(تعلیم و تعلم) مباحث ِعقیدہ (۱۳) - مؤمن محمود

24 /

مباحث ِعقیدہ(۱۳)مؤمن محمود

خطبہ مسنونہ کے بعد !
{وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآئَ اللّٰہُ لا لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ج اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْکَ مَالًا وَّوَلَدًا(۳۹) }(الکھف)
’’اور جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوا تو تُو نے یوں کیوں نہ کہا: ماشاء اللہ! (یعنی یہ سب اللہ کے فضل و کرم سے ہے۔) اللہ کے بدون کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تم سے مال اور اولاد میں کم ہوں۔‘‘
اَسماء ِحسنیٰ اور ان کے احوالی نتائج
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے صفت ارادہ کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کی جاچکی ہیں او ر امید ہے کہ آج صفت ارادہ کی بحث ہم اختتام او ر تکمیل تک پہنچائیں گے ۔میں نے ابتداء میں امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’الـمقصد الاسنٰی فی شرح اسماء اللّٰہ الحسنیٰ‘‘ کاذکرکیاتھا۔اس میں وہ جس اسم کوبھی لے کرآتے ہیں اور اس کی شرح بیان کرتے ہیں توساتھ یہ بھی بتاتے ہیںکہ اس اسم کے مقابل انسان کے اندر کیاعبودی احوال پیدا ہونے چاہئیں اور عبودیت کے کون کون سے مظاہر اس کے جوارح سے ظاہر ہونے چاہئیں۔ اگر اللہ قادر ہے (صفت قدرت کے مطابق) ‘اللہ مرید ہے (صفت ارادہ کے مطابق)‘اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے کے بغیر دنیا میں کچھ ہوتا نہیں تو اس کے نتیجے میں کیااحوال ہیں جوایک بندئہ مومن اور ایک مسلمان میں پیدا ہونے چاہئیں۔سورۃ الکہف کی مذکورہ بالا آیت کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ اس آیت میں صفت ِقدرت اور صفت ِارادہ کو جمع کیاگیاہے۔اس آیت میں باغ والوں کے قصے کا تذکرہ ہے ۔ان میں سے جونیک ہے وہ دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے :
{وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآئَ اللّٰہُ}
’’اور جب تُواپنے باغ میں داخل ہوا تو تُو نے یوں کیوں نہ کہا: ماشاء اللہ! (یعنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہے۔)‘‘
اس میں صفت ِمشیت کا بیان ہے اور{ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ج } میںصفت ِقدر ت کابیان ہے کہ اگر تم باغ میں داخل ہوئے توتم نے یہ کیوںنہ کہہ دیاکہ ماشاء اللہ‘جوچاہااللہ نے اوراللہ کے سوا کوئی قوت نہیں ہے ‘کوئی قدرت نہیں ہے‘ کوئی مدد نہیں ہے ‘کوئی توفیق نہیں ہے ۔علماء نے کہا کہ دوسرا جوباغ والاہےجوخدا سے زیادہ اپنے آپ پراعتماد کرتاہے‘ وہ جوباتیں کررہاہے گویااس کامطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ان دوصفات پریاتوایمان نہیں رکھتایااللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ان دوصفات کوماننے کے نتیجے میں جواحوال پیدا ہونے چاہئیں وہ اس کے اندر پیدا نہیں ہوئے۔ آگے وہ کہے گا:{ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا(۴۲)} ’’ہائے میری شامت! کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔‘‘ { مَا شَآئَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ج } کامطلب ہے کہ جوہوا اللہ کی مشیت اور قدرت کے ساتھ ہوا۔ یہ ارادہ اور قدرت کا بیان ہے اور یہی وہ بات ہے جس کواللہ کے نبی ﷺ نے’’ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْـجَنَّۃَ ‘‘ (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ)قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:((لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ)) (جامع ترمذی) کہ نہ کوئی حرکت ہے نہ کوئی قوت ہے‘ مگر اللہ کی توفیق‘ اللہ کی مدد ‘ اللہ کی مشیت‘ اللہ کے ارادے اور قدرت کے ساتھ۔ یہی بات اللہ کے نبیﷺ نے ایک دوسری حدیث میں فرمائی :
((اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ ‘ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ‘ وَلَا رَادَّ لِمَا قَضَیْتَ ‘ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْـجَدِّ مِنْکَ الْـجَدُّ)) (صحیح البخاری)
یعنی ’’اے اللہ! جسے تُو عطا کردے اُس سے روکنے والا کوئی نہیں‘اورجس سے تُوروک لے اسے دینے والا کوئی نہیں ‘ اورتیری قضا کوردّ کرنے والا کوئی نہیں ہے‘اورشان والے کو اُس کی شان تیرے مقابلے میں نفع نہیں دیتی‘‘۔یہ جوعبودی احوال ہیں ان کے نتیجے میں انسان ہرقسم کے عُجب اور تکبر سے پاک ہوجاتاہے ۔یعنی ’’مَاشَاءَ اللّٰہُ‘‘ اور ’’لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ اگر حال بن جائے تووہ شخص کیونکراپنے نیک اعمال اور اپنے اعمالِ صالحہ کی بنیاد پر عجب میں گرفتا ر ہوگا! وہ اپنے اعمال ‘قوت اورقدرت پرنگاہ نہ ڈالے گا‘بلکہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت اور اُس کی قدرت کا مشاہدہ کرے گا۔ یقیناًایسا شخص جوواقعی اس عقیدے کواپناحال بناچکاہو اورواقعی یہ عقیدہ اس کے وجود میں ڈھل چکا ہوتوایساشخص عجب اور تکبر سے پاک ہوجائے گا۔امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے ارادے اورقدرت پرایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ جو بھی خیرتمہارے پاس ہے اسے اپنی قوت اور اپنے ارادے کا نتیجہ نہ دیکھو۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ}(النحل:۵۳)۔’’جوبھی تمہیں نعمت ملے گی وہ اللہ کی طرف سے ہے‘‘۔ اوریہی بات پہلے ہم نے ارادے کے بیان میں دیکھی تھی کہ ہمارے پاس ذاتی کچھ بھی نہیں ہے ۔یعنی اگرہماراارادہ اور وجودذاتی ہوتا توہروقت ہوتا۔یہ اگر عدم کا شکار ہوجاتا ہےتواس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عرضی ہے ‘کہیں سے ملا ہے۔ اور ذاتی کسی او ر کے پاس ہے۔
مخلوق کے پاس ذاتی (intrinsic)صرف عدم ہے
علماء نے کہا کہ ہمارے پاس ذاتی کوئی وجودی شے نہیں ہے بلکہ صرف سلبیات ہیں ۔یعنی ہمارے پاس کسی شے کا نہ ہونا ذاتی ہے ۔ اگرعلم وجودی شے ہے تواس کے مقابلے میں عدمی شے جہل ہے اوریہ ہماراذاتی ہے یعنی کچھ بھی نہیں ہے۔ جہل توعدم کانام ہے ۔یعنی اگر ہم نے کہناہے کہ ہمارے پاس ذاتی کچھ ہے تووہ جہالت ہے ۔اگراللہ قادر ہے توہمارے پاس عجز ہےیعنی ہمارے پاس قدرت کا عدم ہے ۔ فقر اور احتیاج ہمارا ذاتی ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیےکمال ‘غنیٰ اور صمدیت ذاتی ہیں ۔ انسان جب ان صفات کوکامل طورپراللہ کے لیے مانتاہے توپھران صفات کی اپنے اندر سے نفی بھی کرتاہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے بالکلیہ ارادے کی نفی کردےگا بلکہ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ اب ارادہ کرتے وقت اپنے ارادےپربھروسہ نہیں کرے گا۔یہ اگلاعبودی حال ہے جوصفت ارادہ سے پید اہوتاہے ۔یعنی جب اللہ تعالیٰ ’’المرید‘‘ ہے اور اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتاتومیں جو ارادہ اور مشیت کرنے لگا ہوںوہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوسکتی جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارادہ اورمشیت نہ ہوتومیں اپنے ارادے اور مشیت میں بھی اللہ سے توفیق کاطلب گار رہوں گا۔بہرحال {وَمَا تَشَاءُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ اللہُ} کامطلب یہ نہیں کہ تم ارادہ اور مشیت چھوڑ دو‘بلکہ مفہوم یہ ہے کہ اپنے مشیت اور ارادے پر اعتماد نہ کرو‘بھروسہ اور توکّل نہ کرو ‘بلکہ اللہ سے توفیق کے طلب گار رہو۔
مسنون دعا ہے : ((اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ))(سنن ابی داوٗد) ’’اے اللہ !اپنے ذکراور شکر اور بہترین طریقے پر عبادت کرنے میں میری اعانت فرمائیے۔‘‘ پھر اسی طرح {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} کایہی مفہوم ہے ۔ ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کامطلب ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کریں گے‘ لیکن یہ دعویٰ اپنے اندر ایک معمولی سازعم رکھتاہے کہ ہم کرسکتے ہیں عبادت۔یعنی ہمارے اندر قوت ہے قدرت ہے کہ ہم تیری عبادت کرسکیں۔اس کے اندر تکبر اور عُجب کی جوبُو آرہی تھی امام صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ سے دُور کردی گئی ۔یعنی ہم تیری ہی عبادت کریں گے لیکن تیری عبادت کرنے پرخود قدرت نہیں پاتے جب تک تومدد نہ کردے۔ لہٰذا تیری عبادت کرنے پر تجھ ہی سے مدد کے طلب گار ہیں ۔ پھرا مام صاحب فرماتے ہیں کہ اسی سے توکّل پیداہوتاہے ۔توکّل یہ جان لینے کا نام ہے کہ کائنا ت میں اللہ کی مشیت اور ارادے کے سوا کسی کی مشیت اورارادہ نہیں ہے‘اور کائنات میں ضرراور نفع پہنچانے کی قدرت اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے ۔یہ جان لینااور اس کاحال بن جاناتوکّل ہے ۔جیسے تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیراللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین۔یہی بات اگر حال بن جائے تواسی کو توکّل کہتے ہیں ۔بہرحال یہ سارے احوال اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے سے پید اہورہے ہیں ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے کو مان لینے سے یہ احوال پید اہونے چاہئیں۔
عقیدہ پورے آدمی کا تقاضاکرتا ہے
اگر یہ مان لینامحض دماغ کی کسی کونے میں بند نہ ہوبلکہ یہ انسان کےشعور ‘اس کی طبیعت اور اس کی شخصیت میں ڈھل چکا ہوتویقیناًیہ احوال پیدا ہوجائیں گے ۔عقیدے کو صرف ما ن لیناکافی نہیں ہے کہ ہم نے سن لیا کہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے او ر روزمرہ میں ہم نفع کی نسبت اُدھربھی کررہے ہوں‘اِدھربھی کررہے ہوں‘او ر ہمارا دل اُدھربھی اٹکا ہو‘ اِدھربھی اٹکاہویعنی ہروادی میں ہم گھوم رہے ہوں تویہ توکّل نہیں ہے۔ یہ بس عقیدہ ہے جس کی وجہ سے ہم مسلمان قرار پائیں گےاور اللہ نے چاہاتونجات بھی ہوجائے گی‘ لیکن اس عقیدے کے جو ثمرات پیدا ہونے چاہئیں وہ نہیں ہورہے ہوں گے۔
صفت قدرت او ر صفت ارادہ کے بارے میں ہم نے جتنی بھی بات کی ہے اس کا مقصودیہ تھاکہ انسان جان لے کہ اس کائنات میں اصل ارادہ‘ مشیت‘اور قدرت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔اوراس کو جان لینے کے بعد واقعی ایک بندہ مومن یاایک مسلمان بہت امن اور سکون میں ہوجاتاہے۔اسی لیے فرمایاکہ جوشرک نہیں کرتے وہ امن کی حالت میں ہیں:
{فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۸۱)اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ(۸۲)} (الانعام)
’’تو (ہم دونوں) فریقین میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے ؟اگر تم علم رکھتے ہو تو (بتائو)!یقینا ًوہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو کسی طرح کے شرک سے آلودہ نہیں کیاوہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی راہ یاب ہوں گے ۔‘‘
کیونکہ وہ ایک خدا پرایمان لائے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ھُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)}(التوبۃ)
’’آپؐ کہہ دیجیے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں آ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔ وہی ہمارا مولا ہے‘اور اللہ پر ہی توکّل کرنا چاہیے اہل ِایمان کو۔‘‘
{وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَج وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ط یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط}
’’اور اگر اللہ آپ کو کوئی ضرر پہنچائے‘ تو کوئی نہیں ہے اس کو دُور کرنے والا سوائے اللہ کے۔اور اگر وہ ارادہ کر لے آپؐ کے ساتھ بھلائی کا تو اُس کے فضل کو لوٹانے والا کوئی نہیں۔ وہ پہنچاتا ہے اس (فضل) کو اپنے بندوں میں سے جسے چاہے۔‘‘
بہرحال یہ سب باتیں ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیں کہ ہماری یہ ساری بحث محض دماغی ایکسرسائز بن کرنہ رہ جائے اورایسا نہ ہوکہ ہم یہ باتیں صرف معلومات کی سطح پر دماغ میں جمع کرلیں او ران کووجودی حال میںنہ ڈھالیں۔ علم اورمعلومات میں فرق ہے ۔ جوصحیح علم ہوگاوہ یقیناًحال بن جائے گا۔یہ ہوسکتاہے کہ انسان بہت سی چیزیں رٹ لے ‘یاد کرلے ‘لیکن ان چیزوں کااُس کی زندگی ‘ا حوال ‘طبیعت‘ذہن پرکوئی عمل دخل نہ ہو۔ ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے۔
لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ
صفت ارادہ کا ایک اہم مبحث ہے :لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہ۔اس کا یہ معنی بھی درست ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا کسی کا قانون نہیں ہوگا‘اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا کسی کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ اللہ کے سوا کسی کو شریعت دینے کامختار نہیں مانا جائے گا‘اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکانہیں جائے گا۔حاکم حقیقی بھی وہی ہوگا۔ یہ معانی یقیناً ثابت ہیں۔یعنی یہ بھی دین کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔جیسے سورۃالانعام میں فرمایا:
{ اَفَغَیْرَ اللہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَـیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًاط} (الانعام :۱۱۴)
’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور حَکم ڈھونڈوں؟اور وہی تو ہے جس نے تمہاری طرف ایک بڑی مفصل کتاب نازل کی ہے۔ ‘‘
یعنی کیا ہم اللہ کے سوا کسی کوفیصلہ کرنے والابنالیں‘حالانکہ اُس نےہم پرایک کتاب مفصل نازل فرمادی ہے ! اللہ نے قانونِ مفصل دے دیاہے ۔توگویااب اللہ کے سوا حَکم کوئی نہیں بنے گا‘اللہ کے قانون کے سوا کسی اور قانون کی طرف مراجعت نہیں ہوگی۔ یہ معنی بالکل درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔لیکن یہاں ہم جومعنی بیان کرنے جارہے ہیں وہ اس معنی میں نہیںہے۔ ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ یا ’’لَا حُکْمَ اِلَّا مِنَ اللّٰہِ‘‘۔اس عبارت کو محب اللہ بہاری نے اپنی کتاب ’’مُسلِّمُ الثّبوت‘‘ میں ذکرکیاہے جوفقہ حنفی کی مشہور کتابوں میں سے ایک ہے ۔یہ اُن کی اصطلاح ہے‘جواور لوگوں نے بھی استعمال کی ہے ۔’’لَا حُکْمَ اِلَّا مِنَ اللّٰہِ‘‘ یا ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ‘یعنی حکم اللہ ہی کی طرف سے آتاہے اور حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔اس بحث کو تحسین اور تقبیح عقلی کی بحث کہتے ہیں۔ لیکن جس عنوان کے تحت یہ بحث آرہی ہے وہ ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ہے۔ یہ ہمارے اور معتزلہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ یعنی معتزلہ ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کے قضیے کومانتے نہیں ہیں ۔اہل سُنّت کہتے ہیں: لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘ اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے ۔ اور یہ مسئلہ صفت ارادہ کی بحث کے ضمن میں ایسے آتاہے کہ اللہ قبیح شے پر قادر ہے یانہیں ہے ؟ (نعوذباللہ!) لیکن اس سے پہلےیہ جاننے کی ضرورت ہے کہ برائی کی تعریف کیاہے ۔یہاں سے یہ بحث اٹھی کہ کیاانسان اپنی عقل کے ذریعے کسی شے کی ایسی برائی جان سکتاہے جوجاننے کے نتیجے میں اس کامکلّف بھی بن جائے اوروہی معیار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے بھی ہوجائےاوروہ بھی اسی معیار کی پیروی کرے؟ تو ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کااصلاًمطلب ہوتاہے کہ چیزوں کو اچھااور برا کہنے کااختیار کس کے پاس ہے ؟یعنی حاکم کامطلب ہے :چیز پر حکم لگانے والا۔حکم لگانااس کافعل ہے کہ اچھاہے یابراہے ‘حسین ہے یاقبیح ہے ۔اخلاقی قدردینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟کیایہ عقل کے پاس ہے یایہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس ہے؟ یعنی ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کا مطلب ہے کہ کون فیصلہ کرے گاکہ یہ عمل اچھاہے اور یہ عمل برا ہے ۔اس فیصلے کااختیار کس کے پاس ہے ؟اللہ کے پاس یااللہ سے ماورا کوئی معیار ہے جس سے پتا چل جائے گاکہ چیز اچھی بھی ہے اور بری بھی ہے ۔اس کو کہتے ہیں : تحسین اور تقبیح۔
فائدے اور کمال کا ادراک عقل کرسکتی ہے
عموماًاہل سُنّت کامسلک یہ ہے کہ تحسین اورتقبیح کو اگر تم اس معنی میں لے لوکہ ایک چیز میرے لیے مفید ہے یا نہیں‘تو اس معنی میں عقلی ہے یعنی اس کو عقل جان سکتی ہے ۔مثال کے طورپر یہ پکاہوا کھانامیرے لیے اچھاہے یا براہے؟ توتجربے اور عقل کے نتیجے سے معلوم ہوجائے گاکہ پکاہوا کھانامیرے لیے زیادہ مفید ہے اور یہ میری مصلحت کے مطابق ہے ۔کوئی شے میرے لیے مفید ہے یا نہیں‘ یہ توعقل جان سکتی ہے ۔اس مسئلہ میں اہل سُنّت اور معتزلہ کا اختلاف نہیں ہے کہ کوئی شے مفید ہے یانہیں؟میری طبیعت کے موافق ہے یا نہیں ؟میرے لیے اس میں مصلحت ہے یا نہیں؟یہ سب باتیں عقل سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔پھرانہوں نے کہا کہ یہ بھی عقل پتاچلاسکتی ہے کہ میرے لیے صفت کمال کیاہے؟یعنی کس شے سے میرے وجود ‘ میری صلاحیتوں اور میری صفات میںترقی ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر جیسے صفت علم ہے ۔سب جانتے ہیں کہ یہ صفت اچھی ہے ‘اس سے میرے نفس میں بڑھوتری ہوتی ہے اور میرانفس کمال پاتاہے تومیرے لیے یہ صفت کمال ہے ۔او رجہالت صفت نقص ہے ۔جاہل ہونا اچھی بات نہیں ۔یہ بھی عقل پتاچلاسکتی ہے ۔ اہل سُنّت نے کہا کہ اس میں اختلاف نہیں ہے ۔ ذہن میں رکھیے کہ وہ شے میرے لیے مفید ہے یاغیرمفید ہے ‘مضرہے ‘یاوہ شے میرے لیے کمال ہے یانقص ہے ۔یہ دونوں چیزیں عقل پتا چلاسکتی ہے ۔اس میں اختلاف نہیں ہورہا‘یہ تحسین اور تقبیح عقلی کامسئلہ نہیں ہے ۔ توپھر محل نزاع کیاہے ؟
تحسین وتقبیح عقلی کے مسئلے میں اصل محل نزاع
یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ جب بھی آپ کسی مسئلے پر گفتگو کررہے ہوں تو پہلے محل نزاع طے کریں ۔ہماری اکثر بحثوں میں ایک اِدھر کی بات کر رہاہو تاہے اور دوسرا اُدھر کی کر رہاہو تاہے او ر محل نزاع کاپتا ہی نہیں چل رہا ہوتاہے‘یعنی جھگڑا کس بات پرہے!اس کو کہتے ہیں ’’ تحریرمحل نزاع‘‘ یعنی پہلے طے کرلوکہ محل نزاع کیاہے ۔تحریر کا مطلب ہے کہ اچھے طریقے پر اس کی وضاحت کردی جائے ۔ اس کو’’تقریرمسئلہ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔یعنی مسئلہ کی تقریر توکرو ‘بتائو مسئلہ کیاہے ۔بہرحال محل نزاع یہ ہے کہ کیا عقل کسی شے کا ایسا حسن اور ایسا قبح معلوم کرسکتی ہے جواس میں اس طرح کا ذاتی ہو کہ کسی بنانے والے کے بنانے سے پید انہیں ہوابلکہ اُس کاذاتی حسن ہو ۔اوراس ذاتی حسن کو معلوم کرتے ہی میں اس حسین شے ‘اچھی شے ‘اچھی صفت کامکلّف ہوجاتاہوں اور قیامت میں مجھے اس پرثواب یا عقاب ہو گا۔یعنی آپ نے عقل کے ذریعے معلوم کیاکہ سچ بولنااچھاہے ۔اس حد تک توسب کومعلوم ہوسکتاہے کہ سچ بولنامفید ہے اور میرے لیے صفت کمال ہے ۔یہ محل نزاع نہیں تھا۔محل نزاع یہ ہےکہ سچائی کی صفت کا حسن اُس کا ذاتی ہے جواللہ کے بنائے بغیر اس میں ہے ؟لہٰذا جوشخص اس صفت کومعلوم کرلے گاوہ اس صفت کامکلّف ہوجائے گا۔اور مکلّف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گااوراسے جزا اور سزاد ی جائے گی ۔ یہ وہ محل نزاع ہے ۔یعنی ایسا حسن و قبح ذاتی ہے جس پرقیامت میں ثواب اور عقاب بغیرنبی کے آئے مترتب ہوجائے ؟
اشاعرہ کاموقف
اس میں اشاعرہ کاموقف یہ ہے کہ ایسا حسن وقبح ذاتی نہیں ہوتاکہ جو اس سے الگ نہ ہو سکے ‘جوکسی بنانے والے کے بغیرہو ‘لہٰذا جب ذاتی نہیں ہے توپھر معلوم کرنے سے انسان مکلّف بھی نہیں ہوگاجب تک شریعت نہیں آئے گی ۔شریعت آکربتائے گی ‘اوامرونواہی سے پتاچلے گا کہ یہ امراچھاہے۔ اس معنی میں اچھاہے کہ اس پرقیامت میں ثواب ملے گااوراس معنی میں براکہ اس پرقیامت میں عقاب ہوگا۔یہ صرف نبی کے بتانے سے معلوم ہوگا۔اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس شے کو اچھابنایاہے تواُس نے کسی معیار کو فالو نہیں کیاکہ چیز پہلے سے اچھی تھی تواللہ نے کہاکہ چلو اچھی چیز کو بنائو‘بلکہ اللہ کے بنانے سے اچھا ہوا۔ ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا مطلب ہے کہ چیزوں میں ذاتی حسن وقبح نہیںہے بلکہ اللہ نے ان کواچھاکیاہے تووہ اچھے ہوگئے ہیں۔ اللہ کے حکم لگانے سے وہ شے اچھی بنی ہے وگرنہ فی نفسہ اپنی ذات میںوہ نہ اچھی تھی نہ بری تھی ۔ توپھرکون حاکم ہوا؟عقل یاشریعت؟شریعت حاکم ہوگئی۔شریعت سے مراد اللہ کا حکم ہے اور شارع صرف اللہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺشارع ہیں‘ لیکن مجازی۔یعنی وہ شارع حقیقی کاحکم بتاتے ہیں ۔ حقیقی شارع صرف اللہ ہے ۔ شریعت دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اور رسول اللہﷺ اللہ کی طرف سے نمائندے ہیں‘لہٰذا آپ اس معنی میں شارع مجازی ہیں کہ آپﷺ شارع حقیقی کاقول نقل فرماتے ہیں۔ بہرحال اہل سُنّت کا موقف واضح ہوا کہ چیزوں میں حسن وقبح ذاتی نہیں ہے کہ عقل اگر اسے معلوم کرلے تواس کے نتیجے میں صاحب عقل یعنی انسان اس کامکلّف بن جائے اوروہ قیامت کے دن جزا وسزا کامستحق قرار پائے ۔ایسا حسن وقبح ذاتی نہیں ہے ‘لیکن پہلے دومعنی میں جن کےبارے میں مَیں نےکہا کہ محل نزاع نہیں ہیں ان معانی میں اہل سُنّت کہتے ہیں کہ ہوسکتاہے ۔لیکن اس پر قیامت میں ثواب وعقاب مترتب نہیں ہوگاجب تک رسول آکرنہ بتادے۔ازروئے الفاظِ قرآنی :{وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)} (بنی اسرائیل) ’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں۔‘‘اور کہتے ہیں کہ قرآن میں پڑھ لوجتنے لوگ بھی جہنم میں جائیں گے ان سے پوچھا جائے گاکہ تمہار ے پاس رسول آئے تھے یانہیں ؟وہ سب اقرا ر کریں گے کہ آئے تھے۔ ’’اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ‘‘ کتنی ہی بار قرآن میں آیاہے اور ہردفعہ وہ جواب میں کہیں گے :بَلیٰ کہ آئے تھے رسول۔
معتزلہ کاموقف
اس کے مقابلے میں معتزلہ کے ہاں ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا وہ مطلب نہیں ہے جو ہم نے اہل سُنّت اشاعرہ کا بیان کیا ۔ان کے ہاں حسن وقبح ایک ایسا معیار ہے جوماورائے خدا ہے ‘یعنی وہ ذاتی ہے ۔حسن وقبح اشیاء میں اس طرح ذاتی ہے کہ خداکے بنانے سے نہیں ہوا۔اورا س معیار پر انہوں نے خدا پر بھی کچھ چیزیں واجب کی ہیں ۔ان کے نزدیک عقل حاکم ہے ۔اسی لیے ان کوکہاجاتاہے کہ وہ بہت زیادہ rationalist یعنی عقلیت پرست تھے۔یہاں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں عقل کی کیا حیثیت ہے کہ عقل خدا پرحکم لگاسکتی ہے اور خدا پربھی کچھ چیزیں اس کے نتیجے میںواجب ہوسکتی ہیں۔یعنی خدا کو بھی عقل ایک اخلاقی معیار دے سکتی ہے کہ آپ کویوں کرنا اور یوں نہیں کرناچاہیے۔لہٰذا انہوں نے خدا پربہت سی چیزیں واجب کی ہیں ۔ معتزلہ یہ کہتےہیں کہ حسن وقبح ایک ماورائی تصور ہے اور وہ اتنا ماورا ہے کہ خدا سے بھی ماورا ہے او ر خدا بھی حسن وقبح کے ان تصورات کو فالو کرتا ہے ‘لہٰذا حسین اُسے ہی قرار دیتاہے جوذاتی طور پرحسن کاحامل ہوتاہے ۔خد اکے کہنے سے کوئی شے اچھی نہیں بن جاتی بلکہ وہ پہلے ہی سے اچھی ہوتی ہے ۔لہٰذا خدا اُسے اچھاکہتاہےاور جوبری شے ہے خدا اُسے برا کہتا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ بری شے اس لیے بری ہے کہ خدا نے براکہاہے ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ بری شے اس لیے بری نہیں ہے کہ خد انے برا کہاہے بلکہ وہ پہلے بری تھی لہٰذا خدا نے اسے براکہا۔ جب انہوں نے عقل کو حاکم بنایا کہ اصلاً حاکم عقل ہے لہٰذا عقل کے نتیجے میں انہو ں نے حسن وقبح کے معیارات بنالیے تو انہوں نے کہا کہ اللہ بھی فلاں فلاں کام نہیں کرسکتا۔نعوذباللہ!اسی طرح اللہ پرکچھ چیزیں لازم ہیں۔ جیسے دواصطلاحات ہیں :وجوبِ صالح اور وجوبِ اَصلح۔
وجوبِ اَصلح
معتزلہ کے ہاں ’’وجوبِ اَصلح‘‘کی اصطلاح ہے ‘جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اللہ کے لیے اپنے بندوں کے حق میں وہ کرناواجب ہے جواُن کے لیے بہترین ہو۔اُن کی ہدایت کے لیے رسول بھیجناواجب ہے۔معتزلہ کی اس طرح کی واضح عبارتیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓاور ابوجہل دونوں کے ساتھ ایک جیسالطف کیا‘ایک جیسی راہنمائی فرمائی ‘ایک جیسی توفیق دی‘کیونکہ اللہ تعالیٰ پرواجب ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیساکرے ‘بس ابوبکرایمان لے آئے او ر ابوجہل نے کفر کیا‘بغیر ا س کے کہ انہیں توفیق زیادہ ملی ہو۔اہل سُنّت تویہی کہتے ہیں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر کوئی ایمان نہیں لاسکتا۔ لیکن معتزلہ کے مطابق اللہ نے ایسا نہیں کیا‘کیونکہ اللہ ایسا کرتا توظلم ہوجاتا‘ کیونکہ دونوں کے ساتھ برابر سلوک ہونا چاہیے تھا۔چنانچہ ظلم کاتصوّرماورائے خدا ہوگیا۔یعنی خدا کو بھی اس معیار کو فالو کرنا تھا۔لہٰذ ا اہل سُنّت کے قول کے مطابق توعدل نہیں ہور ہا۔گویاعدل کاتصوّر ماورائے خدا ایک تصوّر ہے کہ جس کو خدا نے فالو کرنا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ میں نے ایک مثال دی ہے ۔ چنانچہ اس طریقے پرانہوں نے کہا کہ ’’وجوبِ اَصلح‘‘ ضروری ہے ۔ یہ وہ موضوع ہے جس کے بارے میں ابوعلی الجبائی اور امام ابوالحسن الاشعری کے درمیان مناظرہ ہوا تھا۔ وجوبِ اَصلح کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنے بندے کے حق میں وہی کرنا ہے جو اُ س کے حق میں سب سے بہتر ہے اور یہ خدا پرواجب ہے ۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ اللہ ایسا کرتاہے ‘لیکن واجب کہناکہ اللہ اس کے سوا کرنہیں سکتایہ درست نہیں۔
ابوالحسن الاشعری معتزلی تھے ‘ان کی ابتدااعتزال کے ساتھ ہوئی ‘پھر وہ اہل سُنّت کی طرف لوٹے اور امام اہل ِ سُنّت کہلائے ۔ ان کو اشعری اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اشعری قبیلے کے ہیں اور حضرت امام ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔جس مسئلے پروہ مسلک اہل سُنّت کی طرف آئے وہ یہی مسئلہ تھا جس میں انہوں نے اپنے سوتیلے باپ ابوہاشم یاابوعلی الجبائی سے مناظرہ کیا‘جواُن کے باپ کی وفات کے بعداُن کی ماں کے شوہر بن گئے تھے ۔ انہی کے گھر میں انہوں نے پرورش پائی تھی اوراعتزال انہی سے سیکھاتھا۔ وہ بہت بڑے معتزلی عالم تھے۔ بہرحال انہوں نے ان سے مناظرہ کیا۔ ابوالحسن علی الاشعری نے ابوعلی الجبائی سے کہا کہ دیکھیں تین لوگوں کے بارے میں مجھے بتائیے: ۱۔کافر‘۲۔بچہ جوبالغ ہونے سے پہلے فوت ہوگیا‘ ۳۔صاحب ایمان ‘جوایمان کی حالت میں فوت ہوا۔ ان کاانجام کیاہوگا؟ ابوعلی الجبائی نے واضح طور پر کہاکہ بڑا سادہ سامسئلہ ہے ‘کافرجہنم میں ‘صاحب ایمان جنت میں‘ او ربچہ کی بھی نجات ہوجائے گی لیکن وہ جنت کے کسی نیچے مرتبہ پرہوگا۔اس لیے کہ وہ بڑا ہوکرایمان تونہیں لایا‘بس اس کی نجات توہوجائے گی لیکن اس کو وہ چیزیں نہیں ملیں گے جو صاحب ایمان کومل رہی ہیں۔اب ابوالحسن الاشعری پوچھتے ہیں کہ اگر بچہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مَیں بھی بڑا ہوکرایمان پاتااور وہ درجہ پالیتا جومیرے اس صاحب ایمان بھائی کو ملاہے ۔ انہوں نے جواب دیاکہ اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ دیکھو مجھے پتا تھاکہ اگر تم بڑے ہوجاتے توتم کافر ہوجاتے اور تم جہنم میں چلے جاتے‘لہٰذا مَیں نے تمہارے ساتھ بہترین کیا۔یہی وجوبِ اَصلح ہے ۔یعنی تمہیں بچپن میں فوت کردیااورتم اب آرام سے بیٹھے ہو۔ اس پر ابوالحسن الاشعری کہتے ہیں کہ اگر وہ کافر جوجہنم میں پڑاہواہے وہ پکار کرکہے کہ اے اللہ ربّ العز ّت !آپ نے مجھے بچپن میں کیوں فوت نہیں کیا؟میرے لیے بھی توبچپن میں فوت ہوجانا بہترتھا۔ اس پر روایت میں آتاہےکہ ابوالجبائی مبہوت ہوگئے ۔ان کے مسلک کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو سب کے حق میں بہتر کرنا ہوتاہے‘تواس کے حق میں بہتر یہی تھاکہ وہ بھی بچے کی طرح بچپن میں ہی فوت ہوجاتااوروہ بھی نجات پا جاتا۔ اس مکالمہ کے بعد ابوالحسن الاشعری نے کہا :ھٰذا فراق بینی وبینک۔اب ہمارے درمیان فراق ہوگیاہے اورتمہارا’’وجوبِ اَصلح ‘‘کااصول درست نہیں ہے ۔ بہرحال یہ سب کچھ تحسین وتقبیح عقلی کے مسئلے سے متعلق ہے ۔یعنی یہ سب مسائل اس بڑے مسئلے کی فرع ہیں اوروہ مسئلہ ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی فرع ہے ۔
اب اس کاخلاصہ یہ ہوا کہ اشاعرہ نے کہا کہ انسان مکلّف بس وحی کے نتیجے میں ہوتاہے ۔وحی آکر بتاتی ہے کہ اچھی او ربری شے اس معنی میں کون سی ہےکہ جس پرثواب او ر عقاب ہوجائے ۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ نہیں! انسان چیزوں کاذاتی حسن وقبح عقل سے بھی معلوم کرسکتاہے ‘جس کے نتیجے میں بغیر نبی کے وہ مکلّف قرار پاجاتاہے اور قیامت کے دن ثواب وعقاب کامستحق بھی بنے گا۔
ماتریدیہ کاموقف
ایک تیسراموقف اہل سُنّت میں سے ایک گروہ کاہے جن کو ہم احناف یاماتریدیہ کہتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ معتزلہ کی طرف ہیں لیکن ماتریدی کتابوں میں اس بات کا اقرارموجود ہے کہ ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘۔چونکہ یہ مسئلہ تھوڑا سامشکل ہے اس لیے بہت سی ماتریدی عبارتیںظاہری طورپرمختلف قسم کی ہیں۔ مسئلہ بہرحال اتناسادہ نہیں ہے لیکن بہت سے لوگوں نے اس کو حل بھی کیاہے ۔مسئلہ کے حل سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ ماتریدی معتزلی نہیں ہیں بلکہ وہ اہل سُنّت میں سے ہیں اوراس مسئلے میں اشاعرہ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن کچھ اختلاف کے ساتھ۔
ماتریدی حضرات نے کہا کہ عقل کچھ چیزوں کاحسن وقبح معلوم کرسکتی ہے ۔ایسا حسن وقبح (ابھی مَیں ذاتی نہیں کہہ رہا‘اس لیے کہ یہی فرق آگے آئے گا)جس کے نتیجے میں انسان مکلّف بن جائے اور قیامت کے دن ثواب و عقاب اور جزا و سزاپائے ۔ انہوں نے کہا کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص جودنیامیں آیا‘چاہے اس تک نبی کی دعوت نہیں پہنچی لیکن وہ قیامت کے دن اس بات کا مکلّف ہوگاکہ اُس نے اللہ کو کیوں نہیں پہچانا! یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے اورا س کی توحید کا مکلّف تھا‘اوراس بات کا بھی مکلّف تھاکہ اُس کاشکرادا کرے ۔اس کو شکرالمنعم کہتے ہیں۔عقلی طورپرمنعم کاشکرادا کرنالازم ہے ۔یعنی انسان عقل سے اس نتیجے تک پہنچ جاتاہےاوراس کے نتیجے میں وہ مکلّف ہوجاتاہے اور قیامت کے دن ثواب اور جزا بھی پائے گا۔توحید اور کچھ بڑے بڑے اخلاقی قوانین بھی اس طریقے پرہیں ‘جیسے :الصدق حسن والکذب قبیح یعنی صدق اچھی بات ہےاورانسان اس کا مکلّف ہے جب کہ جھوٹ قبیح شے ہے۔البتہ باقی تفصیلی احکام کامکلّف انسان وحی کے بغیر نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ ماتریدی موقف ہے جو بظاہر معتزلی موقف کے قریب لگ رہاہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ یعنی عقل موجب نہیں ہے ۔ یہ فرق ہے ماتریدی اور معتزلی موقف کے درمیان۔
حسن وقبح کے عقلی و ذاتی ہونے میں فرق
میں اس کی وضاحت کے لیے ایک عبارت سنادیتاہوںجواس مسئلے میں میرے اپنے فہم کوظاہر کرتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ماتریدی اشیاء کے حسن وقبح کوذاتی (intrinsic)نہیں مانتے عقلی مانتے ہیں ۔ہوسکتاہے آپ کہیں کہ عقلی اور ذاتی ہوناایک بات ہے ۔ ایک بات نہیں ہے ‘بلکہ ان میں فرق ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اشیاء حسین وقبیح خدا سے ماورا کسی معیار کے تحت نہیں ہوتیں ‘جیسا کہ معتزلہ نے کہا تھااور اس کے نتیجے میں اللہ پربھی چیزیں واجب کی تھیں ۔ اشیاء میں حسن وقبح اللہ ہی رکھتاہے‘ مثلاً صدق کو اللہ نے اچھا بنایاتوجب اللہ اس کا ماخذ ہے توصدق کااچھاہونا اس کاذاتی نہ ہوا۔ ذاتی اس کوکہتے ہیں جس میں انفکاک (علیحدگی) نہ ہوسکے۔ معتزلہ ذاتی اس کو کہہ رہے ہیں جس کے نتیجے میں خود بخود تکلیف وارد ہوجاتی ہے ۔ماتریدی کہتے ہیں کہ اس معنی میں ذاتی تونہیں ہے ‘کیونکہ اگر ذاتی مان لیں تو ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی نفی ہوجائے گی ۔یعنی قدردینے کا اختیار تواللہ کے پاس ہے۔ذاتی ماننے سے اس قضیے کی نفی ہوجائے گی‘ لہٰذاذاتی نہیں ہے ۔ ذاتی نہیں ہے مگر عقلی ضرور ہے ۔ عقلی ان معنی میں کہ جس طرح وحی آکراللہ کے حکم کو بتادیتی ہے‘ چنانچہ رسول بتاتاہےکہ یہ اللہ کاحکم ہے۔اور اس کے بتانے کا مقصد بھی یہی ہوتاہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بنانے سے ایسا ہواہے ۔یعنی رسول آکرچیزوں کاذاتی حکم بیان نہیں کرتابلکہ ان کا تکلیفی حکم بیان کرتاہے ۔ اسی طریقے پرعقل بھی کچھ احکام میں مُعَرِّف ہوتی ہے موجب نہیں کہ وہ انہیں واجب کرے ۔ عقل بتادیتی ہے کہ یہ اللہ کا حکم شرعی ہے ۔ گویاکچھ معاملات میں حکم شرعی کے بیان میں عقل ذریعہ بنتی ہے اوراکثر معاملات میں رسول ذریعہ بنتے ہیں ۔ تواُن کے ہاں چیزوں کاحسن وقبح ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ نے رکھاہے‘لہٰذا اللہ پرکچھ واجب نہیں ہورہا۔ ’’لَا حَاکِمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے قضیے کی نفی نہیں ہورہی۔ ہوتایہ ہے کہ عقل اللہ کی رکھی ہوئی کچھ باتوں کو پہچاننے کے نتیجے میں انسان کو حکم شرعی بیان کردیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مکلّف ہوجاتاہے ۔بہرحال یہ ایک دقیق سافرق ہے جو معتزلہ اور ماتریدیہ کے درمیان ہے ۔ اس فرق کو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ معتزلہ کے ہاں حسن وقبح عقلی اورذاتی ہے‘ اشاعرہ کے ہاں حسن وقبح عقلی نہیں ہے محض شرعی ہے‘ جب کہ ماتریدیہ کے ہاںحسن وقبح عقلی اور شرعی ہے ذاتی نہیں ہے ۔ہوسکتاہے کہ یہ ساری باتیں آپ کو سمجھ نہ آئی ہوں ‘لیکن ایک بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اہل سُنّت اس بات پرمتفق ہیں کہ ’’لَا حَاکمَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ چیزوںکو حسن وقبح اللہ دیتاہے ‘اللہ کے بنانے سے ہوتی ہیں ۔ کوئی اخلاقی معیارات ماورائے خدانہیں ہیں ۔ {وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہٰی(۴۲)}(النجم) ہرقسم کے حسن وقبح کامرجع خدا‘ اُس کاارادہ اور اُس کافعل ہے ۔ اُس نے ارادہ کرکے ایک شے کو اچھا بنایا اور دوسری کو برا بنایا۔
اس کوہم ارادے کی بحث میں اس لیے لے کرآئے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے پر اس طرح کی بھی کوئی پابندیاں نہیں ہیںکہ جس طرح کی اخلاقی پابندیاں ہمارے ارادے پر ہوتی ہیں یاجس طرح معتزلہ نے اس تحسین وتقبیح ذاتی کے نتیجے میں اللہ پرکچھ چیزیں واجب کردیں۔ اللہ پرکوئی چیز واجب نہیں ہے‘ اللہ جوکرتاہے وہ اچھاہوتاہے ۔یہ نہیں ہے کہ اللہ اچھا کرتاہے ‘یااللہ اچھائی کے معیارات کی پیروی کرتاہے۔نہیں! بلکہ اللہ جوکرتاہے اچھاہوتاہے ۔ یہ تعبیرہے اہل سُنّت کی اس مسئلے میں ۔
حکمت اللہ کے ارادے کے تابع ہوتی ہے
جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ حکیم ہے تواہل سُنّت کے ہاں کیاایسا ہے کہ وہ حکمت کے مطابق کرتاہے ؟نہیں! یہ جملہ ایک عام محاورے میں توٹھیک ہے کہ اللہ کاہرکام حکمت کے مطابق ہوتاہے ‘لیکن کلامی یاعقیدے کی کتب میں آپ کویہ ملے گاکہ یہ عبارت ٹھیک نہیں ہے‘ کیونکہ اگر اللہ کا کام حکمت کے مطابق ہوتاہے توگویااللہ کاکام کسی چیز کے مطابق ہونا چاہیے اور وہ حکمت ہے خارج میں جس کے مطابق اللہ کاکام ہوجائے گاتواللہ حکیم قرار پائیں گے ۔اور اگر نہیں ہوگا تواللہ حکیم نہیں ہوںگے ۔معاذ اللہ! یہ مطلب نہیں ہے ان کے ہاں ۔ جیسے ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی غرض کے لیے نہیں کرتابلکہ غرض کا اس کے کام کے نتیجے میں پید اہونا ضروری ہے ۔ اسی طریقے پر حکمت اللہ کے ارادے اور فعل کے تابع ہوتی ہے‘ اللہ کاارادہ اور فعل حکمت کے تابع نہیں ہوتا۔حکمت کااللہ کے سواکوئی معیار نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ حکمت کاکوئی معیاراللہ کے سواپایا جاتاہے تواللہ جوکرے گاوہ اس حکمت پرمبنی ہوگا۔ نہیں!بلکہ وہ جوکرتاہے وہ حکمت ہوتی ہے اور جوبھی کرے گا وہ حکمت ہوگی۔ حکمت کا معنی ہے چیزکو اس کی اصل جگہ پر رکھنا۔ اللہ ہی خیروشر کے معیارات کا ایک حتمی معیار ہے ‘توجووہ کرے گاوہ حکمت ہوگی ۔ لہٰذا اُس کے سوا کہیں حکمت تلاش نہیں کی جائے گی‘ اُس کے سوا کہیں خیروشر تلاش نہیں کیاجائے گایعنی خیروشر کے معیارات۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کافعل ‘اُس کا ارادہ‘ اُس کا امر اور اُس کی شریعت بتائے گی کہ کیااچھا ہے اور کیابراہے ۔اس میں اور کوئی شے معیار نہیں ہے ۔ نہ حکمت معیار ہے نہ کوئی خارجی معیارات ‘معیار ہیں نہ انسان کی فطرت معیار ہے ۔کچھ بھی نہیں !
شریعت ہی فطرت کاتعین کرتی ہے
آج کل فطرت کو دلیل بنایاجاتاہے کہ انسانی فطرت دلیل ہے ۔بہت سے لوگ جنہوں نے الٹی سیدھی باتیں کرنی ہوتی ہیں ماضی میں بھی اور آج بھی ‘جنہوںنے اپنی کچھ چیزیں ثابت کرنی ہوتی ہیں وہ فطرت کابہت نام لے رہے ہوتے ہیں کہ فطرت کے مطابق یہ ہوگا ‘فطرت سے یہ ثابت ہوتاہے ‘وغیرہ۔مندرجہ بالاطریقہ پرفطرت کے حوالے سے بھی علماء نے کہا کہ شریعت آکربتائے گی کہ آپ کی فطرت کیاہے ۔ایسا نہیں ہے کہ شریعت آپ کی فطرت کے موافق ہوگی‘ خواہ وہ کتنی ہی مسخ شدہ (perverted) ہو۔فطرت شریعت کے موافق ہوتی ہے‘ اس کاانکار نہیں ہے۔ لیکن انکارہم اس بات کا کررہے ہیں کہ آپ اپنی فطرت کاپہلے سے کوئی ایسا علم نہیں حاصل کرچکے ہوتے کہ اس پر شریعت کو پرکھ سکیں اوریہ کہہ سکیں کہ اس کے مطابق ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی ۔یعنی فطرت کاماورائے شریعت یاماورائے وحی علم حاصل نہیں ہوچکاہوتاکہ جس پرہم شریعت کو پرکھ کردیکھ لیں کہ یہ موافق فطرت ہے اور یہ مخالف فطرت ہے اور پھر اس بنیاد پر ہم احکام میں تمیز بھی کریں کہ یہ حکم چونکہ مخالف فطرت ہے لہٰذا یہ ہم نہیں مان رہے اور یہ موافق فطرت ہے اس کو ہم مان لیتے ہیں ۔شریعت جوبھی حکم لے کر آئے گی وہ موافق فطرت اس معنی میں ہوگاکہ شریعت فطرت کا بیان بھی ہے ۔شریعت ہی آپ کو بتارہی ہے کہ آپ کی فطرت کیاہے ‘لہٰذا شریعت جوحکم دے گی وہی فطرت ہوگا۔ یہ تونہیں ہوگا کہ شریعت جوحکم دے گی اس کو آپ طے کریںگے کہ وہ فطرت کے مطابق ہے یانہیں ہے ۔ نہیں !شریعت کاحکم ہی فطرت ہے ۔ لہٰذا بالفرض اگر موسیقی کی حرمت صحیح دلائل سے ثابت ہوجائے توپھر ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ انسانی فطرت موسیقی سے مناسبت رکھتی ہے یانہیں ۔بلکہ ہم کہیں گے کہ یہ شریعت کاحکم ہی فطرت کابیان ہے کہ یہ تمہارے لیے پسندیدہ اور باعث کمال نہیں ہے ۔
باقی اگر فطرت اس معنی میں لی جائے کہ انسان کے اندرکچھ رجحانات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں تو وہ توشرکی بھی ہیں‘ لہٰذا شر کےرجحان کوبھی فطرت کہاجائے گااور ہوسکتاہے اس شر کی فطرت کوبہت سے لوگ خیر کی فطرت کہیں کہ یہی خیرہے۔ تواصلاً شریعت ہی فطرت کا معیار ہے ‘شریعت ہی خیروشر کا معیار ہے ‘شریعت ہی آکر بتائے گی کہ اچھا کیا ہے برا کیاہے ‘کیونکہ شریعت اللہ کی طرف سے آرہی ہے ‘رسول اللہ کی طرف سے آتاہے اور ہرچیز کا حتمی معیاراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کے سواکوئی بھی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات جوعالی صفات والی ہے اسی سے معلوم ہوگاکہ خیرکیاہے ‘حق کیاہے اور باطل کیاہے ‘شرکیاہے ‘فطرت کیاہے ‘غیرفطرت کیاہے ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کو تحسین وتقبیح ذاتی کامسئلہ کہتے ہیں ۔ اس میں اہل سُنّت اللہ کے فضل سے جس جگہ پر کھڑے ہیں اور انہوں نے جس طریقے پریہ مسئلہ بیان کیاہے تواس میں خدا کےتصور میں کسی قسم کانقص اورتشبیہ نہیں ہے ۔اور یہ محض تصور نہیں ہے‘ بلکہ اہل سُنّت نے جو بات بیان کی ہے وہ صحیح نصوص سے ثابت ہے ۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ انہوں نے بیٹھ کر اندھیرے کمرے میں غور وفکر کیااور یہ باتیں ان کے دماغ پروارد ہوگئیں بلکہ یہ سب نصوص سے ثابت ہیں۔ مثلاً اللہ کے ارادے پر کوئی جبر نہیں ہوتا وغیرہ۔ تویہ سب باتیں جوہم دوتین نشستوں سے بیان کررہے ہیں یہ سب اسی کی تفصیل ہیں ۔
اس بحث کاخلاصہ ایک حدیث ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں :
((اِذَا دَعَا اَحَدُکُم فَلیَعْزِمِ المسأَلَۃَ‘ وَلَا یَقُولَنَّ: اللّٰھُمَّ اِنْ شِئتَ فَأَعْطِنِی‘ فَاِنَّہ لَا مُستَکرِہَ لَہٗ)) (متفق علیہ)
’’جب تم میں سے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کوپکارے توعزم کے ساتھ پکارے اوریہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر آپ چاہیں تودے دیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کومجبور کرنے والاکوئی نہیں ۔‘‘
بظاہر لگ رہا ہے کہ اچھی دعاہے کہ اے اللہ!تُوچاہے تودے دے اور تُوچاہے تونہ دے ۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اللہ کوپکار رہے ہیں توآپ ساتھ یہ قید لگارہے ہیں کہ اے اللہ!تُوچاہے تودے دے ‘توکیاکوئی احتمال ایسا بھی تھاکہ اللہ نہ چاہتے ہوئے بھی دے دیتا۔یعنی اللہ پرکوئی جبر کرکے اس کی مشیت کے خلاف کوئی کام نکال لیتا! نہیں‘ بلکہ اللہ کی مشیت ہوگی تودے گا‘کیونکہ اُس کی مشیت پرکوئی جبر کرنے والا نہیں ہے ۔تویہ قید ’’اِنْ شِئْتَ‘‘ اپنے اندریہ وہم رکھتی ہے کہ شاید اللہ کو کوئی اس کی مشیت کے خلاف بھی کرنے پرآمادہ کرسکتاہے ۔ لہٰذا فرمایا : ((فَاِنَّہُ لَا مُسْتَکْرِہَ لَہٗ)) چونکہ اللہ پرجبرکرنے والا‘ اللہ کو مجبور کرنے والا‘اللہ کو کرہاًکسی شے پرآمادہ کرنے والاکوئی نہیں ہوتا‘ لہٰذا اللہ سے مانگو تو یقین کے ساتھ مانگو۔باقی اُس کی مشیت ہوگی تودے دے گااور وہ مشیت اور ارادے کے ساتھ ہی دیتاہے ۔