(پچاس سالہ رپورٹ) تحریک تعلّم وتعلیم ِ قرآن کا دورِ اوّل:اہم سنگ ہائے میل - ادارہ

24 /

تحریک تعلّم وتعلیم ِقرآن کا دَورِ اوّل
اہم سنگ ہائے میل

 

 

(۱) مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب
......راقم نے اپنی اس دعوتِ قرآنی کی اساس ’’مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب‘‘ کو بنایا تھا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ جو کامیابیاں اسے حاصل ہوئیں ان کا سب سے بڑا راز اسی منتخب نصاب میں مضمر ہے۔ اس لیے کہ ان حضرات سے قطع نظر جنہیں قسمت ابتدا ہی سے عربی مدارس میں پہنچا دیتی ہے اور وہ اسی قدیم مذہبی نظامِ تعلیم سے فراغت حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے تو گویا شب و روز قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسولﷺ کی فضا ہی میں بسر ہوتے ہیں‘ سکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے قرآن مجید کا ابتدا سے انتہا تک تسلسل کے ساتھ مطالعہ نہایت کٹھن کام ہے اور اس کے لیے ایک نہایت مضبوط قوت ارادی درکار ہے۔ جبکہ یہ منتخب نصاب جو حجم کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دو پارے کے لگ بھگ یعنی کل قرآن کے پندرہویں حصے کے برابر ہے‘ ایک نہایت حکیمانہ تدریج اور منطقی ترتیب کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ‘ فقہی اور تاریخی مباحث کے سوا‘ قرآن حکیم کے جملہ بنیادی مضامین اور تعلیمات کو بخوبی ذہن نشین کردیتا ہےبلکہ ایک جانب قرآن کے مخصوص اسلوب اور طرزِ بیان‘ اور دوسری جانب اس کے فطری منہجِ استدلال (Line of Argument) سے بھی واقفیت ہی نہیں گہری مناسبت عطا کردیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی عظمت کا ایسا نقش دل پر قائم کردیتا ہے کہ وہ مضبوط قوت ارادی خود بخود پیدا ہوجاتی ہے جو پورے قرآن کے مسلسل مطالعے کے لیے ضروری ہے۔
......اس نصاب کا نقطۂ آغاز سورۃ العصر ہے اور نقطۂ عروج سورۃ الحدید۔ چنانچہ اس کے حصۂ اول میں سورۃ العصر کے ساتھ تین مزید جامع اسباق شامل ہیں یعنی حقیقت ِبرّ و تقویٰ کی وضاحت کے لیے سورۃ البقرہ کی آیت 177 (آیت البر) ‘حکمت ِقرآنی کی اساسات اور مقام عزیمت کی تشریح کے لیے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع اور ’’حظ ِعظیم‘‘ کی وضاحت کے لیے سورۂ حم السجدۃ کی آیات 30تا36‘ اور حصۂ آخر (ششم) مشتمل ہے مکمل سورۃ الحدید پر جو اُمّت ِمسلمہ سے خطاب کے ضمن میں قرآنِ حکیم کی جامع ترین سورت ہے۔ درمیانی چار حصے سورۃ العصر میںبیان شدہ چار لوازم نجات کی تشریح و توضیح پر مشتمل ہیں۔
.......راقم الحروف کے پاس کوئی ریکارڈ تو ظاہر ہے کہ محفوظ نہیں لیکن وہ یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اس پورے منتخب نصاب کے درس کی سعادت کم از کم پچاس مرتبہ تو ضرور حاصل کی ہوگی۔ اس لیے کہ لاہور میں جب68-1967 ءمیں حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن قائم کیے تو ان سب میں اسی کا درس دیا‘ پھر مسجد خضراء سمن آباد میں مرکزی درس کا آغاز ہوا تو وہاں بھی دوبار اسی کا درس دیا۔ پھر یہ مرکزی درس مسجد شہداء منتقل ہوا تو وہاں بھی اس کا اعادہ کیا۔ پھر جابجا قرآنی تربیت گاہیں قائم کیں تو ان میں بھی ان ہی مقامات کا درس دیا۔ بیرونی ممالک میں جانا ہوا تو وہاں بھیع ’’اِلاّ حدیث ِدوست کہ تکرار می کنیم‘‘ کے مصداق اسی کو بیان کیا۔ پھر موقع اور مقام اور سامعین کی ذہنی سطح کے فرق کی مناسبت سے ان دروس میں طوالت یا اختصار کے اعتبار سے بھی فرق ہوتا رہا اور بیان کی سلاست یا علمی ثقالت کے اعتبار سے بھی۔ چنانچہ اس نصاب میں شامل ہر مقام کے راقم الحروف کے دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے دروس بھی ٹیپ کی ریلوں(Spools) میں محفوظ ہیں اور نہایت مختصر اور آسان دروس کے کیسٹ بھی موجود ہیں۔اور اب کچھ عرصہ سے خود راقم کے اسی منتخب نصاب کے دروس کا سلسلہ بند ہوچکا ہےتو بحمد اللہ کم از کم پندرہ بیس نوجوان ایسے تیار ہوچکے ہیں جو اس کا درس نہایت خوش اسلوبی سے دے رہے ہیں۔ اللہ ان کے عزم اور ارادے کو برقرار رکھے‘ اور ان کی صلاحیت اور استعداد میں ترقی عطا فرمائے! یہ تو اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ ان میں میرے صلبی بیٹے بھی شامل ہیں‘ ورنہ میں تو ان سب کو اپنی معنوی اولاد اور صدقۂ جاریہ سمجھتا ہوں۔ اور علامہ اقبال کے شعر میں تھوڑے سے تصرّف کے ساتھ دست بدعا ہوں کہ ؎
یہ ہیں صدف تو تیرے ہاتھ اِن کے گہر کی آبرو
یہ ہیں خزف تو تُو انہیں گوہر شاہوار کر!

(۲)تدریس عربی اور حلقہ ہائے دروسِ قرآن
لاہور میں راقم نے’’حلقہ ہائے مطالعہ قرآن‘‘ کا آغاز جس طرح کیا اس کامختصر تذکرہ قارئین کی دلچسپی اور اس راہ کے ’’تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل‘‘ کے مصداق نئے ساتھیوں کی رہنمائی کے لیےمفید ہو گا۔
اسلام پورہ (سابقہ کرشن نگر) کی کوثر روڈ (سابقہ امرت روڈ) پر ایک مکان خرید کر اپنی رہائش اور مطب شروع کرنے کے فوراً بعد میں نے آس پاس کی تین مساجد میں نمازیں ادا کرنی شروع کیں اور نمازیوں میں سے نوجوانوں سے میل جول بڑھانا شروع کیا۔ اور چند ہی دنوں میں ان میں سے بعض کو آمادہ کرلیا کہ وہ مجھ سے ابتدائی عربی سیکھنے کے لیے بعد نمازِ عشاء وقت نکالیں۔ پھر ان ہی کے ذریعے ان مساجد یا ان کے قریب کے مکانوں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔لاہور میں اولین دوحلقے کرشن نگرمیں قائم ہوئے‘ پھرجماعت اسلامی کے اشتراک کی بنیاد پر تیسرا حلقہ دل محمد روڈ کے علاقے میں مولوی برکت علی صاحب کی بلڈنگ میں قائم ہوا۔ پھر سمن آباد میں درس شروع ہوا‘ جس نے بعد میں لاہور کے مرکزی درس کی حیثیت حاصل کر لی۔
مسجد خضراء‘ سمن آباد
اس کی تقریب یوں ہوئی کہ میرے پھوپھی زاد بھائی شیخ نصیر احمد صاحب نے اپنے مکان میں کچھ تعمیری تبدیلیاں اور اضافے کیے‘ جس سے ایک کمرہ اتنا بڑا نکل آیا کہ اس میں ستر اسی آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ مَیں نے جب پہلی مرتبہ اسے دیکھا تو بے اختیار زبان سے ؏ ’’ایں خانہ بایں خوبی آتش کدہ بائیستے‘‘ کے مصداق یہ الفاظ نکل گئے: ’’یہاں تو قرآن مجید کا درس ہونا چاہیے‘‘۔میرے پھوپھا شیخ نثار احمد ـ(مرحوم و مغفور) نے جو میرے والد مرحوم کے حقیقی تایازاد بھائی ہونے کے ناطے میرے تایا بھی تھے‘ میرے الفاظ کو فوراً پکڑ لیا کہ ’’پھر دیر کس بات کی ہے‘ فوراً شروع کردو!‘‘ اور اس طرح اتوار کی صبح کا ہفتہ وار درس 211- این‘ سمن آباد میں شروع ہوگیا۔ پہلے ایک دو دروس میں تیس پینتیس افراد شریک تھے‘ پھر یہ تعداد پچاس تک پہنچی‘ اور چند ماہ کے اندر اندر یہ درس کمرے کی وسعت سے نکل کر باہر لان تک پہنچ گیا جس کے لیے لاؤڈ سپیکر خریدنا پڑا۔ اور جب بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی تو مسجد ِخضراء کی انتظامیہ کے ذمہ دار حضرات نے جو خودبھی پابندی سے درس میں شریک ہوتے تھے اصرار کیا کہ اس درس کو مسجد میں منتقل کر دیا جائے۔ مَیں مساجد کے معاملے میں خائف تھا کہ وہاں چوہدریوں کے درمیان رسّہ کشی ہوتی ہے‘ لہٰذا ابتدا میں تو مَیں نے معذرت کی‘ لیکن بعد میں اس مجبوری کے باعث ان کی دعوت قبول کر لی کہ شرکاءِ درس اب کسی طور مکان میں نہ سما سکتے تھے اور اس طرح آٹھ دس سال کے لیے مسجد خضراء اِس دعوت و تحریک ِ قرآنی کا مرکز بن گئی۔
مسجد خضراء سمن آباد کے اتوار کی صبح کے اس ہفتہ وار درسِ قرآن کی شہرت بہت جلد پورے لاہور میں اور پھر اس سے باہر دور دور تک پہنچ گئی۔ چنانچہ اس میں لاہور کے کونے کونے ہی سے نہیں‘ بیرونِ لاہور سے باضابطہ شدّرحال کرکے بھی لوگ شرکت کے لیے آتے تھے۔ لہٰذا بہت جلد اس کی حاضری دو ڈھائی سو‘ اور پھر تین ساڑھے تین صد تک پہنچ گئی جو بعض خاص خاص مواقع پر پانچ سو تک بھی ہوجاتی تھی۔ پھر یہ درس اوسطاً ڈھائی گھنٹے پر محیط ہوتا تھا۔ اور الحمد للہ کہ اس میں بہت کم کسی شخص کو کبھی اٹھتے دیکھا گیا۔ اس طرح لاہور کی دینی فضا میں یہ درس ایک ’’دھماکے‘‘ سے کسی طرح کم نہ تھا‘ جس سے ایک خوشگوار حیرت کا تاثر پورے لاہور اور اس کے گرد و نواح پر طاری ہوگیا ۔
مسجد خضراء سمن آباد میں اس دعوتِ قرآنی کو جو پذیرائی حاصل ہوئی اس پر میں خود‘ اور میرے قریبی ساتھی سب کے سب‘ شدید حیران تھے۔ لیکن بالآخر اس کا راز ایک روز کھل ہی گیا۔ آج کے عقلیت زدہ بلکہ گزیدہ لوگ تو شاید اس بات پر ناک بھوں چڑھائیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسجد خضراء کی اس استثنائی کیفیت کا اصل راز جو مجھے ایک دن اچانک معلوم ہوا یہ تھا کہ اس کا سنگِ بنیاد اُس مردِ درویش نے رکھا تھا جسے دنیا مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نام سے جانتی ہے اور جس نے خود بھی پورے چالیس سال تک ارضِ لاہور پر درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ گویا معاملہ وہی تھا جو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ ؎
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مسجد شہداء‘ریگل چوک
افسوس ہے کہ خود ہمیں لوگوں کی سہولت‘ اور اس قرآنی دعوت و تحریک کی مصالح کے پیشِ نظر اس درس کو لاہور کے سب سے زیادہ مرکزی مقام یعنی مسجد ِشہداء ریگل چوک میں منتقل کرنا پڑا‘ اس لیے کہ شہر سے سمن آباد جانے والے تمام راستے ٹریفک کی اصطلاح میں ’’بوتلوں کی گردنوں‘‘ (bottle-necks)کی حیثیت رکھتے تھے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی! چنانچہ مسجد ِ شہداء میں درس کی حاضری مسجد ِخضراء سے بھی بڑھ گئی۔ وہاں بھی راقم نے پہلے مطالعۂ قرآنِ حکیم کا منتخب نصاب ہی بیان کیا۔ بعد ازاں جب وہاں قرآن حکیم کا آغاز سے سلسلہ وار درسِ قرآن شروع ہوا اور سورۃ الفاتحہ زیر درس آئی اور ایک صاحبِ خیر کی جانب سے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر آیت بسم اللہ و سورۃ الفاتحہ ہدیۃً تقسیم ہوئی تو معلوم ہوا کہ درس میں سات سو افراد شریک تھے (اس لیے کہ کتاب کے سات صد نسخے تقسیم ہوئے!)۔
لاہور کے اتوار کی صبح کے اس مرکزی درسِ قرآن کی یہ رونقیں1977ء تک لگ بھگ دس سال تک روز افزوں رہیں۔ لیکن 1977ء میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے خاتمے کے قریب اتوار کی بجائے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا تو اس درس کی رونقیں رفتہ رفتہ ختم ہوگئیں۔
مسجد دارالسلام ‘باغِ جناح
مسجد خضراء کی طرح مسجد دار السلام کا بھی ایک خاص تاریخی پس منظر ہے‘ جو قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوگا جس مقام پر اب یہ خوبصورت مسجد بنی ہوئی ہے‘ وہاں بہت پہلے سے صرف ایک کچا چبوترا (پنجابی میں تھڑا) ہوتا تھاجہاں اکثر و بیشتر شام کو باغ کی سیر کے لیے آنے والوں میں سے چند‘ اور اسی طرح صبح کی سیر کرنے والے بعض حضرات نماز ادا کرلیا کرتے تھے۔ راقم الحروف کو اب تک یاد ہے کہ 1951-52ءمیں فرسٹ اور سکینڈ پرافیشنل ایم بی بی ایس کی تیاری کے لیے راقم بھی کبھی کبھی مسجد سے متصل گلستان فاطمہ میں مطالعے کے لیے بیٹھتا تھا تو ظہر کی نماز اسی چبوترے پر ادا کرتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں بھی اتوار کی صبح مولانا محمد علی قصوریؒ درس دیتے ہیں‘ ایک بار میں بھی کسی طرح وقت نکال کر شریک ہوا تو میرے اور مدرس سمیت کل سات آدمی اس چبوترے کی زینت تھے۔ اس چبوترے پر باضابطہ مسجد کی تعمیر کرنل سلامت اللہ مرحوم کا وہ کارنامہ ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ اس مسجد کے نمازیوں کے شکریے اور دعائے خیر کے مستحق رہیں گے۔ وہ خود ریٹائرڈ فوجی‘ اور نہایت دبنگ انسان تھے اور انہوں نے ان تمام مغرب زدہ سول افسروں سے بھرپور جنگ لڑی جو اس خوبصورت سیر گاہ کے حسن کو مسجد کے وجود سے’’ بدنما‘‘ بنانے پر تیار نہیں تھے۔ (چنانچہ ایک بار تو انہیں ایک کمشنر صاحب کے چہرے پر باضابطہ تھپڑ بھی رسید کرنا پڑا) بہرحال انہوں نے بڑی محنت و مشقت اور جانفشانی و صرفِ کثیر سے ’’ادارۂ دارالسلام‘‘ جو ایک مسجد اور ایک لائبریری پر مشتمل ہے تعمیر کرایا۔ اور ا س کے بعد 1977ء میں مجھ سے کہنا شروع کیا کہ مسجد دار السلام میں اپنے مشن کو جاری رکھوں ۔ میں اب چونکہ مساجد کے بارے میں پھر بد دل ہوگیا تھا لہٰذا معذرت کرتا رہا تا آنکہ ایک روز وہ ستر پچھتر سالہ‘ طویل القامت‘ اور قوی الجثہ انسان جس کی آواز بھی بھاری اور دبنگ تھی‘ میرے مکان کے باہر کرسی بچھا کر انتہائی مسکینی کے انداز میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ میں یہاں سے اُس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک تم میری فرمائش قبول نہیں کروگے۔ چار و ناچار میں نے حامی بھر لی۔ چنانچہ وہ دن اور آج کا دن مسجد دارالسلام‘ باغِ جناح‘ لاہور کا اجتماعِ جمعہ ونماز عیدین پاکستان بھر میں تو مشہور ہیں ہی‘ بیرونِ ملک بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ 1982-83ء کے دوران جبکہ مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین کی جانب سے میری شدید مخالفت‘ اور مرحوم ضیاء الحق صاحب کی مجلسِ شوریٰ سے میرے استعفے کے باعث میرا نام بیرون ملک بھی بہت اچھل گیا تھا‘ مسجد دار السلام کے اجتماعِ جمعہ کا ذکر اور اس کے فوٹو وال اسٹریٹ جرنل نیویارک‘ ٹورنٹو اسٹار کینیڈا‘ اور لاس اینجلس ٹائم کیلیفورنیا تک میں شائع ہوئے۔
لاہور میں حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کہاں کہاں قائم رہے‘ اس کا کوئی ریکارڈ نہ تو محفوظ ہے‘ نہ ہی اس کی چنداں ضرورت ہے۔ یہ حلقے جیسے کہ آغاز میں عرض کیا گیا تھا‘ کرشن نگر سے شروع ہوئے اور پھر دل محمد روڈ‘ ساندہ‘ ڈھولن وال‘ پنجاب یونیورسٹی‘ اسٹاف کالونی‘ انجینئرنگ یونیورسٹی کے ہاسٹلز‘ ایم اے او کالج‘ میڈیکل کالج ہاسٹل کی مسجد‘ گڑھی شاہو میں حاجی عبدالواحد مرحوم کا مکان‘ اقبال کالونی‘ علامہ اقبال روڈ کی مسجد‘ رفاہِ عام ہال شادباغ‘ برکت علی اسلامیہ ہال مسجد بیرون شاہ عالمی گیٹ‘ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس کے آفس (واقع 7‘ فرینڈز کالونی‘ ملتان روڈ) اور نمعلوم کہاں کہاں قائم رہے۔ گویا کم از کم لاہور کی حد تک تو ؎
دشت تو دشت ہیں‘ دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
والا معاملہ ہوگیا۔
ان میں سے بعض کے اجتماعات ہفتہ وار ہوتے تھے اور بعض کے پندرہ روزہ‘ چنانچہ جمعہ اور اتوار کے روز تو اکثرتین تین درس یا خطاب ہوجاتے تھے! پھر ان میں سے اکثر میں تو مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب مکمل بیان ہوا۔ بعض میں اس کی بھی تلخیص ہی بیان ہو پائی۔
بہرحال ان میں راقم کی جو توانائیاں صرف ہوئیں ان کے ضمن میں راقم کو تو اس وقت بھی پورا اطمینان تھا اور آج بھی کامل اطمینان ہی نہیں انشراح و انبساط ہے کہ ؎
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کے مصداق وہ توانائیاں اور قوتیں اللہ ہی کی عطا کردہ تھیں اور اگر اس (تعالیٰ) ہی کے کلام کے اِفشا (حدیث مبارک میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : وَاَفْشُوْہُ) و اشاعت میں صرف ہوگئیں تو ان کا اس سے بہتر اور کیا مصرف ممکن تھا! البتہ بعض بزرگوں نے جو تنبیہہ کی تھی اس کی صداقت بہت جلد ظاہر ہوگئی۔ مثلاً شیخ سلطان احمد صاحب‘ کراچی‘ نے انگریزی محاورے کے حوالے سے متنبہ کیا تھا کہ آپ تو اپنی شمع صرف دونوں اطراف ہی سے نہیں بیچ میں سے بھی جلا رہے ہیں۔ اور مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم نے فرمایا تھا کہ: ’’آپ کیا غضب کر رہے ہیں! ہم تو جب جمعہ پڑھایا کرتے تھے تو معمول یہ ہوتا تھا کہ پورا جمعرات کا دن یا آرام کرتے تھے یا جمعہ کے خطاب کے بارے میں سوچ بچار‘ اور پھر نہ صرف یہ کہ جمعے کے دن نہ صبح کوئی کام کرتے تھے نہ شام کو‘ بلکہ ہفتہ کا دن بھی کامل آرام کرتے تھے!‘‘
بہرحال میری اعتدال سے بڑھی ہوئی جانفشانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ70ء میں صحت نے ایک دم جواب دے دیا‘ جس کی تفصیل میں اپنی دوسری تحریر میں درج کر چکا ہوں۔ قصہ مختصر یہ کہ اواخر 70ء میں میں اس دوراہے پر کھڑا تھا کہ ’’یاچناں کن یا چنیں‘‘ کے مصداق یا تو یہ دعوت و تحریکِ قرانی جس حد تک آگے بڑھ آئی ہے اس سے بھی قدرے پسپائی اختیار کرکے اسے روک دیا جائے کہ بس اس سے زیادہ نہیں‘ یا پھر میڈیکل پریکٹس کو خیر باد کہہ کر ’’ہمہ تن اور ہمہ وقت‘‘ اسی میں لگ جایا جائے۔ اور الحمدللہ کہ فروری71ء میں حج کے موقع پر ارضِ مقدس میں حتمی طور پر مؤخر الذکر فیصلہ کرکے راقم واپس آیا اور آتے ہی مطب بند کردیا اور جملہ اوقات اور کل توانائیاں اسی ایک کام پر مرتکز کردیں تو مارچ 71ء سے اس دعوت و تحریک کی رفتار پہلے سے ایک دم کئی گنا بڑھ گئی ۔ چنانچہ ایک جانب تو اس کا لاہور سے باہر دائرہ اثر جو اس وقت تک صرف میثاق اور دوسری مطبوعات یا گاہے گاہے بیرونی اسفار تک محدود تھا ایک دم بہت وسعت اختیار کر گیا (اس کا تفصیلی ذکر اس دعوت و تحریک کے دورِ ثانی کی روداد کے ضمن میں آئے گا) اور دوسری جانب 21مارچ 1972ء کو ’’مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور ‘‘کا قیام عمل میں آگیا اور یہ دعوت و تحریک اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی۔