بسم اللہ الرحمن الرحیماللہ تعالیٰ سے حیا کرنا اور اس کے مقتضیاتڈاکٹر ابصار احمدعالم اسلام میں بالعموم اور ہمارے وطن عزیز پاکستان میں بالخصوص آبادی کے بڑے حصے کے دینی شعور اور اسلام کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا گراف مسلسل تیزی سے نیچے آ رہا ہے‘ جس کے شواہد ہم اپنے گھروں‘ گلیوں‘ بازاروں‘ تعلیمی اداروں اور حکومتی اداروں غرض ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ سائبر سپیس کی آمد اور ڈیجیٹل انقلاب کے بعد ہماری ذہنی حالت محکومی اور مغلوبیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک معروف اسلامی دانشور کے تجزیہ و تحلیل کے مطابق عصر حاضر کے مسلمانوں کا مسئلہ ’’حالت انکار‘‘ میں ہونا ہے جس کی وضاحت اور تنقیدی جائزہ راقم آثم نے جریدہ ہذا کے شمارہ بابت اکتوبر۔دسمبر۲۰۲۱ء میں کیا تھا۔ ان کے برخلاف راقم کے خیال میں ہمارے دینی و اخلاقی زوال و بحران کا اصل سبب یورپی و امریکی الحاد اور لبرل افکار سے سحرزدہ اور ان کا محکوم بن جانا ہے۔ اس حالت محکومی و بے بسی میں ہماری آنکھیں اور کان بھی‘اِلاماشاء اللہ‘جاہلیت کے فراہم کردہ سمعی و بصری مواد سے ہمہ وقت مسموم رہتے ہیں۔ نفاق‘ کفر اور ارتداد کے لشکر ہماری دانش گاہوں ‘ ثقافتی اداروں اور حکومتی ایوانوں میں دندناتے دیکھے جارہے ہیں ۔عالم کفر کی اہل اسلام کے خلاف جنگ کا ایک اہم محور ’مسلمان‘ کو ایک تہذیبی و معاشرتی واقعے اور حقیقت کے طور پر ختم کر دینا ہے۔
مغرب کی تہذیبی و ثقافتی جارحیت کا تازہ ثبوت ٹرانس جینڈر لاء ہے جو ۲۰۱۸ء میں عمران خان کی حکومت میں تحریک انصاف کی وزیر برائے حقوق انسانی شیریں مزاری نے پیش کیا اور ایک رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جناب نوید قمر نے بھی اس میں اہم رول ادا کیا۔ بہرحال تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے حق میں ووٹ دے کر اس بل کو انتہائی سرعت اور چابکدستی سےپارلیمنٹ اور سینٹ دونوں سے پاس کروا لیا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی غالب اکثریت عمومی طو رپر قانون سازی کے وقت ماسوائے انگوٹھا لگانے کے اور کچھ نہیں کرتی۔ ورنہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام پر جس طرز کا قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ن لیگ‘ تحریک انصاف (جس کے سربراہ ملک میں ریاست مدینہ کے قوانین انصاف اور اسلامی شریعت نافذ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں) اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے‘ اس کی کچھ شقیں غیر اخلاقی عواقب کے ساتھ انتہائی خطرناک اور غیر قرآنی ہیں جو معاشرے میں بے راہ روی‘ ہم جنس پرستی اور دوسری متعددخلافِ اسلام خرابیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔
ہماری مقننہ کی طرف سے اس ایکٹ کا پاس ہونا ارکانِ پارلیمنٹ کے غیر سنجیدہ ہونے اور ساتھ ہی اپنے دین و شریعت کے بنیادی علم سے بھی قطعی نابلد ہونے کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہے‘جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی دور کے احساسِ کمتری کے آسیب نے ہمارے سماج اور بالخصوص جتھہ بند اشرافیہ (cartelised elite) کی فکری تشکیل میں خود شکستگی کا عنصر داخل کر رکھا ہے اور ہم حقیقت میں نقالوں کی بے روح قوم بن کررہ گئے ہیں۔ سیاسی خود مختاری اور خود ارادیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم سیکولر/ لبرل جدیدیت کی فکری تنگنائے سے باہر نکلیں اور قرآن و سنت کی صورت میں جو راہ ہدایت ہمیں بتائی گئی ہے اسے مضبوطی سے تھام کر دنیا اور آخرت دونوں میں سرشاری اور کامرانی سے ہمکنار ہوں۔ جدیدیت کے فکری اور عملی رویے پر پوسٹ ماڈرن ازم نے مزید خرابی اس طرح کی کہ اس نے ہرچیز یا تصور (حقیقت‘ خیرو شر‘ علم‘ انسانی صنفی وجود وغیرہ) کی مستقل نوعی صورت کو ختم کر کے قابل تحول (fluid/liquid) قرار دیا۔ چنانچہ نومولود بچے / بچی کی خداداد صنفی حیثیت کو چیلنج کر کے مرد/ عورت کی جنسی حیثیت کو سوشل کنسٹرکٹ کہا گیا۔ اور اس کی آڑ میں مرد و زن کی کامل مساوات کا نعرہ لگایا گیا۔ مغرب کی ذہنی غلامی کے زیر اثرہمارے ملک کی یونیورسٹیز میں بھی جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ قائم کیے گئے ہیں جن میں پڑھائے جانے والے کورسز کا پورا محتوی ہماری اسلامی تہذیب و تمدن کی اقدار سے متصادم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ہمارے ہاں دینی شعور و حمیت رکھنے والے ایسے خواتین و حضرات بھی موجودہیں جو ٹرانس جینڈر لاء کی خباثتوں پر علمی انداز میں مدلل تحریریں قلمبند کر رہے ہیں۔ ان میں شعور میڈیا نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جناب شعیب مدنی کی ویڈیوز بہت مفید اور ازحد معلوماتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صائمہ اسماء کے تین اقساط میں اخباری کالم ----- بعنوان ’کیا تیسری جنس ایک حقیقت ہے‘ ----- اور جناب انصار عباسی صاحب کے کالم بھی اس مسئلے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ناظرین اور قارئین کو علمی مواد اور آگہی دیتے ہیں۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی جبکہ یہ ایکٹ صریحاً آئین سے متصادم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصولی اور تکنیکی طور پر ٹرانس جینڈر کی اصطلاح ہی قرآن و سنت کی رو سے غیر حقیقی اور شیطانی ہے۔ اس میں خود ساختہ صنفی پہچان ’self-perceived gender identity‘ ----- میلانِ طبع (inclination) ‘اندرونی احساسات وجذبات اور ذاتی تصور میں آئی ہوئی شناخت -----کو قانونی طو رپر تسلیم کر لیا گیاہے اور یہ شرعی طور پر سراسرحرام اور قابل سزا جرم ہے۔ ایک لاکھ میں معدودے چند بچے پیدائش کے وقت ہی سے خنثیٰ (intersex persons) ہو سکتے ہیں جن کی سرجری اور ہارمون تھراپی علاج کے ذریعےخلقی صنف واضح کی جا سکتی ہے۔ انہیں تیسری جنس کہنا ان کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے۔ اگر کسی کو اپنی صنفی شناخت تبدیل کرنے کا شوق ہے‘جو دراصل ایک قابل علاج نفسیاتی بیماری ہے جسےجینڈر ڈس فوریا کہا جاتا ہے‘اس نفسیاتی مرض میں وہ اصلاً اللہ کی تخلیق کے قانون کو ٹھکراتا ہے اور اس کا یہ رویہ نیکی اور پاکدامنی کے پورے تصور کو تارتار کر دیتا ہے۔ یہ ایکٹ مغربی دنیا کے دبائو کے تحت محض ہم جنس پرستی (LGBTQ+) کے حامیوں کی خاطر بنایا گیا ہے جبکہ تعزیرات پاکستان میں ہم جنس پرستی (homosexuality)جرم ہے۔ خود ساختہ صنفی پہچان کو قانونی تحفظ دے کر معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور ہمارے عائلی نظام کی بربادی کا سامان کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان صاحب نے اس شیطانی ایجنڈے کے انسداد کے لیے ترمیمی بل پیش کیا ہے کہ جنس کی تبدیلی کے لیے طبی اور نفسیاتی ماہرین کے بورڈ کی مثبت رپورٹ اور دو سال تک ان کی نگرانی ضروری ہوگی‘ تاکہ صرف جینڈر ڈس فوریا کے مریض جنس تبدیل نہ کرا سکیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک تیس ہزار کے لگ بھگ لوگ نادرا سے اپنی صنف تبدیل کرو اکر ہمارے معاشرے کی روایتی اسلامی اقدار اور قوانین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لیے میدان میں آ گئے ہیں۔ دعا ہے کہ ہم مسلمان جو الہامی ہدایت سے سرفراز ہیں عذابِ الٰہی کی گرفت میںنہ آئیں اور ہمارے حکمران بھی اللہ کو ناراض کرنے والی پالیسیاں بنانے سے باز آ جائیں۔
جدید مغربی فلسفہ وفکر کا گہرا تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اخلاق و تہذیبی اقدار کی مابعد الطبیعی بنیاد (anchoring)کا اب کوئی تصور نہیں رہا ہے۔ پولینڈ کے فلسفی زگمنٹ بائومین کی کتاب ’’ٹکڑوں میں بٹی زندگی‘‘ (Life in Fragments) بتاتی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں پڑھے لکھے لوگ ذہنی طور پر ایک خلا (void) اور انکارِ کُل(nihilism) میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور راگ رنگ اور فری سیکس کے پاپولر کلچر نے عوام و خواص سب کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ گریکورومن فکر اور عیسائیت کے وجود اور کائنات کے حوالے سے بنیادی روحانی تعبیر کو ترک اور anti-essentialist پوزیشن لینے نے ان کے پورے اسلوب ہستی اور بین الانسانی انداز تعلق کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب وہاں انسان ہونا خود معرض خطر میں ہے۔اور بہت سے نام نہاد علمی مقالے اور کتابیں پوسٹ ہیومن سیناریو سے متعلق شائع ہو رہی ہیں۔ آزادی‘ ڈویلپمنٹ‘ پروگریس اور لامتناہی سائنسی/ ٹیکنالوجیکل ترقی کے ساتھ اب دعویٰ موت کو بھی شکست دینے کا ہے۔ اگرچہ اس میں یہ یقیناً کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔بہرحال دوسری جانب مغرب ہی میں بعض ایسے سنجیدہ فکر اور علمی تجزیہ و تحلیل کے مفکرین بھی ہیں جنہوں نے متعدد اہم تصانیف میں مغرب کی ٹیکنالوجیکل اور ڈیجیٹل ترقی پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ اسے انسانیت کے لیے انتہائی منفی قرار دیا ہے۔ ان میں متعدد دوسرے تہذیب حاضر کے نقاد مصنّفین کے ساتھ کارل آر ٹرومین اور جان گرے کے رشحاتِ قلم مغربی تہذیب وکلچر سے ازالہ سحر (Disillusionment) کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ اور’ہیومن کنڈیشن‘کی کلچرل اور نفسیاتی ناہمواریوں کے بارے میں سخت ذہنی کرب اور تشویش کے ساتھ بنیادی سوالات اٹھاتے ہیں۔
راقم کا خیال ہے کہ اب مغرب میں اکیڈیمیا کے کچھ اعلیٰ حلقوں میں بنیادی علمی سوالات کو وجودی اور روحانی پرسپکٹو میں دیکھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں یورپ اور امریکہ کے مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات و خواتین کا بالخصوص حلقہ بگوشِ اسلام ہونا اور دینی علوم کا انتہائی محنت سے اسلامی ممالک میں طویل عرصہ قیام پذیر رہ کر حاصل کرنا اور پھر اسلام کی حقانیت کو نہ صرف اپنے آبائی خطوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرناہے۔ حقیقت یہ ہےکہ وطن عزیز پاکستان میں قرآن و سُنّت کی تعلیمات کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا زمانہ دورِ زوال اور غربت ِاسلام کا دَور ہے۔ بانی انجمن خدام القرآن و تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے قرآن و سنت کی تعلیمات اپنے فہم کے مطابق نصف صدی سے زیادہ عرصہ پاکستان اور کئی غیر ممالک میں انتہائی پُرجوش اور انقلاب آفریں انداز میں پھیلائیں۔ دوسری جانب بعض اسلامی دعوتی و سیاسی جماعتیں جدیدیت کی تہذیبی مرادات (پروگریس اور اقتصادی فلاح) کو مذہبی اصطلاحات کی آڑ میں آگے بڑھانے کے عمل تک محدود ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کی پیوندکاری سے اب کام نہیں چلے گا۔ ضرورت سطحی باتوں اور نعروں سے باہر نکل کر دین متین کے ثوابت و محکمات کو صحیح عقیدے کی روشنی میں اس طرح پیش کرنے کی ہے کہ وہ مفہومات سے اوپر اُٹھ کر وجودی و ایمانی احوال کے طو رپر محسوس ہوں۔عصری سماجیات کے دقائق و معارف پر گہری نظر رکھنے والے جناب حامد کمال الدین رقمطراز ہیں:
’’. .. . . نظام سے تو شریعت خداوندی یہاں بہت پہلے فارغ کرائی جا چکی۔ اب تو وہ ذہنوں سے کھرچ دی جانے لگی ہے ۔’’معاشرے‘‘ سے بے دخل ٹھہرائی جانے لگی ہے۔ ’’نظام‘‘ کی بحثیں اٹھانے والے خدارا معاملے کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں۔ اس جنگ کا محاذ فی الوقع ’’سماج‘‘ ہے نظام نہیں ہے۔ یعنی صحیح معنوں میں ایک غربت اسلام جو ہمیں درپیش ہے۔ یہاں آپ کو ’’تعلیم عقیدہ‘‘ کی سطح پر آنا اور جاہلیت کے ساتھ ایک گہرا اختلاف اٹھانا ہو گا۔ ایک ’’سماجی محاذ‘‘ اٹھانے تک جانا ہو گا۔ اسے ’’ملتوں‘‘ اور تہذیبوں کی آویزش بنانا ہو گا۔ مسئلے کو ’’شرک اور توحید‘‘ کی بنیاد پر لینا ہو گا: کیونکہ ہیومن ازم کے ساتھ فی الواقع ہمارا اسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس سے کم سطح کا کوئی بھی علاج مرض کو اور بھی تقویت دے گا۔‘‘
(مصنف کی فکر انگیز کتاب ’انسان دیوتا کے حق میں پاپ‘ (www.eaqaz.org)سے اقتباس)
مندرجہ بالا سطور کے مطابق ہمارے اسلامی سیکٹر کو ایکٹوازم کے غیر موثر افعال کو کم کر کے موثر اور نتیجہ خیز مشاغل کی طرف جانا چاہیے۔ معاملے کو کسی ایک عدد ’’سیاسی سکیم‘ یا سالوں پر محیط ’تعلیمی و تربیتی پروگرام‘میں محصور جاننا نتائج کے اعتبار سے سخت مایوس کن رہا ہے۔ ہمیں سیکولرازم‘ ہیومن ازم اور جدیدیت یا بالفاظِ دیگر ’’ایمان بمقابلہ کفر‘‘ کے مباحث کو فرد سے افراد اور سماج تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اول الذکر سیاسی ایکٹوازم اور موخر الذکر دعوتی و علمی و تعلیمی فعالیت میں جوہری تنوع ہے۔ پُرجوش تقاریر کےبجائے علمی واصلاحی مجالس اور حلقات کا اہتمام اُمّت کی روایت میں افراد میں پائیدار ذہنی و قلبی تبدیلی لانے اور سماج میں دین اور دینی شعائر کے لیے ایک غلغلہ پیدا کرنےکا کارگر منہج رہا ہے۔ چنانچہ یہ برادر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دروس قرآنی ہی کا پھیلائو (proliferation) ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن کی قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج کے فارغ التحصیل طلبا دینی روایت کے وارثین کا رول ادا کرتے ہوئے دعوت و اشاعت قرآنی کا کام اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں کر رہے ہیں۔ فللہ الحمد والشکر!
کراچی میں گزشتہ سال کے اواخر میں عزیزم ڈاکٹر رشید ارشد صاحب مدرس رجوع الی القرآن کورس کا ایک اصلاحی وعظ راقم کو از حد پسند آیا اور مؤثر لگا۔ چنانچہ اس کی ویڈیو ریکارڈنگ بہت سے احباب سے شیئر کی۔ زیرنظر تحریر کا عنوان اور اس کے مندرجات راقم سطور نے اسی سے لیے ہیں۔ تنزیل ربانی میں بندۂ مؤمن کے اپنے خالق و مالک حقیقی سے تعلق کی نسبتیں عام طور پر دو ہی بیان کی گئی ہیں: اولاً خوف اور ڈر جو دراصل بعث بعد الموت اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا ڈر اور خوف ہے۔ اسی خوف کا اظہار ’تقویٰ‘ پر مبنی پوری زندگی کا رخ اور تمام افعال کی تہہ میں کارفرما جذبہ اور احساس ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ سے ایک بندئہ مؤمن کا محبوب و مطلوب حقیقی کے ساتھ شدید محبت والا تعلق : {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ۭ } (البقرۃ:۱۶۵) یعنی اللہ سے محبّت اور وفاداری کے رشتے کو مستحکم سے مستحکم تر کرنا دراصل اہل اللہ کی صفت ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ احادیث رسول ﷺ بھی ہمارے لیے خزینہ علم و حکمت ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ سے اس درجے اور اس کیفیت سے حیا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس کا حق ہے۔ اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے نہایت بلیغ انداز اختیار کیا۔ زیر مطالعہ حدیث کا متن درج ذیل ہے جو جامع ترمذی‘ مسند احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم میں الفاظ کے تھوڑ ے سے فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ راقم کے محدود علم کی حد تک اس حدیث میں اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق و نسبت کی ایک تیسری جہت سامنے آتی ہے۔ اور وہ ہے حیا کے حوالے سے۔سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک موقع پر اپنے اصحاب سے فرمایا:
((اسْتَحْیُوْا مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَاءِ)) قَالَ : قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنَّا نَسْتَحْیِیْ وَالْحَمْدُ لِلہِ ، قَالَ: ((لَیْسَ ذَاکَ ، وَلٰکِنَّ الْاِسْتِحْیَاءَ مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَاءِ اَنْ تَحْفَظَ الرَّاْسَ وَمَا وَعٰی ، وَالْبَطْنَ وَمَا حَوٰی ، وَلْتَذْکُرُ الْمَوْتَ وَالْبِلٰی ، وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَۃَ تَرَکَ زِیْنَۃَ الدُّنْیَا، فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدِ اسْتَحْیَا مِنَ اللہِ حَقَّ الْحَیَاءِ))(اخرجہ الامام احمد والترمذی)
اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ یا صحیح تر الفاظ میں ترجمانی اس طرح کی گئی ہے :
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ یا جتنا کہ اس سے حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر کرتے ہیں اور اسی کی حمد ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بات ایسی نہیں ہے‘ اتنی سادہ نہیں ہے جتنی تم سمجھ رہے ہو ۔ بلکہ اللہ سے حیا کرنا اور اس میں اس کا حق ادا کرنا ایک تفصیل رکھتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر کی حفاظت کرو اور جو کچھ سر اپنے اندر رکھتا ہے۔ جو کچھ اپنے اندر containکرتا ہے۔ اور تم حفاظت کرو پیٹ کی اور جو محتویات ہیں پیٹ کی‘ جو کچھ پیٹ میں ہوتا ہے۔ اور تم موت کو یاد رکھو ‘ موت کو یاد کرو اور جو موت کے بعد انسان کے جسم پر بوسیدگی اور خستہ حالی طاری ہوتی ہے ‘جیسے وہ گل سڑ یعنی decomposeہوتا ہے‘ اس پر غور کرو۔ اور فرمایا جو آدمی آخرت کا ارادہ کرتا ہے وہ تو دنیا کی بہت زیادہ زیب و زینت کو چھوڑ دیتا ہے۔ جو آدمی یہ سب کچھ کرے گا تو وہ شخص اللہ سے ایسے انداز میں حیا کرتا ہے جیسا کہ اس کا حق ہے۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسولِ مکرم محمدﷺ تک دین اسلام کے بنیادی ایمانیات اور اخلاقی اقدار یکساں رہے ہیں چنانچہ ان کی حیثیت ثوابت و مسلمات کی ہے۔ جبکہ مراسم عبودیت کے اوضاع‘ بیع و شراء اور کچھ دوسرے معاملات میں شرائع کا کچھ فرق ہوتا رہا ہے۔ لیکن بعثت محمدیؐ کے بعد قرآن و سُنّت کے تمام قوانین ابدی اور حتمی ہیں اور تاقیامِ قیامت ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔اخلاق ایک بندہ مؤمن کی شخصیت کے بلڈنگ بلاکس ہیں۔دین اسلام کا مخصوص اور امتیازی خلق حیا و شرم ہے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات میں حیا کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہ بنیادی طو رپر کسی مثبت طلب یا اقبال کی بجائے ترک‘ روک‘ ادباراور حد بندی کا مفہوم رکھتا ہے‘ یعنی رکنا‘ تھامنا اور restaint۔ کتاب ریاض الصالحین کے مرتّب امام نوویؒ نے اس موضوع کے باب میں وضاحت کی ہے کہ حیا کا فطری جذبہ دو افعال پر ابھارتا ہے:
(i) ترک القبیح : ہر ناروا‘ غیر اخلاقی‘ ناپسندیدہ اور حرام و شنیع فعل کو چھوڑ دینا۔
(ii) حق والے کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی سے روکنا : چنانچہ حیا ایسا خلق یا باعث ہے کہ وہ ہمیں حق والے کو حق دینے پر تیار کرتا ہے۔ ہمارا اولین حق اپنے خالق حقیقی اور منعم رب کے حوالے سے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جسم و جان کی صلاحیتوں سے نوازا۔ چنانچہ اس ذات حق تعالیٰ کے احکام اور مرضیات کو توڑتے ہوئے ہمیں واقعتاً حیا آنی چاہیے۔ انسانی نظامِ احساسات میں حیا و شرم کا تعلق جنسی بے راہ روی کے حوالے سے بھی یقیناً ہے لیکن رسول اللہﷺ نے اس کو اس کے اصیل اور وسیع ترین پرسپیکٹو تک پھیلا دیا۔
عصر حاضر کے مغربی لادین اور سیکولر فلسفہ و کلچر نے مسلم دنیا کے آبادی کو بڑے پیمانے پر لبرل ازم اور ’آزادی‘ کے نعرے کے سحر میں مبتلا کر دیا ہے۔ اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو اپنے رویے اور طرزِ زندگی کے انتخاب میں خود مختار سمجھنے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’عقل‘ جو انسان کا سب سے بڑا شرف ہے‘ اس کا لغوی معنی ہی روکنے‘ تھامنے اور محدود کرنے یا باندھنے کے ہیں‘ جبکہ اس وقت حالت یہ ہے کہ سمارٹ فون کی سکرین پر ہر وقت مادیت اور نفس پرستی پر مبنی تصاویر اور شیطانی کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مادہ پرستی اور فحش مظاہر و مناظر لوگوں کے مزاج کا حصّہ بن گئے ہیں۔ ان مناظر سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں اور ہماری عائلی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین کے خلق میں حیاء و شرم کو مرکزیت دی گئی ہے۔ چنانچہ عاقل و ہوش مند مسلمان قرآن و سُنّت کے مطابق حدود آشنا زندگی بسر کرتا ہے۔ اپنے آپ کو وہ قطعاً خود مختار نہیں جانتا کہ بگٹٹ زندگی گزارے۔ خالق کائنات نے اسے جو تھوڑا سا اختیار دیا ہے اس کو استعمال کر کے وہ اپنے لیے شر یا خیر میں سے ایک کا انتخاب اور عمل کرتا ہے جس کے عذاب یا انعام کو وہ آخرت میں اپنے سامنے پائے گا۔ خداپرستی اور اتباعِ سُنّت ِ رسولﷺ پر مبنی دینی و روحانی کلچر وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
رسول اللہﷺ نے اللہ سے کماحقہ حیا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مسلمان کے جسم کے دو اہم حصوں سر اور بطن کا تذکرہ کر کے انسان کے پورے فزیکل وجود کا احاطہ کر لیا۔ چونکہ ایمان کی رو سے انسان عبداللہ (اللہ کا غلام) ہے‘ اس لیے اسے اپنے مکمل وجود کو اللہ کی اطاعت اور بندگی میں ڈھالنا ہے۔ سر انسان کی شخصیت کااہم ترین عضو ہے جس میں اس کے حسی علم کے ذرائع آنکھیں‘ کان‘ ناک‘ بولنے کا عضو زبان‘ گلا اور ہونٹ اور سب سے اوپر کے حصے میں دماغ ہے جوحسیّات کو پروسس کر کے نتائج اور مدرکات کا استنتاج کرتا ہے۔ کمپیوٹر کی زبان میں ہم اسے انسان کے حسی علم و ادراک کاCPUبھی کہہ سکتے ہیں۔ سر کے سامنے کا پورا حصّہ یعنی چہرہ انسان کی پوری شخصیت اور داخلی احساسات و احوال کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ آنکھوں اور کانوں کا گناہ آلود استعمال عصرحاضر کا خطرناک ترین فتنہ ہے۔ سائبر سپیس تو خاص طور پر شہوت انگیز imagesسے مملو ہے‘جس کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ بڑے بڑے بل بورڈز‘LCD سکرینوں پر متحرک تصاویر اور بازاروں میں بے حجاب اور کم لباس کے ساتھ خواتین پر نظر پڑنے سے بدنظری کا فتنہ اور قلب و ذہن میں ہمہ گیر معصیت کے جذبات اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح کان کے غلط استعمال سے ہمارے گناہوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ جو خاموش رہا‘اس نے نجات پائی۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق اسلام کا حسن یہ ہے کہ تمام غیر ضروری باتوں اور مشاغل کو چھوڑ دیا جائے۔ خاموشی سے تفکر وجود میں آتا ہے اور اس سے توجہ الی اللہ کا ملکہ پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے جبکہ ہر وقت کی مزاح اور تفریح کی باتیں اور فحش مناظر سے پیدا ہونے والے منفی خیالات اور افکار ہمارے ذہن کو غلاظتوں سے بھر دیتے ہیں۔
جسم کا دوسرا حصہ جس کے محتویات کی بابت رسول اکرمﷺ نے حفاظت کی تاکید کی وہ پیٹ ہے۔ اس میں سب سے نمایاں چیز اکل ِحلال ہے‘ جس کی شدید تاکید ہمارے دین میں آئی ہے‘لیکن جس طرح images کی کثرت نے ہمارے لیے بدنظری سے بچنا مشکل بنا دیا ہے‘ اسی طرح ہماری معیشت اور فنانس کے سودی نظام نے ہماری غذا کے ہر لقمے کو غیر حلال عنصر کے سبب مشتبہ بنادیا ہے۔ پیٹ ہی کے بالائی حصے میں دل ہوتا ہے۔ اسی دل یا قلب کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ یہ ہمارے جذبات‘ ارادوں اور عزائم کامرکز ہے‘چنانچہ اس کی صالحیت اور روحانی تقویت کے لیے ذکر اور تلاوت کلام پاک کی تلاوت کا اہتمام مسلسل ضروری ہے۔ کچھ علمائے حدیث کی رائے کے مطابق بطن سے ملحق بازو اور ٹانگیں بھی اس میں آجاتی ہیں اور اسی طرح بطن کے نچلے حصے میں واقع جنسی اعضاء کا بھی بطن کے ذیل میں شمار ہوگا۔ ہم اپنے کسب اعمال میں ہاتھوں اور پائوں/ ٹانگوں کااستعمال کرتے ہیں‘چنانچہ ان کا استعمال بھی صرف جائز کاموں میںہونا مطلوب ہے۔ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جوشخص مجھے زبان اور شرم گاہ کی ضمانت دے تو مَیں اُسے جنّت کی خوشخبری دیتا ہوں۔ چونکہ ہمارا جسم اور اس کی صحت و توانائی ہمارے پاس اللہ کی طرف سے نعمت اور امانت کے طور پر ہے اس لیے ہم اس کے سُوء ِ استعمال پر مجرم ٹھہرائے جائیں گےاور سزا کے مستحق ہوں گے۔
اس کے بعد نبی کریمﷺ نے انسانی زندگی کے اختتام پر موت کے تجربے کا ذکر کیا کہ کس طرح ہر شخص دنیا کی مقد ر فانی زندگی گزار کر مٹی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ آخری ہچکی لے کر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اس کا جسم بوسیدہ اور خراب ہوناشروع ہو جاتا ہے اور لواحقین اسے تاخیر کے بغیر قبر میں اُتارنا چاہتے ہیں۔اس جسم کو بالخصوص جوانی میں مال و دولت کے خرچ کے ساتھ وہ کتنا خوشنما لباس اور خوش بو میں بسا کر فخر کیا کرتا تھا‘لیکن موت کے ساتھ ہی وہ دوسروں کا تجہیز و تکفین کے لیے محتاج ہوجاتا ہے۔ موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے‘ لیکن بے خدا تہذیب میں لوگوں کو مکروہات و لغویات میں ایسا مشغول رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے ہمیشگی کا گمان کرنے لگتے ہیں اورموت کا ذکر کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ تنزیل ِربانی موت کے حوالے سے انسان کی بے بسی اور لاچاری کا جس طرح بیان کرتی ہے اس سے ہیومن ازم کے پرستاروں کا سارا زعم اور تمرد ختم ہو جانا چاہیے:
{ فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ(۸۳) وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ (۸۴) وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (۸۵) فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ (۸۶) تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۸۷)} (الواقعۃ)
’’پس جب روح نرخرے تک پہنچ جائے‘اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو۔(یعنی روح نکلتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن اسے ٹال سکنے کی یا اسے کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے) ۔ ہم اس سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں‘ لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔ پس اگر تم کسی کے زیرفرمان نہیں‘اور اس قول میں سچے ہوتو (ذرا) اس روح کو تو لوٹائو۔‘‘
آخر میں نبی کریمﷺ نے وحی ربانی کی صراحت {مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الْآخِرَۃِ}(آلِ عمران:۱۵۲) کےمطابق فرمایا کہ جو آدمی آخرت کا ارادہ کرتا ہے‘ یعنی آخرت کی فلاح و کامرانی کو مطمح نظر اور مقصد بناتا ہے وہ دنیا کی زیب و زینت کے پیچھے نہیں دوڑتا۔ قرآنی و نبوی نصوص دنیا کو آخرت کا زینہ قرار دیتی ہیں۔ حضرت سعید بن جبیرؒکہتے ہیں:’’ دنیا کو متاع الغرور کہا گیا ہے‘ یعنی ’سامان فریب‘ کیونکہ یہ انسان کو طلب آخرت سے غافل کرتی ہے۔ ہاں اس کی جو چیز تمہیں آخرت سے غافل نہیں کرتی وہ سامان فریب نہیں بلکہ وہ تو زادِ راہ یعنی ’سامانِ سفر‘ ہے جس سے کام لے کر تم وہاں پہنچ جاتے ہو جو کہ اس سے بھی بڑھیا جہاں ہے۔‘‘ امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ’’دنیا کا جہان کیا ہی خوب ہے‘ مگر مؤمن کے لیے۔یعنی تھوڑا سا عمل کیا اور اس کو اپنا زادِ راہ بناکر جنت جا پہنچا! اور یہ کیا ہی برا جہان ہے کافر اور منافق کے لیے‘ یعنی کچھ راتوں کی رنگ رلیاں اور اس کے بدلے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم۔‘‘
خدا‘ آخرت اور ہدایت وحی سے محجوب اور غافل ہو کر فی زمانہ انسانی معاشرے کی تشکیل میں جنس‘ جبلی اورحیوانی نوعیت کے اجزاء غالب ہیں جس کے تحت انسان کی ساری سرگرمیاں دنیاوی مادی خواہشات اور لذت کے حصول میں صرف ہو رہی ہیں۔ ہم پاکستانی قوم بھی چونکہ مغرب کے خداناشناس افکار اور استعماری سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر ہیں اس لیے ہمارا معاشرہ بھی مادیت پرستی کے جملہ منفی عناصر سے بری طرح متاثر ہے۔ اسلامیانِ پاکستان کو بڑے پیمانے پر قرآن و سنت کے مطالعے سے اپنا ایمانی علم و فہم دین ‘ ذوق اور فکر آخرت کو بڑھا کر معاشرے میں ہر دستیاب پلیٹ فارم سے قرآن و سنت کی بے آمیز تعلیمات کی نشرو اشاعت سے سماج میں اسلامی افکار و اقدار کی تعمیل و تنفیذ کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دعا ہے کہ رب کریم ہمیں اس کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024