مباحث ِعقیدہ(۱۱)مؤمن محمود
صفت ِارادہ کااللہ تعالیٰ کے لیے بتمام وکمال اثبات اہل ِسُنّت کاامتیاز ہے
آج ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ‘اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفت ارادہ کامطالعہ کریں گے ۔ صفت ارادہ اس اعتبارسے بہت اہم صفت ہے کہ اہل سُنّت کادعویٰ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اس صفت کااثبات صحیح معنوں میں اہل سُنّت کے سوا کوئی نہیں کرتا۔یعنی اہل سُنّت کے سواجتنے بھی مذاہب ہیں یاجتنے بھی فرق ہیں ان سب کے ہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو فاعل مختارحقیقی معنوں میں نہیں مانا جاتا۔یقیناً یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے ‘لیکن جب ہم مختلف مذاہب اسلامیہ پرنظر ڈالتے ہیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے ‘خاص طورپرمعتزلہ پر ۔جب ہم معتزلہ کا لفظ بول رہے ہوتے ہیں تولوگوں کاخیال یہ ہوتاہے کہ یہ ایک فرقہ تھا جوگزر کرختم ہوگیا‘اب اس سے جھگڑنے اورلڑائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔معتزلہ عباسی دور میں تھے اور کوئی ایک سوسال اپنی کارگزاری دکھانے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے‘ توایسا نہیں ہے۔اِس وقت بھی معتزلہ اہل تشیع کی صورت میں پائے جاتے ہیں ۔یعنی جو اثناعشری شیعہ حضرات ہیں وہ عقیدے کے بہت سے مسائل میں معتزلی ہیں ۔ لیکن امامت کا عقیدہ معتزلہ کے ہاں نہیں تھا‘بلکہ وہ امامت کے مسئلے میں اہل سُنّت کے ساتھ کھڑے تھے ۔تاہم جیسے صفات کے انکار کے مسائل ہیںاسی طریقے پر وجوبِ اصلح اور صفت ارادہ کے متعلق مسائل اہلِ تشیع اور معتزلہ میں یکساں ہیں ۔لہٰذا اہل سُنّت کاطریقہ یہ رہا ہے کہ وہ باطل فرقوں سے مستقل مجادلہ‘مناظرہ اور مکالمہ کرتے رہتے ہیں ۔اس وقت بھی اگر اہل تشیع سے گفتگو ہوگی توایک توان کا عقیدہ بالکل واضح ہے امامت کا ‘اس پررد کیاجائے گا۔امامت کے رد کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل ایسے ہیں جواہل سُنّت اور اہل تشیع کے ہاں مختلف فیہ اور متنازع ہیں ۔یہ وہی مسائل ہیں جن پر اہل سُنّت معتزلہ کا نام لے کر رد کرتے رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ دیکھیں گے کہ معتزلہ ایک توفرقہ تھاجوگزر گیااور ایک ذہنیت ہے ‘ایک tendencyہے وہ ہرزمانے میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے‘ وہ وہی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیاتھاکہ کچھ pre-conceived ideas کی بنیاد پر ‘کچھ بیرونی اثرات سے اورکچھ فکروفلسفہ سے متاثر ہوکر چند مخصوص آراء بنالینے کے بعدقرآ ن وحدیث کو ان پرپرکھنا -----اور جوشے سمجھ میں نہیں آتی ‘اگر وہ حدیث کے باب میں سے ہے تواس کو اٹھا کر پھینک دیناکہ ہم حدیث کو نہیں مانتے‘اگر قرآن سے ہے تو اس کی ایسی دورازکار تاویل کرلیناکہ جوتاویل کے اصولوں کے بالکل مطابق نہیں ہے۔یہ رویہ توآپ کو اس وقت بھی نظر آتا ہے او ر اس معنی میں بہت سے لوگوں کو کہاجاسکتا ہے کہ وہ معتزلی ہیں۔ جواس طرح کے لوگ ہوتے ہیں یعنی جوتھوڑے ماڈرنسٹ ہیں ‘وہ ہمیں معتزلہ کی تعریف بھی کرتے نظر آئیں گے ۔یعنی اہل سُنّت سے زیادہ ان کے ہاں معظم لوگ معتزلہ ہیں ۔کیونکہ معتزلہ rationalists تھے جنہوں نے آکر عقل کو بہت بڑھایااور چڑھایا اور وہی ان کے ہاں فکرکی بنیاد بنی ۔بہرحال یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جب ہم معتزلہ کاتذکرہ کر رہے ہوتے ہیں توہم کوئی گڑے مردے اکھاڑ رہے ہوتے ہیں اور پرانی باتیں کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔اس زمانے میں بھی اگر آپ دیکھنا چاہیں توآپ کو نظر آجائیں گے۔بس صرف دیکھنے والی ایک نگاہ چاہیے ۔آج ہم دیکھیں گے کہ صفت ارادہ کیا ہے اور ارادہ اور قدرت میں فرق کیا ہے!وہ فرق بس انسانی فہم کے اعتبار سے ہے ‘باقی صفت کی حقیقت ہم نہیں جانتے ۔ہم جو صفت کی تعریف کررہے ہیں وہ ماہیت کے اعتبار سے نہیں ہے کہ صفت اپنی حقیقت میں کیا ہے‘ بلکہ صفت سے ہوتا کیا ہے ‘یہ ہم بتارہے ہیں ۔
ہم پہلے صفت ِارادہ کی تعریف دیکھ لیتے ہیں ۔جس طرح ہم نے صفت ِقدرت کی تعریف کی تھی اسی طرح صفت ِارادہ کی تعریف بھی ہے ۔واضح رہے کہ اس وقت ہم صفات پرگفتگو کررہے ہیں۔یعنی جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے کسی وجودی صفت کااثبات ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہم صفاتِ سلبیہ دیکھ چکے ہیں جوپانچ ہیں ‘ اوراس سے قبل ہم صفت ِنفسیہ بھی دیکھ چکے ہیں جوصفت ِوجود ہے ۔اور صفات ِمعنیٰ میں پہلی صفت وہ تھی جس کو ہم نے صفت ِقدر ت کہااو ر دوسری صفت وہ ہے جس کو ہم صفت ِارادہ کہہ رہے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم مزید پانچ یاچھ صفات کا مطالعہ کریں گے ۔ان شاء اللہ !باذن اللہ!
ارادہ او رمشیت اصطلاحاً ہم معنیٰ ہیں
قرآ ن مجید میں صفت ِارادہ کے لیے لفظ ارادہ بھی ہے اور مشیت بھی ہے ۔اگرچہ ارادے اور مشیت میں لغت کے اعتبار سے کچھ فرق کیاجاتا ہے ‘لیکن متکلمین یہاں لغوی فرق کو پیش نظر نہیں رکھ رہے‘ بلکہ وہ صفت ارادہ کو مشیت کے معنی میں ہی لیتے ہیں او ر مشیت کو صفت ارادہ کے معنی میں لیتے ہیں ۔یعنی مشیت کا لفظ قرآن میں زیادہ وارد ہوا ہے بنسبت ارادے کے ۔جیسے:
{وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط } (الدھر:۳۰)
’’تم چاہتے بھی نہیں ہو مگر یہ کہ اللہ چاہے !‘‘
{وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُط مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُط} (القصص:۶۸)
’’اور تمہارا رب جوچاہتا ہے پید افرماتا ہے اورجس کو چاہتا ہے پسند کرلیتا ہے ‘ان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے ۔‘‘
{فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(۱۶)} (البروج)
’’وہ کر گزرنے والا ہے جس کا ارادہ کرتاہے ۔‘‘
یہاں صفت ارادہ آ گئی ۔اسی طریقے پر
{ اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (۸۲)} (یٰسٓ)
’’اُس کامعاملہ تو بس یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی شے کا تواتنا کہتا ہے کہ ہو جا! بس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
تواللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے لفظ ارادہ بھی آتا ہے ۔اور اسی طریقے پر شَاءَ یَشَاءُ سے افعال بھی آتے ہیں ۔باقی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کے لیے کوئی اسم ’’مُرِید‘‘ استعمال نہیں کیا۔یعنی قرآن میں آپ ’’اللہُ الـمُرِید‘‘ کہیں نہیں دیکھیں گے۔ یُرِیدُ تو آیا ہے۔اب اس سے اسم الفاعل کا اشتقاق کیاجاسکتا ہے یانہیں ؟ا س میں کچھ اختلاف ہے۔ آپ بعض صفات کی کتابوں میں دیکھیں گے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ایک اسم ’’المرید‘‘ کا بھی اثبات کیاگیا۔ بہرحال یہ کوئی بہت ضروری بحث نہیں ہے ۔یعنی جب معنی ثابت ہوگیااللہ کے لیے توبس بات ٹھیک ہے۔ باقی یہ اختلا ف ہوسکتا ہے کہ اس سے اسم کااستنباط کیا جائے گایا نہیں ؟اہل سُنّت کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اسم کااستنباط نہ کیاجائے ‘اس کوتوقیفی ہی رکھا جائے ۔جب تک کوئی اسم وارد نہ ہو‘اسم کادرجہ نہ دیاجائے‘ صفت کا اثبات کردیا جائے ۔البتہ کچھ اسماء ایسے ہیں جوا س صفت پردلالت کررہے ہیں ‘ لیکن ان میں لفظ ارادہ نہیں آرہا ۔ مثلاً قَاھِر‘قَھّار‘جَبّار۔ جیسے:{وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ط } (الانعام:۱۸) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرغالب ہے ۔ قاھر کے لغوی معنی ہوتے ہیں کہ جس کے ارادے کے بغیر کچھ نہ ہوسکے۔ یعنی قاھر وہ ہے کہ جن کے اوپر وہ قاھر ہے وہ نیچے والے اس قاھر کے ارادے کے بغیر کچھ نہ کر سکیں۔ تو قاھر کے اندر لفظ ارادہ کا معنیٰ پایا جاتا ہے ۔
قھّار کا لفظ بھی قرآن مجید میں آیاہے۔جَبّارکا بھی ایک معنیٰ یہی ہے کہ وہ ہستی جس کے ارادے کے بغیرکوئی شے بھی ارادہ نہ کرسکے ۔یعنی یہاں جبار سے مراد صرف جبرکرنے والا نہیں ہے ‘کیونکہ اللہ کے لیے اس معنیٰ میں جبر ہم نہیں بولتے کہ اللہ نے مجبور کردیا ‘بلکہ ہم اس معنیٰ میں بولتے ہیں کہ جس سے اللہ نے کچھ کروانا ہوتا ہے وہ اپنے ارادے سے کرتا ہے ۔جبر توکہتے ہیں کہ اس کے ارادے کے برعکس اس سے کروایا جائے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ انسان سے کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تواُس کاجبر اس طریقے پرنہیں ہوتاکہ اسے مجبورکردیاجائے ‘بلکہ اُس کاجبر یہ ہوگاکہ وہ شخص اپنے ارادے سے وہ کام کرے گا‘ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے ارادے کے بھی خالق ہیں ۔اس معنیٰ میں اللہ جبار ہے ‘اللہ قہار ہے۔ اور ان اسماء کے اندر بھی ارادے کا معنی پایا جاتا ہے ۔
صفت ِارادہ کی تعریف
صفت ِارادہ کی تعریف سے آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی ‘ان شاء اللہ ‘کہ صفت ِقدرت اور ارادہ میں فرق کیاہے! اس کوسمجھنے کے لیے پہلے قدرت کی تعریف ذہن میں حاضر کرلیجیے : صفۃ وجودیۃ قدیمۃ ثابتۃ لذات اللہ تعالیٰ تتعلق بالممکنات ایجادًا واعدامًا وتکییفًا ’’ایک صفت وجودی قدیمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ کے لیے ثابت ہے‘ وہ ممکنات سے متعلق ہوتی ہے ‘ایجاد یااعدام یاتکییف کے لیے۔‘‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت تمام ممکنات سے متعلق ہے ۔یعنی اس قدرت کے ذریعے ہرممکن شے وجود میں آسکتی ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض ممکنات کو وجود دیابعض کو نہیں دیا۔اسی طرح جس کودے دیا اس پربہت سی صورتیں اوراشکال وارد ہوسکتی تھیں ‘لیکن اس کوایک خاص شکل دی ہے ‘اس کی ایک خاص صفت رکھی ہے۔ خاص قسم کی صورت پید اکی ہے توصفت قدرت توسب کے ساتھ ایک جیسی ہے ‘وہ توسب کو کرسکتی تھی۔ یہ تخصیص کس نے کی کہ یہ شے وجود میں آئے اور یہ شے وجود میں نہ آئے! حالانکہ صفت ِقدرت تو اس کو بھی اسی طرح وجود میں لاسکتی تھی۔ اب یہ جوتخصیص ہورہی ہے یہ تخصیص صفت ِارادہ کرے گی ۔یعنی صفت ِارادہ ممکنات کو خاص کررہی ہے کہ اس ممکن کو وجودملے گا‘اس ممکن کو وجودنہیں ملے گا۔یہ ممکن اگر وجود میں آئے گاتوان صفات کے ساتھ آئے گا‘ اس مکان وزمان میں وجود رکھے گا۔حالانکہ اس ممکن کاوجود کسی اور مکان وزمان میں بھی ممکن تھا۔یہ جو تخصیص ہورہی ہے یہ صفت ِارادہ ہے ۔
اب ہم صفت ِارادہ کی تعریف دیکھ لیتے ہیں: صفۃ وجودیۃ قدیمۃ ثابتۃ لذات اللہ سبحانہ وتعالیٰ تخصص الممکنات ببعض ما یجوز علیھا ’’ صفت وجودی قدیم ہے ‘اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ‘ ممکنات کو خاص کرتی ہے ان چیزوں کے ساتھ کہ جوممکنات پروارد ہوسکتی ہیں ۔‘‘وہ میں نے آپ کو بتادیا ہے کہ ممکنات سب وجود میں آسکتی ہیں‘ لیکن سب کو وجود نہیں دیا۔یہ بھی ممکن تھا کہ ممکنات سب عدم میں ہی رہیں کوئی وجود میں نہ آئے ‘تووجود میں کیوں آگئیں؟اور اسی زمان ومکان میں اور انہی صفات کے ساتھ وجود میںکیوں آئیں؟ وغیرہ وغیرہ۔یہ ممکنات توذہن کتنی تخلیق کرسکتا ہے ۔اس کاجواب صفت ارادہ ہے ‘یعنی اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ۔میں نے کسی عقیدے کی کتاب میںایک شعر پڑھاہے ۔کہتے ہیں:
الممکنات المتقابلات ’’ممکنات کے اندر بہت سی صفات متقابل ہوتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا تھا‘وہ بھی ہوسکتا تھا!‘‘
وجودنا والعدم الصفات’’ہمارا وجود بھی ہوسکتا تھا‘ممکن کاعدم بھی ہوسکتا تھا اورصفات میں بھی تغیرہوسکتا تھا۔‘‘
ازمنۃ امکنۃجھات ’’ زمان بھی مختلف ہوسکتا تھا‘مکان بھی اورجہت بھی مختلف ہوسکتی تھی!‘‘
والمقادیر قال الثقات ’’اسی طرح مقدار یعنی کتنے اجزاء سے یہ مل کربنا ہے۔‘‘
یہ بھی فرق ہوسکتا تھا۔ فرمارہے ہیں کہ یہ جوایک ممکن کے اندر اتنے احتمالات ہیں توا ن احتمالات میں سے ایک احتمال کو دوسرے پرترجیح دینایہ تخصیص ہے‘ اور یہ تخصیص ہورہی ہوتی ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت ارادہ کے ذریعے ۔
صفت ِارادہ تمام ممکنات سے متعلق ہے
جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت قدرت تمام ممکنات سے متعلق ہے اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارادہ بھی تمام ممکنات سے متعلق ہے ۔ا س میں بھی ہمارا معتزلہ سے وہی اختلاف ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کاارادہ تمام ممکنات سے متعلق نہیں ہوتا۔ہم نے امام طحاوی علیہ الرحمہ کی ایک عبارت پڑھی تھی کہ ’’ولا یکون الا ما یرید ‘‘ یہ اہل سُنّت کاعقیدہ ہے ۔یہاں یکون‘ کان تامہ ہے ۔ لایکون ای لا یوجد شیء‘ لایثبت شیء‘ لا یتحقق شیء اِلَّا ما یرید۔ کوئی بھی شے واقع نہیں ہورہی مگر وہ اللہ کی مراد ہے ۔مرا د کامطلب ہے کہ ارادے کامفعول ہے ۔اللہ نے اس کاارادہ کیاہے‘ لہٰذا وہ شے وجود میں آئی ہے ۔
اس موضوع پر ایک بڑا زبردست مکالمہ ہے ۔عبدالجبار الہمدانی بہت بڑے معتزلی تھے۔بعض نے کہا کہ انہوں نے اسّی یانوے جلدوں میں ایک تفسیر لکھی تھی جوہم تک نہیں پہنچ سکی ۔یعنی بہت عالم فاضل آدمی تھے ۔اور اشاعرہ میں سے ایک دوسرے بزرگ ہیں ابواسحاق الاسفرائینی ‘امام الاسفرائینی کے نام سے مشہور ہیں ۔یہ ایک خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوئے تووہاں عبدالجبار الہمدانی پہلے سے موجود تھے ۔ابواسحاق اسفرائینی جیسے ہی مجلس میں داخل ہوئے توعبدالجبار الہمدانی کہنے لگے : سُبحان من تنزہ عن الفحشاء ’’پاک ہے وہ اللہ جوفحشاء سے ماوراء ہے ‘منزہ ہے ۔‘‘ یعنی کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ کائنات میں شر اوراتنے برے برے اعمال ہورہے ہیں‘ وہ اللہ کے ارادے سے کیسے ہوسکتے ہیں !اللہ تعالیٰ تواس سے ماوراء ہے ۔اصل میں اُس نے چڑانے کے لیے مختصربات کی ۔ابواسحاق اسفرائینی نے جواب دیا : سُبحان من لا یجری فی مُلکہٖ الا مایشاء ’’پاک ہے وہ ہستی جس کی بادشاہی میں بس وہی ہوسکتا ہے جو وہ چاہے!‘‘یعنی تم کہہ رہے ہوکہ فحشاء اور یہ شر پھر اللہ کی مراد نہیں ہوگی اور انسانی اعمال بھی اللہ کی مراد نہیں ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔گویا تمہارے قول کالازمہ یہ آرہاہے کہ اللہ کی مملکت میں ایسا کچھ بھی ہورہاہے جو اللہ نہیں چاہتا۔اُس نے پھر کہا:أفیرید رَبُّنا ان یُعصیٰ؟ ’’توکیا ہمارے رب کا ارادہ یہ ہوا کہ اس کی نافرمانی کی جائے؟‘‘یعنی جب تم کہہ رہے ہوکہ معصیت بھی اللہ کے ارادے سے واقع ہورہی ہے توکیااللہ نے خود ارادہ کیاکہ اس کی نافرمانی ہو؟ابواسحاق نے جواب دیا :أفیعصیٰ ربنا کرھا؟ ‘‘ ’’توکیاہمارے رب کی نافرمانی زبردستی ہوگی؟‘‘یعنی اللہ نہیں چاہ رہا اور پھر بھی ہورہی ہے ۔کیایہ ہوسکتا ہے ؟یعنی اعتراض اور اس کاجواب دیکھیں مختصر الفاظ میں ۔اس نے پھر کہا : أرایت إن منعنی الھدی وقضٰی علی بالردی أحسن الٰی أم أساء؟ ’’ذراغور کرکے یہ توبتائو اگر اللہ نے مجھے ہدایت نہ دی(جب ہرشے اللہ کی مراد سے ہورہی ہے ‘اللہ نے مجھے ہدایت نہیں دی) اور میرے اوپر ہلاکت کافیصلہ فرمادیاتومیرے ساتھ اچھا کیا یابراکیا؟‘‘پھر ابواسحاق نے جواب دیا : ان منعک ما ھو لک فقد أساء‘ وان منعک ماھولہ فھو یختص برحمتہ ما یشاء ’’اگر اللہ نے تجھ سے وہ شے روک لی جوتیری ذاتی تھی توپھرتواس نے برا کیا‘اور اگر اس نے تجھ سے وہ شے روکی جو اُس کے اختیار میں تھی توپھر وہ اپنی رحمت سے جس کو چاہے خاص کرے !‘‘
اہل ِسُنّت کی روایت یہی ہے کہ یہاں مناظرہ ختم ہوگیااور وہ صاحب مبہوت ہوگئے ۔بہرحال یہ اعتراضات انسانی عقل میں وارد ہوتے ہیں ‘لیکن اگر ان اعتراضات کو ذرا دوسرے طریقے پر دیکھاجائے توپھر شاید خدا ‘خدا نہ رہے ۔ کائنات میں یہ سب اللہ کی مرضی سے ہورہاہے اور سب اللہ کی مراد ہے ۔توپھر عدل کاکیاہوا؟ اس طرح کی کچھ باتیں ذہن میں وارد ہوتی ہیں ۔لیکن اگر آپ کہیں کہ کائنات میں کچھ ایسا بھی ہے جواس کی مراد نہیں ہوتی تووہ خدا کیسے رہے گا؟ اللہ توپاک ہے کہ اُس کی مملکت ‘ اُس کی بادشاہی‘اس کی ملکوت میں کچھ بھی اس کی مرضی کے بغیر ہوجائے۔
سِرُّالقدر مافوق العقل ہے ‘خلافِ عقل نہیں !
آپ دیکھیں گے کہ یہاں جو مسئلہ ہے ‘عقیدئہ تقدیر کا ہی مسئلہ ہے ‘یقیناً وہ سمجھ نہیں آتا۔کچھ لوگوں کو میں نے کہتے ہوئے سنا کہ عقیدئہ تقدیر مسلمانوں کے نزدیک ایک راز ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں پتا۔چلوعیسائی بھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ تثلیث بھی ایک راز ہے ‘ جیسے تمہارا سِرّ القدر ہے ہمارا یہ سِرّالتثلیث ہے ۔یہاں جو فرق ہمارے علماء نے بیان کیا وہ یہ ہے کہ ایک مافوق العقل ہے اور ایک خلافِ عقل ہے ۔ جو عقیدئہ تقدیر ہے یہ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ یعنی عقل کہتی ہے کہ خدا ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جس کی مرضی کے بغیر کچھ نہ ہو۔عقل یہ بھی کہتی ہے کہ اگرانسان ذمہ دارہے اور اس کی جوابدہی ہوگی تواُس کے پاس بھی کچھ اختیا رہونا چاہیے۔ یہ دونوں باتیں عقل مان رہی ہے ۔عقل یہ نہیں کہہ رہی کہ اُس کے پاس اختیار ہواور خدا کے پاس نہ ہو‘بلکہ خدا توہے ہی وہ جس کی مرضی کے بغیرکچھ نہیں ہوسکتا۔اب عقل آکرکہاں اٹکتی ہے کہ ان دونوں مشیتوں اور دونوں ارادوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ یہ نہیں ہے کہ عقل کہہ رہی ہے کہ ان دونوں ارادوں میں سے ایک ارادہ نہیں ہوناچاہیے ۔عقل کے مطابق ہونا توایسے ہی چاہیے کہ خدا ایسا ہواور بندہ بھی ایسا ہی ہو۔ لیکن ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ توعلماء نے بتایاکہ تطبیق اس طرح نہیں ہوسکتی۔ دوصفات میں تطبیق کرنی ہے ‘اللہ کی صفت ارادہ اور بندے کی صفت ارادہ ۔تطبیق کرنے کے لیے اس صفت ارادہ جوخدا کی ہے اس کی حقیقت جاننا ضروری ہے ۔اور وہ چونکہ ہماری عقل سے ماور اہے‘ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ سِرّالقدر ہے ۔ سِرّالقدر کامطلب ہے اس راز کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔امام طحاوی فرماتے ہیں : القدر سر اللہ لم یطلع علیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل ’’ قدر ‘اللہ کا ایک ایسا رازہے جس پرنہ کسی مقرب فرشتے کی اور نہ ہی کسی نبی مرسل کی رسائی ہے ۔‘‘ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ شاید جنّت میں بھی یہ راز نہیں کھلے گا۔یعنی یہ سرالقدر ایسا راز ہے کہ جنّت میں بھی نہیں کھلے گا۔کیونکہ جنّت میں بھی کچھ علوم نہیں کھلیں گے ۔اللہ کی حقیقت اور کنہ جنّت میں بھی معلوم نہیں ہوگی ۔اگر معلوم ہوجائے توسفر رُک جائے۔معرفت کا سفر چلتارہے گا۔صفات کی حقیقت بھی معلوم نہیں ہوگی‘ البتہ ایک مستقل اضافہ علم میں ہوتا رہے گا۔لیکن وہ علم میں ہونے والا اضافہ لامتناہی ہوگا‘کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔جب اللہ کی حقیقت اورکنہ اور صفات کی کنہ اور حقیقت جنّت میں نہیں معلوم ہوگی تووہ فرماتے ہیں کہ جنّت میں بھی گویا یہ راز ‘راز ہی رہے گا۔
ارادہ اورعلم عقیدہ تقدیر کی اساس ہیں
ہمارے ہاں جو اس مسئلے کو لوگ بڑی آسانی سے حل کرتے پھر رہے ہوتے ہیں وہ عموماًمعتزلہ کے موقف کے مطابق حل کرتے ہیں چاہے ان کو معلوم ہویا نہ ہو۔یعنی جس جگہ وہ کھڑے ہوتے ہیں وہ معتزلہ کا موقف ہوتاہے ۔ہمارے ہاں عقیدئہ تقدیر میں اللہ تعالیٰ کی دوصفات ہیں جن میں سے ایک کابھی انکار کردیا جائے توعقیدئہ تقدیر نہیں رہے گا۔دوصفات ہیں:(۱)ارادہ اور مشیت (۲) علم ۔علم سابق‘ علم ازلی۔اللہ تعالیٰ ہرشے پہلے سے جانتا ہے۔ لیکن عقیدئہ تقدیر صرف یہی نہیں ہے ۔اللہ ہرشے پہلے سے جانتا ہے اور اللہ نے اس کا ارادہ بھی کیا ہے ‘یہ اللہ کی مرا دبھی ہے‘اللہ کی مشیت بھی ہے۔صرف علم سابق نہیں ہے بلکہ ارادہ سابقہ بھی ہے۔ صرف pre-knowledgeنہیں ہے بلکہ pre-destinationبھی ہے ۔یہ دوصفات جمع ہوں گی توعقیدئہ تقدیر متحقق ہو گا۔اس ضمن میں معتزلہ کاموقف تھاکہ علم سابق ہے ارادہ سابقہ نہیں ہے ۔اللہ جانتا ہے کہ کیاہوگالیکن اللہ نے ارادہ اس کا نہیں کیا‘محض جانا ہے ۔یعنی اللہ نے جانا ہے کہ ابولہب کفر کرے گا‘لیکن ابولہب کا کفر اللہ کی مراد نہیں ہے ۔ہم بھی اس طرح explainکرتے ہیں کہ استاد کوپتا چل جاتا ہے کہ بچے فیل ہوں گے یا پاس ہوں گے۔اس طرح کی مثالیں اصلاًاہل سُنّت کے عقیدے پر فٹ نہیں بیٹھتیں ۔یہ معتزلہ کاعقیدہ ہے۔کیونکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ علم سابق ہے ۔معتزلہ کوہم قدریہ کہتے ہیں۔قدریہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے قدر کا انکار کیا۔لیکن معتزلہ سے پہلے ایک گروہ تھا جن کو قدریہ اوائل کہتے ہیں ‘وہ صحابہ کے زمانے میں پید اہوگئے تھے ۔ انہوں نے علم سابق کا بھی انکار کردیا تھا۔اگر علم سابق کا بھی انکار کردیاجائے تودائرئہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے۔معتزلہ ا س کے بعد آئے ہیں۔ انہوں نے علم سابق کو مانا ہے‘لیکن ارادئہ ازلی کونہیں مانا ۔انہوں نے کہا کہ معلوم توہے مراد نہیں ہے ۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کاارادہ ہوتاہے توبس کوئی شے وجود میں آجاتی ہے‘ توارادہ کیوں پیدا ہوا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگوں نے ارادے کاانکار کیا۔علماء نے بتایاکہ فلاسفہ کے ہاں بھی ارادہ اپنی حقیقت پر نہیں ہے اور معتزلہ کے ہاں بھی نہیں ہے ۔اور ان کے ہاں بھی نہیں ہے جوکائنات کو نوع کے اعتبار سےقدیم مانتے ہیں۔کیونکہ ارادہ کامطلب ہے کہ چاہیں توکریں چاہیں تونہ کریں۔جن کے ہاں کسی اعتبار سے کرنا ضروری ہے ان کے ہاں ارادہ کا اثبات نہیں ہے ۔یہ بات یوں سمجھیں کہ فاعل مختار وہ ہوتاہے کہ الذی یتاتی منہ صحۃ الفعل والترک علی سواء ’’جس سے فعل اور ترک بالکل ایک جیسا وارد ہوسکے۔‘‘یعنی چاہے تووہ فعل کردے‘چاہے تووہ فعل نہ کرے۔جس کو ہم اپنی عبارت میں کہتے ہیں : مَاشَاءَ اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ۔ یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔بہت مشہور حدیث ہے ۔حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کے پاس ہم بیٹھے تھے ۔ایک صاحب دوڑتے ہوئے آئے کہنے لگے ۔ قَدِ احْتَرَقَتْ دَارُک تمہارا گھر جل گیا۔ انہوں نے کہا: وَاللہِ مَا احْتَرَقَتْ دَارِی (اللہ کی قسم! میرا گھر نہیں جلا(حضرت حسن بصریؒ نے صحابی کانام نہیں لیا‘ لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے۔) حسن بصری کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ لوگ آپ کوکہہ رہے ہیںکہ آپ کا گھر جل گیا ہے اورآپ جواب دے رہے ہیں کہ میرا گھر نہیں جلا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ جوصبح کو یہ الفاظ کہے تواسے اس دن اپنے گھر‘ اپنے مال اور اپنے گھروالوں میں کوئی تکلیف نہیں دیکھنی پڑے گی۔چنانچہ ان کاایمان اتنا قوی تھا کہ واقعی ان کا گھر نہیں جلاتھابلکہ ساتھ والا گھر جلاتھااوران کے گھر کوکچھ بھی نہیں ہوا۔ان سے پوچھا گیا توانہوں نے بتایا کہ وہ الفاظ یہ ہیں:
اِنَّ رَبِّیَ اللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ‘ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘ مَاشَاءَ اللہُ کَانَ وَمَالَمْ یَشَاْ لَا یَکُوْنُ‘ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘ اَشْھَدُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘ وَاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا
’’یقیناً میرا رب اللہ ہے‘ جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ (برائی سے بچنے کی) کوئی طاقت نہیں اور (نیکی اختیار کرنے کی) کوئی قوت نہیں مگر اللہ ہی کے اذن سے‘ جوبلند و برتر ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے‘ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر شے پر محیط ہے۔‘‘
اس کے بعد آخری الفاظ بہت اہم ہیں‘ آج کل جووبا پھیلی ہوئی ہے اس کے اعتبار سے بھی ۔فرمایا:
اَعُوذُ بِالَّذِی یُمْسِکُ السَّمَاءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ’’میں اُس ہستی کی پناہ میں آتا ہوں جس نے آسمانوں کو تھام رکھا ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں مگر اللہ کے حکم سے ‘‘۔ کس شے سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں: مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ رَبِّیْ آخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا ہراُس دابہ کے شر سے جس کی پیشانی (جس کاارادہ)میرے رب کے کنٹرول میں ہے ۔‘‘یہاں ناصیہ سے مراد بھی اس کا ارادہ ہے۔اور ’’دابہ‘‘چوپایہ کو نہیں کہتے ‘وہ ’’اَنعام‘‘ ہوتاہے‘بلکہ دابہ ہرمخلوق ہے ۔ چھوٹی سی چھوٹی شے بھی دابہ ہے۔ علماء نے کہاہے کہ ہروہ شے جوحرکت کرسکے وہ دابہ ہے ۔ اِنَّ رَبّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ’’یقیناً میرارب تو سیدھی راہ پر ہے۔‘‘یہ مضمون قرآن حکیم میں سورئہ ہود کی آیت۵۶ میںآیا ہے۔
اور سب سے اہم بات جو اس دعا میں آئی ہے وہ ہے : مَاشَاءَ اللہُ کَانَ وَمَالَمْ یَشَاْ لَا یَکُوْنُ۔ اس کے لیے سورۃ التکویر کی آخری آیات ملاحظہ کیجیے:
{اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۷) لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ (۲۸) وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (۲۹)}
’’یہ تمام جہانوں کے لیے یاددہانی ہے ۔ ہر اُس شخص کے لیے جو سیدھا ہونا چاہے۔ اور تم چاہ بھی نہیں سکتے جب تک اللہ نہ چاہے۔‘‘
اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہوتاہے کہ اپنی مشیت پر بھی تمہارا اعتماد اور بھروسہ نہ ہو۔یعنی ہدایت پرچلنے میں بھی اپنے ارا دے پربھروسہ نہ کرو بلکہ اللہ سے توفیق مانگو‘کیونکہ تمہارا ارادہ اور تمہاری مشیت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے بعد واقع ہوتی ہے ۔اس میں بھاگنے والا عمل سے بھاگ بھی سکتا ہے۔جس کے دل میں ٹیڑھ ہو وہ کہے گاکہ اس کامطلب ہے کہ اللہ چاہے گا توہوجائے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں بتایا جارہا ہے کہ ہدایت میں بھی میرے اوپر ہی اعتماد کرو!
معتزلہ کی تاویل باطل
اس آیت میں تھوڑی سی بحث ہے ۔معتزلہ نے تاویل کی ‘لیکن وہ تاویل ٹھیک نہیں ہے ۔آیت کے سیاق وسباق پرغور کرنے سے وہ تاویل رد ہوجاتی ہے ۔یعنی انہوںنے کہا: {وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)} کامطلب ہے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تووہ تمہیں صفت مشیت نہ دیتا۔ تمہیں مشیت اور ارادے کی صفت دی ہے‘ جس سے تم ارادہ کرتے ہو۔اگر اللہ چاہتا توتمہارے اندر ارادہ ہی پیدا نہ کرتا۔یہاں جزوی ارادے کی بات نہیں ہورہی کہ یہ ارادہ کروں یاوہ ارادہ کروں ‘بلکہ صفت ِ ارادہ کی بات ہورہی ہے ۔یہ بظاہردل کولگنے والی بات ہے‘ لیکن ہمارے علماء نے کہاکہ ذرا سیاق پرغور کرو‘جس ارادے کے پیچھے بات ہورہی ہے وہ ارادہ بمعنی صفت یاملکہ نہیں بلکہ وہ جزوی ارادہ ہے ۔’’جوتم میں سیدھا رہنے کا ارادہ کرے ‘‘میں کون سے ارادے کی بات ہورہی ہے ؟وہی جواس صفت ارادہ سے پیدا ہونے والاا ر ادہ ہے جس کوآپ جزوی ارادہ کہتے ہیں۔ملکہ ارادہ دیاگیا ہے ‘اس میں اہل سُنّت اور معتزلہ میں کوئی اختلاف نہیں ۔ملکہ سے اب جوارادہ پیداہوا ہے معتزلہ کہتے ہیں وہ ہماری مرضی سے ہوتا ہے ‘اس میں خدا کاارادہ نہیں ہوتا۔اہل سُنّت کہتے ہیں کہ یہ بھی خدا کے ارادے کے تابع ہوتاہے ۔اس آیت میں جزوی ارادے کی ہی بات ہورہی ہے ۔بہرحال معتزلہ نے یہاں جوتاویل کی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ‘اس سے ارادے کاپورا مفہوم ہی خراب ہوجاتاہے ۔یعنی ا س آیت کے اندر جوایک عظمت ہے اور ایک مفہوم ہے وہ ختم ہوجائے گا۔اللہ توکہہ رہے ہیں جوسیدھا ہونا چاہے وہ سیدھاہو جائے ۔اور پھر فرمایا کہ تم سیدھا بھی نہیں ہوسکتے‘چاہ نہیں سکتے جب تک میں نہ چاہوں ۔تواپنے اس جزوی ارادے میں میرے اوپر اعتماد کرنا‘اپنے اوپر اعتماد نہ کرنااورمجھ سے توفیق کے طلبگار ہونااور اپنے اوپر بھروسہ اور توکل نہ کرنا۔یہی ’’اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ کامفہوم ہے ۔
اس طرح کی جتنی آیات ہیں‘کہیں اسی صفت کواذن کہا:
{ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ۭ} (یونس:۱۰۰)
’’کوئی شخص ایمان نہیں لاسکتامگراللہ کااذن ہو!‘‘توکہیں اذن کہہ دیا۔پھر آپ دیکھتے ہیں کتنی جگہوں پرآتاہے : {یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ}۔{وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۴۶)}(النور) ’’ اور اللہ جس کو چاہتا ہےسیدھے راستے کی ہدایت دیتاہے ‘‘ ۔ {یُدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ ط}(الشوریٰ:۸) ’’جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ۔‘‘ {یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط}(آل عمران:۷۴) ’’وہ مختص کر لیتا ہے اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے‘‘۔یہ سارے مقامات یہی بتارہے ہیں کہ اللہ کی ایک مشیت عمومی چل رہی ہے جس سے کوئی شے باہر نہیں ہے ۔ فاعل مختاروہ ہے کہ جو کرنے اور نہ کرنے دونوں میں ایک جیسا اختیار رکھتا ہو۔اب جن لوگوں کے ہاں بھی اللہ سے کائنات کاخلق یاصدور ضروری ہوگیا ان کے ہاں ارادہ اپنی حقیقت پر برقرار نہیں رہا۔یعنی اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کیاہوسکتا تھا کہ کائنات نہ ہوتی‘کوئی مخلوق وجود میں نہ آتی؟ وہ کہتے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔فلاسفہ کے ہاں کیونکہ خدا علت اولیٰ ہے ‘ا س سے چیزیں صادر ہونی ہی ہونی ہیں ۔اسی طریقے پر جن لوگوں کے ہاں خدا کی تخلیق کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہروقت لازماً پید اکرتا رہے ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ پیدا نہ کرے ۔یہ اُس کے کمال کے خلاف ہے ۔وہاں بھی ارادے کی صفت ثابت نہیں ہورہی۔ معتزلہ نے کہاکہ ارادہ بس علم ہے۔اللہ جانتا ہے‘ اس کے موافق ارادہ فرمالیتا ہے۔یہ عجیب بات وہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا ارادہ اُس کے علم کے تابع ہے ۔ ان کے ہاں اللہ سے خارج میں بھی کچھ سٹینڈرڈز ہیں ‘اللہ پربھی کچھ چیزیں واجب ہیں ۔جب اس نے جان لیا کہ ایسا ہونا اچھاہے توبس ایسے ہی ہوگا۔ توکسی کے مذہب پر بھی فاعل مختا ر کااطلاق نہیں ہوسکتا۔یہاں تک کہ ہمارے فلاسفہ میں ابن سیناوغیرہ کی ایک عبارت ہے کہ اللہ کا ارادہ کیاہے۔ کہتے ہیں : العلم بالنظام الاکمل یعنی اکمل نظام کاعلم جواللہ کا تھا بس وہی ارادہ ہے ۔اُس کے پاس وہ علم تھا اوراس علم کی وجہ سے یہ چیزیں صدور پذیر ہوتی چلی گئیں ۔ اہل سُنّت کے اصول میں ایک بہت اہم بات ارادہ اور علم میں فرق کرنا ہے ۔علم الگ شے ہے اور ارادہ الگ شے ہے اور ان دونوں کے مجموعے سے عقیدہ تقدیر بنتا ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جوچاہتا ہے کرتا ہے اور جونہیں چاہتا نہیں کرتا۔اس پرخارج میں کوئی جبر نہیں ہے ۔
مسئلہ تعلیل افعال
اہل سُنّت ہی کایہ کمال ہے اللہ کے فضل سے کہ صفت ارادہ کے اثبات میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں جس کی وجہ سے لوگوں نے ان کابہت مذاق بھی اڑایا۔اس مسئلے کو کہتے ہیں :اللہ کے افعال کی تعلیل۔ارسطو سے علت کی چار اقسام منقول ہیں ۔ایک علت فاعلہ ہے‘ وہ ایکٹو کاز ہے ۔ایک علت مادی ہے‘ وہ میٹریل کاز ہے۔ ایک علت غائیہ ہے‘ وہ فائنل کاز ہے ۔ایک فارمل کاز ہے ‘جسے علت صوری کہتے ہیں ۔مسئلہ تعلیل افعال کاتعلق فائنل کاز یاعلت غائیہ سے ہے۔آپ جانتے ہیں کہ فائنل کاز وجود میں سب سے آخر میں ہوتی ہے‘ تصور میں سب سے پہلے ہوتی ہے ۔ جیسے آپ نے کرسی بنانی ہے توکرسی کی تمام علل سے پہلے اس کرسی سے آپ نے حاصل کیاکرنا ہے؟ یعنی علت غائیہ( فائنل کاز) ذہن میں وارد ہوگی توعمل شروع ہوگا۔لیکن اس کا ظہور سب سے آخر میں ہوگا۔کرسی پر سب سے آخر میں بیٹھیں گے جب وہ تیار ہوچکی ہوگی۔مسئلہ تعلیل افعال کامطلب ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کوئی کام کررہا ہے توا س کے پیچھے کوئی غرض وغایت ہوتی ہے ۔یہی علت غائیہ ہے ۔اس کوکہتے ہیں کہ اللہ کے افعال کو معلل قرار دیاجاسکتا ہے ۔کہاجاتاہے کہ غرض وغایت توہونی ہی ہوتی ہے اور ہم عام زبان میں بولتے بھی ہیںکہ اللہ کے افعال میں حکمت ہے اور وہ ہم ٹھیک بولتے ہیں ۔میں اس کو غلط نہیں کہہ رہا لیکن اس کواہل سُنّت اس طرح سمجھتے ہیں کہ اگر معتزلہ نے کہاکہ اہل سُنّت کے نزدیک اللہ کے افعال میں غرض کوئی نہیں ہوتی توپھر اسی کوتوہم عبث کہتے ہیں ۔اگر آپ کوئی کام کریں اور آپ کے ذہن میں کوئی فائنل کاز نہ ہو‘کوئی علت غائیہ نہ ہوتوآپ فضول کام کررہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ توکہتاہے : {اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا} (المؤمنون:۱۱۵) چنانچہ اللہ کی تخلیق عبث تو نہیں ہے !
{وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ ط } (الحجر:۸۵)
’’اور ہم نے پیدا نہیں کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق کے ساتھ!‘‘
کیااہل سُنّت کو اتنی واضح بات نہیں معلوم ہوسکی کہ اللہ تعالیٰ توعبث نہیں کرتے؟ اہل سُنّت نے یہ ایک خاص اصول کے تحت کیا اور انہوں نے غرض وغایت کا انکار نہیں کیا‘بلکہ انہوں نے ا س بات کا انکارکیاکہ اللہ کے سوا یعنی اللہ کے خارج میں کوئی غرض اللہ کو فعل پر آمادہ کرے‘ کیونکہ یہ محتاج ہونے کی دلیل ہے ۔یعنی انسان واقعی محتاج ہے کسی شے کے فائنل کاز کا۔وہ ہوتووہ کام کرنا شروع کرتا ہے ۔اللہ کے بارے میں ہم یہ تصور نہیں کرسکتے‘کیونکہ اللہ فاعل مختا ر ہے اور ا س پر خارج میں کوئی جبر نہیں ہے ‘کوئی احتیاج نہیں ہے ۔ چنانچہ انہوںنے کہا کہ اس معنی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے افعال معلل نہیں ہوتے‘اللہ فعل کرتا ہے تواس سے حکمتیں اور غرض وجو د میں آنالازم ہے۔اس سے حکمتیں وجود میں آئیں گی لیکن وہ حکمتیں او ر اغراض جو خارج میں وجود میں آرہی ہیں وہ اللہ کو افعال پرآمادہ کرنے والی نہیں ہیں جس طرح ایک انسان کواس کی علت ِغائیہ فعل پرآمادہ کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ اس معنی میں بالکل فاعل مختار ہے‘ اس پر کوئی جبر کہیں سے نہیں آتا۔یہ فاعل مختار ثابت کرنے کے لیے ہے۔وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں حکمتیں نہیں ہیں ‘قرآن کی بے شمار آیات اس مفہوم کا ثبوت ہیں ۔ہمارافعل غرض کے پیچھے چلتا ہے‘ اللہ کے فعل کے پیچھے غرض آتی ہے ۔یعنی ہم اپنے فعل کو غرض پیش نظر رکھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں۔ہمارا فعل اس غرض کے تابع ہے‘ اس غرض تک پہنچ کراسے حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ا للہ تعالیٰ کا فعل اس طرح نہیں ہے کہ اللہ کو کوئی غرض چاہیے ۔اللہ تعالیٰ جب فعل کرے گا تواس سے حکمتیں اور غرض اس کے تابع ہوکربرآمد ہونا شروع ہوجائیں گی ‘کیونکہ اللہ الحکیم ہے ۔ ا س معنی میں اللہ کے کاموں میں کوئی انکار نہیں کرتاکہ وہاں حکمت یاغرض نہیں ہوتی‘ لیکن وہ غرض اور حکمت اللہ کے فعل کے تابع ہوتی ہے‘ اللہ کا فعل اس غرض اور حکمت کے تابع نہیں ہے ۔اللہ کے سوا خارج میں کوئی سٹینڈرڈ‘کوئی معیار(criteria)نہیں ہے جس کواللہ فالو کرے۔نعوذباللہ!اور اگرا یسا ہوجائے توپھر اس کے اندرجبر کامفہوم اور احتیاج کا مفہوم پید اہوجائے گا۔
اللہ کے فضل سے اہل سُنّت کے اس عقیدے میں ہرقسم کے جبر اور احتیاج کی نفی ہے‘ یہاں تک کہ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ کس طرح ہے۔ لیکن اگر سمجھایاجائے توبات واضح بھی ہے ۔جیسے علم ہے ۔ہماراعلم اگر معلوم کے تابع ہوگاتووہ صحیح علم ہوگا۔یعنی خارج میں ایک شے ہے‘ اس کے مطابق ہمارا علم ہوجائے توعلم صحیح ہے‘ لیکن اللہ کا علم ایسا نہیں ہے!علماء نے کہا کہ اللہ کے علم کے مطابق معلوم ہوجاتاہے۔ یعنی اللہ کی صفات کو اپنی صفات پرقیاس نہیں کرنا چاہیے کہ ہم سوچیں کہ کائنات بنانی ہے توکیوں بنانی ہے‘ اس کا کیافائدہ حاصل ہوگا۔غرض پیش نظررکھی جائے اور ایک پوری فزیبیلٹی رپورٹ تیار رکھی جائے ۔توایسا وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کہیں گے کہ پھر وہاں کیاہے‘ کس طرح ہورہاہے؟یہی بتانا چاہ رہے ہیں کہ اُس ذات کو تمہاری عقل نہیں پاسکتی تواس بات کی یہ وضاحت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے افعال معلل نہیں ہیں ۔فاعل مختار کے حوالے سے یہ مسئلہ زیربحث اس لیے آیا کہ اگر اللہ کے فعل کے پیچھے کوئی علت غائیہ ہوگی تواس علت غائیہ کی وجہ سے اللہ فعل کررہا ہے ۔اب گویا فعل کو عدم پرترجیح دینے والی ایک شے پیدا ہوگئی اور وہ خارج میں ہے تویہ فاعل مختار نہ رہا۔فاعل مختاروہ ہے جس کے لیے فعل اور ترکِ فعل بالکل ایک جیسا ہے ۔پھر کیوں اُس نے فعل کیا؟اس کی وجہ محض ارادہ ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ارادے کی علت کیاہوگی؟اہل سُنّت نے اس سوال پر بحث کی۔اہل سُنّت نے کہا کہ دیکھو ارادہ کہتے ہی اس کوہیں جس میں دوبرابر چیزوں میں تخصیص کردی جائے ۔یعنی ارادے کا یہ ذاتی فعل ہوتاہے ۔ارادے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ دو میں سے ایک شے کو مخصص کرے گا ۔لہٰذا جب ارادے کی یہ ذاتی تعریف ہوگئی تومنطق کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ الذاتی لایعلل۔ جو اُس کی ذاتی شے ہے اب اس میں مزید علت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔توارادے کا کام ہی تخصیص ہے۔ اورآپ کہیں کہ ہمارے ارادے کا کام تخصیص توہو تاہے لیکن ہمارا ارادہ کچھ بیرونی یاداخلی عوامل کی وجہ سے ہے ۔اسی کی توہم اللہ سے نفی کر رہے ہیں کہ وہاں احتیاج نہیں ہے ۔یعنی اگر تم سوال اٹھائوکہ ارادے کو کس کام نے مجبور کیایا ارادے کو کس نے مجبور کیا؟ توپھر تم اللہ کو اپنے اوپر قیاس کرنا شروع کررہے ہواور تم کہنا یہ چاہ رہے ہو کہ اللہ کا ارادہ بھی بیرونی یاداخلی عوامل کے تابع ہوتاہے ۔ہمارا ارادہ تابع ہوتاہے اس میں توکوئی شک نہیں ہے ۔ہم ارادہ کرتے ہیں توکچھ حاصل کرنے کے لیے ‘کچھ اند رکی کمی دور کرنے کے لیے ۔کچھ مسائل ہوتے ہیں‘ چاہے وہ خارج کے اثرات ہوں چاہے داخل کے اثرات ہوں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں ارادہ اپنے اطلاق کے ساتھ بلاشرط پایا جاتا ہے جس میں کسی قسم کاکوئی جبر نہیں ہے ۔تومعتزلہ کے ہاں ایک قسم کے ارادے کی نفی ہے‘ جب انہوں نے اللہ پر چیزیں واجب کرلیں‘ مثلاً وجوبِ اصلح یاانبیاء کا بھیجناضروری ہے ‘ہدایت ہرایک کوبرابردیناضروری ہے‘ وغیرہ وغیرہ ۔فلاسفہ کے ہاں توبالکل واضح ہے‘ وہ ارادہ مانتے ہی نہیں ہیں‘ وہ توصدور مانتے ہیں‘ یعنی اللہ سے بس چیزیں صدور پذیر ہوتی ہیں۔
تیسرا وہ مسلک جس میں لگتا یہ ہے کہ ارادے کا اثبات ہے‘ لیکن اس میں بھی ارا دے کا اس طریقے پر اثبات نہیں ہے ‘کیونکہ اس میں یہ تصور کرلیاگیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہروقت اس سے فعل صادر ہوتارہے ۔ توجس سے ہروقت فعل صاد رہونا ضروری ہے تووہ فاعل مختار نہیں ہوتا۔اہل سُنّت کے ہاں اللہ کے فضل سے یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختا رہے ۔اللہ تعالیٰ : { فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ } ہے اس آیت میں گویا بتایاجارہا ہے کہ اللہ کے فعل کے پیچھے بس ارادہ ہوتاہے ۔یعنی وہ ہروہ کام کرگزرتا ہے جس کا وہ بس ارادہ کرے۔کوئی اس کی علت نہیں ہوتی ۔اسی لیے جن جگہوں پر پہنچ کر انسانی عقل اـٹک جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات سے کچھ استفادہ نہیں کرتے‘ جب ہم نے توحیدکی حیثیت سے یہ مان لیاتوپھر کیوں کائنات بنائی ہے ؟ واقعی وہاں پہنچ کر یہی بتانا پڑتا ہے :{ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ(۲۳)}(الانبیاء) ’’جووہ کرتا ہے اس سے پوچھانہ جائے گااوران سے ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس لیے بتائی ہے ۔اب اس سے سوال نہیں ہوسکتا ‘ آپ سے اورمیرے سے سوال ہوسکتا ہے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟آپ کچھ علتیں اور غرض بتائیں گے کہ میں نے اس وجہ سے کردیااور یہ وجہ بن گئی۔ اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں ہوسکتا‘ان سے سوال ہوگا۔کیونکہ ان پرخارجی اور داخلی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں ‘ان کاارادہ محدود ہے ‘ان کا ارادہ بھی بہت سی چیزوں کے تابع ہے۔یہاں سوال بن سکتاہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا؟ لیکن اللہ تعالیٰ سے آپ پوچھیں کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا؟تواس کیوں کی نفی ابھی ہم نے علت غائیہ کی بحث کے تحت کی ہے ۔
صفت ِارادہ کاسلوک الی اللہ سے تعلق
اہل سُنّت کی ایک روایت ہے اورپوری امت کاسوادِ اعظم ہمیشہ سے وہیں رہے ہیں ۔یعنی ابھی بھی امت کی اکثریت اہل سُنّت ہی ہیں ۔ اِدھراُ دھر حاشیوں میں فرقے بنتے رہتے ہیں اور کچھ وقت کے لیے جیسے جھاگ غالب آتی ہے‘ آجاتے ہیں ۔معتزلہ کا طوطی سوسال تک بولاہے اوراہل سُنّت گویاغائب سے ہوگئے اور معتزلہ کے حکمرانوں کے ساتھ میل جول ہوگئے ۔ جس طرح قرآن میں ہے کہ وقتی طور پر جھاگ آجاتی ہے اور پھر جھاگ چلی جاتی ہے اور نیچے خالص پانی رہ جاتا ہے جولوگوں کو نفع دیتا ہے۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ قبول عام اور استمرار اہل ِ تسنن ہی کو حاصل رہا ۔ باقی فرقوں کی نفی نہیں ہورہی‘ لیکن اگرآپ غور کریں گے توجواللہ کے اولیاء ‘ نیک اور صالحین لوگ اہل سُنّت کے دائرے میں پید اہوئے اتنی کثرت کے ساتھ دوسرے فرقوں میں بالکل نظر نہیں آتے۔اس کی وجہ علماء نے ایک یہ بتائی کہ وہ یہ صفت ارادہ کا بیان ہے ۔یعنی میں بتانایہ چاہ رہا ہوں کہ اس عقیدے کاعلم سلوک سے کیاتعلق ہے۔جہاں بھی آپ خدا کے بارے میں ایسا عقیدہ فلاسفہ یامعتزلہ کے طرز پر رکھ لیں کہ خد اپرکچھ چیزیں واجب ہیں اور خدا نے کچھ کرناہی کرنا ہے اور خدانے سب کوا یک جیسادیناہی دینا ہے۔ جہاں خدا فاعل مختا ر نہیں ہے وہاں اس سے وہ تعلق قائم نہیں ہوسکتاکہ جو تعلق دین میں درکار ہے ۔اور وہ تعلق کیاہے؟ یہی کہ میں جس کی عبادت کررہا ہوںوہاں احتیاج اور نقص کا دور دور تک کچھ شائبہ نہیں ہے اور وہاں بس اس کا ارادہ مطلقہ ہے جس پر کسی قسم کا جبر نہیں ہے ۔کوئی شے اُس کے ارادے کو مجبور نہیں کرتی‘وہ کسی کو دینے پرمجبور نہیں ہے‘ محض اپنی رحمت سے دے رہاہے ۔فلاسفہ کہہ رہے ہیں سب کوبرابر دے رہا ہے‘ بس اپنی اپنی قابلیت کے اعتبار سے اختلاف پیدا ہوجاتاہے ۔معتزلہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ سب کو برابر ہدایت دینااس کے لیے ضروری ہے ۔
جہاں آپ خد اکے بارے میں خصوصاً صفت ارادہ اور قدرت کے بارے میں کچھ نقص والے تصورات قبول کرلیتے ہیں تووہاں خدا سے تعلق میں جو ایک گرم جوشی اوروالہانہ پن ہے وہ پیدا نہیں ہوپاتا۔اور بھی بہت سی وجوہات ہیں‘ لیکن یہ ایک وجہ ہے جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ سے تعلق کی جوشدت اور گرمی اہل سُنّت کے ہاں نظر آئی‘ خصوصاًان کے تصوف میں اور علم سلوک میں ‘اور اللہ کے اولیاء جو پیدا ہوئے وہ باقی جگہوں پر ا س طرح نظر نہیں آتی ۔ اس کی ایک وجہ یہ صفت ارادہ ہے ۔یعنی صفت ارادہ کا یہ بیان ہے اور یہی حقیقت ہے جواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان کی۔قرآن میں آپ کو ایسے ہی نظر آئے گا ۔ اگر آپ پڑھتے چلے جائیں گے۔ اس کی مشیت بالکل عامہ ہے‘ اس پرکوئی جبر نہیں ہے۔ چاہتا توتم سب کو ہدایت دے دیتایعنی :{فَلَوْ شَآئَ لَہَدٰ ىکُمْ اَجْمَعِیْنَ(۱۴۹)}(الانعام) اُس پر کوئی جبر نہیں ! {یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ ط}(الشوریٰ:۸) آپ دیکھتے ہیں جس طرح کاعمومی لیکن زوردار اور شاہانہ بیان ہے اس کو تاویلات کے فلسفے میں ڈال دیں گے توخراب ہوجائے گا۔اُس کی عظمت اور مشیت کا بیان ہورہاہے کہ جس کو چاہتاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ۔ {یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُط} (البقرۃ:۱۰۵) مَن کلمات عموم میں سے ہے ۔ مَن او ر مَا عموم میں سے ہوتے ہیں ۔ تو مَنْ یَّشَاءُ جس کو چاہتا ہے۔بہرحال یہ ایک بڑی وجہ ہے اللہ کے فضل سے ۔لہٰذا آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ صرف فضول بحث نہیں تھی ۔یہ بحث اس اعتبار سے بھی بہت ضروری ہے کہ اس ایمان کو اعماقِ دل میں اتار لیا جائےتویقیناًیہ احوال پیدا کرے گا۔
آخری بات کہ {اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (۸۲)} (یٰسٓ) کے حوالے سے ایک صاحب کا اشکال تھا کہ ’’ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا‘‘ میں لگ رہا ہے کہ ارادہ حادثہ ہے ‘زمان میں ہے ۔ کیونکہ اِذَا ظرف زمان ہے ۔صرف اس آیت سے نہیں بہت سی آیات سے ظاہراً ایسا مفہوم پیدا ہوسکتا ہےجس میں نعوذباللہ ‘جسمانیت یا مکانیت لازم آرہی ہو۔ہم نے اسی طرح کی آیات کے بارے میں گفتگو کی تھی کہ جب ہمیں کچھ محکمات مل گئی ہیں مثلاً لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ توہم ان محکمات کی روشنی میں ان آیات کو دیکھیں گے ۔
{اِنَّمَااَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا} میں اکثرمفسرین بتاتے ہیں کہ ا س میں بس اصلاًاللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مراد کاخارج میں سرعت کے ساتھ ‘تیزی کے ساتھ متحقق ہوجانے کی طر ف اشارہ ہے۔ بہت سے مفسرین جیسے امام رازی اور دوسروں نے کہا کہ یہ رمزی کلام بھی ہوسکتا ہے۔پھریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کا جوارادہ قدیمہ ہے جب اُس کے نتیجے میں وہ شے وجود میں آنے لگتی ہے تواُس وقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسی ارادہ قدیمہ سے کوئی قال بھی پیدا فرمادیتے ہیں کہ جس میں اس شے سے خطاب ہوتاہے ۔یہ بھی ممکن ہے‘ لیکن اس کی یہ شرح نہیں ہوسکتی کہ ارادہ پہلے نہیں تھا‘اب کرلیا اچانک۔یہ نہیں ہوتا کہ اللہ کا ارادہ نہیں تھااور پھر اللہ نے کہا کہ کرلیتے ہیں ۔ اللہ خارج اززمان ومکان ہے تو یقیناًوہاں ٹائم نہیں ہے ۔یہ ہمارے کچھ محدود تصورات ہیں جس کی وجہ سے ہم جب سوچ رہے ہوتے ہیں توہمیں ایسا لگتا ہے ۔باقی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٹائم اینڈسپیس سے منزہ اور متعالی ہے۔ اُس کے اوپر وقت نہیں گزرتا ‘وقت ہم پرگزرتا ہے ۔
اسی طرح اللہ کی مراد فوری وجود میں آجاتی ہے ۔آپ کہیں گے کہ کچھ مرادیں آہستہ آہستہ وجود میں آتی ہیں۔وہاں اللہ کی مراد ہی یہ ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ وجود میں آئے ۔یعنی اللہ نے چاہا اس طرح ہے کہ وہ تدریجاً‘ شَیْئًا فَشَیْئًا وجود میں آجائے ۔اللہ کی مراد جس طرح کی ہوگی اس طرح کی وجود میں آجائے گی ۔اگر اللہ کی مراد یہ ہے کہ یہاں اچانک کوئی شے کامل وجود کے ساتھ پیدا ہوجائے توکامل وجود کے ساتھ ہوجائے گی ۔اور اگر اللہ کی مرا دیہ ہے کہ بیج سے آہستہ آہستہ کرکے درخت نکلے تواللہ کی مراد کے مطابق بیج سے آہستہ آہستہ درخت نکلے گا۔دونوں صورتوں میں مراد اللہ ہی کی ہے ۔اللہ نے جو ارادہ کیااس کے مطابق شے واقع ہورہی ہے۔
عمل کو نہیں‘ عمل کے نتائج کو اللہ پر چھوڑنا تقدیر ہے
صفت ارادہ کی علم سلوک میں کتنی اہمیت ہے یہ ہم دیکھ آئے ہیں ۔ہم تقدیر کاعقیدہ دیکھتے ہیں تولوگ اس کو عمل سے دور ہونے کے لیے ایک دلیل بھی بناتے ہیں ۔لیکن یہی اولیاء اللہ جن کی بات ہورہی تھی کہ جو اس صفت ارادہ کو صحیح سمجھ کر اللہ کے قریب ہوگئے توانہوں نے اس عقیدئہ تقدیرمیں عمل سے دوری نہیں دیکھی‘ بلکہ انہوں نے اس کی بنا پراللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کرلیا۔ آپ کو آپ کا محبوب‘یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ بتارہے ہیں کہ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔یہ شے اُس شخص کے لیے جومحب ہے نہایت تسلی اور سکینت کاباعث اوراطمینان بخش بات ہے کہ جو میرا محبوب اور معبود ہے اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔الحمدللہ ‘پھر توسب خیریت ہے ۔
{ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ھُوَ مَوْلٰىنَا ۚ} (التوبۃ:۵۱)
’’آپؐ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اُس کے کہ جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ دیا ہے‘ کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی۔ وہ ہمارا کار ساز اور مولاہے۔‘‘
وہ ہمارا مولیٰ ہے ‘ہمارا نگہبان بھی ہے تواُس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا‘ توپھر پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں۔اصلاً یہ عقیدئہ تقدیر عمل چھوڑنے کے لیے نہیں ہے‘ عمل کرتے ہوئے عمل کے ساتھ جولواحقات اپنے عمل پرخود dependent ہونے کی وجہ سے پیدا ہوجاتے ہیں ان سب سے چھٹکارا ہے ۔یعنی آپ عمل کریں گے او رعمل کانتیجہ چونکہ آپ عمل کے اندر نہیں دیکھ رہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت پر دیکھ رہے ہیں توبس پھر آپ کانہ اپنے عمل پرانحصار ہوگا‘نہ اپنے عمل پربھروسہ ہوگا‘اور نہ ہی دنیا میں اپنے عمل کے ثمرات اور نتائج نہ دیکھ کر اتنا افسوس ہو گا ۔اس لیے کہ بالآخر مجھے پتا تھا کہ میرے عمل سے نتیجہ پیدا نہیں ہونا۔ہرشے پہلے سے اللہ نے کتاب میں لکھی ہے تواس کافائدہ ہےکہ :{لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ}(الحدید:۲۳) ’’تاکہ جو تم سے رہ جائے اس پر افسوس نہ کرو‘‘۔افسوس تو اُس وقت ہوتا کہ نتیجہ میرے عمل سے پیدا ہوناہوتا۔ {وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىکُمْ ۭ} (الحدید:۲۳) ’’اورجومل گیا اس پر پھولے نہ سمائو‘‘اور خوشی سے اترائو مت اور تکبر نہ کرو‘اس لیے کہ وہ تمہارے عمل کانتیجہ نہیں ہے‘ وہ اللہ کافضل ہے۔توعقیدہ تقدیر اور صفت ارادہ کو اس طرح سمجھنا اللہ سے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے قریب ہونے کی راہ ہے ۔اورا گر آپ کویہ بتادیاجائے مثلاًکہ آپ کا معبود وہ ہے جس کی مرضی کے بغیر بھی کچھ ہوجاتاہے تواُس معبود سے کیسے والہانہ تعلق رکھیں گے ؟یعنی اگر اُس کی مرضی کے بغیر بھی کچھ ہوسکتا ہے تومعبود اس قابل نہیں ہے کہ اس پرانحصار کیاجائے۔
عقیدئہ تقدیر آپ کو بتارہا ہے کہ آپ کے معبود کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔اس کی وجہ سے معبود پر اعتماد ہوگا‘اللہ پراعتماد اور توکّل بڑھ جائے گانہ کے کم ہو گا۔ہاں بس اس کاسوئے فہم تب پیدا ہوتا ہے کہ جب عمل چھوڑ دیتے ہیں ۔عمل بھی تواللہ کا حکم ہے نا! عمل کرواور اللہ پر توکل کرو!لیکن عقیدہ تقدیر کی وجہ سے عمل پرتوکل ختم ہوتا چلاجائے گا‘اسباب پرتوکل ختم ہوجائے گا۔سبب سے کچھ نہیں ہوگا۔ جیسے ہم نے وہ دعادیکھی۔وہ کتنی خوبصورت دعا ہے کہ ہرشے کی پیشانی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ توحضرت ھود علیہ السلام نے یہی بتایاتھاکہ :
{اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیْ وَرَبِّکُمْ ط مَا مِنْ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِہَاط} (ھود:۵۶)
یعنی میں اللہ پرتوکّل کرتاہوں جومیرا اور تمہارارب ہے‘ ا س وجہ سے کہ کوئی جان دار شے نہیںہے مگراُس کاا رادہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔توپھر آپ کاسبب پراعتماد نہیں ہوگا۔کسی کے سامنے سرجھکانا‘کسی کی چاپلوسیاں اور خوشامدیں کرنا‘اور مختلف درباروں پر جاکرسرکوٹیک دینااور ہروقت اسباب کی دنیا میں گھرے رہنا‘ اس اعتبارسے کہ اس سبب پر اعتماد ہے ‘اس پر بھی اعتماد ہے ‘دل کٹاپھٹا ہے ‘مختلف وادیوں میں گھوم رہا ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے کہا تھا : {ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (۳۹)}(یوسف) ’’کیا متفرق کئی ایک رب بہتر ہیں یاایک اللہ جوالواحد القہار ہے!‘‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صفت ارادہ کی اس فلسفیانہ بحث کونہ بھی سمجھاجائے ‘لیکن اتناضرور سمجھ لیجیے کہ آپ نے اگر اللہ سے سچاتعلق قائم کرنا ہے تواس کے لیے شرط ہے کہ آپ اللہ کو اس طرح مانیں۔ اورحقیقت میں بھی ایساہی ہے کہ اللہ کے ارادے کے بغیرکچھ نہیں ہوتااور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے پر کسی قسم کاکوئی جبر نہیں ہے ۔یعنی اگر آج کی گفتگو کا خلاصہ دیکھیں تویہی دوالفاظ ہیں۔اللہ کے ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہوتااور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے پر جبر کوئی نہیں ۔وہ ارادہ مطلقہ ہے‘ کوئی شے اسے مجبور کرنے والی نہیں ہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025