فیمینزم ---- چند اہم مباحثمکرم محمود
فیمینزم پر تاریخی اور معلوماتی باتوں سے قطعِ نظر اس پر ایک اصولی اور نظریاتی گفتگو کی حاجت معلوم ہوتی ہے۔ اول الذکر پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور جا رہا ہے اور انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت کچھ موجود ہے اور وہاں سے کوئی بھی اخذ و استفادہ کر سکتا ہے مگر ثانی الذکر پر نسبتاً کم مواد موجود ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ فیمینزم کا جو تعلق جدیدیت اور تحریک ِ تنویر کے مقاصدسے ہے اس کو بھی سمجھ لیا جائے اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی جان لیا جائے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ فیمینزم صرف چند عملی مسائل سے بحث کرتا ہے اور کچھ خواتین کی عملی زندگی سے متعلق مسائل کے ردّ ِعمل میں یہ پوری تحریک وجود میں آئی۔ یہ محض ایک مغالطہ ہے۔ فیمینزم ایک کلی فکرو تحریک ہے جو اپنی مابعدالطبیعیاتی بنیادیں اور ٹھوس نتائج رکھتی ہے۔ اس غلط فہمی کی بناء پر ہمارے ہاں عورتوں کو درپیش چند حقیقی مسائل کے حل کے لیے اس تحریک کے نظریات اور اصطلاحات کا پرچاران کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر شروع کر دیا جاتا ہے‘کیونکہ حل بظاہر صرف اسی میں نظر آرہا ہوتا ہے اور اس فکر و تحریک کی نظریاتی بنیادوں اور اس کی فکری و سیاسی تاریخ سے بالکل صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے۔آہستہ آہستہ یہ تصورات و نظریات اپنی نفوذی تاثیر ظاہر کرتے ہیں اوراس بات کا علم ہونے تک بات بہت آگے جا چکی ہوتی ہے اور دینی تشخص کی بازیافت بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
فیمینزم کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں ہے۔ اصل میں تو feminisms پائے جاتے ہیں اور بعض تصورات و افکار میں وہ آپس میں نسبت ِ تضادبھی رکھتے ہیں۔ یعنی فیمینزم کی تمام لہریں (waves)اور اس کے جملہ مکاتب ِ فکر بہت مختلف اور متنوع نظریات کے حامل ہیں۔ کسی ایک تعریف کے ذریعے ان سب کا احاطہ ایک دشوار عمل ہے۔ لیکن اگر سعی کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک عالمی تحریک ِ بغاوت ہے تحریک ِ تنویر کی مردانہ تعبیر اور مذہب سے‘ جس کا مقصد عورت اور آزادی کے بیچ میں رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے اور ان کو مذہب ‘روایت اور مردوں کے جبر و استحصال سے نجات دلانا ہے۔ گویا freedom and femancipation فیمینزم کی کلیدی اصطلاحات ہیں۔اسی طرح جملہ مسائل کا عنوان اس کے نزدیک پدرسریت (patriarchy) ہے اوران تمام مسائل کا حل فیمینزم ہے۔ فیمینزم ان معنوں میں ایک سیاسی تحریک ہے کہ اس کا مقصد صرف دنیا کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ تبدیل کرنا ہے‘اور کُل دنیااس نظریے کے مطابق مَردوں اور عورتوں کے تعلقات کا ہی دوسرا نام ہے۔گویا ان تعلقات کو اپنے تمام دروبست کے ساتھ تبدیل کرنا اس تحریک کا مقصود ہے۔
اب کچھ اصولی باتیں نکات کی صورت میں عرض کی جائیں گی اور کوشش کی جائے گی کہ فیمینزم کی نظریاتی بنیادوں کو سامنے لایا جائے۔ نکات میں کوئی ترتیب زیادہ ملحوظ نہیں رکھی گئی۔بے ترتیبی پر معذرت خواہ ہوں۔ اصل مقصود یہاں پر صرف فیمینزم کا بیان ہے‘اس پر تنقید ضمناً بعض جگہوں پر آجائے گی۔
(۱) جدیدیت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصدیا زیادہ بہتر ہے کہ کہا جائے کہ نتائج میں سے ایک نتیجہ طاقت کی ماورائی یا غیر شخصی تشکیل ہے‘جس کے نتیجے میں نہ صرف طاقت کا ایک غیر شخصی اجتماعی نظام وجود میں آتا ہے جس میں طاقت کا کوئی شخصی مرکز نہیں ہوتااور طاقت گویا اشخاص اور اداروں کے مابین ایک جدلیاتی رشتے میں منسلک ہوتی ہے‘بلکہ اشخاس کے مابین رشتے‘ تعلقات اور معاملات بھی گویا طاقت کی اصل پر استوار ہوتے ہیں۔ یہاں طاقت کی اصل پر استوار ہونے سے مراد جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ نہیں ہے بلکہ انسانوں کے وہ باہمی تعلقات جو خونی رشتوں ‘ خاندان اور معاشرے کی بنیاد پرقائم ہوتے ہیں اور جن کو انسانوں کے ذاتی یا خانگی معاملات کہا جاتا ہے (اگرچہ public/private spaceکی تقسیم بھی صنعتی انقلاب کے بعد کی ہی ہے) ان کی تفہیم بھی اب سیاسی یا طاقتی تناظر میں ہونے لگی ہے۔ اس بات کو اگر ذہن نشین کر لیا جائے تو مغرب میں فیمینزم کی ابتدا میں لگنے والے نعرے "Personal is political" کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔یعنی وہ تعلقات جن کو تم خانگی تعلقات کہتے ہو جن میں مرد و عورت مختلف رشتوں میں منسلک ہوتے ہیں وہ بھی اصل میں political معاملہ ہے۔مَردوں نے طاقت کے عدم توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ان تعلقات کو ذاتی قرار دیا ہے اور ان کے اردگرد تقدس کا ایک ہالہ کھینچ ڈالا ہے تا کہ طاقت کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھیں۔یعنی معاملہ یہ سیاسی ہے لیکن اسے ذاتی کہنا مرد کے مفاد میں ہے‘اس لیے اس نے اسے ذاتی قرار دیا ہے اور منوا بھی لیا ہے‘کیونکہ علمی ڈسکورس بھی مرد ہی تشکیل دیتے ہیں۔
(۲) Women empowermentکی اصطلاح کو اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلے عورت کو رشتوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا کہ وہ ماں ہے‘ بیوی ہے‘ بیٹی ہے وغیرہ۔یہ تناظر چونکہ نظریاتی (ideological)ہے (یہاں ideological مارکسسٹ معنوں میں استعمال ہوا ہے‘اس کو الگ ایک نکتے میں کھولیں گے) اس لیے اس کو deconstruct کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل تناظر ابھر کر سامنے آسکے۔ وہ اصل تناظر یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت عورت دیکھا جائے کہ وہ اپنا ایک ا لگ وجود اور تشخص رکھتی ہے‘اس کو صرف رشتوں کے اندر ہی نہ سمجھا جائے۔ جب اس کو ایک الگ تشخص حاصل ہوتا ہے تو اب گویا دو تشخصات مرد اور عورت آمنے سامنے آتے ہیں۔ اب ان کے مابین طاقت کے توازن پر نظر ڈالی جائے تو یقیناً عورت والا پلڑا ہی ہلکا معلوم ہو گا۔اب ضروری ہے کہ عورتیں اس عدم توازن کا شعور حاصل کریں اور اس کو متوازن کرنے کے لیے کوشش و جدّوجُہد کریں۔اسی کا نامwomen empowermentہے۔ اس کی نظریاتی بنیاد پر اگر غور کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ عورت اور مرد کو تمام رشتوں سے مجرد حالت میں ایک وجود فرض کرنا اور ان کے مابین تعلقات کو ہر دوسرے تناظر سے کاٹ کر طاقت کے تناظر میں دیکھنا یعنی ان تعلقات کی سیاسی تشکیل کرنا۔
(۳) Dependence syndromeکا خاتمہ بھی فیمینزم کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ عورت ہمیشہ سے مرد پر انحصار کرتی چلی آرہی ہے۔ آزادی کے لیے اس انحصاریت کا خاتمہ لازمی امر ہے۔انحصاریت خود مختار وجود ہونے کی نفی ہے۔ یہ انحصاریت گویا ایک بیماری ہے جو نسائی شعور اور تشخص کو گھن کی طرح کھا رہی ہے‘اس سے خلاصی کیے بغیر emancipation(نجات) ممکن نہیں۔
(۴) عورت کی تعریف(definition)ہمیشہ سے مرد کرتا آیا ہے۔ تعریف بغیر تحدید (limit )کے نہیں ہوتی۔ یعنی مرد عورت کی تحدید کرتا رہا ہے۔ اب عورت اپنی تعریف خود کرے گی۔تعریف کرنے والے اور جس کی تعریف کی جارہی ہے ان کے مابین طاقت کا ایک غیر متوازن رشتہ لازمی بات ہے۔ تعریف اور تحدید طاقت کے مظاہر میں سے ہی ایک مظہر ہے۔ تعریف اور تحد ید کے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب ہے کہ طاقت کی ڈور کا سرا اپنے ہاتھ میں رکھا جائے جو کہ مرد ہمیشہ سے اپنے ہاتھ میں رکھتا آیا ہے۔
(۵) عقائد ہوں یا اقدار‘ ان کا مبدأ ماورائی ہو یا انسانی‘وہ ہمیشہ مرد مرکز اور پدر سریت (patriarchy)کے نمائندہ رہے ہیں اور ان کی بنیاد پر عورتوں کا استحصال ہوتا آیا ہے۔حیاء کی قدر اور اس کا عورت کے ساتھ ایک خاص تعلق کا تصور بھی مردانہ شعور کی پیداوار ہے تاکہ عورت public sphere سے لاتعلق رہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اگرچہ تمام فیمینسٹ مذہب پر براہ راست تنقید نہیں کرتیں مگر مذہب پر تنقید کی زد کا پڑنا اور فیمینزم کے آغاز سے پڑتے چلے آنا ایک بالکل سامنے کی بات ہے۔فیمینزم ایک ایسا کلی نظریہ ہے جو آپ کو مذہب کو بالکلیہ رد کرنے پر آمادہ نہ بھی کر سکے تو بہت سی مذہبی قطعی تعلیمات کی تاویلاتِ باطلہ پر مجبور لازماً کر دیتا ہے۔
(۶) ہماری دینی روایت میں عورت‘ مرد اور خدا کی ایک مثلث تھی جس میں مرد و عورت کے مابین تعلق خدا کے تعلق سے ڈیفائن ہوتا تھا۔ مرد اور عورت کے بیچ میں خدا موجود تھا۔حقوق و فرائض کا تعین مرد اور عورت کے مجرد تشخصات کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کے حکم کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ کوئی ایک دوسرے پر اگر ظلم کرتا ہے یعنی خدا کے احکام کو توڑتا ہے تو دوسرے کے پاس خدا کا آسرا ہے۔ طاقت کے عدم توازن ‘ پدرشاہی نظام(patriarchical system)اور استحصالِ مطلق جیسے تصورات تبھی ممکن ہیں اگر خدا کو بیچ میں سے نکال دیا جائے۔ فیمینزم نے اصلاََ یہی کیا ہے۔ اگرچہ کچھ مذہبی یا مسلم فیمینسٹ اس بات کو ماننے سے انکار کر دیں گی اور کہیں گی کہ خدا عورت کو جو حقوق دیتا ہے ہم انہی کو عورت کو دلوانے کے لیے کوشاں ہیں مگر یہ محض ایک خلط ِ مبحث ہے۔ تمام اصطلاحات اور تصورات تو جدید فیمینزم کی استعمال ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ اصطلاحات و تصورات مجرد نہیں ہوتے بلکہ اپنا ایک تہذیبی اور نظریاتی سیاق و سباق رکھتے ہیں۔ ان کی نیت اور مقصد درست ہو گا مگر یہ تصورات آہستہ آہستہ اپنا اثر ڈالتے ہیں اور ایک ایسا خاموش نفوذ ہوتا ہے کہ ان کو خود بھی علم نہیں ہو پاتا اور دینی تصورات و حقائق اپنی جگہ خالی کرتے چلے جاتے ہیں۔
(۷) فیمینزم کو اگر سرمایہ دارانہ عالمگیریت اور سسٹم کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ نظریہ سسٹم کے بہت سے اقتضائات کو پورا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سستی لیبر بھی میسر آتی ہے اور مال خریدنے والوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ نئی نئی پراڈکٹس بھی پیدا ہوتی ہیں اور پراڈکٹس کو بیچنے کے لیے بھی عورت ہی استعمال ہوتی ہے۔ حقیقی استحصال تو سسٹم عورتوں کا ان کو آزاد کرنے کے بعد ہی کرتا ہے۔ استحصال اور آزادی جن میں ایک نسبت ِ تضاد ہے اس کو سسٹم نے بہت ہی کمال طریقے سے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ ایک کر کے دکھادیا ہے۔
(۸) فیمینزم کو اپنی آئیڈیل شکل میں مذہب اور تحریک ِ تنویر دونوں سے اختلاف ہے۔ ایک سے مسئلہ اصولی ہے اور ایک سے عملی یا تعبیری۔ مذہب عورت اور مرد کے مابین طاقت کے عدم توازن کو اور پدر سریت patriarchy کو ماورائی اور الوہی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ اور تحریک ِ تنویر نے جو دعوے کیے تھے وہ بھی مرد مرکز‘ مردانہ شعور کی پیداوار اور مردانہ تعبیر ہی رکھتے تھے‘کیونکہ تعبیر کا اختیار بھی ہمیشہ سے مردوں کے پاس رہا ہے۔ نسائی شعور تو عملاً پدرسریت کے غلبے کی وجہ سے تاریخ میں معطل ہی رہا ہے۔ نسائی شعور کی بازیابی اور نسائی تناظر کا احیاء بھی فیمینزم کی مرادات میں شامل ہے۔
(۹) نجات‘ چھٹکارا(Emancipation) جدیدیت کی کلیدی اصطلاحات میں شامل ہے۔ انسان نے ماورائیت ‘روایت‘ مذہبی پاپائیت ‘جبر و استحصال سے جدیدیت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کیا ہے‘مگر اپنی اس کاوش میں مَردوں نے عورتوں کو تو بھلا ہی دیا۔کیونکہ انسان کی تعریف جب تحریکِ تنویر کے مفکرین ان الفاظ میں کرتے ہیں "Man is a self governed autonomous rational being"تو یہاں man سے مراد صرف مرد ہوتا ہے عورت نہیں۔ مرد نے تو روایتی زنجیروں سے نجات حاصل کرلی ہے‘اب عورت کو اس نجات یافتہ مرد کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔اسی طرح تنویری مفکرین کی جانب سے عقل اور معروضیت کے دعوے بھی مردانہ شعور مرکز ہی ہیں۔ فیمینسٹوں کے ہاں فہم (understanding) سے زیادہ نجات (emancipation) پر توجہ ہے‘کیونکہ ان کے خیال میں فہم نظریاتی (ideological)ہوتا ہے۔(یہ اصطلاح یہاں مارکسسٹ معنی میں استعمال کی گئی ہے۔) یعنی تفہیم ایک نظریاتی سیاق و سباق میں ہوتی ہے جو ما قبل تفہیمی ہوتا ہے۔ اس تفہیم کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں ابھی تک یہ عمل مرد انجام دیتے رہے ہیں اور یہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔عورتوں اور مردوں کے درمیان حیاتیاتی اور نفسیاتی اختلافات کی جو تفہیم کی گئی ہے وہ مردانہ شعور مرکز ہے اور پدر سری طاقت اور علم کے تحت کی گئی ہے۔اس تفہیم کو نیوٹرل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جن اصولوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اصول خود پدرسریت کی پیداوار ہیں۔مرد عورتوں کو اس تفہیم کا قائل کر کے ان کو اپنی صورتحال پر راضی رہنے کا درس دیتے ہیںتاکہ ان کی طرف سے کوئی مزاحمت سامنے نہ آسکے۔اسی طرح تاریخ کی بھی ایک خاص مرد مرکز تعبیر کی گئی ہے تاکہ ہر جگہ مردوں کو غالب دکھایا جائے اور اس کو فطری بھی قرار دیا جائے۔(اس سلسلے میں ایک لطیفہ ہے کہ بعض فیمینسٹ کے خیال میں history اصل میں his-story ہے‘ her-story تو کبھی بیان ہی نہیں کی گئی۔) نسائی شعور کی بازیافت ضروری ہے تاکہ تاریخ کی نسائی جہت بھی سامنے لائی جائے اور اسے مردوں سے منوایا جائے۔
(۱۰) مغرب میں فیمینزم کے ابتدا میں عورتیں مرد بننے کی کاوش کرتی اور حقوق و مساوات کی بات کرتی نظر آتی ہیں مگر بعد میں ہمیں ایک اور رجحان بھی نظر آتا ہے جس میں عورتیں اپنے الگ وجود کا اثبات کرتی اور نسوانیت اور جسم کی اہمیت کو اُجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ گویا پہلے یہ بات کہ ہمارے میں بھی شعور پایا جاتا ہے ہمیں صرف جسم نہ سمجھا جائے‘بعد میں یہ بات آئی کہ جسم‘جسمانی اظہار‘ جذبات اور نسوانیت کی اپنی اہمیت ہے‘صرف شعور کو اہمیت دینے کی کوئی وجہ نہیں۔گویا یہ جسم کی شعور کے خلاف بغاوت ہے۔ یہاں ردّ ِ انسانیت(dehumanization) کا ایک خاص مظہر سامنے آتا ہے جس میں انسان کی حیوانی تعبیر کی جاتی ہے اور یہاں فیمینزم کے ڈانڈے جدید جینڈر کے مباحث اور LGBTQ+تحریک سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح فیمینزم میں صنف (gender) اور جنس(sex)کی جو تقسیم کی گئی ہے اور ان کے بیچ میں جو لازمی خلقی رشتے کا انکار کیا گیا ہے اور جینڈر کو مکمل طور پر ایک سماجی تشکیل(social construct)جو قرار دیا گیا ہے ان مباحث سے اس تحریک نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
(۱۱) عورت گویا فطرت کا استعارہ ہے۔ مردوں اور ان کے پیداکیے ہوئے علم سائنس نے جس طرح فطرت کو تباہ اور اس کا استحصال کیا ہے یہی معاملہ عورتوں کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔ مردانہ جارحانہ فطرت کی وجہ سے طبیعی فطرت بھی منہدم ہوئی ہے ا ور باہمی جنگ و جدال بھی ہوا۔ اب نسوانی فطرت ہی اس کا حل پیش کر سکتی ہے‘ اس لیے عورتوں کو معاشرتی و سماجی معاملات اور سیاست میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔
(۱۲) اگرچہ فیمینزم کو جدیدیت اور تحریک ِ تنویر کی مردانہ تعبیر سے بھی مسائل تھے لیکن بہت سے تنویری لبرل مفکرین نے اس معاملے میں عورتوں کا ساتھ دیا مثلاً J. S. Mill۔ اسی طرح مغربی استعمار نے اپنی استعماری توسیع کے جہاں اور بہت سے مقاصد بیان کیے ہیں‘مثلاً دنیا کو تہذیب اور علم سے روشناس کرانا‘ وہیں عورتوں کے حقوق‘ عورتوںکو مردوں کے استحصالی چنگل سے چھٹکارا دلانااور ان کو آزاد کرانا بھی شامل ہیں اور اس بات کے ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں۔ اس وقت بھی عالمی ریاستی نظام اور اس کے ٹھیکیدار قومی ریاستوں میں دخل اندازی (encroachment) کی ایک وجہ جواز عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے مسئلے کو بناتے ہیں۔
مندرجہ بالا نکات کی صورت میں فیمینزم کے حوالے سے چند بنیادی اصولی باتیں عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے دین سے اس کا تضاد اس قدر ظاہر و باہر ہے کہ محتاجِ کلام نہیں۔ فیمینزم کا ڈسکورس اور اس سے پیدا شدہ تناظر ایک خاص سیکولر تناظر ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور خدا کو بیچ میں سے منہا کرنے سے ہی وجود میں آتا ہے۔ خدا کی یہ منہائیت (منہا یا غائب ہو جانا)جو خلا پیدا کرتی ہے وہ خلا ہی نہیں رہتا بلکہ سسٹم اس کی جگہ لے لیتا ہے‘یعنی اب مرد و عورت کے بیچ میں خدا نہیں ہے تو سسٹم موجود ہے۔ سسٹم کی یہ موجودیت اپنے حسی نتائج رکھنے کے باوجود ایک گونہ پوشیدگی رکھتی ہے یا اس کی موجودگی کو اتنا فطری سمجھ لیا گیا ہے کہ اس پر یا اس کے خلاف بات کرنا ایک اچنبھے کی بات محسوس ہوتی ہے۔ فیمینزم ہر لحاظ سے سرمایہ دارانہ نظام سے ایک مطابقت رکھتا ہے۔ سستی لیبر میں اضافہ‘ لیبر کے اضافہ سے اجرتوں میں کمی‘ صارفیت اور پیداوار میں اضافہ‘ یہ سب فیمینزم کے نتائج ہیں۔ عورت کے گھر سے باہر نکلنے سے کئی انڈسٹریاں چلتی ہیں۔
ہمارے ہاں جو متضاد نظریات و تصورات میں بعض عملی نتائج کے حصول کے لیے جو گانٹھ لگانے کا رواج چلا آرہا ہے وہ خلافِ عقل و نقل ہے۔ درآمد شدہ نظریہ چونکہ تہذیب‘ طاقت اور سازگارماحول اپنی پشت پر رکھتا ہے تو اس کا غلبہ اور دینی تصورات اور دینی تشخص کا پس ِ پشت چلے جانا ایک بدیہی سی بات ہے۔ پدرشاہی‘ صنفی امتیاز‘ آزادی‘ مساوات وغیرہ یہ مجرد اصطلاحات نہیں ہیںبلکہ اپنے ساتھ اقدار اور معیارات بھی رکھتی ہیں جو آہستہ آہستہ دینی اقدار اور معیارات کی جگہ لیتی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کی دیسی خاص طور پر مسلم فیمینسٹوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہو پاتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نظریات اور اصطلاحات کو ان کے مبدأ‘ سیاق و سباق اور نتائج کے ساتھ سمجھا جائے تاکہ ان کی درست تفہیم ممکن ہو سکے اور مزاحمت کا کوئی راست لائحہ عمل سامنے آسکے۔
فیمینسٹ اسلام کے خطرناک نتائج(از: ڈینیل حقیقت جو‘ ترجمہ: مکرم محمود)
ایک مشہور مسلم فیمینسٹ نے ایک دفعہ لکھاکہ مسلمانوں کوقرآن مجید کو’’نہیں‘‘ کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگراب اس بات کاوقت ہے کہ مسلمان فیمینزم کاانکار کرتے ہوئے اطمینان محسوس کریں۔میری اپنی بیوی سے ملاقات ہارورڈ میں دورانِ تعلیم ہوئی۔ہم دونوں اپنے آپ کو نوجوان فیمینسٹ گردانتے تھے۔ ہم نے خواتین پرجوگھریلوتشدد اور استحصال ہوتاتھاا س کودیکھااور سن بھی رکھاتھا۔ ہماری شدید خواہش تھی کہ خواتین کے اس جذباتی اور جسمانی استحصال کے خلاف جدّوجُہد کریں اوران کواس سے تحفظ فراہم کریں۔ہم دونوں کی یہ تمناتھی کہ ایک ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے کوشاں رہیںجہاںخواتین عزت ‘نرمی ‘محبت‘تعاون اور بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ جی سکیں۔ ہم اب بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔یہ خواہش ابھی بھی ہمارے اندرموجود ہے۔اس وقت ہمارے خیال میں اس مثالی دنیا تک پہنچنے کاراستہ فیمینز م ہی فراہم کرتاتھا‘مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ جان لیاکہ کہ فیمینزم اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ بذات خودایک بڑے مسئلے کاایک جزو ہے۔ فیمینسٹ فلسفہ کے ساتھ مسائل کاایک پورا انبار موجودہے۔اپنے آغاز ہی سے فیمینزم ایک مذہب اور خاندان مخالف تحریک تھی۔فیمینزم کاکوئی ایک ذیلی نظریہ اسلامی عقائد کے لیے بگاڑ کاباعث نہیں بلکہ وہ کل کاکل ہی خلاف اسلام ہے‘ لیکن شاید کچھ لوگوںکے لیے یہ با ت قبول کرنا مشکل ہو۔اس بات کوسمجھنے کے لیے فیمینسٹ نظریہ سازوں کی پہلی لہر(1st wave) سے لے کر تیسری لہر (3rd wave)تک کی تحاریر کودیکھاجاسکتاہے۔ پھراس نتیجہ کاانکار نہیں کیاجاسکے گا۔
مسلمانوں کوفیمینسٹ نظریہ کے اندر پائے جانے والے ان مسائل کوسمجھناچاہیے‘کیونکہ بہت سے مسلمان انہی وجوہات کی بنا پرجن کی وجہ سے ہم نوجوانی میں اپنے آپ کوفیمینسٹ سمجھتے تھے ‘اپنے آپ کوفیمینسٹ قرار دیتے ہیں۔یہ خطرناک صورت حال ہے‘کیونکہ جیسا کہ میں نے اور میری بیوی نے دریافت کیا کہ فیمینزم اپنے اندر بہت ساایسا مواد رکھتاہے جوخلافِ اسلام ہے اور اسلامی عقیدے کے لیے خطرناک ہے۔اسلام اور فیمینزم کے درمیان کچھ تنازعات اور تضادات توبالکل ظاہر ہیں لیکن کچھ مخفی بھی ہیں(کہ ان کو جاننے کے لیے گہرے فہم کی ضرور ت ہے)۔ان مسائل کاباریک بینی سے جائزہ لیناضروری ہے مگر ہم بحیثیت مسلمان اس کام کاآغازدرخت کوپھلوں سے پہچان کرکرسکتے ہیں (یعنی فیمینزم کے کچھ نتائج سے اس کی حقیقت کوجان سکتے ہیں)۔ ہمیں یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ بہت سے مسلم فیمینسٹوں نے بالآخر اسلام کیوں چھوڑدیا!
اَعداد و شمار
عام خواتین کے مقابلے میں وہ خواتین جواپنے آپ کوفیمینسٹ گردانتی ہیں بہت کم مذہبی ہوتی ہیں۔ عام طور پرہردس میں سے سات خواتین اپنے آپ کوکسی باقاعدہ مذہب سے متعلق ظاہر کرتی ہیں‘جیسا کہ عیسائیت‘ یہودیت یااسلام۔ جبکہ فیمینسٹ خواتین میں صرف دس میں سے ایک کسی باقاعدہ مذہب سے تعلق کوظاہر کرتی ہے۔ لیکن کیااس کایہ مطلب ہے کہ مذہب سے ان کی لاتعلقی کی وجہ فیمینزم ہے ؟کچھ اورشماریات اس نتیجہ کوثابت کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ۱۹۹۳ء سے۲۰۱۳ء تک امریکہ میں غیرمذہبی خواتین کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے۔ ویسے لامذہبیت میں عام طو رپراضافہ ہواہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ۱۹۹۳ء میں صرف ۱۶فیصد خواتین ملحد یالاادری تھیں لیکن ۲۰سال میں وہ ۴۳فیصد تک پہنچ چکی ہیں۔ تجزیہ کارو ں کاکہناہے کہ سیکولر اورفیمینسٹ خیالات ونظریات کی بذریعہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تشہیر اورپھیلائو اس کا بڑا سبب ہے۔
شماریات سے آگے بڑھ کر اس طرح کے معاملات توہم مسلم معاشروں میں عام رواج پاتے دیکھتے رہتے ہیں ۔ آج کل بہت سے مرد اورخواتین جواسلام چھوڑ چکے ہیںوہ اس بے دینی کی وجوہات بھی خودہی بتارہے ہیں۔یعنی ہمیں اندازے لگانے کی بھی ضرورت نہیںہے ۔ بہت سے واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام وقرآن اور اللہ کے نبی ﷺ(نعوذباللہ)پدرسریت(patriarchy) مرد کی بالادستی اور عورتوں پرجبروتشدد کے حامی اور اس کو جاری کرنے والے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اسلام چونکہ فیمینزم کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا توپھر ایک فیمینسٹ مسلمان کیسے ہوسکتاہے ؟
جواب ِآں غزل
اپنے آپ کوفیمینسٹ مسلمان سمجھنے والے اس بات کاقطعی انکار کریں گے کہ ان کے نظریات ان کو بے دینی اور ارتداد کی طرف لے کرجارہے ہیں۔اوریہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مَیں قطعاًیہ نہیں کہہ رہاکہ جواپنے آپ کو مسلم فیمینسٹ کہتاہے وہ بالآخرمرتد ہوجائے گا۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں۔جیسے کسی انسان کوایسے پانی میں ڈال دیا جائے جہاں کثرت سے شارک مچھلیاں پائی جاتی ہیںتویہ یقینی تونہیں ہے کہ شارک اس پرحملہ کرے گی یااسے نقصان پہنچائے گی‘لیکن اس کے امکانات یقیناً بڑھ جائیںگے ۔ماہرتیراک توشاید بچ کرنکل آئیں مگرعام آدمی تو شکار ہی ہوجائے گا۔ فیمینزم مسلمان معاشروں کوشدیدنقصان پہنچاچکا ہے ۔اگر ہمیں اپنے اور اپنی اگلی نسلوں کے ایمان کی پروا ہ ہے توہم اس خطرناک معاملے سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس مسئلے کے وجود کوتسلیم کرناضروری ہے ۔یہ بات مجھے اور کچھ لوگوں کوبہت پریشان کرتی رہی ہے کہ مسلم برادری خاص طور پرامریکہ میں لوگ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ فیمینزم نقصان دہ ہے اور ایمان کے لیے خطرہ ہے ۔اس لیے کہ (فیمینزم کے حوالے سے) کوئی دوسری بات کہہ دینا ہی سیاسی طو رپر اتنا غلط متصور ہوتا ہے کہ مختلف موقف رکھنے والے پر جنونی انداز میں چڑھائی شروع کر دی جاتی ہے۔
بہرحال یہ ہمارے لیے کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہوہمیں ہرحال میں اس مسئلے کاسامناکرناہے ۔خاموشی کوتوڑناچاہیے اور یہ مسلمان قائدین اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلط کوغلط کہیں۔ یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اور فیمینزم کی اس بیماری کے نتائج کچھ عرصہ میں ہی مکمل طور پرسامنے آئیں گے ۔ پانچ یادس سال بعد ہوسکتاہے ہم پیچھے مڑ کردیکھیں کہ مسئلہ ہوا کیاتھامگراُس وقت شاید دیر ہوچکی ہوگی۔ا س کے خلاف مزاحمت ابھی مطلوب ہے ۔ میرامقصد یہاں پریہ بتاناہے کہ کس طرح فیمینسٹ نظریہ ارتداد کی ایک راہ ہے ۔ امید ہے کہ اگر مسلمان اس راہ کو صحیح طرح سمجھ لیں تواگر وہ اس مسئلے کو اپنے یاکسی اور کے اندر پائیں تواس کے خلاف بات کرسکیں گے اور کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ۔ا ب اس ارتداد کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں :
مسلم فیمینٹس کے ارتداد کے درجات
پہلا درجہ:اس سب کاآغاز ایک جائز اور معقول وجہ سے ہوتاہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمان مَردوں کاعورتوں کے ساتھ رویہ غیرمناسب ہوتاہے ۔ مسلمان معاشروں میں عورتوںکے حقوق پامال کیے جاتے ہیںاور عورتوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کو درخوراعتناء نہیں سمجھاجاتا۔کچھ معاشروں میں عورتوں پرمَردوں کے مقابلے میں ایک غیرقانونی دہرا معیار لاگو کیاجاتاہے اور اس پرمستزاد یہ کہ اس کے ذمہ دار اپنے ان اعمال کوجاہلانہ اور خود غرضانہ طریقے پر قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان مسائل کاحل فیمینزم نہیں ہے‘حل اسلامی علم کے حوالے سے جہالت کودور کرناہے ۔ یہ وہ علم ہے جوعلماء کے پاس ہے ‘وہ علماء جو جدیدیت ‘لبرلزم او ر فیمینزم کے اثراتِ بدسے محفوظ ہیں ۔
بدقسمتی سے صحیح علم کمیاب ہے‘لہٰذا مسلمان عورتیں اورمرد اپنے درد کامداوافیمینزم میں تلاش کرنےنکلے ہیں۔ا س طرح وہ فیمینزم کی اس راہ کے مسافر بن جاتے ہیں جس کی منزل اورنتائج خطرناک ہیں ۔ اگر عورتوں پرتشددا وران کے ساتھ برا سلوک ایک مرض ہے (اوریقیناًایک مرض ہے )توصحیح اسلامی علم اوراخلاقیات ہی اس کافطری اور مکمل حل ہے ۔ جبکہ فیمینزم ایک سخت کیمیائی طریقہ علاج ہے جس سے ہوسکتاہے کہ مرض ختم ہوجائے مگر مریض کو موت کی دہلیز تک پہنچا کر۔فیمینزم ان تمام مسائل کو ایک بڑے تصور کے ضمن میں قابل فہم بناتاہے اوروہ تصوّر ہے : ’’پدرسریت‘‘ یا مَردوں کی قوامیت (Patriarchy)۔ مرد ایک جنس کے طور پران تمام مسائل کی وجہ ہیں(اوروہ عورتیں بھی جوفیمینسٹ نظریات کی قائل نہیں ہیں اورانہوں نے Patriarchyکوتسلیم کرلیا ہے)۔ تمام مرد بحیثیت طبقہ‘فیمینزم کے بقول ‘عورتوں پرغلبہ پانے ‘ان کے ساتھ برا سلوک کرنے اور ان کا فائدہ اٹھانے کی دیرینہ خواہش رکھتے ہیں ۔یہ ایک ناجائز زبان اور طریقہ کار ہے جوایک جائز مسئلہ کو حل کرنے اوراس کے بارے میں بات کرنے کے لیے اختیار کیاگیا‘لیکن آہستہ آہستہ یہی زبان اور یہی اصطلاحات غلبہ پاتی گئیں(اور اس عمومیت اور غلبہ نے اس کوجواز فراہم کیااورا س کوواحد مکمل حل سمجھاجانے لگا۔
دوسرا درجہ:پہلے درجے میں عورتوں پرتشدد اور غیرمناسب رویے کا مسئلہ بہت حدتک صنفی اور مشاہداتی تھا‘ دوسرے درجہ پر آکرمعاملہ مجردا ورنظریاتی ہوجاتاہے ۔ مثلاًفلاں اسلامی کانفرنس میں مقررین میں عورتوں کوکیوں شامل نہیں کیاگیا؟اس کے اشتہار میں مَردوں کی تصویریں تھیں اور عورتوں کاصرف نام۔ ایسا کیوںہوا؟ایک مرد امام عورتوں کے حجاب اور لباس کے بارے میں باتیں کیوں کررہاہے ؟اس قسم کے معاملات مَردوںکامسئلہ ہی کیوںہیں ؟مسجد میں مَردوں اورعورتوںکے درمیان پارٹیشن کیوں ہے ؟ جینڈرز کی باہمی علیحدگی اس دور کے سیاق وسباق میں ایک بالکل غیرمتعلق سی بات ہے ۔ مسلمان مَردوں کوجوخصوصی استحقاق حاصل ہے وہ اس کاادراک کیوں نہیں کررہے ؟حیا کواتنابڑامسئلہ کیوں بنالیاگیاہے ؟مرد عورتوں کے مسئلے میں بات ہی کیوں کرتے ہیں؟مرد فیمینزم کے بارے میں اپنی آراء کااظہار کس حق کے تحت کرتے ہیں ؟(حالانکہ فیمینزم مَردوں پرعورتوں کو دباکر رکھنے کاالزام عائد کرتاہے ۔جن پرالزام لگایاجارہا ہوان کووضاحت کاحق توہوتاہے‘لیکن یہیں اگروہ وضاحت دیں توان پرعورتوں کوحقیر اور جاہل سمجھنے کاالزام لگادیاجاتاہے۔)ان تمام سوالات کاوہی ایک ہی جواب ہے جوپہلے درجے میں دیاگیا تھااور وہ ہے
:پدرسریت(patriarchy)۔
پہلے درجے کے برخلاف دوسرے درجے میں ٹھوس اسلامی تعلیمات اور روایات کااتناخیال نہیں رکھاجاتا۔ دوسرے درجے کے اکثر مسائل مغربی لبرل فیمینسٹ نظریات سے متعین ہوتے ہیں ۔دوسرے درجے کے فیمینسٹ بعض اُن معاملات اور احکامات کی مخالفت سے بھی نہیں کتراتے جن کی اسلامی قانون میں مضبوط بنیادیں پائی جاتی ہیں ۔مثلاًصنفی عدم اختلاط‘حیا‘لباس کے آداب واحکامات‘ عورتوں کاغیرمَردوں کے سامنے آنے اوران سے اختلاط سے پرہیز‘وغیرہ۔اس درجے کے فیمینسٹوں کو اسلامی علوم وقوانین کااتناعلم بھی نہیں ہوتا۔جب ان کوعلم ہوتاہے کہ یہ سب معاملات اسلامی علوم وقانون میں اپنی مضبوط بنیادی اساس رکھتے ہیں تووہ تیسرے درجے کی طرف بڑھ جاتے ہیں ۔
تیسرا درجہ:اس مقام پر آکراسلامی علوم اور اسلامی قانون کوہی قابل اعتراض قرار دے دیاجاتاہے ۔دوسرے درجے میں زیادہ مسئلہ موجودہ مسلمانوں کے عمل سے تھا۔اب روایت اور روایتی علماء پربھی سوال اٹھادیا گیا۔ اگر پدرسریت جوکہ عورتوں کے استحصال کاایک نظام ہے ماضی میں بھی پائی جاتی تھی‘اور یقیناًپائی جاتی تھی کیونکہ ماضی میں بھی عورتوں پرتشدداوران کااستحصال ہوتا تھا‘توہمارے روایتی علماء نے بھی دین کواسی کے اثر کے تحت اور اس کے بنیادی مفروضات کی روشنی میں سمجھاسمجھایاہوگا اورجب ہم ان جلیل القدر علماء کی کتابیں بنظر غائر دیکھتے ہیں تواس میں ایسامواد توکثرت سے پاتے ہیں جس کو فیمینزم میں پدرسریت(patriarchy)اورعورت سے نفرت اور اس کو کمتر سمجھنے(Misogyny)کے تحت بیان کیاجاتاہے ۔بہت سی مسلمان خواتین جواس درجے تک پہنچتی ہیں ان کے یہاں تک پہنچنے کی وجہ یہ بنتی ہے کہ وہ جب حصول علم کے لیے اس طرح کے متون کامطالعہ کرتی ہیں توایک دفعہ تووہ ہل کررہ جاتی ہیں اوریہ ان کے لیے اس حد تک ناقابل برداشت ہوجاتاہے کہ وہ پوری روایت کاانکار کردیتی ہیں اوراس کوپدرسریت (patriarchy) سے مملو قرار دیتی ہیں ۔اس مقام پرمسلم فیمینسٹوں کایہ خیال ہوتاہے کہ صرف قرآن اور حدیث پرہی اکتفا کرناچاہیے‘ کیونکہ یہی وہ ہیں جومَردوںکی تحریفات اور مسخ سے محفوظ ہیں‘مگر پھربات یہاں بھی رکتی کب ہے ۔
چوتھادرجہ :سورۃالبقرۃ‘آیت۲۸۲‘سورۃ النساء‘آیت۱۱و۳۴ میں وارد شدہ دوگواہیاں‘نصف وراثت۔اور احادیث:نَاقِصاتُ عقلٍ وَ دِیْنٍ… اکثریت جہنم میں ہوگی…اگر سجدہ جائز ہوتااورمیں کسی کو سجدہ کرنے کاحکم دیتا… وغیرہ وغیرہ۔ہم سب ان آیات اور احادیث سے واقف ہیں ۔مسلم فیمینسٹ ان سب کی کیاتوضیح کریں گے ؟کیسے ممکن ہے کہ خدا کی وحی میں کئی جگہوں پرmisogyny(صنفی امتیاز وتفریق)کے اثرات پائے جاتے ہوں؟اس طرح کے سوالات اس مقام پر(درجہ سوم سے درجہ چہارم)پائے جانے والے فیمینسٹ کے لیے سرچشمہ شکوک وشبہات ثابت ہوتے ہیں اوروہ ان کو مختلف طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً:ہوسکتاہے کہ ان سب کی غلط تفہیم کی گئی ہو‘اگرہم اس طریقے سے آگے پیچھے کرلیں اور تاویل کرلیں تواس حدیث اوراس آیت کی یہ تعبیر کی جاسکتی ہے ۔ہوسکتاہے کہ ہم وحی میںجوحکمت اور بیان کی انتہا ہے اور اکیسویں صدی کے جینڈر سٹڈیزکے پروفیسرز کی باتوں میں تطبیق کی کوئی راہ دریافت کرلیں۔ یہ سادہ فکری اور بھول پن اس بات سے لاعلمی کاشاخسانہ ہے کہ کتنی کثیرآیات اور احادیث جدید فیمینزم کے قطعی برخلاف ہیں۔ جیسے جیسے اس بارے میںان کاعلم بڑھتاجاتاہے ویسے ویسے ان کے اس مقام درجہ چہارم پررسوخ بھی بڑھتاجاتاہے ۔
اس درجہ پرپائے جانے والا فیمینسٹ یہ جان لیتاہے کہ بالیقین ‘اسلام اور فیمینزم میں اجماع اور تطابق اس صورت میں ممکن ہے کہ قرآن کی حفاظت اور سُنّت کے قابل عمل ہونے کاانکار کردیاجائے ۔ اس مقام پر موجود مسلم مصلحین واضح طور پر اس طرح کی باتیں بھی کرجاتے ہیں کہ’’ ہمیں قرآن کابھی انکار کرناچاہیے ۔‘‘اور کچھ لوگ پیغمبروں کی توہین اور انہیں برے القابات سے پکارنے کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں اوراس کی وجہ وہی پدرسریت (patriarchy)کاتصور ہے ۔اس درجے پرتوہین انبیاء وشعائراسلام ‘مخلوط باجماعت نمازاور عورت کی امامت‘مسلمان عورتوں کی غیرمسلم مَردوں سے شادی‘ہم جنس پرستی ‘ٹرانس جینڈرزم ‘زنا وغیرہ سب جائز وممکن ہوجاتے ہیں۔یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوتاہے کہ وہ علمی اصول ‘روایت ‘معروضی علم شریعت اور سُنّت کاانکار کربیٹھتے ہیں ۔اگر کوئی قطعیت اور علم کے ساتھ یہ کہے کہ یہ خدا کاحکم ہے تووہ مردانگی پرست‘ عورتوں پرجبراوران کااستحصال کرنے والاہے ۔ان کے نزدیک کامل اختیار اور تحکم patriarchalتصوّرات ہیں ۔
اس درجے پر برقراررہنے والے فیمینسٹ تھوڑے ہی ہوتے ہیں‘کیونکہ ان سب باتوں کودرست سمجھنا اور اپنے آپ کومسلمان کہناقطعی ناممکن ہے ۔انسان اپنے تشخص اوراکائی کوبرقرار رکھنے کے لیے اس طرح کے شعوری تضادات کازیادہ دیرحامل نہیں رہ سکتا۔ اور پھران کی توہین اورشعائراسلام سے بے رخی باقی مسلمانوںکی طرف سے ایک منفی ردعمل کاباعث بنتی ہے ۔اس طرح ان کے لیے مسلمان رہنابہت مشکل اور تلخ ہوجاتاہے‘اس طرح وہ پانچویں درجے پرپہنچ جاتے ہیں۔
پانچواں درجہ :اس درجے پر ذہنی اذیت اور تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے اوراسلام کے کنارے پرکھڑے ہوئے انسان کوذرا سا دھکالگنا کوئی ایسی بعیدازقیاس بات نہیں ہوتی۔اگر خداجنسی مساوات کاقائل ہے توپھروہ اپنے لیے وحی میں مؤنث کی بجائے مذکر کی ضمیر کیوں استعمال کرتاہے ؟پہلا انسان مرد کیوں تھا‘عورت کیوں نہیںتھی؟ قرآن میں اکثرتاریخی بیانات مَردوں سے ہی کیوں متعلق ہیں‘عورتوں سے کیوںنہیں؟خدا کے آخری پیغمبر ﷺ ایک مرد کیوںتھے‘عورت کیوں نہیں ؟ خدا کی وحی ہمارے تک ایک مرد کے ذریعے ہی کیوں آئی‘ ایک عورت کے ذریعے کیوں نہیں آئی ؟یہ سادہ مگر پاگل کردینے والے سوالات ان کے لیے کفر اور ارتداد کی کھائی میں چھلانگ لگانے کاباعث بن جاتے ہیں۔وہی خیالات جنہوں نے انہیں اس راہ کامسافر بنایاتھایہ آخری قدم بھی ان سے اٹھوا دیتے ہیں کہ خداپدرسریت(patriarchy) کووجود ہی کیوں دیتاہے ‘اسے برقرار ہی کیوں رکھتا ہے؟ کیااس کوسینکڑوں سال سے عورتوں پرتشد اور استحصال کی کوئی پروا نہیں ہے ؟واحد جواب جوفیمینزم دے گاوہ یہی ہوگاکہ یہ سارا جھوٹ مَردوں نے گھڑا ہے تاکہ عورتوں پر تشدد اور ان کواپنے زیرتصرف رکھنے کاجواز گھڑسکیں۔
خاتمہ
فیمینزم کی خطرناکی کی وجہ یہ ہے کہ یہ علت ومعلول کے ایک طویل سلسلے کی طرح کام کرتاہے ۔ جب انسان ہرمسئلے کوpatriarchy کی نظر سے دیکھنے کاآغاز کردیتاہے اورا س راہ کامسافر بن جاتاہے توانجام تک پہنچنا کچھ وقت ہی کی بات ہوتی ہے‘کیونکہ یہ منطق آپ کوہرناانصافی کی ایک مکمل توجیہہ فراہم کرتی ہے (یہ اور بات ہے کہ یہ غلط راہ پرلے جانے والی اور تباہ کن ہے )۔پانچویں درجے پر موجود فیمینسٹ زیادہ ایمان دار اور اپنے نظریات میں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں بہ نسبت ان فیمینسٹوں کے جوپہلے چار مدارج میں پائے جاتے ہیں۔ پانچویں درجے پر موجود فیمینسٹ اپنے نظریات کے تلخ نتائج کوقبول کرلیتے ہیں ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024