مِلاکُ التأوِیل (۳۱)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسنسُوْرَۃُ الرَّعْد(۱۹۲) آیت ۱۵
{وَلِلہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا}
’’اوراللہ ہی کے آگے سربسجود ہے جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اختیار کے ساتھ یابلااختیار۔‘‘
اور سورۃ النحل کی آیت۴۹ میں ارشادفرمایا:
{وَلِلہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلٰٓئِکَۃُ}
’’اور اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی چوپائے زمین میں ہیں اور فرشتے بھی۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ سورۃ الرعد میں ’’مَنْ‘‘ کا لفظ ہے اور سورۃالنحل میں’’مَا‘‘ کا ۔اور دوسرے یہ کہ سورۃ النحل میں ’’الْمَلٰٓئِکَۃُ‘‘ کا اضافہ ہے تو اس کا کیا سبب ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ سورۃ الرعد کی آیت میں ’’مَنْ‘‘ کا لفظ لا کر بتایا جا رہا ہے کہ وہ ساری مخلوقات جنہیں عاقل کہا جاتا ہے اور جن میں جن و انس اور فرشتے شامل ہیں‘ سب کے سب مراد ہیں اور اسی لیے اس آیت میں ’’طَوْعًا وَّکَرْھًا‘‘ کا اضافہ کیا گیا کہ عاقل مخلوقات ہی سے اختیاریا جبر کا سوال کیا جا سکتا ہے ‘ غیرعاقل سے نہیں۔ اور جہاں تک سورۃ النحل کا تعلق ہے تو وہاں دَآبَّۃٍ (جانور‘ رینگنے والے) کی مناسبت سے ’’مَا‘‘ لایا گیا‘ کیونکہ اس کا اطلاق عاقل اور غیر عاقل سب پر ہوتا ہے‘ تو اس میں تمام مخلوقات شامل ہوگئیں۔
ملائکہ کا ذکر خصوصی طو رپر کیا گیا۔ ’’دَآبَّۃٍ‘‘میں وہ بھی شامل ہیں ‘لیکن جس طرح سورۃ البقرۃ کی آیت۹۸ میں ملائکہ کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر کیا گیا ‘ تو اس ذکر سے مقصود ان کے مقام و مرتبہ کو نمایاں کرنا ہے‘ کیونکہ لفظ ملائکہ میں وہ بھی شامل ہیں ‘لیکن ان کے خصوصی ذکر سے ان کی اہمیت ظاہر ہو گئی۔
یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس لحاظ سے پھر سورۃ الرعد میں بھی ان کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا ۔تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ وہاں لفظ دَآبَّۃٍ نہیں آیاہے کہ جس کی وجہ سے ملائکہ کا خصوصی ذکر کیا گیا‘ اور اس لحاظ سے ہر دو آیات اپنی اپنی جگہ پوری جامعیت رکھتی ہیں‘ واللہ اعلم!
(۱۹۳) آیت ۱۶
{قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللہُ ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَایَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِھِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ ڏ اَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ڬ}
’’کہہ دیجیے: آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟کہہ دیجیے : اللہ! کہہ دیجیے: تو کیا پھر تم نے اُسے چھوڑ کر دوست بنائے ہیں جو اپنے لیے بھی نفع یا نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ کہہ دیجیے: کیااندھا اور بینا برابر ہیں؟ اور کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہے؟‘‘
اور سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
{وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِھِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًا(۳)}
’’اور انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ پیدا نہیں کر سکتے جب کہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں ‘اور وہ اپنے لیے کسی نقصان اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی وہ موت ‘زندگی اور دوبارہ اٹھائے جانے کے مالک ہیں۔‘‘
یہاں سوال کرنے والا سوال کر سکتا ہے کہ سورۃ الرعد میں نفع کو پہلے اور نقصان کو بعد میں ذکر کیا گیا اور اس کے مقابلے میں سورۃ الفرقان میں اس کے برعکس کہا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
جواباً عرض ہے ‘ واللہ اعلم‘ کہ سورۃ الفرقان میں وائو عطف کے ساتھ دو متضاد چیزوں کا بیان ہے ‘جیسےپیدا نہ کر سکنا اور پیدا کرنے کی قدرت رکھنا‘ نقصان بمقابلہ نفع‘ موت بمقابلہ حیات۔ اور یہاں یہ چیز ملاحظہ کرنے کے قابل ہے کہ دونوں مقابل چیزوں میں جو زیادہ بہتر ہے اسے بعد میں ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی پیدا کرنے کا ذکر نہ پیدا کرنے کے بعد کیا گیا ‘ ایسے ہی نفع پہنچانے کے وصف کا نقصان کے بعد ذکر کیا گیا‘ اور پھر زندگی کا موت کے بعد ذکر کیا گیا۔اور اس ترتیب کا تقاضا یہی تھاکہ نقصان کو نفع سے پہلے ذکر کیا جاتا۔
اور جہاں تک سورۃ الرعد کی آیت کا تعلق ہے تو اس میں سورۃ الفرقان کی طرح کا تقابل نہیں ہے‘ اس لیے سیاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نفع کا ذکر پہلے ہے جو کہ ہر عقل مند حاصل کرنے کے درپے رہتا ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جن کو تم نے اپنا معبود بنایا ہے وہ اپنے آپ کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو تمہیں کیا پہنچائیں گے؟پھر آیت کے آخر میں اندھے اور بینا اور ایسے ہی تاریکی اور نور کے برابر نہ ہونے کی طرف اشارہ کر کے ان معبودانِ باطل کی بے چارگی کا بیان ہو گیا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگرنفع کا حصول ایک عقل مند کے لیے ایک فطری مطالبہ ہے تو پھر سورۃ الرعد کی طرح سورۃ الفرقان میں بھی ہر دو مقابل چیزوں میں بہتر چیز کا ذکر پہلے آنا چاہیے تھا نہ کہ اسے مؤخر کیا جانا چاہیے تھا ؟
جواباً عرض ہے کہ سورۃ الفرقان میں ان آیات سے قبل ارشاد فرمایا تھا :
{وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا(۲)}
’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اسے ایک خاص ناپ تول عطا کیا۔‘‘
اس لیے یہ مناسب ہوا کہ اس کے فوراً بعد مشرکین کے معبودانِ باطل کا یہ وصف بیان کیا جائے کہ وہ تو کوئی چیز پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اور یوں اللہ تعالیٰ کا یہ وصف اُجاگر ہو جائےکہ وہ:{خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ} ’’ہر چیز کا خالق ہے ‘‘اور یہ کہ {اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ} ’’وہ جو پیدا کرتا ہے کیا اس کی طرح ہو سکتا ہے جو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے؟‘‘ اور اس وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو گیا کہ ہر دو آیات کے الفاظ اپنی اپنی جگہ پوری مناسبت رکھتے ہیں اور اگر اس کے برعکس لایا جاتا تو غیر مناسب ہوتا۔واللہ اعلم!
(۱۹۴) آیت ۲۶
{ اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ ۭ وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۭ}
’’اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کی کشائش کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہے) تنگ کر دیتا ہے۔ اور وہ لوگ دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہیں۔‘‘
اور سورۃ القصص میں ارشاد فرمایا:
{وَیْکَاَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ ۚ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۭ} (آیت۸۲)
’’ہائے خرابی ہو! اللہ گویا جس کو چاہے اپنے بندوں میں سے اس کے لیے رزق کشادہ کر دیتا ہے (اور جس کے لیے چاہے) تنگ کر دیتا ہے ۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔‘‘
اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا:
{اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ ۭ اِنَّ اللہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۶۲)}
’’اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
اور سورۃ سبا میں ارشاد فرمایا:
{قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ}(آیت۳۶)
’’کہہ دیجیےکہ میرا رب رزق کو پھیلا دیتا ہے جس کے لیے چاہے اور کم کر دیتا ہے۔‘‘
اور سورۃ الشوریٰ میں ارشاد فرمایا:
{لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَ یَقْدِرُ ۭ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۲)}
’’اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ‘ جس کے لیے چاہتا ہے اپنے رزق کو پھیلادیتا ہے اور (جس کےلیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔‘‘
یہاں سوال کرنے والا یہ سوال کر سکتا ہے کہ ان پانچوں آیات کا مضمون ایک ہی ہے‘ کہ اللہ پاک جیسے خلق و امر کی طاقت رکھتا ہے ویسے ہی رزق کو کھولنے اور بند کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور جب یہ مضمون تمام آیات میں یکساں ہے تو کیا وجہ ہے کہ سورۃ القصص اور سورۃ العنکبوت میں ’’مِنْ عِبَادِہٖ‘‘ کا اضافہ ہے اور مؤخر الذکر سورت میں ’’لَہٗ‘‘ کا بھی اضافہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ العنکبوت کی آیات کا سیاق ملاحظہ ہو کہ جن میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ انہیں پیدا کرنے میں منفرد ہے ایسے ان سب کو رزق دینے میں بھی منفرد ہے۔ فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ}(آیت۱۷)
’’بے شک جن کی تم اللہ کےسوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے لیے رزق رسانی کے مالک نہیں ہیں ‘تو پھر اللہ ہی سے رزق چاہو۔‘‘
اس کے بعد ایسے لوگوں کی ایک ضرب المثل بتائی گئی جو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرتے ہیں:
{مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط}(آیت۴۱)
’’جو اللہ کے سوا دوسروں کو اپنے دوست بناتے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے‘جس نے ایک گھر بنایا۔‘‘
پھر اپنے مؤمن بندوں کی دلجوئی کے لیے کہا:
{یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ (۵۶)}
’’اے میرے مؤمن بندو! بے شک میری زمین بہت وسیع ہے تو پھر میری ہی عبادت کرو۔‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاق اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْ ز } ( آیت۶۰)
’’اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ اللہ انہیں بھی اور تمہیں بھی رزق دیتا ہے۔‘‘
اب اس مضمون کے بعد مناسب تھا کہ فرمایا جاتا:{اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ ۭ}(ترجمہ گزر چکا ہے)گویا پہلے عمومی حکم تھا : {اَللہُ یَرْزُقُھَا وَاِیَّاکُمْ} (آیت۶۰ ملاحظہ ہو) اور پھر ’’مِنْ عِبَادِہٖ‘‘ اور ’’لَہٗ‘‘ کہہ کر خصوصی طور پر اپنے بندوں کا ذکرکیا‘ وہ مؤمن بندے جو دونوں حالتوں میں شکر گزار رہتے ہیں چاہے رزق کی کشائش ہو یا تنگی ہو۔ تو یہاں ’’مِنْ عِبَادِہٖ‘‘ کا اضافہ ان کے لیے شرف و عزّت کا اظہار ہے ۔لیکن دوسری سورتوں میں خاص طو رپر مؤمنین سے خطاب مقصود نہیں ہے بلکہ عمومی خطاب ہے‘ ملاحظہ ہو سورۃ الرعد کی آیت جہاں {وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۭ} کہاگیا۔ یعنی یہ لوگ تو دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہیں اور یہ بات ایک مؤمن کے شایانِ شان تو نہیں‘ کیونکہ اس کے لیے تو دنیا ایک جیل کی مانند ہے۔ اس کی خوشی تو اپنے رب کے ساتھ ہے اور ان تمام انعامات کے ساتھ جو انہیں رب آخرت میں عطا کرے گا۔
اور جہاں تک سورۃ القصص کی آیت کا تعلق ہے تو مذکورہ قول ان لوگوں کی زبان سے نکلا ہے جو قارون اور اس کے خزانوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اور پھر انہوں نے کہا:{وَیْکَاَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ} (ترجمہ گزر چکا) گویا وہ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ قارون پر خزانوں کے دروازے کھولنے والا صرف اللہ ہی ہے اور وہی رزق میں تنگی دینے والا بھی ہے اور اللہ اگر دینے پر آئے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔
اور جہاں تک سورۃ الشوریٰ کی آیت کا تعلق ہے تو اس سے قبل {لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ } کہہ کر مؤمن اور کافر سب کی طرف عمومی نسبت ہو گئی‘ اور اس آیت میں مؤمن کے لیے خصوصی طو رپر کسی اعزاز کی بات نہیں کی گئی ۔کہا جا رہا ہے کہ جب آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں تو پھر چاہے مؤمن ہو یا کافر‘ سبھی کو رزق اسی کی طرف سے پہنچتا ہے ۔
یوں واضح ہو گیا کہ ہر آیت میں الفاظ کا اضافہ یا کمی کسی خاص نسبت کی بنا پر ہے اور اس لحاظ سے جو آیت جیسے آئی ہے وہی اپنے موضوع سے پوری مناسبت رکھتی ہے ۔واللہ اعلم!
(۱۹۵) آیت ۳۲
{فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ ۣ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ(۳۲)}
’’تو مَیں نے کافروں کو مہلت عطا کی اور پھر انہیں جا پکڑا ‘ تو (دیکھو کہ) میری سزا کیسی تھی!‘‘
اور سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا:
{ فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ ۚ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ(۴۴)}
’’تومَیں نے کافروں کو ڈھیل دی اور پھر انہیں جا پکڑا ‘تو (دیکھو) کیسا تھا میرا انکار!‘‘
سوال واضح ہے کہ دونوں آیات کا مضمون ایک ہے اور وہ یہ کہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہو گا‘ لیکن دونوں آیات کے اختتامی الفاظ مختلف ہیں۔ ایک میں ’’فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ‘‘ ہے تو دوسرے میں ’’فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ‘‘ ہے؟
اس کا جوا ب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سزا کے طور پر عذاب کا دیا جانا‘ صرف انکار کرنے سے زیادہ سخت ہے‘ اور وہ اس طرح کہ انکار وہاں بھی ہو سکتا ہے جہاں سزا نہ دی گئی ہو اور وہاں بھی ہو سکتا ہے جہاں سزا دی گئی ہو۔
’’عِقَاب‘‘سے اکثر حالات میں یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ مجرم کو اس کے گناہ اور اس کے جرم کے بعد اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق عذاب دیا گیا ہے۔ اب ملاحظہ ہو کہ سورۃ الرعد میں مذکورہ آیت سے قبل ان کا جرمِ استہزاء بیان کیا گیا۔ فرمایا:{وَلَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ} ’’اور تم سے قبل کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا‘‘۔رسولوں کے جھٹلائے جانے کے بعد استہزاء ایک اضافی جرم ہے‘ یعنی پہلے ایک جرم تو کیا ہی تھا لیکن اس کے بعد اپنے جرم پر بجائے ندامت کے استہزاء کی شکل میں مزید جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اس لیے ایسی صورتِ حال میں صریحاً سزا دیے جانے کا تذکرہ مناسب تھا۔
اور جہاں تک سورۃ الحج کی آیت کا تعلق ہے تو وہاں مذکورہ آیت سے قبل تکذیب ِرسل کا تو ذکر ہے لیکن استہزاء کا ذکر نہیں‘ فرمایا:
{وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ(۴۲) وَقَوْمُ اِبْرٰھِیْمَ وَقَوْمُ لُوْطٍ(۴۳) وَّاَصْحٰبُ مَدْیَنَ ۚ وَکُذِّبَ مُوْسٰی}
’’اور اگر انہوں نے تمہیں جھٹلایا ہے تو ان سے پہلے قومِ نوح ‘ عاد‘ ثمود‘ قومِ ابراہیم‘ قومِ لوط اور مدین والوں نے بھی جھٹلایا تھا ‘اور( ایسے ہی) موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا۔‘‘
یہاں صرف تکذیب ِرسل کا ذکر ہے اور یہ حالت ِاستہزاء سے مختلف ہے ‘کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جھٹلانے والا ایمان لے آئے اور اپنی حالت کوسدھار لے ‘برخلاف استہزاء کرنے والے کے‘ کہ اس کا درست ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا:{اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِیْنَ(۹۵)} (الحجر) ’’ہم مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں تمہیں کافی رہیں گے۔‘‘
اور یوں واضح ہو گیا کہ ہر آیت میں پہلے جو کچھ بیان ہوا ہے اس کے اعتبار سے آیت کے اختتامی کلمات بالکل مناسب واقع ہوئے ہیں ‘واللہ اعلم!
(۱۹۶) آیت ۳۷
{وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّاط}
’’اور ایسے ہی ہم نے عربی میں ایک فیصلہ کن (کتاب) اُتاری ہے۔‘‘
اور سورئہ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا} (آیت۱۱۳)
’’اور ایسے ہی ہم نے عربی قرآن اتارا ہے ۔‘‘
ایک جگہ ’’حکم‘‘ ہے اور دوسری جگہ ’’قرآن‘‘ تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الرعد کی مذکورہ آیت سے قبل کوئی قصہ یا خبر بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ چند ایسے فیصلوں کا بیان ہے جو ان لوگوں کے احوال سے متعلق ہیں جنہیں مکلف قرار دیا گیا تھا‘ اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ازلی میں ان کے لیے کیا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی چند آیات ملاحظہ ہوں:
{اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اَعْمٰی ۭ} (آیت۱۹)
’’کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تمہارے اوپر اتارا گیا ہے وہی حق ہے‘ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو کہ اندھا ہے؟‘‘
اور اس کے بعد دونوں گروہوں کے اوصاف کا تذکرہ ہوا اور جن لوگوں نے اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کیا ان کے لیے ’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا‘‘ کی بشارت دی گئی اور اس کے مقابلے میں جن لوگوں نے عہد کو توڑا اور نافرمانی کی‘ انہیں لعنت اور برے انجام کی نوید سنائی گئی۔
پھر اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کی طرف اشارہ کیا جو رزق کی کشادگی یا اس کی تنگی سے متعلق ہے۔ پھر اپنی اس سنت کا بیان کیا کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اسے ہدایت سے نوازتا ہے۔ اور پھر یہ بھی بتایا کہ ایسے لوگ قلبی اطمینان کی نعمت سے مالامال ہوتے ہیں اور ان کا ٹھکانا بہترین ہوتا ہے: {طُوْبٰی لَہُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ(۲۹)}
اور پھر یہ سلسلۂ آیات جاری رہتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے دونوں گروہوں سے متعلق وعد و وعید کا اور ازلی فیصلوں کا بیان ہے اور آخر میں یہ آیت بابت ’’حُکْمًا عَرَبِیًّا‘‘ کا ذکر ہے۔ {وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّاط} زمخشری نے اسے ’’عربی حکمت‘‘یعنی بیان بزبان عربی سے تعبیر کیا ہے۔
اور جہاں تک سورئہ طٰہٰ کا تعلق ہے تو وہاں موسیٰ علیہ السلام کے قصے کا تفصیلی بیان ہے۔ ان کا کوہِ طور پر جانا‘ ان کے پیچھے سامری کا لوگوں کو بہکانا‘ ہارون علیہ السلام کا اپنی قوم کوتنبیہہ کرنا اور پھر بنی اسرائیل کا یہ کہنا:
{لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(۹۱)}
’’ہم تو برابر اس (سونے کے بچھڑے) پر بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ واپس نہ آجائیں۔‘‘
اور آخرمیں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ:
{کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا(۹۹)}
’’اور ایسے ہی ہم تمہیں وہ خبریں بیان کرتے ہیں جو پچھلے لوگوں سے متعلق ہیں ‘اور ہم نے تمہیں اس طرف سے ایک یاددہانی عطا کی ہے۔‘‘
یعنی قرآن جو کہ بہت سی باتیں یاد کرواتا ہے۔اور اس نسبت سے ’’قرآن عربی‘‘ کا تذکرہ بالکل مناسب تھا‘ فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا} (آیت۱۱۳) یعنی ایسے ایسے قصے جو بزبان عربی بیان ہوئے ان سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ نصیحت والوں کے لیے وہ نصیحت ہے اور سوچنے والوں کے لیے وہ ایک گہری سوچ مہیا کرتا ہے۔
اور اس لحاظ سے یہ دونوں تعبیرات (حُکْمًا عَرَبِیًّا اور قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا) اپنی اپنی جگہ پوری مناسبت رکھتی ہیں۔واللہ اعلم!
(۱۹۷) آیت ۳۸
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃًط}
’’اور ہم نے تم سے قبل رسول بھیجے ہیں اور ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنا دیں۔‘‘
اور سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَاۗءُوْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ} ( آیت۴۷)
’’اور ہم نے تم سے قبل رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا تو وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔‘‘
یہاں سورۃ الرعد میں ’’رُسُلًا‘‘ کا ذکر پہلے ہے اور ’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ کا بعد میں‘ جبکہ سورۃ الروم میں اس کا اُلٹ ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب اللہ میں جہاں کہیں نبی اکرمﷺ کا ذکر دوسرے رسولوں کےساتھ ایک ہی آیت میں آتا ہے تو نبی اکرمﷺ کا نام صریحاً یا ضمیر کے ساتھ پہلے لایا جاتا ہے اور پھر بعد میں دوسرے انبیاء اور رسولوں کا نام ذکر کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر ملاحظہ ہو:
{اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ ۢ بَعْدِہٖ ۚ } (النساء:۱۶۳)
’’اور ہم نے تمہاری طرف وحی کی جیسے ہم نے وحی کی نوح اور بعد میں آنے والے انبیاء کی طرف۔‘‘
{وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ۠ ........} (الاحزاب:۷)
’’اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا اور تم سے اور نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی لیا....‘‘
یہاں کہا جا سکتا ہے کہ مؤخر الذکر آیت میں تو (مِنَ النَّبِیِّیْنَ) کہہ کر تمام انبیاء کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور پھر نبی اکرمﷺ کا ’’مِنْکَ‘‘ کی ضمیر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ عربی قاعدے کے مطابق جمع سالم کا صیغہ یعنی (و ن او ری ن)عموم کے لیے استعمال ہوتا ہے ‘ تو جب ’’مِنَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ کہا گیا تو اس میں تمام انبیاء کے ساتھ نبی اکرمﷺ بھی شامل ہو گئے اور پھر پانچوں اولوالعزم رسولوں کے نام لائے گئے اور نبی اکرمﷺ کی فضیلت کو نمایاں کرنے کے لیے سب سے پہلے انہی کا ذکر کیاگیا۔
عموم کےبعد خصوص کا ذکر ایک دوسری مثال سے بھی واضح ہوتا ہے ‘ ارشاد فرمایا:
{مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکٰىلَ....} (البقرۃ:۹۸)
’’اور جو دشمن ہے اللہ کا‘ اس کے فرشتوں کا‘ اس کے رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا ....‘‘
تو لفظ’’مَلٰٓئِکَتِہٖ‘‘میں تمام فرشتوں کے ساتھ جبرائیل اور میکائیل بھی آ گئے ‘لیکن چونکہ ان کا خصوصی ذکر ضروری تھا اس لیے دونوں کے نام بعد میں بھی لائے گئے۔ اور خیال رہے کہ جمع سالم کا صیغہ جو الف لام کے ساتھ ہو جیسے ’’النَّبِیِّیْنَ‘‘ اس میں بہ نسبت اس جمع کے صیغے کے جو مضاف کے ساتھ ہو جیسے ’’ملائکۃ‘‘ عموم کی حیثیت زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم کہیں گے کہ سورۃ الروم کی آیت میں ’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ کہہ کر نبی اکرمﷺ کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا ہے اور بعد میں ’’رُسلًا‘‘ کہہ کر باقی رسولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اور جہاں تک سورۃ الرعد کی آیت کا تعلق ہے تو وہ اس سے پہلے اس آیت کے مطابق ہے جس میں رسل کا ذکر متقدم ہے۔ فرمایا:
{وَلَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ} (آیت۳۲)
’’اور رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تم سے پہلے۔‘‘
چنانچہ آیت ۳۸ میں بھی اس آیت کا لحاظ رکھتے ہوئے رُسُل کا تذکرہ پہلے کیا گیا۔
اگر پھر یہ کہا جائے کہ آیت ۳۲ میں رُسُل کا ذکر پہلے کیوں ہے؟’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ کہ جس میں نبیﷺ کی طرف اشارہ ہے اسے پہلے کیوں نہیں لایا گیا؟تو ہم کہیں گے کہ مذکورہ آیت میں رسولوں کا تذکرہ ان کی جدوجہد ‘ ان کی تکریم اور ان کے چنے جانے کی حیثیت سے نہیں کیا گیا۔ اور اگر یہ مضمون ہوتا تونبیﷺ کا تذکرہ سب سے پہلے کیا جاتا ‘لیکن یہاں یہ ذکر کیا جا رہاہے کہ پچھلے انبیاء کی قوموں نے ان کے ساتھ کیسے بدسلوکی کی ‘ کیسے انہیں جھٹلایا۔اور یہ مضمون فضیلت بیان کرنے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ نبیﷺ انہی کی طرح ہر ایذاء کے مقابلے میں صبر و تحمل سے کام لیں اور ان کے اُسوہ کو اپنائیں جیسا کہ اس آیت میں بتایا گیا:
{فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ ط} (الاحقاف:۳۵)
’’تو پھر صبر کیجیے جیسے پختہ ارادوں والے رسولوں نے کیا تھااور ان کے لیے (عذاب طلب کرنے میں) جلد بازی سے کام نہ لیجیے۔‘‘
اور نبی اکرمﷺ کے شرف اور سیادت والے مقام کو کون نہیں جانتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ چونکہ مذکورہ آیت میں رسولوں سے مذاق کیے جانے کا تذکرہ تھا‘ اس لیے نبی اکرمﷺ کا ذکر مؤخر کیا گیا اور پھر آیت۳۸ میں پچھلی آیت کالحاظ رکھتے ہوئے اسی اسلوبِ بیان کو باقی رکھا گیا۔ اور پھر یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر انبیاء کا ذکر اجمالی طو رپر آتا ہے تو وہ اس طرح نہیں ہے کہ جہاں نام لے لےکر ان کا تذکرہ کیا جائے۔ اور ہم اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم!
سُوْرَۃُ اِبْرَاھِیْم(۱۹۸) آیت ۱
{ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(۱)}
’’اس کتاب کو ہم نے تمہاری طرف اُتارا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو اپنے رب کے اِذن کے ساتھ‘ (اللہ) عزّت والے اور تمام تعریفوں والے کے راستے کی طرف۔‘‘
اور سورئہ سبا میں ارشاد فرمایا:
{ وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ھُوَ الْحَقَّ ۙ وَیَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(۶)}
’’اور جن لوگوں کو علم عطا کیا گیا وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتارا گیا ہے وہی حق ہے اور وہ (اللہ) عزیز و حمید کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘
اور سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا:
{وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ (۲۴) }
’’اور اُن لوگوں کو اچھے قول کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں (اللہ) حمید کے راستے کی طرف ہدایت دی گئی۔‘‘
سوال واضح ہے کہ پہلی دونوں سورتوں میں صِرَاط (راستے) کی اضافت العَزِیْز الحَمِیْد یعنی اللہ تعالیٰ کے دو اَسماء حسنیٰ کی طرف کی گئی ہے ‘جبکہ سورۃ الحج میں صرف ایک اسم (الحَمِیْد) کی طرف کی گئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورئہ ابراہیم کی آیت سے قبل نبی اکرمﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
{لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ڏ}
’’تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو۔‘‘
یہاں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ کام نبیﷺ کے ہاتھ میں ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد کر چکے ہیں:
{لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ} (آلِ عمران:۱۲۸)
’’(اے نبیﷺ! )اس امر میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے۔‘‘
اورفرمایا:
{اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلٰغُ ط}(الشوریٰ:۴۸)
’’تمہارے اوپر کچھ نہیں ہے سوائے (اس پیغام کے) پہنچا دینے کے۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا:
{اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚ} (القصص:۵۶)
’’(اے نبیﷺ!)تم ہدایت نہیں دے سکتے جسے تم پسند کرتے ہو لیکن یہ اللہ ہے جو جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوگیا کہ اصل میں ارادہ اللہ تعالیٰ کا ہی ہے۔ وہی غلبہ اور قہر کا مالک ہے‘ بندوں سے وہی کچھ ہو سکتا ہے کہ جس کا ارادہ اللہ نے کیا ہے‘ اور اس کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ وہ چاہے تو سب کو ہدایت دے د ے‘ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اُس کی بادشاہت میں اُس کی مرضی کے بغیر کچھ ہو سکے۔ فرمایا:
{وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰىھَا} (السجدۃ:۱۳)
’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اُس کی ہدایت کے راستے پر لگا دیتے۔‘‘
چنانچہ سورئہ ابراہیم کی آیت میں ’’اَلْعَزِیْز‘‘ کہہ کر اُس کی عظمت اور قہاریت کی طرف اشارہ کر دیا اور اگر اس صفت عظمت کا بیان نہ ہوتا تو یہ مطلب واضح ہو کر نہ آتا۔
سورئہ سبا کی آیت۶ میں بھی یہی مطلب اور معنیٰ پنہاں ہے۔ فرمایا:
{وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ھُوَ الْحَقَّ ۙ}
یہاں رئویت بمعنی علم ہے یعنی وہ لوگ جن کو علم دیا گیا جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتارا گیا ہے وہی حق ہے۔
اب یہ بات محال ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہے وہ اس بات کو نہ سمجھ سکیں کہ اللہ کی مخلوق میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کی مرضی سے ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو ساری مخلوق کو ہدایت سے مالامال کردیتا۔ چنانچہ یہ آیت بالکل سورئہ ابراہیم والی آیت جیسی ہے‘دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں بھی ’’الْعَزِیْز‘‘ کا وصف لا کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار کیا گیا ہے۔ یعنی لوگوں کی ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘ نبی اکرمﷺ کے ہاتھ میں ان لوگوںکا تاریکیوں سے نکالا جانا یا ان کاہدایت کی طرف آنا نہیں ہے_------اور یہ بھی واضح رہے کہ ان آیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں کام واقع ہو چکے ہیں بلکہ ان آیات کا مقصود یہ ہے کہ جب نبی اکرمﷺ انہیں ہدایت کی طرف دعوت دیں تو توقع رکھی جائے کہ یہ لوگ اس دعوت کو قبول کریں گے۔ اور اس امید کا تعلق بھی بندوں سے ہے‘ اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے علم میں سب کچھ ہے کہ یہ لوگ کیا کریں گے اور کیا نہ کریں گے۔ البتہ ہم سےخطاب کے وقت ہماری اپنی متعارف کیفیات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
اور یہ بات کہ قرآن میں بعض ایسے الفاظ آئے ہیں جو لوگوں کے اپنے جانے پہچانے اسلوبِ کلام اور اپنی زبان کے اندازِ بیان کے مطابق آتے ہیں‘ اسے سیبویہ نے چند مثالوں کے تناظر میں واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ } (المرسلات) ’’اور بربادی ہو اس دن جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔ اور فرمایا: {وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (۱)} (المطففین) ’’بربادی ہو ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے‘‘۔تو اسے بددعا سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے بلکہ لوگوں کے اپنے دستور اور فہم کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ جیسےایک برے کام کرنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا‘ اسی طرح یہاں بھی ان دونوں اقسام کے لوگوں کے انجام کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرات موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجے جانے کے وقت کہا گیا:
{ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی(۴۴)} (طٰہ)
’’اور تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا ڈر محسوس کرے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کو تو بخوبی علم ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے لیکن تم دونوں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو اور اپنے مبلغ علم کے مطابق اس سے نرم لہجے میں خطاب کرو‘ شاید اسے نصیحت حاصل ہو جائے۔ اور ایسے ہی جہاں یہود ونصاریٰ کے شرک کے تناظر میں ارشاد فرمایا: {قٰتَلَھُمُ اللہُ ج}(التوبۃ:۳۰) ’’اللہ انہیں غارت کرے‘‘۔ وہاں بھی اسی انداز سے خطاب کیا گیا ہے جو لوگوں کے ہاں معروف تھا۔
اس وضاحت کی روشنی میں سورئہ ابراہیم اور سورئہ سبا کی ہر دو آیات میں اللہ تعالیٰ کے لیے وصف ’’العَزِیْز‘‘ لانے کی حکمت عیاں ہو جاتی ہے۔ اب رہی سورۃ الحج کی آیت جس میں صرف صفت ’’الحَمِیْد‘‘ کا بیان ہوا ہے یعنی {وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ (۲۴) } تو یہاں ایک ایسی بات کا بیان ہو رہا ہے جو واقع ہو چکی ہے۔ یہاں اہل ایمان کی مدح کی جا رہی ہے کہ انہیں اچھی بات کہنے کی ہدایت دے دی گئی ہے اور اس راستے کی طرف ہدایت دی گئی ہے جو اللہ کا راستہ ہے ‘ وہ اللہ جو قابل تعریف ہے ۔
یہاں کسی ایسے وصف کو لانے کی ضرورت نہ تھی کہ جس میں اللہ کی قہاریت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہوتا بلکہ اس کے قابل تعریف ہونے کا تذکرہ کافی تھا۔ اس لحاظ سے جہاں ’’العزیز‘‘ آیا ہے وہاں یہی مناسب تھا اور جہاں ’’الحمید‘‘ آیا ہے وہاں وہی مناسب تھا ‘واللہ سبحانہ اعلم!
(۱۹۹) آیت ۳۲
{اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ ۚ}
’’وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا اور پھر اس سے پھل پیدا کیے جو تمہارے لیے رزق رسانی کا باعث بنے ۔‘‘
اور سورۃ النمل میں ارشاد فرمایا:
{اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗئِقَ ذَاتَ بَھْجَۃٍ ۚ} (آیت۶۰)
’’بھلا کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور تمہارے لیے اُتارا آسمان سے پانی! اور پھر ہم نے اس سے خوش کن باغات اُگا دیے۔‘‘
یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ النمل میں ’’لَکُمْ‘‘ (تمہارے لیے) کا لفظ پہلے لایا گیا ہے لیکن سورئہ ابراہیم کی آیت میں بالکل آخر میں لایاگیا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورئہ ابراہیم کی آیت سے قبل فرمایا گیا:
{قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ.....} (آیت۳۱)
’’کہہ دو میرے بندوں سے جو ایمان لائے کہ وہ نماز قائم کریں اور اس میں سے خرچ کریں جو ہم نے انہیں بطور رزق عطا کیا ہے.....‘‘
اس آیت کے لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل ایمان یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے اور جو کچھ وہ آسمان سے پانی کی شکل میں برساتا ہے وہ بندوں کے لیے رحمت ہی رحمت ہے‘ اور ایسے ہی مردہ زمین کا زندہ کیا جانا‘ اور پھر اس میں سے انواع و اقسام کے دانوں اور پھلوں کا پیدا کیا جانا ‘یہ سب لوگوں کے معاشی اور اجتماعی حالات کو سدھارنے کے لیے ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔ وہی ہر چیز کا خالق ہے‘ وہی اس کا عطا کرنے والا بھی ہے۔ اس لیے اب اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ انہیں یہ تنبیہہ کی جاتی کہ یہ سب کچھ انہی کے لیے ہے‘ کیونکہ اہل ایمان ان باتوں سے غافل نہیں ہیں بلکہ وہ تو ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور موقع بموقع نصیحت اور عبرت حاصل کرتے رہتے ہیں۔اور اس اعتبار سے یہ لفظ (لَکُمْ) کہ یہ سب کچھ انہی کے لیے ہے‘ رزق کے دیے جانے کے بعد مؤخر کر دیا گیا اور یہ اس لیے بھی کہ یہی سنت ِالٰہی ہے جس کا تذکرہ اس آیت میں ہوا ہے:
{قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ } (الاعراف:۳۲)
’’کہہ دیجیے کہ یہ سب ایمان والوں کے لیے ہے دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن تو خالص انہی کے لیے ہو گا۔‘‘
اب رہی سورۃ النمل کی آیت تو اس سے قبل ارشادفرمایا:{اٰۗللہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۵۹) }’’کیا اللہ بہتر نہیں ہے اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں!‘‘ چونکہ یہاں مشرکین کو ان کے بداعمال اور عبرت و نصیحت سے چشم پوشی پر ڈانٹ پلائی جا رہی ہے تو انہیں غفلت کی نیند سے جھنجھوڑنے کے لیے یہ کہنا ضروری تھا کہ جو کچھ ہم نے بطور رزق اتارا ہے وہ انہی کے لیے تو اتارا ہے‘ اللہ کو تو اس کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اور اس بات کی تائید اگلی آیت سے بھی ہوتی ہے‘ فرمایا:
{مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَھَا ۭ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ ۭ بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ (۶۰)}
’’تمہارے لیے یہ ہرگز ممکن نہیں تھا کہ تم ان (پھلوں)کے درخت اُگا سکتے۔کیا ہے کوئی معبود اللہ کے ساتھ؟ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ اس کا مثیل ٹھہراتے ہیں۔‘‘
یعنی اپنے رب کے ساتھ ویساکوئی اور بھی مانتے ہیں یا اُس کی عبادت کے ساتھ کسی اور کی عبادت بھی کرتے ہیں اور یہی وہ شرک ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
اور اس مطلب و معنی کو واضح کرنے کے لیے ’’لَکُمْ‘‘ کا لفظ شروع میں لانا ضروری تھا تاکہ انہیں غفلت سے نکالنے اور جھنجھوڑنے کا مقصد حاصل ہو سکے۔ اور یہ بات مذکورہ لفظ کو بعد میں لانے سے حاصل نہیں ہوتی۔
قرآن مجید میں اس کے دوسرے نظائر بھی ہیں‘ملاحظہ ہو:
{وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ(۱۲)} (الزخرف)
’’اور تمہارے لیے کشتی اور جانوروں کی شکل میں سواری کا بندوبست کیا۔‘‘
اور یہ آیت اس آیت کے بعد آ رہی ہے جس میں مشرکین سے خطاب کیا گیا ہے:
{وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(۹)}
’’اور اگر تم ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیداکیا تو وہ کہیں گے کہ انہیں اس نے پیدا کیا جو غلبہ والا ہے‘ جاننے والا ہے۔‘‘
ایسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اُس کے درباریوں سے خطاب کرتےہوئے فرمایا:
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَھْدًا وَّسَلَکَ لَکُمْ فِیْھَا سُبُلًا} (طٰہٰ:۵۳)
’’جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے بنائے۔‘‘
اور یہ بات فرعون کے اس قول کے بعد آئی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے :
{قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی(۴۹)}
’’اس نے کہا کہ اے موسیٰ پھر تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘
اور موسیٰ علیہ السلام کے جواب کے بعد پھر پوچھتا ہے:
{قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی (۵۱)}
’’اچھا تو یہ بتائو پچھلی قوموں کی کیا خبر ہے؟‘‘
اور ہم ان معانی و مطالب کو ’’وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ‘‘ کے ضمن میں پہلے بھی بتا چکے ہیں اور سیبویہ کی طرف سے اس شعر کو پیش کرنے کے ضمن میں بھی :
لَتَقْرُبُنَّ قَرَبًا جُلذیًّا ما دَامَ فیھِنَّ فَصِیْلٌ حَیًّا
’’تمہیں پانی کی تلاش میں تیز تیز بھاگنا ہو گا جب تک کہ ریوڑمیں ایک بھی اونٹ کا بچہ باقی ہے۔ ‘‘
(ملاحظہ ہو نمبر ۳۰ /سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۲۔۱۷۳)
(۲۰۰) آیت ۳۴
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(۳۴)}
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا شروع کرو تو تم انہیں گن نہیں پائو گے۔ بے شک انسان بہت ظلم کرنے والا اور ناشکرا ہے۔‘‘
اور سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸)}
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا شروع کرو تو تم انہیں گن نہیں پائو گے۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا‘ مہربان ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ دونوں آیتوں کا مضمون ایک ہی ہے لیکن دونوں کا اختتام مختلف ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورئہ ابراہیم کی آیت سے قبل ارشاد فرمایا:
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَھُمْ دَارَ الْبَوَارِ(۲۹)}
’’کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں جا اُتارا۔‘‘
اور پھر ان کایہ وصف بھی بیان کیا:
{وَ جَعَلُوْا لِلٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ ۭ } (آیت۳۰)
’’اور انہوں نے اللہ کے لیے اس کے مثل ٹھہرائے تاکہ اس کے راستے سے (لوگوں کو) گمراہ کر سکیں۔‘‘
پھر اپنی نعمتوں کا بیان شروع کیا‘فرمایا:
{اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ ۚ}
’’وہی اللہ ہےجس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا اور پھر اس کے توسط سے تمہارے لیے پھلوں کا رزق نکالا۔‘‘
اس کے بعد چند اور نعمتوں کا ذکر کیا اور پھر ارشاد فرمایا:
{ وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ط} (آیت۳۴)
’’اور تمہیں ہر اُس چیز میں سے دیا جس کا تم نے سوال کیا تھا۔‘‘
اب یہاں ملاحظہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسے کیسے انعامات اور احسانات سے نوازا لیکن بندوں نے اس کا بدلہ ناشکری سے اور شرکیہ اعمال سے دیا تو مناسب ہوا کہ انسان کا یہ وصف بتایا جائے کہ وہ ظلم کرنے والا ہے‘ناشکرا ہے۔اور جہاں تک سورۃ النحل کی آیت کا تعلق ہے تو اس سے قبل صرف انسان پر کی جانے والی تمام نعمتوں اور احسانات کا ذکر ہے جس کا آغاز آیت ۴ سے ہوتا ہے:
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ} ’’انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا ۔‘‘
پھر چوپائوں کا ذکر کیا اور ان منافع (فوائد) کا جو ان سے حاصل ہوتے ہیں اوراس کے بعد آیت ۱۶ تک ایک کے بعد دوسری نعمت کا ذکر چلتا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں غفلت اور نسیان کی حالت سے بیدا ر کرنے کے لیے فرماناپڑا:
{ اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ(۱۷)}
’’بھلا جو پیدا کرے وہ اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کچھ پیدا نہ کرسکے؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ہو!‘‘
اور پھر مذکورہ آیت کا بیان ہے :
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا ۭ}
اور اس لحاظ سے مناسب تھا کہ آیت کا اختتام ’’ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ پر ہوتا۔ واللہ اعلم!
(۲۰۱) آیت ۵۲
{ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۵۲)}
’’اور یہ (پیغام) تمام لوگوں تک پہنچا دینے کے لیے ہے اور اس لیے کہ انہیں اس کے ذریعے تنبیہہ کی جا سکے اور اس لیے بھی کہ وہ جان لیںکہ معبود صرف ایک اللہ کی ذات ہے اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کر سکیں۔‘‘
اور سورئہ صٓ میں ارشاد فرمایا:
{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)}
’’یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے‘ برکت والی ہے‘ تاکہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں ’’یَذَّکَّرُ‘‘ لایا گیا جبکہ دوسری آیت میں تاء تفعیل کے ساتھ ’’یَتَذَکَّرُ‘‘ لایا گیا تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کاجواب یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں سیاقِ آیات کے اعتبار سے مناسبت پائی جاتی ہے۔سورئہ صٓ کی آیت میں پہلے ’’یَدَّبَّرُوْا‘‘ ہے جس میں دو حروفِ شدّت ہیں یعنی دال اور باء اور دوسرا تشدید کے ساتھ ہے تو اس لحاظ سے ’’یَتَذَکَّرُ‘‘ کا لانا مناسب تھا کہ اس میں بھی دو حروف شدّت ہیں یعنی تاء اور کاف‘ جن میں دوسرا تشدید کے ساتھ ہے۔
اب رہی سورئہ ابراہیم کی آیت تو مذکورہ لفظ سے قبل دو ایسے کلمات لائے گئے یعنی ’’لِیَذَّکَّرُوْا‘‘ اور ’’لِیَعْلَمُوْا‘‘ جن میں حروفِ شدّت نہیں ہیں‘ بلکہ ان میں حروف رخوہ (نرم الفاظ) پائے جاتے ہیں‘تو ان پر ’’لِیَذَّکَّر‘‘ لایا جانا مناسب تھاکہ اس میں سوائے کاف کے دوسراکوئی حرف ِشدّت نہیں پایاجاتا۔
پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ یَذَّکَّرُ اور یَتَذَکَّر دونوں کامعنی ایک ہے‘ ان میں ایک کے اندر ادغام ہے (یعنی ت کو ’’ذ‘‘ میں ملا دیا گیا ہے )اور دوسرے میں انفکاک ہے یعنی ’’ت‘‘اور ’’ذ‘‘ دونوں موجود ہیں ‘ ملے ہوئے نہیں اور یہی اصل ہے کہ دونوں علیحدہ ہوں۔
’’یَذَّکَّرُ‘‘ کا اصل یَتَذَکَّرہی ہے ‘ اور پہلا لفظ خفیف ہونے کی بنا پر زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اسی لیے جو سورت قرآن میں پہلے آئی ہے یعنی سورۃ ابراہیم‘ اس میں اسے لایا گیا اور جو سورت بعد میں آئی ہے یعنی سورۂ ’’صٓ‘‘ اس میں ثقیل لفظ لایا گیا۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سورۃ البقرۃ میں {فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ} کہا گیا اور بعد کی ایک سورت یعنی طٰہ میں {فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ} لایا گیا۔
اس سے قبل بھی مزید نظائر پیش کیے جا چکے ہیں‘ مزید اور آئیں گے جس سے ہماری بات کی تقویت ہوتی رہے گی۔
اوریوں ظاہر ہو گیا کہ دونوں آیات میں وجہ تناسب کیا ہے اور اگر اس کا اُلٹ ہوتا تو وہ قطعاً غیر مناسب ہوتا‘ واللہ اعلم!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024