(پچاس سالہ رپورٹ) تحدیث ِنعمت - ڈاکٹر اسرار احمد

24 /

تحدیث ِ نعمتصدر مؤسس ڈاکٹراسرار احمد کی ایک تحریر ’’وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘ سے چند اقتباسات
(ماخوذ از ’’دعوت رجوع الی القرآن کا منظر وپس منظر‘‘)
یہ تحریر چونکہ آج سے تقریباً ۳۴ برس قبل کی لکھی ہوئی ہے لہٰذا زمانی فصل کے باعث بعض اعداد و شمار اور واقعات خاصے پرانے محسوس ہوں گے۔ اصل مقصد پیش نظر یہ ہے کہ وہ حضرات جو ماضی قریب ہی میںمرکزی انجمن خدام القرآن کے رکن بنے ہوں ان کے علم میں بھی وہ’’سنگ ہائے میل‘‘ آ جائیں جو اس دعوت رجوع الی القرآن کے بالکل آغاز کے دورمیں پیش آئے تھے۔ (مرتّب)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ
(تحریر فروری ۱۹۸۹ء)


ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے کہ اُس نے کمالِ فضل و کرم سے اوّلاً اپنے اس بندۂ حقیر کو اوائل عمر ہی سے اپنے کلامِ پاک سے ذہنی مناسبت اور قلبی اُنس عطا فرما دیا‘ اور ثانیاً تعلیم و تعلم قرآن کے ضمن میں اُس کی حقیر مساعی کو اس درجہ بار آور اور مشکور و مقبول بنا دیا کہ اُس کے نام کو دنیا بھر میں کم از کم اُردو بولنے والوں کی حد تک ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ کے جلی عنوان کی حیثیت حاصل ہو گئی۔
یہ دعوتِ رجوع الی القرآن اور تحریک تعلیم و تعلّم ِقرآن گزشتہ تیئس چوبیس سالوں کے دوران جن جن مراحل سے گزری اور اس اثنا میں اُس نے جو نشاناتِ راہ نصب کیے‘ اُن کا متفرق تذکرہ وقتاً فوقتاً ’حکمت قرآن‘ اور ’میثاق‘میں ہوتا رہا ہے۔ تاہم اس موقع پر جب کہ یہ دعوت و تحریک رُبع صدی مکمل کیا چاہتی ہے اور ’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘ بھی اپناسترھواں سالانہ اجلاس منعقد کر رہی ہے‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ایک مختصر مگر جامع روداد بھی مرتّب کر دی جائے ‘اور اس کے اب تک کے ثمرات و نتائج کا ایک سرسری جائزہ بھی لے لیا جائے‘ تاکہ ایک جانب حکم ِخداوندی :’’ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘ کی تعمیل ہو جائے اور دوسری جانب نہ صرف یہ کہ موجودہ رفقاء و احباب اور اعوان و انصار کی ہمت افزائی ہو ‘بلکہ اس راہ کے آئندہ مسافروں کو بھی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا سامان ملے۔

لاہور سے گیارہ سال باہر۔۔۔۔۔ [ہمارا خاندان نومبر ۱۹۴۷ء میں حصار (مشرقی پنجاب‘ حال ہریانہ) سے آگ اور خون کے دریا عبور کر کے واردِ لاہور ہوا تھا۔ بعد میں والد صاحب مرحوم تو بسلسلۂ ملازمت کچھ عرصہ لاہور‘ اور پھر قصور اور پتوکی مقیم رہ کر بالآخر منٹگمری (حال ساہیوال) میں اقامت گزیں ہو گئے‘ لیکن مَیں بسلسلۂ تعلیم سات سال لاہور ہی میں مقیم رہا (دو سال گورنمنٹ کالج لاہور برائے ایف ایس سی اور پانچ سال کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج برائے ایم بی بی ایس)۔ اس عرصے کے دوران میری وابستگی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہی۔ نومبر۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد میں بھی ساہیوال منتقل ہوگیا۔ چنانچہ وہیں جماعت اسلامی میں شمولیت بھی ہوئی اور اس سے علیحدگی بھی۔ بعد ازاں کچھ عرصہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے بزرگوں کی جانب سے کسی نئی اجتماعی جدّوجُہد کے آغاز کا انتظار کرنے اور بالآخر اس سے مایوس ہونے پر اپنی ذاتی حیثیت ہی میں اقامت ِدین کی کسی نئی جدّوجُہد کے آغاز کے ارادے سے اواخر ۱۹۶۵ء میں لاہور مراجعت ہوئی۔۔۔۔۔۔ ]رہنے کے بعد جب راقم اواخر ۱۹۶۵ء میں دوبارہ واردِ لاہور ہوا تو اس کے پیش نظر اصل مقصد تجدید و احیائے دین کی اُسی اصولی انقلابی تحریک کا اِحیاء تھا جس کے بیسویں صدی عیسوی کے داعی ٔاوّل تھے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم اور داعی ٔثانی تھے مولانا سیّدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم۔ مولانا آزاد نے ۱۹۲۰ء میں وقتی حالات اور مشکلات سے بد دل ہو نے کے باعث اپنا رُخ تبدیل کر کے جو خلا پیدا کیا تھا اسے تو لگ بھگ بیس سال کے وقفے کے بعد پُر کر دیا تھا مولانا مودودی اور اُن کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے‘ لیکن خود جماعت اسلامی نے ۱۹۴۷ء میں ایک وقتی ترغیب سے متاثر ہو کر اصولی اسلامی انقلابی تحریک کی بجائے اسلام پسند‘ قومی‘ سیاسی جماعت کا رول اختیار کر کے جو خلا پیدا کیا تھا اُسے پُر کرنے کی کوشش ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھی اور دین و ملّت کی اہم ترین ضرورت بھی۔ چنانچہ راقم نے لاہور منتقل ہو کر اپنی اصل توجّہ اور سعی وجُہد کو تو مرتکز رکھا اس مقصد پر‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ چونکہ اُسے اپنے زمانۂ تعلیم اور اس کے بعد کے گیارہ سالوں کے دوران اللّٰہ کے فضل و کرم سے ایک خصوصی اُنس پیدا ہو گیا تھا قرآن حکیم کے ساتھ اور خصوصی مناسبت حاصل ہو گئی تھی درسِ قرآن سے‘ لہٰذا اپنی ذاتی حیثیت میں دعوت و تبلیغ دین کی ایک حقیر سی کوشش کے طور پر آغاز کر دیا حلقہ ہائے مطالعہ ٔ قرآن کا۔ ان کے ذریعے مطالعہ قرآن حکیم کے ایک منتخب نصاب کے دروس کی صورت میں قرآن کے انقلابی فکر کی اشاعت اور اقامت ِدین یا اسلامی انقلاب کی جدّوجُہد کے لیے مؤثر دعوت کاآغاز ہو گیا۔
.......جب راقم نے اپنی جملہ توانائیوں اور صلاحیتوں کو کامل یکسوئی کے ساتھ قرآنِ حکیم کے درس وتدریس اور نشر واشاعت میں لگا دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کی فضا میں ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ کا غلغلہ بلند ہو گیا‘ اور تعلیم و تعلّم قرآن کی ایک جاندار تحریک کا آغاز ہو گیا۔ اس کے اثرات گزشتہ بائیس سالوں کے دوران بفضل اللہ وعونہٖ دنیا کے کونے کونے تک جہاں بھی اردو سمجھنے اور بولنے والے لوگ موجود ہیں‘ نہ صرف پہنچ گئے ہیں بلکہ دُور دراز گوشوں میں آڈیو اور ویڈیو کیسٹس کے ذریعے از خود بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس احقر الانام کو حق الیقین کی حد تک وثوق حاصل ہے کہ اگر ہماری شامت ِاعمال یا تقصیر ِہمت اور کوتاہی ٔ عمل کے باعث مملکت خداداد پاکستان میں یہ دعوتِ قرآنی انقلابِ اسلامی پر منتج نہ ہو سکی تو الفاظِ قرآنی: {فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَا ھٰٓـؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْابِھَا بِکٰفِرِیْنَ(۸۹)} (الانعام) کے مصداق اللہ تعالیٰ کسی اور خطہ ٔارضی کو یہ سعادت لازماً عطا فرما دے گا کہ وہ قرآن کے اُس انقلابی فکر کو حرزِ جاں بنا کر جسے دورِ حاضر کے شعور کی سطح (level of consciousness) پر ایک مؤثر دعوت کی صورت دینے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے اپنے اس عاجز بندے کو عطا فرمائی ہے‘ بالفعل ’’اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ‘‘ اور ’’غلبہ ٔ دین ِحق کے دور ِ ثانی‘‘ کا گہوارہ بن جائے‘ اور وہ صورت عملاً پیدا ہو جائے جس کی پیشین گوئی اب سے ساٹھ ستّر سال قبل اُس مردِ قلندر نے کی تھی جس کا نام اقبال تھا۔ یعنی ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محو ِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے!
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے!!
---------------------
اس سے قبل کہ اس قرآنی تحریک کے چوبیس سالہ سفر کے اہم نشاناتِ راہ اور سنگ ہائے میل کا تذکرہ کیا جائے‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حقیقت واقعی کی جانب اشارہ کردیا جائے کہ اس دعوتِ قرآنی نے ع ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے!‘‘ کے مصداق بحمد اللہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اعوان و انصار کی ایک جمعیت پیدا کر لی تو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور سے قطع نظر جب راقم نے ۱۹۶۷ء والی قرار داد ہی کی اساس پر پورے آٹھ برس بعد ۱۹۷۵ء میں از سر ِنو دعوتِ تنظیم دی تو اس پر لبیک کہنے والے اکیاسی افراد میں سے جماعت اسلامی سے سابقہ تعلق کی قدرِ مشترک کے حامل اشخاص تین چار سے زیادہ نہیں تھے‘ باقی سب کے سب اس دعوتِ قرآنی ہی کے شجرۂ طیبہ کے تازہ پھل تھے۔ گویا کہ موجودہ ’’تنظیم اسلامی‘‘ بھی ع’’اُسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں‘‘ کے مصداق اسی دعوتِ قرآنی کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہے۔فَلِلّٰـہِ الْحَمْدُ وَالْـمِنَّۃ!!

’’رجوع الی القرآن‘‘ کی جس دعوت اور ’’تعلیم و تعلّم قرآن‘‘ کی جس تحریک کے نمایاں نشاناتِ راہ اور اہم سنگ ہائے میل اس وقت صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے مطلوب ہیں ‘اس کے سفر کا آغاز ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے فوراً بعد اوائل اکتوبر میں ہوا تھا اور ان سطور کی تحریر کے وقت (مارچ ۱۹۸۹ء) تک راقم کی عمر عزیز کے پورے ساڑھے ۲۳ برس اس کی نذر ہو چکے ہیں۔ گویا حفیظؔ کے درج ذیل شعر میں نصف کے بجائے رُبع کا لفظ رکھ دیا جائے تو وہ راقم الحروف کے مناسب حال ہو جائے گا ؎
تشکیل وتکمیل فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصّہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے‘ دو چار برس کی بات نہیں!
ان میں سے پہلے ساڑھے چھ برس راقم نے بالکل تنہا کام کیا۔ اس لیے کہ اُس وقت نہ کوئی انجمن تھی‘ نہ تنظیم‘ ایک اشاعتی ادارہ تھا تو وہ بھی خالص ذاتی‘ اور اس بھری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید و نصرت اور اپنے ذاتی عزم و ہمت کے سوا کچھ میسّر تھا تو صرف مولانا امین احسن اصلاحی کی مشفقانہ ’’سرپرستی‘‘ اور کچھ حقیقی بھائیوں کا تعاون۔
ان سوا چھ سالوں میں سے بھی پہلے دو سالوں کے دوران‘ جیسے کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے ‘راقم کی توجہات دو کاموں پر منقسم رہیں۔ ایک تنظیم اسلامی کا قیام اور دوسرے حلقہ ہائے مطالعہ قرآن۔ اواخر اکتوبر ۱۹۶۷ء میں تنظیم اسلامی کی مجلس مشاورت کا جو اجلاس سکھر میں ہوا تھا ‘اسی میں تنظیم کی بساط اصولی طور پر لپٹ گئی تھی۔ لہٰذا اواخر ۱۹۶۷ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک گویا مسلسل ساڑھے چار برس۔۔۔۔[یہی وجہ ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی قراردادِ تاسیس میں یہ الفاظ شامل ہیں:’’اور چونکہ ہمیں اس ضمن میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے خیالات سے کامل اتفاق ہے اور ہم اس کام کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں جو وہ گزشتہ ساڑھے چار سال سے کر رہے ہیں‘ لہٰذا…‘‘[۔۔۔۔ راقم کی جملہ توانائیاں اور تمام اوقات دعوت رجوع الی القرآن اور تحریک تعلیم و تعلّم قرآن کی داغ بیل ڈالنے میں صَرف ہوئے‘ جس کے نتیجے میں مارچ ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور وجود میں آئی۔
اس کے بعد تین سال اس دعوت اور تحریک کے شباب کا دَور ہیں‘ اس لیے کہ اب راقم یکہ و تنہا نہیں تھا بلکہ؎
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں

یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں!اور ؎
مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

راہ رَو ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیاکے مصداق اُس کی ذاتی مساعی کے ساتھ اعوان و انصار کی ایک جماعت کی محنت و مشقت اور خلوص و اخلاص کا سرمایہ بھی شامل ہو گیا تھا۔
مارچ ۱۹۷۵ء میں اسی دعوت رجوع الی القرآن اور تحریک تعلیم و تعلّم ِقرآن کی کوکھ سے تنظیم اسلامی نے جنم لیا۔ لہٰذا بعد کے چودہ سالوں کے دوران راقم کی توانائیاں پھر منقسم ہو گئیں۔ تاہم وابستگانِ انجمن کے تعاون و اشتراک اور جماعتی زندگی کی برکات کے طفیل قرآنی دعوت و تحریک کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ چنانچہ اس چمن قرآنی کی اصل بہار کا عرصہ ۱۹۷۵ء تا ۱۹۸۲ء کے سات سال ہیں ‘جن کے دوران کچھ اعوان و انصار کی محنت و مشقت اور کچھ خارجی اسباب کی بنا پر یہ دعوت و تحریک واقعتاً Lily in Bloomکی صورت اختیار کر گئی۔
گزشتہ سات سالوں کے دوران ایک جانب تو تدریجاً ع ’’مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ‘‘ کا طبعی ظہور ہوا‘ اور دوسری جانب تنظیم اسلامی کے مسائل و معاملات نے بھی وقت اور قوت میں سے ضروری حصّہ وصول کرنا شروع کردیا ‘لہٰذا فطری طور پر تعلیم و تعلّم ِقرآن کے ضمن میں راقم کی ذاتی مساعی کا حصّہ کم ہوتا چلا گیا۔ تاہم چونکہ اب بحمد اللہ ایک جانب ایک منظم انجمن اور مستحکم ادارہ بھی موجود ہے‘ اور دوسری طرف بفضلہ تعالیٰ میرے اپنے فرزندوں سمیت نوجوانوں کی ایک معتدبہ تعداد بھی اس مشن کی ذِمّہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت کا ثبوت دے چکی ہے‘ لہٰذا میں مطمئن ہوں کہ ان شاء اللہ العزیز وبعونہٖ یہ قافلۂ دعوتِ رجوع الی القرآن و تحریک تعلیم و تعلّم ِقرآن ’’اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ‘‘ اور دین حق کے عالمی غلبے کی منزل کی جانب پیش قدمی جاری رکھے گا۔ اَللّٰھُمَّ آمین!
ان سطور کی تحریر کے وقت جبکہ حیاتِ مستعار کے بحسابِ شمسی ستاون اور بحساب قمری اُنسٹھ برس پورے ہونے کو ہیں اور مَیں اپنے آپ کو دنیا کے مقابلے میں آخرت سے قریب تر محسوس کرتا ہوں ‘بحمد ِاللہ دل کو یہ گہرا اطمینان حاصل ہے کہ ع ’’جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے!‘‘ کے مصداق عمر کے بہتر اور بیشتر حصے کے دوران جسم و جان کی بہتر اور بیشتر توانائیاں نوید ِنبوی ؐ ’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘ کے مطابق بہترین کام میں صَرف ہوئی ہیں۔ گویا ع ’’شکر صد شکر کہ جمازہ بمنزل رسید!‘‘ اس کے ساتھ ہی دل میں اس اُمید کا چراغ بھی روشن ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی توفیق عطا فرمائی تو لغزشوں‘ خطائوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے ہوئے شرفِ قبول بھی ضرور عطا فرمائےگا --- اور عجیب نوید جاں فزا کا معاملہ ہے کہ جیسے ہی یہ الفاظ نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوئے ‘ایک جانب دل کی گہرائیوں سے حدیث ِقدسی کے الفاظ طلوع ہوئے کہ ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ‘‘ اور دوسری جانب ذہن میں کسی شاعر کا مصرعہ اُبھرا ع ’’وَاَرْجُوْہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبُ!‘‘
رَبَّـنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ آمِیْنَ یَا رَبّ الْعَالَـمِین!!