(پچاس سالہ رپورٹ) مرکزی انجمن کے قیام کا پس منظر اور اغراض ومقاصد - ڈاکٹر اسرار احمد

24 /

مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور کے
قیام کا پس منظر اور اغراض ومقاصد
(اقتباسات از دستورِ انجمن)

1972ء میں جب مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا اور اس کا دستور پہلی بار شائع ہوا تو اس کے آغاز میں’’پس منظر‘‘ کے عنوان سے انجمن کےصدر مؤسس ڈاکٹر اسرار احمد کی حسب ِذیل تحریر شائع ہوئی تھی:
’’راقم الحروف نے مارچ1967ء سے جون1967ء تک ایک سلسلہ وار مضمون ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کے ادارتی صفحات میں لکھا تھا جس میں تحریک پاکستان کے فکری اور جذباتی پس منظر کا جائزہ بھی لیا گیا تھا اورمتعین طور پر یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے بنیادی عوامل میں مذہبی اور دینی داعیہ کا حقیقی اور واقعی تناسب کس قدر تھا۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں ارباب اقتدار اوردین کی علمبردار جماعتوں کے مابین جو کشمکش جاری رہی اس کامیزانیہ نفع ونقصان کیا ہے۔ اس مسلسل مضمون کا اختتام اس تحریر پر ہوا جو بعد میں’’اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ کے نام سے کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی اور جس میں احیائے اسلام کے لیے صحیح اور مثبت لائحۂ عمل کی نشاندہی کی گئی اور اس کے ذیل میں ایک قرآن اکیڈمی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی۔
اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکرادا کیا جائے کم ہے کہ اس لائحۂ عمل کے پیش کرنے کے بعد بلاتاخیر اس پرعملی جدّوجُہد کے آغاز کی توفیق بھی بارگاہِ خداوندی سے حاصل ہو گئی۔ چنانچہ ایک طرف لاہور میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دوسری طرف دارالاشاعت الاسلامیہ کے تحت علوم قرآنی کی عمومی نشرواشاعت کی سعی کی گئی اور تیسری جانب سلسلہ ٔ اشاعت ِ قرآن اکیڈمی کے عنوان سے پے درپے کئی کتابچے اس مقصد سے شائع کیے گئے کہ اس کام کی اہمیت بھی لوگوں پر واضح ہو اور اس کا استدلالی پس منظر بھی نگاہوں کے سامنے رہے۔
راقم کو اس کام کا آغاز بالکل تن تنہا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے کہ کسی بھی کام میں ساتھی اور رفیق اس کام کے ایک حد تک چل نکلنے کے بعد ہی ملا کرتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پانچ سال سےبھی کم مدت کی حقیر سی مساعی کا یہ ثمرہ نگاہوں کے سامنے ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ؎
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
اور ؎
مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
راہرو ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا
اس کامیابی کا اصل سبب تو یقیناً فضل ِ خداوندی اورتوفیق ِ ایزدی کے سوا اورکچھ نہیں‘ لیکن اس فضل و توفیق کا ایک مظہر یہ ہے کہ راقم نے اس کام کو نہ تو کسی تفریحی مشغلے کے طور پر کیا اور نہ محض جزوقتی طور پر‘ بلکہ زندگی کا ایسا مقصد سمجھ کر کیا جس پر نہ پیشہ ورانہ مصروفیت مقدم رہی نہ صحت جسمانی‘ بلکہ ایک ایک کر کے ہر چیز دائو پر لگ گئی۔ گویا؎
خیریت جاں‘ راحت تن‘ صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی
بہرحال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس (تعالیٰ) نےا یک بندئہ نا چیز اور عبد ِ ضعیف کی حقیر سی مساعی کو اس درجہ مشکور فرمایا کہ ایک طرف درس و تدریس اور تعلیم و تعلّم ِقرآن کا سلسلہ لاہور اوربیرون لاہور روز افزوں ہے اورکچھ باہمت نوجوان اپنے اوقات کی متاعِ عزیز اور صلاحیتوں اور قوتوں کا اثاثہ لے کر یعنی ’’بِاَنْفُسِھِمْ‘‘ نصرت کے لیے حاضر ہو گئے ہیں۔ اوردوسری طرف کچھ حضرات روپے پیسے سے یعنی ’’بِاَمْوَالِھِم‘‘ شرکت کے خواہاں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے راقم کے پیش نظر کاموں میں باضابطہ تعاون کے لیے کمر ہمت کس لی ہے اور’’قرآن کے علم وحکمت کی وسیع پیمانے پر تشہیر و اشاعت‘‘ اور ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے مجوزہ خاکے کو عملی شکل دینے کے لیے ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ ادارے کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی مساعی جمیلہ کو شرف قبول عطا کرے اور ہم سب کو اپنے دین کی بالعموم اوراپنی کتاب عزیز کی بالخصوص خدمت کی بیش از بیش توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جہاں تک راقم کا تعلق ہے تو محض تَحدیثًا لِلنِّعمۃ عرض ہے کہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے اس شعر کے مصداق کہ ؎
ہر تمنّا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہوگئی
راقم کا حال اب واقعتاً یہ ہے کہ زندگی میںکوئی تمنا سوائے’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ‘‘ اور ’’غلبۂ دین حق کے دورِ ثانی‘‘ اور اس کے لیے لازمی طریق کے طورپر افشائے کلامِ ربانی اورتشہیر علم وحکمت قرآنی کے باقی نہیں رہی۔
راقم نے اپنے بچپن میں نہایت ذوق و شوق سے حفیظ کا شاہنامہ پڑھا تھا۔ حفیظ جالندھری بعد میں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کن کن وادیوں میں سرگرداں رہے‘ بہرحال شاہنامےکی تصنیف انہوں نے جس جذبے کے تحت کی تھی وہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہے؎
کیا فردوسیٔ مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو مَیں کروں ایمان کو زندہ
حقیقت یہ ہے کہ خود راقم کا واقعی حال اب یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی تمنایا خواہش دل میں باقی نہیں رہی کہ احیائے اسلام کے عظیم مقصد کے لیے کم ازکم اتنا تو ہو کہ ع
خدا توفیق دے تو مَیں کروں قرآن کو زندہ!راقم کے لیے یہ یقینا ً بہت چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے لیکن اللہ کی قدرت سے تو بہرحال کوئی چیز بھی بعید نہیں۔ کیا عجب کہ وہ راقم کو اس خدمت کے لیے قبول ہی فرما لے۔ ع
شاہاں چہ عجب گر بنوا زند گدا را!رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۔
آمِیْن یا ربَّ العالمین!!

خاکسار: اسرار احمد عفی عنہ‘ صدر مؤسس مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘

قرار دادِ تاسیس و اغراض ومقاصد

(MEMORANDUM)

نَحْمَدُہٗ وَ نُصلِّی عَلٰی رَسُولِہٖ الْکَرِیْم
چونکہ ہمیں اس امر کا شدید احساس ہے کہ
اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ اور غلبہ ٔ دین حق کے دورِ ثانی
------- کا خواب -------
اُمّت ِمسلمہ میں ’’تجدید ِایمان‘‘ کی عمومی تحریک
کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا اور
اس کے لیے لازم ہے کہ اوّلاً
منبع ایمان و یقین یعنی قرآن حکیم کے علم وحکمت
کی وسیع پیمانے پر تشہیر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے
------- اور چونکہ -------
اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے خیالات سے کامل اتفاق ہے
------- اور -------
ہم اس کام کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں جو وہ گزشتہ ساڑھے چار سال سے کر رہے ہیں
لِھٰـــــذا
ہم چند خادمانِ کتابِ مبین
مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور
کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں
جو ڈاکٹر صاحب موصوف کی رہنمائی میں مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے
کوشاں رہے گی:
1 عربی زبان کی تعلیم وترویج
2 قرآن مجید کے مطالعے کی عام ترغیب و تشویق
3 علومِ قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت
4 ایسے نوجوانوں کی مناسب تعلیم وتربیت جو تعلیم وتعلّم ِقرآن کو مقصود زندگی بنا لیں
5 ایک ایسی ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا قیام جو قرآنِ حکیم کے فلسفہ وحکمت کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر
پیش کر سکے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ان مقاصد کے لیے بیش از بیش کوشش اور ایثار کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین!)

اس قرار داد پر اولاً چودہ حضرات نے دستخط ثبت فرمائے‘ بعد میں چھ مزید حضرات نے شمولیت اختیار کی اور اس طرح بیس مؤسسین کی شرکت سے اس کام کا آغاز ہوا۔ ان بیس حضرات کے اسماء گرامی حسب ِذیل ہیں:
نمبر شمار نام (بہ ترتیب حروف تہجی)
1۔ اقتدار احمد(مرحوم و مغفور) 2۔ بیگم الٰہ بخش سیال
3۔ ڈاکٹر ایس آئی سرور 4۔ جناب خادم حسین
5۔ ظہیر احمد خان 6۔ ڈاکٹر ظہیر احمد
7۔ ڈاکٹر عبد اللطیف خان(مرحوم و مغفور) 8۔ بیگم ڈاکٹر عبد اللطیف خان
9۔ ڈاکٹر عبد المجید 10۔ جناب فیض رسول
11۔ قمر سعید قریشی 12۔ میاں محمد رشید
13۔ جناب محمد عقیل 14۔ شیخ محمد یٰسین (مرحوم ومغفور)
15۔ ڈاکٹر محمد یقین 16۔ مقصود احمد اختر
17۔ میاں منظور الحق(مرحوم و مغفور) 18۔ نصیر احمد ورک(مرحوم ومغفور)
19۔ ڈاکٹر نور الٰہی 20۔ وقار احمد قریشی
درج بالا20 حضرات مؤسسین میں سے ہیں۔ دوحضرات جناب صدر مؤسس کے حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن شامل ہیں۔ فہرست ہذا کو چونکہ حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے لہٰذا یہ انوکھی صورت حال سامنے آئی کہ اول و آخر جناب صدر مؤسس کے دو حقیقی بھائیوں کے نام ہیں‘ اقتدار احمد مرحوم ومغفور اور وقار احمد صاحب۔ پانچ حضرات جن کے اسم گرامی کے سامنے مرحوم ومغفور کا اضافہ کیا ہے ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں اور اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں۔ ان حضرات کے لیے صمیم ِقلب سے ہم اللہ کے حضور دعا گو ہیں:
اللّٰھم اغفرلھم وارحمھم وادخلھم فی رحمتک وحاسبھم حسابًا یسیرًا، اللّٰھم نوِّر مرقدھم واکرم منزلھم والحقھم بالصالحین۔ آمین یا ربَّ العالمین!

قراردادِ تاسیس کی مختصر تشریح
انجمن کے اس موقف کا مفصل استدلالی پس منظر تو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی اس تحریرہی کے مطالعہ سے سمجھا جا سکتا ہے جواب’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ :کرنے کا اصل کام‘‘ نامی کتابچے کی صورت میں مطبوعہ موجود ہے‘ تاہم اجمالاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
1۔ ہمارے موجودہ دینی انحطاط کا اصل سبب یہ ہے کہ مغرب کی بے خدا سائنس اور یورپ کے ملحدانہ فلسفہ وفکر نے بحیثیت مجموعی پوری اُمّت کے ایمان کی جڑوں کو ہلا ڈالا ہے اورخرمن ِ یقین کو جلا کر راکھ کر دیاہے۔ اور اب صورتِ واقعہ یہ ہے کہ عوام الناس کے دل ودماغ میں بالعموم اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے قلوب و اذہان میں بالخصوص خدا اورآخرت اور وحی ونبوت ایسے اساسی معتقدات تک کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہی۔
2۔ اندریں حالات اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ اور غلبۂ دین حق کی لازمی شرط (pre-requisite) تجدید ِ ایمان ہے اور قصر اسلام کی تعمیر ِ نو کے لیے ایمان کی ان بنیادوں کی از سرِ نو تعمیر ناگزیر ہےجو صرف مضمحل ہی نہیں منہدم ہوچکی ہیں۔ گویا یہ عمارت صرف جزوی مرمت اور سطحی لیپاپوتی کی نہیں بلکہ بنیاد سے تعمیر ِ جدید کی محتاج ہے۔
3۔ تجدید ِ ایمان کی اس مہم میں اولین اہمیت معاشرے کے اس فہیم عنصر (Intelligentsia) اورذہین اقلیت (Intellectual Minority) کو حاصل ہے جو از خود معاشرے کی ذہنی و فکری قیادت کے منصب پر فائز ہے اورجسے جسد ِ ملّت میں وہی مقام حاصل ہے جو ایک فرد نوع بشر کے جسم میں اس کے دماغ (Brain) کو حاصل ہوتا ہے۔
4۔ اس طبقے کے قلوب و اذہان میں ایمان کی تخم ریزی اور آبیاری کے لیے لازم ہے کہ خالصتاً قرآن حکیم کی بنیاد پراوراسی کی ہدایت و رہنمائی کی روشنی میںایک ایسی زبردست علمی تحریک برپا ہوجوایک طرف وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر ملحدانہ افکار ونظریات کامؤثر اورمدلّل ابطال کرے۔ دوسری جانب ٹھوس علمی استدلال کی مدد سے حقائق ایمانی کا واضح اثبات کرے تاکہ یقین اور اذعان کی کیفیت پیداہو۔ اور تیسری طرف ثابت شدہ سائنسی حقائق اورحقیقت کائنات وانسان کے بارے میں قرآن حکیم کے نقطہ نظر میں ایسی تطبیق کرے جس سے قلوب مطمئن ہوسکیں۔
5۔ اس کے لیے لازم ہے کہ کچھ ایسے نوجوان جو بیک وقت ذہین اورباصلاحیت بھی ہوں اور باہمت اور صاحب ِ عزیمت بھی اورجنہیں اللہ تعالیٰ اپنی کتاب عزیز پر خالص ذاتی نوعیت کا ایمان و یقین عطا فرما دے‘ اپنی پوری زندگی کو تعلّم و تعلیم ِ قرآن کے لیے وقف کر دیں اوراس کتاب حکیم کے فلسفہ و حکمت کی تحصیل اور نشرواشاعت کے سوازندگی میں ان کا مقصود ومطلوب اورکچھ نہ رہے۔
6۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے اور عربی زبان سیکھنے سکھانے کی ایک عام تحریک برپا کی جائے اور علوم قرآنی کی عمومی نشر واشاعت کا ایک وسیع پیمانے پر اہتمام ہو تاکہ عوام کی توجہات قرآن حکیم کی جانب منعطف ہوں‘ ذہنوں میں اس کی عظمت کا نقش قائم ہو‘ دلوں میں اس کی محبت جاگزیں ہو اوراس کی جانب ایک عام التفات پیدا ہو جائے۔ اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ بہت سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان بھی اس سے متعارف ہوں گے اوران میں سے کچھ تعداد ایسے نوجوانوں کی بھی نکل آئے گی جو اس کی قدر و قیمت سے اس درجہ آگاہ ہو جائیں کہ پوری زندگی اس کے علم وحکمت کی تحصیل اور نشر و اشاعت کے لیے وقف کردیں۔
7۔ چنانچہ ان ہی مقاصد کے لیے’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

اراکین انجمن کی تعداد (1997ء)

مؤسسین /حلقہ محسنین = 376
مستقل ارکان = 176
عام ارکان = 804
کل تعداد = 1356
(مندرجہ بالا تعداد میں بیرون ملک اراکین کی تعداد بھی شامل ہے)

’’……ہمارے نزدیک اس وقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ایک طرف ادیان باطلہ کے مزعومہ عقائد کا مؤثر و مدلل ابطال کیا جائے اور دوسری طرف مغربی فلسفہ وفکر اور اس کے لائے ہوئے زندقہ والحاد اورمادہ پرستی کے سیلاب کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے اور حکمت ِ قرآنی کی روشنی میںایک ایسی زبردست جوابی علمی تحریک برپا کی جائے جو توحید‘معاد اور رسالت کے بنیادی حقائق کی حقانیت کو بھی مبرہن کر دے اور انسانی زندگی کے لیے دین کی رہنمائی و ہدایت کو بھی مدلّل ومفصل واضح کر دے۔ ہمارےنزدیک اسلام کے حلقے میں نئی اقوام کا داخلہ‘ اور جسد ِ دین میں نئے خون کی پیدائش ہی نہیں‘ خود اسلام کے موجود الوقت حلقہ بگوشوں میں حرارتِ ایمانی کی تازگی اوردین و شریعت کی عملی پابندی اسی کام کے ایک مؤثر حد تک تکمیل پذیر ہونے پر موقوف ہے‘ اس لیے کہ دورِ جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کے سیلاب میں خود مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد اس طرح بہہ نکلی ہے کہ ان کا ایمان بالکل بے جان اور دین سے ان کا تعلق محض برائے نام رہ گیا ہے‘ اور اسی بنا پر دین میں نت نئے فتنے اٹھ رہے ہیں اور ضلالت و گمراہی نت نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہو رہی ہے۔ ‘‘
اس سلسلے میں انفرادی کوششیں تواب بھی جیسی کچھ عملاً ممکن ہیں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ ضرورت اس کی داعی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وسائل فراہم کیے جائیں اور ایک ایسے باقاعدہ ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو حکمت ِ قرآنی اور علم دینی کی نشرواشاعت کا کام بھی کرے اور ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب اور مؤثر بندوبست کرے جو عربی زبان‘ قرآن حکیم اور شریعت ِاسلامی کا گہرا علم حاصل کر کے اسلامی اعتقادات کی حقانیت کو بھی ثابت کریں اور انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے جو ہدایات اسلام نے دی ہیں انہیں بھی ایسے انداز میں پیش کریں جو موجودہ اذہان کو اپیل کر سکے۔‘‘
(محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی کتاب ’’تعارفِ تنظیم اسلامی‘‘ سے ایک اقتباس)