(فکر و نظر) نظاماتی تفہیم اور ہمہ گیر تحول کا مسئلہ - مکرم محمود

8 /

نظاماتی تفہیم اور ہمہ گیر تحول کا مسئلہمکرم محمود

جدیدیت کے کلی اور ہمہ گیر تسلط اور غلبہ کے بعد جن نئے مباحث و مسائل نے جنم لیا ان میں سے ایک نظام یا سسٹم کا مسئلہ ہے۔ نظاموں کا غلغلہ اور نظاماتی مباحث ایک خاص تاریخی دور کے نتائج ہیں اور اپنا جواز بہم رکھتے ہیں۔ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ نظام یا سسٹم کی حقیقت و ماہیت اور اس کی حاضر و موجود ہیئت و ساخت کی معرفت ہر طرح کے عمل و مزاحمت سے قبل ضروری ہے۔ انقلاب کا شوق تو آپ سے کچھ تقاضا نہیں کرتا لیکن انقلاب کا ذوق ندرتِ فکر و عمل کا طالب ہے۔ اس بحث کو ہم بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ آغاز میں Byung Chul Han (بیان چل ہان کاتفصیلی تعارف حواشی میں موجود ہے)(۱) کے ایک مضمون "Why revolution is impossible today?" کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ فلسفی عہد حاضر میں, Late/Hyper capitalism Neo liberalism, Digital Technologiesکے نتیجے میں ہونے والی نظاماتی تبدیلیوں اور انسانی صورتحال میں واقع ہونے والے تغیرات پر گہری نظر رکھتا ہے۔یہاں اس ترجمہ کا مقصد اس کی ہر بات سے اتفاق کو ظاہر کرنا نہیں ہے بلکہ مقصود اس مبحث کو ہمارے ہاں از سر نواٹھانا ہے٭ اور یہ جاننا ہے کہ اس کے نزدیک ہمارے عہد میں ایسی کیا کایا پلٹ ہوئی اور ایسی کونسی رکاوٹیں ہیں کہ اب کلی نظاماتی تحول روایتی تفہیم وطریقے پر ممکن نہیں۔ جیسا کہ اس ترجمہ کے بعد واضح کیا جائے گا کہ چونکہ سسٹم مسلسل ایک تغیر کے عمل سے گزرتا رہتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی تفہیم مسلسل غورو فکر ‘مشاہدہ‘مطالعہ اور نظری سرگرمی کی محتاج ہے۔ جدیدیت کے تناظر میں اس کے سیاق و سباق اور ہماری لوکل صورتحال پر اس کے اطلاقات اور سسٹم کے کلی تحول اور اس کے سامنے مزاحمت کے ــمناہج پر ہماری دینی تحریکات کے تناظر میں مختصر اصولی گفتگواس ترجمہ کے بعد کی جائے گی۔
ذیل میں اب ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ حواشی میں اہم تصوّرات کی وضاحت کر دی جائے گی۔ـــــ
Why revolution is impossible today?
This was first published in Suddeutsche Zeitung, 3 September 2014)

یہ اصلاًَ جرمن زبان میں ہے ۔یہ ترجمہ اس کے انگریزی ترجمہ کا اردو ترجمہ ہے)
’’حال ہی میں میرے اور (۲) Antonio Negri کے درمیان برلن میں ہوئے ایک مکالمہ میں سرمایہ داریت پر تنقید کے دو مناہج گویا آمنے سامنے آگئے ۔ Negri اس غالب نیو لبرل سسٹم کے خلاف عالمگیر مزاحمت کے امکان کے بارے میں پر اُمید تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کمیونسٹ انقلابی کی حیثیت سے پیش کیا اور مجھے ایک’ تشکیک زدہ پروفیسر‘ قرار دیا۔ اس نے اصرار کے ساتھ انقلابیوں کی مربوط اجتماعیت(۳) (multitude)اور مزاحمتی گروپس کی اہمیت کو اُجاگر کیا بظاہراس یقین کے ساتھ کہ یہ انقلابی اجتماعیت سسٹم کے انہدام کا باعث بن سکتی ہے۔ میرے خیال میں کمیونسٹ انقلابیوں کی یہ پوزیشن کہیں نہ کہیں حقائق سے دوری یا سادہ فکری کا شاخسانہ ہے۔تو میں نے کوشش کی کہ Negriکو یہ سمجھاؤں کہ عصرِحاضر میں انقلاب کیوں ممکن نہیں!
سوال یہ ہے کہ نیو لبرل سسٹم (۴) اتنا مستحکم کیوں ہے؟اس کے خلاف مزاحمت کی کمی کی وجہ کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اگر کوئی مزاحمت پیدا بھی ہوتی ہے تو جلد ہی تحلیل ہو جاتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کہ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی تفریق کے باوجودانقلاب ممکن نہیں؟ ان تمام باتوں کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں اس بات کا فہم حاصل ہو کہ اس دور میں طاقت اور حکومت کیسے عمل کرتے ہیں۔
کسی بھی نئے نظامِ حکومت کومضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مزاحمت کے تمام دروازوں کو بند کیا جائے۔ یہ بات نیو لبرل سسٹم کے لیے بھی درست ہے۔ ایک نئے سسٹم کو کھڑا کرنے کے لیے ایک ’’اقدامی طاقت‘‘ کی احتیاج ہوتی ہے اور اقدامی طاقت میں اکثر تشدد متضمن ہوتا ہے۔ مگر یہ اقدامی طاقت اس طاقت سے مختلف ہے جو سسٹم کو داخلی استحکام عطا کرتی ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ مارگریٹ تھیچرجو نیو لبرلزم کی ابتدائی علمبرداروں میں سے تھی‘نے ٹریڈ یونینز کو آستین کا سانپ قراردیا اور پُر تشدد طریقوں سے ان کے خلاف لڑی۔ مگر پُر تشدد طریقوں سے نیو لبرل سسٹم اور ایجنڈا کا اثبات ‘نفاذِ سسٹم کی ’’حفاظتی طاقت‘‘ سے بالکل ایک الگ چیز ہے۔
ڈسپلنری سسٹم اور صنعتی معاشروں کی ’’حفاظتی طاقت‘‘ زور زبردستی کی قائل تھی۔ صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا واضح استحصال ہوتا تھا اور یہ پر تشدد استحصال صنعتوں کے مالکوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کو جنم دیتا تھا۔ اس صورتحال میں ایک ایسے انقلاب کاامکان واضح طور پر ہوتا تھا جو موجودہ غالب پیداواری تعلقات کو اُلٹ کر رکھ دے۔اس نظام میں استحصال کرنے والوں اور جن کا استحصال ہوتا تھا ان کی تفریق بالکل واضح تھی۔ مدّ ِمقابل متعین اور دشمن سامنے تھا جو مزاحمت کا ہدف قرار پاتا تھا۔
نیو لبرل سسٹم اپنی ساخت میں ایک بالکل مختلف نظام ہے۔ سسٹم کی ’’حفاظتی طاقت‘‘ زور زبردستی کے بجائے لبھانے کی قائل ہے۔ڈسپلنری سسٹم میں ’’حفاظتی طاقت‘‘ جس طریقے سے سامنے ہوتی تھی نیو لبرل سسٹم میں ایسا نہیں ہے۔ واضح طور پر اب کوئی متعین مدمقابل نہیں ہے۔ کوئی نہیں ہے جو لوگوں کو ان کی آزادی سے محروم کر رہا ہو۔کوئی زورزبردستی کرنے والا نہیں ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے۔دبے ہوئے کام کرنے والے کی جگہ نیو لبرل سسٹم نے ایک آزاد انٹر پرینور کو تخلیق کیا ہے جو اپنی ذات کا انٹرپرینور(۵) (Entrepreneur of the self)ہے۔ آج کل ہر کوئی اپنے کام کے دائرے میں اپنا استحصال خود کرنے والا مزدور ہے۔ ہر کوئی اپنی ذات میں آقا اور غلام ہے۔طبقاتی کشمکش کو داخلی نفسی کشمکش میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ناکام لوگ اپنی ناکامی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہراتے ہیں(۶) اور شرمندہ ہوتے ہیں۔اپنی ناکامیوں اور دوسرے مسائل کا ذمہ دار وہ سسٹم یا معاشرے کے بجائے اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔
ڈسپلنری طاقت جو لوگوں کوکچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے یعنی اوامر و نواہی کا پیچیدہ نظام العمل فراہم کر کے قوت کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے‘ درحقیقت کارگر نہیں(Inefficient) ہے۔ کہیں زیادہ کارگر طاقت کا وہ اسلوب ہے جو لوگوں کو رضاراکارانہ طور پر اپنے آپ کو سسٹم کے سامنے جھکا دینے کو یقینی بنائے۔اس طریقۂ کار کی غیر معمولی کارگریت کی وجہ دراصل یہ ہے کہ یہ طریقہ لوگوں کو محروم کر دینے اور روک ٹوک کے ذریعے نہیں بلکہ لذت اور احساسِ تکمیل کے ذریعے کام کرتا ہے ۔ اس کا مقصد لوگوں کو شائستہ اور مہذب بنانا نہیں بلکہ لوگوں کو سسٹم کا اسیر بنانا ہے۔ یہ نیو لبرل منطق نگرانی کے نظام پر بھی منطبق ہوتی ہے۔۱۹۸۰ء کے زمانے میںتو لوگوں نے مردم شماری کے خلاف بھی احتجاج کیا یہاں تک کہ سکول کے بچے بھی سڑکوں پر آگئے تھے۔آج کل کے حالات میں مردم شماری کے ضمن میںفرد کے کام‘اہلیت اور کام اور گھر کے درمیان فاصلے سے متعلق معلومات فراہم کرنا ایک بالکل بے ضرر عمل معلوم ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگوں کو محسوس ہوتا تھا کہ ریاست اور اس کے ادارے ان کے مدِ مقابل ہیں جو شہریوں کے بارے میں ان کی مرضی کے خلاف معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت کو گزرے ہوئے عرصہ بیت گیا۔اب ہم اپنی مرضی سے اپنے آپ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ آزادی کا یہی احساس ہے جو(سسٹم کے خلاف) احتجاج کو نا ممکن بنا دیتا ہے۔۸۰ء کی دہائی میں لوگ مردم شماری کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور آج ہم نگرانی(surveillance) کے اس نظام کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتے۔ خود سے اپنی نقاب کشائی کرنا اور اپنے آپ کو ظاہر کرنا اسی اصول کی کارگریت کا نتیجہ ہے جس اصول نے آزاد مرضی سے خود استحصالی کو ممکن بنایا تھا۔ ہم کس کے خلاف احتجاج کریں؟ کیا اپنے خلاف؟
امریکہ کی ایک تصوّراتی آرٹسٹ Jenny Holzerنے اس عجیب صورتحال کو اپنے ایک قول truism میں اس طرح بیان کیا ہے کہProtect me from what I want ’’میری حفاظت کیجیے اس سے جو میں چاہتا/چاہتی ہوں۔‘‘
اقدامی اور حفاظتی طاقت میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔سسٹم کی حفاظتی طاقت نے ایک بہت لطیف اور دوستانہ لبادہ اوڑھ لیا ہے اور اس وجہ سے جیسے وہ غیاب میں ہے اور اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ نفسِ محکوم کو اپنی محکومیت کا احساس بھی نہیں۔وہ اپنی آزادی پر یقینِ کامل رکھتا ہے۔ حکومت کا یہ طریقۂ کار مزاحمت کو ختم کرنے میں نہایت مؤثر ہے۔ وہ سسٹم جو لوگوں کو دبائے اور (واضح طور پر) ان کی آزادی کو محدود کرے مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اس نیو لبرل سسٹم کے مستحکم اور ناقابلِ تسخیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کو دبانے کے بجائے آزادی کو (اپنے مقاصد کے لیے) استعمال کرتا ہے۔ آزادی میں رکاوٹ پیدا کرنا مزاحمت کو جنم دیتا ہے جبکہ آزادی کے (خفیہ) استحصال میں ایسا نہیں ہوتا ۔ایشیا میں جب مالیاتی بحران آیا تو ساؤتھ کوریا کی معیشت کو جھٹکا لگا اور جیسے وہ فالج زدہ ہو گئی۔ تب IMFآیا اور بیل آؤٹ فراہم کیا۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو نیو لبرل اصلاحات کو نافذ کرنا تھا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاجات کو طاقت سے روکنا اور دبانا تھا۔ یہ جو دبانے والی طاقت ہے یہ (سسٹم کی)اقدامی طاقت ہے اور اس میں قوت کا (واضح) استعمال کیا جاتا ہے۔مگر یہ اقدامی طاقت سسٹم کی حفاظتی طاقت سے بالکل مختلف چیز ہے‘ جو کہ نیو لبرل حکومت میں اپنے آپ کو آزادی کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ (۷) Naomi Klein کے خیال میں ساؤتھ کوریا اوریونان ایسے معاشرے جب مالیاتی بحران کے بعد ’’جھٹکے‘‘ (State of shock) کی حالت میں ہوتے ہیں تو یہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ ان ملکوں کی زبردستی ری پروگرامنگ کی جائے۔ ساؤتھ کوریا میں ان اقدامات کے خلاف کوئی صحیح مزاحمت نہیں ہے۔ اس کے بجائے عمومی اتفاقِ رائے اور موافقت پائی جاتی ہے‘ مگر اس کے ساتھ ڈپریشن اور برن آؤٹ(۸) بھی پایا جاتا ہے۔ساؤتھ کوریا میں خودکشی کا رجحان دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔معاشرے کو بدلنے کے بجائے لوگ خود اپنے اوپر تشدد کرتے ہیں۔ غصے کا خارجی اظہار جو بنائے انقلاب بن سکتا تھا اب اپنے اوپر جارحیت میں بدل چکا ہے۔
کوئی ایسی مربوط اور معاون اجتماعیت نہیں ہے جو عالمی مزاحمتی تحریک یا انقلابی جماعت کا کردار ادا کر سکے۔ پیداوار(اشیاء‘ معلومات‘تصاویر) کا جو موجودہ نظام ہے وہ تنہا‘ سب سے الگ‘ غیر متعلق‘ اپنے آپ کا کاروبار کرنے والے نفس پر کھڑا ہے۔پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ہر انٹرپرائز کے اندر ایک اتحاد ہوتا تھا ‘اگرچہ تمام انٹرپرائز آپس میں مسابقت کرتی تھیں ۔ اب ہر فرد دوسرے فرد کے ساتھ مسابقت میں ہے ایک ادارے کے اندر بھی۔یہ عالمی مسابقت کا نظام پیداوار کے لیے نہایت سود مند ہے مگر یہ یکجہتی اور انسانی اجتماعیت کو غارت کر دیتاہے۔ ڈپریشن کا شکار اور ایک دوسرے سے غیر متعلق افراد سے انقلابی گروہ جنم نہیں لے سکتا۔
نیو لبرلزم کو عام مارکسی اصطلاحات میں بیان نہیں کر سکتے۔ یہ’’کام سے بیگانگی‘‘(Alienation) (۹) والے مشہور تصوّر کو بھی ظاہر نہیں کرتا۔ ہم پوری آمادگی کے ساتھ اپنے آپ کو کام میں جھونکتے ہیں‘ یہاں تک کہ ہم برن آؤٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ جوش ہی دراصل برن آؤٹ کا پہلا درجہ ہے۔ برن آؤٹ اور انقلاب باہم یک نگر(mutually exclusive) ہیں۔ تو اس بات پر یقین کرنا غلط ہے کہ’’اجتماعیت‘‘(Multitude) اس نظام کو اُٹھا کر پھینک دے گی اور کمیونسٹ معاشرہ وجود میں آجائے گا۔
کمیونزم کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ سماج اور اشتراک کا بڑا چرچا ہے۔ خیال ہے کہ اشتراک کی معیشت ‘ پراپرٹی اور ملکیت کی معیشت کی جگہ لے رہی ہے۔ ’’چیزیں شیئر کرنا اور بانٹنا ہی ایک دوسرے کا خیال کرنا ہے۔‘‘ یہDave Eggers کے ناول The Circleمیں circlersکا ایک بنیادی اصول ہے۔ہر کال کمپنی کے مرکزی دفتر کے راستے میں سڑک کے کنارے پتھروں پر یہ نعرے کندہ کیے گئے تھے کہ اجتماع کا حصہ بنو‘ شمولیت اختیار کرو۔ مگر حقیقت میں نعرہ یہ ہونا چاہیے ’’خیال کرنا(caring) مار دینا ہے۔‘‘سواریوں کو شیئر کرنے کا آن لائن پلیٹ فارم Wonder Car‘جو ہم میں سے ہر ایک کو ٹیکسی ڈرائیور بنا دینا چاہتا ہے‘ اپنی اشتہار بازی میں سماج اور اجتماعیت کے تصوّر ہی کو استعمال میں لاتا ہے۔ مگر اس اشتراک کی معیشت کی آمد نے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز نہیں کر دیا اور نہ ہی انسانوں کا کوئی عالمی معاشرہ وجود میںآنے جا رہا ہے‘جس میں چیزوں کو شیئر کرنے کی قدر ان کی ملکیت سے زیادہ اہمیت حاصل کر جائے‘ جیسا کہJeremy Rifkinنے اپنی کتاب (۱۰) Zero Marginal Cost Society میں بیان کیا ہے۔ اس کے بالکل برعکس اشتراک کی معیشت بالآخر زندگی کے ہر گوشے کو بازار کے زیر ِ اثر لانے کا باعث بنے گی۔
ملکیت(ownership)سے دسترس(access)کی جانب تبدیلی جس کو Rifkinبہت خوش آئند جانتا ہے ہمیں درحقیقت سرمایہ داری کے چنگل سے آزاد نہیں کر سکتی۔ جس کے پاس پیسہ نہیں ہوگا شیئرنگ بھی اس کی دسترس میں نہیں ہو گی۔ اس عہدِ دسترس (Age of access)میں بھی ہم(۱۱)Ban opticonمیں جیتے ہیں۔ جن کے پاس پیسہ نہیں ہو گا وہ دائرہ سے باہر ہی رہیں گے۔(۱۲) Air Bnbایسا معاشرتی بازار ہے جولوگوں کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے گھروں کو ہوٹل بنا لیں جو مہمان نوازی کو بھی ایک معاشی سرگرمی میں بدل دیتی ہے۔
معاشرت اور انسانی اجتماعیت کا تصوّر (اس دور میں) اجتماعیت اور معاشرت کو بھی جنسِ بازار بنا دیتا ہے۔ سادہ‘ بے غرض دوستی ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔ایسا معاشرہ جہاں ایک دوسرے کے’’ریٹ‘‘ لگائے جاتے ہیں دوستی بھی کمرشل ہو گئی ہے۔ لوگ نرم اور دوستانہ رویّہ کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کی’’ریٹنگ‘‘ بہتر آئے۔اشتراک پر مبنی معیشت کے دل میں بھی سرمایہ دارانہ بے لگام منطق ہی کی حکومت ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ’’شیئرنگ‘‘کی ان باتوں کے باوجود کوئی اپنی چیز نہیں دیتا۔جب سرمایہ دارانہ نظام نے ’’کمیونزم‘‘ کو ہی جنسِ بازار بنا کر بیچنا شروع کر دیا ہے تو اس سے آگے کی بات بھلا کیا ہوگی؟ ’’کمیونزم‘‘ کو جنسِ بازار بنا دینے میں کامیابی ہر قسم کے انقلاب کا بیج مار دینے کے لیے کافی ہے‘‘۔(ترجمہ ختم ہوا)
چند معروضات
ہم ایک ایسے عہد میںجیتے ہیں جو اپنی تشکیلی ساخت میں متعدد عناصر و عوامل کا ما حصل اور مرہونِ منّت ہے۔کچھ عوامل و عناصر تاریخی ہیں اور ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیںاور کچھ عناصر کو ظہور پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔اول الذکر تو علم و تحقیق‘بحث و مباحثہ اور تجزیہ و تنقید کا موضوع ایک مخصوص حلقے کی طرف سے بنتے رہے ہیںمگر ثانی الذکر پر توجہ نسبتاً کم نظر آتی ہے۔اسی وجہ سے بہت سے لوگ جو ہم عصر دنیا ‘ اس میں پائے جانے والے نظام اورانسانی صورتحال کو موضوع بناتے ہیںان کے ادراک اور تجزیہ میں ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے‘ کیونکہ مُدرَک کے کچھ زوداثر تشکیلی عناصر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا جتنی توجّہ کی احتیاج تھی اتنی توجّہ نہیں دی جاتی۔ تاریخی عناصر میںروم و یونان کا کردار‘قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے کچھ باطل عقائد اور غیر مناسب اور پُر تشدد عمل‘احیائے علوم ‘ روشن خیالی ‘عقلیت اور اصلاح مذہب کی تحاریک‘ سائنسی انقلاب‘انڈسٹریل انقلاب ‘ انقلابِ فرانس وغیرہ ہیں جو تمام جغرافیائی طور پر یورپ مرکز ہیں۔ان تمام عناصر کے مجموعی نتائج کو ہم بعنوان ’’جدیدیت‘‘ معنون کرتے ہیں جس کی علمیت‘ مابعد الطبیعیات اور اقدارماضی کی اکثر روایتوں سے نسبت ِتضاد رکھتی ہیں۔اسی کے نتیجے میں ایک جدید انسان نے جنم لیا جواپنے تئیں خود آگاہ مگر حقیقتاً خودو خدا فراموش‘خود مختار و خود مکتفی اور ماضی سے قطعی مختلف شعورِ خویش کا حامل تھا۔حقیقت‘ معنیٰ اور لفظ کے باہمی تعلق‘ شعورو وجود کی باہمی نسبتوںاور ان کی مابعدالطبیعیاتی ہم آہنگی کاانکاری تھا۔آفاق کا حس کی شرط اور اساس پراور انفس کا جبلت کی بنا پر ادراک کرتا تھا۔ تسخیر فطرت اور جنت ارضی کا خواہش مند تھا۔خوگر پیکر محسوس اور طاقت کا پجاری تھا۔اس جدید انسان اور اس کے نظریات و تصوّرات کی یورپ سے برآمد بذریعہ استعمار (colonialism)ہوئی۔یورپی استعمار تاریخ انسانی کا ایک عظیم اور غیر معمولی واقعہ ہے۔اس نے مُستَعمَرین (colonized)کی اجتماعی‘معاشرتی اور نفسیاتی تنظیم نو کو ممکن بنایا۔اس طرح سے استعماری جدیدیت وجود میں آئی جو معیاری یورپی جدیدیت سے بعض جزوی اعتبارات سے مختلف تھی ۔ اس کی وجہ مُستَعمَرین کی اپنی زمانی‘ مکانی اور تاریخی صورتحال تھی۔جہاںپہلے جدیدیت کا غلغلہ بلند ہوا وہاں کی تاریخ سے تو اس کے ظہور کی وجوہات دریافت کی جا سکتی ہیں‘ چاہے ان وجوہات اور ان نتائج میں تعلق علت و معلول کا ہو یا رد عمل کا۔لیکن مستعمرین کے ہاں یہ مکمل طور پر باہر سے آئی ہوئی اور قطعی اجنبی چیز تھی۔اس فرق سے بہت سے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں(یورپی یا معیاری اور استعماری جدیدیت کا فرق ہمارے ہاں کے دیسی لبرلز کے رویے سے بھی ظاہر ہوتا ہے)۔
یہ عہد حاضر کی تشکیلی ساخت کے کچھ تاریخی عناصر کا بیان تھا ۔ جہاں تک ان عناصر کا تعلق ہے جن کو معرض شہود میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور جن پر توجہ ہمارے خیال میں کم دی جارہی ہے اس حوالے سے عرض ہے کہ انفارمیشن و ڈیجیٹل ٹیکنالوجیزاور سایبر سپیس کی آمد اپنے اثرات میں بہت وسیع اور نفوذو تاثیر میں بہت گہرا واقعہ ہے۔یہ جدیدیت کا سب سے جدید مظہر ہے۔ جدیدیت اور استعمار کے بہت سے آدرشوں کا بالفعل حصول اس کے بغیر قطعی ناممکن تھا۔جدیدیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک نئے زمان ومکان کو تشکیل دیا ہے۔ یہ بات اگر پوری طرح کہیں صادق آتی ہے تو جدیدیت کے اس مظہر پر آتی ہے۔طاقت کے مابعد ڈسپلنری تصوّرات(smart power)اور سسٹم کی حاضر شکل اسی کی مرہونِ منّت ہے۔جدیدیت نے جس طاقت و معیشت کے نظام کو جنم دیا تھا اس کو سائبر سپیس کی صورت میں جیسے گھر میسّر آگیا ہے۔طاقت و معیشت کی کچھ ایسی باہمی نسبتوں کا ظہور اس کے ذریعہ ہوا ہے جس کا اس کے بغیر کوئی امکان نہ تھا۔علم اور تعلق کا مطلب اور دروبست تبدیل ہو گیا ہے۔جدید معاشروں میں دینی اور روایتی زندگی کے اگر کوئی امکانات تھے تو وہ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی علوم ‘ تعلقات‘ تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں اعلیٰ و ادنیٰ‘ بلندی و پستی‘معیاری و غیر معیاری‘ اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تقسیم کو محفوظ رکھنے والے خطوط و معیارات اب دھندلاتے جا رہے ہیں۔ اس کو Zygmunt Bauman کی اصطلاح میں سیال جدیدیت((liquid/light modernity اور Ulrich Beckکی اصطلاح میں second modernity یا reflexive modernity بھی کہا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس کو مابعد جدید صورتحال قرار دیتے ہیں‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ جدیدیت ہی کاتسلسل اور اس کے منطقی اور انتہائی نتائج ہیں۔اصطلاح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ بات بس یہ ہے کہ یہ ایسی مسلسل تغیّرپذیر صورتحال ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں اور ایک جال ہے جس کا ہم سب شکار ہیں۔مقصود ِکلام یہ ہے کہ کیا حاضر و موجود صورتحال کی معرفت اور جدیدیت کے کچھ نسبتاً تازہ مظاہر کو بنائے تفہیم و تجزیہ قرار دیے بغیر حالات کی درست تفہیم اور صائب نظاماتی تجزیہ(systemic analysis) ممکن ہے؟ المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کی ایک نسبتاً پرانی تفہیم پر کلی نظاماتی تحلیل و تجزیہ کی بنا استوار کی جاتی ہے اور اسی سے اس سے نمٹنے ‘ انقلاب و تبدیلی کے معانی اور حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔ویسے تبدیلی‘ انقلاب یا ریوولیوشن ایسے الفاظ ہیں جن کو مختلف سیاق و سباق میں مختلف معانی میں استعمال کیا جا تا ہے۔ نظام کی سطح پر تبدیلی کوانقلاب قرار دینا ایک خاص تاریخی صورتحال کا نتیجہ ہے اور تاریخی مؤثرات کی کار رفرمائی اس میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات انقلاب کے اس تصوّر کے صحیح یا غلط ہونے کا بیان نہیں ہے بلکہ حقیقت ِواقعہ کا بیان ہے۔بات یہ ہے کہ بجائے انقلاب اور تبدیلی کے ان تصوّرات ‘جو اپنا ایک خاص تاریخی سیاق و سباق رکھتے ہیں‘کا استناد مذہبی متون میں تلاش کیا جائے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنے عہد میں ہونے والے تغیرات سے متعلق رکھا جائے۔
وہ تحاریک جو نظام کی سطح پر تحول کی خواہش مند ہیں‘ان کو دو سوالات کا سامنا ہے اور ان سوالات کے جوابات میں جائز اختلافات کو برداشت کرتے ہوئے ان کو درست تناظر میں دیکھنا اصل امتحان ہے۔ جوابات میں اختلاف کا ہونا اور تناظر کا درست نہ ہونا دو الگ الگ مسائل ہیں۔جوابات میں اختلاف فطری اور مفیدہے۔ اور تناظر کا درست نہ ہوناذہنی اور عملی طور پر اپنے عصر سے غیر متعلق ہو جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ وہ دو سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
۱) نظام/سسٹم کیا ہے؟ ۲) تبدیلی یا انقلاب کا طریقہ کار کیا ہے؟
انہی سوالات سے کچھ ضمنی سوالات بھی جنم لیتے ہیں ‘مثلاً کیا تبدیلی /انقلاب ممکن ہے؟ اصل مسئلہ بقا کا ہے یا انقلاب کا؟ کیا انقلاب کے بغیر بقا ممکن ہے؟ سسٹم کو بدلنے کے لیے سسٹم میں شمولیت کیا انسان کو اندر باہر سے بدل نہیں دیتی؟ کیاسسٹم کا غلبہ اس حد تک مکمل ہے کہ اقدار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؟یہ سوالات دعوتِ غور و فکر کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔سوالات کو دیانت داری سے اٹھایا جائے اور ان کا سامنا کیا جائے‘پہلے تو یہ ضروری ہے ۔ جوابات تو بعد کی بات ہے۔
جس درست تناظر کی ہم بات کر رہے تھے وہ بنیادی طور پر ان دو اساسی سوالات سے متعلق ہے اور باقی سوالات بھی ظاہر ہے کہ اس کے ضمن میں ہی آتے ہیں ۔ درست تناظر سے مراد یہ ہے کہ ان سوالات کا سامنا اور ان کے جواب کی کاوش انسان اپنی نظری ٭٭اور مشاہداتی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کرے گا۔ایک نکتہ ٔنظر یہ ہے کہ یہ اپنے کل میں کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ پہلے سوال کی حد تک تو یہ بات کافی حد تک متفق علیہ ہے ‘لیکن دوسرے سوال کا سامنا کرتے ہوئے جب منہج کا مسئلہ اٹھتا ہے تو اس کو اس لیے شرعی کے بجائے ’’نظری‘‘ یا ’’مشاہداتی‘‘ قراردینا مفید ہے کہ منہج کے اخذ و توضیح میں اپنے اپنے زمانے اور عہد سے ہی استفادہ کیا جاتا ہے اور اپنے اپنے عہد کے نظریات و تصورات کی روشنی میں ہی الوہی متن کی تعبیر کی جا رہی ہوتی ہے۔
کیا شریعت و سُنّت کوئی نظاماتی تبدیلی کامنہج فراہم کرتی ہے؟ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہے وہ دین کی جدید اصولوں پر تعبیر کرتے ہیں۔شریعت کسی منہج کے اجزاء پر قانونی یا بہتر ہے کہ کہا جائے فقہی سوال اٹھائے گی اور اس کل پر اخلاقی ‘کیونکہ کل فقہ اور قانون کا موضوع نہیں ہے۔کل پر اخلاقی اور اقداری سوال پیدا ہو گا اور اس کی خاص ضرورت مغربیت اور جدیدیت کے ہمہ گیر استیلاء کے بعد پیدا ہوئی ۔یہیں سے نظاماتی تجزیہ اور اس سے متعلقہ مباحث کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کی توضیح میں کچھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر شریعت یا صاحب شریعت کی سُنّت و سیرت ‘نظاماتی تبدیلی کا کوئی باقاعدہ منہج فراہم کرتی ہے تو اس بات کی بنیاد دو مفروضات پر ہے :
(۱) نظام کی سطح پر تبدیلی شریعت کے اساسی مقاصد میں سے ہے یعنی مقصود بالذات ہے۔
(۲) نظام گویا متحجر(fossilized)شے ہے۔تغیر ہوتا بھی ہے تو صرف جزوی۔
ان دونوں مفروضات پر بہت سے اشکالات پیش کیے جاتے ہیں اور ان کے جو بھی جوابات دیے جاتے ہیں وہ علمی طور پر اپنی ایسی مضبوط بنیادیں نہیں رکھتے کہ پھر کلام کی گنجائش ہی نہ رہے۔ الوہی متن اوراس کی تشریح و توضیح کو ہماری تاریخ میں جس طرح سے پڑھا پڑھایا ‘سمجھا سمجھایا گیا ہے اس سے بھی پہلا مفروضہ کچھ لاتعلقی کو ظاہر کرتا ہے۔منہج کو اگر اخذکیا جائے گا تو اپنے زمانے ہی سے کیا جائے گا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے جو لوگ منہج کو اپنے تئیں الوہی متن یا حامل متن کی سُنّت و سیرت سے اخذ کرتے ہیں وہ بھی تعبیر ِ تاریخ میں بالفعل اپنے عہد ہی سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے عہد ہی کے نظریات و تصوّرات کی روشنی میںالوہی متن کی تعبیر شعوری یا لاشعوری طور پر کر تے ہیں۔منہج جو بھی ہو گا وہ انسانی عمل سے متعلق ہو گا ۔اب عمل مثبت یا عمل منفی یعنی کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے پر شریعت سے حکم پوچھا جائے گا اور شریعت ان تمام اعمال پر بلاواسطہ کوئی نہ کوئی حکم ضرور لگائے گی۔ان تمام اعمال سے جو کل بنے گا جسے ہم منہج کہہ رہے ہیں وہ قانون سے زیادہ اخلاق اور اقدار کا موضوع ہے او راسے مقاصد شریعت یا مصالح اور مفاسد کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔فقہ و قانون سے اس کا تعلق بنے گا تو بالواسطہ بنے گا۔ دین جس طرح منبع قانون و فقہ ہے اسی طرح منبع اخلاق و اقدار بھی ہے۔یہاں ہم جدید معنوں میں قانون و اخلاق کی دوئی کی بات ہر گز نہیں کر رہے ۔اسے اگر اپنی روایت میں رہتے ہوئے سمجھنا ہو تو ہماری فقہ میں قضاء ًو دیانتاًکی تقسیم سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بات قانون کے دائرے میں نہیں آرہی لیکن نیت یا کسی اور وجہ سے وہی بات آخرت میں پکڑ کا باعث بن سکتی ہے۔ہمارے ہاں جدید طرز پر قانون و اخلاق دو الگ الگ دائرے نہیں ہیں بلکہ اخلاق ایک بڑا دائرہ اور فقہ و قانون اسی دائرے کے اندر ایک دائرہ بناتے ہیں۔اس مسئلہ کو تہذیبی تناظر اور فقہی نظر کے فرق کے عنوان سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔فقہ جزئیات سے بحث کرتی ہے ‘سیاسی اور تہذیبی صورتحال سے تعرض نہیں کرتی۔ عملاً ایسا ہی ہوتا ہے۔جب مصالح ‘ مفاسد اور مقاصد شریعہ کی ر وشنی میں کسی صورتحال یا نظام طاقت و معیشت اور اس کے اداروں کو سمجھ لیا جائے تو اب اس تناظر میں رہتے ہوئے فقہی حکم لگایا جائے گا ‘لیکن فقہ کا یہ تعرض بالواسطہ ہو گا۔ بس ان ذرائع اور وسائط کی اہمیت کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔اسی سے ملتے جلتے طریقہ کار کو حضرات متجددین بھی استعمال کرتے ہیں مگر ان کا مقصد دائرہ شریعت کو سکیڑنا ہوتا ہے ‘جبکہ یہاں جو بات کی جا رہی ہے وہ شریعت کو زندگی کے ہرانفرادی اور اجتماعی مظہر سے جوڑے رکھنے سے متعلق ہے۔
جہاں تک پہلے سوال میں تناظر کی درستی کا معاملہ ہے تو بات یہ ہے کہ سسٹم چونکہ مستقل تغیر پذیر ہے اور اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہتا ہے۔٭٭٭ اس لیے تفہیمی تناظر میں تبدیلی بھی ناگزیر ہے۔ Accomodation (سسٹم اپنے غیر کو اپنے اندر جذب کرنے کا کامل بندوبست رکھتا ہے اور تبدیلی اور انقلاب کے نعروں اور باغیانہ خیالات کے اظہار میں بھی اپنے لیے کچھ نہ کچھ مفید مطلب ڈھونڈ نکالتا ہے۔)اورAdaptation ( غیر کو جذب نہ کرنے کی صورت میں اپنے اندر ہی کچھ ایسی تبدیلیاں پیدا کرنا تاکہ other کے لیے گنجائش پیدا ہو سکے سسٹم کے لیے کچھ مشکل نہیں ‘ حرکت اور تغیر ہی تو اس کی بنیادی قدر ہے۔) کی یہ صلاحیت جس کو سسٹم دوامی طور پر بروئے کار لاتا رہتا ہے ‘ ہی سسٹم کے استحکام کی وجہ ہے۔ ایسا سسٹم جو مستقل اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اپنی شکل بدلتا رہتا ہے اس سسٹم کی تفہیم کے لیے ایک ایسا تناظر جو دہائیوں پہلے ایک خاص صورتحال میں وضع کیا گیا ہو‘ کافی ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے سسٹم کی تفہیم کے لیے مسلسل مشاہدہ اور غور و فکر یا نظری سرگرمی کی احتیاج نہیں ہے؟ یہ پہلے سوال کے حوالے سے تناظر کی درستی ہے۔ اب سسٹم یانظام کیا ہے؟ اس کے مختلف جوابات دیے جا سکتے ہیں اور اختلاف فطری بھی ہو گا اور مفید بھی‘ مگردہائیوں پرانے تصوّر پر اصرار سسٹم کی کلی عدم تفہیم پر دلالت کرتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سسٹم کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں ‘ انسانی نفس پر ہونے والی تاثیرات اور طاقت اور معیشت کے تصوّرات میں ہونے والے تحولات کا ادراک کیا جائے اور ایسا زندہ تناظر دریافت کیا جائے جو حاضر و موجود اسلوبِ حیات سے متعلق ہو۔ دوسرے لفظوں میں یا حق و باطل کے تناظر میں کہا جائے تو باطل کی نئی صورتوں اور ہیئتوں کو زیر بحث لایا جائے۔
وہ تحریکات جو تبدیلی کے لیے کسی خاص منہج یا ’’تزویراتی حکمت ِعملی‘‘ کو اختیار کرنا اور اپنے زمانے کی معرفت کو اہم قرار دیتی ہیںان کے لیے مندرجہ بالا ترجمہ کیے گئے مضمون اور اس طرح کے مباحث سے ممکن ہے اتفاق یا اختلاف دونوں صورتوں میں استفادہ کا کوئی سامان ہو جائے۔ پھر وہ لوگ جو منہج یا حکمت عملی کو شرعی مآخذ سے اخذ کرنامفید سمجھتے ہیں وہ بھی short cutsکے بہرحال قائل رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کو استعمال میں لاتے رہے ہیں‘ان کے لیے بھی اس طرح کے مباحث سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ باقی رہی بات ان لوگوں کی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اصل اہمیت ’’تدبیر‘‘ یا ’’عصری تفہیم‘‘ کی نہیں بلکہ ایمان‘ عمل صالح نیت اور اخلاص ہی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور اصل جائے محنت یہیں ہے۔تو یہ موقف بھی ایک خاص معنوں میں اپنی مضبوط اساس رکھتا ہے اور ’’خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولِ ہاشمی‘‘کو بعض لوگ اسی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں۔لیکن شاید ’’نظاماتی تجزیہ‘‘ اور اس سے متعلقہ مباحث اس موقف کے حاملین کی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کرا پائیں٭٭٭٭۔ اس طرح کے مباحث اور ان کے حاصلات سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی راہ عمل و مزاحمت سامنے آئے ‘مگر دوسراحاصل جو بعض اعتبارات سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ خوامخواہ کی مشقت‘لایعنی عمل اور بلا وجہ کی امیدوں سے نجات حاصل کی جائے اور چھوٹے پیمانے پر کیے جا سکنے والے کاموں پر توجہ دی جائے جن کے اصلاً بحیثیت مسلمان ہم مکلّف بھی ہیں۔
ایک اعتراض یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ گفتگو تو ایک مغربی تناظر میں کی گئی ہے اور اس طرح کے اکثر مباحث میں مغربی مفکرین کے نام ہی نظر آتے ہیں تو اس کا ہماری لوکل صورتحال سے کیا تعلق ہے؟ تو بظاہر نظریہ آتا ہے کہ جدیدیت و مغربیت کا نفوذ نظاماتی‘معاشرتی اور نفسیاتی سطحوں پر ہمہ گیر ہے اور اس ہمہ گیریت اور عالمگیریت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی آمد سے از حد اضافہ ہو چکا ہے۔ہماری صورتحال بہت سے جزوی فروق کی حامل ہے لیکن ہے عالمی صورتحال کا حصہ ہی۔جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عقل و ذہانت کے دو وظائف ہیں۔واقعات و تصوّرات میں ایک امتیاز قائم کرنا اوران کی وحدتِ اصلی اور کلیت کو دریافت کرنا۔اگر ان میں سے ایک وظیفہ بھی خام رہ جائے تو تصویر ادھوری اورتصوّر ناقص رہ جاتا ہے۔ کُل پر اپنی تمام توجّہ صرف کر دینے والے بہت سے ضروری امتیازات کو نظرانداز کرڈالتے ہیں اور جزء جزء میں سر کھپانے والے اشیاء اور تصوّرات کی کلی تصویر اور مکمل تصوّر تک نہیں پہنچ پاتے۔
حواشی و توضیحات
(۱) Byung Chul Hanکورین نژاد جرمن فلسفی‘مفکر اورsocial theoristہے۔اس کے خیال میں neo-liberalism, digitalization, late/hyper capitalismکے بعد جس دنیوی اور انسانی صورتحال نے جنم لیا ہے اس کو فلسفیانہ تفکر کا موضوع بننا چاہیے‘ جبکہ اکیڈمک فلسفے میں پرانے اور گھسے پٹے موضوعات ہی چلے آرہے ہیںاورفلسفہ حاضرو موجود اسلوبِ حیات سے غیر متعلق ہو چکاہے۔ گویا اس کا موضوع جدید انسان اور جدید سسٹم اور اس میں کارفرما طاقت کے تصوّرات کی مظہریاتی تفہیم ہےDigitally and technologically driven late capitalism کے دور میں جن کو وہ بالترتیبneo-liberal subjectاورneo-liberal systemقرار دیتا ہے‘ اس کے طریقۂ تفہیم پر ہائیڈیگر کے کچھ اثرات ہیں۔ اس کے خیال میں ہائیڈیگر کے"Being in the world"میں"Being" اور "world" دونوں digitalization اور نیو لبرلزم کے ا ثرات کے باعث تبدیلی کا شکار ہیں۔("Dasein")یا"Being in the world"ہائیڈیگر کے ہاں انسان کے ہی دو عنوانات ہیں۔
اس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمیں ہائیڈیگر کیBeing and Timeکےdigital rebootکی ضرورت ہے۔ اس نظاماتی اور انسانی صورتحال سے جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اس کو وہ درج ذیل عنوانات سے معنون کرتا ہے:
Burnout Society
Information Society
Transparency Society
Porn Society
Culture of Visibility
Digital control society
جدید مغربی فلسفے میں انسان کوHuman Subjectکی حیثیت سے دیکھا گیا ۔ دنیا‘ اشیاء‘ تعلقات اور لوگوں سے مجرد ‘ماوراء اور منفَک ایک آزاد وجود۔ انسان کا یہ ـ’’تجریدی تصوّرــ‘‘ ہائیڈیگر کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ Daseinیا Being in the worldکی اصطلاح انسان کے لیے استعمال کرنے کا مقصد یہی تھا کہ انسان کو ان تعلقات سے جو وہ دنیا‘ اشیاء اور لوگوں کے ساتھ رکھتا ہے‘ الگ کر کے دیکھنا ایک فلسفیانہ مغالطہ ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کا مُدرَک حقیقی انسان نہیں ہو گا بلکہ ایک تصوّراتی انسان ہو گا۔بیان چل ہان یہاں سے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ اب جدید انسان کو مجرد subjectنہیں کہا جا رہا بلکہ اس کو ایک projectبنا دیا گیا ہے جس کو وہ achievement subjectکہتا ہے۔وہ منفیت(negativity)جو objectاور subject میں ایک فاصلاتی نسبت قائم رکھتی تھی اور انسان کے تجریدی تصوّر کی بھی ایک وجہ بنی تھی اب مکمل positivity میں تبدیل ہو چلی ہے جو ان تعلقات کو تسلیم کرتی ہے جو انسان اور دنیا کے بیچ پائے جاتے ہیں اور اس تجریدی تصوّر کو بھی قابلِ اعتناء نہیں گردانتی‘ مگر وہ ان تعلقات کو صرف انسان کی تفہیم کے لیے ہی استعمال نہیں کرتی بلکہ انسان کی تعمیر/ تخریب‘ استحصال /آزادی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہی جدید neoliberalسسٹم کا کمال ہے کہ اس نے آزادی اور استحصال ‘ تعمیر اور تخریب کے فرق کو ختم کر دیا ہے۔ پھر ہائیڈیگر کی worldحقیقی دنیا تھی اب انسان digital habitatمیں رہتا ہے جہاں ہونے کا انداز اور قوانین مختلف ہیں۔
الیکٹریکل میڈیا جب سامنے آرہا تھا تو مارشل میکلوہن نے 1964میں کہا تھا کہ:
ــ ـ " The electric technology is within the gates, and we are numb, deaf, blind and mute about its encounter with the gutenberg technology."
ہان کے خیال میں ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے:
" This new medium is reprogramming us, yet we fail to grasp the radical paradigm shift that is underway..... is definitely changing the ways that we act, perceive, feel, think and live together." (In the Swarm, Digital Prospects)
ہان جدیدڈیجیٹل ماحول میں زیست کرنے والے فرد کو Homo Digitalis قرار دیتا ہے۔ ہر سسٹم اپنے devotional objectsپیدا کرتا ہے۔ڈیجیٹل عہد کا یہ معروض ’’سمارٹ فون‘‘ ہے اور یہ rosaryکا متبادل ہے جو کہ عیسائیوں کے ہاں تسبیح کی طرح کی ایک چیز ہے۔
٭ از سر ِنو اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ پچھلی صدی میں جتنی بھی انقلابی تحریکات اٹھی ہیں‘دینی ہوں یا لا دینی‘وہ جس نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں‘وہ سسٹم یا نظام کیا ہے کے سوال کا کوئی نہ کوئی جواب واضح طور پر اپنے بیان میں یا اپنے تصوّرات میں ایک پوشیدہ مفروضے کے طور پر لازمی رکھتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انہی بیانات یا مفروضوں پر ابھی تک معاملات جاری و ساری ہیں اور سسٹم کے تقلبات و تغیرات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
(۲) Antonio Negriپوسٹ مارکسسٹ سیاسی اور سماجی فلسفی ہے جو سرمایہ داری کے خلاف عالمی مزاحمت پر یقین رکھتا ہے۔Empire(2000),Multitude(2004),Commonwealth(2009)

اس کی مشہور کتابیں ہیں۔ اس کے تصوّر multitudeکا تذکرہ ہان نے اپنے اس مضمون میں کیا ہے اور اس کا رد بھی کیا ہے۔
(۳) "Multitude"سے مراد وہ گلوبل باغی طبقہ ہے جو سسٹم کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتاہے۔ Cyberspaceنے اس طبقے کی باہمیcommunicationکو ممکن بنا دیا ہے۔ گویا ان کا خیال ہے کہ اگر digital worldنے نظام کو عالمی بنایا ہے تو یہی اس کے خلاف عالمی مزاحمت کو ممکن اور مزاحمت کاروں کو آپس میں جوڑنے کا باعث بنے گا۔ ہان کو اس کی اس بات سے اختلاف ہے۔
(۴) نیو لبرلزم کے حوالے سے ایک بیان تو یہ ہے کہ یہ ایک economic theory and policyہے جو privatization, market drivenness اور subserviency of the state to the market کا بیان ہے ‘لیکن ہان اس کوسرمایہ دارانہ نظام کی جدید شکل اور ایک سسٹم کی حیثیت سے دیکھتا ہے کہ ریاست اور مارکیٹ کے اس خاص اشتراک نے ایک غیر مشخص نظام کو جنم دیا ہے جس کا ایک مخصوص تصوّر ِ طاقت ہے جس نے استحصال بذریعہ آزادی کے ایک ایسے طریقے کو جنم دیا ہے جو اپنی کارکردگی میں غیر معمولی ہے اور اس میں digital mediaکا بنیادی کردار ہے بلکہ اس کے بغیر سسٹم شاید معرضِ شہود میں آ ہی نہ پاتا۔ یہ hegemony of the systemہے کسی فرد یا طبقے کی حکومت نہیں ہے۔
Neo-liberalism represents a highly efficient, indeed an intelligent system for exploiting freedom. Everything that belongs to practices and expressive forms of liberty - emotion, play and communication comes to be exploited. It is inefficient to exploit people against their will. Allo exploitation (exploitation by other) yields scant returns. Only when freedom is exploited are returns maximized. (Psychopolitics,the crisis of feedom)
(۵) یعنی انسانی نفس بھی ایک commodity میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایرک فرام نے اس کے لیے personality marketکی اصطلاح استعمال کی ہے۔اس مارکیٹ میں انسان اپنے آپ کو خود بیچنے کے لیے پیش کرتا ہے‘ گویا اپنا استحصال خود کرتا ہے۔ ہان اس کے لیے auto exploitationکی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب Psycho Politicsمیں لکھتا ہے:
" As a mutant form of capitalism ,neo liberalism transforms workers into entrepreneurs."
مزید لکھتا ہے :
As the entrepreneur of its own self, the neo liberal subject has no capacity for relationship with others that might be free of purpose.
(۶) اگر ناکامی کا ذمہ دار انسان سسٹم یا نظام کو سمجھنے کے بجائے اپنے آپ کو سمجھنے لگے تو بغاوت کے جراثیم جنم لینے کے بجائے ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ موٹیویشنل سپیکرز اس حوالے سے سسٹم کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ "Yes you can"کا نعرہ بہت سے حقائق اورfactorsپر پردہ ڈال دیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر انسان کے پاس ناکامی کی صورت میں اپنے آپ کو الزام دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ حقیقت میں سسٹم کے بیان کردہidealsاور ’کامیابی‘ کا تصوّر انسانوں کی ایک بڑی اقلیت کے لیے بھی قابلِ حصول نہیں ہوتا چہ جائیکہ تمام انسان اس کو حاصل کر پائیں۔ جو اس دجل کو شعوری یا لا شعوری طور پر جان لے اور کامیابی کے حصول کے لیے پیداواری عمل میں اپنی کل صلاحیتیں صرف نہ کرے اس کو سسٹم نفسیاتی مریض قرار دیتا ہے۔ یہاں سے علمِ نفسیات اور psychologistsکا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ ایسے آدمی کو دوبارہ اس’ قابل ‘بنا دے کہ وہ سسٹم کے لیے اپنا تن من دھن لگا دے اور اس کو مفید اور عقلی طرزِ عمل گردانے۔گویا اگر غور کیا جائے تو ایک خاص معنوں میں موٹیویشنل سپیکرز اور نفسیات دان مختلف جہات سے سسٹم کی خدمت انجام دیتے ہیں۔
(۷) Anti-globalization movementمیں Naomi Kleinایک مشہور نام ہے۔ No Logo Movement(2000)اس کی پہلی کتاب ہے جو "Brand" cultureکا بیان ہے کہ کس طرح کمپنیوں نے پراڈکٹ سے زیادہ اپنے برانڈ امیج پر توجہ دی ہے۔The Shock Doctrine (2007)نیولبرلزم پر ایک بنیادی تنقید ہے۔اسی کتاب کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
(۸) برن آؤٹ سنڈروم کی ایک تو سادہ تعریف ہے جو نفسیات کی کتابوں میں ملتی ہے کہ جب کوئی کام بہت زیادہ اور لمبی مدت تک کیا جائے تو ایک نفسیاتی اور جسمانی تھکن انسان پر طاری ہوتی ہے ۔ یہ وہ تھکن نہیں ہے جو صبح سے شام تک کام کرنے سے انسان پر طاری ہوتی ہے اور آرام کرنے سے انسان اگلے دن پھر’’کام‘‘کے لیے تیار ہو جاتا ہے بلکہ یہ ایک بیماری ہے جو لمبی مدت تک رہتی ہے۔ہان نے جدید معاشرہ کو جہاں مختلف عنوانات سے معنون کیا ہے ان میں ایکburnout societyبھی ہے۔ اس نام سے اس کی ایک کتاب بھی ہے جو 2015میں چھپی ۔ ہان کے خیال میں اکیسویں صدی نیوریاتی بیماریوں (neurological illness)کا زمانہ ہے جس میں depression, ADHD, BPD, اورburnout syndromeشامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل بیکٹیریا اور وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کا زمانہ تھا۔ یہ بات طبی تناظر میں نہیں کی جا رہی بلکہ جدید سسٹم اور اس میں انسانی صورتحال کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔ یقینا وائرس اور بیکٹیریا اب بھی شدّت سے پائے جاتے ہیں لیکن ان میں ـ’’دیگریت‘‘(otherness)تھی اور immunologyکے ذریعے ان سے بچنا ممکن تھا۔اس کو ہان"negativity"کہتا ہے جبکہ اب زمانہ "excess"اور "positivity" اور"sameness"کا ہے۔ نیوریاتی بیماریاں’’کثرت‘‘ اور "positivity"کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ہان کا اپنا ایک discourseہے جس کا ترجمہ یا ترجمانی اردو زبان میں اتنی آسان نہیں ہے ‘لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نفسیاتی بیماریاں اور خاص طور پر برن آؤٹ excessکی وجہ ہی سے جنم لیتی ہیں۔ جدید انسان achievement subjectہے ۔ اسے مستقل کچھ کرنا ہے‘ آگے بڑھنا ہے‘ کچھ پانا ہے اور بن کے دکھانا ہے۔ اس سب کا پریشر اصل میں تو خارج سے آرہا ہے لیکن یہیneoliberal systemکا کمال ہے کہ وہ اس کو انسان کا داخلی تقاضا بنا دیتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان کچھ ’’بننے‘‘ اور ’’پانے‘‘ کے لیے بہت محنت اور کام کرتا ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر اس کے ’’ہونے‘‘ کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ آزادی اور جبر میں ہمیشہ ایک نسبت تضادسمجھی گئی ہے لیکن یہ سرمایہ داری کی اس حالیہ شکل کا کارنامہ ہے کہ اس نے ان دو کو ایک کر دیا ہے۔ گویا ’’امکانات‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’محالات‘‘ کی دنیا پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔نظاماتی جبر اور انسانی آزادی کا مسئلہ لبرل مفکرین کے لیے عنوانات اور جہات کے اختلاف کے ساتھ ہمیشہ ایک پیچیدہ مسئلہ رہاہے۔نیولبرل سسٹم نے جیسے اس مسئلہ کو حل کر دیا ہے اور اب انسانی نفس کے اقتضاآت اور سسٹم کی مرادات گویا ایک ہو گئی ہیں یہی سسٹم کی کارگریت (efficency)اور استحکام کی بنیاد ہے۔ آزادی کا استحصال ایسا لطیف جبر ہے جس کا ادراک ایک عام ذہن کو نہیں ہو پاتا۔فرائیڈ کی اصطلاح میں کہا جائے تو id اور super ego جن میں ہمیشہ مخاصمت کا تعلق رہتا ہے ان کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ Achievement subjectاپنا استحصال خود کرتاہے۔ ہان لکھتا ہے:
" The achievement subject exploits itself until it burns out."
حقیقی خودی اور آدرشی خودی میں ہمیشہ ایک فاصلہ رہتا ہے ۔ اس فاصلے کو پاٹ نہ سکنا خود پر تشدد اور ظلم کو جنم دیتا ہے یہاں تک کہ انسان برن آؤٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یعنی برن آؤٹ انسان کی خود تشددی ‘ خود استحصالی اور کام اور محنت کی زیادتی سے جنم لیتا ہے ۔("Excess of positivity"سے ہان اسی تصوّر کو بیان کرتا ہے)نہ کہ کسی دوسرے کے جبر اور استحصال سے جس میں ایک دیگریت(otherness)پائی جاتی ہے(ہان اس کو negativity کے لفظ سے بیان کرتا ہے)۔ گویا جدیدachievement societyمیں نیو لبرل انسان کے نفسیاتی مسائل کی وجہ اثباتیت کی زیادتی( excess of positivity)ہے نہ کہ منفیت( negativity)۔
(۹) Alienation ۔مارکس کے خیال میں workانسان کی ذات کا اظہار ہونا چاہیے۔ یعنی انسان اور اس کے کام میں ایک تعلق ہونا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے کام کو انسان سے کاٹ دیا ہے‘ اس کو وہ بیگانگی (Alienation)قرار دیتا ہے۔Alienationکے اس تصوّر کو کچھ Neo-Marxistsنے وسعت دی اور اس کو انسان کی انسان سے‘ انسان کی فطرت سے اور انسان کی اپنے کام سے بیگانگی قرار دیا اور اس سب کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام کو ٹھہرایامثلاً ََ Erich Fromm۔ اب لوگ کسی پراڈکٹ کے مختلف اجزاء پر کام کرتے ہیں۔ جب وہ چیز مکمل ہو کر سامنے آتی ہے تو اس سے ان تمام کام کرنے والوں کا کوئی ذاتی رشتہ نہیں ہوتا۔ اس پراڈکٹ کی قیمت اور اہلیت کا تعین اس کیexchange valueسے ہوتا ہے جو کہ مارکیٹ سے متعلق ہوتی ہے نا کہ اس کیuse valueیاintrinsic valueسے۔ Use valueتو متعین ہوتی ہے جبکہ exchange valueکو طے کرنے والے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ Brand imageان میں سے ایک ہے۔
(۱۰) یہ کتاب 2014 میں چھپی تھی۔مصنف کے خیال میں انٹرنیٹ کی آمد نے ایک نئی برابری کی معیشت (Egalitarian Economy ) کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ سے پیداوار اور تقسیم کی لاگت میں کمی آرہی ہے اور مزید آئے گی جس سے سرمایہ داری کو نقصان پہنچے گا اور اشتراک کی معیشت وجود میں آئے گی۔Prosumers وجود میں آرہے ہیں جو بیک وقتProducers بھی ہیں اور consumer بھی۔ ہان کو اس بات سے اختلاف ہے ۔اس کے خیال میں یہ سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت کا باعث بنے گا۔
(۱۱) Ban opticonدراصل Pan Opticonسے نکلنے والی ایک اصطلاح ہے جس کو Didier Bigo and Anastassia Tsoukalaنے اپنی کتاب Terror, Insecurity and Liberty: Illebral Practices of Liberal Regimes After 9/11, London: Routledge 2008.میں استعمال کیا ہے۔ ہان کا یہاں اس اصطلاح کے استعمال سے مقصود یہ ہے کہ آزادی کی کچھ شرائط ہوتی ہیں ‘ان کو پورا کیے بغیر آزادی نہیں ملتی۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے اور سرمایہ کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ گویا بعض اعتبارات سے ban کر دیے جاتے ہیں۔
(۱۲) یہ ایک امریکیVacation rental company ہے‘ جس کے ذریعہ اپنے گھروں کو سیاحوں کے لیے رینٹ پر دیا جا سکتا ہے۔
٭٭ نظر و فکر کی ایک عام تعریف ترتیب امور معلومۃ لیتادی الی امر مجھول کی جاتی ہے یعنی معلومات سے مجہولات کی طرف حرکت ذہنی کو نظر و فکر کہا جاتا ہے۔ معلوم منقول بھی ہو سکتا ہے اور مشاہَد بھی ‘لیکن معلوم سے مجہول کی طرف ذہنی حرکت نہ منقولی ہو گی نہ مشاہداتی بلکہ عقل کی صلاحیت تعقل کا نتیجہ ہو گی۔ یہاں نظری سے ہماری مراد یہ ہے کہ مسئلہ کی تفہیم کے لیے مشاہدہ کے ساتھ ساتھ استدلال و استنباط کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ بالفاظِ دیگر صرف مشاہدات و منقولات ہی کافی نہیں ہیں‘بلکہ معقولات و فکریات سے تعرض بھی لازمی ہے۔اس میں استقراء اور استخراج دونوں طرح کے منطقی مناہج اختیار کیے جا سکتے ہیں۔مثلاً اگر کوئی تہذیب یا نظام اپنے تصوّرِ خویش کوself statementکی صورت میں بیان کرتاہے جس کو اس کے مستند نمائندوں اور شارحین سے اخذ کیا جا سکتا ہے تو ان کلیات کو اس تہذیب کے پروردہ علوم اور اداروں پر منطبق کر کے ان کا تحلیل و تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔یہ استخراجی طریقہ کار ہے۔اسی طرح استقرائی طریقہ پر ان اداروں اور علوم میں مشاہدہ اور تجزیہ کے ذریعے مابہ الاشتراک کو دریافت کیا جائے اور اس سے کلی اصول اخذ کیے جائیں۔ اس طریقہ کار کے نتائج اور نظام یا تہذیب کے اپنے بیان کردہ بیان میں کوئی خاص فرق عام طور پر نظر نہیں آتا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم ان کو اپنے دینی اور تہذیبی تناظر میں ہی دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں مابعدالطبیعاتی اور اقداری تناظر میں تبدیلی کے باعث حکم میں ایک بنیادی فرق واقع ہو جاتا ہے۔
٭٭٭ ٹیکنالوجیائی ترقی کا اس میں اہم کردار ہے۔یہ دلچسپ بات ہے کہ مارکس فیوڈلزم سے کیپیٹلزم کی طرف ہونے والی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ذرائع پیداوارمیں سے hand millکا steam mill کی صورت میں تبدیل ہوجانا قرار دیتا ہے۔
٭٭٭٭ یہاں اس موقف کی تردید نہیں کی جا رہی بس یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ موقف اس موضوع بحث سے خارج ہے اوراس موقف کے حاملین کے لیے اولین دلچسپی کا موضوع یہ مباحث نہیں ہو سکتے ثانوی توجہات کا مرکز کچھ اسباب کی بنا پر ہو سکتے ہیں ۔ یہ موقف بجائے خود اس لائق ہے کہ اس پر الگ سے کلام کیا جائے کہ کچھ نصوص سے اپنا استناد واضح طور پر رکھتا ہے۔اس موقف کے حاملین کے نزدیک جدید دنیا اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ’’تحدیات‘‘ سے زیادہ ’’فتن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان دونوں کا انسانی ردعمل باہم بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ ایک قیمتی بات ہے اور اگر اسے عقلی اور نقلی دلائل سے موئید کیا جائے تو یہ باقی مواقف سے اپنی علمی حیثیت میں ، بظاہر غیر علمی لگنے کے باوجود ،شاید زیادہ مضبوط موقف ثابت ہو۔ یہاں ہم نے گفتگو ایک خاص موضوع پر ، مخصوص سیاق و سباق میں مخاطب کے دائرہ فکر و عمل میں داخل ہوتے ہوئے کی ہے۔