(فکر و فلسفہ) کائنات کی مخلوقیت کا اِنکار - ڈاکٹر محمد رشید ارشد

8 /

کائنات کی مخلوقیت کا اِنکارڈاکٹر محمد رشید ارشدفلسفہ ٔ جدید کے بانی رینےدیکارت کے نظریۂ ثنویت کے نتیجے میں اور بعض کچھ اورعوامل کی وجہ سےجدید مغرب کے ہاں خدا پر ایمان اور خدا کے ہونے کے دلائل سکڑتے چلے گئے۔ خود دیکارت کے ہاں بھی یوں لگتا ہے کہ وہ علم کی سطح پر خدا کے تصوّر کی جگہ نکالنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے بعد سے خدا کی دفاعی پوزیشن اور اس کا رعایتی اثبات زیادہ دیر تک ایک تکلّف کی شکل میں بھی قائم نہ رہ سکا اور علم کی وہ تقسیم جو دیکارت نے کی تھی وہ بھی اس پہلو سے تقریباً ٹوٹ گئی کہ ذہن اور شے کا تعلق ہی محکم اور حقیقی ہے۔ اگر خدا ور ذہن میں ایسا ہی تعلق نہیں پایا جاتا تو پھر خدا کو ماننا کسی نوع کی اَخلاقی ضرورت تو ہو سکتی ہے‘ علمی نہیں۔ یعنی خدا ایک productive تصوّر کے طور پر تو شعورِانسانی میں اپنی جگہ بناسکتا ہے لیکن ایک قائم بالذات ہستی کی حیثیت سے اس کے اثبات کی کوئی ایسی دلیل ممکن نہیں ہے جو اس کے وجود پر یقین رکھناواجب کردے۔ دیکارت سے کانٹ تک پہنچنے کے دوران میں مغربی فکر کی مرکزی روایت میں خدا کوئی علمی موضوع نہ رہا۔ اس کو ماننے کے لیے دلائل سازی کا عمل ایک نہایت محدود دائرے میں جیسے تیسے جاری تو رہا‘ لیکن ایک تو اس نظام ِ استدلال پر یونانی منطق اور خالص Idealism کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ اس زمانے کا ذہن اس کی ادنیٰ سی تاثیر اور قبولیت سے لاتعلق ہی رہا۔ اور ان ادوار میں رونما ہونے والی مذہبی فکر کے فلسفیانہ اور غیرفلسفیانہ تمام مظاہر منطقی اثبات اور آدرشی تجرید کی دھند میں لپٹے رہے۔ ان کی وجہ سے خدا کا اقرار مشکل ہوگیا اور انکار مزید آسان۔
اٹھارہویں صدی میں جب سائنس نے بہت سے موضوعات کی اقلیم سے فلسفے کو بے دخل کرنا شروع کیا اور کم از کم ’’وجود کیا ہے؟‘‘ کے باب میں اپنا مرکزی کردار اور حتمی حیثیت منوالی تو پھر مذہبی ذہن کے نیم فلسفیانہ‘ نیم اخلاقی استدلال کی بھی گنجائش ختم ہوگئی۔ سائنس چونکہ اپنی قدیم اصل کے مطابق بھی کائنات کا علم ہے لہٰذا کائنات کے آغاز و اختتام کو موضوع بناکر جب جدید سائنس نے کچھ نتائج پر تقریباً اتفاقِ رائے پیدا کرلیا تو مذہبی روایت کی پوری تاریخ میں اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا‘ اور وہ یہ تھا کہ سائنس کے تمام شعبے مطالعہ کائنات میں ایک واضح رخ اختیار کرچکے تھے۔ اور وہ رخ یہ تھا کہ کائنات کا ایسا تجزیہ کیا جائے جو ریاضیاتی اور تجربی دونوں طرح کے شواہد کی بنیاد پر یہ جاننے میں فیصلہ کن مدد دے سکے کہ یہ کائنات اپنی اصل میں کیا ہے؟پھر کائنات کے مطالعے ہی کے ضمن میں انسان کا جائزہ لینے کی روایت کا بھی آغاز ہوا۔ یہ جائزہ اسی اصول پر تھا جسے کائنات کے تجزیے کے لیے جیسے اجماعی طور پر بنایا گیا۔ ریاضیاتی اور تجربی حدود سے بننے والے دائرے میں لامتناہیت کی بھی گنجائش تھی اور تحدید کی بھی۔ یعنی اس دائرے میں کلیات اور جزئیات دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ اس پہلو سے ایک بہت بڑا نتیجہ برآمد ہوا‘ جو یہ تھا کہ لامتناہیت (infinity) جو کلاسیکی روایت میں خدا کا خاصہ تھا‘ کائنات کا ایک ایسا وصف بن گیا جسے کائنات سے الگ کرکے وجود کی کسی اور سطح پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔ وجود کی کوئی اور سطح سائنس کے ریاضیاتی اور تجربی ذہن نے روا بھی نہیں رکھی تھی۔ وجود کے نظام میں جیسا بھی تنوع اور جتنے بھی مدارج ہوں وہ جدید سائنس کے لیے کائنات کے وجودی کل کے اجزاء سے زیادہ کچھ نہیں۔
لامتناہیت کو کائنات سے مشتق /منتزع کرنے سے یہ بات بھی ناگفتہ سہی مگر ایک سائنسی دعویٰ بن گئی کہ کائنات مخلوق نہیں ہے۔ اس کے بعد کائنات کے غیر مخلوق ہونے کے اس قضیے کو جدید سائنس اس جہت میں ہرقدم پر مضبوط کرتی جارہی ہے‘ اور اب صورت ِحال یہ ہے کہ کائنات کا مخلوق نہ ہونا ایک ایسا تصوّر بن چکا ہے جس کی تردید کے لیے سائنس کوئی مدد فراہم نہیں کرتی اور نہ کرنا چاہتی ہے۔ آج یہ سائنسی ذہن کا عقیدہ ہے۔ اسی طغیانی میں دو اونچی لہریں اور بھی ہیں‘ اور وہ نظریہ ارتقاء اور مادّی جدلیت ہیں۔ ان کی آمیزش سے بہت focused حالت میں اور بالکل الگ زاویے سے انسان کا غیر مخلوق ہونا بھی ایک سائنسی اور علمی دعویٰ judgment) بن گئے جس پر جدید ذہن کی طرف سے یا کسی جدیدعلم کی جانب سے نظر ِثانی کا فی الحال ہر دروازہ بند ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج انسان اور کائنات کو غیرسائنسی رخ سے نظری‘اخلاقی اور جمالیاتی اغراض سے موضوع بنانے والے تمام ہی علوم و فنون خدا کی طر ف نہ صرف یہ کہ کوئی اثباتی رویّہ نہیں رکھتے بلکہ اس رویے کی سرے سے پیدائش کا کوئی اِمکان بھی ان میں نظر نہیں آتا۔ یہ ہے وہ فضا اور تناظر جس میں عالمگیرپیمانے پر انسانی ذہن کی تعمیر ہورہی ہے۔ یہ ذہن خِلقتاً خدا کو ماننا تو دور کی بات ہے اس کے تصوّر سے بھی غیر مانوس ہوگا۔ ہمارا یعنی مسلمانوں کا فی الوقت کوئی نظامِ تعلیم ‘تبدیلی کی اس رو کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ علم کا پورا تصوّر اور اس تصوّر سے پیدا ہونے والا ذہن ایک مکمل تبدیلی کے تیّار شدہ نقشے کے مطابق مغرب کی حد تک ڈھل چکا ہے اور اب globalized ہونے کے مراحل کو تیزی سے طے کررہا ہے۔ اس واضح صورتِ حال میں ‘ذہن سازی اور کردارسازی کے رسمی سانچے اورعلمی و عملی سطح پر لاتعلق کوششیں کارآمد نہیں ہوسکتیں۔ ایمانی شعور اور کردار کو اپنی بقا اور دفاع کے لیے جو وسائل درکار ہیں اور جیسے حالات مطلوب ہیں وہی جب نہ رہیں تو محض عبارت اور ذہن کا تعلق کافی نہیں رہتا۔ اس چیلنج پر اہل ِ دین نے سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ ہمہ وقتی توجّہ نہ کی تو یہ گویا دین سے انحراف ہوگا۔ یہ سمجھ لیں کہ آج کے مذہبی ذہن ہی کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ‘ نعوذ باللہ‘ قرآن و حدیث میں بیان ہونے والی کوئی حقیقت اس کے لیے دراصل اتنی convincing نہیں رہی جتنی کہ کسی بڑے سائنسدان کی کوئی بات۔
جواب:کائنات کا مخلوق ہونا ایک مستقل فطری اور ذہنی مسلّمہ ہے۔ عقل میں وجود کے مطالعے کے جتنے منہج قدرتی یا اختیاری طور پر پائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ’’وجود کیا ہے؟‘‘ کے سوال کو خُد ا یا خدا سے ملتی جلتی خالق ِ کل ہستی یا امر پر منحصر ہوئے بغیر عمل میں آ ہی نہیں سکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ الوہیت اپنی تفصیلات اور مصداق کے ساتھ بتائی جاتی ہے‘ خود سے دریافت نہیں کی جاسکتی ‘تاہم ایک قوتِ خالقہ کا ہمہ گیر تصوّر خود عقل کے وجود کا جوہر ہے۔ یعنی کائنات سے ماورا کسی خالق کا‘ جو چاہے ذات ہو یا غیرِذات ‘تصوّر اتنا بنیادی ہے کہ اس کی موجودگی کے بغیر عقل‘ استدلال اور شناخت کا مادّہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا‘ دوسرے لفظوں میں ‘ عقل‘ عقل ہی نہیں بن سکتی۔ اور ایک عقل ہی نہیں ‘انسانی شعور کی دیگر اَقسام بھی جو وجود کے اَحوال کو قبول کرکے شناخت کی ان سطحوں پر لے جاتی ہیں جو عقل سے لازماً متعلق نہیں ہیں‘ عین اسی تصوّرِ خالقیت سے اپنا جواز حاصل کرتی ہیں اور اسے اپنا مرکزی ترین خیال بنائے رکھتی ہیں۔ اگر یہ مسلّمہ یا یہ تصوّر شعور کی تمام اَلواح پر سے محو کردیا جائے اور اس کی میکانیکی استعداد سے خارج کردیا جائے تو سب اَلواح خالی رہ جائیں گی اور ساری قابلیتیں (potentials) نابود رہ جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے انکار اور کائنات کی مخلوقیت کی تردید کے لیے سائنس کی آمد سے پہلے انسانی ذہن اور اس کے حدود کو اس انداز سے متعین کرنے کی مسلسل اور مربوط کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح یہ ذہن اپنی ساخت کے اعتبار سے ہی تصوّرِ خدا سے عدم مناسبت رکھنے والا ثابت ہوجائے۔ علم کی تعریف میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا اس کے سوا کوئی مقصود نہ تھا کہ وجود اور اس کے مراتب کو بھی مادّے کی حد تک سکیڑ دیا جائے اور انسانی ذہن میں تجرید کی تمام قوتوں کا رخ اسی کائنات کی طرف موڑ دیا جائے۔ چونکہ ذہن میں تجرید کا عمل وجود کو کائنات تک محدود رکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور وجودِ باری کے اثبات میں کام آتا ہے ‘لہٰذا اسے نہایت بددیانتی اور زور زبردستی سے ریاضیاتی مفروضوں اور شاعرانہ تخیلات کے کھاتے میں ڈال کر اس کے اندر موجود اس امکان کو فنا کرنے کی منظّم کاوش کی گئی جس کے ہوتے ہوئے خدا کو ماننا عین عقلی‘ وجودی اور فطری عمل تھا۔
لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ کائنات کے مخلوق ہونے پر ہر دلیل بے اثر ہے‘ کیونکہ دلائل اور مدلولات کا پورا نظام خدا کے انکار کا بنایا ہو اہے اور زندگی پر ہر پہلو سے اثر انداز ہونے کے ٹھوس شواہد بھی رکھتا ہے۔ جب تک خدا کو ماننے کے نتیجے میں ایک باقاعدہ تہذیبی اور علمی روایت نہیں بنتی اُس وقت تک مذہبی اور منطقی دلائل کا انبار بھی اس صورتِ حال میں تبدیلی نہیں لاسکتا۔ ہم مسلمانوں کی دو سب سے بڑی دینی ذمہ داریاں ہیں جن سے ہم نے غفلت اور انحراف کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک ذمہ داری معاشرتی نتائج پیدا کرنے والا تزکیۂ نفس ہے اور دوسری آفاقی سطح پر خود کو ظاہر کرنے والا اظہارِ دین۔ ویسے تو اظہار ِدین ہی اِس اُمّت کی مجموعی ذمہ داری ہے جو اَنفس میں تزکیہ ہے اور آفاق میں غلبہ۔ لیکن سہولت ِ فہم کے لیے ہم نے اس کے ایک حصے کو الگ سے اصول کے طور پر بیان کردیا۔ تزکیے کی ذمہ داری ایمان سے پیدا ہونے والے تصوّرِ علم کے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی اور اس کے ساتھ ہی تعلق باللہ‘ مدارِ تعلقات نہ بنے تو بھی یہ فریضہ عملی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح اظہارِ دین یعنی غلبہ دین ‘ ایک پورے نظام الوجود کو عملاً برپا کیے بغیر ناممکن ہے۔ یہ ہماری شومئی اعمال ہے کہ ہم نے اپنے دین کو علم کی تعریف کا ماخذ بننے سے روکا‘ اسے وجود کی اصل بنا کر دکھانے میں مکمل نا اہلی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ آج ہم قبولِ ایمان اور احیائے دین کے مرحلے میں ہیں۔ یعنی مطلوبہ اسلامی آدمی اور مطلوبہ اسلامی دنیا بنانے کا آغاز کرنا ابھی ہم پر قرض ہے۔ اس بھاری قرض کی طرف متوجّہ نہ ہوئے تو مغرب پر ہماری طرف سے آنے والی کوئی تنقید بھی بالکل مضحکہ خیز ہوگی اور اس کی کامیابی کو زیادہ نزدیک لے آئے گی۔ زیر ِ غور مبحث میں بھی ہمارے استدلال کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ ہم کائنات کا مادّی اور ریاضیاتی تجزیہ کر کے یہ بتا اور دکھا سکیں کہ یہ لازماً مخلوق ہے‘ چاہے اس دائرے میں ہم خالق کی معرفت کو موضوع نہ بنائیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایک اعلیٰ درجے کی سائنسی استعداد کی بھی ضرورت ہے‘ جسے ابھی پیدا کرنا ہے اور مغربی سائنسی روایت اور مزاج سے لاتعلق رہ کر پیدا کرنا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے کل میں کچھ اَجزاء کو اِدھر اُدھر کردینے سے یا چند چیزوں کا اپنی طرف سے اضافہ کرلینے سے اُن کا نظریہ ردّ نہیں ہوگا‘ مزید پختہ ہوجائے گا۔ کائنات کا مخلوق نہ ہونا کوئی منطقی قضیہ نہیں ہے بلکہ سائنسی دعویٰ ہے۔ اس کی تردید بھی منطقی نہیں ہوگی‘ سائنسی ہوگی‘ سائنس کی اپنی تعریف اور اپنے مقاصد کے ساتھ۔
دوسری طر ف کائنات کے مخلوق نہ ہونے کا سائنسی دعویٰ‘ انسان کے لیے ذہنی اور نفساتی نتائج و عواقب بھی رکھتا ہے‘ اس لیے ہمیں بالکل clinical طریقے سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ عالمِ وجود کے متوازی‘ جو عالمِ شعور پایا جاتا ہے ‘ کائنات کی مخلوقیت اس کا بنیادی اقتضاء اور مسلّمہ ہے۔ جب جدید نفسیات لاشعور اور تحت الشعور جیسے تصوّراتِ محض کو تجربی رنگ دے سکتی ہے تو ہم شعور کی ایمانی ساخت تک رسائی کے واجب التسلیم راستے کیوں نہیں کھول سکتے! تو دوسرا کام یہ ہے کہ انسانی ذہن اور نفس کے اِس ایمانی جوہر کو ابھار کر نتیجہ خیز حالت میں سامنے لایا جائے‘ جہاں خدا کے ہونے کا ثبوت چاہے نہ ملے‘ اسے ماننا ضروری ہوجائے‘ کیونکہ ماننا اگر ایک خِلقی اور عمومی حالت ِشعور کے طور پر ثابت ہوجائے تو پھر جسے مانا جارہا ہے اس کا ہونا خود بخود لازم ہو جاتا ہے۔ شعور کے مشترک اور عومی تصوّرات اپنا مصداق ضرور رکھتے ہیں چاہے وہ مصداق شعور کی گرفت سے ماورا ہو۔ اگر کائنات کی مخلوقیت شعور کے آفاقی مسلمے اور شعور کی ترکیب کے لازمی عنصر کے طور پر سامنے آجائے تو کائنات کے مخلوق نہ ہونے کے سائنسی دعوے بھی بے حقیقت ہوکر رہ جائیں گے۔ کیونکہ حقیقت شے سے ماورا ہوتی ہے اور شے کا کوئی تجزیہ بھی حقیقت کی پیشگی تسلیم کے بغیر نہیں کیا جاسکتا‘ لہٰذا سائنسی کاوشوں اور تجزیوں کے تمام نتائج شعور میں راسخ تصوّرِ ِحقیقت کو چیلنج یا تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ شعور میں راسخ اس تصوّر ِ حقیقت کی بازیابی کرکے دکھائیں‘ اور اس کی بنیاد پر نظری اور سائنسی علوم پیدا کر کے دکھائیں۔ مختصر یہ کہ کائنات کا مخلوق ہونا اُسی وقت پایۂ ثبوت کو پہنچے گا جب شعور کا ایمانی ہونا ثابت ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنی نشانیوں کا مجموعہ ارشاد فرمایا ہے۔ یہاں کائنات سے مراد کائناتِ خارجی ہے‘ جس کا مشاہدہ ہو یا تصوّر‘ دونوں اللہ کو ماننے کے ذرائع کے طور پر خلق کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بلکہ قانونِ تخلیق ہمیں وہ قطعی کمک اور رہنمائی فراہم کرتا ہے جس کی بدولت ہم کائنات کا structural اور clinical تجزیہ کرکے اس کا مخلوق ہونا اسی درجہ تیقن پر ثابت کرسکتے ہیں جس پر اس کا موجود ہونا ثابت ہے۔ افسوس ہم نے اس ہدایت کی ذرّہ برابر قدر نہ کی جس سے خدا دشمن روایتوں کو کھل کھیلنے کا کھلا میدان مل گیا۔ فقہی اور صوفیانہ تعبیرات ہمارے لیے ایسا حجاب بن گئیں جس نے ہمیں اللہ کی نشانیوں کو درست علمی‘ اخلاقی اور جمالیاتی زاویوں سے دیکھنے کے لائق نہ چھوڑا۔ انسانی علم میں ضد پر مبنی تحکم پیدا کرلینے کی وجہ سے ہم مستقل ایمان اور متغیر علم کے تعلق کو سمجھ ہی نہ سکے۔ اس سلسلے میں بھی ہمیں فوری ضرورت ہے کہ ہم falsifiable علم کی پرورش کرنے اور اسے استعمال میں لانے کے آداب سیکھیں۔ ورنہ ایمانیات دنیا اور انسان کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے ذہن کے لیے اجنبی بن جائیں گے‘ بلکہ ہمارے ہاں تو شاید بن ہی چکے ہیں۔
جس طرح نفس کا تزکیہ‘ نفس کے تجزیے کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے ‘ کائنات کا تزکیہ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے مجموعے کے طور پر بحال کرنا‘ اس کے تجزیے کے بغیر پوری طرح ممکن نہیں ہے۔ ان معنوں میں ایمانی مقاصد کے ساتھ اَخلاقی اور علمی سرگرمیوں کا ایک پورا نظام تشکیل دینا ہمارے اور ہمارے ورلڈ ویو کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس کی تھوڑی سی تفصیل درج ذیل ہے:
ا) ایک ہمہ گیر نظام ِ تعلیم و تربیت
ایسا نظام جو ذہن‘ شخصیت اور زندگی کی ایمانی تأسیس‘ پرداخت اور تکمیل کرے اور اس کے ذریعے سے فہم کی غلطیوں کا اِمکان روا رکھتے ہوئے طالب علموں کے ذہن اور طبیعت میں یہ راسخ کردیا جائے کہ انسان کی اصل بندگی ہے اور کائنات کی حقیقت اس کا آیاتِ الٰہی ہونا ہے۔ دونوں کی واقعیت اور تصوّراتی تفصیلات کے فہم میں اگر غلطی بھی ہوجائے تو بھی ان کی اصلیت اور حقیقت متأثر نہیں ہوتی۔ یہ ہے وہ تصوّر ِ علم جس کو ایمان سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ علم میں ایمان کی طرح کاا ستقلال اور کمال ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ اپنی یقینی کوتاہیوں کے ساتھ ایمان کے ساتھ متعلق رہ سکتا ہے۔ بلکہ ان دونوں کے تعلق کی اس کے سوا کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان یہ ہے اور کائنات یہ ہے! اب مجھے اپنے falsifiable علم کے ساتھ اللہ کی بخشی ہوئی اس معرفت کی کامیاب اور نتیجہ خیز تصدیق کرنی ہے‘ اور اپنی غلط فہمی سے بھی یہ دکھانا ہے کہ دیکھو اللہ کا فرمانا ہی حق ہے۔ فلسفیانہ اصطلاح میں کہا جائے تو یہی وہ درجہ شعور ہے جہاں صورت کے ادراک میں غلطی‘ حقیقت کے اثبات میں حارج نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ایمان وہ اجمالِ محکم ہے جسے متغیر تفصیلات ہی سے متاعِ شعور و وجود بنایا جاتا ہے۔
ب) نظام ِحکومت
یعنی دین کو طاقت کے تمام دائروں کا فعال مرکز بنانا۔ یہ ایک پہلو سے نظام ِبندگی ہے اور دوسرے رخ سے نظام ِتسخیر۔ ہمیں اس نظام کو تشکیل دینے کی اشد ضرورت اس لیے بھی ہے کہ کائنات کا علم ذہن سے زیادہ قوت پر انحصار رکھتا ہے۔ کائنات پر تصرف کے بغیر اس کا تجزیہ نہیں ہوسکتا۔ اس نظام ِحکومت میں وہ سب چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اس ترکیب سے ظاہر ہیں‘ مثلاً نظام ِسیاست‘ نظام ِریاست‘ نظام ِجہاد‘ نظام ِمعیشت‘ نظام ِانصاف وغیرہ۔ اور وہ چیزیں بھی اس نظام میں شامل ہیں جو دکھائی کم دیتی ہیں‘ مثلاً تمام مقاصد کے حصول کے ذرائع پر تصرف اور بنیادی تصوّرات کو عمل میں لاسکنے والی طاقت کا مربوط structure۔ بندگی پر قائم جذبۂ وجود کی توسیع اور تعمیم‘ جس سے وہ اجتماعی ضمیر تشکیل پاتا ہے جو حقائق کو مستحضر اور مظاہر کو مسخر رکھتا ہے۔
ج) تصوّر ِآزمائش و آخرت
انسان اَبدی ہے اور دنیا عارضی‘ اور ان دونوں میں تعلق کی کوئی صورت آخرت کو بیچ میں رکھے بغیر ممکن نہیں۔ آخرت ہی کی بنیاد پر انسان اپنے نفس اور دنیا سے متعلق ہے‘ اور اسی کی اساس پر یہ عقیدہ فطری ٹھہرتا ہے کہ عارضی دنیا آزمائش کی جگہ ہے اور انسان کو اپنی عبدیت کے قِوام یعنی بندگی کے زور پر اس آزمائش میں سرخرو ہوکر وہ فلاح حاصل کرنی ہے جو دنیاوی زندگی کی طرح عارضی نہیں ہے۔ آزمائش اور آخرت کا تصوّر اگر ذہن کے بہترین اَحوال اور علم کے مسلّمات میں داخل ہوجائے تو بہت سے حقائق کے ساتھ‘ کائنات کا مخلوق ہونا بھی ازروئے علم حتمی اور ازروئے حال قطعی ہوجاتا ہے۔ عقیدۂ آخرت عقل کو بھی اس سرچشمہ شعور سے سیراب رکھتا ہے جس کے زیرِ کفالت رہنا عقل کی فطرت ہے۔ اور یہی فطرت جب علم و استدلال کی تشکیل میں کام آتی ہے تو وہ ہمہ گیر دائرہ بن جاتا ہے جس کے اندر رہتے ہوئے عقل اور اس کے مفروضات کے تعلق کی تمام تفصیلات اور نتائج مرتّب ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عقل کی ہر سرگرمی اور اس کا نتیجہ بلا مقصد نہیں ہوتا‘ ہمیشہ کسی مقصد کے تابع ہوتا ہے‘ اور خود وہ مقصد عقل کی ایجاد نہیں ہوتا بلکہ اس پر حاکم ہوتا ہے۔ تو اگر آخرت کا تصوّر عقل کے لیے حُجّت بن جائے توا س سے معقولات کا ایک بالکل منفرد نظام وجود میں آجاتا ہے۔ یہاں معقولات سے ہماری مرادہے علم و استدلال یا دلائل و مدلولات۔ کائنات کا عارضی ہونا اور امتحان گاہ ہونا اگر مان لیا جائے تو اس کا مخلوق ہونا خودبخود ثابت ہوجاتا ہے۔