’’دعوت رجوع الی القرآن کا منظر وپس منظر‘‘محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی تالیف سے چند اقتباسات
(مطبوعہ مارچ۱۹۹۰ء)
مذکورہ تالیف ڈھائی سو سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس میں محترم صدر مؤسس کی ایک تحریر ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ اور بعض انتہائی اہم مضامین جو ماضی میں ماہنامہ میثاق کے صفحات کی زینت بنتے رہے ہیں‘ شامل ہیں‘تاہم ان صفحات میں محترم صدر مؤسس کے قلم سے نکلی ہوئی تیس صفحات پر مشتمل ایک بہت خوبصورت تحریر میں سے منتخب پیراگراف شامل کیے گئے ہیں جوبعنوان ’’مقدّمہ‘‘ مذکورہ تالیف کے آغاز میں موجود ہے۔ اگرچہ اس بات کا اہتمام کیا گیاہے کہ ان اقتباسات میں ’’اعادہ و تکرار‘‘ سامنے نہ آئے‘ تاہم اگر کہیں تکرار نظر آ بھی جائےتو اسے راقم کی مجبوری سمجھ کر معاف فرما دیجیے گا۔ شکریہ! (مرتّب)
ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم اس عالم ِآب وگل میں حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بارہ سال بعد اور علّامہ اقبال کی وفات سے چھ سال قبل (۱۹۳۲ء میں) وارد ہوا۔ جب اس نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت شیخ الہندؒ کو تو اُن کے اپنے حلقے کے لوگوں نے بھی فراموش کر دیا تھا‘ البتہ علّامہ اقبال کا طوطی بول رہا تھا اور ان کی کم از کم اردو شاعری کا ڈنکا بر ِعظیم کے طول و عرض میں بج رہا تھا اور اس سے پیدا شدہ جذبۂ ملّی تحریک پاکستان کی روحِ رواں بنا ہوا تھا۔ ان حالات میں جب ۱۹۴۲ء میں راقم نے پانچویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے ’’بانگ ِ درا‘‘ کی مشہور نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ پڑھی تو اُن کا یہ شعر اس کے شعور میں پیوست ہو کر رہ گیا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!لہٰذا راقم نے اپنی نوجوانی میں اگرچہ عملاً تو اوّلاً مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذریعے تحریک پاکستان میں حصّہ لیا اور بعد ازاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے تحریک اقامت ِ دین سے وابستگی اختیار کی ‘ لیکن اس عرصہ کے دوران بحمد ِاللہ قرآنِ حکیم کے ساتھ اُس کے ذہن و قلب کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اس ’’سَیر اِلَی القُرآن‘‘ کے ضمن میں راقم جہاں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور اُن کی تفہیم القرآن اور مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے ترجمان القرآن سے متعارف ہوا ‘اور اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے استاذ اور امام حمید الدین فراہیؒ کے طریق ’’تدبر ِقرآن‘‘ سے روشناس ہوا‘ وہاں الحمد للہ کہ ۱۹۵۲ء کے لگ بھگ اس کا ذہنی و قلبی رشتہ حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمہ ٔ قرآن اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے حواشی کے ذریعے سلف صالحین اور راسخون فی العلم کے ’’عُروۂ وُثقیٰ‘‘ سے بھی قائم ہو گیا۔ اس کے بعد تین چار سال کے اندر اندر ہی راقم کے فہم و فکر ِ قرآن کے ان ’’ابعادِ ثلاثہ‘‘ پر ایک ’’بُعد ِرابع‘‘ (Fourth Dimension) کا اضافہ علّامہ اقبال کے فلسفیانہ اور صحیح تر الفاظ میں متکلمانہ اور متصوفانہ افکار کا ہو گیا (جن کے ضمن میں راقم ڈاکٹر محمد رفیع الدین اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا مرہونِ منّت ہے)۔
---------------------------
راقم کے ’’درسِ قرآن‘‘ کا چرچا زمانۂ تعلیم ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دوران ہو گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد راقم منٹگمری (حال ساہیوال) منتقل ہوا تو اگرچہ اس کے بعد سے ۱۹۶۵ء تک کے گیارہ سالوں کے دوران حالات کے کئی اُتار چڑھائو آئے اور وصل وفصل کی متعدد داستانیں رقم ہوئیں‘ چنانچہ جماعت اسلامی سے وابستگی بھی ہوئی اور پھر سوا دو سال کے بعد علیحدگی بھی۔ مزید برآں دو مرتبہ کراچی نقل مکانی ہوئی۔ ایک بار ۱۹۵۸ء میں اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے نئی رفاقت کی تلاش میں اور دوسری بار ۱۹۶۲ء میں ایک مشترک خاندانی کاروبار کے سلسلے میں -- لیکن الحمد للہ کہ اس پورے عرصے کے دوران ؎
گو مَیں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا!کے مصداق درس و تدریس ِقرآن اور تعلّم وتعلیم ِقرآن کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ چنانچہ ساہیوال میں تو نہ صرف یہ کہ مقامی طور پر میرے درسِ قرآن کا ڈنکا بج گیا تھا بلکہ آس پاس کے شہروں اور قصبوں یعنی اوکاڑہ‘ پاک پتن‘ چیچہ وطنی اور عارف والا میں بھی ماہانہ درسِ قرآن کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اسی طرح کراچی میں بھی کبھی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی مرحوم کے زیر ِاہتمام‘ اور کبھی خود اپنے ہی انتظام وانصرام میں درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں کراچی کی پہلی نقل مکانی کے دوران راقم نے مولانا افتخار احمد بلخی مرحوم سے تفسیر بیضاوی کا ابتدائی حصّہ سبقاً سبقاً پڑھا اور دوسری نقل مکانی کے دوران اُن ہی کے اصرار پر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ۱۹۶۵ء میں ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کر لیا۔ (جس میں اتفاقاً یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن بھی آ گئی!)
۱۹۶۵ء ہی کے وسط میں راقم الحروف غلبہ و اقامت ِ دین کی جدّوجُہد کے پختہ ارادے اور تعلّم وتعلیم قرآن کی منظم منصوبہ بندی کے عزمِ مصمم کے ساتھ دوبارہ واردِ لاہور ہوا۔ چنانچہ وہ دن اور آج کا دن‘ یہی دو کام میری زندگی کا مرکز ومحور رہے ہیں۔ ان پچیس سالوں کے دوران الحمد للہ‘ ثم الحمد للہ کہ میرے اوقات اور میری صلاحیتوں اور توانائیوں کا اکثر و بیشتر حصّہ اصلاً غلبہ و اقامت ِ دین کی جدّوجُہد اور عملاً تعلّم وتعلیم قرآن کی مساعی میں صرف ہوا ہے۔
اِس رُبع صدی کے پہلے پانچ سالوں کے دوران تو ؎
ہے مشقِ سخن جاری ‘ چکی کی مشقت بھی
کیا طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی!کے مصداق میڈیکل پریکٹس کا تسمہ بھی لگا رہا۔ بعد کے بیس سالوں کے دوران تو ع ’’جو لکھا پڑھا تھا نیازؔ نے اُسے صاف دِل سے بھلا دیا‘‘ اور ع ’’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا‘‘ کے مصداق یہ ’’تہمت‘‘ بھی باقی نہ رہی۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے‘ کم از کم ظاہری اور خارجی اعتبار سے اس پورے عرصے کے دوران راقم ’’ہمہ وقت‘‘ اور ’’ہمہ وجوہ‘‘ ان ہی مقاصد عظیمہ کے لیے ’’وقف‘‘ رہا‘ اور ناگزیر استراحت اور ضروری علائق وحوائج دنیوی کے سوا راقم کے وقت کا کوئی لمحہ اور اُس کی صلاحیت اور توانائی کا کوئی شمہ حصولِ دنیا یا تلاشِ معاش کی مساعی میں صَرف نہیں ہوا! فلہُ الحَمد والمِنّۃ!
---------------------------
اب جبکہ راقم کی عمر شمسی حساب سے اٹھاون اور قمری تقویم سے ساٹھ برس ہوا چاہتی ہے‘ اور راقم کی قلبی کیفیت فی الواقع وہی ہے جو انشاء اللہ خاں انشاؔ کے اس شعر میں بیان ہوئی کہ ؎
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیّار بیٹھے ہیں!اور میں واقعتاً اپنے آپ کو الفاظِ قرآنی: {وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ(۸۵)} (الواقعۃ) کے مصداق عالم ِآخرت سے قریب تر اور عالم ِدنیا سے ذہناً اور قلباً بعید اور منقطع محسوس کرتا ہوں۔ جب کبھی تنہائی میں اپنی گزشتہ زندگی خصوصاً اس کے چالیس سالہ شعوری دَور پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اوّلاً تو نہ صرف یہ کہ اپنے باطن میں نہایت گہرے سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ ع ’’جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے!‘‘ بلکہ قلب و روح کی سرزمین پر ایک جاں فزا فرحت اور مسرت آمیز انبساط کی تسکین بخش پھوار سی پڑتی محسوس ہوتی ہے کہ ع ’’شادم از زندگی ٔخویش کہ کارے کر دم!‘‘ -- اور اس کے معاً بعد قلب کی گہرائیوں سے شکر الٰہی اور حمد ِخداوندی کا چشمہ اُبلنے لگتا ہے کہ یہ سب اُسی کا فضل وکرم اور اُسی کی توفیق و تیسیر ہے‘ ورنہ من آنم کہ من دانم! بلکہ یہ تو ایک مشہور مقولہ ہے جو غیر ارادی طور پر قلم سے ٹپک پڑا‘ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ میرے حقیقی اور واقعی احساس کی تعبیر سے قاصر ہے‘ اس لیے کہ بحمد اللہ میرے سامنے تو ہر آن یہ حقیقت رہتی ہے کہ {ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ ج فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی(۳۲)} (النّجم)
قارئین میرے اس اظہارِ اطمینان و انبساط کو کسی تعلّی یا تکبر یا اعجابِ نفس پر محمول نہ کریں۔ اس لیے کہ راقم کے نزدیک اس حقیقت کا شعور و ادراک تو ایمان کا صرف ابتدائی درجہ ہے کہ انسان کا کوئی ارادہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و تیسیر کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ کے فضل وکرم سے راقم الحروف کو تو اِس امر کا بھی حق الیقین حاصل ہے کہ خود انسانی ارادہ بھی سراسر مشیت ِالٰہی کے تابع ہے اور کسی نیک کام کی توفیق و تیسیر ہی نہیں‘ اُس کے ارادے کی ابتدائی تحریک بھی اُسی کی جانب سے ہوتی ہے۔ گویا معاملہ صرف ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ اور ’’لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ہی کا نہیں‘بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر {وَمَا تَشَاءُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللہُ} (الدھر:۳۰) کا ہے! اور میرے نزدیک {ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی(۴۰) وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی(۴۱)} (طٰہٰ) کی کیفیت صرف حضرت موسیٰ ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ مبدء ِ فیاض کی جانب سے جس انسان کو بھی کسی خیر کی توفیق ارزانی ہوتی ہے اس کے معاملے میں کسی نہ کسی درجے میں اِسی کیفیت کا انعکاس موجود ہوتا ہے۔
اور ’’من آنم کہ من دانم‘‘ کے مصداق ظاہر ہے کہ یہ مَیں ہی جانتا ہوں کہ میرا ربّ مجھے کہاں کہاں سے بچا کر لایا ہے‘ کن کن مراحل پر اُس نے میری دستگیری فرمائی ہے‘ اور کن کن مواقع پر اُس نے مجھے گویا دھکیل کر اپنی راہ پر لگایا اور کسی دوسری جانب متوجّہ ہونے سے روکا ہے!
لہٰذا میرا اظہارِ مسرت ہرگز کسی جذبۂ تفاخر و مفاخرت کی بنا پر نہیں بلکہ محض ’’تَحْدِیثًا لِلنِّعمۃ‘‘ہے‘ اور شکر ِخداوندی اور {وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(۱۱)} (الضحٰی) کی تعمیل کے علاوہ اگر کوئی اور جذبہ اس میں شامل ہے تو وہ بھی {فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ} (التوبۃ:۱۱۱)اور {فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا} (یونس: ۵۸) کے سوا کچھ نہیں ---- توکیسے ممکن ہے کہ میں اظہارِ مسرت نہ کروں بلکہ خوشیاں نہ منائوں اس پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک عاجز اور ناچیز بندے کو جس نے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پائی اور جو کالج کی سطح پر نہ کبھی ادب یا فلسفہ کا طالب علم رہا نہ عمرانیات یا اسلامیات کا ‘بلکہ سائنس اور طب کی تحصیل میں مصروف رہا ----- {اِنَّا اَخْلَصْنٰھُمْ بِخَالِصَۃٍ} کے مصداق اپنی کتابِ حکیم کے علم وحکمت اور خاص طور پر اُس کی دعوت کی نشر واشاعت کے لیے اس درجہ ’’خالص‘‘ کر لیا کہ اسے ؎
ما ہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
اِلا حدیث دوست کہ تکرار می کنیم!کے مصداق تعلیم و تعلّم قرآن کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے کوئی دلچسپی نہ رہی ‘اور پھر اس کے درسِ قرآن کو اتنا قبولِ عام بخشا کہ وہ ’’عوامی درسِ قرآن‘‘ کے اُس خواب کی عملی تعبیر بن گیا جو لگ بھگ نصف صدی قبل چودھویں صدی ہجری کے مجددِ اعظم نے دنیا سے رحلت کے قریب دیکھا تھا! ع ’’یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے!‘‘
رہا شکر ِخداوندی ‘تو واقعہ یہ ہے کہ اگر میرے ہر بُن مُو ہی نہیں ‘جسم کے ہر خلیے کو زبان عطا ہو جائے جو ہر لحظہ اور ہر آن حمد و تسبیح میں مشغول رہے‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کے اُس احسانِ عظیم اور فضل کبیر [جو یقیناً {اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا(۷۸)} (بنی اسرائیل) ہی کا ایک ادنیٰ عکس ہے] کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا جو اس عبد ِضعیف پر اس صورت میں ہوا کہ اُس (اللہ تعالیٰ) نے اوّلاً اسے اپنی اُس کتابِ عزیز کے علم وفہم اور ہدایت و حکمت کے ساتھ ذہنی اور قلبی مناسبت عطا فرمائی جسے خود اُس نے {الرَّحْمٰنُ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲)} کی رُوسے اپنی شانِ رحمانیت کا مظہر ِاَعظم قرار دیا ہے اور پھر اُسے اس دَور میں کم از کم اُردو سمجھنے والے لوگوں کی حد تک {خَلَقَ الْاِنْسَانَ(۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)}(الرحمٰن) کی عملی تفسیر بنا دیا۔ پھر اس ’’بیان القرآن‘‘ کے لیے اُس کے ذہن اور زبان کی گرہوں کو اس طرح کھول دیا کہ بلا مبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں انسان اس کے درسِ قرآن کو مسلسل دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے تک بالکل ساکن و ساکت اور ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں اور اُن کی دلچسپی بجائے کم ہونے کے بڑھتی چلی جاتی ہے!
ناواقف حضرات ان الفاظ کو یقیناً مبالغے پر محمول کریں گے‘ لیکن اس تحریر میں اس حقیقت ِواقعی کے مفصل شواہد پیش کرنا نہ ممکن ہے نہ مطلوب! البتہ وہ ہزاروں اشخاص جنہوں نے کبھی لاہور میں مسجد خضراء یا مسجد شہداء کے اتوار کی صبح کے ہفتہ وار درسِ قرآن کا منظر دیکھا ہے‘ یا جنہوں نے کراچی کی بے شمار مساجد میں درسِ قرآن کے اجتماعات اور اُن پر مستزاد تاج محل ہوٹل کے وسیع وعریض آڈیٹوریم میں ’’شامِ الہدیٰ‘‘ کی نشستوں میں سے کسی میں شرکت کی ہے‘ یا جنہیں ستمبر ۱۹۷۹ء میں ٹورنٹو (کینیڈا) کے چودہ روزہ درسِ قرآن کی کیفیات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے ‘یا جنہوں نے دسمبر ۱۹۸۵ء میں ابوظبی کی ہفت روزہ مجالس درس کے شرکاء کے جوش و خروش اور ہجوم و اژدہام کی جھلک دیکھی ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنہوں نے اپریل ۱۹۸۴ء میں مکہ مسجد حیدر آباد (دکن) کا منظر دیکھا ہے جہاں مسلسل تین دن محتاط ترین اندازے کے مطابق پندرہ ہزار مَردوں اور پانچ ہزار خواتین نے ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے خطباتِ قرآنی میں انتہائی ذوق وشوق کے ساتھ شرکت کی تھی‘ وہ گواہی دیں گے کہ مبالغے کا کیا سوال‘ مندرجہ بالا الفاظ تو اِن مجالس کی واقعی کیفیات کی بدرجہ ٔ ادنیٰ ترجمانی سے بھی یکسر قاصر ہیں!
اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن پر لگ بھگ چار سال تک راقم کے ’’بیان القرآن‘‘ کا جو ڈنکا بجتا رہا اُس کی حسین اور خوش گوار یادیں‘ اس کی بندش پر ساڑھے سات سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ‘لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے قلوب و اَذہان میں اب تک تازہ ہیں۔ چنانچہ مسلسل تین سال تک پورے ماہِ رمضان المبارک کے دوران افطار سے متصلاً قبل ’’الکتاب‘‘ اور ’’الٓـــمّ ‘‘کروڑوں بندگانِ خدا کے لیے ’’نُورٌ علٰی نُورٍ‘‘ کے مصداق روزہ کی برکات پر مستزاد روح کی بالیدگی کا سامان فراہم کرتے رہے۔ اسی طرح ’’حکمت و ہدایت‘ ‘کے ذریعے ذہن وفکر کو قرآنی غذا ملی تو ’’رسولِ کاملﷺ‘‘ کے ذریعے قرآنی فلسفہ ٔرسالت اور نبی اکرمﷺ پر نبوت کے اختتام اور رسالت کی تکمیل کے عملی تقاضوں کے شعور کی خوشبو سے پاکستان کی فضائیں معطّر ہوئیں۔ سب سے بڑھ کر جب مسلسل پندرہ ماہ تک ہر ہفتے ’’الہدیٰ‘‘ کے ہدایت آفریں اور ایمان پرور نغموں سے پاکستان کا طول وعرض وجد میں آ گیا (اس لیے کہ یہ پروگرام نیشنل ہُک اَپ پر پاکستان کے تمام ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے بیک وقت ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا)------ تو ایک جانب اسے جو قبولِ عام حاصل ہوا اور اس سے جو شہرت راقم کو حاصل ہوئی اس کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ راقم کو اپنے بارے میں فتنہ و استدراج کے اندیشے لاحق ہو گئے ‘اور دوسری جانب ؎
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں!کے مصداق الحاد اور اباحیت کے ایوانوں میں زلزلہ آگیااور مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کے دلدادہ مَردوں اور عورتوں کی جانب سے الامان والحفیظ کا شور اُسی طرح بلند ہوا جس طرح کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی للکار سے فرعون اور اُس کے حواریوں کے ایوانوں میں {وَیَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی(۶۳)} (طٰہٰ:۶۳) کی دُہائی کی صورت میں ہوا تھا‘ یعنی یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون علیہما السلام ) چاہتے ہیں کہ تمہاری مثالی تہذیب کو تباہ اور تمہارے قابل فخر تمدن کو ملیامیٹ کر دیں‘ پس اپنی پوری قوت کو مجتمع کرو اور ان کے مقابلے کے لیے اُٹھ کھڑے ہو! گویا بقول اقبال ع’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!‘‘
تو کیسے ممکن ہے کہ میری روح وجد میں نہ آئے اور میں اپنے باطن میں اُس کیفیت کے حامل ’’رقص ِجاں‘‘ کا مشاہدہ نہ کروں جس کا نقشہ عرفیؔ نے اپنے اس شعر میں کھینچا ہے کہ ؎
چہ خوش رقصید عرفی ؔبر درِ کاشانۂ وحدت
برہمن گفت ایں کافر چہ استادانہ می رقصد!جبکہ میرے علم میں مخبر ِصادق ﷺ کی دی ہوئی یہ ’’خبر‘‘ بھی ہے کہ:
((مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَن عِنْدَہُ))(صحیح مسلم، عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
’’جب بھی کبھی کچھ لوگ اللّٰہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اُس کی کتاب پڑھتے اور آپس میں سمجھتے سمجھاتے ہیں تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے‘ رحمت ِ خداوندی اُن پر سایہ کر لیتی ہے‘ فرشتے اُن کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کا تذکرہ اپنے مقربین (ملائکہ و ارواح) کے سامنے کرتا ہے۔‘‘
بلکہ اس خبر سے بڑھ کر وہ ’’ضمانت‘‘ بھی ہے جو (جامع ترمذیؒ وسنن دارمیؒ میں وارد) اُس طویل حدیث کے آخر میں وارد ہوئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے‘ جس کے مطابق آنحضورﷺ کے یہ ارشاد فرمانے پر کہ: ’’اِنَّھَا سَتَکونُ فتنۃٌ‘‘ (عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہو گا) جب حضرت علیؓ نے سوال کیا: ’’مَا الْـمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ (اے اللہ کے رسولؐ! اس سے بچ نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا؟) تو اس کا کافی و شافی جواب تو آپﷺ نے دو الفاظ میں ادا فرما دیا یعنی ’’کِتَابُ اللّٰہِ‘‘ لیکن اس کے بعد اس کی مزید تشریح کے طور پر آپﷺ نے کتاب اللہ کی مدح اور اس کی عظمت کے بیان میں فصاحت وبلاغت کے جو موتی پروئے ان میں خود قرآن کی معجزانہ فصاحت وبلاغت کا کامل عکس موجود ہے‘ اور جہاں اس ’’بیانِ عظمت قرآن‘‘ کے تین تین حسین جملوں پر مشتمل یہ حصے بھی لائق حفظ ہیں کہ:
فِیْہِ نَـبَـأُ مَا قَبْلَکُمْ ‘ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ ‘ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ
’’اس میں تم سے پہلے گزر جانے والوں کی اطلاعات بھی ہیں‘ اور تمہارے بعد پیش آنے والے حالات کی خبر بھی ہے‘ اور تمہارے مابین ہونے والے جملہ اختلافات اور نزاعات کا حل بھی ہے۔ ‘‘
وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ‘ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْم
’’یہی اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘ اور یہی حکمت بھرا ذکر ہے‘ اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔‘‘
لَا تَنْقَضِیْ عَجَائِـبُہٗ ‘ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ ‘ وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ
’’اس کی رعنائیاں کبھی ختم نہ ہوں گی‘ اور اہل علم اس سے کبھی سیر نہ ہوں گے ‘اور بار بار پڑھنے کے باوجود اس پر باسی پن طاری نہ ہو گا۔‘‘
مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ ‘ وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ ‘ وَ مَنْ حَکَمَ بہٖ عَدَلَ
’’جس نے اس کی بنیاد پر کوئی بات کی اُس نے سچ کہا‘ جس نے اس پر عمل کیا اس کا اجر محفوظ ہے‘ اور جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا اُس نے انصاف کیا۔‘‘
وہاں آخری نوید ِجاں فزا تو اس قابل ہے کہ ہر خادمِ قرآن اسے حرزِ جاں بنا لے ----- یعنی:
وَ مَنْ دَعَا اِلَـیْہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ
’’(اور سب سے بڑھ کر یہ کہ) جس نے اس کی جانب دعوت دی (خواہ کسی ا ور کو اس سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو) اُس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی !‘‘
ان بشارتوں اور ضمانتوں پر بھی اگر کوئی ’’داعی اِلی القرآن‘‘ فرطِ مسرت سے جھوم نہ اُٹھے تو یا تو اس کا وعظ و درس خالص ریاکاری پر مبنی ہے اور اُس کا ضمیر اسے متنبہ کرتا رہتا ہے کہ تم یہ ساری دوڑ دھوپ خالصتاً لوجہ اللہ نہیں کر رہے‘ یا اُس کی ساری تگ وتاز صرف عقل اور حواس کی وادیوں تک محدود ہے ‘اور ع ’’گزر اُن کا ہوا کب عالم اللہ اکبر میں!‘‘ کے مصداق قلب کی اُس وادی میں اُس نے قدم ہی نہیں رکھا جہاں فطرتِ سلیمہ کی گہرائیوں سے شکر وحمد کے چشمے اُبلتے ہیں اور انشراح و انبساط کے پھول کھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ {یَعْرِفُوْنَ نِعْمَۃَ اللِہ ثُمَّ یُنکِرُوْنَھَا} (النحل:۸۳) کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ!
معذرت خواہ ہوں کہ بات ع ’’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘‘ کے مطابق طویل ہوگئی۔حاصل کلام یہ کہ عمرکے اعتبار سے ’’شامِ زندگی‘‘ کے اُس دَور میں قدم رکھتے ہوئے جس کے بعد ’’صبح دوامِ زندگی‘‘ ہی کے طلوع کا انتظار ہے‘ راقم بحمد ِاللہ اپنے ماضی کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہے کہ ع ’’جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے‘‘ اور ع ’’شادم از زندگی ٔخویش کہ کارے کردم!‘‘ ----- اور ایک عربی مصرعے ’’وَاَرْجُوْہُ رَجَاءً لا یَخِیْبٗ‘‘ کے مصداق راقم کو امید واثق ہے کہ جس نے توفیق عطا کی اور تیسیر فرمائی وہ شرفِ قبول بھی ضرور عطا فرمائے گا۔
{رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۹)}(النمل)
’’اے میرے ربّ! مجھے ہمت عطا فرما کہ میں تیرے اُس فضل کا شکر ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا‘ اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں وہ کام کروں جو تجھے پسند ہوں‘ اور اپنی رحمت کے طفیل مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے!‘‘
---------------------------
راقم کن الفاظ میں اللّٰہ کا شکر ادا کرے کہ اُس نے ۱۹۶۷ء میں ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا جو خواب دیکھا تھا‘ اُس کے لیے ۱۹۷۲ء میں ایک باضابطہ ’’انجمن‘‘ قائم ہو گئی‘ ۱۹۷۶ء میں اُس کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا‘ ۱۹۸۲ء میں ’’قرآن اکیڈمی فیلو شپ اسکیم‘‘ کا آغاز ہوا‘ ۱۹۸۴ء میں ’’دو سالہ تدریسی اسکیم‘‘ شروع ہوئی اور ۱۹۸۷ء میں قرآن اکیڈمی کی کوکھ سے ’’قرآن کالج‘‘ برآمد ہو گیا۔ راقم کو تو اس میں بھی جھلک نظر آتی ہے اس تمثیل قرآنی کی کہ:
{کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ط} (الفتح: ۲۹)
ویسے راقم کے نزدیک یہ اصلاً علّامہ اقبال اور مولانا آزاد ہی کے خوابوں کی تعبیر ہے جو اللہ نے اپنے اس بندۂ ناچیز کے ذریعے ظاہر فرمائی۔ لہٰذا ’’الفَضلُ لِلمُتَقَدِّم‘‘ کے مطابق اجر وثواب میں بڑا حصّہ انہی کا ہے۔
جیسے کہ ’’انتساب‘‘ سے ظاہر ہے‘ یہ تالیف میں نے اصلاً اُن نوجوانوں ہی کے لیے مرتّب کی ہے جو حدیث ِ نبویؐ ((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ)) کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنا لیں۔ ان شاء اللہ العزیز ایسے نوجوانوں کو اس کے ذریعے اُن موجود الوقت علمی و فکری اور تہذیبی وثقافتی ظروف و احوال کا فہم و شعور بھی حاصل ہو جائے گا جن میں انہیں ’’دعوت اِلی لقرآن‘‘ کا فریضہ سر انجام دینا ہے اور ع ’’اپنی خودی پہچان!‘‘ کے مصداق اپنی اُس نسبت ِ عالیہ کا ادراک بھی ہو جائے گا جو خدمت ِ قرآن کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے ناطے انہیں گزشتہ تین صدیوں کے اُن اعاظم رجال سے حاصل ہو گئی ہے جنہوں نے ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ کے شجرۂ طیبہ کی آبیاری کی ہے۔ مزید برآں ‘اللہ کے ایک بندۂ حقیر کی سرگزشت کے حوالے سے یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ اگر طلب صادق اور عزمِ راسخ ہو تو اللہ تعالیٰ ع ’’ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں!‘‘ کے مصداق کیسی کیسی عنایتیں فرماتے ہیں‘ اور اپنے اس حتمی وعدے کے مطابق کہ {وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط} (العنکبوت:۶۹) کیسے کیسے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں اور {وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط} (الج:۴۰) کی کیسی کیسی صورتیں سامنے آتی ہیں!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025