(فہم القرآن) ترجمۂ قرآن مجید مع صرفی و نحوی تشریح - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

11 /

ترجمۂ قرآن مجید مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ یُوسُفآیات ۵۸ تا ۶۴{وَجَاۗءَ اِخْوَۃُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ(۵۸) وَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّکُمْ مِّنْ اَبِیْکُمْ ۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْٓ اُوْفِی الْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ (۵۹) فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَا کَیْلَ لَکُمْ عِنْدِیْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ(۶۰) قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ (۶۱) وَقَالَ لِفِتْیٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَھُمْ فِیْ رِحَالِھِمْ لَعَلَّھُمْ یَعْرِفُوْنَھَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَھْلِھِمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(۶۲) فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْہِمْ قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَکْتَلْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (۶۳) قَالَ ھَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ اِلَّا کَمَآ اَمِنْتُکُمْ عَلٰٓی اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ ۭ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا ۠ وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (۶۴)}
ج ھ ز
جَھَزَ یَجْھَزُ (ف) جَھْزًا : کسی ادھورے کام کو پورا کرنا‘ جیسے زخمی کو مار کر اس کا کام تمام کر دینا۔
جَھَازٌ : کسی کی ضرورت پوری کرنے والا سامان ۔ زیر مطالعہ آیت ۵۹
جَھَّزَ (تفعیل) تَجْھِیْزًا : کسی کے لیے ضرورت کا سامان مہیّا کرنا‘ تیّار کرنا۔ زیرمطالعہ آیت۵۹۔
ر ح ل
رَحَلَ یَرْحَلُ (ف) رَحْلًا : (۱) اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر کجاوہ باندھنا۔ (۲) سفر کرنا۔
رَحْلٌ ج رِحَالٌ : سامان رکھنے کا تھیلا یا بوری وغیرہ۔ زیر مطالعہ آیت ۶۲۔
رِحْلَۃٌ : کُوچ‘ سفر ۔ { رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ(۲)} (قریش) ’’جاڑے اور گرمی کا سفر۔‘‘
ترکیب
(آیت۶۳) نَکْتَلْ بابِ افتعال کا مضارع مجزوم ہے‘ جو فعل امر اَرْسِلْ کا جوابِ امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔
ترجمہ :
وَجَاۗءَ :اور آئے

اِخْوَۃُ یُوْسُفَ :یوسفؑ کے بھائی
فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ :پھر وہ لوگ داخل ہوئے انؑ پر(یعنی حاضر ہوئے)

فَعَرَفَھُمْ :توانہوںؑ نے پہچانا ان لوگوں کو
وَھُمْ لَہٗ :اور وہ لوگ انؑ کو

مُنْکِرُوْنَ: پہچاننے والے نہ تھے
وَلَمَّا :اور جب

جَھَّزَھُمْ:انہوںؑ نے تیار کیا ان کے لیے
بِجَھَازِھِمْ :ان کی ضرورت کے سامان کو

قَالَ ائْتُوْنِیْ :تو انہوںؑ نے کہا: تم لوگ آنا میرے پاس
بِاَخٍ لَّکُمْ :اپنے اُس بھائی کے ساتھ جو

مِّنْ اَبِیْکُمْ :تمہارے والد سے ہے
اَلَا تَرَوْنَ :کیا تم لوگ دیکھتے نہیں

اَنِّیْٓ اُوْفِی:کہ مَیں پورا کرتا ہوں
الْکَیْلَ :پیمانہ بھرنے کو

وَاَنَا:اور مَیں
خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ :اُتارنے والوں (یعنی مہمان نوازوں) کا بہترین ہوں

فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ :پھر اگر تم نہ آئے میرے پاس
بِہٖ :اس کے ساتھ

فَلَا کَیْلَ :تو کوئی پیمانہ بھرنا نہیں ہے
لَکُمْ عِنْدِیْ :تمہارے لیے میرے پاس

وَلَا تَقْرَبُوْنِ:اور تم لوگ میرے قریب مت آنا
قَالُوْا :ان لوگوں نے کہا

سَنُرَاوِدُ:ہم پھسلائیں گے
عَنْہُ :اُس (کو روکنے) سے

اَبَاہُ:اُس کے والد کو
وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ :اور بے شک ہم (یہ ) ضرور کرنے والے ہیں 

وَقَالَ:اور انہوںؑ نے کہا
لِفِتْیٰنِہِ :اپنے نوجوان خادموں سے

اجْعَلُوْا :تم لوگ رکھ دو

بِضَاعَتَھُمْ :ان کی پونجی کو

فِیْ رِحَالِھِمْ :ان کی بوریوں میں
لَعَلَّھُمْ یَعْرِفُوْنَھَآ: شاید وہ لوگ پہچانیں اس کو

اِذَا انْقَلَبُوْٓا :جب وہ لوگ پلٹیں
اِلٰٓی اَھْلِھِمْ :اپنے گھر والوں کی طرف

لَعَلَّھُمْ:شاید وہ لوگ
یَرْجِعُوْنَ:واپس آئیں

فَلَمَّا رَجَعُوْٓا :پھر جب وہ لوگ واپس پہنچے
اِلٰٓی اَبِیْہِمْ : اپنے والد کی طرف

قَالُوْا یٰٓاَبَانَا:توانہوں نے کہا: اے ہمارے والد
مُنِعَ مِنَّا :روکا گیا ہم سے

الْکَیْلُ :پیمانہ بھرنے کو
فَاَرْسِلْ :تو آپؑ بھیجیں

مَعَنَآ:ہمارے ساتھ
اَخَانَا :ہمارے بھائی کو

نَکْتَلْ:تو ہم اپنے لیے پیمانہ بھریں
وَاِنَّا لَہٗ :اور بے شک ہم اس کی

لَحٰفِظُوْنَ :یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں
قَالَ :(یعقوبؑ نے) کہا

ھَلْ اٰمَنُکُمْ:کیا مَیں اعتبار کروں تم لوگوں کا
عَلَیْہِ :اس (بات) پر

اِلَّا کَمَآ:سوائے اس کے کہ جس طرح
اَمِنْتُکُمْ :مَیں نے اعتبار کیا تمہارا

عَلٰٓی اَخِیْہِ :اس کے بھائی کے بارے میں
مِنْ قَبْلُ :اس سے پہلے

فَاللّٰہُ خَیْرٌ :پس اللہ سب سے بہتر ہے
حٰفِظًا :بطور حفاظت کرنے والے کے

وَّھُوَ:اور وہ
اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ :رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
نوٹ۱:آیت ۵۹۔۶۰ کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قحط کے زمانے میں مصر میں غلّہ کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدار میں غلّہ لے سکتا تھا۔ غلّہ لینے کے لیے دس بھائی آئے تھےمگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصّہ بھی مانگتے ہوں گے۔ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا ہوگا کہ تمہارے والد کے نہ آنے کا عذر تو معقول ہو سکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں مگر بھائی کے نہ آنے کا معقول سبب نہیں ہے۔ اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے پورا غلّہ دے دیتے ہیں مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلّہ نہیں مل سکے گا۔ (تفہیم القرآن)
نوٹ۲: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کی پونجی ان کے سامان میں رکھوا دی تھی‘ اس کی کیا وجہ تھی۔ ابن ِکثیرؒ نے اس کے کئی احتمال بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ انؑ کو خیال آیا کہ شاید ان کے بھائیوں کے پاس اس نقدی اور زیور کے سوا اور کچھ نہ ہو‘ تو پھر دوبارہ غلّہ لینے کے لیے نہیں آ سکیں گے۔ دوسرے یہ کہ اپنے والد اور بھائیوں سے کھانے کی قیمت لینا گوارا نہ ہوا‘ اس لیے شاہی خزانہ میں اپنے پاس سے رقم جمع کر کے ان کی رقم واپس کر دی۔ تیسرے یہ کہ وہ جانتے تھے کہ جب ان کی پونجی ان کو واپس ملے گی اور والد کو علم ہو گا تو وہ اللہ کے رسول ہیں‘ اُس پونجی کو مصری خزانے کی امانت سمجھ کر ضرور واپس بھیجیں گے۔ اس طرح بھائیوں کا واپس آنا یقینی ہو جائے گا۔ بہرحال حضرت یوسف ؑ نے یہ انتظام اس لیے کیا کہ آئندہ بھی بھائیوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہے اور اپنے سگے چھوٹے بھائی سےملاقات بھی ہو جائے۔ (منقول ا ز معارف القرآن)
آیات ۶۵ تا ۶۸{وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ اِلَیْھِمْ ۭ قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَانَبْغِیْ ۭ ھٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا ۚ وَنَمِیْرُ اَھْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیْرٍ ۭ ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ (۶۵) قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَکُمْ حَتّٰی تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللہِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ ۚ فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اللہُ عَلٰی مَانَقُوْلُ وَکِیْلٌ(۶۶) وَقَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ۭ وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَیْءٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ۭ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ ۚ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(۶۷) وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ ۭ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰىھَا ۭ وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۶۸)}
م ی ر
مَارَ یَمِیْرُ (ض) مَیْرًا : کسی کے لیے خوراک لانا۔ زیرمطالعہ آیت ۶۵
ب ع ر
بَعِرَ یَبْعَرُ (س) بَعَرًا : اونٹ کا چار سال یا نو سال کا ہونا۔
بَعِیْرٌ : اونٹ (مذکر و مؤنث دونوں کے لیے آتاہے) ۔زیر مطالعہ آیت ۶۵
ح و ج
حَاجَ یَحُوْجُ (ن) حَوْجًا :ضرورت مند ہونا‘ کسی چیز کی خواہش کرنا۔
حَاجَۃٌ : ایسی ضرورت جس کی دل میں خواہش ہو۔ (۱) ضرورت(۲) دلی خواہش۔ زیر مطالعہ آیت۶۸
ترکیب
(آیت۶۵) نَزْدَادُ دراصل مادہ ’’ز ی د‘‘ سے بابِ افتعال کے مضارع کا جمع متکلم کا صیغہ ہے‘ جو اصل میں نَزْتَادُ تھا‘ تاءِ افتعال کو دال سے بدل دیا گیا ہے۔ (آیت۶۷) بَنِیَّ دراصل بَنِیْنَ تھا۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون گرا تو بَنِیْ باقی بچا۔ اسی پر مضاف الیہ یائے متکلم داخل ہوئی تو بَنِیَّ ہو گیا۔ (آیت۶۸) قَضٰىھَا کی ضمیر فاعلی ھُوَ کی ضمیر ہے جو یعقوب علیہ السلام کے لیے ہے اور ھَا کی ضمیر مفعولی حَاجَۃً کے لیے ہے۔
ترجمہ:
وَلَمَّا :اور جب

فَتَحُوْا :انہوں نے کھولا
مَتَاعَھُمْ :اپنے سامان کو

وَجَدُوْا :تو انہوں نے پایا
بِضَاعَتَھُمْ :اپنی پونجی کو

رُدَّتْ اِلَیْھِمْ :جو لوٹائی گئی ان کی طرف
قَالُوْا یٰٓاَبَانَا:انہوں نے کہا :اے ہمارے باپ

مَانَبْغِیْ :ہم(اور) کیا چاہیں 
ھٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا :یہ ہماری پونجی ہے

رُدَّتْ اِلَیْنَا :جو لوٹائی گئی ہماری طرف
وَنَمِیْرُ :اور ہم خوراک لائیں گے

اَھْلَنَا:اپنے گھر والوں کے لیے
وَنَحْفَظُ :اور ہم حفاظت کریں گے

اَخَانَا:اپنے بھائی کی
وَنَزْدَادُ :اور ہم زیادہ ہوں گے

کَیْلَ بَعِیْرٍ :ایک اونٹ کے پیمانے (بوجھ) کے لحاظ سے
ذٰلِکَ :یہ

کَیْلٌ یَّسِیْرٌ :آسان پیمانہ بھرنا ہے
قَالَ :انہوںؑ(یعقوب) نے کہا :

لَنْ اُرْسِلَہٗ :مَیں ہرگز نہیں بھیجوں گا اس کو
مَعَکُمْ :تم لوگوں کے ساتھ

حَتّٰی :یہاں تک کہ
تُؤْتُوْنِ :تم لوگ دو مجھ کو

مَوْثِقًا:ایک پختہ وعدہ
مِّنَ اللہِ :اللہ سے (کہ)

لَتَاْتُنَّنِیْ:تم لوگ لازماً آئو گے میرے پاس
بِہٖٓ :اس کے ساتھ

اِلَّآ اَنْ:سوائے اس کے کہ
یُّحَاطَ بِکُمْ :گھیر لیا جائے تم لوگوں کو

فَلَمَّآ اٰتَوْہُ:پھر جب ان لوگوں نے دیا انؑ کو

مَوْثِقَھُمْ :اپنا پختہ وعدہ

قَالَ :تو انہوںؑ نے کہا
اللہُ عَلٰی مَا :اللہ اس پر جو

نَقُوْلُ:ہم کہتے ہیں
وَکِیْلٌ :نگہبان ہے

وَقَالَ یٰبَنِیَّ:اور انہوںؑ نے کہا: اے میرے بیٹو
لَا تَدْخُلُوْا :تم لوگ داخل مت ہونا

مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ :ایک دروازے سے
وَّادْخُلُوْا:اور تم لوگ داخل ہونا

مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ :الگ الگ دروازوں سے
وَمَآ اُغْنِیْ :اور مَیں کام نہیں آئوں گا

عَنْکُمْ :تمہارے
مِّنَ اللہِ :اللہ سے

مِنْ شَیْءٍ :کسی بھی چیز سے
اِنِ الْحُکْمُ :نہیں ہے حکم دینا

اِلَّا لِلہِ :مگر اللہ کے لیے
عَلَیْہِ :اُس پر ہی

تَوَکَّلْتُ :مَیں نے بھروسہ کیا
وَعَلَیْہِ :اور اُس پر ہی

فَلْیَتَوَکَّلِ:پس چاہیے کہ بھروسہ کریں
الْمُتَوَکِّلُوْنَ:بھروسہ کرنے والے

وَلَمَّا دَخَلُوْا:اور جب وہ داخل ہوئے
مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ:جہاں سے حکم دیا اُن کو

اَبُوْھُمْ:اُن کے والدنے
مَا کَانَ : وہ نہیں تھا (کہ)

یُغْنِیْ عَنْھُمْ :کام آتا اُن کے
مِّنَ اللہِ :اللہ سے

مِنْ شَیْءٍ :کسی بھی چیز سے
اِلَّا حَاجَۃً :مگر ایک خواہش

فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ :یعقوبؑ کے جی میں
قَضٰىھَا:انہوں نے پورا کیا اس کو

وَاِنَّہٗ:اور بے شک وہ

لَذُوْ عِلْمٍ:یقیناً صاحب ِعلم تھے

لِّمَا عَلَّمْنٰہُ :اُس کے جو ہم نے علم دیا ان کو
وَلٰکِنَّ :اورلیکن

اَکْثَرَ النَّاسِ :لوگوں کے اکثر
لَا یَعْلَمُوْنَ :جانتے نہیں ہیں

نوٹ:آیت ۶۸ میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام صاحبِ علم تھے اور یہ علم اللہ نے ان کو دیا تھا‘لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکّل کے درمیان اتنا ٹھیک اور صحیح توازن جو حضرت یعقوب ؑکے مذکورہ بالا اقوال میں پایا جاتاہے‘ وہ دراصل اُس علم ِحقیقت کا فیض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا تھا۔ ایک طرف وہ عالمِ اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنیاد پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر تنبیہہ کرتے ہیں ‘ خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیںاور وقت کے سیاسی حالات کےتحت تاکید کرتے ہیں کہ تم سب ایک دروازے سے داخل مت ہونا۔ مگر دوسری طرف بار بار اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے۔ اور بھروسہ اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے۔اپنی باتوں اور اپنے کاموں میں یہ صحیح توازن صرف وہی شخص قائم کر سکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ دنیا کے ظاہری اسباب و علل کے نظام کے پیچھے اصل کارفرما طاقت کون سی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسہ کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۶۹ تا ۷۶{وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۹) فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُھَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسٰرِقُوْنَ(۷۰) قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَیْھِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ(۷۱) قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِہٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّاَنَا بِہٖ زَعِیْمٌ(۷۲) قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کُنَّا سٰرِقِیْنَ(۷۳) قَالُوْا فَمَا جَزَاۗؤُہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ کٰذِبِیْنَ (۷۴) قَالُوْا جَزَاۗؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِہٖ فَھُوَ جَزَاۗؤُہٗ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۷۵) فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِیْہِ ۭ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ ۭ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللہُ ۭ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (۷۶)}
ع ی ر
عَارَ یَعِیْرُ (ض) عَیْرًا : اِدھر اُدھر آنا جانا۔
عِیْرٌ : قافلہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۷۰
ف ق د
فَقَدَ یَفْقِدُ (ض) فُقْدَانًا : (۱) کسی چیز کا گم ہوجانا۔ (۲) کسی چیز کو نہ پانا۔ زیر مطالعہ آیت۷۱۔
تَفَقَّدَ (تفعل) تَفَقُّدًا: (۱) تلاش کرنا۔ (۲) کسی چیز کا جائزہ لینا کہ کچھ کم یا گم تو نہیں ہوئی۔ {وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ} (النمل:۲۰) ’’اور اُس نے جائزہ لیا پرندوں کا۔‘‘
ص و ع
صَاعَ یَصُوْعُ (ن) صَوْعًا :کسی پیمانے سے ناپنا۔
صُوَاعٌ : پینے کا پیالہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۷۲
و ع ی
وَعٰی یَعِیْ (ض) وَعْیًا : جمع کرنا‘ یاد رکھنا۔ {لِنَجْعَلَھَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّ تَعِیَھَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ(۱۲)} (الحاقۃ) ’’تاکہ ہم بنائیں اس کو تمہارے لیے ایک یاد دہانی اور تاکہ یاد رکھیں اس کو یاد رکھنے والے کان۔‘‘
وَاعِیَۃٌ (اسم الفاعل وَاعٍ کا مؤنث) : یاد رکھنے والا۔ اور آیت (الحاقۃ:۱۲) دیکھیں۔
وِعَاءٌ ج اَوْعِیَۃٌ :وہ چیز جس میں کوئی چیز جمع کی جائے۔تھیلا‘ بوری وغیرہ۔ زیر مطالعہ آیت۷۶۔
اَوْعٰی (افعال) اِیْعَاءً : جمع کی ہوئی چیز کو محفوظ رکھنا۔ {وَجَمَعَ فَاَوْعٰی(۱۸)} (المعارج) ’’اور اُس نے جمع کیا پھر محفوظ رکھا۔‘‘
ترجمہ:
وَلَمَّا :اور جب

دَخَلُوْا :وہ لوگ داخل (حاضر) ہوئے
عَلٰی یُوْسُفَ :یوسفؑ پر

اٰوٰٓی :تو انہوںؑ نے جگہ دی
اِلَیْہِ :اپنے پاس

اَخَاہُ :اپنے بھائی کو
قَالَ :(پھر) انہوںؑ نے کہا

اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ :کہ مَیں ہی تمہارا بھائی ہوں
فَلَا تَبْتَئِسْ :پس تم دل برداشتہ مت ہو

بِمَا:اس سے جو
کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ :یہ لوگ کرتے تھے

فَلَمَّا:پھر جب
جَھَّزَھُمْ :انہوںؑ نے تیار کیا ان کے لیے

بِجَھَازِھِمْ :ان کی ضرورت کے سامان کو
جَعَلَ :تو انہوںؑ نے رکھا

السِّقَایَۃَ:پینے کے پیالے کو
فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ :اپنےبھائی کے تھیلے میں

ثُمَّ اَذَّنَ :پھر پکارا
مُؤَذِّنٌ :ایک پکارنے والے نے

اَیَّتُھَا الْعِیْرُ :اے قافلے والو!
اِنَّکُمْ :بے شک تم لوگ

لَسٰرِقُوْنَ:یقیناً چوری کرنے والے ہو
قَالُوْا :انہوں نے کہا :

وَاَقْبَلُوْا :اور وہ لوگ سامنے ہوئے
عَلَیْھِمْ :ان کے

مَّاذَا :وہ کیا ہے جو
تَفْقِدُوْنَ :تم لوگ نہیں پاتے

قَالُوْا :انہوں نےکہا :
نَفْقِدُ :ہم نہیں پاتے

صُوَاعَ الْمَلِکِ :بادشاہ کا پینے کا پیالہ

وَلِمَنْ:اور اس کے لیے جو

جَاۗءَ بِہٖ :لائے گا اس کو
حِمْلُ بَعِیْرٍ :ایک اونٹ کا بوجھ (انعام) ہے

وَّاَنَا بِہٖ:اور مَیں اس کا
زَعِیْمٌ :ضامن ہوں

قَالُوْا تَاللّٰہِ :انہوں نے کہا :اللہ کی قسم!
لَقَدْ عَلِمْتُمْ :بے شک تم لوگ جان چکے ہو

مَّا جِئْنَا :ہم نہیں آئے
لِنُفْسِدَ :کہ ہم نظم بگاڑیں

فِی الْاَرْضِ :زمین میں
وَمَا کُنَّا :اور ہم نہیں ہیں 

سٰرِقِیْنَ:چوری کرنے والے
قَالُوْا :انہوں نے کہا :

فَمَا جَزَاۗؤُہٗٓ :توکیا اُس کا بدلہ ہے
اِنْ کُنْتُمْ :اگر تم لوگ

کٰذِبِیْنَ :جھوٹ کہنے والے ہو
قَالُوْا : ان لوگوں نے کہا :

جَزَاۗؤُہٗ مَنْ :اس کا بدلہ وہ ہے
وُّجِدَ :وہ (پیالہ) پایا گیا

فِیْ رَحْلِہٖ:جس کے تھیلے میں
فَھُوَ جَزَاۗؤُہٗ : تو وہی اس کا بدلہ ہے

کَذٰلِکَ:اس طرح
نَجْزِی : ہم بدلہ دیتے ہیں

الظّٰلِمِیْنَ:ظلم کرنے والوں کو
فَبَدَاَ :تو انہوںؑ نے ابتدا کی

بِاَوْعِیَتِہِمْ:ان لوگوں کے تھیلوں(کی تلاشی) سے
قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِیْہِ :اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے

ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا : پھر انہوںؑ نے نکالا اس (پیالے) کو
مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِیْہِ :اپنے بھائی کے تھیلے سے

کَذٰلِکَ :اس طرح
کِدْنَا :ہم نے (یعنی اللہ نے) خفیہ تدبیر کی

لِیُوْسُفَ :یوسفؑ کے لیے
مَا کَانَ :(ممکن) نہیں تھا

لِیَاْخُذَ :کہ وہؑ پکڑیں
اَخَاہُ :اپنے بھائی کو

فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ :بادشاہ کے دستور میں 
اِلَّآ اَنْ :سوائے اس کے کہ (جو)

یَّشَاۗءَ اللہُ:چاہے اللہ
نَرْفَعُ :ہم بلند کرتے ہیں

دَرَجٰتٍ :درجوں کے لحاظ سے
مَّنْ نَّشَاۗءُ :اس کو جسے ہم چاہتے ہیں

وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ:اور ہر علم والے کے اُوپر
عَلِیْمٌ :ایک علیم (ذات) ہے

نوٹ:اپنے بھائی کو روکنے کے لیے یوسف علیہ السلام نے جو تدبیر کی اس سے ذہن میں کچھ اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں‘ لیکن صحیح جواب وہی ہے جو قرطبی اور مظہری وغیرہ نے دیا ہے کہ اس واقعہ میں جو کچھ کیا گیا اورکہا گیاوہ سب بامر ِالٰہی تھے اور اُس ہی کی حکمت ِبالغہ کے مظاہر تھے۔ اس جواب کی طرف خود قرآن کی اس آیت میں اشارہ موجود ہے کہ ’’اس طرح ہم نے خفیہ تدبیر کی یوسف ؑ کے لیے۔‘‘ اس آیت میں واضح طو رپر اللہ تعالیٰ نے اس تدبیر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ جب یہ سب کچھ بامر ِخداوندی ہوا تو اس کوناجائز کہنے کے کوئی معنٰی نہیں رہتے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حضرت خضر علیہ السلام کا کشتی توڑنا‘ لڑکے کا قتل کرنا وغیرہ جو بظاہر گناہ تھے۔ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان پر اعتراض کیا تھا۔ مگر حضرت خضرؑ یہ سب کام باذنِ خداوندی خاص مصلحتوں کے تحت کر رہے تھے ‘اس لیے ان کا کوئی گناہ نہ تھا۔ (معارف القرآن)
آیات۷۷ تا ۸۲{قَالُوْٓا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ ۚ فَاَسَرَّھَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِہٖ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُمْ ۚ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ (۷۷) قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَہٗٓ اَبًا شَیْخًا کَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۷۸) قَالَ مَعَاذَ اللہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗٓ لا اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ (۷۹) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیًّا ۭ قَالَ کَبِیْرُھُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاکُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْکُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللہِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَ ۚ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰی یَاْذَنَ لِیْٓ اَبِیْٓ اَوْیَحْکُمَ اللہُ لِیْ ۚ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ (۸۰) اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْکُمْ فَقُوْلُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ ۚ وَمَا شَھِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ(۸۱) وَسْئَلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْھَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْٓ اَقْبَلْنَا فِیْھَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۸۲) }
ب ر ح
بَرِحَ یَبْرَحُ (س) بَرَحًا : کسی چیز کو چھوڑ دینا‘ کسی جگہ سے ہٹ جانا۔ زیر مطالعہ آیت۸۰
ترجمہ:
قَالُوْٓا :ان لوگوں نے کہا :

اِنْ یَّسْرِقْ :اگر اس نے چوری کی ہے
فَقَدْ سَرَقَ :تو چوری کر چکا ہے

اَخٌ لَّہٗ :ایک بھائی اس کا
مِنْ قَبْلُ :اس سے پہلے

فَاَسَرَّھَا :تو چھپایا اس (بات) کو
یُوْسُفُ :یوسفؑ نے

فِیْ نَفْسِہٖ :اپنے جی میں 
وَلَمْ یُبْدِھَا:اور ظاہر نہیں کیا اس (بات) کو

لَھُمْ:ان کے لیے
قَالَ :انہوںؑ نے (اپنے جی میں) کہا:

اَنْتُمْ :تم لوگ
شَرٌّ :سب سے گھٹیاہو

مَّکَانًا :بلحاظ درجہ کے
وَاللہُ اَعْلَمُ :اور اللہ خوب جاننے والا ہے

بِمَا تَصِفُوْنَ :اُس کو جو تم لوگ بتاتے ہو
قَالُوْا :ان لوگوں نے کہا :

یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ :اے عزیز !
اِنَّ لَہٗٓ اَبًا :کہ اس کے ایک والد ہیں

شَیْخًا کَبِیْرًا :جو بہت بوڑھے ہیں
فَخُذْ :پس آپؑ پکڑلیں

اَحَدَنَا :ہمارے ایک کو
مَکَانَہٗ :اس کی جگہ

اِنَّا نَرٰىکَ :بے شک ہم دیکھتے ہیں آپؑ کو
مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ:احسان کرنے والوں میں سے

قَالَ مَعَاذَ اللہِ :انہوںؑ نے کہا: اللہ کی پناہ
اَنْ نَّاْخُذَ :کہ ہم پکڑیں

اِلَّا مَنْ :مگر اُس کو
وَّجَدْنَا :ہم نے پایا

مَتَاعَنَا :اپنا سامان

عِنْدَہٗٓ :جس کے پاس

اِنَّآ اِذًا :بے شک ہم پھر تو
لَّظٰلِمُوْنَ :ضرور ظلم کرنے والے ہیں

فَلَمَّا :پھر جب
اسْتَیْئَسُوْا مِنْہُ:وہ مایوس ہوئے انؑ سے

خَلَصُوْا :تو وہ لوگ الگ ہوئے
نَجِیًّا :سرگوشی کرتے ہوئے

قَالَ کَبِیْرُھُمْ :کہا اُن کے بڑے نے
اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا :کیا تم لوگوں نے نہیں جانا

اَنَّ اَبَاکُمْ :کہ تمہارے والد
قَدْ اَخَذَ عَلَیْکُمْ:لے چکے ہیں تم پر

مَّوْثِقًا :ایک پختہ وعدہ
مِّنَ اللہِ :اللہ سے

وَمِنْ قَبْلُ :اور اس سے پہلے
مَا فَرَّطْتُّمْ : جو تم نے کوتاہی کی

فِیْ یُوْسُفَ:یوسفؑ(کے معاملہ) میں 
فَلَنْ اَبْرَحَ : پس مَیں ہرگز نہیں ہٹوں گا

الْاَرْضَ :اس سرزمین سے
حَتّٰی یَاْذَنَ :یہاں تک کہ اجازت دیں

لِیْٓ اَبِیْٓ:مجھ کو میرے والد
اَوْیَحْکُمَ :یا حکم دے

اللہُ لِیْ:اللہ مجھ کو
وَھُوَ :اور وہ

خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ: حکم دینے والوں کا بہترین ہے
اِرْجِعُوْٓا :تم لوگ لوٹو

اِلٰٓی اَبِیْکُمْ :اپنے والد کی طرف
فَقُوْلُوْا :پھر کہو

یٰٓاَبَانَآ :اےہمارے والد
اِنَّ ابْنَکَ :بے شک آپ کے بیٹے نے

سَرَقَ:چوری کی

وَمَا شَھِدْنَآ :اور ہم نے گواہی نہیں دی

اِلَّا بِمَا: مگر اُس کی جو
عَلِمْنَا :ہم نے جانا

وَمَا کُنَّا :اور ہم نہیں تھے
لِلْغَیْبِ :غیب کی

حٰفِظِیْنَ:حفاظت کرنے والے
وَسْئَلِ :اور آ پ پوچھ لیں 

الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ :اُس بستی والوں سے
کُنَّا فِیْھَا :ہم تھے جس میں 

وَالْعِیْرَ الَّتِیْٓ :اور اُس قافلہ سے
اَقْبَلْنَا :ہم آگے بڑھے (یعنی آئے)

فِیْھَا:جس میں 
وَاِنَّا :اور بے شک ہم

لَصٰدِقُوْنَ: یقیناً سچ کہنے والے ہیں
آیات ۸۳ تا ۸۷{قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ۭ عَسَی اللہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِھِمْ جَمِیْعًا ۭ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (۸۳) وَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ(۸۴) قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھٰلِکِیْنَ (۸۵) قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ ۭ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (۸۷)}
ف ت ء
فَتَأَ یَفْتَؤُ (ف) وَ فَتِئَ یَفْتَؤُ فَتْئًا وَ فَتَأً : کسی کام کو کرتے رہنا۔ زیر مطالعہ آیت ۸۵
ش ک و
شَکَا یَشْکُوْ (ن) شَکْوًا : کسی چیز کو ظاہر کرنا‘ بیان کرنا۔ زیرمطالعہ آیت ۸۶
مِشْکٰوۃٌ : ظاہر کرنے کا آلہ‘ چراغ رکھنے کا طاق۔{مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ ط} (النور:۳۵) ’’اُس کے نور کی مثال ایک طاق جیسی ہے جس میں ایک چراغ ہے۔‘‘
اِشْتَکٰی (افتعال) اِشْتِکَاءً: اہتمام سے بیان کرنا‘ فریاد کرنا۔{وَتَشْتَکِیْ اِلَی اللہِ ق} (المجادلۃ:۱)’’اور وہ فریاد کرتی ہے اللہ سے۔‘‘
ترکیب
(آیت۸۴) یٰاَسَفٰی میں اَسَفٌ پر یائے متکلم لگی ہوئی ہے۔ منادیٰ پر جب یائے متکلم لگاتے ہیں تو عموماً اسے الف مقصوریٰ کی طرح لکھتےہیں‘ جیسے یَاوَیْلَتٰی‘ یَا حَسْرَتٰی وغیرہ۔
ترجمہ:
قَالَ بَلْ :(یعقوبؑ نے ) کہا بلکہ

سَوَّلَتْ لَکُمْ:خوشنما بنا کر پیش کیا تمہارے لیے
اَنْفُسُکُمْ :تمہار ےنفسوں نے

اَمْرًا:ایک کام کو
فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ:تو (اب) خوبصورت صبر کرنا ہے

عَسَی اللہُ اَنْ : امید ہے کہ اللہ
یَّاْتِیَنِیْ :لے آئے گا میرے پاس

بِھِمْ جَمِیْعًا:ان سب کو
اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ :بے شک وہی جاننے والا ہے

الْحَکِیْمُ :حکمت والا ہے
وَتَوَلّٰی عَنْھُمْ: اور انہوںؑ نے منہ پھیرا ان سے

وَقَالَ یٰٓاَسَفٰی :اور کہا: ہائے میرا افسوس
عَلٰی یُوْسُفَ :یوسفؑ (کی جدائی) پر

وَابْیَضَّتْ:اور سفید ہو گئیں
عَیْنٰہُ :ان کی دونوں آنکھیں

مِنَ الْحُزْنِ : غم سے
فَھُوَ کَظِیْمٌ:تو وہ مستقل غمزدہ ہیں

قَالُوْا تَاللّٰہِ :ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم
تَفْتَؤُا :آپ کرتے رہیں گے

تَذْکُرُ یُوْسُفَ :یوسفؑ کا تذکرہ
حَتّٰی تَکُوْنَ :یہاں تک کہ آپ ہو جائیں

حَرَضًا :لاغر
اَوْ تَکُوْنَ :یا آپ ہو جائیں

مِنَ الْھٰلِکِیْنَ: ہلاک ہونے والوں میں سے
قَالَ :(یعقوبؑ نے) کہا:

اِنَّمَآ:کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
اَشْکُوْا :مَیں ظاہر کرتا ہوں

بَثِّیْ :اپنی پریشانی کو
وَحُزْنِیْٓ :اور اپنے غم کو

اِلَی اللہِ :اللہ کی طرف

وَاَعْلَمُ:اور مَیں جانتا ہوں

مِنَ اللہِ :اللہ (کی طرف) سے
مَا :اُس کو جو

لَا تَعْلَمُوْنَ :تم لوگ نہیں جانتے
یٰبَنِیَّ :اے میرے بیٹو

اذْھَبُوْا :تم لوگ جائو
فَتَحَسَّسُوْا :پھر سراغ لگائو

مِنْ یُّوْسُفَ :یوسفؑ کا
وَاَخِیْہِ :اور اُس کے بھائی کا

وَلَا تَایْئَسُوْا :اور مایوس مت ہو
مِنْ رَّوْحِ اللہِ : اللہ کی رحمت سے

اِنَّہٗ:حقیقت یہ ہے کہ
لَا یَایْئَسُ :مایوس نہیں ہوتے

مِنْ رَّوْحِ اللہِ :اللہ کی رحمت سے
اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ :مگر کفر کرنے والے لوگ
نوٹ:آیت ۸۶ میں یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی طرف سے جو مَیں جانتا ہوں وہ تم لوگ نہیں جانتے۔ یہ دراصل اشارہ ہے کہ اللہ نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یوسفؑ کوان سے ملادے گا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ کے وعدے کے ظہور کے لیے کوشش ضروری ہے۔ اس لیے اپنے بیٹوں کو ہدایت کی کہ تم لوگ جائو اور یوسفؑ کو تلاش کرو۔