(کتاب نما) تعارف و تبصرہ - ادارہ

11 /

تعارف و تبصرہ

نام کتاب: مولانا ظہور احمدبگویؒ :حیات وخدمات
مصنف: ڈاکٹر انوار احمد بگوی
ناشر: مکتبہ حزب الانصار ‘بھیرہ

بھیرہ سے ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘کم و بیش نو دہائیوں سے نکل رہا ہے ۔ اس کے تین شمارے مولانا ظہور احمد بگویؒ کے بارے شائع ہوئے تھے۔ اس تمام شائع شدہ مواد میں کچھ اضافہ کر کے کتابی شکل دی گئی ہے اور حال ہی میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مولانا ظہور احمد کی حیات مبارکہ کو مفصل بیان کیا گیا ہے‘ اور یہ کام صاحبزادہ انوار احمد بگوی صاحب نے اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب کی یہ کوئی پہلی تصنیف نہیں ہے۔ اس سے پہلے ان کا بہت سا تحریری کام موجود ہے‘ جن میں ’’تذکارِ بگویہ‘‘ خاص طو رپر قابل ذکر ہے ۔تذکار ِبگویہ پانچ جلدوں پر مشتمل ایک نوع کا انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں احیاء ِدین اور استحکامِ پاکستان کے لیے خاندانِ بگویہ کی خدمات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی کتاب میں ایک مضمون ’’تحریک پاکستان گولڈ میڈل کی کہانی‘‘سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب کی کنیت ابو المنصور ہے۔ مولانا ظہور احمد بگوی کی کنیت ابو الخیر تھی۔ ڈاکٹر انوار احمد بگوی بگویہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور اس وقت منصورہ ہسپتال میں چیف ایگزیکٹو کے طور پر اپنی بہترین خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کے پہلے مضمون :وہ سحر جس کا انتظار تھا۔۔۔۔ وہ سحر جس کا انتظار ہے؟ میں جناب ابرار احمد بگوی اور جناب ڈاکٹر انوار احمد بگوی لکھتے ہیں: ’’یہ امر حد درجہ حیرت ناک اور افسوس ناک ہے کہ پاکستان کی تمام مذہبی‘ نیم مذہبی‘ سیاسی کسی جماعت یا لیڈر نے قوم کے سامنے کبھی یہ مطالبہ نہیں رکھا کہ وطن عزیز پاکستان کو خلافت راشدہ کے طرز حکومت پر چلایا جائے۔ اس جملے پر اعتراضات ہو سکتے ہیں۔ کئی حلقے کہیں گے کہ ہمارا مشن ہی نظام خلافت راشدہ ہے۔ یعنی یکسر نفی کر دینا اور افسوس کا اظہار کر دینا مناسب نہیں۔ جو اس سلسلے میں کام ہوا ہے اس کا تذکرہ کرنا چاہیے ۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے قیام کی غرض وغایت ہی نظام خلافت راشدہ ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ وہ اس میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ اپنی دینی جدوجہد کا نام صرف نظام خلافت راشدہ رکھیں۔ کوئی اقامت دین کے پلیٹ فارم سے کا م کررہا ہے اور کوئی حکومت الٰہیہ کے نام سے۔ مقصد سب کا خلافت راشدہ کے نظام کی بحالی ہے۔ ‘‘
کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ظہور احمد بگوی مرحوم اچھا ویژن رکھنے والے عالم دین تھے‘ جن کی تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات ہیں۔ کتاب اچھی صورت میں چھپی ہے۔ مضبوط جلد اور دیدہ زیب ٹائٹل ہے۔ ٹائٹل پر مولانا ظہور احمد مرحوم کی تصویر بھی ہے ۔ کتاب میں اور بھی تصاویر ہیں۔ اس کتاب کی پرنٹنگ دلکش اورپروف ریڈنگ اچھی کی گئی ہے۔ مکتبہ حزب الانصار بھیرہ لائق تحسین ہے کہ اس نے پاکستان کے۷۵ ویں یوم آزادی کے موقع پر قوم کو ایک بہترین تحفہ پیش کیا ہے جس سے تاریخ تحریک پاکستان سے آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی تھا‘ لیکن ہنوز ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اقتصادی ابتری اور سیاسی انتشار نے قیام پاکستان کے مقاصد کو دھندلا کر دیا ہے۔ ان حالات میں اس طرح کی تصنیفات کا شائع ہونا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو اپنی تاریخ معلوم ہوسکے اور ان میں ایک جذبہ پیدا ہو کہ ہم ہی نے نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے دامن کو تھامے رکھنا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو حاصل کر کے اس کا مطالعہ کریں ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اس دور کے حالات و واقعات سے آگاہی ملے گی اور اپنے اسلاف سے ایک روحانی وقلبی تعلق قائم ہوگا۔
مولانا ظہور احمد بگویؒ کو۲۰۲۲ ءمیں ’’تحریک پاکستان ایوارڈ‘‘ ملا۔ انہوں نے۱۹۴۵ءمیں ’’بھیرہ قرار داد پاکستان‘‘ پاس کی تھی۔ مولانا کی پیدائش ۱۹۰۰ء میں ہوئی اور ۱۹۴۵ء میں وفات پائی۔مولانا جب آٹھ برس کے تھے تو ان کے والد وفات پاگئے۔مولانا کے والد مولانا عبدالعزیز بگوی تھے۔ مولانا ظہور احمد بگوی نے صرف پینتالیس سال عمر پائی لیکن ان کی اس تھوڑی عمر میں برکت تھی جیسا کہ ان کے کارناموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ تحریک خلافت اور ترک ِموالات تحریک میں وہ کام کرتے رہے۔ان دو تحریکوں کے علاوہ ختم نبوت اور دفاع صحابہؓ کے لیے بھی کام کیا۔ مرزائیوں کے خلاف خوب کام کیا۔سیاسی قیدی بھی ہوئے لیکن ان کے پایۂ استقلال میں کمزوری نہ آئی۔دینی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘کا اجراء انہوںنے ہی کیا تھاجو ابھی تک باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔’’شمس الاسلام‘‘سے قبل انہوں نے’’ضیائے حقیقت‘‘ جاری کیاتھا۔انہوں نے صحافت کو دین کے لیے استعمال کیا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک مجاہد ملت تھے۔ ضلع شاہ پور کے وہ پہلے سیاسی قیدی تھے۔انہوں نے ہندوؤں کی تنظیم شدھی اور سنگھٹن کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے تبلیغ اسلام کی۔ ظہور احمدبگوی مرحوم کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دینی ودُنیوی تعلیم سے آراستہ تھے۔مولانا ضلع سرگودھا مسلم لیگ کے نائب صدر رہے۔ انہیں حال ہی میں’’ طلائی تمغہ تحریک پاکستان‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے لیے ان کی خدمات ان تمغوں کی محتاج نہیں‘ ان کی کاوشوں کا کوئی انعام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ انعامات اور تمغے صرف اعزاز بخشنے کے لیے ہوتے ہیں‘ جبکہ ان کا کام ان نوازشات بالا تر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے مقالہ سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا کی اہلیہ بھی اپنے علاقہ میں تعلیم کے میدان میں خدمات سرانجام دیتی تھیں۔یہ جوڑا اگرچہ اولاد سے محروم رہا لیکن علم اور تلامذہ کی شکل میں انہوں نے تراث چھوڑی۔ فی الواقع ان میں دین کی بے پناہ حمیت پائی جاتی تھی۔
اس کتاب میں مختلف اہل علم ودانش کے مقالات ہیں ‘ جنہیں بگوی صاحب نے بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ ہر مقالہ کے آخر میں مقالہ نگار کا جامع تعارف ذرا باریک فائونٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ مقالات میں کوئی تکرار نہیں پائی جاتی‘ ہر مقالہ ندرت رکھتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا ظہور احمد بگویؒ کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے۔بلاشبہ جناب ڈاکٹر انوار احمد بگوی صحیح معنی میں ان کی جانشینی کا حق ادا کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب عمر کے اس حصہ میں بھی انسانی بھلائی اور دین اسلام کی تبلیغ کے لیے مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجر سے نوازے۔
راقم کو ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب (دادا) اور ان کے پوتے کے درمیان لاہور میں گھر سے مصعب سکول کار پر جاتے ہوئے مکالمے اور علمی گفتگو پر مبنی پوتے کا مکتوب بہت پسند آیا۔ کاش ہمارے تمام بزرگ ساتھی مختصر دورانیے پر کار پر آتے جاتے اپنے چھوٹوں کی تعلیم و تربیت کا اس طرح اہتمام کیا کریں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ مختصر مکتوب ذیل میں دیا جا رہا ہے :
’’میں اور میرے دادا ابو کے دادا جان
میرا نام احسن ظہور بگوی ہے اور میں مصعب سکول میں جوہر ٹائون لاہور میں چوتھی جماعت کا طالب علم ہوں۔ صبح کے وقت میں اپنےدادا ابو کے ساتھ ان کی گاڑی میں جاتا ہوں‘ مجھے اور مجتبیٰ بھائی کو اتار کر وہ منصورہ ہسپتال چلے جاتے ہیں۔ راستے میں میرے اور بھائی مجتبیٰ کے ساتھ مختلف باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایک روز میں نے پوچھا:’’ابو‘ دوسرے بھائیوں سے میرا نام اور طرح کیوں ہے ؟‘‘ ابو نے بتایا: ’’میرے نام میں احسن کا لفظ قرآن مجید کے ایک بہت بڑے عالم مولانا امین احسن اصلاحی ؒکے نام سے ہے اور ظہور میرے دادا جان کے چھوٹے بھائی مولانا ظہور احمد بگویؒ کے نام سے۔‘‘
یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرا نام میرے دادا ابا کے دادا جان کے نام پر ہے۔ اب یہ جان کر مجھے اور بہت خوشی ہوئی کہ بڑے دادا جان نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کے بنانے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ وہ تحریک پاکستان کے ایک بہت بڑے رہنما تھے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی دین کا علم سیکھوں اور پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنانے کے لیے بہت محنت کروں۔ اللہ میری مدد فرمائے۔‘‘
(تبصرہ نگار:ڈاکٹر ابصار احمد)(۲)

نام کتاب:تحفظ ِناموسِ رسالت (اعتراضات اور جوابات)
مصنف:محمد متین خالد
انتساب:جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری
ضخامت :312صفحات ‘ قیمت:600 روپے ناشر : علم و عرفان پبلشرز‘ اردو بازار ‘لاہور

تحفظ ِختم نبوت اور تحفظ ِناموسِ رسالت علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ کتاب ان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ مصنف نے محنت شاقہ کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے۔ تحفظ ِناموسِ ر سالت کے بارے مسلمانوں میں دو رائے ممکن نہیں ‘کیونکہ قرآن مجید میں واضح طو رپر بتایاگیا ہے کہ ’’نبی مکرمﷺ مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اورآپؐ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔‘‘ ( الاحزاب:۶) ۔اسی بات کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ’’ تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیںہو سکتا جب تک کہ مَیں اس کے نزدیک اُس کی اولاد ‘ اس کےو الد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔ اس یقین و ایمان کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان کو آپؐ کے ساتھ والہانہ محبّت ہو۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک مسلمان کی عقیدت اور اُلفت کی کوئی حد نہیں۔
آج اگرچہ بین الاقوامی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ہر کسی کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے لیکن لازم ہے کہ اس عمل سے کسی دوسرے کے ایمان و اعتقاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ مغرب میں اس امر کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا اور مسلمانوں کے خلاف اظہارِ رائے کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان میں قانون کی حد تک تو یہ تسلیم شدہ ہے مگر اس پر عمل کی نوبت نہیں آتی‘ کیونکہ یورپی اور امریکی حکومتیں ایسے مجرموں کو بچا لیتی ہیں۔
مصنف نے گہرے مطالعے کے نتیجے میں تحفظ ناموس رسالت کے قانون پر اٹھنے والے ۳۱ اعتراضات اس کتاب میں درج کر دیے ہیں اور پھر ہر اعتراض کا جواب مستند حوالوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے دیا ہے۔ اسلام دشمنی میں یہودی اور عیسائی ایک جھوٹے نبی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اگرچہ اُس نے اپنی تحریروں میں واضح طور پر حضرت دائود اورحضرت عیسیٰ علیہماالسلام کی حد درجہ توہین کی ہے ۔ برطانیہ میں ونسٹن چرچل اور دیگر قومی مشاہیر کے مجسموں کی حفاظت کے لیے تو قانون موجود ہے لیکن اربوں مسلمانوں کی محبوب ترین شخصیت کی توہین پر کوئی قدغن نہیں۔
تحفظ ناموس رسالت ؐ کے قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان مشتعل ہو کر رسول اللہﷺ کی توہین کرنے والے کے خلاف کارروائی کر گزرتے ہیں ۔ یہ ان کا اشتعال ہوتا ہے‘ کیونکہ اس گستاخ کو عدالت سے سزا نہیں ملتی۔اور اگر کوئی پاکستانی عیسائی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو کوئی مغربی طاقت اُسےچھڑا کر پروٹوکول کے ساتھ اپنے ملک لے جاتی ہے ۔ ان کا یہ رویہ توہین رسالت کا جرم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔عیسائی اور یہودی رسول اللہﷺ کی توہین میں جس قدر بھی آگے نکل جائیں انہیں مسلمانوں کی طرف سے ان کے انبیاء کی توہین کا کوئی ڈر نہیں‘ کیونکہ مسلمان تو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کے ساتھ دل و جان سے محبت کرنے والے ہیں۔
توہین رسالت کے قانون پر مؤثرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والے قادیانی بھی دیدہ دلیری پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور ان کو یہ جرأت ہوجاتی ہے کہ وہ جھوٹے نبی کوحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے برابر یا اس سے افضل مانتے رہیں۔
یہ کتاب ہر مسلمان کے پڑھنے کے لائق ہے تاکہ اسے فتنہ قادیانیت سے آگاہی ہو اور اگر اس کے دل میں قادیانیت کے حق میں نرم گوشہ ہو تو وہ اپنا ایمان بچانے کی خاطر اس سے توبہ کر لے۔ مصنف کا یہ کارنامہ دنیا میں کئی لوگوں کی ہدایت کا باعث بنے گا اور آخرت میں اس کی نجات کا سبب ‘ان شاء اللہ!