(دعوتِ فکر) مدرسہ ڈسکورس(Madrasa Discourse) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

8 /

مدرسہ ڈسکورس(Madrasa Discourse)پروفیسر حافظ قاسم رضوان
ریٹائرڈ صدر شعبہ اسلامیات و مطالعہ پاکستان‘ گورنمنٹ کالج آف کامرس‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور


ڈسکورس(Discourse)کے لغوی معنی ہیں : مباحثہ‘ مکالمہ‘ تبادلۂ خیال‘ اظہارِ خیال وغیرہ ‘ اور مدرسہ ڈسکورس کا مفہوم ہوا کہ اسلامی مدارس کے وجود‘ نصاب‘ اہمیت‘ افادیت اور مستقبل کے بارے میں علمی بحث و مباحثہ اور آزادانہ اظہارِ خیال کرنا۔ بنیادی طور پر یہ فکر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں ان کے ساتھ ڈاکٹر ماہان مرزا بھی شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے ‘ ان کے آباء و اجداد ہندوستان کے شہر گجرات سے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ ہائی اسکول میں تھے کہ جب انہیں مطالعہ ٔاسلامیات کے مضمون سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایک دن کسی ہم جماعت نے ایک پمفلٹ تقسیم کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام ایک غلط اور جھوٹا مذہب ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تجسس بڑھا تو مختلف ماہرین علم اور جماعتوں سے ملے۔تشنگی دور نہ ہوئی تو خود دینی علوم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ ندوۃ العلماء لکھنؤ پہنچ گئے۔کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ وہاں قاری محمد طیب اور مختلف اساتذہ سے استفادہ کیا۔ تقریباً چھ سال انہوںنے دینی مدارس میں رہ کر رسمی دینی تعلیم حاصل کی۔ اسلامی تعلیم کا ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ دوبارہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔ یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر کرنے کے بعد کچھ عرصہ صحافت کی اور ساتھ ہی پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ اس کے بعد امریکہ منتقل ہوئے اور مختلف اداروں سے ہوتےہوئے یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم (انڈیانا) پہنچ گئے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ تقریباً ربع صدی سے امریکہ میں ہیں اور وہاں مطالعہ اسلامیات کے پروفیسروں میں ان کا نام سرفہرست ہے۔ یہ ان چند دانشوروں میں سے ہیں جو مغرب میں رہ کر مسلمانوں اور دینی مدارس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں‘ یہ خود بھی اپنےآپ کو مدارس کا وکیل کہتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں انہوں نے دینی مدارس کے حوالے سے ایک کتاب ’What is Madrasa ‘ لکھی‘ جس میں مدارس کے مثبت پہلوئوں کے ساتھ ان کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کی۔ مغرب میں اس کتاب کو خوب پذیرائی ملی‘ وہاں کے دانشوروں اور سول سوسائٹی کے دینی مدارس کے بارے میں جو تحفظات اور خدشات تھے‘ وہ کافی حد تک کم ہوئے۔ انڈیا کے ڈاکٹر وارث مظہری نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ’دینی مدارس‘ کے عنوان سے کیا۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی یونیورسٹی آف نوٹرےڈیم بنیادی طو رپر ایک کیتھولک یونیورسٹی ہے‘ جہاں ان کا رابطہ ٹمپلٹن فائونڈیشن سے ہوا۔یہ فائونڈیشن سائنس اور مذہب کے باہمی تصادم اور مذہب و سیکولرزم کے مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کو ان کی طرف سے کچھ وظائف کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے مدرسہ ڈسکورس کا فکر پیش کر دیا۔ بنیادی خاکہ یہ تھا کہ انڈیا کے مدارس کے وہ فارغ التحصیل طلبہ جو گریجویٹ ہوں اور عربی وانگریزی پر مناسب عبور رکھتے ہوں‘ انہیں آن لائن کورس کروایا جائے جس میں انہیں جدید علم الکلام کے حوالے سے مناسب تربیت دی جائے۔نیز جدید سائنس اور افکار نے مذہب (خصوصاً اسلام) کے حوالے سے جو چیلنجز اور سوالات کھڑے کیے ہیں‘ ان کا جواب دیا جائے۔مزید برآں عقائد کے علاوہ ضروری مسائل میں بھی امکانی حد تک ایسی تعبیر پیش کی جائے جو موجودہ زمانے اور حالات و واقعات میں قابل قبول ہو۔ اب ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر اس پروجیکٹ کو پورا وقت نہیں دے پا رہے تھے تو انہوں نے اپنے رفیق کار ڈاکٹر ماہان مرزاکو اس کام میں عملاً منسلک کر لیا۔ ان کا تعلق اسلام آباد‘ پاکستان سے ہے‘ یہ کافی عرصہ پہلے امریکہ منتقل ہوئے۔ بی ایس سی انجینئرنگ (مکینیکل) کیا‘ اس کے بعد مطالعہ اسلامیات کی طرف آ گئے۔یہ ییل یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی اور یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں پروفیسر آف پریکٹس ہیں‘ اس کے ساتھ ’مدرسہ ڈسکورس‘ کورس کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور اسے بڑی مہارت سے چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کا تعلق چونکہ پاکستان سے ہے‘ اس لیے انہوں نے پاکستانی طلبہ کو بھی اس کورس میں شامل کرنے کا ارادہ کر لیا۔
فروری ۲۰۱۷ء میں اس کورس کا پہلا سمسٹر شروع ہوا‘ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں سے ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد پندرہ پندرہ طلبہ منتخب ہوئے۔ ہفتے میں ایک مقررہ دن کلاس ہوتی ہے‘ تمام طلبہ مقررہ وقت پر آن لائن ہوجاتے ہیں۔ مقررہ نصاب کو پڑھاجاتا ہے‘ بحث و مباحثہ ہو تا ہے‘ سوالات اٹھائے جاتے ہیں‘ تشنہ سوالوں اور سوچوں کے ساتھ کلاس ختم ہو جاتی ہے۔ کلاس میں نصاب کا جو حصّہ پڑھنا ہوتا ہے ‘ وہ ایک ہفتہ پہلے طلبہ کو بھیج دیا جاتا ہے جسے پڑھ کر وہ کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ طلبہ کو مناسب لیپ ٹاپ اور نیٹ پیکج بھی دیا جاتا ہے تاکہ تعلیم کا یہ عمل بلاتعطل جاری رہ سکے۔ ہندوستان میں فیکلٹی سربراہ کے فرائض ڈاکٹر وارث مظہری سرانجام دے رہے ہیں۔ ٹیسٹ انٹرویو سے لے کر کورس کے بعض حصوں کی تدریس ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل‘ علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور اسی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں۔ پاکستان میں یہ فرائض حافظ ڈاکٹرعما ر خان ناصر سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ایک مشہور دیوبندی علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اور ایک علمی رسالے ’’الشریعہ‘‘ (گوجرانوالہ) کے مدیر بھی ہیں۔
ہماری نوجوان نسل میں سے اکثر مختلف طرح کے عجیب سوالات سے دوچار ہیں اور ان سوالوں نے ان کے ذہن میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ دنیا کی گزشتہ تین چار سو سالہ تاریخ میں سینکڑوں نئے علوم و فنون متعارف ہوئے اور تقریباًیہ علوم مغرب نے ہی متعارف کروائے ہیں۔ یہ علوم و فنون قدرتی سائنسز اور معاشرتی سائنسز پر مشتمل ہیں اور مغرب ہیکے راستے ہم تک پہنچے ہیں۔ مغربی سائنس دانوں اور مفکرین کا خدا‘ کائنات ‘ سماج اور انسان کے بارے میں اپنا ایک نقطۂ نگاہ ہے اور یہ سارے علوم اسی خاص نقطۂ نظر اور تناظر میں پروان چڑھے ہیں۔اب ہمارے نوجوان جب یہ علوم و فنون یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں تو ان کا ٹکرائو ان کے ایمان اور عقیدے سے ہوتا ہے‘ اور پھر یہیں سے یہ نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اس صورت حال میں نئی نسل کے ذہنوں میں سوالات تو اٹھ رہے ہیں لیکن ان کا کماحقہ جواب نہیں مل پا رہا‘ اس کے نتیجے کا شاید ہمیں بھرپور احساس تک نہیں۔ یہ سوالات ماضی میں بھی تھے‘ تب صور ت حال مختلف تھی۔ یونانی فلسفہ سے پورے طور پر اسلامی فکر کا ٹکرائو ہوا‘ ذہنوں میں نئے نئے سوالات جنم لینے لگے۔ لیکن ایک تو ان سوالات اور چیلنجز کی نوعیت مختلف تھی‘ دوسرے ان کا اسی فکری سانچے میں جواب دینے کے لیے ایک علمی روایت قائم ہوئی جسے علم الکلام کا نام دیا گیا‘اس فن کے ماہرین متکلمین کہلائے۔ اہل سُنّت کی طرف سے اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اس میدان کو سنبھالا‘ انہوں نے یونانی فلسفہ‘ ہندو عقائد کے ساتھ معتزلہ کے کلامی مباحث کا جواب دے کر اپنے وقت اور زمانے کے سوالات کا بہترین طریقے سے سامنا کیا۔ گزشتہ تین چار صدیوں میں مسلمانوں پر جو علمی اور سیاسی زوال آیا‘ اس کے اثرات علم الکلام پر بھی پڑے۔ اگرچہ برصغیر‘ ایران اور مصر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے طو رپر علم الکلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اپنے دور کے سوالات کا جواب دیا‘ لیکن یہ انفرادی کوششیں زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ جدید سائنس اور فلسفہ نے سوالات کی نوعیت بالکل بدل ڈالی ہے۔ اس وقت جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں وہ دو طرح کے ہیں ۔ ایک تو وہ سوالات جو غیر مسلموں کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں‘ اس میں مستشرقین سے لے کر جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ شامل ہیں۔دوسرے وہ سوالات جو ان علوم کو پڑھ کر خود مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے ذہنوں میں پرورش پا رہے ہیں‘ ان کے ذہنوں میں الجھائو اور وسوسے پیدا کرتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مدرسہ اور جدید تعلیمی مراکز میں دُوری کی وجہ سے نہ تو ہمارے روایتی علماء اور نہ ہی دینی مدارس ان سوالات کا تسلی بخش جواب دے پا رہے ہیں‘ اس سے نوجوان نسل مزید دور ہو رہی ہے۔ ہمارے مدارس میں آج جو فلسفہ اور علم الکلام پڑھایا جا رہا ہے ‘ وہ اصلاً قدیم یونانی فلسفے اور معتزلہ کے سوالات کا جواب دینے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ اپنے دور کا بہترین علم الکلام تھا‘ لیکن افسوس کہ آج اس سے کام نہیں چل پا رہا۔ جدید علوم‘ جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ‘ اسلام اور نوجوانوں کے ذہنوں پر تابڑ توڑ حملے کررہا ہے اور ہمارے اکثر روایتی مدارس نے آج بھی یونانی فلسفہ اور قدیم علم العقائد کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے ۔ا س سے جو خلیج پیدا ہوئی ہے‘ وہ دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہے اور اس میں جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان گرتا جا رہا ہے۔
اس ساری علمی اور فکری صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے ’مدرسہ ڈسکورس‘ فکر اور منصوبے کے مؤسس ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے اپنی متذکرہ بالا کتاب میں جہاں ایک طرف دینی مدارس کے حوالے سے خاصے مثبت افکار پیش کیے ہیں‘ وہیں یک طرفہ مغربی اسلامو فوبیا کے تحت پھیلائے جانے والے اس فکر اور عام پروپیگنڈا کہ عالم اسلام کے دینی مدارس تشدد پسند‘ عسکری اور تخریب کاروں یا دہشت پسندوں کی تیاری کے مراکز ہیں‘ کی سختی سے نفی کی۔ دوسری طرف انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ دینی مدارس کے نصاب کا درجہ بڑھا کر اور اسے ترقی دے کر موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے‘ جس سے مدارس کے طلبہ کا ذہنی افق وسیع ہو اور وہ حالاتِ حاضرہ کے فکر اور چیلنجز کا جواب دینے کی صلاحیت حاصل کر سکیں اور فکری جدت و تازگی کے ساتھ دینی تعلیمات و مسلمات کی روح اور حقیقی مفاہیم کو بھی آپس میں پوری طرح متصل کر کے رکھا جا سکے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس مقصد کو حاصل کیسے کیا جائے؟
اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پر کرنے کے لیے ہمارے سامنے دو ترجیحات ہیں: ایک یہ کہ نئے علم الکلام کے نام سے ایک نصاب بنایا جائے اور اسے یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کیا جائے۔ لیکن یہ امکان اس لیے ممکن نہیں کہ نئے علم الکلام کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قدیم کلامی مباحث اور دینی نصوص پر گہرا عبور ضروری ہے‘ عربی سے مناسب حد تک واقفیت بھی لازم ہے‘ جبکہ یونیورسٹی کا طالب علم ان تمام باتوں سے ادنیٰ واقفیت بھی نہیں رکھتا۔ نہ تو اسے کلامی مباحث کا پتہ ہے اور نہ ہی عربی کی کچھ خبر‘ لہٰذا یہ ترجیح ناقابل استعمال ہے۔کوئی یہ طریقہ اختیار کرے گا بھی تو اسے فائدے کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔ دوسری ترجیح پر دینی مدارس ہیں‘ یہاں پہلے ہی علم الکلام کے نام سے ایک مضمون داخل نصاب ہے‘ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تو وہی علم الکلام ہے جو قدیم یونانی فلسفے‘ مقامی مذاہب اور معتزلہ کو جواب دینے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔جدید علوم و فنون‘ سائنس اور مغربی فکر و فلسفہ کیا کہہ رہے ہیں اور کون سے سوالات کھڑے کر رہے ہیں اور کیسے ہمارے دین و ایمان پر حملہ آور ہو رہے ہیں؟ اس حوالے سے مباحث اس علم الکلام میں شامل ہی نہیں‘ اب کچھ ترمیم و اضافہ سے اس کمی کوپورا کیا جا سکتا ہے۔ تمام دینی مدارس کے ذمہ داران مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیں‘ یہ متعلقہ مسائل کا جائزہ لے‘ اس کے لیے ایک کورس مرتب کرے اور اسے نصابِ مدارس کا حصّہ بنا دے۔ مدارس کے طلبہ جو قدیم کلامی مباحث سے بھی واقف ہیں‘ دینی نصوص پر بھی انہیں عبور حاصل ہے اور عربی سے بھی اچھی خاصی شناسائی ہے‘ اب یہ طلبہ کچھ محنت سے ہی اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پر سکیں۔ اس سے بہتر صورت ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دینی مدارس میں کئی قسم کے تخصصات چل رہے ہیں‘ ان میں سے ہی ایک تخصص جدید مغربی فکر وفلسفہ کے نام سے شروع کر دیا جائے‘ اس میں ان طلبہ کو ترجیح دی جائے جو درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی مناسب حد تک عبور رکھتے ہوں‘ تاکہ وہ اصل ماخذ سے اس فکر و فلسفہ کو سمجھ کر اس کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ اربابِ مدارس کو بہرحال یہ کام کرنا ہو گا‘ یہ ان کی دینی و ملی ذمہ داری بھی ہے ۔ اپنی طرف سے اسی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا نے یہ ’مدرسہ ڈسکورس‘ شروع کیا تھا ۔ انہیں اس کام کا احساس اس ماحول اور معاشرے کی بنا پر ہوا‘ جس میں وہ رہے ہیں۔
یہاں تک تو بات صحیح اور قابل ِتحسین ہے‘ لیکن شومئی قسمت کہ چار سال کے دوران ۲۰۱۹ء میں یہ مکمل منصوبہ اور پروجیکٹ بالکل ایک مختلف ڈگر پر آگے بڑھتا ہوا ایک اسلام مخالف فکری و تہذیبی یلغار کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ اس کے اکثر زعماء اور ان کے تعلیمی پروگراموں اور سرگرمیوں کے شرکاء کے خیالات و افکار تجدید اور تجدد کے درمیان حد فاصل کو مٹاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تجدید اور تجدد کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہے متجددین اپنے منہج کو تجدید کہتے ہیں۔ وہ گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اُمّت ِمسلمہ اور اس کے مفسرین‘ محدثین‘ مجتہدین‘ علماء اور فقہاء نے قرآن و سُنّت کی غلط تشریح کی ہے اور اس میں ایسے اضافے کر دیے ہیں جو کہ قرآن و سُنّت کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے‘ لہٰذا ان کو دین اسلام سے نکال دینا چاہیے۔ جھاڑ جھنکاڑ کی اس صفائی کے بعد عصر حاضر (یعنی مغرب کی الحادی فکر و تہذیب)کے اصولوں اور تقاضوں کے مطابق دین کی نئی تشریح و تعبیر کرنی چاہیے‘ اس کام کو یہ لوگ دین کی ’تجدید‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جمہو راہل سُنّت کی رائے یہ ہے کہ جو اشخاص قرآن و سُنّت کے اس فہم اور تعبیر کو قبول نہیں کرتے جو کہ اسلاف اور ائمہ سے متوارث چلی آ رہی ہے اور معتزلہ کی طرح مغرب کی الحادی فکر و تہذیب کی روشنی میں دین کی نئی تعبیر وتشریح کرنا چاہتے ہیں‘ وہ’متجدد‘ ہیں اور یہ اصحاب ان کے منہج کو’ تجدد‘ کہہ کر کلی طور پر ردّ کر دیتے ہیں۔ دینی فکر کو جدید ذہن کے لیے قابل فہم بنانے میں بہت سے افراد اور ادارے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر مساعی افراط و تفریط کا شکار ہو کر قرآن و سُنّت پر مبنی اسلام کی متواتر اور روایتی تفہیم کی بجائے اپنی تعبیرات میں لادینی اور آزادانہ انسانیت نواز افکار (humanism) کا شکار ہو گئی ہے۔
’مدرسہ ڈسکورس ‘کی دو اہم بنیادی شخصیات ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا پاکستان‘ ہندوستان اور کچھ دوسرے اسلامی ممالک کے روایتی مدارس اور دار العلوم کے اساتذہ‘ فارغ التحصیل فضلاء اور زیرتعلیم طلبہ و طالبات کے ساتھ علمی تبادلہ خیال (مکالمہ) اور تدریس لیکچرز اور افہام و تفہیم کے ذریعے مذہبی اور ثقافتی تکثیریت (pluralism) اور جدیدیت کے لیے ان کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ ’انسٹی ٹیوٹ آف ریلجیس اینڈ سوشل تھاٹ‘‘ کے تحت اپنے اس سارے پروجیکٹ کو انہوں نے ’Contending modernities‘ کا ذیلی نام دیا ہے‘ یعنی جدیدیت کی بھی صرف کوئی ایک قسم نہیں بلکہ اس کی متعدد اشکال اور تشکیلات ہیں جو مسلمانوں کے قدیم روایتی مسالک سے برسرپیکار ہیں اور روایتی سلفی اسلام سے آگے بڑھنے اور اس سے مسابقت کے لیے کوشاں ہیں۔ ’مدرسہ ڈسکورس‘ کے منتظمین نے پاکستان‘ بھارت‘ نیپال اور قطر میں اپنے پروگرام منعقد کیے اور کلاس ورک‘ لیکچرز اور بحث و تمحیص کے ساتھ شرکاء کے لیے سیاحت اور مقامی آبادی سے میل جول کے مواقع بھی بہم پہنچائے گئے۔ تربیتی ورکشاپس کا بھی انعقاد ہوا۔ انٹرنیٹ پر مدرسہ ڈسکورس کے عنوان سے ایک مفصل ہینڈ بک اپ لوڈ کی گئی‘ جس میں شرکاء کا تعارف ‘ تصاویر ‘ مختلف سرگرمیوں کی روداد‘ مدرسہ ڈسکورس(MD)کا پس منظر اور اہداف و مقاصد بیان کیے گئے۔ علاوہ ازیں ذمہ داران نے اسلامی فکری روایت کی عصری تشکیل کے لیے علمی مباحثوں کے واسطے شش ماہی اردو ویب رسالہ’ تجدید‘ کا آغاز کیا۔ اس کے سرپرست ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ‘ مدیر اعزازی ڈاکٹر ماہان مرزا ‘ مدیر مسئول ڈاکٹر وارث مظہری اور معاون مدیر حافظ عمار خان ناصر ہیں۔ بلاگز اور ویب سائٹس پر بہت سارا مواد مضامین اور مباحثوں کی شکل میں اس کے علاوہ ہے‘ غرضیکہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر غنیم پر جھپٹنے کی پوری تیاری ہے۔
مدرسہ ڈسکورس (مباحثہ مدرسہ) کی آخر حقیقت کیا ہے؟اس کے مخالف مفکرین اسے مغرب کی اسلامائزیشن کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں‘ جبکہ اس کے حمایتوں کے نزدیک مدارس کے منہج علمی میں یہ حریت ِفکر‘ آزادانہ مکالمہ اور بحث و مباحثہ کا ایک دائرہ پیدا کر سکتا ہے جو دینی مکاتب فکر کے ہاں مفقود ہے۔ دراصل مدرسہ ڈسکورس کی تمام حرکیات بظاہر استعماری ہیں۔ اس کے بنیادی طور پر استعماری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ ڈسکورس دینی مدارس کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ مدرسہ کی اصلاح اندرونی طو ر پر مدرسہ کے منہاجِ علمی میں ممکن نہیں‘ بلکہ مغربی منہاج ِعلمی یعنی یونیورسٹی کی طرز پر ہو گی۔ گویا مدارس کی اصلاح مدارس میں ممکن نہیں‘ بلکہ اس کے لیے خارجی قوت‘ خارجی ادارے اور خارجی دائرے کی ضرورت ہے‘ مدارس داخلی طو رپر ناقابل اصلاح ہو چکے ہیں۔یہی مدرسہ ڈسکورس کا نبیادی مقدّمہ ہے۔ استعماری جدیدیت کے مطالبات ہمیشہ ’’کچھ اور‘‘ (Do more)کے تناظر میں چلتے ہیں۔ دوسرےلفظوں میں جب تک مغلوب علمیت مکمل طو رپر استعماری جدیدیت میں تحلیل ہو کر بے دست و پا نہیں ہو جاتی‘ تب تک’ ’ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ؟‘‘ کا مطالبہ جاری رہتا ہے۔ پچھلے عرصے میں کبھی مدارس کو یہ بتایا گیا کہ مدارس ملک کا سب سے بڑا NGO`sکا دائرہ ہیں۔کبھی کہا گیا کہ مدارس اگر جدید ہو جائیں‘ جدید علوم سے روشناس ہو جائیں تو مدارس اور ملک دونوں کا مستقبل روشن ہے‘ کبھی مدارس کو ازہر جیسا بننے کی دعوت دی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مدارس کی اصلاح کا عمل مدرسہ سے باہر کے ادارے یونیورسٹی میں ہی جا کر ممکن ہے تو پھر برصغیر کے مدرسہ ڈسکورس کےعالم نقباء اپنے خاص اور اہل فضلاء کو مدارس سے نکال کر مغربی جامعات میں  تعلیم کے لیے کیوں نہیں بھیج دیتے؟کئی مغربی جامعات میں فقہ اسلامی کی فیکلٹی موجود ہے‘ وہ اپنے طلبہ کو میک گل‘ کولمبیا‘ ہارورڈاور کیمبرج پی ایچ ڈی کے لیے بھیج دیں۔ وہاں سے فارغ ہو کر یہ فاضلین مدارس کے علماء سے مکالمہ کر کے مسائل کا حل بتائیں۔ یہ آسان سا حل کیوں نہیں اپنایا جارہا‘ اسی سے مدرسہ ڈسکورس کے اصل مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کی ویب سائٹ پر مدرسہ ڈسکورس پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد علماء کرام کو پلورلزم(Pluralism)‘ جدید سائنس اور جدید فلسفہ سے آراستہ کرنا ہے۔ پلورلزم (تکثیریت) ایک جدید اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ نظریہ رکھنا ہے کہ صرف میرا مذہب ہی سچائی کا مصدر نہیں ہے بلکہ حق دیگر مذاہب میں بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ رکھناکہ مختلف مذاہب ایک عالمگیر سچائی کی الگ الگ تعبیرات ہیں۔ گویا اسلام کو کوئی امتیاز حاصل نہیں‘ بلکہ مسیحی اور یہودی مذاہب بھی درست ہیں‘ کیونکہ وہ حقانیت ہی کی ایک جداگانہ تشریح ہیں۔یعنی صرف اسلام ہی دین ہدایت نہیں بلکہ دوسرے مذاہب بھی اس میں شامل ہیں‘ صرف مسلمان ہی ہدایت کے پیروکار نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔اس تھیسزکا نتیجہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور اسی سے اس کورس کا مقصد بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ’مدرسہ ڈسکورس‘ کے نام سے شروع کی گئی کاوش ایک غالب ‘ جدید ڈسکورس کے ذریعے روایتی دینی ڈسکورس کے خاتمے کی علمی اور عملی کوشش ہے۔ دینی مدارس کا منہج او رطریقہ کار مغربی علمیت کے مرکز یونیورسٹی کے سامنے ایک ہدف ہے جسے آلودہ اور ناخالص کرنے کی سعی ہے تاکہ اس کا خالص پن اور دینی روح باقی نہ رہے اور سلف کی علمی روایت اور منہج سے گلوخلاصی ہوجائے۔یہی استعماری جدیدیت کا بنیادی مقصد‘ ہدف اور منزل ہے کہ یہ اپنے استعماری ڈسکورس کے سوا باقی ہر ڈسکورس کو بطور ایک ہدف کے لے کر اپنے مزعومہ مقاصد میں جُت جاتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورس دراصل جدید افکار کی روشنی میں الہامی ہدایت اور اس کی ماثور ومتوارث تعبیرات کی قطع وبرید کا منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کے مطابق کسی بھی قوم کی تھیولوجی(دینیات) اس دور کی کوسمولوجی (سائنسی نظریہ آغازِ کائنات) کے مطابق ہونی چاہیے۔حقیقتاً ان کا یہ خیال ایک معمہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
مدرسہ ڈسکورس کی ایک ورکشاپ میں شرکاء کے درمیان دو اہم مقدموں پر بحث ہوئی۔ پہلا مقدمہ یہ ہے کہ تخلیق کائنات اور ابتدائے انسان کے حوالے سے ایک نظریہ تو وہ ہے جو اہل مذہب بتاتے چلے آ رہے ہیں اور دوسری کہانی وہ ہے جو جدید سائنسی علوم نے پیش کی ہے جسے ’’عظیم تاریخ‘‘ (Big History)کا نام دیا گیا ہے۔اب لازم ہے کہ اہل مذہب اس تناظر میں اپنے نظریے کا ازسرنوجائزہ لیں۔ گویا تخلیق کائنات ‘زمین پرا نسان کی ابتدا‘ نیز اس کی زندگی کے بارےمیں قرآنی بیانیے کو اب ’’عظیم تاریخ‘‘ کی روشنی میںتغیر وتبدل سے گزرنا ہوگا اور یہ مذہب کی بنیاد ہلانے کے مترادف ہے۔ دوسرا مقدمہ ان دانشوروں کا یہ ہے کہ بدلتے حالات میں موجودہ دور کے مطابق فقہ (شریعت) اور دین میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ فقہاء نے فقہ کےنام پر جو مسائل اخذ کیے وہ دین کو سمجھنے کی صرف ایک انسانی کاوش تھی نہ کہ بذاتِ خود دین۔دین تو صرف اس تعلیم کا نام ہے جو خدا نے نازل کی۔یہ دوسری بات دراصل پہلی بات کا ہی ایک منطقی تسلسل اور جواز ہے‘ یعنی نئی آراء قابل قبول بنانے کے لیے لازم ہے کہ پہلے والی دینی آراء اور احکام سے جان چھڑائی جائے۔ لیکن اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسے دین سمجھتی ہے‘ لہٰذا یہ کہا جائے کہ وہ دین نہیں ہے۔اسی مقصد کے پیش نظر دین و فقہ کی دوئی کا مقدّمہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ گویا کہ اسلام کا ایک مختلف جدید ایڈیشن پیش کرنے کی سعی ہو رہی ہے‘ فیاللعجب !جمیل مظہری کے الفاظ میں ؎

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی

جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی!

بنیادی سوال یہ ہے کہ پندرہ سو سال سے مدرسہ کا ڈسکورس جو دینی مدارس میں تعلیم وتعلّم‘ تربیت وتزکیہ‘ روحانیت اور کردار سازی کے دائرے میں مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے‘ اگر اس منہج اور ڈسکورس میں کچھ خامیاں پیدا ہو گئی ہیں تو اس کا حل اس ڈسکورس کی اندرونی حرکیات اور عوامل خود طے کریں گے یا کوئی خارجی ڈسکورس ‘ ادارہ اور یونیورسٹی اس کا حل نکالے گی؟ کیا مدرسہ ڈسکورس صرف درس ِنظامی کے اَسباق‘ کتابوں اور دروس کا ہی نام ہے یا مدرسہ کے ماحول‘ تاریخ‘ علمیت‘ روحانیت‘ اقدار اور روایات کا بھی نام ہے؟ ایک ڈسکورس کو اس کی تاریخ‘ ماحول‘ روایت‘ تناظر‘ اقدار اور علمیت سے کاٹ کر اگر کسی یونیورسٹی کے ڈسکورس اور ماحول میں پڑھایا جارہا ہے تو پھر وہ مدرسے کا ڈسکورس کہاں رہا؟ وہ تو لامذہبی لبرل یونیورسٹی کا ڈسکورس بن گیا‘ اسلامی تاریخ اور روایت سے اس کا کیا واسطہ؟اگر ہمارے متجدد علماء کو مغربی یونیورسٹی ڈسکورس ہی زیادہ پسند ہے تو وہ مغربی جامعات کی مطالعہ اسلامیات کی فیکلٹی میں چلے جاتے‘ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ مدرسہ ڈسکورس ہو یا بذریعہ نصاب ہائے تعلیم ہماری عصری تعلیم کی پوری فکری ہیئت کا بدل دیا جانا یا میڈیا کے ذریعے ثقافتی یلغار‘ یہ وہی مذہب سے چھٹکارے کی منزلیں ہیں جو یورپ میں ’’اصلاح مذہب‘‘ (Reformation) کے نام سے شروع ہوئیں اور پھر ردّعیسائیت سے ہوتی ہوئی ’’نشاۃِ ثانیہ‘ حیاتِ نو‘‘(Renaissance)پر منتج ہوئیں۔ لیکن پھر یہ نئی زندگی روحانیت کی موت تھی‘اس میں مذہب‘ خدا‘ رسالت‘ آخرت جیسے تمام عقائد سے جان چھڑا لی گئی۔ آگے چل کر انہی افکار کی کوکھ سے سیکولر‘ لبرل ازم یعنی ’’مذہب لامذہبیت‘‘ نے جنم لیا۔ جدید سائنس کی بنیاد پر تنویریت (روشن خیالی) کے مفکرین نے مذہب سے بغاوت ہی کر ڈالی‘ فکر و فلسفہ کی ٹامک ٹوئیاںـ مارتے‘ حضرت آدم علیہ السلام کا انکار کرنے کے نتیجے میں تخلیق کی نئی کہانی کی تلاش میں نکلے۔ ڈاروِن نے بن مانس سے مماثلت کی بنیاد پر ارتقاء کی درفنطنی چھوڑی۔انسانی نفسیات کی تفہیم فرائڈ نے انکارِ خدا پر مبنی ژولیدہ فکری سے کی۔یہ مغرب کی صدیوں پر محیط ایک طویل داستان ہے‘ بقول اقبال ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!
ایسے میں کیتھولک عیسائی عقیدے کے زیراثر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کا یہ مدرسہ ڈسکورس منصوبہ جدیدیت‘ جدت پسندی پر بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیالات کے لیے ورکشاپس سپانسر کر رہا ہے۔ہدف جنوبی ایشیا کے مدارس کے طلبہ اور مقصود دینی مدارس کی سطح پر اصلاحِ مذہب کی وہی پرانی تحریک اٹھانی ہے۔پھر اقبال یاد آئے ؎
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازئہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ ایک ‘ حیات ایک‘ کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصّۂ جدید و قدیم!
مدرسہ ڈسکورس کے دوسرے علَم بردار ڈاکٹر ماہان مرزا کا کہنا ہے کہ ہمارا کام سوال اٹھانا (بلکہ یوں کہیے) سوالوں پر اکسانا ہے‘ ان (طلبہ) کا کام جواب تلاش کرنا ہے‘یہ بھی کہ ہم ان کے سامنے براہِ راست چیلنجز رکھتے ہیں اور دعوت دیتے ہیںکہ وہ تعقل کی بنیاد پر ‘ عقلی پیمانوں پر مسائل کو دیکھیں‘ پرکھیں‘ سمجھیں۔ یہاں یہ خیال رہے کہ ان مسائل زیربحث میں دینی مسلمات بھی آتے ہیں‘ اب ان کی پرکھ اسی عقل کے تحت ہو گی جس کے بارے میں اقبال کا فرمان ہے : ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے!اور یہ بھی کہ ع ’’عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں!‘‘ اب جو عقل شریعت کے کھونٹے سے نہیں بندھی ہو گی‘ اس سے دین کی کیا خدمت ہو سکتی ہے؟اہل کلیسا کی جامعات بھلا ہمارے دینی اداروں کی کیا اصلاح کر سکتی ہیں؟ بقولِ اقبال :
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلاآئے گا الحاد بھی ساتھ !مغرب نے پہلے متنوع NGO's کے تحت مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی‘ لیکن علمائے حق خبردار کرتے رہے اور اکثریت محفوظ رہی۔ اب اس راستے سے ناکامی دیکھ کر براہِ راست علمائے کرام کی نسل اور دینی مدارس پر شب خون مارا گیا ہے۔ امریکہ اور مغرب‘ سارے عالم ِاسلام اور خصوصاً پاکستان میں اپنی تہذیب و اقدار کی تنفیذ‘ مسلمانوں کو صحیح اسلام سے دور کرنے اور جدید اسلام کی آبیاری کے لیے جو اس کے اصول و اقدار اور ثقافت کے مطابق ہو‘ اپنے ہم خیال افراد‘ اداروں اور جماعتوں کی بھرپور مدد کرتے ہوئے افرادی اور مالی وسائل مہیا کر رہا ہے‘ مدرسہ ڈسکورس کا یہ منصوبہ اور جدوجہد ان کے بہت سے منصوبوں میں سے ایک ہے‘ اس کے متعلق بات کرتے ہوئے اس سارے تناظر کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہندوستان میں مدرسہ ڈسکورس کے سرخیل مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی‘ دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب مرحوم کے پوتے ہیں اور پاکستان میں اس کے داعی حافظ عمار خان ناصر ہیں۔
اب دینی مدارس میں جن خامیوں کی وجہ سے یہ علمائے دیوبند مدرسہ ڈسکورس کی حمایت کر رہے ہیں‘ وہ ان کی اصلاح اپنے اپنے مدرسے میں کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر کوئی رکاوٹ درپیش ہے تو اپنے خاندانی اور علمی پس منظر کی وجہ سے ان اصحاب کے لیے نیا دینی مثالی مدرسہ قائم کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ یہ فطری طریقہ اختیار کرنے کی بجائے وہ دینی مدارس کے طلبہ کو مغربی متجددین اورمستشرقین کے آگے ذہن سازی کےلیے پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ تحریک تجدد کی ابتدا جاوید احمد غامدی سے ہوئی۔ ان کادینی مطالعہ بھی گہرا ہے‘ نیز عربی‘ انگریزی اور اردو پر بھی گہری دسترس ہے ‘ سنجیدہ اور مدلل تحریر و تقریر دونوں پر قدرت رکھتے ہیں۔ المورد اکیڈمی اور ماہنامہ اشراق کے ذریعے اپنی تحریک کو پھیلا رہے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں سے خورشید ندیم جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں کام کر رہے ہیں اور اخباری کالم کے ذریعے اپنی بات پہنچا رہے ہیں۔ ’’علم الکلام کے جدید مباحث‘ ‘کے موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل میں مدرسہ ڈسکورسز کے زیر اہتمام ایک سیمینار کا انعقاد ہوا‘ جس میں کئی حضرات بشمول ڈاکٹر ماہان مرزا نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ماضی کے فہم اسلام کو نئے دور میں ترک کر دیناچاہیے۔ خورشید ندیم نے اسی بات کے لیے ایک اصولی مقدمہ وضع کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کا اصل مطالبہ ایک متقی بندئہ مومن سے یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لائے۔یہ علم الکلام مذہب کا داخلی مسئلہ نہیں بلکہ خارج سے پیدا ہونے والے مطالبات و چیلنجز کی بنیاد پر مذہبی اذہان کو مطمئن کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔اگر خارج کے حالات و مطالبات بدل دیے جائیں تو لازم ہے کہ ماضی کی پوری علمی روایت (بشمول علم تفسیر) کو بھی ترک کر دیا جائے اور اس کا بوجھ مذہب کے کاندھوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ حالانکہ کلامی عمل کسی بھی فکر کا خارجی نہیں بلکہ داخلی مسئلہ ہوتا ہے۔اسی سے اس تحریک کا رخ پہچان لیجیے اور منزل بھی سمجھ لیجیے۔اسی طرح عما ر خان ناصر تجدد کے فکر کو علماء اور دینی مدارس میں خوب پھیلا نے کا کام اس لیے کامیابی سے کر رہے ہیں کہ وہ مذہبی چہرہ رکھتے اور ایک دینی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں‘ اپنے دینی خاندان کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل ہے‘ ماہنامہ الشریعہ اور الشریعہ اکیڈمی کو بھی وہ عمدگی سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ چونکہ انہیں انگریزی پر بھی دسترس حاصل ہے‘ اس لیے ایک مسیحی مشنری یونیورسٹی اور وہاں کے مستشرقین اور متجددین سے مل کر انہیں پاکستانی دینی مدارس کے طلبہ کی برین واشنگ کا اچھا موقع مل گیا ہے‘ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے انہوں نے الشریعہ اکیڈمی میں کئی کورس شروع کررکھے ہیں۔ اب مدرسہ ڈسکورس کی حمایت کا بیڑا چونکہ پاک و ہندمیں مذہبی اصحاب اور گھرانوں نے بھی اٹھا لیا ہے‘ اس لیے اس مذہبی چھتری کے نیچے تحریک تجدد کے اثرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں‘ مغرب کے جدید فلسفہ حیات کی یلغار بھی قدیم یونانی فلسفے کے حملے سے کچھ مختلف نہیں۔ یہ فلسفہ حیات جس نے انقلابِ فرانس سے اپنا وجو دتسلیم کرایا اور پھر یورپ کے سائنس و صنعتی انقلاب کے زیرسایہ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے آج دنیا کے اکثر و بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہ خود کو انسانی زندگی کے ایک ہمہ گیر فلسفہ کے طو رپر پیش کرتا ہے اور انسان کی پیدائش کے مقصد سے لے کر انسانی معاشرت کے تقاضوں اور مابعد الطبیعیات کی وسعتوں کو اس فلسفہ میں زیربحث لایا جاتاہے۔ ڈارون‘ فرائیڈ‘ نطشے اور دیگر مغربی اہل فلسفہ اور سائنس دانوں کی گزشتہ دو صدیوں پر محیط فکری کاوشوں اور نظریاتی مباحث کا خلاصہ اس کے سوا شاید کچھ نہیں کہ کلیسا کی بدکرداریوں اور مظالم کے ردّعمل کے طو رپر جنم لینے والے اس نظریے اور فلسفے کو مغرب نے ایک مکمل فلسفہ حیات اور نظامِ زندگی کی شکل میں پیش کیا ہے‘ اور اس سعی کے ذریعے وہ دنیا میں موجود تمام فلسفہ ہائے حیات بشمول اسلام کو نہ صرف مکمل شکست دینے بلکہ فنا کے گھاٹ اتارنے کے درپے ہیں۔ خصوصاً نئی مسلمان نسل کی ذہنی سوچ بدلنے کے لیے انہوں نے تحریک تجدد کی میٹھی گولی گلے سے اتارنے کی کوشش کی ہے ۔ جس وقت یونانی فلسفہ نے عالم اسلام پر یلغار کی تھی اور عقائد و افکار کی دنیا میں بحث و تمحیص کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا‘ تو اس وقت اسلامی تعلیمی مراکز اور اہل علم نے اس کو ایک وقتی طوفان سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا‘ بلکہ یونانی فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خود اسی کی تراکیب اور اسلوب ِبیاں میں اسلامی عقائد و افکار کو اس انداز سے پیش کیا کہ یونانی فلسفہ کے لیے سوائے پسپائی کے اور کوئی چارہ نہ رہا۔ان فکری اور نظریاتی معرکوں کے تذکرے بطور یادگار اب ائمہ حضرات اشعری ‘ ماتریدی‘ رازی‘ غزالی‘ ابن رشد اور ابن تیمیہ (رحمہم اللہ) کی تصنیفات میں باقی رہ گئے ہیں۔
تاریخ پھر آج اپنے آپ کو دہرا رہی ہے‘ لیکن سانحہ یہ ہے کہ ہمارے لیے ان ائمہ میں سے کوئی بھی نہیں بچا۔ آج کی دنیا میں ’’معرکہ روح و بدن‘‘ اپنے عروج پر ہے اور ہمارے دینی حلقے اور علماء مغرب کی اس فکری یلغار کی ماہیت اور مقاصد کو سمجھنے کی کوئی بھرپور کوشش کرہی نہیں رہے‘ جو اب دینا تو دور کی بات ہے۔ دینی مدارس کے نصاب میں آج بھی عقائد کے حوالے سے پرانا فلسفہ یونان کے مباحث سے روشناس کرایا جاتا ہے‘ جبکہ نئے فکری اور اعتقادی سوالات اور تقاضوں سے ان کا واسطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو اعتقادی‘ فکری اور تہذیبی مباحث مغربی فلسفہ حیات نے چھیڑے ہیں اور جو سوالات انہوں نے پیدا کیے ہیں کہ ہم خدا کو کیوں مانیں جبکہ جدید سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ اس کائنات کا نظام چند متعین قوانین کے تحت چل رہا ہے اور اس میں کسی دوسرے کا کوئی کردار نہیں؟ اگر خدا رحمان و رحیم ہے تو پھر اپنے بندوں کو جہنم میں کیوں ڈالے گا؟ قرآن میں تخلیق کائنات اور زمین و آسماں کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے‘ جدید سائنس اس سے ٹکراتی ہے‘ آخر کیوں؟ وغیرہ۔نہ ہماری موجودہ عقائد کی کتابوں میں ان کا ذکر ہے اور نہ ہی مدارس کے طلبہ کو ان سے کوئی واسطہ۔ وائے حسرتا! ؎
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک

نہ زندگی‘ نہ محبّت‘ نہ معرفت‘ نہ نگاہ!ڈارون کے نظریہ ارتقاء‘ انسان کے مقصد تخلیق میں کشش جنسی کی محوری حیثیت کے بارےمیں فرائیڈ کے تصوّرات‘ اجتماعی زندگی سے مذہب کا مکمل انخلاء اور غیر محدود فکری آزادی کا نعرہ آخر اعتقادی مباحث نہیں تو اور کیاہیں؟ کیا انہی افکار و نظریات کا شکار ہو کر مسلمان کہلانے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کے ہمہ گیر اجتماعی کردار سے منکر یا کم از کم مذبذب نہیں ہو چکی؟ سوال یہ ہے کہ اس جدید اعتقادی فتنہ کی روک تھام کے لیے ہمارے دینی مدارس کا مجموعی کردار کیا ہے؟ ان کے نصاب کی تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور عقائد کی کس کتاب میں یہ مباحث شامل ہیں اور مدارس کے طلبہ کو ان مباحث سے روشناس کرانے اور اس کے جواب کی خاطر تیار کرنے کے لیے کیا کیا عملی اقدامات ہو رہے ہیں؟ ع علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!
جو چند علمی مراکز‘ دینی مدارس اور اہل علم اس اُٹھتی کالی گھٹا کے مقابلے کے لیے تیاری کر رہے ہیں‘ وہ ہر پہلو سے قابل تحسین ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سیلاب آتا ہے تو اس کے آگے چند ریت کی بوریاں رکھنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا‘ جب تک سب لوگ مل کر اس کی راہ میں بند نہیں باندھیں گے یہ رک نہیں پائے گا۔ اسی طرح مدرسہ ڈسکورس کا یہ سیلاب بلاخیز جو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بہالے جانے کی تگ و دو میں ہے‘ اگر علمی مراکز‘ دینی مدارس اور فضلاءِ کرام نے اس کو روکنے اور اس کا رخ موڑنے کی سعی و جہد نہ کی تو پھر کف افسوس ملنے سے بھی کچھ مداوا نہ ہوپائے گا۔ یہ حالیہ وقت کا ایک اہم سوال اور دینی مدارس کی قیادت پر مسلم معاشرہ اور نئی نوجوان نسل کا ایک قرض ہے‘ جس کاسامنا کیے اور اس کو ادا کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی کوئی صورت ممکن نہیں ؎
دُنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارافروعی اور جزوی مسائل ہمارے ہاں بنیادی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور جو امور فکر و اعتقاد کی دنیا میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ان کی ہمارے ہاں کوئی وقعت ہی باقی نہیں رہی۔عصر حاضر میں اسلامی تعلیمات کو اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لیے دینی مدارس کی خدمات سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکار کر سکتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس کا جتنا اونچا مقام ہوتا ہے‘ اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی عظیم ہوتی ہے۔ پاکستان میں تحریک تجدد کے بڑھتے ہوئے اثرات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علماء کرام کی اکثریت کو نہ پیش آمدہ حالات و واقعات سے کماحقہ واقفیت ہے اور نہ ہی اس کی پروا۔انہیں مکمل خبر ہی نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور نوجوان نسل کدھر کا رخ کر رہی ہے ۔ وہ دینی مدارس میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نصاب پڑھا کراور طلبہ کو اپنی خاص وضع کا دینی ماحول دے کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انہوں نے ابلاغِ دین کا حق ادا کر دیا ہے‘ اور اگر تصنیفات ہیں تو وہ بھی اپنے مسلک اور نقطۂ نظر کی آبیاری کے لیے ۔ شاید وہ اندازہ ہی نہیں کر پا رہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی مغرب زدہ تعلیم اور فکر نے جس نسل نو کی ذہن سازی کی ہے‘ ان کے نزدیک اس درسِ نظامی اور اس کے پیدا کردہ ماحول کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔یہ نوجوان مغربی اور مغرب زدہ دانشوروں کی اسلام کے بارے میں گفتگو اور ان کے اندازِبیاں کے سحر میں مبتلا ہو کر صحیح اسلام اور سلف کی علمی روایت سے نہ صرف باغی ہو رہے ہیں بلکہ ان کا رخ انکار اور ارتداد کی طرف مڑ رہا ہے۔ اب اس حوالے سے آپ لحاظ رکھیں گے ‘ مداہنت سے کام لیں گے یا پھر ادھورا جواب اور کوشش کریں گے ‘ تو معاملہ بجائے سنورنے کے اور بگڑے گا ۔
اب تصویرکا تیسرا رخ بھی ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھ لیجیے۔ اس ضمن میں پہلے ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے سنا علّامہ اقبال کا آبِ زر سے لکھا جانے والاایک قول پیش خدمت ہے کہ جب علّامہ اندلس کے سفر سے واپس آئے تو انہوں نے ایک موقع پر فرمایا کہ ان (دینی) مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو‘ غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو۔اگر یہ ملّا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔اگر ہندوستانی مسلمان (اور اب پاکستانی مسلمان بھی) ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروئوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ برصغیر (پاک و ہند) میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ (نیز لاہور کے شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد) کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ (حوالہ مزید‘ ماہنامہ ’البینات‘ کراچی‘ نومبر۲۰۱۶ء)
واقعاتی صورتِ حال دراصل یہ ہے کہ دینی مدارس اور جدید جامعات کے درمیان بوجوہاتِ مختلفہ خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ اسے پُر کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی‘اور نہ کوئی ایسے رجالِ کار ظاہر ہو رہے ہیں جو کہ دن بدن اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرکے دونوں نظام ہائے تعلیم کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکیں‘ نہ ہی کوئی ایسے ادارے اپنا مقام منوا سکے ہیں جو اس بھاری پتھر کو اٹھا کر آگے بڑھیں ۔ جدید مغربی فکر اور نظامِ تعلیم میں انسان ‘ کائنات اور خدا کے بارے میں جو نت نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں‘ یہ پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ جب یونانی فلسفہ کا اسلامی تہذیب و تمدن اور فکر پر حملہ ہوا تو قدیم علم الکلام میں بھی اسی طرح کے مباحث چھڑے تھے اور ہمارے ائمہ کرام رازی‘ غزالی اور ابن تیمیہ(رحمہم اللہ) وغیرہ نے ایسے تمام سوالات کے شافی اور منہ توڑ جواب دیے تھے ۔ بنیادی طور پر یہ وہی اعتقادی اور نظریاتی سوال ہیں جو کہ الفاظ بدل بدل کر سامنے آ رہے ہیں ؎
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم ‘ جواں ہیں لات و منات
آج بھی ان کلامی مباحث کو سمجھ کر جدید شکوک و شبہات کا تسلی بخش جواب دیا جا سکتا ہے‘ بس عزم و حوصلہ اور کٹھن محنت درکار ہے جو کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ بات پھیلتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے خاص طور پر طبقہ علماء کے پاس ان سوالوں کا جواب ہی نہیں۔ گویا جیسے ارشادِ ربّانی ہے :{مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ (۱۹) بَیْنٰھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ(۲۰)}’’اُس (ربّ) نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ‘ ان دونوں میں ایک حجاب ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے۔‘‘اسلام اور اُمّت ِمسلمہ کا یہ خلیج پاٹنے کا فرض ہم سب خصوصاً اہلِ علم پر واجب الادا ہے۔ جیسے زمانہ زبانِ حال سے کہہ رہا ہو :{اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(۷۸)}(ھود) ’’کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں؟‘‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا جدید مغربی فکر کے سوالات کے جوابات دینا صرف اہل مدارس اور روایتی دینی حلقوں کا ہی فرض ہے اور باقی لوگوں کی اس بارے میں کوئی ذمہ داری نہیں؟ ایک بندئہ مسلمان پندرہ سولہ سالہ جدید تعلیم میں صرف کر کے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کے درجے تک پہنچتا ہے تو کیا ایسے شخص پر اسلامی علوم کا حاصل کرنا لازم نہ ہوگا؟ یہ جدید تعلیم یافتہ لوگ اپنی اس ذمہ داری سے کس حد تک عہد برآ ہو رہے ہیں؟ روزِ قیامت اس حوالے سے ان کا جواب کیا ہوگا کہ ہر بات اور مسئلے پر صرف دینی مدارس اور طبقہ علماء کو ہی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اپنی ذمہ داری کا کہیں ذکر تک نہیں ہوتا؟
اب اہل مدارس اور علماء حضرات کی طرف آنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ مدرسہ ڈسکورس پروگرام کو ترسیل زر(Funding) کہاں سے اور کتنی ہوتی ہے۔ ایک مسیحی کیتھولک نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے اس پروگرام کی فنڈنگ تین ادارے کر رہے ہیں۔دی ہنری لوس فائونڈیشن‘ دی ریلجین اینڈ انوویشن ان ہیومن افیئرز اور دی جان ٹیملیٹن فائونڈیشن۔ ان تینوں میں تیسرے ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی جانب سے اکیس لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم مدرسہ ڈسکورس منصوبے کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس ادارے کے سابق صدر جو موجودہ صدر کے والد ہیں‘ جان ٹیملیٹن جونیئر ایک اوینجلیکل عیسائی تھے۔ وکی پیڈیا میں یہ بات بھی ان کے تعارف میں شامل ہے کہ وہ ’امریکن کنزرویٹوکاز‘کے بڑے معاون تھے۔یہ ایک امریکی اصطلاح ہے جس کے معنی وکی پیڈیا کے مطابق یہ ہیں کہ یہود و عیسائی اقدار کو سیاست‘قانون اور اخلاقیات کی بنیاد قرار دینا۔ اسی سے اس پروگرام کے منبع و ماخذ اور اس سے نکلنے والے نتیجے کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں دینی مدارس کی فنڈنگ اور علماء کرام کو ملنے والی مالی مراعات کا جائزہ لیں تو دماغ ہل کر رہ جاتا ہے۔ چندایک بڑے مدارس کو چھوڑ کر جن حالات میں اہل مدارس گزارا کر رہے ہیں‘ شایداس کا ہمیں احساس تک نہیں۔ رہی بات وہاں کے مدرسین کی تنخواہ کی تو لکھتے اور بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ کہاں  لاکھوں  ڈالروں میں کھیلتے اور دنیا بھر کی جدید سہولتوں سے فیض یاب ہوتے مغربی مستشرقین اور ان کے پروردہ اہل علم‘ کہاں چند ہزار پر گزارہ کرتے اور جدید سہولتوں سے دور کٹھن طرزِ زندگی گزارتے ہمارے علماء کرام‘ اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ دن رات فکر معاش میں گھلنے والوں کو نشانہ استہزاء بنایا جائے اور ان پر پھبتیاں کسی جائیں۔مغرب کی علمی جواب دہی کا سارا بوجھ ان پر لاد کر خود فارغ ہو لیا جائے!
کیا مسلمان حکمرانوں اور اصحابِ ثروت کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ دورِجدید کے چیلنجز اور نئے ابھرتے نقطہ ہائے نظر کا مقابلہ کرنے اور جواب دہی کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کریں؟اور چیدہ چیدہ اور باصلاحیت علماء کرام کو مالی لحاظ سے اتنا خوشحال کر دیں کہ وہ معاشی تفکرات سے کلیتاً آزاد ہو کر ذہنی یکسوئی سے ان اٹھتے ہوئے چیلنجز کا جواب دینے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنا سکیں۔ گھریلو پریشانیاں اور معاشی بوجھ بندے کو ذہنی طور پر ختم کے رکھ دیتاہے ؎
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے

قبض کی روح تری‘ دے کے تجھے فکر ِمعاش!کہاں مغرب میں استشراقی سرگرمیوں اور مدرسہ ڈسکورس کے لیے ۲۲ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اور کہاں ہمارے آسودہ حال حضرات جو چند ایک کو چھوڑ کر بائیس ہزار ماہانہ بھی باقاعدگی سے علمی اداروں کو نہ دے پائیں‘اور پھر سارا نزلہ دینی مدارس اور علماء کرام پر کہ وہ کچھ نہیں کر پا رہے ۔ بقول مزرا غالب ع
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو مَیں!ایسے ہی تو یہ حدیث نہیں:کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا(رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
چلیں باہر کو چھوڑیں‘ اپنے ملک میں ہی ایک موازنہ جامعات کے پروفیسروں اور علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی تنخواہوں کے درمیان کر لیں۔پاکستان کے چھوٹے شہروں کی بات ہی چھوڑیں‘ کسی بڑے شہر کی بڑی جامع مسجد اور مدرسے کے بڑے عالم اور مفتی کی تنخواہ عموماً زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس ہزار سے اوپر نہیں ہوتی‘ جبکہ اس کے برعکس جامعات کے پروفیسروں کی تنخواہوں کا جائزہ لیں تو دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ ہائرایجوکیشن کمیشن (HEC)کے ایک حالیہ نوٹیفیکیشن(۲۰۲۱ء)کے مطابق ٹی ٹی ایس(Tenure Track Scale)
سسٹم کے مطابق ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ایک لاکھ پچھتر ہزار سے شروع ہو کر تقریباً تین لاکھ چھپن ہزار تک جاتی ہے۔(Salary:Rs.175,500-356,475)
ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کی تنخواہ تقریباً دو لاکھ تریسٹھ ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر تقریباً چار لاکھ ترانوے ہزار تک جاتی ہے۔(Salary:Rs.263,250-493,590)
اسی طرح ایک فل پروفیسر کی تنخواہ تقریباً تین لاکھ چورانوے ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر چھ لاکھ چوراسی ہزار تک جاتی ہے۔ (Salary:Rs.394,875-684,450)
پھر اگر بی پی ایس سکیل(BPS Scale)اور ایس پی ایس سکیل(SPS Scale)کی بات کریں‘ تو وہاں بھی معیاری تنخوا ہوں کا پیکج الگ ہے۔ اس کے علاوہ جامعات کی دیگر مراعات میں علاج معالجے کی سہولیات ‘ رہائشی سہولت یا کرایہ‘ عمدہ دفتر‘ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی طلبہ کی رہنمائی کرنے پر علیحدہ الائونس وغیرہ ۔(بینات‘ کراچی‘ مئی۲۰۲۲ء) اب اتنے پرکشش پیکجز والے اداروں کے نتائج کو بھی جانچ لیں‘ اور بے سرو سامانی اور معمولی تنخواہوں والے مدارس کے نتائج بھی ملاحظہ کرلیں‘ فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں کی مراعات کا اگر نصف بھی دینی مدارس کے اساتذہ کو مل جائے تو شاید بات بن جانے کے کچھ آثار پیدا ہو جائیں۔ ورنہ ع ہم الزام ان کو دیتے تھے‘ قصور اپنا نکل آیا!
رہے دینی جماعتوں کے علمی مراکز‘ تو کوئی ویرانی سی ویرانی ہے!موجودہ سیاست میں آلودہ ہو کر اور ساری توجہ سیاسی سرگرمیوں کی طرف لگا کر تو پھر یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ ان سے ہٹ کر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پکار کا جواب! دعوتی جدوجہد اپنی جگہ لیکن اس علمی کام کے لیے وسائل کا بہم پہنچانا‘ علمی ترفع حاصل کرنا اور رجالِ کار کا تیار کرنا‘ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ!خود تو یہ کارخیر کرنے اور اس بار کے اٹھانے کو کوئی تیار نہیں اور دوسروں پر طعن و تشنیع کرنا مسئلے کا آسان حل ہے۔ بقول ڈاکٹرصاحب اس دور میں کرنے کا اصل کام یہی ہے‘ اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جب صحیح کام نہیں چلے گا تو صحیح کے نام پرغلط کام ہی خلا کو پُر کریں گے۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد مسلمانوں میں قدیم و جدید کو ملانے کی پہلی اہم کوشش سرسید نے کی۔ ایک طرف تو انہوں نے جدید تعلیم کے مدارس کھولے‘ دوسری طرف اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو نئے رنگ اور انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ اسی حوالے سے قرآن پاک کی ایک تفسیر لکھنا بھی شروع کی‘ لیکن بدقسمتی سے جدید کے شوق میں قدیم سے ناطہ تقریباً توڑ ہی لیا۔ سلف کے منہج اوران کی روایت سے تعلق ختم کر کے اپنی من مانی تفسیر قرآن لکھنا کھلی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟ ؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج!اسی ذیل میں غلام احمد پرویز مدیر ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ اور ڈاکٹرفضل الرحمٰن سربراہ ’ادارہ تحقیقات اسلامی (ایوبی دور) ‘ کی سعی و جُہد شمار کی جا سکتی ہے۔ ’مدرسہ ڈسکورس‘ یہی پرانی شراب نئے پیالوں میں بانٹ رہا ہے اور مے خوار دھوکہ کھا رہے ہیں۔ ان تمام کاوشوں میں نیت اور خلوص اپنی جگہ‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ طریقہ کار کیا اختیار کر رہے ہیں؟زخم کا صحیح طریقے سے علاج نہ ہو تو آخرکار وہ ناسور کی شکل میں خطرئہ جان بن جاتا ہے۔اسی طرح دینی علمی کام بھی درست ڈگر پر نہ ہو تو بجائے اصلاح کے فساد اور گمراہی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ متذکرہ بالا یا اسی سے ملتی جلتی دیگر کوششیں اگر اسی طرح سُنّت‘ صحابہ ‘سلف اور ان کے ذخیرئہ علمی سے تعلق منقطع کر کے اور ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ سے رخ موڑ کر دیگر ذرائع سے اسلامی خدمت اور قدیم و جدید کے امتزاج کی جدوجہد کریں گی تو ایک نئے فتنے کی شکل اختیار کر کے اپنے ساتھ دوسروں کی گمراہی کی بھی موجب ہوں گی۔ ؎
کی محمد(ﷺ) سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
اور حشر کے دن جو احتساب ہونا ہے وہ تو ہے ہی ‘ ادھر آخر کیا جواب دیں گے؟اس صورت حال میں تمام اہل ِدینی مدارس کو متحد ہو کر ایک متفقہ بیانیہ سامنے لانا چاہیے‘ جس میں ان تمام کاوشوں اور تحریکوں کا سختی سے سد ِباب کیا جائے اور ایسے تمام حضرات کا کڑا محاسبہ کیا جائے جو دینی مدارس کو ان کے اصلی راستے سے ہٹا کر بالکل ایک نئے رخ پر ڈالنا چاہتے ہیں‘ اور ان کے مقصد حقیقی کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؎
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!
اب آخر میں دیکھنا ہوگا کہ مندرجہ بالا تناظر میں کیا ممکنہ لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ان عملی صورتوں کی ترتیب کچھ یوں بن سکتی ہے:
(۱) دینی مدارس کے نصاب میں وفاق کی سطح پر مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب کے جدید سوالات اور چیلنجز کو شامل کر کے اساتذہ و طلبہ کو ان سے آگاہی کرائی جائے‘ اور جواب کے لیے مناسب علمی تربیت کا ماحول پیش کیا جائے۔علیحدہ تخصصات قائم کیے جائیں‘ ایسے دینی رجالِ کار کو تیار کیا جائے جو تقریر و تحریر میں مدلل اور ٹھوس جوابی علمی ذخیرہ تیار کر سکیں۔
(۲) درمیانی مدت کی ایسی ورکشاپس اور تربیتی کورسز کا اجراء کیا جائے جن میں ایسے باصلاحیت اور باذوق فضلاء شریک ہوں‘ جو مغربی فکر و فلسفہ اور مدرسہ ڈسکورس پروگرام میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ ساتھ ہی ایسے قدیم و جدید فکر و فلسفہ بھی سمجھنے والے باصلاحیت علماء اور اساتذہ شامل ہوں جو ان علم کے پیاسوں کو بخوبی سیراب کر سکیں‘ اور ان میںیہ شعور بھی بیدار ہو کہ سلف کے ساتھ جڑے رہنے سے ہی ہمارے لیے عافیت اور ہدایت ہے۔
ظاہرہے مسئلہ کا اصل حل حسب ِ موقع دونوں صورتوں میں پنہاں ہے‘ تاہم اس تناظر میں اصل امتحان اہل ثروت کا ہے کہ وہ اپنے مالی وسائل کے ایک معتدبہ حصے کا رخ ایسے اداروں کی طرف موڑ دیں۔ایک بات کچھ دینی حضرات کی طرف سے بھی آتی ہے کہ ہمیں اپنے دینی مدارس سے فارغ التحصیل باصلاحیت فضلاء کو مغربی ممالک کی مختلف جامعات میں بھیجنا چاہیے‘ تاکہ وہ وہاں کے تعلیمی ماحول میں رہ کر مغربی فکر و فلسفہ کو سمجھ سکیں اور پھر جوابی علمی کاوش کریں۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر علمی ماحول کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے ‘ جس سے کلیتاً بچنا ایک نووارد کے لیے اتنا آسان نہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ وہاں گئے کسی کام کی نیت سے اور متاثر ہو کر آئے تو شروع کوئی اور کام کر دیا۔ دوسری بات یہ کہ اس حوالے سے مولانا عبیداللہ سندھی کا اکثر نام لیا جاتا ہے کہ اپنے دور کے عالمی نظاموں کو انہوں نے ان کے ماحول ہی میں جا کر سمجھا۔وہاں سے ہندوستان واپسی پر ان کے تفردات اور افکارپر علماء کرام کی جو آراء ہیں‘ اگر وہ بھی دیکھ لی جائیں تو نتیجہ خود بخود سامنے آ جائے گا۔ ع
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل مواد سے مدد لی گئی ہے:
(۱) حکمت ِقرآن (سہ ماہی) ‘ مدیر ڈاکٹر ابصار احمد‘ دسمبر ۲۰۱۹ء
(۲) الشریعہ (ماہنامہ)‘ مدیر محمد عمار خان ناصر‘فروری ۲۰۱۸ء تا اگست ۲۰۱۹ء
(۳) البرہان (ماہنامہ)‘ مدیر ڈاکٹر محمد امین‘ جنوری ۲۰۲۲ء
(۴) مدرسہ ڈسکورسز پروگرام‘ از یاسر ندیم الواجدی
(۶) دینی مدارس (عصری معنویت اور جدید تقاضے) از ابراہیم موسیٰ‘ مترجم وارث مظہری
(۷) آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری (لغت) از شان الحق حقی ‘ طبع ۲۰۱۴ء