مباحث ِعقیدہ(۱۲)مؤمن محمود
تعریف ِصفت حقیقت ِصفت نہیں
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کامطالعہ اوراس کی ایک تعریف (definiton)متعین کرنا اس لیے نہیںہے کہ ہم صفت کی حقیقت جان گئے ہیں بلکہ انسانی جُہد اور محنت کے نتیجے میں جتنی معرفت ہوسکتی ہے یہ اس کا بیان ہو رہا ہے۔ حقیقی معرفت کے حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ قول ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ {وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵)} (الاسراء) ’’اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں۔ آپ جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔‘‘جب روح کے بارے میں کہہ دیاکہ تمہیں بہت کم معرفت حاصل ہے اوروہ مخلوق ہے توخالق کی حقیقت ‘اُس کی کنہہ اور اُ س کی صفات کی ماہیت کے حوالے سے معرفت یقیناًاقل قلیل ہے۔اس آیت سے استشہاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات پر بھی ہوسکتا ہے ‘کیونکہ ایک رائے کے مطابق جو قوی ہے اور امام رازی ؒ نے صراحتاً تونہیں لیکن اشارتاً اسے اختیار کیاہے ‘یہاں روح سے مراد قرآن مجید ہے۔سیاق وسباق بھی اسی پردلیل ہے ۔اگر ہم یہاں اللہ کی صفت ِکلام مراد لے لیں توگویا کہاجارہا ہے کہ تم اس کے بارے میں بھی نہایت قلیل جانتے ہو۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ باقی صفات کا علم بھی ہمارے پاس قلیل ہے ۔ جوتعریف ہم نے صفت ارادہ کی کی تھی وہ بس اسی قلیل بلکہ اس میں سے بھی اقل ِقلیل کابیان تھا۔
ہم نے یہ بات بھی دیکھی تھی کہ صفت ارادہ تمام صفاتِ الٰہی میں سے اللہ کو ایک شخصی وجود کے طورپر ماننے کے لیے بنیادی صفت ہے۔اگر آپ صفت ارادہ کو جس طریقے پر اللہ نے بیان کیا ہے او ر جس طریقے پر علماء اہل سُنّت کاعقیدہ ہے ‘اس طریقے پر نہیں مانتے توہوسکتا ہے کہ آپ ایک ماورائی وجود مان لیں ‘ کوئی first cause مان لیں‘ metaphysical beingمان لیں ‘لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ماننے کے باوجود آپ اُس خد اکو مان رہے ہوں کہ جسے ماننے کی دعوت قرآن نے دی ہے یاجس کا تصوّر اللہ کے نبی ﷺ نے دیا ہے۔ توگویا صفت ِارادہ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو فاعل مختار ماننا و ہ بنیاد ی صفت ہے کہ جس کے بعد وہ ایک شخصی وجود قرار پاتاہے۔ ایسا وجود کہ جس نے محض اپنے ارادے سے اس کائنات کو تخلیق کیا۔صفت ِارادہ کی جو تعبیراہل ِسُنّت کے ہاں ہے‘ اگراس کونہ مانا جائے توخدا کاتصوّر مشینی وجودکاسا ہوجاتاہے‘نعوذباللہ !جہاں سے کچھ چیزیں صادر ہورہی ہیں‘ وہ کوئی الٹی میٹ لاء ہے جس سے چیزیں صادر ہوتی چلی جاتی ہیں ‘چاہے وہ ایجاد کے تحت ہوں یاکسی اوراصول کے تحت ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے سے اور فاعل مختارہونے کی حیثیت سے اس کائنات کووجو دبخشا ہے۔اس لیے یہ بات ماننا ضروری ہے اور یہاں سے عقیدے کی اہمیت کابیان بھی ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ ہم بھی کچھ باتیں ایسی مان رہے ہوتے ہیں ۔
ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ارادہ کی اس پیچیدہ بحث کی کیاضرورت ہے! اگرچہ ہم نے کوئی بہت پیچیدہ باتیں نہیں کیں ۔ آپ علم الکلام اور عقیدے کی بڑی بڑی کتابیں دیکھیں توآپ کوان موضوعات پر بہت سی جلدیں ملیں گی۔ مثلاً صرف صفاتِ معنی کے بیان پر’’المطالب العالیہ‘‘ کی غالباً پوری ایک جلد ہے۔’’ المطالب العالیۃ فی العلم الالـٰـھی‘‘ امام رازی ؒ کی کتاب ہے جوآٹھ دس جلدوں میں ہے ۔ہم توایک خلاصہ سابیان کر رہے ہیں کہ جس کاماننا ضروری ہے ۔ اس خلاصے پر جتنے اعتراضات یاشبہات وار د ہوسکتے ہیںان سب کاجواب ہمارے علماء کلام نے تفصیلی طور پر کتابوں میں دیاہے۔ اس عقیدے کو ماننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اس طریقے پراللہ کونہیں ماناتوشاید پھر خدا سے وہ تعلق بھی پیدا نہ ہوسکے جو مقصود اور مطلوب ہے ۔عقیدہ اس لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے کہ آج کل کے زمانے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بڑے مسائل کابیان بھی ممکن نہیں یااس کو یوںکہاجائے کہ meta narrative آج وجود ہی نہیں رکھتا‘لہٰذا اس طرح کی باتوں کو چھوڑو ۔اپنے اخلاق اچھے کرو‘اعمال اچھے کرو‘لوگوں سے فیئرہوجائو‘ان سے اچھے طریقے سے پیش آئوا ور یہ عقیدے کے مسئلوں کو چھوڑ دو۔
بعثت ِانبیاء کاایک بنیادی مقصد : اللہ کاصحیح تعارف
بہرحال سب سے بنیادی شے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کوبھیجاہے وہ اپناتعارف کروانا ہے ۔رسول کیوں آتاہے؟ صرف اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے نہیں‘ یاصرف چند اعمال کواچھا کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ وہ اللہ کی عبادت کی طرف بلاتاہے ۔ تمام رسولوں کی دعوت یہ تھی : {یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ۭ} (الاعراف:۵۹) ’’اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو‘ اُس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں۔‘‘اور عبادت کے لیے شرط معرفت ہے۔یعنی جس کی تم عبادت کررہے ہواس کی کچھ نہ کچھ ایسی معرفت ضرور حاصل کروجس کے نتیجے میں تمہاری عبادت ٹھیک ہوجائے۔ ہوسکتاہے انسان اللہ کی عبادت کرے اور معرفت میں خلل کی وجہ سے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہو۔ لہٰذا خدا کے بارے میںصحیح علم جوخود خدا نے دیا ہے اور صحیح عقیدہ جواللہ کے نبی ﷺ نے بتایاہے اس کا حصول ضروری ہے تاکہ انسان عبادت اور عمل میں صحیح بنیادوں پر کھڑا ہو۔اس لحاظ سے عقیدہ بہت ضروری ہے۔ ہم کئی دفعہ انجانے میں ایسے عقائد کے قائل ہوجاتے ہیں جن پراہل ِسُنّت ردّ کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی ارادے اور علم کے تعلق کے بارے میں اکثر لوگ جوبیان کررہے ہوتے ہیں وہ معتزلی عقیدے کابیان ہے ۔ان کے خیال میں وہ ٹھیک بیان کررہے ہوتے ہیں حالانکہ معتزلی عقیدہ پرعلماء اہل سُنّت نے رد کیاہے ۔ معتزلہ ارادے اور علم میں فرق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ ارادہ اورعلم ایک ہی شے ہے ۔علم ہے علم سابق‘ اسی کے مطابق چیزیں ظہو ر پذیر ہوتی رہتی ہیں۔تم اس کو ارادہ کہہ لو یا نہ کہو۔اصلاًمعلوم وجود میں آتاہے علم کے نتیجے میں اور علم میں جبر نہیں ہوتا۔اہل سُنّت نے کہا کہ علم اور شے ہے جبکہ ارادہ اور شے ہے ۔
اللہ کی کوئی صفت دوسری صفت کے تابع نہیں
ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر ہم نے علم اور ارادہ میں فر ق کردیا توکیا علم کی وجہ سے ارادے پر جبر نہیں ہوگیا؟یعنی اگر اللہ نے ازلاًہرشے کو جان لیاہے تواسی کے موافق اُس کا ارادہ ہوگا‘اس کے مخالف ارادہ نہیں ہوسکتا‘توکیااللہ کایہ علم اس کے ارادے پرایک جبر نہیں ہے؟گویااللہ تعالیٰ اپنے علم کے خلاف نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہے توپھر علم اصل ہوااور ارادہ اس کے تابع ہوگیا۔لہٰذا معتزلہ کا موقف درست ہوگیاکہ علم کے نتیجے میں ارادہ پیدا ہوگا ‘جس سے مراد وہی ہوگی جومعلوم ہے اور ارادہ اسی معلوم کے تابع ہوگا۔ اہل سُنّت نے کہا کہ یہاں بنیادی خلل یہ پیدا ہورہاہے کہ تمہارا فہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو زمان کے اندر دیکھ رہاہے ‘جوہم کہتے ہیں کہ پہلے علم ہے‘ پھر ارادہ ہے۔یہ قبلیت اور بعدیت کے تصوّرات زمان سے پیدا ہوتے ہیں ۔یعنی ہرشے کاعلم پہلے ہوگیا‘اس کے بعد ا ب ارادہ اس کے موافق کرتے چلے جانا ہے ۔چونکہ قبلیت اوربعدیت کاتصوّر زمان اور مکان (Time and space)کے اندر محدود ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتاہے ‘توتم اس اعتبارسے قبلیت اور بعدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جبر کاتصوّر لے آتے ہوکہ چونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم سابق ہے اور ارادہ اس کے تابع ہے‘ لہٰذا ارادے کے اوپرقدغن ہوگئی‘اس کے اوپر ایک جبرہوگیا۔درحقیقت اللہ کے ہاںتوایسا نہیں ہے۔وہاں کوئی صفت کسی اور صفت کے تابع نہیں ہوتی۔اللہ کاعلم اُس کے ارادے پرجبر نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کاعلم اس معنی میں پہلے اور بعد میں نہیں ہے ‘کیونکہ وہاں پہلے اور بعد میں کوئی شے نہیں ہے ۔لہٰذاہم جوبات بار بار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمان ومکان سے ماورا ء ہے‘ اس سے بہت سے مسئلے حل ہوتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبلیت اوربعدیت نہیں ہے۔ اس طرح کے تصوّرات اللہ کو کسی ٹائم فریم میں دیکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔لہٰذا اللہ کے ہاں تمام صفات اپنی شان کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی صفت کسی صفت کے تابع نہیں ہوتی ۔ صفت ارادہ کے حوالے سے دوبنیادی چیزیں ہیں کہ جن کا ماننا ضروری ہے ۔ایک امام طحاوی کی عبارت ہے: لا یکون الا ما یرید’’ہوتاوہی ہے جو اللہ چاہتاہے ۔‘‘ دوسری یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے پرکوئی قدغن یاکوئی جبر نہیں ہے۔اُس کاارادہ مطلق ہے‘ ذاتی ہے ۔
ذاتی ارادے پرعلت کا سوال نہیں پیدا ہوتا
یہاں ایک اوربحث پیدا ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادہ کو کون ترجیح دیتاہے!یعنی جب ہمارا ارادہ پیدا ہوتاہے تواس پرکچھ داخلی اور خارجی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں ۔مثلاً میں پانی کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا ہوںاور اس کو پینے کا ارادہ کیا ہے ‘لیکن پینے کاارادہ کیوں کیا؟اس لیے کہ پیاس لگی تھی ۔آپ میرے ارادے کی علت بیان کریں گے‘اس لیے کہ میرا ارادہ میرا ذاتی نہیں ہے ۔جوشے ذاتی نہیں ہوتی اس کی علت کابیان ضروری ہوتا ہے ۔آپ کاوجود ذاتی نہیں ہے توپوچھاجائے گاکہ یہ کہاں سے آگیا؟اگر بالفرض کائنات کاوجود ذاتی ہوتاتوپھرہمیں اس کی تعلیل بیان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ہم یہ نہ کہتے کہ اس کاوجود کیوں ہے! ہم کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہےاس کا وجود ذاتی ہو‘توذاتی شے منفک(الگ کی گئی) نہیں ہوتی۔الذاتی لَا یُنْفَکُّ ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے لیے میرا وجود ذاتی ہے او رپھر کچھ دیر کے لیے وہ رخصت ہوگیا۔اگر ذاتی ہے تووہ ہمیشہ رہے گا۔ میں عدم تھا‘وجود میں آگیاتواس کا مطلب ہے میرا وجود ذاتی نہیں ہے ۔اسی طرح جب میں اپنے ارادہ کودیکھتا ہوں توکبھی وہ سلب بھی ہوجاتاہے ۔قدر ت بھی سلب ہوجاتی ہے۔علم بھی سلب ہوجاتاہے ‘اس کی جگہ جہالت آجاتی ہے ۔اگر میرا علم ذاتی ہوتاتوکبھی سلب نہ ہوتا۔توجوشے ذاتی ہوتی ہے اس کی آپ علت بیان نہیں کریں گے۔ چونکہ میرا علم ذاتی نہیں ہے توآپ پوچھ سکتے ہیں تمہارا علم کہاں سے آیا!تمہارا وجود کہاں سے آیا؟
قاعدہ یہ ہے کہ جوشے موصوف بالعرض ہوتی ہے یعنی جواپنی ذات میں ذاتی نہ ہووہ لازماًکسی ذاتی شے پرمنحصر ہوگی۔عرض صفت کوکہتے ہیں اوراس شے کو بھی کہتے ہیں جوکسی شے پرکبھی وارد ہو کبھی وارد نہ ہو۔ بہت سے لوگ بڑے علّامہ فہامہ ہوتے ہیں لیکن پھر ان سے وہ سارے علوم رخصت ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات وہ پاگل بھی ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں میراعلم میرا ذاتی نہ ہوا۔توجوذاتی شے نہیں ہے بلکہ ارادی ہے وہ لازماً منتہی ہوگی کسی ذاتی شے پر۔ایسے وجود پر جس کے پاس سب کچھ ذاتی ہو۔جب میں پوچھوں کہ آپ کاوجودکہاں سے آیا؟آپ کہیں کہ فلاں جگہ سے آیا‘اور فلاں جگہ میں جاکر پوچھوں توپتاچلے کہ وہاں بھی وجود ذاتی نہیں ہے ‘بلکہ عرضی ہے توپھر مجھے پیچھے جاناپڑے گا ۔گویاموصوف بالعرض ہے‘جوعارضاً یاعاریتاً وارد ہوئی شے ہے وہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ کرلازماً رکے گی جہاں عاریتاً کچھ نہ ہوبلکہ سب کچھ ذاتی ہو۔اس کوکہتے ہیں : الموصوف بالعرض یجب ان ینتہی الی الموصوف بالذات ۔یعنی موصوف بالعرض لازماًمنتہی ہوگاایک ایسی ہستی پرکہ جوموصوف بالذات ہے ۔ {وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہٰی(۴۲)}(النجم) کامفہوم یہ بھی ہے ۔ جوکچھ جس کے پاس ہے وہ عرضی ہے تولازماًاُس ہستی کی طرف رجوع ہو گا جس کے پاس ذاتی ہے ۔ تو میرا ارادہ معلل ہوگا‘ کیونکہ وہ ذاتی نہیں ہے او رذاتی کی علت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔جب ہم یہ سفر کرتے ہوئے اللہ تک پہنچیں گے تووہاں یہ سوال نہیں کرسکتے کہ اللہ کاارادہ کیوں ذاتی ہے !وہاں ارادہ ذاتی ہے اورارادے کی صفت ہی یہی ہے کہ وہ دو چیزوں میں سے ایک کو مخصص کرتی ہے ۔وہاں اب لِمَ (کیوں؟) کاسوال نہیں ہوگا۔اگر وہاں ’’کیوں‘‘ کا سوال کیاتوگویا آپ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا ارادہ بھی ذاتی نہیں بلکہ عرضی ہے ‘جبکہ وہاں کوئی شے عرضی نہیں ہے ۔لہٰذا جب آپ اپنے علم کابیان کریںگے تو وہاں پہنچ کررکیں گے جوالعلیم ہے ‘علیم بذات الصدور ہے ‘جس کا علم ذاتی ہے۔ {وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۸۶)} (یوسف) ’’ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے۔‘‘ آپ کی قدرت لازماًمنتہی ہوگی کہ جس کے پاس قدرت ذاتی ہے۔آپ کے پاس ایک ضعیف ساارادہ ہے ‘جو لازماًمنتہی ہوجائے گااس ہستی کے پاس جس کے پاس ار ادہ ذاتی ہے ۔اسی طرح باقی تمام صفات کواس پرقیاس کرلیں۔
گویاجب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ کے ارادے کو کس نے آمادہ کیاتویہ سوال باطل ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارادہ ذاتی ہے‘قاعدہ یہ ہے کہ الذَّاتی لَا یُعَلَّل ذاتی کی علت بیان نہیں کی جاتی ۔ سمجھانے کے لیے ہم منطق میں توبیان کر دیتے ہیں وگرنہ ذاتی اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔مثال کے طور پرکوئی کہے کہ چینی میٹھی کیوں ہے؟اہل منطق حضرات ایسی مثال دیتے ہیں ۔اس کوبتایاجائے گاکہ چینی ہوتی ہی میٹھی ہے ۔یعنی چینی کی ماہیت ہی یہ ہے‘ہاں کوئی اور شے میٹھی ہوجائے جس کی ماہیت میٹھاہونا نہ ہوتوپوچھاجائے گاکہ یہ میٹھا کیوں ہے!توآپ بتائیں گے یہ میٹھااس لیے ہے کہ اس کے اندرچینی ہے جس کی ذاتی خصوصیت میٹھاہوناہے ۔ وہاں پہنچ کرآپ رک جائیں گے‘ لیکن علم الکلام میں یہاں بھی نہیں رکا جائے گا۔ آپ پوچھیں گے کہ چینی میں یہ خاصیت کہاں سے آئی؟ تو بالآخر آپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے تک پہنچیں گے ۔جوذاتی شے ہوتی ہے وہاں پہنچ کرآپ نے رک جاناہے۔ ارادے کے حوالے سے امام غزالی ؒنے بڑی زبردست مثال دی ہے کہ ارادے کے بارے میں آپ پوچھیں کہ یہ ارادہ کیوں ہوا‘تو یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے تم کہوکہ علم سے چیزیں منکشف کیوں ہوتی ہیں؟کہا جائے گا کہ علم کی تعریف ہی یہی ہے کہ اس سے چیزیں منکشف ہوتی ہیں۔جب تم کہہ رہے ہوکہ ارادہ کیوں ہواہے‘ یا ارادے نے اس شے کو مخصص کیا‘اس کو نہیں کیا‘اس کو وجود دے دیا‘اس کو نہیں دیاتودرحقیقت ارادے کی خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ دوچیزوںمیں سے ایک کوخاص کرتا ہے ۔بہرحال یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارادہ مطلق ہے‘ وہ بغیرکسی علت کے ہے ‘وہ خارج سے اس پر وارد نہیں ہوا۔
یہاں سے آپ کوایک بات پتاچلے گی کہ اللہ اور ہمارے ارادے میں تعلق کیاہے۔ہمارا ارادہ کبھی بھی اللہ کے ارادے کے مقابل نہیں آسکتا۔مقابل وہ چیزیں آتی ہیں جوذاتی ہوں۔ہماری قدرت عرضی ہے ‘اُس کی قدرت ذاتی ہے۔ہمارا علم عرضی ہے اور اُس کاعلم ذاتی ہے ۔ہمارا وجود عرضی ہے ‘اُس کاوجود ذاتی ہے ۔ہمارا ارادہ عرضی ہے‘ اس کا ارادہ ذاتی ہے ۔ ذاتی اور عرضی میں تقابل نہیں ہوتاکہ آپ یہ طے کر سکیں کہ میرا ارادہ اور اللہ کا ارادہ اگر مقابل آجاتے ہیں توکس کاارادہ چلے گا!ہماراارادہ اُس کے ارادے کی دین ہے۔ ایک بات یہاں ہمارے علماء نے یہ بیان کی کہ الارادۃ غیر علم۔ یعنی ارادہ علم نہیں ہے بلکہ علم کے سوا ہے ۔ پھر ہم نے یہ دیکھ لیا کہ کس طریقے پرعلم ارادے کو مجبور نہیں کرتا‘کیونکہ مجبوری کا تصوّر قبلیت اوربعدیت کی وجہ سے آتاہے ۔پہلے بھی ہم نے ایک اہم بات یہاں دیکھی تھی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تقدیر کوماننے کا مطلب اُس کی صفت ِارادہ اورصفت ِعلم دونوں کو ایک ساتھ ماننا ہے ۔صرف صفت ِعلم کو مانناتقدیرکاعقیدہ نہیںہے ۔
ارادہ اور رضا کے درمیان تعلق کامسئلہ
ارادہ غیر رضا ہے ۔ ایک ہوتی ہے اللہ کی رضا‘اُس کی محبّت اور اُس کا کسی شے سے راضی ہونا۔اب سوا ل یہ ہے کہ جب کُل کائنات اللہ کی مراد ہے‘ کیونکہ ہم نے کہاکہ لا یکون الا ما یرید‘ کائنا ت میں شربھی ہے ‘کفر بھی ہے ‘معاصی بھی ہے‘توسب شے اللہ کی مراد ہوگئیں ۔کیااللہ کی مرادبرابر ہے اللہ کی محبّت اور رضاکے؟اگر ہرشے اللہ کی مراد ہے اورمراد اللہ کی محبوب ہے ‘ اللہ اس سے راضی ہےمگراللہ نے توکہاہے کہ وہ کفرپرراضی نہیںہیں جیسے فرمایا:{وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَج} (الزمر:۷) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کفر کوپسند نہیں کرتا۔ارادہ او رمحبّت ایک ہیں یانہیں؟ معتزلہ نے ہرشے کواللہ کی مراد نہیں مانا۔انہوں نے کہاشر ‘معاصی اورا خلاقی شر اللہ کی مرادنہیں ہے ۔ انسان کو اللہ نے ارادہ دیا‘وہ پیدا کردیتاہے ۔اللہ کی ڈائریکٹ تخلیق بالکل نہیں ہے۔معتزلہ کے ہاں تویہ مسئلہ ہی نہیں پیش آتا۔وہ توکہیں گے کہ تمہارے مذہب پر یہ مسئلہ پیش آرہاہے کہ تم نے کہہ دیا کہ کفر ‘شراورمعصیت اللہ کی مراد ہے ۔لہٰذا شر‘کفراور معصیت اللہ کا محبوب ہے ‘اللہ اس کو چاہتاہے ۔یہ ایک مشکل مسئلہ ہے ۔اگر دیکھاجائے تواصلاًاسے حل کرنااتناآسان نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسےحل کرنے کے لیے صفت ِارادہ پرکچھ ایسی تحقیق چاہیے جوہمارے لیے اس وقت ممکن نہیں ہے ۔یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے کی نوعیت اورماہیت کے بارے میں کچھ ایسا علم چاہیے جوہمارے لیے اس وقت متحقق نہیں ہے۔ بالآخر یہ مسئلہ تعلق تورکھتاہے مسئلہ تقدیر ہی سے کہ کس طریقے پر یہ ساری چیزیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مراد اوراس کی تخلیق ہیں۔ اس مسئلے پر اہل ِسُنّت میں دورائیں رہیں۔ایک امام ابوالحسن الاشعری ؒکا طریقہ ہے اور ایک امام ابومنصور الماتریدیؒ کاطریقہ ہے ۔محققین کی رائے ہے کہ ان میں بہت زیادہ قوی اختلاف نہیںہے بلکہ اس اختلاف کو اصلی اختلاف نہیں کہاجائے گا‘یہ فرعی اختلاف ہے جسے اختلافِ لفظی کی طرف لوٹانے کی گنجائش موجود ہے ۔ بعض نے کہا کہ یہ اختلاف لفظی نہیں ہے بلکہ معنوی ہے۔معنوی کا مطلب ہے کہ جس سے کچھ نتیجہ ظاہرہورہاہو۔ اختلافِ لفظی صرف الفاظ کافرق ہوتاہے ۔
امام اشعری کامسلک
امام ابوالحسن ا شعریؒ نے کہا:’’ ہمارے ہاں ارادہ بالکل برابر ہے رضا اور حب کے ۔‘‘یعنی جواللہ کی مراد ہے وہ اُس کی مرضی بھی ہے۔اللہ نے اسے چاہاہے اور وہ اللہ کی محبوب بھی ہے ۔ان سے کہاگیاکہ پھرکفراور معاصی؟انہوں نے جواب دیا: ہاں !کفر اور معاصی بھی ۔البتہ ان کی عبارت اس اندازپرنہیں ہے ۔یعنی پیش اس طرح کی جاتی ہے کہ امام ابوالحسن الاشعریؒ کہہ رہے ہیں کہ جوبھی مراد ہے وہ اللہ کی محبوب ہے ۔ پھر کچھ اباحیت پسند صوفیوں نے اس سے استدلال باطل کیا اور حلال وحرام میں تمیز نہیں کی۔جب ہرشے اللہ کی مراد ہے تواللہ اس کو چاہتاہے ‘وہ اللہ کی پسندیدہ ہے ۔جب ہم کوئی حرام کام کررہے ہیںیا شراب پی رہے ہیں تویہ بھی اللہ کی مراد ہوئی!اللہ کی مراد ہوئی تواس کی محبوب بھی ہوگئی ۔گویاہمارا شراب پینااللہ کے ہاں پسندیدہ عمل ہے ۔لہٰذا شریعت کاکوئی وجود ہی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ جوشریعت کی وجہ سے نہیں پی رہا تواُس کا نہ پینا بھی اللہ کے ہاں محبوب ہے ‘ اس لیے کہ اللہ کی مراد وہ ہے ۔ چونکہ ہم پرحقیقت کھل چکی ہے توہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ مراداورمحبوب ایک شے ہے ‘یہ ابھی غفلت کے پردوں میں پڑے ہوئے ہیں‘اگر یہ پردے اٹھ جائیں توشریعت کا حجاب ان سے بھی رفع ہوجائے گااور ان کو معلوم ہوجائے گاکہ اصل شے اباحیت ہی ہے۔ جومرضی کرو ‘اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوئی پکڑ نہیں فرمائیں گے‘ بلکہ ہرمعصیت‘ہرکفر اللہ کامحبوب ہے ۔(معاذ اللہ!) جب کہ امام ابوالحسن الاشعریؒ کی عبارت یہ تھی: ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ یحب المعصیۃ ویحب الکفر معاقباً علیہما (یہ عبارت ’’مقالات الاسلامیہ‘‘ اور کچھ دوسری کتابوں میں بھی ہے )انہوںنے یہ نہیں کہاکہ اللہ کفرکوپسند کرتاہے بلکہ کہہ رہے ہیں اللہ کفر کو پسند کرتاہے اس پرسزا کے ساتھ۔جب آپ آگے صفت بیان کردیتے ہیں: معاقباعلیہ‘ تواب صفت قیدپیدا کرتی ہے‘یعنی مطلق کو مقید بناتی ہے۔ اصول فقہ میں ایک مطلق ہوگااوراس سے آپ نے مقید بناناہے توصفت لگا دیں۔ قرآن حکیم میں ایک جگہ آیا:{فَکُّ رَقَـبَۃٍ(۱۳)}(البلد) ’’کسی گردن کا چھڑا دینا۔‘‘اب رَقَـبَۃٍ (گردن) مطلق ہے کیونکہ یہ بغیرکسی قید کے ہے‘ مؤمنہ‘غیرمومنہ‘کافرہ۔ دوسری جگہ پرجب اللہ تعالیٰ نے قتل عمد اور قتل خطا کے احکام بیان فرمائے توواضح فرمادیا:{رَقَـبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ}(النساء:۹۲)’’ ایک مسلمان غلام کی گردن کا آزاد کرانا‘‘ ۔ یہ رقبۃ مومنۃ صفت موصوف ہے توصفت آگے قید لگادیتی ہے ۔اب حکم موصوف پرنہیں آرہاہوتا بلکہ موصوف بشرط صفت پرآتاہے ۔یعنی جب آپ نے کہہ دیاکہ رقبۃ مؤمنۃ تواب آزاد کرنے کاحکم محض رقبۃ پروارد نہیں ہورہاکہ گردن آزاد کروبلکہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ مومن ہو۔لہٰذا صفت قید اور شرط کاکام کرتی ہے۔
امام ابوالحسن الاشعریؒ کی عبارت میں کفر کامحض وجود نہیں ہے بلکہ اس قید کے ساتھ ہے کہ کفر کے نتیجے میں سزا ملے گی۔تم آدھی بات کیوں کہتے ہو کہ کفر اللہ کی مراد ہے ۔ اللہ کی مراد کفر اور اس پر جوسزا ملے گی دونوں ایک ساتھ ہیں ۔لہٰذااباحیت پسند وں کوکہاجائے گا کہ ٹھیک ہے جو چاہوکرلو ‘لیکن اس مراد کے ساتھ ایک قید ہے کہ تمہیں جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔یعنی جہنم میں جائو گے تووہ بھی اللہ کی مراد ہی ہوگی۔لہٰذا اس پر شور نہ مچاناکہ یہ کیاہواکہ ہم نے تواللہ کی مراد سمجھاتھا!یہ بھی اللہ کی مراد ہی ہے کہ تم یہ کام کرکے جہنم میں پہنچ جائوگے۔اس لحاظ سے دیکھاجائے توکل کائنات اللہ کی مراد ہے ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔کفر اور معصیت کسی شے کاسبب ہے ۔یہ سبب اور مسبب مل کراللہ کی مراد بن رہاہے ۔یعنی سبب(کفر) نے نتیجہ یہ پیدا کیا کہ یہ شخص مستحق جہنم ہوگیا۔ سبب اور مسبب مل کراللہ کی مراد بن رہے ہیں ‘لہٰذا ایک کو دوسرے سے کاٹ کرنہ دیکھو ۔ بہرحال یہ اس بات کاجواب تھاکہ معتزلہ نے کہاتھاکہ ہرشے اللہ کی مراد ہے ۔ہم نے توہرشے کو اللہ کی مراد مانا ہی نہیں تھا‘تم لوگوں نے ارادے کو عام کردیاتوگویاپھرکفر اللہ کی مراد ہوگیا‘اور جب کفر اللہ کی مراد ہوگیاتوکفر کو اللہ نے پسند کیا! گویاتمہارے مذہب کا ایک ایسانتیجہ سامنے آگیا جوقرآن کی صریح نصوص کے خلاف ہے ۔قرآن کی صریح نصوص یہ ہیں کہ اللہ کفر کو پسند نہیں کرتااور تمہارے مذہب کالازمہ یہ ہے کہ اللہ کفر کو پسند کرتاہے ۔لہٰذا تمہارا مذہب باطل ہوگیا‘کیونکہ جس شے کالازمہ باطل ہواس کاملزوم بھی باطل ہوگا۔امام ابوالحسن الاشعری ؒنے کہا کہ تم اس طرح فرق نہ کرو‘بالکل ہرشے اللہ کی مراد ہے‘ لیکن اس شے کے نتیجے میں جوہونے لگاہے اس کو جوڑ کراللہ کی مراد بنائو۔اس طریقے پر اللہ نے یقیناً کفر کاوجود رکھاہے کچھ حکمتوں کی وجہ سے مگر اس سے خارج میں جونتائج پیدا ہوں گے وہ سب اللہ کی مراد بنیں گے۔ لہٰذا محض یہ کہناکہ کفر اللہ کی مراد ہے ‘لہٰذا کفر اللہ کا محبو ب ہے تویہ قول اہل سُنّت کے کسی مذہب میں درست نہیں ہے ۔ جن لوگوںنے اشاعرہ وغیرہ پررد کیا وہ یہ کہتے ہیںکہ ان کے ہاں مانیں نہ مانیں اباحیت لازم آجاتی ہے ۔لہٰذاان کے ہاں صوفیاء کے ایسے گروہ بھی پیدا ہوگئے ۔امام ابوالحسن الاشعری ؒ کاقول انہوں نے غلط نقل کیاہے ۔یعنی انہوں نے اس طرح کہاضرور ہے مگرکچھ قیود کے ساتھ۔اگر ان قیودکو ساتھ بیان کیاجائے تووہ مذہب یوں نہیں رہتا جس طرح بیان کیاجارہاہے ۔
امام ماتریدی کامسلک
امام ابومنصورالماتریدیؒ نے کہا کہ ہرشے اللہ کی مراد ہے لیکن مراد ہونے سے محبوب ہونالازم نہیں آرہا۔ امام ابوالحسن الاشعریؒ نے کہاہے کہ محبوب ہونالازم آرہاہے ‘یعنی انہوں نے معتزلہ کے اس مقدمہ کومان لیاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مرادبرابر ہے محبوب کے۔ لیکن یہاں مرادکُل کی کُل لو۔ مراد کے دواجزاء میں سے ایک جزو کولے کر ثابت نہ کرو۔امام ابومنصور الماتریدی نے اس مقدمہ کو نہیں مانا۔ انہوںنے کہا کہ میں اس مقدمہ کو نہیں مانتا کہ مراد اور محبوب برابر ہیں۔ہرشے اللہ کی مراد ہے ‘تویہ اہل سُنّت کا بنیادی اصول ہے ۔وہ اہل سُنّت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امام ابوجعفر الطحاویؒ کاعقیدہ طحاویہ ہے ‘جو احناف کے طرزِفکریاماتریدی طرزِفکر پر ایک بنیادی متن بھی شما ر ہوتاہے۔ ان کی عبارت بھی واضح ہے کہ ’’ولا یکون الا ما یرید‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ مرا دسب اللہ کی ہے۔جواللہ چاہتاہے وہ ہوتاہے ‘جواللہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ احادیث سے بھی یہ ثابت ہے۔یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ شر کا بھی خالق ہے‘اس سے تو انکار نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذاہم تمہارے (معتزلہ) مذہب پر کھڑے نہیں ہوسکتے کہ ہم کہیں انسان اپنے اعمال کاخالق ہے اور اس کی مراد اللہ کی مراد نہیں ہوتی۔یہ بھی نصوص سے ثابت ہےکہ اللہ کفر کوپسند نہیں کرتااور معصیت کو پسند نہیں کرتا‘وغیرہ وغیرہ ۔ انہوںنے کہا :الارادۃ لا تستلزم الرضا والمحبۃ ۔یعنی ارادہ رضا کو لازم نہیں ہے اور مراد ضروری نہیں کہ محبوب بھی ہو۔یہ جو لزوم ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ انہوں نے اس کی جوتشریح کی ہےوہ مذہب اشاعرہ کے قریب قریب ہے۔ جیسا کہ ابھی بتایاگیاکہ وہ ایک پورا پیکج ہے ۔لیکن انہوں نے کہا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایسی شے کو بھی پیدا فرماتے ہیں جواُس کی محبوب نہیں ہوتی‘مراد ہوتی ہے ۔پھرپیداکیوں فرماتے ہیں ایسی شے کو جومراد ہے محبوب نہیں ؟اس لیے کہ اس سے کچھ ایسی چیزیں لازم آتی ہیں کہ جو اللہ کی محبوب ہوتی ہیں ۔اس پر اعتراض یہ تھا کہ کیاوہ چیزیں جولازم آرہی ہیں انہیں اللہ اس کے بغیر پیدا نہیں فرما سکتا! یعنی یہ چیز پیدا نہ فرماتا اوروہ محبوبات براہِ راست پیداہوجاتیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ چیزوں کوسمجھ نہیں رہے ۔
امام غزالی ؒکاجواب بھی یہی ہے ۔اگرچہ وہ اشاعرہ میں سے ہیں لیکن انہوں نے احیاء میں اور دوسری جگہوں پراسی طرح سمجھایاہے ۔انہوں نے کہا کہ شرط او ر مشروط کا تعلق توڑدینامستحیل ہوتاہے ۔یعنی ایک شے شرط ہو‘ایک مشرو ط ہو جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوگا‘تومشروط شے اور شروط کی مشروط نہ ہومحض ایک شرط کی مشروط ہوتویہ سوال باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشروط کو بغیرشرط کے پیدا فرمادیتاکیونکہ شرط اور مشروط ایک شے ہوتی ہے۔لہٰذا یہ کہناکہ ابلیس کے وجود کے بغیر تمام حکمتیں جوابلیس کے وجود میں تھیں‘ پیدا ہوجاتیں مہمل بات ہے ۔ یہ سوال درست نہیں ہے‘کیونکہ ابلیس کے وجود سے جوحکمتیں تھیں ان میں ابلیس کاوجود شرط تھا۔تم اگر کہہ رہے ہوکہ ابلیس کا وجود نہ ہوتوگویایہ کہہ رہے ہو کہ شرط نہ ہو‘ مشروط ہو۔شرط کو کاٹ کرمشروط پیدا کرناabsurdہے۔ لہٰذا اگرآپ کہتے ہیں وہ حکمتیں پیدا ہوجاتیں توپھر وہ حکمتیں ایسی نہ ہوتیں جووجود ِابلیس کے ہوتے ہوئے ہوتیں۔انہوں نے جواب یہ دیا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ شرط اور مشروط پیدا فرماتے ہیں‘یاسبب اور مسبب کہہ لیں ۔سبب ہوسکتاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مراد ہو مگرمحبوب نہ ہو‘لیکن اس کے نتیجے میں جومسبب پیدا ہوتاہے وہ اللہ کامحبوب ہوتاہے ۔وہ اللہ کو پسند ہوتاہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے پیدا فرماناچاہ رہے ہوتے ہیں ۔
اس طریقے پر دیکھیں توقریب وہی سبب او رمسبب والا مسئلہ ہوگیاجوامام الاشعری ؒنے بیان کیاتھا۔البتہ اس میں فرق یہ ہورہاہے کہ انہوں نے معتزلہ کے بنیادی قضیہ کو بھی نہیں مانا۔ انہوں نے کہاکہ ارادہ سے رضالازم نہیں آتی اورپھر اس طریقے پر بیان کردیاکہ شرط کے بغیرمشروط کا وجود نہیں ہوتا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہت سی ایسی چیزیں پید افرماتے ہیں کہ جو محبوب نہیں ہوتیں‘ مراد ہوتی ہیں‘ اس لیے کہ ان کے بغیر ان محبوبات کا وجود ممکن نہیں ہوتا۔اس طریقے پر ہرقسم کے شر کو اور ہرقسم کی قبیح شے کو جومعتزلہ کے خیال میں قبیح ہے‘ اس کو explain کیاجاتاہے۔ یہ ماتریدی مسلک ہے اور دونوں اہل سُنّت ہیں۔ اہل سُنّت کے اندر کچھ فروعی معاملات میں اختلاف ہوجاتاہے ۔عقیدہ کے فروع میں‘اس کے اصول میں نہیں ۔ لیکن اس اختلاف کی وجہ سے کوئی گروہ اہل سُنّت سے خارج نہیں ہوتا۔اہل سُنّت سے خارج تب ہوتااگریہ اصول ٹوٹتا کہ اللہ کے ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
ارادہ غیر امر ہے
تیسری بات یہ ہے کہ ارادہ غیرامر ہے۔امرحکم ہے اور حکم ہے طلب الفعل۔ نہی بھی اسی طرح ہے ۔ دونوں میں طلب ہوتی ہے ۔نہی میں طلب ترک الفعل اورامر میں طلب الفعل ۔ ارادے اورامر میں فرق یہ ہے کہ اگر امرارادہ ہوتاتوجس شے کاامردیاجاتا اس کاوجود ضروری ہوجاتا ‘کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ ارادہ کرے اور مراد وجود میں نہ آئے ۔یہ ممکن نہیں کہ اللہ نے امرکیا تمام انسانوں کو کہ عبادت کرو اورعبادت کاصدور تمام انسانوں سے نہیں ہوا۔اللہ نے صلوٰۃ کا امر سب مسلمانوں کو دیا ہے لیکن صلوٰۃ کاوجود تمام مسلمانوں سے نہیں ہورہا۔اگر امراور ارادہ ایک شے ہوتی توجس طرح مراد ارادے سے متخلف نہیں ہوسکتی اسی طریقے سے امرسے مامور متخلف نہ ہوتا۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ امر کے نتیجے میں مامور کاپیداہونا ضروری نہیں ہوتالیکن ارادے کے نتیجے میں مراد کا پیدا ہوجاناضروری ہے ۔چنانچہ یہ بات طے ہو گئی کہ ارادہ اورامر ایک شے نہیں ہے ۔امرطلب فعل ہے اور ارادہ وجودِ فعل کاہے ۔اللہ نے وجودِ فعل کاارادہ کیایانہیں ‘یہ اور مسئلہ ہے‘ لیکن طلب کیاہے ۔آپ کہیں گے کہ طلب کیاہے توپھرا رادہ کیوں نہیں کیا؟یہ اصلاً{لَایُسْئَلُ عَمَّایَفْعَلُ}(الانبیاء:۲۳)۔یعنی’’ نہیں پوچھا جاتااس سے جو وہ کرتا ہے ‘‘کا مسئلہ ہے ۔
ارادہ اور امرکے تعلق کی چار صورتیں
علماء نے اس میں چار طرح کی تقسیم بیان کی ہے۔ ایک تقسیم یہ ہے کہ اللہ ارادہ کرتاہے اور امربھی ۔اس کی مثال ایمان المومنین ہے‘ یعنی اہل ایمان کاایمان ۔اللہ نے اس کاامربھی دیا کہ ایمان لائواور اللہ کاارادہ بھی یہی ہواکہ ایمان لائو۔یہاں ارادہ اور امر ایک معنی میں ایک جیسے ہوگئے کہ ارادہ بھی ہے اور امر کاوجود بھی‘ اگرچہ ارادہ اور امرحقیقتاً ایک نہیں ہوئے۔بس یہاں امراس شے کاہے جس کاارادہ کیااور ارادہ کیااس شے کا جس کاامر دیا۔
دوسری تقسیم یہ ہے کہ نہ ارادہ کیانہ حکم دیا‘اس کی مثال مومنین کا کفر ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان والوں کے بارے میں نہ کفر کا ارادہ کیا ہے اور نہ ان کوحکم دیاکہ کفر کریں۔وہاں ارادہ اور امر جمع تھے‘یہاں نہ ارادہ ہے نہ امرہے۔
تیسری تقسیم یہ ہے کہ ارادہ کیالیکن امرنہیں دیا۔اس کی مثال ہے کفرالکافرین۔اللہ نے حکم تونہیں دیا کفر کرنے کا‘لیکن ارادہ اس کایہی ہواکہ یہ لوگ کافر ہوںگے اپنے اختیار سے۔
چوتھی تقسیم یہ ہے کہ ا للہ نے ارادہ نہیں کیالیکن حکم دیا۔اس کی مثال ہے ایمان الکافرین۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ آمِنُوا ‘ایمان لائو!لیکن ان کے بارے میں ایمان کاارادہ نہیں کیا ۔اگر کرتا تو ایمان یقیناًپایا جاتا۔
یہ چار اقسام کی تقسیم ہے ارادے اور امر کے درمیان تعلق کی ۔کبھی ارادہ اور امردونوں ہوتے ہیں ۔کبھی نہ ارادہ ہوتاہے نہ امر ہوتاہے۔ کبھی ارادہ ہوتاہے اورامر نہیں ہوتااورکبھی ارادہ نہیں ہوتااورامر ہوتاہے۔آپ کہیں گے کہ ایساکیوں ہورہاہے !انسان کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ہوسکتاہے یہاں انسان کہے کہ پھر responsibility اور accountabilityکا کیا مطلب ہے ؟اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ دکھاسکیں کہ خدا کے اندر کن صفات کا اثبات ضروری ہے ۔یعنی اگر وہ صفات خدا کے اندر نہیں ہوں گی تواس پر خدا کی تعریف جواللہ نے بیا ن کی ہے اس کا انطباق نہیں ہو سکے گا۔مزید یہ کہ جب ہمیں مکلف بنایاہے توہمیں ارادہ اوراختیاریقیناًدیاہے۔اس ساری بحث کامطلب یہ ہے کہ اللہ کاارادہ ذاتی ہے ‘ہمارا عرضی ہے ۔لہٰذا ان دونوں ارادوں کا تقابل اس طریقے پر سامنے رکھ کرنہیں کرناچاہیے ۔آپ کہیں کہ ہمیں ارادہ دیاہے لیکن ہمارا ارادہ چاروں طرف سے اللہ کے ارادے سے محیط ہے ۔یعنی یہ نہیں ہے کہ ہمارا ار ادہ کوئی آزادا وراللہ کے ارادے کے متوازی (parallel)قسم کاارادہ ہے ۔جس طرح ہمارا وجود آزاد نہیں ہے ‘اسی طرح ہمارا ارادہ بھی آزاد نہیں ہے۔ ہماری قدرت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جوشخص جہنم میں جائے گاوہ یقیناً اللہ کی حمد بیان کرتے ہوئے جائے گا۔ یعنی جب وہ جہنم میں جارہا ہوگا تواللہ کی حمد بیان کرے گااور اللہ کے عدل کی تعریف کرے گا کہ ایسا ہی ہوناچاہیے تھا۔اگرچہ میں جہنم میں جارہا ہوں لیکن میرا جہنم میں جانا ہی بنتاتھا۔ایسا نہیں ہوگاکہ وہاں اس کوظلم محسوس ہوکہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا اور مجھے جہنم میں کیوں بھیج دیاگیا۔بُرے لوگ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے بھی حمد کررہے ہیں اور نیک افراد جنّت میں داخل ہوتے ہوئے بھی حمد کررہے ہیں۔بالآخراس پورے سین کااختتام ہورہاہے اللہ کی حمدپر۔جیسے فرمایا:
{وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ ج وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۷۵)} (الزمر)
’’اور تم دیکھو گےفرشتوں کو کہ وہ عرشِ الٰہی کو گھیرے ہوئے ہوں گے ‘اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے اُس کی حمدکے ساتھ ۔اور ان کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ کُل کی کُل حمد اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے!‘‘
یہ جنّت والوں کے جنّت اوردوزخ والوں کے دوزخ میں جانے کے بعد کاایک منظر ہے‘ کیونکہ پیچھے آچکاہے کہ:
{وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًاط} (آیت۷۱)
’’اور جن لوگوں نے کفر اپنایا تھا انہیں جہنم میں گروہوں کی شکل میں ہانکا جائے گا۔‘‘
{وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًاط} (آیت۷۳)
’’اور جنہوں نے اپنے پروردگار سے تقویٰ کا معاملہ رکھا تھا انہیں جنّت کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا۔‘‘
گویاہرشے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی جگہ پررکھی ہے ۔چونکہ جیسے پہلے بتایاگیاتھاکہ ہماراعلم ہمیشہ ناقص رہے گااور ہم خد اکے علم تک نہیں پہنچ سکیں گے توبہت سی چیزیں سمجھ نہیں آئیں گی ۔البتہ یہ ضرور سمجھ آئے گاکہ ایسا ہونا چاہیے تھا۔ایسا ہی ہوناچاہیے کہ خدا کامل الارادہ ہواور ہمارے پاس ارادہ ناقص ہو۔ہوناایسے ہی چاہیے اور یہی برحق ہے۔ یہاں ہم نے یہ چار چیزیں ابھی تک دیکھ لیں کہ ارادہ غیرالامربھی ہے ‘غیرعلم بھی ہے اور غیررضا بھی ہے۔ یعنی اللہ کی رضا‘اللہ کا علم اور اللہ کاامر ان سب سے ارادہ ایک مستقل صفت ہے ۔اس صفت کی تعریف ہم نے یہ کی تھی کہ جس کے ذریعے ممکنات میں تخصص ہوتاہے ۔ممکن پرجوجوچیزیں جائز ہوسکتی ہیںان میں سے کسی ایک شے کو خاص کردینا ارادے کافعل ہے ۔
مسئلہ تحسین و تقبیح عقلی
ابراہیم بن سیار النظام جومشہور معتزلی ہیں‘انہوں نے کہا: ان اللہ سبحانہ وتعالٰی لا یرید ولا یقدر علی القبیح کہ اللہ نہ ارادہ کرتاہے قبیح شے کااور نہ اس کی قدرت رکھتاہے ۔ نعوذباللہ!یہاں انہوں نے کہاکہ اللہ قبیح نہیں کرتا‘براکام نہیں کرتا۔اس سے ساری اچھی اچھی باتیں سرزد ہوتی ہیں‘کوئی برائی سرزد نہیں ہوتی۔ اس کاجواب دینے کے لیے اہل سُنّت کے ہاں تحسین وتقبیح عقلی کامسئلہ ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کو تم نے کہاکہ وہ قبیح نہیں کرتا تو گویا تمہارے ہاں قبیح کا تصوّر پہلے سے پایاجاتاہے ۔ اس کامطلب یہ نکلتا ہے کہ گویااللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی اخلاقی نظام کوفالوکرتا ہے ۔ یہ بھی اب ارادے پر جبر کی بات ہورہی ہے ۔گویا اللہ کے ارادے کے لیے بھی معیار ہیں کہ خیرکاارادہ کیاکرو‘شر کاارادہ نہ کرو!جب ہم کسی اخلاقی نظام کویاکچھ اخلاقی قوانین کوفالو کرتے ہیں تووہ ہمارے ارادے پرایک نوع کی قدغن ہوتی ہے ۔یہ کرناہے کیونکہ یہ اچھا ہے اور یہ نہیں کرناکیونکہ یہ براہے ۔ کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی اسی طریقے کے کسی معیار کو فالوکررہے ہوتے ہیں؟معتزلہ نے کہاکہ ہاں بالکل کررہے ہوتے ہیں۔گویا اللہ سے ماوراحسن وقبح موجود ہے ۔یہ مطلب ہے حسن وقبح ذاتی کا۔ ذاتی کامطلب ہے: لا یعلل۔
اب لایعلل کامطلب یہ سمجھ آرہاہے کہ یہ چیزاچھی ہے اور اس کااچھاہوناخدا کے حکم یاتخلیق پرموقوف نہیں ہے کہ آپ اس کی علت بیان کریںکہ صدق اچھاکیوں ہے!میں آپ سے پوچھوں گاکہ صدق اچھاکیوں ہے؟ اگرآپ معتزلہ کے موقف پرکھڑے ہوں گے توکہیں گے :الذاتی لا یُعَلَّلُ ۔صدق اچھا ہوتاہے ۔اس کی ذاتی صفت یہ ہے کہ وہ اچھاہے ۔لہٰذ ا یہ سوال ہی باطل ہے ۔ایک عام مسلمان سے اگر آپ پوچھیں گے تووہ ان شاء اللہ اس مسلک پہ کھڑا نہیں ہوگا۔وہ کہے گاصدق اچھا اس لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہاہے ۔بس یہی موقف ہے اصلاً۔ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ صدق صفت کمال نہیں ہے یاوہ انسانی نفس کے موافق نہیں ۔یہاں یہ بات نہیں ہورہی۔ پھرلوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اخلاقیات کاانکار کرنے بیٹھ گئے ہیں ۔ جومسئلہ پیش آرہاہے وہ یہ ہے کہ جب آپ حسن وقبح کو اخلاق میں یااعمال میں یااشیاء میں صفت ِذاتی مان رہے ہوتے ہیں تواس کے دومطلب ہوتے ہیں۔ ایک اس کامنطقی مطلب ہوتاہے کہ اس کی ماہیت میں داخل ہے ۔ آپ اس کی علت بیان نہیں کریں گے‘ کیونکہ یہ ہے ہی ایسا۔ دوسراہے: لاینفک۔کبھی بھی ذاتیات اس سے الگ نہیں ہوسکتیں‘کیونکہ اگر وہ الگ ہوجائیں گی تووہ شے رہے گی ہی نہیں ۔مثلاً اگر آپ کہیں کہ چینی ہے مگرمیٹھی نہیں ہے تو اصل میں آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ چینی ہی نہیں ہے ‘کیونکہ جب اس کی ذاتی شے حلاوت رخصت ہوگئی ہے تواس پر چینی کے لفظ کااطلاق کیوں کررہے ہو۔لہٰذا اگر تم کہوگے کہ صدق ہے لیکن اچھا نہیں ہے تولوگ کہیں گے کہ پھر یہ صدق نہیں رہا بلکہ کچھ اور ہوگیا‘ کیونکہ صدق توہوتا ہی اچھا ہے۔الذاتی لا یُعَلَّل اور الذاتی لا یُنْفَکُّ۔
معتزلہ کے ہاں لایعلل کامطلب ہے کہ بِجِعْلِ جَاعِل نہیں ہے ‘ یعنی کسی بنانے والے کے بنانے سے نہیں ہے ۔ذاتی کامطلب ہے کہ خدا سے آزاد ہے ۔گویا یہ جوخارج میں ایک معیار پایا جاتاہے اس کواللہ سبحانہ وتعالیٰ فالو کرتاہے ۔اہل سُنّت نے کہا کہ یہ بھی ارادے پرجبر ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سے بھی ماورا ہے۔اس کے ارادے پرکسی اخلاقی نظام کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اخلاقی نظام اس کے ارادے سے پید اہوتے ہیں۔یہ بنیادی طورپر اس مسئلے کاخلاصہ ہے ۔
بہرحال اس وقت ہمارا موضوع یہ تھاکہ معتزلہ نے کہا کہ اللہ قبیح کاارادہ نہیں کرتاکیونکہ اللہ تو اچھا ہے اور جو اچھا ہووہ قبیح کاارادہ نہیںکرتا۔ہم نے معتزلہ سے کہاکہ تمہارے نزدیک قبیح کیاشے ہے !کیا خدا کے کہے بغیر کوئی شے قبیح ہوجاتی ہے؟انہوں نے کہاکہ ہوجاتی ہے اور عقل کے ذریعے انسان کچھ چیزوں کے ذاتی خواص تک پہنچ سکتاہے جو معلل او ر منفک نہیں ہوتے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کوظاہر کرتے ہیں ‘ان کو وجود نہیں دیتے ۔بتاتے ہیں کہ یہ شے اچھی ہے اس لیے کہ وہ اچھی ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کاحکم (حکم شرعی)اس شے کے ذاتی حسن وقبح کے تابع ہوتاہے ۔اللہ نے اس کا حکم اس لیے دیاکیونکہ وہ اچھا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ اللہ نے حکم دیااس لیے وہ اچھاہے ۔ اہل سُنّت نے اس کاانکار کیااور کہاکہ ایساکچھ نہیں ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرکوئی حاکم نہیں ہے ۔لہٰذا اس مسئلے میں وہ تعبیر بیان کرتے ہیں کہ لَا حَاکِمَ اِلَّا اللہ ] یہاں لَا حَاکِمَ اِلَّا اللہ سیدقطب علیہ الرحمہ کی بیان کردہ تعبیر کی مانند نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بھی اپنے معنی میں درست ہے۔[ یعنی لَاحَاکِمَ اِلَّا اللہ کی تعبیر جب یہاں آرہی ہوتی ہے تووہ اثبات کے بیان کے لیے ہوتی ہے کہ اللہ ہی حکم دیتاہے تووہ شے اچھی ہوجاتی ہے ۔اللہ ہی حکم شرعی کابیان کرتاہے۔اللہ ہی چیزوں میں حسن و قبح رکھتاہے۔حسن وقبح کاانکار نہیں ہے ‘لیکن ان کے اس ذاتی معنی کا انکار ہے کہ وہ جِعل جاعِل کے بغیر پیدا ہوگئے۔ اسے حسن وقبح ذاتی کا مسئلہ کہتے ہیں اوراس کے نتیجے میں کچھ اختلافات اہل سُنّت اور معتزلہ میں ہوئے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024