ ص: ۲۱۷ تا ۲۲۰‘ طبع ۲۰۱۴ء‘ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ‘ لاہور
(۵) اشرف الہدایہ شرح (اردو) ہدایہ از علامہ برہان الدین المرغینانی‘ مترجم مولانا جمیل احمد سکروڈھوی‘ جلد پنجم‘ باب اللعان‘ ص: ۱۳۸ تا ۱۵۶ ‘ طبع ۲۰۰۶ء‘ دار الاشاعت‘ اردو بازار‘ کراچی
tanzeemdigitallibrary.com © 2025