(سوانح حیات) ڈاکٹر محمد رفیع الدین - صلاح الدین محمود

11 /

ڈاکٹر محمد رفیع الدینتحریر: صلاح الدین محمود (خلَف الرشید ڈاکٹر محمد رفیع الدین)

ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور برصغیر کے نامور ماہر اقبالیات‘ اسلامی مفکر اور ماہر تعلیم تھے‘ جنہوں نے اُمت مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ اور ا س کے لیے صحیح نظریاتی جہت متعین کرنے کے لیےبیش بہا خدمات انجام دیں۔ آپ کی زندگی کے حالات قلم بند کرنے اور آپ کی علمی بلندی اور آپ کے افکار پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نسب نامہ قارئین کے سامنے پیش کروں۔ آپ کانسب حسب ذیل ہے:
محمد رفیع الدین بن مولوی فقیر اللہ صاحب بن مولوی سید محمد صاحب بن مولوی غلام محمد صاحب بن مولوی رحیم بخش صاحب بن فاضل الکامل زبدہ اہل اللہ حافظ المتقی نظام الدین صاحب المتخلص خادم بن الحافظ المتقی الکامل زبدہ اہل اللہ افضل الاولیاء اللہ بہائو الدین صاحب بن الفاضل الکامل العامل الحافظ ولی اللہ مولانا محمد اکرم صاحب بن الفاضل العامل التحریر مولوی حافظ عصمت اللہ صاحب بن الفاضل الکامل العالم فی التحریر والتقریر الحافظ المفسر المحدث مولوی عبداللہ صاحب بن شیخ سکندر صاحب بن نور محمد صاحب بن پیر محمد صاحب رحمہم اللہ اجمعین۔ سلسلہ نسب قطب شاہ صاحب تک پہنچتا ہے۔آپ کے جد اعلیٰ جن کا نام سکندر تھا وہ موضع سکندر پور گجرات پنجاب میں رہائش پذیر تھے ۔موضع سکندر پورکے واحد مالک تھے۔ انہی کے نام سے گائوں کا نام مشہور ہو گیا تھا۔پیشہ زمینداری تھا اور ذات کے ملک اعوان تھے۔ اس سلسلہ میں جتنے بھی بزرگ گزرے اپنے اپنے وقت میں کمالات علم و فضل میں یکتا تھے۔مصنف اور شاعر بے بدل تھے اور پنجاب کی سرزمین میں بسنے والوں نے آ پ کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔ ان کی شاگردی مایہ ناز و فخر تھی اور ان کے شاگردوں کی استادانِ زمانہ کے نزدیک قدر کی جاتی تھی۔ عربی اور فارسی کی بہترین مستند کتابیں انہوں نے تصنیف کیں اور علم کے ایسے باغ کھلائے کہ جن سے مشامِ جان معطر ہو گئی۔ کوئی فن نہ تھا جس میں آپ کے بزرگوں نے علمی پھول نہ بکھیرے ہوں۔ صرف و نحو‘ عربی فارسی وعلم فقہ و تصوف و تفسیر وعلم بدیع‘ معانی‘ فلسفہ و معقول و عروض میں وہ موتی بکھیرے کہ جن کی چمک سے اب تک آنکھیں روشن ہوتی ہیں۔مسلمان بادشاہوں کے وقت میں قاضی اور مفتی کا عہدہ رکھتے تھے۔ بادشاہی درباروں کی مشکلات آپ ہی کے ناخن تدبیر یعنی نوک قلم سے حل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ’’انشائے خادمی‘‘ جو اس وقت کی ایک درسی کتاب تھی آپ کے بزرگوں کی تصانیف میں سے تھی۔ باوجود اس قدر اشغال کے آپ کے بزرگوں سے ایسی باتیں ظاہر ہوئیں جن کو کرامات کہا جا سکتا ہے ۔
یوں تو ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور کے سلسلہ کا ہر بزرگ کمالات علم و فضل اور کشف و کرامات میں یکتائے روزگار تھا‘مگر ان بزرگوں میں عالم با عمل‘ واعظ بے بدل حاجی حرمین شریفین عبقری دارین‘ جامع المعقول و منقول مادی فروغ و اصول حضرت مولوی عبداللہ المعروف مولاناغلام رسول صاحب رحمہ اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۲۲۸ ہجری میں ہوئی۔ آپ ڈاکٹر صاحب کے نہ صرف پردادا مولوی غلام محمد صاحب مرحوم کے چھوٹے بھائی تھے بلکہ ان کی بیٹی بھی مولوی غلام محمد صاحب مرحوم کی بہو تھیں۔ دوسرے الفاظ میں مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے والد مولوی فقیراللہ مرحوم کے نانا بھی تھے۔ آپ کے آباء و اجداد بارہویں صدی ہجری کے آخر یا تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں موضع سکندر پور سے موضع کوٹ بھوانی داس (ضلع گوجرانوالہ) میں بعض وجوہات کی بنا پر منتقل ہو گئے تھے اور وہیں بود و باش اختیار کر لی تھی۔ چنانچہ اب تک یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’کوٹ بھوانی داس دا ۔ بغداد ہے پنجاب دا۔‘‘
مولانا غلام رسول صاحب مرحوم ومغفور رحمہ اللہ ایک سچے عاشق رسول اور عالم باعمل ہونے کے علاوہ معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے جن کے ہاتھوں ہزاروں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کی تقریر اور بیان مشہورِ اَنام تھا۔ آپ کی تقریر نہایت شستہ ہوتی تھی اور ہر مطلب کو اس عمدگی سے بیان فرماتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے۔ اور یہ بات تمام لوگوں میں مشہور تھی کہ ’’مولوی صاحب نے وہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ ان کے وعظ سے ہر مذہب و ملت کا شخص خوش ہو کر اٹھتا ہے۔‘‘
آپ کے وعظ میں ہمیشہ مشہور علماء اور بڑے بڑے فارغ التحصیل طلباء اس خیال سے آتے کہ ہم فلاں مسئلہ پر بحث کریں گے‘ لیکن وعظ سننے کے بعد کسی کو یہ مجال نہ ہوتی تھی کہ بجز تسلیم اورکوئی کلام کرے۔ سب کے سب سوالوں کے جواب وعظ میں ہی آپ بیان فرما دیتے۔ بارہا تجربہ کے بعد لوگوں کا اتفاق ہو گیا کہ مولوی صاحب ولی اللہ ہیں۔ آپ کا کوئی وعظ خالی نہ جاتا جس میں متعدد آدمی غیر مذاہب کے اسلام نہ لاتے۔ ایک دفعہ لاہور میں آپ کے وعظ میں ہزارہا مخلوق جمع تھی۔ علماءِ لاہور آپ سے بحث کرنے کی دل میں ٹھان کر وعظ میں ہی آگئے۔ آپ اس وقت یہ آیت شریف پڑھ رہے تھے : {الۗمّۗ(۱) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)} آپ نے ایسی خوش اسلوبی سے آیت کی تفسیر منطقی اور فلسفیانہ طریقہ سے صرف و نحو کے پہلو سے خیال رکھتے ہوئے شروع کی کہ بحث کرنے والوں کے جو سوال تھے وہ اوّل بیان کرتے‘ پھر اس کا جواب دیتے اور اپنے اعتراضات ان پر جماتے۔ جماعت مولویاں حیران مانند ِتصویر بنی بیٹھی تھی اور آپ کے چہرئہ مبارک پر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ حیران تھے کہ اس طرح قرآن شریف کا بیان کرنا اسی شخص کا کام ہے‘ ہماری کیا جرأت ہے کہ ان سے ہم کلام ہوں۔ وعظ ختم ہونے پر تمام صاحبان چپ چاپ چلے گئے۔ جو مولوی صاحب کے واقف راز تھے انہوں نے ان سے کہا کہ آپ تشریف بھی لائے اور چپ چاپ ہی چلے گئے یہ کیا سبب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حق بات تو یہ ہے کہ بلاسوال ہی ہمارا گھر پورا ہو گیا ہے اور ایسی تسلی ہوئی ہے کہ اور کسی شخص سے نہ ہو سکتی تھی۔ اب تو ہم کو بولنے کی جرأت ہی نہیں رہی ۔یہ شخص عالم ہی نہیں ولی اللہ بھی ہے۔وعظ سننے والے خرد و کلاں‘ ہندو‘ مسلمان‘ گورے‘ سکھ‘ سب میں تہلکہ مچ گیا ۔ اس طرح تڑپے جیسا مرغِ نیم بسمل تڑپتا ہے۔ اس وعظ میں جس قدر غیر مذہب والے شامل تھے سب مسلمان ہو گئے۔
آپ کے کشف اور کرامات کے ہزاروں واقعات مشہور ہیں۔ چونکہ اس مضمون میں صرف ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی زندگی کے حالات ‘آپ کے علم اور آپ کے فکر کا حتی المقدور احاطہ کرنا مقصود ہے اس لیے ان تمام واقعات کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ صرف ایک دو واقعات کا ذکر ہی کافی ہو گا۔ ایک بار آپ ساہودال کی طرف جا رہے تھے ۔ رستہ میں ایک ساہو کار گھوڑی پر سوار سامنے آ گیا۔ آپ کی حالت اس وقت دگرگوں تھی کہ گھوڑی کی باگ ہاتھ سے گر گئی ۔ساہوکار نے کہامیاں گھوڑی والے باگ سنبھالو۔ آپ نے جواب دیا سنبھالنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن نفس بڑا سرکش ہے‘ مانتا نہیں۔ ساہوکار نے کہا کیا کہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ لا الٰہ الا اللہ کے معنی کماحقہ نہیں مانتا۔ آپ کا کلمہ پڑھنا تھا کہ ساہوکار بے ہوش کر نیچے آ گرا۔ آپ بھی نیچے اتر آئے۔ جب ہوش آیاتو مسلمان ہو گیا۔ آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔
لاہور کا ذکر ہے کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر وضو کی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک عورت واہگرو واہگرو کرتی پاس سے گزری۔آپ نے فرمایا : وَحْدَہ وَحْدَہ ۔ اس عورت کی زبان پر وَحْدَہ جاری ہوگیا۔گھر والوں نے بہتیرا مارا پیٹا‘ مگر باز نہ آئی‘ آخر وہ مسلمان ہو گئی۔چنانچہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور کو نہ صرف علم کی دولت بلکہ اسلام کی محبت بھی ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کے دل میں اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ نہ صرف صوم و صلوٰۃ کے ہی پابند تھے بلکہ ذکر صبح گاہی کی لذت سے بھی آشناتھے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے آپ کا آبائی گائوں کوٹ بھوانی داس (ضلع گوجرانوالہ )ہے۔آپ کے چچا حضرت مولوی محمد حسن صاحب مرحوم و مغفور جو کہ ایک بلند پایہ صوفی بزرگ تھے‘ ریاست جموں و کشمیر کے بیشتر علاقوں میں اپنے زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ اور اس ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کے مرید تھے۔ وہ اپنے آبائی گائوں سے بالعموم اپنے چھوٹے بھائی مولوی فقیر اللہ مرحوم و مغفور کے ساتھ (ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے والد ماجد ) یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔
مولوی فقیر اللہ مرحوم کو جموں بہت پسند آیا اور انہوں نے یہاں پر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اور بعد میں مہاراجہ کی سرکار میں ملازم بھی ہوگئے۔ چنانچہ ڈاکٹر رفیع الدین ۱۹۰۶ء میں بمقام جموں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ۱۹۲۰ء میں ایس آر ہائی اسکول جموں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۲۲ء میں ایف ایس سی کا امتحان فزکس ‘ کیمسٹری‘ ریاضیات اور عربی کے مضامین کے ساتھ اور ۱۹۲۴ء میں بی اے کا امتحان اکنامکس‘ عربی اور اردو کے مضامین کے ساتھ پاس کیا اور عربی کے مضمون میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔۱۹۲۹ء میں آپ نے ایم اے عربی کا امتحان اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا اور سری پرتاپ سنگھ کالج سری نگر میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۰ء میں آپ نے فارسی میں آنرز کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۳۲ء میں آپ کا تقرر پرنس آف ویلز کالج جموں میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کے طور پر ہوا جہاں آپ چودہ سال ۱۹۴۶ء تک کام کرتے رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں اپنے قیام کے دوران آپ کالج کے سب سے سینئر ممبر ہونے کی حیثیت سے کالج کی ہر قسم کی سرگرمیوں مثلاً سوشل‘ لٹریری اور کھیلوں کے بھی انچارج رہے۔ آپ نہایت خوش لباس تھے۔ بہترین کپڑے کے عمدہ سلے ہوئے انگریزی سوٹ زیب تن فرماتے اور سر پر رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ علمی اعتبار سے نہایت قابل ہونے کے علاوہ آپ اعلیٰ درجہ کے منتظم اورdisciplinarianتھے۔ پروفیسر ایس آر سوری جو اس وقت پرنس آف ویلز کالج جموں کے پرنسپل تھے‘ طالب علموں کے انضباط پر آپ کی بہت تعریف کیا کرتے اور کہا کرتے کہ جب آپ کلاس میں طلبہ کو پڑھاتے ہیں تو کلاس کے کمرہ میں پن ڈراپ سائلینس ہوتا ہے ۔ آپ کی شخصیت اس قدر پُروقار تھی کہ کالج کے طلبہ نے آپ کی چھیڑ نواب صاحب ڈال رکھی تھی۔آپ کالج اکثر اوقات پیدل جاتے۔ آپ کے کالج پیدل جانے کا ایک خاص انداز تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ آدھا ہاتھ پتلون کی دائیں جیب میں ہوتا اور کالج کا جو طالب علم راستے میں ان کو جاتا دیکھتا ان کی تقلید میں اسی انداز میں فاصلہ رکھ کر ان کے پیچھے پیچھے چلتا اور یوں اپنے استاد کی اس تقلید پر فخر محسوس کرتا۔
آپ کی ذہانت اور علمی بلندی کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی فلسفہ کے طالب علم نہ ہونے کے باوجود ۱۹۴۲ء میں فلسفہ پر ایک معرکۃ الآراء کتاب بعنوان’’Idealogy of the Future‘‘لکھ ڈالی اور اسے اپنے خرچ پر چھپواکرڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پیش کر دیا۔ آپ کے بقول اسے لکھنے سے پہلے خیالات کا ا یک تند و تیز طوفان ان کے ذہن میں سمٹ آیا تھا۔بے چینی نے ان کے اعصاب کو متاثر کیا اور شدید علیل ہو گئے۔ انہی دنوں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ جموں ہی میں سیر کو نکلے ۔ ایک پہاڑ کے قریب ایک نورانی چہرہ والے بزرگ سے ملاقات ہوئی ۔ بے اختیار ان کی طرف بڑھے۔ ان بزرگ نے انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ کتاب لکھنا شروع کردیں۔ اس مشورہ کو سنتے ہی انہیں یوں محسوس ہوا کہ دل سے بوجھ اتر گیا ہے۔ سکون کا سانس لیا اور یوں محسوس ہوا کہ روح کو قرار آ گیا ہے۔ قلم اٹھایا تو خیالات کی بارش روکے نہ رک رہی تھی۔ لکھتے چلے گئے ‘ یہاں تک کہ دو تین ہفتوں میں ایک ایسی کتاب تیار ہو گئی کہ انہوں نے اس کا مسودہ مرے کالج کے پروفیسر لِلّی کو جو کہ فلسفہ میں بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے‘ دکھایا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے کسی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لیے پیش کر دیںـ ۔ کتاب مکمل ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب مرحوم کی صحت بحال ہو گئی۔ نہ کسی ڈاکٹر یا حکیم کی ضرورت رہی نہ کسی دوا کی۔
پروفیسر لِلّی ‘ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور سید ظفر الحسن ممتحن مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن جیسے شخص کو اعتراف کرنا پڑا کہ یہ مقالہ علمی دنیا میں ایک ٹھوس اضافہ ہے۔ ڈاکٹر ظفر الحسن کی رائے یہ تھی کہ آج تک فلسفہ کی کوئی کتاب ان کی نظر سے ایسی نہیں گزری جو اسلام کے اس قدر قریب ہو۔ پروفیسر لِلّی نے اسے فرائڈ‘ ایڈلر ‘ کارل مارکس اور میکڈوگل کے نظریات کا حتمی رد قرار دیا۔ اس کتاب کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ ۱۹۴۳ء میں پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں جب یہ کتاب ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کی ڈگری کے لیے پیش ہوئی تو سنڈیکیٹ میں شامل بعض حضرات نے اعتراض کیا کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب فلسفہ میں ماسٹرز ڈگری کے حامل نہیں اس لیے انہیں فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں ملنا چاہیے۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر عمر حیات ملک مرحوم تھے۔ انہوں نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اگر کوئی شخص فلسفہ میں ماسٹرز ڈگری کا حامل ہوتے ہوئے بھی فلسفہ میں ایسی معرکہ آراء کتاب نہیں لکھ سکا تو ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کو جنہوں نے فلسفہ میں ماسٹرز ڈگری کا حامل نہ ہونے کے باوجود ایسی کتاب لکھی ہے‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ضرور ملنی چاہیے۔ یہ ان کی اعلیٰ ذہانت اور علمی بلندی کا ایک بہت بڑا اعتراف تھا ۔
آپ ۱۹۴۶ء میں سری کرن سنگھ کالج میر پور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ایک سال تک یہ خدمت انجام دی۔ ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم پر گوجرانوالہ میں سکونت اختیار کر لی ۔ اسی اثنامیں حکومت مغربی پنجاب نے لاہور میں ایک ادارہ Department of Islamic Reconstruction قائم کیا تو ڈاکٹر صاحب اس میں ریسرچ آفیسر مقرر ہوئے اور ۱۹۴۸ء سے لے کر ۱۹۴۹ء تک اس ادارہ سے منسلک رہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے منسلک رہے۔دریں اثنا حکومت پاکستان نے آپ کو سول سروس اکیڈمی لاہور میں پروفیسر آف اسلامک سٹڈیز کے عہدہ کی پیشکش کی‘ مگر اس سے پہلے کہ آپ اس عہدہ کا چارج لیتے یہ آسامی ہی ختم کر دی گئی۔ میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اس آسامی کی پیشکش کا پس منظر بھی بیان کر دوں ۔دراصل یہ اسامی فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اخباروں میں مشتہر کی تھی‘ جس کے لیے بہت سے اہل علم و دانش امیدوار تھے۔ آپ نے بھی اس اسامی کے لیے درخواست دی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے صرف چند امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایاجن میں سے ایک ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم بھی تھے۔ اس انٹرویو کے نتیجے میں دو امیدواروں یعنی ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم اور علامہ سید نذیر نیازی کو دعوت دی گئی کہ وہ سول سروس اکیڈمی میں زیر تربیت افسران کے سامنے قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)}(التّین) پر ایک حکیمانہ لیکچر دیں۔ گویا اس اسامی کے لیے حتمی چنائو کا یہ معیار رکھا گیا کہ ان دو حضرات میں سے مندرجہ بالا آیت کریمہ پر جس کا لیکچر عقلی اور منطقی اعتبار سے زیادہ مؤثر ہو گا‘ وہی اس اسامی کا اہل مانا جائے گا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم اور علامہ نذیر نیازی کے لیکچر کو سننے کے لیے سول سروس آف پاکستان کے زیرتربیت افسران اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبران وغیرہ موجود تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم کا لیکچر اتنا پراثر تھا کہ تمام حاضرین اور سامعین عش عش کر اٹھے۔ اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے حکومت پاکستان کو سفارش لکھ کر بھیج دی کہ پاکستان میں آپ سے زیادہ کوئی دوسرا شخص اس اسامی کے پُر کرنے کا اہل نہیں۔ لہٰذا اس اسامی کی پیشکش ان کو کر دی جائے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ۱۹۵۳ء میں کراچی میں اقبال اکیڈمی پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر صاحب اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ آپ ۱۹۵۳ء سے لے کر ۱۹۶۵ء تک اقبال اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر رہے اور ۱۹۶۵ء میں یہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ اقبال اکیڈمی میں ملازمت کے دوران آپ نے کئی بلند پایہ کتابیں تصنیف کیں جن میں ایک ’’منشورِ اسلام‘‘ ہے۔ اس کتاب کا عربی اور فارسی ترجمہ دمشق اور مشہد سے شائع ہو چکا ہے ۔ اس عرصہ میں آپ نے فلسفہ تعلیم پر ’’تعلیم کے ابتدائی اصول‘‘ یعنی ’’First Principles of Education‘‘کے نام سے ایک اور بلند پایہ کتاب تصنیف کی جو ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو بھی دنیا بھر کے علمی حلقوں میں سراہا گیا۔ اس علمی کام کے اعتراف کے طور پر ۱۹۶۵ء میں پنجاب یونیورسٹی نے آپ کو فلسفہ تعلیم میں ڈی لٹ کی ڈگری دی ۔ یاد رہے برصغیر ہندو پاکستان میں صرف دو ہی Doctor of Literature in Philosophyتھے۔ پہلے ڈاکٹر رادھا کرشنن اور دوسرے ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم ۔آپ کی دوسری تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) قرآن اور علم جدید (اردو) صفحات ۵۶۱
(۲) دی اسپرٹ آف اسلام ۔ یہ کتاب ’’اسلام کی بنیادی حقیقتیں‘‘ کا ایک حصہ اور ۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔
(۳) دی اسلامک تھیوری آف ایجوکیشن اردو صفحات ۷۰
(۴) فیلسی آف مارکسزم (انگریزی) The Fallacy of Marxism صفحات ۷۶
(۵) پاکستان کا مستقبل ـ(اردو) صفحات ۲۰۰
(۶) حکمت اقبال (اردو) صفحات ۶۰۰
(۷) اسلامی تحقیق کا مفہوم ‘مدّعا اور طریق کار
ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی علمی حیثیت کے بارے میں کچھ کہنا اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ علمی بلندی کے علاوہ ان کی وقعت و عظمت اس اعتبار سے بھی تھی کہ وہ ایک سچے خدا پرست اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور محبت خداوندی ان کے پورے وجود میں سرایت کیے ہوئے تھی۔سچی خدا پرستی کے علاوہ آپ کی صحبت سے ایک نہایت گہرا اور نمایاں اثر ہر مخاطب پر اس بات کا اثر پڑتا تھا کہ آپ اسلام کے شاندار مستقبل پر پختہ اور غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ آپ کے پورے فکر کے دو ہی مرکزی خیال ہیں ‘جن کے گرد آپ کی تمام تصانیف کا تانابانا قائم ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کا صحیح نصب العین ایک ہی ہے اور وہ ہے محبت خداوندی۔ اور دوسرے یہ کہ نوعِ انسانی جس سمت سفر کر رہی ہے‘ اس کی بھی بس ایک ہی منزل ممکن ہے اور وہ ہے اسلام۔
آپ کے نزدیک مستقبل کی عالمگیر ریاست اسلام کی عطا کردہ سچی خدا پرستی کی بنیاد ہی پر قائم ہو گی اور یہ ریاست پاکستان ہی ہے ۔ آپ کا یہ موقف واضح اور محکم تھا کہ یہاں نفاذِ اسلام کے لیے اسلام کی صرف وہی تشریح کام دے گی جو علّامہ اقبال نے کی ہے ‘کیونکہ اسلام کی یہی تعبیر دورِ حاضر میں قابل عمل ہے ‘بلکہ اسی تعبیر میں یہ استعداد ہے کہ وہ مستقبل کی عالمگیر ریاست کی فکری اساس کا کام دے سکے ۔ آپ کو علامہ اقبال سے والہانہ عشق تھا۔ چنانچہ جب علامہ اقبال فوت ہوئے تو آپ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ آپ نے لاہور میں ۱۹۶۶ء میں آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس کی بنیاد ڈالی اور اپنی زندگی کے آخری دو سال اس ادارہ کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کیے رکھے۔ اس ادارہ کا بنیادی مقصد تعلیم کو اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے عملی تدابیر وضع کرنا اور انہیں حکومت تک پہنچانا اور ان کے نفاذ کے لیے عملی کوشش کرنا ہے۔
آپ ۲۹ نومبر ۱۹۶۹ء کو کراچی میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثہ میں جاںـ بحق ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کی لاہور منتقلی کی جو وجہ چودھری مظفر حسین صاحب نے (جو آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس لاہور کے اکیڈمک ڈائریکٹر اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کے خلیفہ مجاز تھے) ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو سنائی تھی‘وہ ڈاکٹر اسرار احمد یوں بیان کرتے ہیں:
’’چو دھری مظفر حسین صاحب سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی لاہور منتقلی کی جو شانِ نزول معلوم ہوئی اس کا ذکر ایک اعتبار سے بہت دلچسپ ہے۔ اس لیے کہ جیسا کہ راقم کے احباب کے علم میں ہے‘ راقم اس دور کا سب سے بڑا حکیم القرآن سمجھتا ہے علامہ اقبال مرحوم کو اور ان کی حکمت قرآنی کا واحد شارح سمجھتا ہے ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کو ‘اور لاہور نقل مکانی کے سلسلہ میں ان دونوں حضرات کے مابین ایک عجیب کڑی کی حیثیت حاصل ہے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کو۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مولانا کی دکن سے منتقلی کا ذریعہ علامہ مرحوم ہی تھے‘ جنہوں نے چودھری نیاز علی مرحوم کے ذریعے مولانا کو پنجاب آ کر دار السلام میں ڈیرہ لگانے کی دعوت دی۔ (اگرچہ وہاں مولانا کے ساتھ اولاً معاملہ عدم موافقت ہی کا رہا تھا) اب سنیے ڈاکٹر رفیع الدین لاہور کیسے منتقل ہوئے۔
چودھری مظفر حسین راوی ہیں کہ سابق صدر ایوب کی صدارت اور نواب کالاباغ کی گورنری کے دوران مغربی پاکستان کی حکومت کے اہم وزیر ملک خدا بخش بُچہ نے ان سے کہا کہ کسی ایسے شخص کی تلاش کرو جو نظامِ تعلیم کو اسلامی رخ پر تبدیل کرنے کی صلاحیت تو پوری رکھتا ہو لیکن اس پر جماعت اسلامی کی چھاپ نہ ہو۔ چودھری صاحب مولانا مودودی کے نیاز مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے اس کا ذکر مولانا مرحوم سے کیا تو ان کا کہنا ہے کہ بغیر ایک لحظہ کے توقف کے مولانا نے فوراً ڈاکٹر رفیع الدین کانام لیا جن سے چودھری صاحب اس وقت تک بالکل ناواقف تھے۔ اب چودھری صاحب کے لیے ایک مسئلہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہاں تلاش کریں اور کس کے ذریعے ان سے رابطہ قائم کریں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ مشکل سید اللہ بخش صاحب گیلانی مرحوم کے ذریعے حل کرا دی‘ جو اُن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے استاد تھے اور اس طرح ڈاکٹر صاحب لاہور منتقل ہوئے۔ اگرچہ یہ منتقلی ڈاکٹر صاحب کو راس نہ آئی اور بُچہ صاحب اپنے سارے اختیارات اور اقتدار کے باوصف اس وقت کی بیورو کریسی کی مخالفت کے باعث ڈاکٹر صاحب کو کسی موزوں کام پر نہ لگا سکے‘جس سے دل برداشتہ ہو کر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے طورپر کام کرنا شروع کر دیا۔ الغرض وہ دائرہ مکمل ہو گیا کہ علامہ اقبال مرحوم نے لاہور بلایا مولانا مودودی کواور مولانا نے لاہور بلایا علامہ کے معنوی جانشین ڈاکٹر رفیع الدین کو۔‘‘
ڈاکٹر رفیع الدین اپنی زندگی میں عالمگیر شہرت کے مالک تھے۔ متعدد ملکی اور غیر ملکی اسکالرز نے آپ کے بلند علمی مقام پر آپ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرا ر احمد لکھتے ہیں:
’’راقم کے نزدیک فہم قرآن کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے یعنی ایک علم قرآن اور دوسرے حکمت قرآن تو مقدم الذکر کے اعتبار سے بلاشبہ اولیت و مقدمیت کا مرتبہ و مقام حاصل ہے ان راسخون فی العلم علماء کرام کو جو نہ صرف یہ کہ عربی زبان و ادب اور علوم دینیہ (صرف ‘ نحو‘ معنی‘ بیان‘ تفسیر ‘حدیث‘ فقہ وغیرہ) پر پوری دسترس رکھتے ہوں‘ بلکہ اسلاف کے ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کو بھی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں۔ ہاں حکمت قرآنی کے بحر زخار کی غواصی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ نہ صرف فلسفہ قدیم و جدید پر گہری نگاہ ہو‘ بلکہ عہد ِجدید کے علوم طبیعیہ ( ریاضی‘ طبیعیات‘ کیمیا‘ فلکیات‘ ارضیات‘ حیاتیات ‘ عضویات اور نفسیات) سے بھی کم از کم اجمالی واقفیت ضرور رکھتے ہوں۔ مقدم الذکر گروہ میں میرے نزدیک دورِ حاضر کا اہم ترین سلسلہ ہے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کا۔ اور موخر الذکر حلقے کی عظیم شخصیتیں ہیں ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم و مغفور اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور۔ ‘‘
ڈاکٹر سید عبداللہ سابق پرنسپل یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین نے اسلامی تحقیق کے مفہوم‘ اس کی غرض و غایت اور طریقہ کار کا جو تصور پیش کیا ہےوہی صحیح تصور ہے ۔ ہندوستان میں مولاناابوالحسن علی ندوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی اور پاکستان میں مولانا مودودی ان کے مداحوں اور قدر دانوں میں سے تھے۔ وہ آپ کو مخلص دین و ملت‘ ایک بلندپایہ مفکر اور تعلیمی ماہر تسلیم کرتے تھے۔ مولانا عبدالماجددریابادی نے ان کو ان کے سانحہ ارتحال پر یہ کہہ کر
’’A miniature of Iqbal has passed away.‘‘ خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کے نزدیک علامہ اقبال کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین ہی عظیم فلسفی ہیں۔
مولانا مودودی نے کئی اسلامی سربراہان مملکت کو خطوط لکھے کہ ڈاکٹر رفیع الدین کی خدمات سے جو وہ مسلمانوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کر رہے ہیں‘ فائدہ اٹھایا جائے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین سردار نے بھی ان کو اقبال کا ہم پلہ قرار دیا ہے ۔ان کے نزدیک علامہ اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین بیسویں صدی کے عظیم فلسفی ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین سردار نے اپنی کتاب ’’اسلامی مستقبلیات‘‘(Islamic Futures)میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam اور ڈاکٹر رفیع الدین کی تصنیف Idealogy of the Future اسلامی علم و حکمت کے دو ایسے کارنامے ہیں جن سے بہت زیادہ اغماض برتا گیا ہے۔ دونوں اپنے وقت سے برسوں آگے تھے۔ انہوں نےیہ کتابیں ایسی لکھی ہیں جو مسلمانوں کے مستقبل کی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں۔ اسی لٹریچر کی تخلیق کی تحریک الغزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ سے ہوئی جو گیارہویں صدی کی تصنیف ہے اور جس کے ذریعے الغزالی نے اپنی بصیرت کے ذریعے مسلم تہذیب کی تعمیر نو کے لیے اسلام کی اصل روحانی اور اخلاقی اقدار کا احیاء کرنا چاہا۔ الغزالی کی زندگی اور ان کے عہد میں مسلم تہذیب اپنے داخلی مسائل میں الجھی ہونے کے باوجود دنیا کی ایک غالب تہذیب تھی‘ لہٰذا الغزالی کے لیے روحانی اور سماجی معاملات پر توجہ دینا ایک قدرتی امر تھا‘ لیکن علامہ اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین کو ایسے دور کے مسلمانوں کے لیے لکھنا پڑا جن کا معاشرہ اپنی اساس سے ہی محروم ہو چکا تھا اور مسلمان ایسے اجنبی ڈھانچوں ‘معاشرتی نظاموں‘ ثقافتی ماحولوں اور پیداواری طریقوں کی صورت احوال میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے جن کی اسلامی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس اعتبار سے ان کا کام کہیں زیادہ مشکل تھا۔ایک جرمن فلاسفر وارن سٹین کرس نے ان کو مارٹن لوتھر اور ای ایس برائٹ مین جیسے فلاسفروں کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ آپ کی موت کے برسوں بعد بھی آپ کے علمی کاموں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے ۔مرحوم ڈاکٹر رفیع الدین کی تصویر ہمدرد مرکز نئی دہلی کے پتھر پر کندہ ہے۔ یہ آپ کی اعلیٰ خدمات اور خلوص کا اعتراف ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین جیسے عظیم فلسفی صدیوں میں کبھی پیدا ہوتے ہیں‘ علامہ اقبال کے ا س شعر کے مصداق ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا!