(تذکر و تدبر) مِلاکُ التأوِیل (۳۰) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

8 /

مِلاکُ التأوِیل (۳۰)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن

سُورۃُ    یُوسُف

(۱۸۹) آیت ۱۰۹
{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا    ۭ }
’’کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا ؟اور یقیناً اُخروی گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو بچتے رہے۔‘‘
اس قسم کی آیات کہ پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرو‘ قرآن مجید میں کئی جگہوں پر وارد ہوئی ہیں ‘ ان کا آغاز ہمزہ (جسے ہمزئہ تقریر بھی کہا جاتا ہے) سےاور اس کے بعد حرفِ فاء (جسے فاء التعقیب کہا جاتا ہے) یا وائو (جسے واوِ نسق یا واوِ عطف بھی کہا جاتا ہے) لایا جاتا ہے۔
شروع میں ہمزہ کا لایا جانا تو واضح ہے کہ اسے ہمیشہ شروع ہی میں لایا جاتا ہے‘ تو حرفِ عطف اس سےقبل نہیں آ سکتا۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہمزہ کے بعد کہیں فاء تعقیب اور کہیں واوِ جمع لانے میں کیا حکمت ہے؟کیونکہ یہ تو معلوم ہے کہ حرفِ فاء کے ساتھ ترتیب اور تعقیب(کسی چیز کے پیچھے پیچھے آنا)کا تصوّر ذہن میں آتا ہے اور وائو کے ساتھ صرف دو یا متعدد چیزوں میں شراکت اور جمع کا تصوّر قائم ہوتا ہے۔
قرآن میں چار جگہ فاء اور تین جگہ وائو لایا گیا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان چار آیات میں فاء کیوں لایا گیا اور دوسری تین آیات میں وائو کیوں لایا گیا۔
ان چار آیات میں تو پہلی یہی سورئہ یوسف کی آیت ہے اوردوسری سورۃ الحج کی آیت ۴۶۔ پھرسورئہ غافر کی آیت۸۲ اور سورۃ القتال (یا سورۃ محمدؐ) کی آیت ۱۰ شامل ہیں۔
اور وائو کے ساتھ سورۃ الروم کی آیت ۹ {اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ …} اور سورۃ الملائکۃ (یا سورئہ فاطر)کی آیت ۴۴ اور سورۃ المؤمن (یا سورئہ غافر) کی آیت۲۱شامل ہیں۔
اب ہم جواب کی طرف آتے ہیں۔
سب سے پہلے سورۃ یوسف کی مذکورہ آیت ‘ اسے سمجھنے کے لیے اس آیت سے ماقبل آیات کا مطالعہ کرنا ضروری ہو گا۔آیت۱۰۵ میں ارشاد فرمایا:
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ(۱۰۵)}
’’اور آسمان اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ گزرتے ہیں اور بے اعتنائی کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
{ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ (۱۰۶)}
’’اور ان میں سے اکثر اللہ پرایمان نہیں لاتے ہیں مگر یہ کہ وہ مشرک ہوتے ہیں۔‘‘
پھر فرمایا:
{اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِیَھُمْ غَاشِیَۃٌ مِّنْ عَذَابِ اللہِ اَوْ تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۱۰۷)}
’’کیا وہ اس بات سے امن میں ہیں کہ ان پر اللہ کے عذاب میں سے کچھ چھاجائے؟یا ان پر آخری گھڑی اچانک آ پہنچے اور انہیں اس کے آنے کا احساس تک نہ ہو!‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
{قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللہِ          ۣ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ      ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۰۸)}
’’کہہ دیجیے :یہ میرا راستہ ہے ‘مَیں اس پر پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ مَیں بھی اور وہ بھی جو میری پیروی کر رہے ہیں۔ اللہ پاک ہے اور مَیں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
اس کے بعد مذکورہ آیت آتی ہے‘ فرمایا:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَھْلِ الْقُرٰی     ۭ اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ …الخ}
’’اور ہم نے تم سے قبل نہیں بھیجے ہیں مگر مرد جن کی طرف ہم بستیوں والوں میں سے وحی کرتے رہے۔ تو کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں …‘‘
یہاں شرط اور جوابِ شرط کے اسلوب میں بات ہو رہی ہے جس کے لیے فاء کا لانا مناسب ہے نہ کہ ’’وائو‘‘ کا۔گویا یہ کہا جا رہا ہے :’’ہم نے تم سے قبل بھی تم جیسے کئی مرد بھیجے تھے جن کو جھٹلایا گیا‘ اور پھر ان کو جھٹلانے والے سارے کے سارے ہلاک ہو گئے اور بُری طرح اللہ کی پکڑ میں آ گئے۔ تو اب اگر یہ لوگ چاہیں تو زمین میں چلیں پھریں اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ان لوگوں کا انجام کیساہوا!‘‘
اوراس بات کی تائید سورۃ النحل کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللہُ وَمِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ۭ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ(۳۶)}
’’اور ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول کو بھیجا (اس حکم کے ساتھ) کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (معبودانِ باطل) سے بچو! توپھر اُن لوگوں میں سے کچھ کو اللہ نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی کی مہر لگ گئی۔ تو پھر زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔‘‘
یعنی اگر تمہیں شک ہے تو پھر زمین میں چلو پھرو…
سورۃ الحج کی آیت بھی اسی قبیل کی ہے ۔ مذکورہ آیت سے قبل کی آیات ملاحظہ ہوں:
{وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ (۴۲)وَقَوْمُ اِبْرٰھِیْمَ وَقَوْمُ لُوْطٍ(۴۳) وَّاَصْحٰبُ مَدْیَنَ ۚ وَکُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ ۚ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ(۴۴)}
’’اور اگر انہوں نے تمہیں جھٹلایا ہے تو اس سے قبل نوح‘ عاد‘ ثمود کی قوموں نے ‘ اور ابراہیم اور لوط کی اقوام نے ‘اور مدین والوں نے بھی جھٹلایا تھا‘ اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی‘ تو مَیں نے کافروں کو مہلت دی او رپھر انہیں جاپکڑا ۔تو پھر میری پکڑ کیسی رہی؟‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
{فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا وَھِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ(۴۵)}
’’پھر ہم نے کتنی ہی ظلم کرنے والی بستیاں ہلاک کر ڈالیں‘ تو اب وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں‘ اور کتنے ہی کنویں بے کار اور کتنے مضبوط محلات ویران پڑے ہیں۔‘‘
اور اس کے بعد مذکورہ آیت ہے :{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ …} یعنی کیا اب ان لوگوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ زمین میں چلیں پھریں اور پھر اپنی عقل اور سمع وبصر کو استعمال میں لاتے ہوئے عبرت حاصل کریں!
ملاحظہ ہو! یہاں بھی ایک سبب اور جوابِ سبب کا سا معاملہ ہے جس کے لیے واوِ عطف نہیں‘ بلکہ ’’فاء‘‘ کا لانا ہی مناسب تھا۔ اب رہی سورۃ المؤمن (یا غافر) کی آیت تو اس سے قبل کی آیت ملاحظہ ہو:
{وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ      ڰ   فَاَیَّ اٰیٰتِ اللہِ تُنْکِرُوْنَ(۸۱)}
’’اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ‘تو پھر اللہ کی کن نشانیوں کا تم انکار کروگے؟‘‘
اور اس کے بعد یہ آیت آتی ہے :
{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ  ۭ} (آیت۸۲)
’’توکیا وہ زمین میں نہیں چلے پھرے تو پھر دیکھتے کہ ان سے پہلے والے لوگوں کا کیا انجام ہوا!‘‘
یہاں بھی پہلے نشانیوں کا ذکر ہوا اور اس کے بعد کہا گیا کہ کیا ان کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ زمین میں چلتے پھرتے؟ جیسا کہ سورۃ الذاریات میں ارشاد ہوا:{وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(۲۰)}’’اور زمین میں یقین والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے۔یہاں بھی واوِ عطف نہیں بلکہ فاء التعقیب لانے ہی کا مقام تھا۔
اب سورۃ القتال (سورئہ محمدﷺ) کو لے لیں۔ مذکورہ آیت  {اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ …}  سے قبل ارشاد فرمایا:
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷) }
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔‘‘
{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّھُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَھُمْ(۸)}
’’اور جن لوگوں نے کفر کیا‘ ان کے لیے بربادی ہو اور ان کے اعمال اکارت جائیں۔‘‘
{ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ(۹)}
’’اور وہ اس لیے کہ انہوں نے ناپسند کیا جو اللہ نے اتارا تو ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔‘‘
اور پھر یہ آیت آتی ہے:
{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْاکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۭ }(آیت۱۰)
’’کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں تو پھر دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا؟‘‘
یہاں بھی پہلے کُفّار کی بداعمالی کا تذکرہ ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کیا گیا اور اس بنا پر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجّہ دلائی گئی ‘ اور اس غرض کے لیے یہاں بھی فاء التعقیب کا لانا ہی مناسب تھا۔
اب آیئے دوسری قسم کی آیات کی طرف جہاں واوِ عطف لایا گیا ہے اور اس میں یہ بات عیاں ہو گی کہ وہاں ماقبل اور مابعد آیات میں صرف شراکت کا تعلق ہے۔ نہ وہاں کوئی سبب بیان ہوا ہے ‘ نہ کوئی جوابی بیانیہ ہے اور نہ تعقیب کا کوئی اشارہ ہے ۔سوائے اس کے کہ دو مماثل چیزوں کا بیان ہو رہا ہے اور دونوں کے درمیان واوِ عطف لا کر ان دو چیزوں میں مشارکت کو ظاہر کیا گیا ہے ۔ اب دیکھئے سورۃ الروم کی آیت۸ ‘جس میں ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ       ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ۭ}
’’کیا انہوں نے اپنےبارے میں نہیںسوچا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے‘ نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ اور ایک معیّن مدّت کے لیے؟‘‘
اوراس سے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۭ}(آیت ۹)
’’توکیا وہ زمین میں نہیں چلے پھرے تو پھر وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ دونوں آیات میں عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس لحاظ سے دونوں کا مضمون ایک ہی ہے۔ اس لیے یہاں واوِ عطف لایا گیا کہ دونوں آیات ایک ہی معنی اور مقصود میں شریک ہیں۔ یہاں فاء التعقیب لانے کا کوئی موقع نہ تھا۔
سورۃ الملائکۃ (سورئہ فاطر) کی آیت ۴۳ میں ارشاد فرمایا:
{ فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ    ۚ}
’’کیا پھر وہ پہلے لوگوں کے دستور کے منتظر ہیں؟‘‘
یہاں بھی مقصود عبرت کی طرف توجّہ دلانا ہے ‘ اور وہ یہ کہ پچھلے لوگوں کے کفر اور بداعمالی کی بنا پر وہ ہلاک ہوئے تو پھر تم ان کے انجام سے عبرت حاصل کیوں نہیں کرتے؟
اور اگلی آیت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ}
’’کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں تو دیکھتے کہ ان سے پہلےوالوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘
یہاں بھی سورۃ الروم کی آیات کی طرح واوِ عطف کا لانا ہی مناسب تھا کہ دونوں آیات کا مضمون ایک ہی ہے‘ اس لیے واوِ عطف کے ساتھ انہیں جمع کر دیا گیا۔
آیت {اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ…} اس سورت کی ۲۱ویں آیت ہے۔ اس سے قبل آیت ۱۳ اور اس کے بعد کا مضمون ملاحظہ ہو:
{ہُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ وَیُنَزِّلُ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ رِزْقًا     ۭ  وَمَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ(۱۳)}
’’اور وہی (اللہ) ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق اتارتا ہے۔ اور نہیں نصیحت حاصل کرتے مگر وہی لوگ جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت کا مقصود کیا ہے؟یہی نا کہ تم اللہ کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرو کہ کیسے اُس نے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کیا۔ اور پھر چند آیات کے بعد اسی مضمون کی آیت بیان ہوئی۔ فرمایا:
{اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ کَانُوْا مِنْ قَبْلِھِمْ    ۭ} (آیت ۲۱)
’’کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘
یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک معروف سُنّت سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجّہ دلائی جا رہی ہے ‘یعنی پہلے بھی ایک نشانی کابیان تھا اور بعد میں بھی۔ اس لیے یہاں بھی واوِ عطف لانا ہی قرین ِقیاس تھا۔ واللہ اعلم!
----------------------------------

سُورۃُ الرَّعْد(۱۹۰) آیت ۱
{الۗمّۗرٰ         ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ     ۭ وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ}
’’ا‘ل‘م‘ ر! یہ کتاب کی آیات ہیں ۔اور جوکچھ آپؐ کے ربّ کی طرف سے اُترا ہے‘ وہ حق ہے۔‘‘
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں:
(۱) سورۃ الرعد سے تین سورتیں قبل (یونس‘ہود‘یوسف) اور دو سورتیں بعد میں (ابراہیم‘الحجر) میں صرف ’’الۗرٰ‘‘ آیا ہے۔ لیکن اس سورت میں ’’میم‘‘ کے اضافےکے ساتھ ’’الۗمّۗرٰ‘‘ کہا گیا تو اس کا کیا سبب ہے؟
(۲) یہاں آیت کا دوسرا جملہ (وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ …) پہلے جملے (تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ) پر معطوف ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں آنے والی بات پہلی بات سے مختلف ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر معطوف اور معطوف علیہ میں فرق نہیں رہے گا۔ یعنی ایک چیز کا عطف اپنے اوپر ہی ہو جائے گا۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الرعد سے قبل اور بعد کی دونوں سورتوں یعنی سورۃ یوسف اور سورۃ ابراہیم میں ان چاروں کلمات (الف‘لام‘میم ‘را) کی اتنی تکرار نہیں ہوئی جتنی سورۃ الرعد میں ہوئی ہے۔ سورئہ یوسف میں الْاَمْر اور المُجْرِمِیْن کے دو کلمات ملاحظہ ہوں:
{قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ(۴۱)}
’’اس امر کا فیصلہ ہو گیا جس کے بارے میں تم دونوں سوال کرتے تھے۔‘‘
{وَلَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۱۰)}
’’اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے ہٹایا نہیں جاتا۔‘‘
سورئہ ابراہیم میں ’’م‘‘ اور ’’ر‘‘ پر مشتمل ان پانچ آیات کو ملاحظہ فرمائیں:
(۱) {لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ} (آیت ۲۲) ’’جب فیصلہ آ گیا‘‘
(۲) {مِّنَ الثَّمَرٰتِ} (آیت ۳۷) ’’اور پھلوں میں سے ‘‘
(۳) {وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ} (آیت ۳۳) ’’اور تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا۔‘‘
(۴) {عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ} (آیت ۳۷) ’’اور تیرے حرمت والے گھر کے نزدیک‘‘
(۵) {وَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ} (آیت ۴۹) ’’اور تم مجرموں کو دیکھو گے۔‘‘
اور پھر سورۃ الرعد میں اس قبیل کے چھ کلمات ہیں:
(۱) {وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ    ۭ} (آیت۲) ’’اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا۔‘‘
(۲) {یُدَبِّرُ الْاَمْرَ} (آیت۲) ’’وہی کام کی تدبیر کرتا ہے‘‘
(۳) {وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ} (آیت۳) ’’اور تمام پھلوں میں سے‘‘
(۴) {وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ} (آیت۸) ’’اور ارحام میں جو کمی آتی ہے‘‘
(۵) { وَھُمْ یَکْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ ۭ } (آیت۳۰) ’’اور وہ رحمان کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
(۶) {فَلِلہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا    ۭ} (آیت۴۲) ’’اور تمام تدبیریں اللہ ہی کے لیے ہیں۔‘‘
یعنی اس سورت میں ’’میم‘‘ پر مشتمل کلمات کی زیادتی کا پہلی ہی آیت میں ’’الۗمّۗرٰ‘‘ کہہ کر اشارہ ہو گیا۔
دوسرے سوال کے جواب میں ایک تمہید کا بیان کرنا ضروری ہے۔
(۱) اگر آیت کے دوسرے جزو (یعنی وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ …) سے مرادپوری کی پوری کتابِ منزّل ہے تو واقعی معطوف اور معطوف علیہ ایک چیز ہی ہیں اور ایک کا دوسرے پر عطف غیر ضروری ہو گا۔
(۲) اوراگر یہ کہیں کہ ’’الکِتٰب‘‘ سے مراد تورات اور انجیل ہیں یا دونوں میں سے ایک کتاب مقصود ہے تو یہ بڑے دور کی بات ہے‘ اور وہ اس لیے کہ ہمارا ان سے تعلق اتنا ہی ہے کہ وہ من جملہ اتاری گئی ہیں اور ہماری شریعت ان کے نازل ہونے کی بابت صراحت کر رہی ہے‘ تو پھر ان سے عبرت پکڑنے کا حکم کیسے دیاجا سکتا ہے‘ جبکہ کسی بھی امر یا نہی یا حکم میں ان کا اعتبار ملحوظِ خاطر رکھنے کا حکم ہمیں نہیں دیا گیا۔
(۳) اور اگر یہ کہا جائے کہ ’’الکِتٰب‘‘ سے مراد سورت ہے اور { وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ} سے سارا قرآن مراد ہے تو بقول زمخشری یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے ‘لیکن اس سے تشفی حاصل نہیں ہوتی۔ بات کچھ ڈھکی چھپی رہتی ہے۔
اس لیے مَیں اللہ سے توفیق طلب کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ عبرت پذیری کے لیے جو دلائل بیان ہوئے ہیں وہ اپنی تمام ترتفصیلات کے ساتھ دو طریقوں میں منحصرہیں اور انہی دو طریقوں سے توحید کا علم حاصل ہوتا ہے اور رسالت کا اثبات ہوتاہے۔ انہی کی تفصیلات کے ضمن میں عبرت بھی حاصل ہوتی ہے اور اللہ کی کتاب سے نصیحت بھی پکڑی جاتی ہے۔ پہلا طریقہ حواس سے متعلق ہے جس میں انفس اور کائنات کی ساری نشانیاں آ جاتی ہیں۔ تمام موجود اشیاء میں غور و فکر کرنا کہ وہ کیسے وجود میں آئیں‘ ان کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے؟ ان کا آپس میں تعلق کیا ہے؟زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ‘ افلاک‘ نجوم اور کواکب کی حرکات‘ کبھی ان میں سرعت آجاتی ہے او رکبھی سستی‘ ان میں سے پانچ کا چھپ جانا‘ ان کی شعاعوں کا حلقہ اثر اور زمان و مکان پر ان کے اثرات۔ دن رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا جانا‘ کبھی رات دن میں داخل ہو رہی ہے اور کبھی دن رات میں‘ موسموں کا سرد و گرم ہونا‘ ہوائوں اور آندھیوں کا چلنا۔ اور ان تمام چیزوں کا بڑے قاعدے اور انتظام کے ساتھ برپا ہونا کہ جن کی حقانیت پر عقل دلالت کرتی ہے اور جن کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ دوسرا طریق پچھلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کرنا ہے۔ کیسے کیسے رسول ان کے پاس آئے‘ اللہ کے پیغامات ان تک پہنچائےتو ان کا ردّ ِعمل کیا رہا؟ پھر جب انہوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تو پھر ان کے ساتھ کیا ہوا؟ سرکشوں کو سزا نے آن لیا اور ہر اُمّت میں سے اہل ِایمان کو بچا لیا گیا۔
ان دونوں طریق سے کتاب اللہ کی آیات تمام لوگوں کے لیے نصیحت اور عبرت کاپہلو لیے ہوئے ہیں۔ اب پہلے طریق یا منہج سے متعلق کچھ آیات ملاحظہ ہوں:
(۱) {یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ … (الی قولہ) فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۲۲)} (البقرۃ)
(۲) {اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ … (الی قولہ) لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)} (البقرۃ)
(۳) { اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۳)} (الجاثیۃ)
(۴) {وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(۲۰) وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ } (الذّٰریٰت)

ملاحظہ ہو کہ ان آیات میں آفاقی دلائل بھی ہیں‘ انسان کے اپنے نفس میں پائے جانے والی نشانیوں کی طرف بھی اشارہ ہے اور یہ سارے دلائل اللہ کی توحید کے اثبات کے لیے ہیں۔
قرآن کے ربع اول میں پہلے طریق پر مشتمل آیات کا تذکرہ وافر انداز میں کیا گیا ہے‘ پھر ربع ثانی میں گو طریق ثانی سے متعلق آیات زیادہ ہیں ‘لیکن پہلے طریق والی آیات بھی کم تعداد میں نہیں ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں محسوس کی جا سکتی ہیں‘ مشاہدے میں لائی جا سکتی ہیں‘ اور پھر یہی ذریعہ بنتی ہیں انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعلیمات کو سمجھنے کا‘ ثواب اور عقاب کے فلسفے کے ادراک کا‘ اور رسولوں کے معجزات کی صداقت کا۔
اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ پہلی قسم کی آیات کا پہلے لایا جانا ایک فطری ترتیب کے مطابق تھا‘ اور اس کے بعد قرآن کے ربع ثانی میں پچھلی قوموں کے حالات‘ ان تک رسولوں کا دعوت کو پہنچانا اور پھر ان کی تکذیب اور ناقدری کی بنا پران کے ہلاک اور برباد کیے جانے کا تذکرہ ہوا۔
بعض سورتیں جیسے سورۃ الرعد میں صرف ایک طریق سے متعلق آیات کا تذکرہ کیا گیا‘ پھر سورۃ الاعراف اور سورئہ یوسف جیسی سورتوں میں دوسرے طریق سے متعلق آیات کو جمع کر دیا گیا اور سورۃ الحجر کی طرح بعض دوسری سورتوں میں دونوں طریق سے متعلق آیات لائی گئیں۔سورۃ البقرۃ میں دونوں طریق والی آیات موجود ہیں‘ لیکن پہلا طریق غالب ہے۔ اب ہم مقصودِ کلام کی طرف آتے ہیں۔
لوحِ محفوظ جسے کتابِ مبین بھی کہا گیا ہے ‘ دونوں طرح کی آیات پر مشتمل ہے۔ سورئہ ہودمیں ارشاد فرمایا:
{کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۶)} ’’ہر چیز ایک کھلی کتاب میں ہے۔‘‘
اور سورۃ النمل میں ارشاد فرمایا:
{وَمَا مِنْ غَاۗئِبَۃٍ فِی السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (۷۵)}
’’اور آسمان اور زمین میں کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر ایک کھلی کتاب میں۔‘‘
اور ان نشانیوں میں سے کچھ ایسی ہیں جو آنکھوں سے نظرآجاتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں کہ جن کے لیے مزید غور وخوض درکار ہوتا ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘‘ سے مراد لوحِ محفوظ کی پہلی قسم سے متعلق کھلی کھلی آیات ہیں ۔ مفسرین میں سے کچھ اہل علم نے سورۃ البقرۃ‘ سورۃ النمل اور سورۃ الرعد کی ’’اٰیٰتُ الکِتٰب‘‘ کو اسی معنی میں لیا ہے۔ اور {وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ الْحَقُّ} سے قرآن کی وہ آیات مراد لی گئی ہیں جو طریق ثانی سے متعلق ہیں ‘ کہ جن کا سمجھنا اَخبار او ر تاریخ پر موقوف ہے ‘یعنی پچھلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کرنا۔
اب ایک دفعہ پھر سورۃ الرعد‘ سورۃ الحجر اور سورۃ النمل کی ابتدائی آیات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
الرعد: {الۗمّۗرٰ       ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ     ۭ وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ الْحَقُّ}
الحجر:{الۗرٰ        ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱)}
النمل:{طٰسۗ       ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ(۱)}
اتنی بات تو واضح ہو چکی ہے کہ ان تینوں آیات میں معطوف اور معطوف علیہ ایک چیز نہیں ہے‘ بلکہ الکتٰب سے مراد لوحِ محفوظ ہے اور اس میں سے بھی آفاقی و انفسی نشانیاں مراد ہیں ۔اور آیت کے دوسرے جزوسے قرآن کا وہ حصّہ مراد ہے جس میں پچھلی اُمتوں کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے۔سورۃ النمل میں تقدیم و تاخیر واقع ہوئی ہے یعنی ’’کتاب مبین‘‘ کو بعد میں ذکر کیا گیا ہے جس کی مزید وضاحت ہم بعد میں کریں گے۔
اب ملاحظہ ہو کہ سورۃ الرعد میں صرف پہلے طریق سے متصل آیات وارد ہوئی ہیں۔ ساری کی ساری سورت پہلے طریق کے گرد گھوم رہی ہے۔ {وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ …} ایک مستقل جملہ ہے جس میں ’’الَّذِیْٓ‘‘ سے متصل فقرہ مبتدأ ہے اور اس کی خبر ’’الْحَقُّ‘‘ ہے اور یہ پورا جملہ پہلے جملے پر معطوف ہے۔ اور یہ جملہ چونکہ مستقل سے الگ جملہ ہے اس لیے پہلے جملے میں وارد اسم اشارہ اس جملے پر اثر انداز نہیں ہے۔سورۃ الحجر میں مفرد کا مفرد پر عطف ہے { تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱)} اس لیے اسم اشارہ کا اطلاق دونوں اقسام پر ہوتا ہے۔سورۃ النمل میں بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ اور اسی لیے ان دونوں سورتوں میں دونوں اقسام کی آیات آئی ہیں۔
مزید وضاحت کیے دیتے ہیں۔ سورۃ الحجر میں پہلی قسم کی آیات ملاحظہ ہوں:
{وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ(۱۶)}
’’اور بے شک ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں سجا دیا۔‘‘
{وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(۱۷)}
’’اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا۔‘‘
{ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ(۱۸)}
’’سوائے اس کے جو چوری چھپے سنے تو اس کے پیچھے ایک دہکتا ہواشعلہ لگا دیا۔‘‘
{وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا وَاَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْۢبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ(۱۹)}
’’اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر ایک چیز ایک معیّن مقدار سے اُگا دی۔‘‘
{وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ(۲۰)}
’’اوراس میں ہم نے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کر دیا اور ان لوگوں کے لیے بھی جن کو تم روزی نہیں دے سکتے ہو۔‘‘
{وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗئِنُہٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(۲۱)}
’’اور کوئی بھی چیز ہو ہمارے پاس اُس کے خزانے ہیں اور ہم اسے ایک خاص مقدار ہی میں اتارتے ہیں۔‘‘
{وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَہٗ بِخٰزِنِیْنَ(۲۲)}
’’اور ہم بارآور ہوائیں بھیجتے ہیں اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ کرنے پر قادر نہیں ہو۔‘‘
یہ تو تھیں آیات پہلی قسم سے متعلق‘ اب دوسری قسم کی آیات ملاحظہ ہوں۔آیت ۵۱ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے کا آغاز ہوتا ہے:
{وَنَبِّئْھُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰھِیْمَ(۵۱)}
’’اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کی خبر بتلائو!‘‘
اور اس کے بعد آیت ۷۷ تک ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کا آنا‘ قومِ لوط کو تباہ کرنے کے بارے میں اپنے مشن کا بتانا‘ قومِ لوط کا بشری شکل میں آنے والے فرشتوں سے برائی کا ارادہ کرنا اور بالٓاخر قومِ لوط پر اللہ کے عذاب کا آجانا بتایا گیا ہے۔ اور پھر اگلی سات آیات میں اصحاب الا ٔیکۃ (قومِ شعیب) اور اصحاب الحجر (قومِ ثمود) کا مختصر تذکرہ ہے۔
اس سورت میں دوسری قسم کی آیات کا تذکرہ بعد میں ہے‘ اور وہ اس لیے کہ اس کی طرف اشارہ بھی پہلی قسم کے بعد کیا گیا تھا ’’ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘‘ میں اشارہ تھا پہلی قسم کی طرف اور ’’وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ‘‘ میں اشارہ ہوگیا دوسری قسم کی طرف) اور سورۃ النمل میں چونکہ دوسری قسم کی طرف پہلے اشارہ ہے (تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ) اور پہلی قسم کی طرف بعد میں اشارہ ہے (وَکِتٰبٍ مُّبِیْنٍ) تو وہاں دوسری قسم سے متعلق آیات (یعنی اخبار اُمم) کا تذکرہ بھی پہلے ہے۔ دیکھئے ارشادفرمایا:
{وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ(۶)}
’’بے شک آپ کو اللہ حکیم و علیم کی طرف سے قرآن سکھایاجا رہا ہے ۔‘‘
{اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَھْلِہٖٓ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا    ۭ} (آیت۷)
’’(اور یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مَیں نے ایک آگ دیکھی ہے۔‘‘
اور پھر موسیٰ علیہ السلام کے طویل قصے کا ایک جزو یہاں بیان ہوا۔ پھر دائود اور سلیمان علیھما السلام کا تذکرہ کیا گیا جس میں بیشتر ماجرا حضرت سلیما ن علیہ السلام اور ملکہ سبا سے متعلق ہے۔ اور پھر قومِ ثمود اورقومِ لوط کا مختصر بیان ہوا جو اُن پر اللہ کے عذاب آجانے (آیت۵۸) پر تمام ہوتا ہے۔ اور پھر آیت ۵۹ سے ۶۶ تک پہلی قسم سے متعلق آیات (یعنی آفاقی اور انفسی دلائل) لائی گئیں جن کا آغاز اس جملے سے ہو رہا ہے:
{اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ} (آیت۶۰)
’’(تو بتائو)کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟‘‘
اور آیت ۶۶ میں یہ سلسلہ آیات اپنی چوٹی تک پہنچ جاتا ہے:
{بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ         ۣ بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْھَا     ڹ     بَلْ ھُمْ مِّنْھَا عَمُوْنَ (۶۶)}
’’بلکہ آخرت کا حال جاننے سے ان کا علم عاجز ہے ‘ بلکہ وہ تو اس بارے میں شک کا شکار ہیں‘ بلکہ وہ تو اس بارے میں بالکل اندھے ہیں۔‘‘
ان تینوں سورتوں کے مضامین کے اس تقابل سے ہم نے دوسرےسوال کے جواب کو نکھار کے پیش کر دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ سورۃ الرعد میں کیوں صرف پہلی قسم پر اعتماد کیا گیا ہے اور باقی دو سورتوں میں دونوں اقسام کا تذکرہ کیوں کیا گیا ہے۔ الحمد للہ‘ اللہ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ مَیں اس فرق کو واضح کر سکوں کہ جسے مَیں نے دوسرے اہل علم کے ہاں نہیں پایا ہے۔
البتہ مَیں یہ واضح کرتا چلوں کہ یہ مضامین دوسرے مفسرین کے ہاں بھی پائے گئے ہیں لیکن اس باریکی اور وضاحت کے ساتھ نہیں جیسے ہم نے بیان کیے ہیں۔ مثلاً سورۃ البقرۃ میں وارد ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ کے بارے میں ابن عطیّہ اور ابن جبیر نے یہ اشارہ کیا ہے کہ اس سے لوحِ محفوظ مراد ہے‘ لیکن مزید کچھ نہیں کہا۔ اور ایسے ہی سورۃ النمل میں وارد ’’وَکِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘ کے بارے میں بھی زمخشری نے اشارہ کیا کہ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے۔لیکن ہم نے ان نشانیوں کو دو اقسام میں تقسیم کر کے موضوع کو نہایت واضح کر دیا ہے۔
اب آخر میں سورۃ البقرۃ میں وارد ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ کا تذکرہ ایک دفعہ پھر ہوجائے۔بعض مفسرین نے درست لکھا ہے کہ اس سے مراد قرآن بھی ہے اور لوحِ محفوظ بھی۔ ’’ذٰلِکَ‘‘ اسم اشارہ بعید کے لیے ہے اور بعید بھی وہ جو غائب ہو۔ چونکہ لوحِ محفوظ آنکھوں سے غائب بھی ہے ‘لیکن اس کا ادراک بہت آسان ہے اس لیے ’’ذٰلِکَ‘‘ سے اس کی طرف اشارہ کرنا بالکل درست تھا۔ اور یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جو قرآن ہماری زبانوں پر پڑھا جاتا ہے ‘ اس کے بارے میں تو ان لوگوں نے شک و شبہ کا اظہار کیا جن کو اللہ نے اس کی ہدایت تک رسائی نہیں بخشی۔ چنانچہ کبھی اسے جادو کہا‘ کبھی شاعری اور کبھی پچھلے لوگوں کے قصے اور نہ جانے کیا کچھ کہا۔ لیکن جہاں تک ’’اُمّ الکتاب‘‘ یعنی لوحِ محفوظ کا وہ حصّہ جو آفاق اور انفس کی نشانیوں پر مشتمل ہے اورجس کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ وہ نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کے لیے بہت آسان ہے۔ سورۃ الرعد کی ’’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘‘ سے وہی مراد ہے اوراس کا تذکرہ آیت۲سے شروع ہو جاتا ہے:
{اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا}
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد تینوں آیات میں ایسی ہی نشانیوں کا تذکرہ ہے جن میں تسخیر شمس و قمر‘ زمین میں پہاڑوں کا گاڑا جانا‘ نہروں کا بہایا جانا اور اس میں ہر طرح کے پھل‘ پھول‘ باغات کا ایک ہی پانی سے اُگایا جانا شامل ہے۔ پھر یہ سلسلۂ کلام دراز ہوتا چلا جاتا ہے ۔اور پھر اس سورت میں ایسی آیات نہیں لائی گئیں جن کا ادراک اخبار اور قصص سے متعلق ہو۔ اور یہی وہ بات ہے جسے مَیں بار بار ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔
’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ سے لوحِ محفوظ مراد ہونے پر ایک اور نکتہ ملاحظہ ہو‘ دیکھئے‘ اس کے بعد فرمایا:
{ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ }
’’یہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے ۔جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی لوحِ محفوظ کا ایک حصّہ وہ ہے جو غور و فکر‘ اخبارِ اُمم اور رسولوں کے بیان سے حاصل ہوتا ہے اور اسی لیے فوراً بعد رسولوں کے اوپر بھیجی گئی وحی کا تذکرہ فرمایا:{وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ}’’اور وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو تم پر اُتارا گیا‘‘ یعنی قرآن{وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ  ج} ’’اور جو تم سے قبل اتارا گیا‘‘یعنی تورات اور انجیل اور دیگر آسمانی کتب۔اور پھر اس تمام مجموعے کے بارے میں کہا گیا:
{اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ ق وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)}
’’یہ سب اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں ‘اور یہ سب کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
یعنی سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں بھی اور اسی طرح قرآن میں بھی اس کی مماثل آیات‘ چاہے وہ سورت کی ابتدا میں ہوں یا اثناءِ کلام میں‘ اور پھر اس کی طرف ’’ذٰلِکَ‘‘ یا ’’تِلْکَ‘‘ سے اشارہ کیا گیا ہو تو اس سے مراد‘ سیاق وسباق کے لحاظ سے ‘ لوحِ محفوظ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اس پر تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ عقل اور نقل کے اعتبار سے اس بات کے قبول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے جب کہ ہماری یہ توجیہہ ہر اعتبار سے قابل ِقبول اور معقول ہے‘ واللہ اعلم!
(۱۹۱) آیت ۳
{وَھُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْھٰرًا    ۭ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ   ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۳)}
’’اور وہی (اللہ) ہے جس نے زمین کو پھیلا دیا ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں بنا دی ہیں ۔اور پھر اس میں ہر طرح کے پھل کے دو دو جوڑے پیدا کر دیے ہیں‘ وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
اور پھر اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:
{وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ       ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ    ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۴)}
’’اور زمین میں پاس پاس ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں‘ کھیتی ہے‘ کھجور کے درخت ہیں دُہرے تنے والے بھی اور اکہرے تنے والے بھی‘ سب کے سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں۔ اور ہم ان میں سے ایک کو دوسرے پر ذائقے میں فضیلت دیتے ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی آیت کے آخر میں ’’لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ‘‘ کہا اور دوسری آیت میں ’’لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ تو اس کی کیا وجہ ہے؟اور کیا ایسا درست ہوتاکہ اس کااُلٹ کر دیا جاتا؟
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ پہلی آیت میں غور و فکر کے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ وہ دوسری آیت میں درج شدہ چیزوں سے عبرت حاصل کرنے کے باب میں زیادہ واضح ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ زمین کے مختلف ٹکڑوں کو دیکھو‘ چاہے میدانی علاقہ ہو یا پہاڑی ‘ دونوں بالکل ساتھ ساتھ ہیں اور ان میں مختلف قسم کے پھل لگتے ہیں جس میں کھجور‘ انگور اور ہر طرح کی کھیتی شامل ہے‘ لیکن ذائقہ مختلف ہے۔ پھر ان کے رنگ اور خوشبو میں بھی اختلاف ہے ‘ غذا اور دوا کے اعتبار سے ان کی منفعت اور مضرت بھی جدا جدا ہے‘ حالانکہ زمین بھی ایک ہے اور جس پانی سے اسے سیراب کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور صنعت گری کی تہ تک پہنچنے کے لیے عقل کا گہرا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو باتیں پہلی آیت میں کہی گئی ہیں‘اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب نشانیوں میں سے ہیں لیکن وہ اتنی عیاں ہیں کہ اس میں عقل کے گھوڑے زیادہ نہیں دوڑانے پڑتے‘ معمولی غور و فکر سے بھی ان سے عبرت پکڑی جا سکتی ہے۔ اس لیے مناسب تھا کہ پہلی آیت کے آخر میں غور و فکر کرنے والوں کا تذکرہ ہو اور دوسری آیت کے آخر میں عقل والوں کا تذکرہ ہو‘ اور اگر اس کا الٹ ہوتا تو وہ قطعاً مناسب نہ ہوتا ۔واللہ اعلم!