(لمحۂ فکریہ) نیرنگی ٔ سیاست ِ دوراں - ڈاکٹر ابصار احمد

24 /

نیرنگی ٔسیاست ِدوراںڈاکٹر ابصار احمدپچھلے دنوں ’الخدمت فائونڈیشن‘٭ کے زیرانتظام ’’بنوقابل‘‘ پروگرام کے تحت منعقدہ بچیوں (میٹرک اور اس سے اوپر تعلیم یافتہ) کے لیے آئی ٹی ٹریننگ کورسز کے لیے ٹیسٹ میں شہر بھر سے نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پورے کراچی اور مضافات میں ’’بنوقابل‘‘ اور ’’کراچی کی بیٹیو‘ پڑھو‘ آگے بڑھو‘‘ کے نعروں پر مبنی اس ٹیسٹ کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ چنانچہ پچاس ہزار طالبات نے ٹیسٹ کے لیے رجسٹریشن کروائی اور ہزاروں پر مشتمل جم غفیر نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور ان کے معاونین ‘ معروف تعلیمی اداروں اور پیشہ ور افراد کے علاوہ کئی ٹی وی آرٹسٹ اور اینکرپرسنز کے ساتھ ’’بنوقابل میگا پروجیکٹ‘‘ کے اس پروگرام میں کنٹینروں پر قائم کیے گئے وسیع سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کراچی کو ملک اور خطے کی ایک اہم انفارمیشن ٹیکنالوجی سٹی بنانے کے عزم اور شہر میں ITیونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنانے کا اظہار بھی فرمایا۔ کراچی کے لڑکے اور لڑکیوں کے بعد اب وہ گھریلو خواتین کی فنی تعلیم کے لیے بھی پروگرام بنا رہے ہیں اور ان کو بھی آئی ٹی کورس کروانے کا اعلان کیا۔ سٹیج پر انٹرٹینمنٹ شخصیات‘ اہم بزنس اور سوشل influencers کا جمگھٹاتھا جو ظاہر ہے طالبات کو متأثر کرنے اور ان کا ذوق وشوق بڑھانے کے لیے تھا۔ اس پورے پراجیکٹ کے حوالے سے معروف اینکر خاتون شائستہ لودھی کو الخدمت کی سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ کامیاب طالبات کو چار سے چھ ماہ مدّت کے مختلف آئی ٹی کورس مفت کروائے جائیں  گے اور پھر جماعت اور الخدمت ملازمت کی تلاش میں بھی مدد فراہم کریں گی۔ موقر انگریزی اخبارات نے بالخصوص بڑے سائز کی تصاویر کے ساتھ اس اہم پروگرام کی کوریج کی۔ طالبات سے ایک عہد بھی لیا گیا جس کے دو جملے قابلِ ذکر ہیں: ’’پاکستان اور اس کے اسلامی نظریے کی وفادار رہوں گی ....اپنے اخلاق و کردار سے خاندان اور ملک و ملّت کی عزت میں اضافے کا سبب بنوں گیـ۔‘‘ جماعت اسلامی اسلام آباد کی اہم شخصیت میاں محمد اسلم نے بھی کراچی کی طرح پچاس ہزار لڑکے لڑکیوں کو عالمی معیار کی بہترینIT ٹریننگ سے گزار کر پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے لیے تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مؤسسہ جماعت اسلامی کو پاکستان کے اسلامی سیکٹر میں امکانات کے لحاظ سے یہاں کے سب سے زیادہ باوسائل اور سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے گروہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مؤسس جماعت کے خلاق ذہن‘ عام فہم نثر‘ غیرمعمولی لسانی شعور کے ساتھ ادبیت اور قرآن و سُنّت سے علمی و انجذابی وابستگی نے وقیع و شاندار علمی دینی لٹریچر اور تفسیر قرآن میں ظہور کر کے لاتعداد خواتین و حضرات کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ان کی زندگیوں میں ایمان و یقین کی جوت جگا کر شروع کے عشروں میں بڑی تبدیلی برپا کی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تحریکی جماعتی مساعی کے ذریعے اپنے قارئین اور سامعین کے ذہن میں یہ بات پختگی کے ساتھ بٹھائی کہ ہر قوم اور تہذیب کا طرزِ زیست اس کے تصوّرِ حقیقت ِاعلیٰ یعنی عقیدۂ الٰہ‘ تصوّرِ انسان اور تصوّرِ کائنات کے تابع ہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور موت ہرفرد کے لیے وقت مقررہ پر آکر اسے ایک دوسرے جہان میں منتقل کر دینے والی ہے جہاں اس کے ایمان اور اعمال کا محاسبہ ہو گا۔
کلام اللہ کا ہر صفحہ دین اسلام کے اس بنیادی مقدّمے کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کرکے انسانوں کو مرید ِدنیا اور مرید ِ آخرت کے دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے: {مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ} (آلِ عمران: ۱۵۲) ۔ چنانچہ دین کی حقیقت پوری زندگی اور ہمہ جہت آئین بند گی ہے۔ اس پورے تناظر میں اصل‘ حقیقی اور نافع علم وہ ’العِلم‘ ہے جو وحی پر مبنی ہے یعنی ما قال اللّٰہُ وقال الرَّسول۔ چنانچہ مسلمانوں  کے لیے کلام اللہ اور سُنّت ِرسولﷺ کا علم بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو ہماری انفرادی و اجتماعی ہر قسم کی اَقدار‘ اَہداف اور اَخلاق و روحانی تحرک کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ ایمان و عمل کے اس عظیم دعوتی اور ربانی فہم کو توسیع دینے اور عمومی بنانے کے لیے ضروری خیال کیا گیا کہ ہر جگہ تذکیر بالقرآن‘ سیرتِ نبویؐ اور اُسوئہ صحابہ کرامؓ کے سنجیدہ دعوتی و تربیتی حلقے قائم کیے جائیں‘ کیونکہ نبی مکرم ﷺ کی سُنّت اور اَتقیاء و صلحاء کی سیرت سے بڑھ کر کوئی فلسفہ و فکر اور آئیڈیالوجی نہیں جو انسانیت کے لیے حیات بخش ثابت ہو۔ مولانا مودودیؒ کے فکر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ خدا پرستی اور اتباعِ رسولؐ پر مبنی دینی و روحانی کلچر وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ کے فکر شہادتِ حق علی الناس اور غلبہ ٔدین سے انسپیریشن لے کر بانی تنظیم اسلامی اور مؤسس انجمن خدّام القرآن برادر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے پاکستان کے طول و عرض اور کئی بیرونی ممالک میں دروسِ قرآنی کے ذریعے ’’رجوع الی القرآن‘‘ کے عنوان سے پانچ چھ دہائیوں کے دوران شدید محنت کر کے عوام کی سطح پر اور تعلیم یافتہ حضرات و خواتین میں بھی مسلم شناخت کی حقیقی معنویت اور قرآن وسُنّت کے حوالے سے مسلمانوں کے فرائض کا شعور پیدا کیا۔
راقم کا خیال تھا (اور خواہش بھی!) کہ جماعت کے کثیر الاشاعت ہفتہ وار ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں جناب شاہنواز فاروقی صاحب جو نظریاتی طو رپر ایک باریک بین اور نکتہ شناس مصنف اور علّامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ’’مرد خبیر‘‘ ہیں‘ وہ حافظ نعیم الرحمٰن کے ’’بنوقابل‘‘ میگا پراجیکٹ اور طالبات و خواتین کی empowerment اور معاشی آسودگی و خود مختاری (جو تحریک نسواں کے نعرےہیں) کے حوالے سے مؤسس تحریک ِاسلامی کے بنیادی اسلامی عائلی نظام کے نقیض پروگرام اور تہذیبی فکری تحولِ عظیم پر ناقدانہ تبصرہ کریں گے۔ لیکن معاملہ ع ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘ والا ہوا۔ اس اہم پروگرام کے فوری بعد شائع ہونے والے شمارے میں فاروقی صاحب کی دو تحریریں قارئین کے مطالعے میں آئیں: ایک ’’معاشرے میں کرداری نمونوں کا بحران‘‘ کے عنوان سے اور دوسری ’’کفر تک لے جانے والی غربت‘ خود کشی تک لے جانے والا معاشی دبائو‘‘۔ ایک دوسرے مستقل قلمکار اے اے سیّد نے اس پورے ایونٹ کی واقعاتی تفاصیل تحریر کیں۔ فاروقی صاحب نے اشارتاً بھی یہ نہیں کہا کہ یہ پورا پراجیکٹ ہمارے دینی و ملّی مواقف اور روایت کی قربانی اور مغربی استعماری جدیدیت (modernity) کے عزائم کی تکمیل کا باعث بنے گا۔ عیسائی دنیا میں مارٹن لوتھر اور بعد ازاں کئی دوسرے مفکرین کے زیراثر عیسائیت میں دین اور دنیا کی ثنویت اور دنیا پرستی پر ارتکاز اپنی پوری شدّت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے اور عیسوی زمین سماوی ہدایت کے چشمہ فیضان سے منقطع ہو کر خالص مادّہ پرستانہ دلدل میں اتر گئی۔ یورپ نے حلال و حرام کی تمیز اٹھا دی اور جوع الارض اور مادی فوائد اس کے لیے سب سے پُرکشش مقاصد ِحیات ٹھہرے۔ اسلامی تصوّرِ ایمان و علم انسان میں خدا خوفی کا احساس راسخ کرتا ہے‘ جبکہ جدیدیت کا کج نظر اور بوداتصوّرِ علم اس کی آنکھ بے نم اور دل پتھر کا کر دیتا ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستہ اصحابِ فکر و دانش بخوبی جانتے ہوں گے کہ جدید ٹیکنالوجی انسان اور انسانیت کو کس طرح تبدیل کر رہی ہے۔ جدید فکر انسان کو محض ایک جبلی اور نفسی خواہشات کو پورا کرنے والے ارتقائی ’’ہیومن‘‘ کی صورت میں پیش کرتی ہے جبکہ قرآنی ہدایت کے تناظر میں ہمارا بنیادی وصف یا essence ’انسان‘ ہونا نہیں بلکہ ’’بندہ‘‘ ہونا ہے‘ کیونکہ اسلامی وجودیات میں وجود دو ہی ہیں:ایک اللہ اور دوسرے ماسوا اللہ یعنی اوّل الذکر خالق‘ الٰہ یا معبود اور ثانیاً مخلوقات یا بالفاظِ دیگر اللہ کے تمام بندے۔ چنانچہ جمادات‘ نباتات چرند پرند اور انسان سب اللہ کےبندے اور مخلوق ہیں۔ انسانوں کے سوا تمام مخلوقات کی ’’بندگی‘‘ بالاجبار یا بالتسخیر ہے جبکہ انسان (مرد و عورت دونوں) کو تکوینی بندگی میں محدود اختیار بھی دیا گیا ہے جس کی بنیاد پراسے تشریعاتِ الٰہی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ چاہے تو وہ انہیں قبول کر کے ان پر عمل کرے اور چاہے تو انکار کرکے کفر کا ارتکاب کرے۔ قصہ آدم و ابلیس اسی انسانی اختیار(Human free-will) کا بیان ہے۔ اس حوالے سے ہم مسلمانوں کی اصل اور بنیادی شناخت (essential identity) تسلیم و رضا کے ساتھ اللہ کے بندے اور رسول اللہﷺ کے اُمتی ہونے کی ہے۔دین اسلام اس اعتبار سے آئین بندگی کا نام ہے۔اس کے لیے سہولت جہاں ایک جانب نوعِ بنی آدم میں روحِ ربانی کا پھونکا جانا اور دین فطرت پر ہر بچے/بچی کی پیدائش ہے‘ تو دوسری جانب سلسلہ نبوت اور اس کی آخری کڑی ختم المرسلینﷺ کے ذریعے اُمور دینی کا پورا ضروری علم اور عملی نمونہ ہے جو محفوظ شکل میں سلف صالحین سے چلا آ رہا ہے۔
آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف دعوت دینے والے حضرات کے علم میں ہونا چاہیے کہ اس وقت دنیا کے اکثر بڑے مفکرین اور صاحبانِ عقل و دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عصری گلوبل مسائل مثلاً نیوکلیئر تباہی کا خطرہ‘ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیاں‘ انسان کا احساسِ بیگانگی یا ذہنی مسائل اور اُلجھنیں وغیرہ کے پیچھے اصل ہاتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے اور وہ اس کو زیربحث لا کر problematizeکر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جرمن فلسفی کانٹ سے شروع ہونے والی تحریک تنویر (Enlightenment project) نے تقریباً تمام ادیانِ عالم میں پائی جانے والی انسانی مابعد الطبیعیاتی عظمت کو پاش پاش کر کے اسے نفس‘ خودی‘ قلب اور روح سے تہی دست (dehumanize) کر دیا۔ مغرب میں واقع ہونے والے صنعتی انقلاب کے سماجی و اخلاقی اثرات کو ہمارے وِژنری شاعر علّامہ محمد اقبالؒ نے تقریباً ایک صدی قبل اس شعر میں بیان کیا تھا ؎ 

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

 

احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات

اسلامی سیکٹر کے اہل علم کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوناچاہیے کہ جس طرح انسان کی روحانی مابعد الطبیعی فطرت کو ڈارون‘ فرائیڈ یا ایلن ٹورنگ نے چیلنج کیا تھا وہ پرانا قصہ ہے اور بات اب بہت آگے نکل گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائبر سپیس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ان کے زیراثر پروان چڑھنے والے سماجی علوم نے مل کرایک بالکل نیا تصوّرِ انسان وضع کیا ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ وجود کو بھی ایک بالکل نئے انداز سے ڈیفائن کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک اہم مغربی دانشور کے مطابق ٹیکنالوجی اب ہماری ontologyہی نہیں بلکہ ecologyبھی بن گئی ہے‘ یعنی فرد اور پورا ماحول عالمگیریت کے سائے اور ڈیجیٹل دنیا کا عکاس اور پروردہ ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کے اشتراک سے انسان کی فطری تخلیق میں تبدیلی کر کے ایک طرح کا ٹرانس ہیومن وجود میں لانے کی سکیم تیار کی جا رہی ہے۔ اینڈرائڈ (سمارٹ موبائل فون) نے جس طرح ہمارے نوجوانوں کے ذہن اور لائف سٹائل کو تبدیل کیا ہے وہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آج ہم بے حیائی اور فحاشی میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ہمارا وقت فیملی‘ عبادت گاہ یا نیچرل بیوٹی کی سیرگاہوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے مختلف قسم کی سکرینوں کو دیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ ہم صورتوںimages)) کے سحر سے نکل کر کبھی کچھ لمحات خود احتسابی اور دروں بینی کے لیے نہیں نکال پاتے۔ جدید انسان کے لیے اب اصل علم وہ ہے جو وہ مغرب سے آئے ہوئے افکار میں دیکھتا ہے۔ بالعموم اس کے لیے جدیدیت اور لبرل ازم کے ڈسکورس میں کسی روحانی یافطرت سے ماورا عنصر کی کوئی گنجائش نہیں۔ انسان اب جبلی خواہشات اور سفلی جذبات کے تحت حرکت و عمل کرنے والا معاشی حیوان (Homo economicus) بن چکا ہے۔سکرینز پر دیکھے جانے والا امیج کلچر شہوات کو بڑھاوا دینے کا مؤثر ذریعہ ہے اور نتیجتاً اِس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔
مندرجہ بالا منظر نامے کاتقابلہ اگر ہم اپنے دینی مسلمات اور معتقدقات سے کریں تو ہمیں واضح تضاد اور ٹکرائو نظر آتا ہے۔ معروف تابعی حضرت حسن بصریؒ کے بقول دنیاسب کی سب اجاڑ ہے سوائے علماء کی مجالس کے‘اگر یہ نہ ہوں تو لوگ بالکل چوپائوں کی طرح ہو جائیں۔ بلاشبہ قرآن و سُنّت نے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اقتصادی فلاح و انصاف اور سوشل جسٹس پر زور دیا ہے اور اس ضمن میں مرفہ الحال مسلمانوں کو کم وسائل اور کمزور وں کی مالی مدد کی بالصراحت تاکید کی ہے ۔ فرض زکوٰۃ اور صدقات و خیرات اورانفاق فی سبیل اللہ کی مدّات سے غرباء و مساکین کی مدد کرنے پر صاحب ِثروت حضرات کے لیے عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ چنانچہ شاہ نواز فاروقی صاحب نے پاکستان اور بالخصوص کراچی میں غربت و عسرت سے تنگ آئے لوگوں کے انتہائی منفی اقدام کو یقیناً بجا طور پر اُجاگر کیا ہے اور اس کا تدارک حکومتی سطح پر بھی اور اہلِ خیر حضرات کی جانب سے بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کم آمدنی والے خاندان میں سربراہ خانہ کی دو ملازمتوں کی تنخواہ سے بھی گزارا نہیں ہوتا تو خاتونِ خانہ اور بیٹی بھی شرعی حدود اور حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے گھر میں یا باہر بھی جز وقتی جاب کر کے گھر کے اخراجات میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ لیکن جس طرح سوشل میڈیا پر موٹیویشنل سپیکرز کی طرف سے IT کے ذریعے کمائی اور مرفہ الحالی کا حصول اور دولت کی اندھی پرستش ایک باقاعدہ ٹرینڈ بن گیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور غیر اسلامی ہے۔ ویسے بھی کارپوریٹ بزنس دفاتر میں نوجوان خواتین کا ملازمت کرنا ہمارے روایتی خاندانی نظام کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ ہم اس پورے مخلوط سسٹم کے تحت مغرب میں فیملی لائف اور خاندانی یونٹ کے ٹوٹنے سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ المیہ یہ ہے کہ مذہبی لیڈر شپ بھی اس حقیقت سے اغماض برتتے ہوئے طالبات کو آگے بڑھنے اور ’’قابلیت‘‘ بڑھا کر کمائی کرنے کی پُرکشش نفیر عام دے رہی ہے اور ہمارے دینی لٹریچر کی اہم اصطلاحات‘ قوتِ لایموت‘ قناعت اور رزق کفاف کو پس پشت ڈال کرحقوق النفس سے آگے بڑھ کر حظوظ النفس اور تنعم و تلذذ کی طرف دعوت دے کر آخرت میں ان کا حساب مشکل بنا رہی ہے۔ حدیث ِ نبویؐ ہے: ((اِنَّ البَذاذَۃَ مِنَ الایمان)) (رواہ ابوداود وابن ماجہ واحمد) یعنی سادگی‘ خستہ حالی اور کھردری زندگی بسر کرنا ایمان سے ہے یا اس کی نشانی ہے۔ ’قرون مشہود لھا بالخیر‘ میں ہماری یہی اعلیٰ قدریں تھیں جن کی طرف توجّہ بدقسمتی سے اب اہل دین کی بھی نہیں ہے۔ یہ نیرنگی ٔسیاست ِدوراں نہیں تو اور کیا ہے؟
گویاہم بحیثیت ِمعاشرہ دین اور دین داری میں اصلاح اور ترقی کی بجائے جس طرح دنیاداری اور مادّی سوچ کی طرف بگ ٹٹ بھاگ رہے ہیں اسے ہر فہیم ذہن اور دینی سوجھ بوجھ والا شخص دیکھ سکتا ہے ۔ ایمان اور یقین قلبی میں افزائش جو تلاوت کلام پاک ‘ اس کے معانی و مطالب کے مطالعے اور پنج وقتہ نماز کی پابندی سے حاصل ہوتی ہے‘ وہ اب ہماری ترجیحات اور مصروفیات میں کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر بھی اب جس قسم کی اسٹریٹجی اپنا کر اپنے آپ کو عوام میں پاپولر اور معاشرے میں مؤثر بنانا چاہ رہا ہے‘ وہ سراسر مغربی لبرل تہذیب کی فاتحانہ پیش قدمی کا آئینہ دار ہے۔
راقم کی اس مختصر تحریر میں مغربی جدیدیت اور لبرل ازم کی اصطلاحات آئی ہیں جن کی تفصیلی اور فکر انگیز وضاحت کے لیے مَیں قارئین کی توجّہ قرآن اکیڈمی (انجمن خدام القرآن لاہور) کے استاذ اور انجمن کے رکن شوریٰ ڈاکٹر رشید ارشد صاحب کی ویڈیوز کی طرف مبذول کرائوں گا۔ انہوںنے بیس ہفتوں میں فہم و تنقید جدیدیت پر تقریباً ۳۰ گھنٹے کے ہفتہ وار لیکچرز دیے۔ یہ پروگرام ۲۱ جولائی سے ۱۵ دسمبر ۲۰۲۲ء تک جاری رہا۔ غالباً یہ youtube پر موجود ہیں۔ انہی محاضرات کا خلاصہ عزیزم نے کراچی میں How Technology is changing us کے عنوان پر ------بیسیوں کتابوں کے حوالوں کے ساتھ ------ لیکچر کی صورت میں دیا ہے۔ اُمید ہے قارئین حکمت قرآن خود بھی ان سے استفادہ کریں گے اور اپنے احباب سے بھی شیئر کرکے ان مفید اور علمی ایمانی افکار کو پھیلائیں گے۔