(فکر و فلسفہ) نصوصِ شرعیہ کی رُو سے تشریح ِ دین کی اہلیت واستحقاق - ڈاکٹر محمد رشید ارشد

24 /

نصوصِ شرعیہ کی رُو سے
تشریح ِدین کی اہلیت و استحقاق
ڈاکٹر حافظ محمد رشید ارشداللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اُمّت ِ محمد علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کو ’’اُمّت ِوسط‘‘ بھی قرار دیا ہے‘ جس کی تفسیر میں اہل تاویل نے یہ بیان کیا ہے کہ ختم نبوت کے تقاضے کے طور پر رہتی دنیا تک دین کی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری اِس اُمّت کے اَفراد کو ادا کرنی ہے۔ یہ مفہوم اُن احادیث مبارکہ سے بھی ماخوذ ہے جن میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ ’’پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت‘‘ یا جن میں اُمّت کے اُن اَفراد کو خیرِ اُمّت قرار دیاگیا ہے جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں ۔ اس حوالے سے تعلیم و تعلّم کا میدان ہو یا اجتہاد واستنباط کا دائرہ یادعوت وتبلیغ اور خدمت دین کا میدان ہو‘ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان ہر اس شعبے میں کام کرے جس کی اہلیت اس میں پائی جاتی ہو۔ آپ جو کام کر رہے ہیں کیا آپ اس کے اہل ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہر دور میں یہ سوال رہا ہے کہ کسی بھی علم یا کسی بھی فن میں کس شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کلام کرے؟ایک پرانا محاورہ چلا آ رہا ہے: لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ‘’’ ہر فن کے لیے کچھ لوگ مخصوص ہوتے ہیں‘‘۔ اور ایک شعر بھی ہے:
خلق اللّٰه للحروب رجالا
وخلقنا لقصعة وثريد

’’اللہ تعالیٰ نے جنگوں کے لیے کچھ لوگ پیدا کیے ہیں جبکہ ہمیں تو تھالیوں اور ثرید یعنی کھانے پینے کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں کو مختلف کاموں کے لیے خلق کیا ہے‘ کچھ انسانوں کو جنگوں کے لیے‘ کچھ لوگوں کو تھالیوں اور ثریدکے لیے‘ یعنی کچھ لوگ جواں مرد ہوتے ہیں‘ لڑنے والے ہوتے ہیں او رکچھ لوگ کھانے پینے والے ہوتے ہیں۔لہٰذا ہر آدمی کا ایک فن ہوتاہے‘ اس میں وہ مہارت رکھتا ہے‘ جبکہ ایک اور چیزہے جسے ہمارے ہاں General knowledgeیاCommon senseکہتے ہیں‘ اس کی بات الگ ہے مگر مہارت کسی ایک فن میں ہی ہوگی۔ایک لطیفہ ہے کہCommon sense is not so common۔ ایک ہے Common sense‘ایک ہےGeneral senseاور ایک ہےGeneral knowledge‘ یہ ایک الگ بحث ہے کہ آدمی بعض چیزوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی تاثر‘ کوئی نہ کوئی رائے رکھتا ہی ہے‘ لیکن علمی اور اصولی طور پر مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے کا حق کسے ہے؟ ظاہر ہے یہ حق اس علم وفن کے ماہر ہی کو حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک بہت خوبصورت بات فرمائی ہے: وإذا تكلم المرء في غير فنه أتى بالعجائب ’’جب آدمی اپنے فن کے علاوہ دوسرے فنون میں در اندازی کرے گا‘ دخل در معقولات کر ے گا تو پھر اس سے عجیب وغریب گفتگو ہی سر زد ہوگی‘‘۔ تو یہ جو اہلیت کا سوال ہے یہ ہمیشہ سے اٹھایا گیا‘جیسا کہ تفسیر بالرائے ایک موضوع ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ اور ہمارے دیگر اکابرین کو پڑھیں‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ تفسیر بالرائے کا ایک مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ خواہش نفس سے تفسیر کی جائے اور پہلے ہی سے ایک بات طے کر لی جائے‘ پھر اپنی ہوا اور خواہشات کے تحت اپنے نظریات کے مطابق ڈھالتے ہوئےقرآن مجید کی تفسیر کی جائے۔ یہ ظاہر ہے اللہ کی آیتوں کو توڑنا‘ مروڑناہے اور یہ قابل مذمت تفسیر بالرائے ہے۔ چاہے ایسا کرنے والے کے پاس تفسیر کی ظاہری صلاحیت موجود ہو‘ لیکن اصل میں اس کی نفسی حالت ٹھیک نہیں ہے۔تفسیر بالرائے کی دوسری قسم یہ ہے کہ بغیر علم اور بغیر علمی اہلیت کے تفسیر کی جائے۔ یہ بھی خطرناک شے ہےاور بعض اوقات انسان کلامِ الٰہی کی غلط تعبیر کرکے خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ’’اصولِ اہلیت ‘‘ کی پابندی کرناضروری ہے۔ چنانچہ اہلیت کی یہ شرط تفسیرکے علاوہ شرح حدیث ‘ فقہ اور دیگر علوم میں بھی لاگو رہے گی۔
قحط ِعلم قیامت کی نشانی ہے
’’اشراط السّاعہ‘‘کی بہت ساری احادیث میں آتا ہےکہ قرب قیامت کے دور میں علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی:
((اِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَاَيَّامًا ‘ يَنْزِلُ فِيْھَا الـجَهْلُ‘ وَيُرْفَعُ فِيْھَا العِلْمُ ‘ وَيَكْثُرُ فِيْھَا الهَرْجُ‘ وَالهَرْجُ: القَتْلُ)) (صحیح البخاری‘ح:۷۰۶۴)
’’ قیامت سے پہلے کچھ ایسے دن آئیں گے‘ جن میں جہل کا نزول ہو گا( ہر طرف جہل کا غلبہ ہو گا) اور جس میں علم کو اٹھا لیا جائے گا اور بہت فتنہ اور قتل و غارت پھیل جائے گی۔‘‘
ایک روایت میں ہے:
((مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَةِ: اَنْ يَقِلَّ العِلْمُ ‘ وَيَظْهَرَ الجَهْلُ‘ وَيَظْهَرَ الزِّنَا‘وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ‘ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ‘ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَاَةً القَيِّمُ الوَاحِدُ)) (صحیح البخاری‘ح:۸۱)
’’ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم تُھڑ جائے گا‘ جہل پھیل جائے گا‘ زنا عام ہوجائے گا‘ عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور مَردوں کی تعداد کم ہوجائے گی‘ یہاں تک کہ پچاس عورتوں کی کفالت ونگرانی کے لیے ایک شخص دستیاب ہوگا۔‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰہَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ‘ وَلٰكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ‘ حَتّٰى اِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا‘ فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ‘ فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا)) (صحیح البخاری‘ ح: ۱۰۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کےسینوں سے اسے نکال ہی دے‘ بلکہ وہ علم کو اٹھائے گاعلما ءکو اُٹھا کر‘ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ بچے گا توعوام‘ جاہل لوگوں کو اپنابڑا مان لیں گے‘ پھر ان جاہل سرداروں سےمسئلے پوچھے جائیں گے‘پس وہ بغیر علم کےفتوے دیں گے ‘تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
یہاں قلت ِعلم سے قلت ِعلماء مراد ہے‘اسی طرح قلت علم سے قلت فہم بھی مراد ہو سکتی ہے۔ مطلب یہ کہ لوگوں کے پاس معلومات تو ہو ں گی‘ لیکن رسوخ فی العلم اورتفقہ سے محروم ہوں گے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ’’فیض الباری‘‘ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
فإنه يكون كثيرًا كمًا وقليلًا كيفًا كما نشاهد في زماننا.
’’علم کمیت کے اعتبار سے توبہت زیادہ ہو جائے گا لیکن کیفیت اور پختہ جانکاری کے حوالے سے علم کم ہوجائے گا جیسا کہ ہم اپنے زمانےمیں مشاہدہ کرتے ہیں۔‘‘
آخری دورکے بارے میں ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں:
((اِنَّهُ لَتُنْزَعُ عُقُولُ اَهْلِ ذٰلِكَ الزَّمَانِ وَيُخَلَّفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ يَحْسِبُ اَكْثَرُهُمْ اَنَّهُمْ عَلٰى شَيْءٍ‘ وَلَيْسُوا عَلٰى شَيْءٍ)) (مسند احمد)
’’اُس زمانے کےلوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور اس زمانے میں لوگوں میں سے ہلکے (فہم والے ) لوگ رہ جائیں گے‘ ان میں سے اکثر سمجھتے ہوں گےکہ وہ بھی کسی چیز (دلیل یا دین) پرہیں‘ حالانکہ وہ کسی شے پر نہ ہوں گے۔‘‘
نا اہل لوگوں کی قیادت وسیادت
نا اہل لوگوں کی قیادت وسیادت امت کے لیے ایک آزمائش ہے‘ چنانچہ حدیث مبارکہ میں نا اہل لوگوں کی پیشوائیت اور قیادت کو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا گیاہے ۔ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا:
((سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ‘ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ‘ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ‘ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ‘ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ‘ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ)) قيل: وما الرويبضة؟ قال: ((الرَّجُلُ التَّافِهُ یَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ)) (سنن ابن ماجہ‘ ح:۴۰۳۶ )
’’لوگوں پر ایسے سال آئیں گے جو دھوکے والےہوں گے‘ ان میں جھوٹے کو سچااور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا‘ خائن کو امانت داراور امانت دار کو خائن کہا جائے گااور ان سالوں میں رویبضہ کلام کرےگا‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ رویبضہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’ہلکا اور کم تر شخص امور عامہ میں کلام کرے گا۔‘‘
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ:
((اِنَّ اَمَامَ الدَّجَّالِ سِنِينَ خَدَّاعَةً))
’’بے شک دجال سے پہلےدھوکہ دہی کے سال ہوں گے۔‘‘
دجال‘ دجل سےہے اور اس سے پہلے بھی دھوکے کے ادوار چل رہے ہوں گے۔ اور ایسا نہیں ہوگا کہ دجال یکدم کہیں سے برآمد ہو جائے گا‘ بلکہ پورا ماحول اس کے لیے تیار ہو گا‘ پورا سٹیج سیٹ ہوگا۔ اس میں ایک بڑا Receptor ہے‘ ایک بڑا دھوکا دینے والا دجال سامنے آئے گا۔ مسند احمد کی اس روایت میں ’’الرویبضہ‘‘ کی صفت یوں بیان کی گئی ہے:
((الْفُوَيْسِقُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ))) (مسند احمد‘ح: ۱۳۲۹۸)
’’ایک بہت چھوٹا سا فاسق شخص عوام کے معاملات میں کلام کرے گا۔‘‘
ایک اور روایت میں ’’رویبضہ‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے:
((مَنْ لَا يُؤْبَهُ لَهُ)) (المعجم الکبیر للطبرانی‘ ح: ۱۲۵)
’’ وہ شخص جس کی کوئی حیثیت نہیں‘ کوئی مقام نہیں۔‘‘
یعنی ایک آدمی جیسا تیسا بھی ہے وہ اپنے معاملات میں فیصلے کر رہا ہےیا اپنے گھر والوں کے معاملات میں الٹے سیدھے تصورات قائم کر رہا ہے تو اُس کا یہ جہل مرکب اُس کی ذات اور اس کے گھروالوں تک محددود ہے‘ لہٰذا اس میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخصPublic domainمیں آئے اور اپنی نا اہلی کےباوجودقوم سے کلام کرے‘ ان کے معاملات سے متعلق گفتگو کرے اور انہیں مشورے دے اور ترغیب دلائےتو یہ بہت خطرناک ہے۔ ایسے نااہل‘ داعی‘ متکلمین اور لیڈر بہت خطرناک ہیں اپنی آخرت کے حوالے سے بھی اور دوسرے لوگوں کو مبتلائے آزمائش کرنے کے حوالے سے بھی۔ احادیث میں ایسوں کو گمراہ کن امام ورہنما قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا:یا رسول اللہ! ہم جہالت اور برے حالات میں تھے‘ اللہ نے آپ کے ذریعے ہمیں خیر سے متعارف کرایا‘ کیا اس خیرکے بعد کوئی شر ہو گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں!پوچھا گیا: یارسول اللہ! اس شر کے بعد کوئی خیر ہو گا؟ فرمایا: ہاں! خیر ہو گا‘لیکن اس میں دھواں ہو گا۔ پوچھا : یا رسول اللہ! دھویں کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا: ((قَوْمٌ يَھْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْھُمْ وَتُنْكِرُ)) ’’ ایسے لوگ ہوں گے جو میری ہدایت کے بغیر ہدایت تلاش کریں گے‘ تم ان سے اچھے برے ہر طرح کے اعمال دیکھو گے‘‘۔ پوچھا: یارسول اللہ! کیا اس کے بعد کوئی شرکا دور ہو گا؟ فرمایا: ((نَعَمْ‘ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ‘ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْھَا قَذَفُوهُ فِيھَا)) ’’ ہاں‘جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہوں گے‘جو اُن کی بات مانیں گے وہ انہیں جہنم میں دھکیل دیں گے‘‘۔ پھرپوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! ذرا ان کے اوصاف بتائیے۔ فرمایا: ((هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا‘ وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا)) ’’وہ ہمارے جیسے چہرے بشرے کے ہوں گے اور ہماری جیسی گفتگو کریں گے‘‘۔ یعنی ہماری زبان میں بات کریں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جیسے ہماراdiscourseہے وہ بھی ویسی ہی دینی اور قرآن وسنت کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ یعنی یہ جو دوزخ کے داعی ہیں یہ کوئی پاپ سٹارز نہیں ہیں‘ یہ کوئی کھلےملحدین نہیں ہیں‘agnostic یاscepticنہیں ہیں۔یہ بظاہر اچھی باتیں کر رہے ہیں‘ہماری جیسی زبان بول رہے ہیں۔ پھر جب صحابی نے آپﷺ سے پوچھا کہ ایسی صورت میں پھر کیا کرنا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ((تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ)) ’’مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رہو‘ اس کے امام سے متعلق رہو‘‘۔ اور پھر جب پوچھا گیا کہ اگر کوئی جماعت نہ ہو‘ کوئی پیشوا نہ ہو؟ تو فرمایا کہ: ((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذٰلِكَ.))’’ان تمام جتھوں اورگروہوں سے علیحدہ ہو جاؤ‘ چاہے تمہیں کسی درخت کی جڑ کھا کر یا اس کو چوس کر‘ اس کو چبا کر اپنی زندگی گزارنی پڑے‘ یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے‘‘۔ (صحیح بخاری‘ح: ۳۶۰۶)
اس حدیث میں بغیر اہلیت کے لوگوں کی رہنمائی کرنے والوں کوجہنم کا داعی بتایاگیا ہے جو بہت قابل حذر بات ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ چل رہا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا: ((لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي)) ’’دجال کے علاوہ مجھےکچھ اورچیزوں کا اپنی اُمّت کے بارے میں اندیشہ ہے‘‘۔ تین مرتبہ آپﷺ نے یہ بات فرمائی‘ تو سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی! اپنی اُمّت پردجال کے علاوہ کن لوگوں کےبارے میں آپ کو خدشات لاحق ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ((أَئِمَّةً مُضِلِّينَ))’’گمراہ کرنے والے امام ‘پیشوا۔‘‘ (مسند احمد‘ح:۲۱۲۹۶)
سیدنا ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں چنددوسری نشانیوں کے ساتھ گمراہ کن پیشواؤں کا بھی ذکرآتا ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((وَاِنَّمَا اَخَافُ عَلٰى اُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ‘ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي اُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْھَا اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ‘ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِي الْأَوْثَانَ‘ وَاِنَّهُ سَيَكُونُ فِي اُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ‘ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ اَنَّهُ نَبِيٌّ‘ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘ وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ اُمَّتِيْ عَلَى الْحَقِّ)) قال لابن عيسى: ((ظاهرين)) ثم اتفقا- ((لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ‘ حَتَّى يَأْتِيَ اَمْرُ اللّٰهِ)) (سنن ابی داوٗد‘ ح:۴۲۵۲)
’’مجھے اپنی اُمّت کے بارے میں جس چیز کا اندیشہ ہے وہ گمراہ کرنے والے پیشوا ہیں‘ اور جب میری اُمّت میں تلوارنکال دی جائے گی توقیامت تک داخل نیام نہ ہو سکے گی۔ اور قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ میری اُمّت کے کچھ قبائل مشرکین سے جاملیں گےاورمیری اُمّت کے کچھ قبائل بتوں کی پوجا شروع کر دیں گے۔ اور عنقریب میری اُمّت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے‘ان میں سےہر ایک کو یہ زعم ہو گا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ درحقیقت میں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔میری اُمّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا‘ مخالفین اس گروہ حق کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘ یہاں تک کہ اللہ کا امرآ جائے۔‘‘
یہاںاس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پیشگوئیوں والی احادیث میں گمراہ کن پیشواؤں کا ذکر آ رہا ہے‘ یہ دراصل نا اہل لوگ ہیں‘ جوبغیرعلمی یا اخلاقی اہلیت ولیاقت کے لوگوںکے معاملات میں کلام کریں گے اور نا جائز طور پر لوگوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہو کر ان کی گمراہی میں اضافہ کریں گے۔ اب یہ جو نشانی ہے اس دور میں بچشم سر دیکھی جا سکتی ہے۔
اتھارٹی کا بحران
اس وقت جو بحران (crisis) ہے‘ وہ اتھارٹی کا بحران ہے‘ یعنی قانونی حیثیت کا مسئلہ (Legitimization problem) ہے۔ اس کاآغاز نوآبادیاتی دور (Colonial period) میں بڑی تعداد میں ہو گیا۔ اگر ہم ایک کیس سٹڈی کے طور پربرصغیر ہی کو دیکھ لیں توہمارا معاشرہ ایک روایتی معاشرہ تھا‘ مگر انحطاط اور زوال کا شکار تھا اور زوال بھی ہمہ گیر تھا۔ ہمارے اندر کچھ ایسی اخلاقی‘ علمی خرابیاں آ گئی تھیں جن کی وجہ سے ہمcolonizeہونے کے لیے بالکل تیار تھے۔یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوااور ہم colonizeکیوں ہوئے؟ہمارا موضوع یہاں یہ ہے کہ اتھارٹی کا بحران کب سے آیا۔کیونکہ دورِ غلامی سے پہلے جیسا تیساہمارا معاملہ تھا‘ ہمارا ایکauthorityکا نظام تھا‘ حکمران اور علماءتھے۔ اسی طرح قضاۃ کا نظام تھا اور احکام کا نفاذ تھا اور چل رہے تھے‘اگرچہ اس میں کمزوریاں اور کوتاہیاں بھی تھیں۔ لیکن یہاں پر جب انگریز آیا تو اس نے ہمارے ہرstructureکو تباہ کر دیا اور زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ نوآبادیاتی نظام (Colonialism)نے ان کو کتنا بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ انہوں نے مسلم اُمہ کو ایساdent ڈال دیا ہے کہ اُمّت مسلمہ کوdecolonize ہوتے ہوئے۷۵-۷۰سال ہو چکے‘ لیکن ابھی تک ہم اس کے اثر سے نہیں نکل سکے:؎
اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے!
یعنی انگریز نے کوشش کر کے اس کی روایتی‘ ذہنی اور روایتی سیاسی قیادت دونوں کو تباہ کر دیا:
{قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً ۚ}(النمل:۳۴)
’’(ملکہ سبا نے) کہا : بے شک جب بادشاہ (غاصبانہ طور پر) کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تواس میں فساد کرتے ہیں اور یہاں کے عزت والوں کوذلیل کر تے ہیں۔‘‘
سیاست میں انہوں نے یہ کیا کہ جو اُن کی پرانی درجہ بندی (hierarchy) تھی اس کو توڑ دیا اور وہ لوگ جو ان کے سائیس تھے‘ ان کے گھوڑے دھلانے والے‘ ان کی مٹھی چاپی کرنے والے تھے‘ ان کی خوشامدیں کرنے والے تھے ان کو سر پر بٹھا دیا۔ اسی طریقے سے جو علماءاورروایتی خانقاہیں تھیں‘ ان کوختم کر دیا‘اوقاف اپنے قبضہ میں کر لیے۔ اسی طرح خانقاہوں کے ساتھ جوسارے اوقافndowments e تھے وہ ختم کر دیے اور پھر جعلی مشائخ اور گدی نشینوں کا ایک پورا طبقہ پیدا کیا اور وہ لوگ آج تک ہم پر مسلط ہیں۔جس طرح سیاست میںجعلی رہنما ہم پر مسلط ہیں‘ اسی طرح جعلی روحانیت یا تصوّف جو مزاروں اور گدی نشینوں والی ہے‘ جہاں ہر طرح کا استحصال جاری ہے‘ وہاں بھی یہی لوگ مسلط ہیں۔یہ ایک پورا موضوع ہے کہ ان لوگوں نے کیسی کیسی غداریاں کی ہیں اور پھر کتنی بڑی بڑی جاگیریں ان کو دی گئیں۔ تو اس کے نتیجے میں ہماراauthority کا نظام disturb ہو گیا اور پھر معاملات وہی ہوئے کہ: ع ’’گلے میں جو آئیں وہ تانیں اڑاؤ!‘‘ پھر جس کے گلے میں جوتان آئی‘ اڑا تا رہا اور ہر آدمی اپنی جگہ گویا مجتہد بن بیٹھا۔
اس پوری صورت حال میں علماء مقاومت کرتے رہے اور اپنی جدّ وجُہد جاری رکھی۔ مگر لوگ علما ءکے حوالے سے عجیب باتیں کرتے رہے کہ یہ ہو گیا‘ وہ ہو گیا۔ لیکن اگر تھوڑا سا بھی انصاف سے مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائےگا کہ کم از کم برصغیر کے علماء کتنا سخت چنا ثابت ہوئے ہیں‘کس طرح انہوں نے اس دینی تراث کو بچایا ہے‘ کس طرح اس روایت کو محفوظ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دین کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ اب یہ کسی کا دعویٰ نہیں کہ اس میں کوتاہی ان سے نہیں ہوئی‘کوئی کمی نہیں ہوئی یا کچھ چیزوں سے انہوں نے صرف نظر نہیں کیا‘لیکن بہرحال نےانہوں نے پوری جرأت کے ساتھ یلغار کامقابلہ اور دین و مذہب اور اس کی روایت کا تحفظ کیا۔ ایسی صورتِ حال میں عموماً نئی نئی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں ‘ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ‘ کئی بہروپیے پیدا ہوئے جنہوں نے علمی روایت سے ہٹ کر دین کی ترجمانی شروع کی۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پرکئی چیزیں ہوتی ہیں‘ کچھ لوگ ہوتے ہیں‘ ان کی کچھ اُفتادِطبع ہوتی ہے‘ اس سے مجبور ہو کر اور کچھ حالات کے جبر سے اور بعض مقتدر قوتوں کے مفادات کی وجہ سے حقیقت کے بجائے جعل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب یہ تینوں چیزیں جمع ہوتی ہیں‘ تو پھر نئی نئی آوازیں برآمد ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ایک نیا نبی(نبی کاذب)پیدا ہوا‘پھر اسی طریقے سے انکارِ حدیث کا فتنہ پیدا ہوا‘ تو اُسی دور میں بہت سے معاملات یہاں پر سامنے آئے۔لہٰذامخلص اہل علم نے اس اہم دینی مسئلے کی طرف از سرنو توجہ کی کہ دین اور تعبیر وتفہیم دین میں کلام کرنے کا اہل کون ہےاور کس کو یہ حق حاصل ہے کہ دین کے مسائل میں کلام کرے۔
سیادت کے حق دار اہل ِعلم ہیں
دین کی تفہیم اور تعبیر کس کی معتبر ہوگی اور کس کی نہیں‘ تو اس ضمن میں قرآن کریم کی اصولی رہنمائی یہ ہے:
{ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (۴۳)} (النحل)
’’اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘
اس آیت کا سیاق وسباق کے مطابق مطلب تو یہ ہے کہ جو اہل ذکر ہیں‘ یعنی علمائے اہل کتاب‘ ان سے پوچھ لو‘ کیونکہ یہ نبی کریمﷺ کی رسالت کی حقانیت کے بارے میں جانتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کے پاس ساری پیش گوئیاں موجودہیں۔ لیکن اصول تفسیر کی رُو سےان الفاظِ قرآنی کی رہنمائی عام ہے‘ کہ ہمیں اہل علم سے ہی رہنمائی لینی ہے۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طے رہا کہ اہل الذکر وہ ہیں جو دینی علم میں بھی پختہ ہیں اور جن کا کردار اور جن کا تقویٰ بھی مسلّم ہے۔ لیکن نو آبادیاتی دور میں جب مسلمانوں کے نظم حکومت کے ساتھ ان کا مذہبی اور علمی نظم بھی درہم برہم ہو گیا اورلوگوں کو ایک خاص طرح کی آزادی مل گئی‘ تو انہوں نے نئی نئی آوازیں بر آمد کیں‘ اپنی اُپچ نکالی‘ مسلمانوں کی علمی اور مذہبی روایت پر نقب کی اوراسے نشانے پر رکھا۔ مقتدر قوتوں نے بھی اپنے مفادات کے لیے ان کو ابھارا‘ جس کے نتیجے میں ایک غیر روایتی مذہبی قیادت نام نہاد سکالرز‘ ریسرچ سکالرز اورمفکرین وغیرہ کی ایک پوری breed(نسل) سامنے آئی۔ بڑے فخر سے بیان ہوتا ہے کہ جناب یہ روایتی مولوی نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو بڑے جدید سکالرہیں۔
نام کے فرق کے ساتھ یہ معاملہ ہر دور میں سامنے آیا ہے اور خاص طور پر جب زوال ہوتاہے تو اس میں اس طرح کی چیزیں برآمدہوتی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی بہت سے جدید مفکرین سامنے آئے اور انہوں نے کلام کیا ۔اور ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ زندقہ کا شکار ہو کر کلام کر رہے ہوں‘لیکن چونکہ اس کا معاملہ نیت سے متعلق ہے‘ جس کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے‘لہٰذا ہم کسی کی نیت پر بات نہیں کرتے‘تاہم اہلیت کا سوال بہرحال اٹھایا جائے گا۔اور یہ بالکلgenuineسوال ہے کہ Who speaks for Islam??یعنی اسلام یا دینی موضوعات کے بارے میں کون کلام کرے گا؟کس کو اس بارے میں گفتگو کا حق حاصل ہے؟ تو اہل الذکرہی ہیں‘جن کو گفتگو کرنی چاہیے۔ پختہ کاراور تربیت یافتہ علمائے کرام ہی کا منصب ہے کہ وہ دین کی تشریح و تعبیر میں کلام کریں۔ اب اس دور میں معاملہ یہ ہو گیا ہے کہ وہ لوگ کہ جو دینی علم میں پختہ نہیں ہیں‘ بلکہ دین کا باقاعدہ علم انہوں نے حاصل بھی نہیں کیا‘وہ دینی معاملات میں رائے زنی کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ٹیکنوکریٹ ہوں‘ٹیکنیکل علوم‘ مثلاً طب‘ کمپیوٹر سائنس‘ اکاؤنٹنگ یا کوئی بھی جدید علم انہوں نے حاصل کیا ہو‘ مگر دینی علوم سے ناواقف ہیں‘ تو ایسے لوگوں کو دین کے معاملے میں کلام کا حق حاصل نہیں ہے۔لہٰذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ دین کے معاملے میںوہ عوام کی رہنمائی کے منصب پر خود کو نہ فائز کریں‘کیونکہ یہ کام عالم دین کا ہے نہ کہ کسی عام آدمی کا۔
عالم کی اصطلاح ایک اضافی اصطلاح ہے
سمجھ لیجیےکہ عالم بھی ایک اضافی اصطلاح ہے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۷۶) } (یوسف)
’’ہر عالم سےبڑا ایک عالم ہوتا ہے۔‘‘
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں عمدہ جملہ لکھا ہے:
فوق كل ذي علم‘ رفعه اللّٰه بالعلم مَن هو أعلم منه حتى ينتهي العلم إِلى اللّٰه تعالى
’’ہر علم والا جسے اللہ نے علم کے ذریعے بلندی دی ہے کے اوپر ایک اور علم والا ہے‘ یہاں تک علم کلی کی انتہا اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اَقدس پر ہوتی ہے۔‘‘
دین کے بہت سارے علماء آج کل موجود ہیں‘ پھر علمائے سلف موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺ بھی عالم ہیں‘ بلکہ اُن کے پاس جو علم ہے وہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے‘ وہ علم ہمارے اوسان اور گمان سےبڑا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ العلیم ہے‘ جو سب کچھ جانتاہے اور سار اعلم اُسی ذاتِ بابرکات سےپھوٹتا ہے۔لہٰذا ’’عالم‘‘ کی اصطلاح ایک اضافی اصطلاح ہے۔ جب ہم علومِ دین کی طرف آئیں تو ہم جانتے ہیں کہ سب ایک سطح پر نہیں ہوتے‘ علماء کے بہت سےمراتب ہیں۔ بعض عالم دین ایسےہیں جنہوں نے عمومی طور پر علم دین کی تحصیل کی ہے‘ لیکن بعض نے کچھ چیزوں میں اضافی طور پر تخصیص کے ساتھ سیکھا ہے۔ کسی نے تفسیر میں زیادہ محنت کی‘بڑے بڑے اساتذہ سے پڑھا‘اب یہ کہا جائے گا کہ یہ تفسیر کے عالم ہیں۔کسی نے حدیث میں‘ کسی نے علم الکلام میں‘ کسی نے فقہ میں‘ کسی نے علوم آلیہ‘مثلًا منطق‘ صرف ونحو‘ بلاغت اور علم بدیع وغیرہ میں تخصص کیا ہے۔ تو دین کے عمومی معاملات میں عام علمائے کرام سے رہنمائی لینا کافی ہے‘ لیکن کسی خاص میدان میں رہنمائی کے لیے اس میدان کے متخصص سے رہنمائی درکار ہو گی۔
اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ عالم کا مصداق کون ہے‘ یعنی جس نے اگرچہ کسی شعبے میں تخصص نہ کیا ہو‘ مگر عمومی اعتبار سے اس پر عالم کا اطلاق کیا جائے‘تو جس کےپاس درسِ نظامی کی سند ہے کیا وہی عالم ہے؟ تو یہاں اصل بات یہ ہے کہ کیا آپ نے باقاعدگی سےکئی سال لگا کر اساتذہ سے دین سیکھا ہے؟ آپ اساتذہ کے پاس گئے ہیں‘ ان سے سیکھا ہے اور ان سے کتب پڑھی ہیں؟آپ نے ان کی صحبت اٹھائی ہے اور انہوں نے آپ کی تربیت کی ہے اور انہوں نے آپ کودرس وتدریس اور تعلیم وارشاد کی اجازت دی ہے؟ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ مختلف علماء کے پاس لوگ جاتے تھے‘ ان علماء کی ملازمت اختیار کرتے تھے‘ ان کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر وہ ان کو مختلف علوم کی اجازت دیتے تھے‘ مخصوص کتابوں کی اجازت بھی دی جاتی اور دیگر علوم کی اجازت بھی دی جاتی تھی۔ ہمارے بہت سارے اکابر اسی طرح علم حاصل کرتے تھے۔ اس طرح کا نظام تو اب نہیں ہے‘ بس درس نظامی کی سند ہی ایک طرح سے اجازت ہے۔ تو اب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے باقاعدہ علم دین کی تحصیل کی ہے‘ پھر انہیں اساتذہ کی طرف سے چاہے روایتی شخصی اجازت یا درس نظامی کی سند کے ذریعے اجازت دی گئی ہو‘ تو اُن ہی کا یہ کام ہے کہ وہ دین پر کلام کریں اورعوام کو بھی چاہیے کہ ان ہی علماء سے رجوع کیا کریں۔ آپ ایک عطائی کے ہتھے چڑھ گئے تو آپ کی صحت چلی جائے گی‘ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ کو ایک غلط انجکشن لگا دیا یا کچھ اور دے دیا‘ تو اس میں اگرچہ نقصان کا اندیشہ ہے‘ مگر یہ زیادہ سے زیادہ صحت کا نقصان ہے ‘جبکہ دینی معاملات میں ہم اگر غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جائیں تو ہمارا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے: ’’ نیم حکیم خطرہ ٔ جان‘ نیم مُلا خطرۂ ایمان‘‘ ۔نیم حکیم یعنی نااہل طبیب‘ ڈاکٹر کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں تو جان کا خطرہ ہے‘ لیکن ع ’’یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جان کی کوئی بات نہیں!‘‘اس کے مقابلے میں سب سے زیادہ اہمیت تو مقاصد ِدین کی ہے‘ سب سے اوپر حفظِ دین ہے‘ حفظ ِایمان ہے‘ اس کے بعد حفظ ِجان ہے۔چونکہ نیم ملا خطرۂ ایمان ہے‘ وہ آپ کے ایمان کو زائل کر سکتا ہے‘ تو یہ بات اہم ہے اور ہمیں اسے اہمیت دینی چاہیے۔ یعنی جو کلام کرنے والےہیں ان کو بھی اہمیت دینی چاہیے اور جو عوام ان سے استفادہ کر رہے ہیں ان کو بھی یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ آپ کون ہیں اور آپ کی نسبت کس سے ہے؟
اِسناد کی ضرورت واہمیت
دین کے معاملے میں گفتگو کرنے والے سے یہ کہنا کہ آپ کون ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی علمی حیثیت کیا ہے‘ آپ کے اساتذہ کون ہیں اور آپ نے کس سے سیکھا ہے؟ اصطلاح میں اسے اسناد کہتے ہیں۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((لَم یَکُوْنُوْا یَسْاَلُوْنَ عَنِ الْاِسْنَادِ‘ فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ قَالُوْا : سَمُّوْا لَنَا رِجَالَکُمْ‘ فَیُنْظَرُ اِلٰی اَھْلِ السُّنَّۃِ فَیُؤْخَذُ حَدِیْثُھُمْ‘ وَیُنْظَرُ اِلٰی اَھْلِ الْبِدْعَۃِ فَلَا یُؤْخَذُ حَدِیْثُھُمْ)) (مقدمہ صحیح مسلم)
’’فتنوں کےپیدا ہونے سےپہلے سند کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا‘ جب فتنہ رونما ہوا توحضرات اہل علم حدیث بیان کرنے والوںسے کہنے لگے کہ اپنے اساتذہ کا نام بتاؤ! تفتیش کرنے کے بعد صرف اہل السنۃ رواۃ کی روایت قبول کرتے اور اہل بدعت کی روایت ردکرتے تھے۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَلْاِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْ لَا الاِسْنَادُ لقال مَن شَاءَ مَا شَاءَ (مقدمہ صحیح مسلم)
’’اسناد دین میں سے ہے‘ اگر یہ اسناد نہ ہوتی توکوئی شخص جو چاہتا‘وہ کہہ گزرتا۔‘‘
اسی طرح سند اور نسبت کے متعلق دیگر ائمہ کے اقوال ہیں‘ وہ گویا اس دین کا جو علمی مزاج ہے اس کو defineکرتے ہیںـ ۔ ہمارے ہاں ایک جملہ عام ہے کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کیا کہا جارہا ہے؟ یہ بات محدود معنوں میں ٹھیک ہے! ایک حدیث بھی ہے کہ:
((الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَھُوَ أَحَقُّ بِهَا))(سنن الترمذی‘ح:۲۶۸۷)
’’دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ متاع ہے وہ جہاں بھی اسے پائے اس کادوسروں سے بڑھ کرحق دار ہے‘‘۔
تو یہ بات اس حد ٹھیک ہے‘ جیسے کہ ہمارے ہاں اس طرح کی ضرب المثل بھی ہے کہ:
خذ الحكمة من أفواه المجانين
’’حکمت کی بات چاہےمجنون یعنی دیوانےکی زبان سے کیوں نہ ہو لے لو۔‘‘
مگر یہ بات محدود معنوں میں تو ٹھیک ہے‘ مگر دین کا معاملہ زیادہ نازک ہے‘ اس لیے دین کے معاملے میں‘اصول دین کے معاملے میں خاص طور پر ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا کہا جارہا ہے اور کون کہہ رہا ہے؟ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کیا کہا جارہا ہے‘ کیونکہ کلام میں جو زور پیدا ہوتا ہے وہ متکلم سے پیدا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ ’’اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں‘‘یا ’’رسول اللہﷺ کا فرمان ہے‘‘ تو اس کی الگ حیثیت ہوگی اور جب ہم کہیں کہ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ یہ فرما رہے ہیں‘ تو اس کی الگ حیثیت ہوگی۔اسی طرح جب ہمارے سامنے بات آجائے کہ امام اشعری رحمہ اللہ یہ کہہ رہے ہیں‘یہ امام ماتریدی رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں‘ یہ امام غزالی رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں‘یہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں۔ تو ان سب کے بلند علمی درجات ہیں‘ ان کے مقام ومرتبے سے بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے بڑے شاعر ہیں‘ جب ان کی کوئی غلطی نکالتا ہے کہ فلاں جگہ آپ نے قاعدے کی خلاف ورزی کی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میاں قاعدہ واعدہ کیا ہوتا ہے؟ قاعدے تو ہمارے کلام سے متعین ہوں گے‘ ہمارے کلام سے لغت بنے گی‘ کلام سے قواعد منضبط ہوں گے۔ تو یہ بات اہم ہے کہ کون کہہ رہا ہے‘ اسی بات کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے۔
اکابر کو چھوڑ کر چھوٹوں سے علم حاصل کرنا
ماقبل ایک حدیث ہمارے سامنے آئی تھی جو قلت ِعلم کے بارے میں تھی‘ اب ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں‘ جو علم کے چھوٹے پن کےبارے میں ہے:
((اِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ثَلَاثَةً : اِحْدَاهُنَّ أَنْ يَلْتَمِسَ الْعِلْمَ عِنْدَ الْأَصَاغِر)) (المعجم الکبیر للطبرانی‘ ح: ۹۰۸)
َ’’قیامت کی تین نشانیوں میں سےایک یہ ہے کہ علم چھوٹوں سے لیا جائے گا۔‘‘
اب یہ چھوٹے کون ہیں‘ کیا عمر میں چھوٹے ہیں یا علم میں چھوٹے ہیں‘ مرتبے میں چھوٹے ہیں یا احترام میں چھوٹے ہیں؟ تو عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: الأصاغر أهل البدعة’’چھوٹے لوگ اہل بدعت ہیں‘‘۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک قول منقول ہے:
((لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ عُلَمَائِھِمْ وَأُمَنَائِھِمْ‘ فَإِذَا أَخَذُوهُ مِنْ أَصَاغِرِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا)) (الآداب الشرعية والمنح المرعية)
’’ لوگ برابر خیر پر رہیں گے جب تک کہ وہ علم اپنے اکابر‘ علماء اور امانت دار لوگوں سے لیتے رہیں گے‘ پھر جب وہ اپنے چھوٹوں اورشریر لوگوں سے علم حاصل کر نا شروع کر دیں‘ تو ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فأما صغيرٌ يؤدِّي إلٰی كبيرِهم فھو كبير. (التخريج الصغير والتحبير الكبير)
’’پس جب کوئی چھوٹا بڑوں کی طرف دوسروںکی رہنمائی کر دے تو وہ کبیر ہے۔‘‘
یہ بہت اہم جملہ ہے کہ ایک دور کے رہنے والے علماء بھی ایک مرتبے کے نہیں ہوتے۔ ان میں سے کچھ بڑے علماء ہوتے ہیں جوسینئر علماء ہوتے ہیں اور کچھ جونیئر علماء ہوتے ہیں۔ پھر اسی طرح وہ جنہوں نے ابھی نیا نیا علم کے راستے میں قدم رکھا ہے‘ سب کے الگ درجات ہیں۔ ان میں سے نچلے درجے کے حضرات جب دعوت دیتے ہیں تو اپنے سے نہیں جو ڑتے بلکہ اپنے اساتذہ اور اپنے بڑوں سے جوڑتے ہیں۔ یہی ایک درست طریقہ اور سند ہے اور یہی دین کی روایت ہے۔ ابراہیم الحربی رحمہ اللہ ایک بڑے بزرگ ہیں‘ وہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماقبل ذکر کردہ قول کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:
اَنَّ الصَّغِيرَ إِذَا اَخَذَ بِقَوْلِ رَسُولِ اللّٰهِﷺ وَالصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَھُوَ كَبِيرٌ. (شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ للالكائي)
’’اگر کوئی چھوٹا شخص رسول اللہﷺ‘ صحابہ ؓاور پھر تابعینؒ سے باتیں لے کر بیان کرے تو وہ بڑا ہے۔‘‘
تو اس تشریح سےمعلوم ہوا کہ یہاں کبیر سے مطلب عمر میں بڑا ہونا یا صغیر سے عمر کا چھوٹا ہونا مراد نہیں ہے‘ بلکہ اصل میں علمی برتری اور مقام مطلوب ہے۔کوئی شخص عمر میں چھوٹا ہے لیکن اس کا علمی شجرہ صحیح ہے اوروہ درست ترتیب سےمصادرِ شریعت کو برت رہا ہے تو وہ بڑا ہے۔ اور اگر کوئی بڑی عمر کا شخص ہے اور بظاہر بڑاصاحب ِعلم بھی ہے‘ لیکن وہ بس اپنی عقل ہی کو معیار بنائے رکھتا ہے اور لوگوں کو اسلا ف سے نہیں جوڑتا‘ اپچ نکالتا ہے‘ نئی نئی باتیں کرتا ہے‘ سنن یعنی اللہ کے نبیﷺ کے اقوال‘ ارشادات اور افعال ‘ اسی طرح صحابۂ کرامؓ سے روایات کو چھوڑ دیتا ہےتو ایسا شخص چھوٹا ہے۔ اسی مضمون کی مزید وضاحت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے:
وان لناس بخیر ما اخذوا العلم من اکابرھم ولم یقصم الصغیر علی الکبیر‘ فاذا قام الصغیر علی الکبیر فقد (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة‘ للالكائي‘ ص:۱۰۰)
’’لوگ خیر پر رہیں گے جب تک علم اپنے بڑوں سے لیں گے اور چھوٹے بڑوں پر مسلط نہیں ہوں گے۔ اور جب چھوٹے بڑوں پر مسلط ہو جائیں (بڑوں کے سر پر سوار ہو جائیں‘ بڑوں کو dictateکرنا شروع کردیں)تو پھر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘
اس قول کا مقصد یہ ہے کہ لوگ خیر پر رہیں گے جب ان کے پاس علم ان کے بڑوں کی طرف سے آتا رہےگا‘ جب علم ان کے چھوٹوں کی طرف سے آنے لگے گا تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔ جب چھوٹا اپنے بڑوں سے کہنے لگے کہ آپ کو کیا پتا‘ آپ کیا جانتے ہیں؟تو یہاں سے وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ دنیاوی علم میں بھی اب یہ ہو رہا ہے کہ جو نئی نسل ہے وہ اب یہ سمجھتی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے لحاظ سے زیادہ literate ہیں۔ وہ اپنے باپ دادا کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اباجی کو‘ دادا جی کو تو موبائل کا استعمال کرنا ہی نہیں آتا‘ ان کو تو پتا ہی نہیں کہmessage کیسے کرتے ہیں‘ ان کو تو پتا ہی نہیں کہfacebookکیسے استعمال کرتے ہیں۔یہ ایک چھوٹی سی مثال دی ہے‘ لیکن یہ ہر علم میں ہو گیا ہے کہ نئے نئے لوگ آ رہے ہیں‘ کچھ لوگ الیکٹرانک میڈیا میں آ رہے ہیں۔ پھر وہاں سے سٹار بن رہے ہیں اور پھر وہ بڑے بڑے علماءکےمنہ کو آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو تو پتا ہی کچھ نہیں ہے‘ یہ تو اپنے اپنے گوشوں میں بیٹھے ہیں‘ اصل تو ہم ہیں۔ اور انہیں دعویٰ ہے کہ ہمیں اصل مسائل کا ادراک ہے اور آپ لوگ نہیں جانتے‘ آپ تو اگلے زمانوں کے لوگ ہیں۔ آپ یہ پرانے لوگ اپنی باتیں اپنے تک رکھیے‘ اب ان باتوں کا خریدا ر کوئی نہیں۔ تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے‘ کیونکہ اس میں اہلیت کا معاملہ یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ جو ایک بڑی مصیبت ہے۔ایک صاحب ربیعہ بن ابی عبد الرحمٰن رحمہ اللہ کے پاس گئے اوران کودیکھا کہ وہ رو رہے ہیں‘ ان سے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز رلاتی ہے؟ کیا آپ کو کوئی مصیبت آئی ہے؟ کہنے لگے:
((لَا وَلٰكِنِ اسْتُفْتِيَ مَنْ لَا عِلْمَ لَهُ وَظَھرَ فِي الْإِسْلَامِ أَمْرٌ عَظِيمٌ))(جامع بيان العلم وفضلہ‘ ح: ۲۴۱۰)
’’نہیں‘لیکن ایسے لوگوں سے فتویٰ طلب کیا جا رہا ہے جن کے پاس کوئی علم نہیں ہے اوریہ اسلام میں بہت بڑا حادثہ ہے جو ظاہر ہو گیا ہے‘‘۔
یہی حضرت ربیعہ بن ابی عبد الرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض فتویٰ دینے والےایسے بھی ہیں جو چوروں سے زیادہ اس کے حق دار ہیں کہ ان کو قید کیا جائے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ امام اس زمانے کی بات کر رہے ہیں جو آج سے بہت بہتر تھا اور اگرآج امام ہوتے تو پتا نہیں کیا کہتے۔ یہاں توجس کو گفتگو کرنی آتی ہے‘ جو بو ل بچن ہے‘ جس کو لفاظی کرنی آتی ہے‘ جو لَسَّان ہے ‘اُس کا سکہ چلتا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ہے جن پر رسول اللہﷺ نے بھی تشویش ظاہر فرمائی ہے۔ آپﷺ نے ایک دفعہ فرمایا:
((اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَى هٰذِهِ الْأُمَّةِ مُنَافِقٌ عَلِيمُ اللِّسَانِ))(شعب الایمان‘ ح: ۱۶۶۴)
’’مجھے اس اُمّت پر سب سے زیادہ خوف اُس منافق کے معاملے میں ہے جو عالم ِ لسان ہے۔‘‘
عالم اللسان کا مطلب ہے کہ علم کی باتیں اور روایتیں اس کی نوک ِزبان پر تو ہیں‘ لیکن اس کے دل میں اس علم کا کوئی اثر ہے نہ اُس کے عمل پر اُس کا کوئی اثر ہے۔ اُس کا دل علم کی حقیقت اورخشیت سے خالی ہے جب کہ اس کا عمل تقویٰ اور اطاعت سے خالی ہے۔ تو اب ایسے لوگوں کا دین یا افرادِ دین کو کوئی فیض نہیں پہنچ پا رہا‘ بلکہ اُلٹا یہ کسی ضرر ہی کا باعث بنتے ہیں۔
اب یہاں ایک مسئلہ تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکابرین چلے جاتے ہیں‘ان کی نیابت کی اہلیت نہ رکھنے والے لوگ ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔پھرجب یہ مشہور ہو جاتے ہیں تو لوگ انہیں شیخ الکل بنا لیتے ہیں اور زندگی کے ہر معاملے میں‘ دین کے ہر شعبے میں ان سے سوالات کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اکثر تو عوام کے ساتھ پیش آتا ہے‘ مگر بعض بھلے مخلصین بھی اسtrapمیں آ جاتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دین کے ہر معاملے میں کلام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور پھر وہی صورت حال پیش آ جاتی ہے:
((فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ‘ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)) (صحیح البخاری‘ ح:۱۰۰)
’’پھر ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے‘پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
قاسم بن محمدرحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ:
لأن یعیش الرجل جاهلا خیر من أن یقول علی اللّٰه ما لا یعلم
یعنی یہ بات کہ آدمی جاہل رہ جائے ‘ اس سے بہتر ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کرے جو وہ نہیں جانتا۔
جو قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیزیں حرام کی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:
{ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (۱۶۹)} (البقرۃ)
’’اور یہ کہ تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘
یہ بہت بڑا گناہ اور حرام ہے۔ پھر اسی طرح سورۃ الانعام میں فرمایا:
{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍط اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۴۴) } (الانعام)
’’اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑے تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کر دے۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
یہ بہت خطرناک اور افسوس ناک بات ہے‘جبکہ بد قسمتی سے اس دور میں یہtrends اور رویے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
دلیل کے قبول ہونے کے لیے اس کا معیاری ہونا ضروری ہے
آج کل یہ جملہ زبان زدِ عام ہے کہ فلاں آدمی اپنی ہر بات کی دلیل دیتا ہے‘ حالانکہ صرف دلیل کا ہونا کافی نہیں بلکہ دلیل کا معیاری ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاہل شرک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
{اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴) } (الاحقاف)
’’میرے پاس کوئی کتاب جو اس سے پہلے کی ہو یا کوئی اور مضمون منقول لاؤاگر تم سچے ہو!‘‘
یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ترجمہ ہے‘وہ ان الفاظ کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’مطلب یہ ہے کہ دلیل نقلی کے لیے ضروری ہے کہ اصل منقول عنہ کا قابل تقلید ہونا ثابت ہو اور سند اس تک متواتر یا متصل موجود ہو‘ خواہ وہ منقول عنہ کسی نبی کی کتاب ہو یا ان کا زبانی قول ہو۔‘‘
یعنی کوئی الہامی کتاب لے آؤ اور دکھا دو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ کلام ہے‘ اللہ نے یہ کتاب نازل کی ہے ‘اس میں یہ بات آئی ہےیا کسی نبی کی کوئی زبانی روایت جو چلی آرہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ یا تو اللہ کی کتاب میں تذکرہ ہوگا یا کسی رسول کا قول ہوگا‘ ورنہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ چنانچہ آج کل ہمارے لیے یہ رہنما اصول ہے کہ کتاب اللہ یا رسول اللہﷺ کے ارشادات جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تواتر سے ہم تک پہنچے ہیں ان میں کوئی ایسی بات ہوگی یا اس کی کوئی بنیاد ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم ہر چیز کو دلیل کے طورپر اور ثبوت کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔
معلومات کی بہتات کی آفت
اس دور میں ایک اور آفت لاحق ہے اور وہ عمومی طور پر یہ ہے کہ ہر چیز میں بہت زیادہexcessزیادتی‘ بہت زیادہ بڑھوتری ہوئی ہے۔چونکہ اس عہد کے بہت سے عنوانات قائم کیے گئے‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: Age of excessہے‘ ہر چیز کیexcess بہتات ہے۔ ایک فتنۂ لسّان ہے کہ کلام بہت زیادہ ہو رہا ہے‘گفتگو بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ ایک بڑے صاحبِ علم یہ بات کہتے ہیں کہ اس دور کا سب سے بڑا فتنہ گفتگو کا فتنہ ہے۔ اب کلام کے لیے سوشل میڈیا آ گیا ہے اور یہ بالکل ایک personalize شےہے۔ ہر ایک کے پاس اپناایک ذاتیmediumہے۔ مثال کے طور پر facebookہے‘ twitterہے‘ پھر اس کے بعد youtubeہے جہاںکوئی بھی شخص چینل بنا سکتا ہے‘اس کے لیے بس اس کے پاس ایک کیمرہ اورایک موبائل ہونا چاہیے۔اگراس موبائل میں کیمرہ ہے‘ تو اس میں مختلفclipsبناکر‘ دنیا کے ہر معاملے‘ہر فیلڈاورہر موضوع پربے تکلف کلام کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ اس پر کوئی پکڑ نہیں ہے‘ یعنی کسی مارتے ہوئے کا ہاتھ تو آپ روک سکتے ہیں‘بولتے ہوئے کی زبان کو تو نہیں روک سکتے‘ جو اس کے منہ میں آئے گا بولتا چلا جائے گا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((اِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَدِيثِ عَنِّي‘ فَمَنْ قَالَ عَلَيَّ فلَا يَقُولَنَّ اِلَّا صِدْقًا‘ وَمَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (مسند احمد‘ح: ۲۲۵۳۸)
’’مجھ سے حدیث بہت زیادہ روایت کرنے سےبچو‘پس جو بھی میرے بارےکوئی بات بیان کرے (یا مجھ سے کوئی بات منسوب کرے) وہ ہرگز ہرگز کوئی بات نہ کرے سوائے سچائی کے ‘اور جو کوئی ایسی بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔‘‘
ان الفاظ سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ کثرت میں غلطی کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے‘چنانچہ رسول اللہﷺ نے احتیاط کی تعلیم دیتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
انفرادیت پسندی کا فتنہ
ایک اور فتنہ جوعام ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو شوق چرایا ہے کہ نئی نئی باتیں نکالنا‘ Novelty پیدا کرنا۔ بہت سے لوگ ہیں جو اس فتنے کا شکار ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو روایتی دین بھی حاصل کیا ہے‘ ان میں بھی یہ چیز پیدا ہو گئی ہے کہ اگر ہم وہی روایتی باتیں کرتے رہے جو سب کر رہے ہیں...... تو کیوں نہ ہم کچھ نیا پیش کریں۔ یہ نیا پیش کرنے کا جذبہ شہرت اور نام ونمود کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے‘ چنانچہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ‘جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ علماء اور مصلحین کے کیا فتنے ہیں؟ ان میں سے ایک یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ شہرت کی خواہش اور ہر دلعزیزی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہر دلعزیزی کا فتنہ کہ مجھے کوئی اپنی جگہ نکالنی ہے‘ بڑوں کی باتیں کرتے رہیں تو اس سے کیا ہو گا؟ اس سے تو لگے گا کہ ان کا اپنا تو کوئی دماغ ہے ہی نہیں‘ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے‘چنانچہ پھر وہ اس کے لیے نئی نئی چیزیں نکالتے ہیں۔ اسی لیے بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں انفرادیت کی جو خواہش ہے کہ انسان شریعت کے معاملے میں اپنی عقل سے گفتگو کرے‘ اس سے ہمارے بڑے بچتے تھے۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تین جلیل القدر شاگر دہیں: امام ابو یوسف‘ امام محمد اور امام زفر رحمہم اللہ‘ ان کو یہ بات پسند نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی باتیں کریں‘ بلکہ انہوں نے اپنے استاذ کے علوم کو منتقل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے علوم زیادہ تر ان کے شاگردوں کے ذریعے منتقل ہوئے۔یہ جلیل القدر شاگرد‘ اپنے استاذ کے علوم کا انتساب اپنی طرف کر سکتے تھے اور ان پر اپنا نام لگا سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنے اساتذہ کے علوم کو ان کے حوالے سے نشر کرنے کا اہتمام کیا۔
اسی طرح فلسفے کے میدان میں ایک بہت بڑا فرد ہے افلاطون‘ یہ اتنا بڑا شخص ہے کہ ایک بڑا امریکن فلاسفر White Hadak or Alfred North Whitehead یہ کہتا تھا کہ مغرب کا فلسفہ کیا ہے؟ وہ تو بس ایسا لگتا ہے کہ افلاطون پر کسی نے حاشیے لکھے ہیں‘ افلاطون کےdialoguesہیں‘مگر حسن کی بات یہ ہے کہ اس کے ان ڈائیلاگ میں وہ اپنے استاد سقراط کے مکالمے نقل کرتا ہے۔ اسی طرح ہماری روایت میں بھی مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ کتنے بڑے آدمی تھے‘ کتنے بڑے عارف تھے‘ کتنے بڑے شاعر تھے‘ مگر ان کے غزل کے دیوان کا نام ’’دیوانِ شمس‘‘ ہے۔ اور کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ شمس تبریزی رحمہ اللہ کی غزلیں ہیں‘حالانکہ وہ مولانا رومی رحمہ اللہ کی اپنی غزلیں ہیں‘ مگر اس میں انہوں نے ’’دیوانِ شمس‘‘ کا عنوان قائم کیا۔ ہمارے قریب کے دور کے مولانا ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ ہیں‘ انہوں نے تفسیر لکھی اور اس تفسیر کا نام ’’تفسیر مظہری‘‘رکھاجو دراصل انہوں نے اپنے شیخ حضرت مرزا مظہر علی جانِ جاناں رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا۔ تو یہ بات بہت اہم ہے کہ نئی نئی باتیں نکالنا قابلِ تحسین نہیں ہے۔ سیدنا علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
لیس ما لا یعرف من العلم‘ إنما العلم عرف و تواتر عليه الألسنة
یعنی ’’وہ چیزیں جو پہچانی نہیں جاتیں‘ نئی نئی ہیں‘ اچھوتی ہیں‘ وہ علم میں سے نہیں ہیں‘ بلکہ علم تو وہ ہے جو معروف ہے ‘جو جانا پہچانا ہے اور جو زبانوں پر تواتر سے چلا آ رہا ہے۔‘‘
اسی طرح ابراہیم بن ابی عبلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
من حمل شاذ العلم حمل شراً كثيرا
’’جو شاذ علم اٹھائے پھرتا ہے(یاجو شاذ علم کا career بنتا ہے) گویا وہ بہت بڑا شر اپنے اوپر لیے پھرتا ہے۔‘‘
بہرحال‘ یہ انفرادیت پسندی اور نیا پیش کرنے کا ایک شوق ہے جس نے اس دور میں بہت سے لوگوں کو خراب کیا ہے۔
اجتہاد اور اس کی اہلیت و صلاحیت
اگر ہم بغور جائزہ لیں تو قرآن وسنت کی تعلیمات میں کامل مہارت اور نصوص کی باریکیوں سے انتہائی واقفیت کے بعد ہی کسی کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے‘ جو پیش آمدہ مسائل میں رہنمائی کا کام سر انجام دے سکے۔ چنانچہ نئے پیش آنے والے مسائل میں انفراداً اور اجتماعاً صحیح فیصلہ کرنے کی استعداد اور صلاحیت واہلیت ہی اجتہاد کہلاتا ہے۔ اب یہاں ایک اور امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ قرآن کریم کا متن چونکہ قطعی الدلالہ ہے‘ جبکہ احادیث مبارکہ ساری کی ساری قطعی الدلالہ نہیں ہیں‘تو اجتہاد کے لیے سب سے پہلے تو روایات کا ثبوت تک پہنچانا بہت ضروری ہے‘ لیکن جب احادیث ٹھیک ہوں‘ ان کی اسنادی حیثیت پر کوئی کلام نہ ہوتو پھر دوسرا درجہ نصوص سے استنباط کرنا ہے۔ اسی طرح احادیث کی صحت کا ثبوت اور نصوصِ دینیہ قرآن وحدیث سے استنباط‘ یہ دونوں اجتہادی امر ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟ ظاہر ہے یہ کام علمائے کرام ہی کریں گے اورعلماء نےیہ کام ہمیشہ سے کیا ہے۔ ماضی میں اہل علم‘ ان نصوص کی شرح اور استنباط کرتے آئےہیں اور یہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کسی صاحب سےسہو نہ ہوا ہو‘ کوئی غلطی نہ ہوئی ہو‘ کوئی تساہل نہ ہوا ہو۔مگرایسا بھی نہیں ہے کہ آج لوگ اٹھیں اور کہیں کہ پرانے لوگوں نے بھی یہ باتیں کی تھیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے۔ یہاں پر بھی اہلیت کی بات ہوگی‘ یہ ہر آدمی کا کام نہیں ہے کہ وہ اٹھے اور اجتہاد کرنا شروع کر دے۔ علامہ اقبال اجتہاد کے بہت زیادہ شائق تھے اور یہ ان کا بڑا محبوب موضوع تھا‘ خطبات میں بھی انہوں نے پورا ایک باب "The Principle of Movement in the Structure of Islam"شامل کیا اور اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ’’ اسلام میں اجتہاد کی تحریک کے اصول‘‘۔لیکن علامہ اقبال بھی ایک جگہ پر یہ کہتے نظرآتے ہیں: ؎
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
علامہ اقبال یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ رفتگاں‘ یعنی جو دنیا سے جا چکے ہیں ان کی اقتدا‘عالم کم نظر کے اجتہاد کی تقلید سے بہتر ہے۔ علامہ نے یہ بات اس لیےفرمائی کہ ان کے زمانے میں اجتہاد اور تجدیدکا آوازہ بہت لگ رہا تھا اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہے۔ علامہ کا ایک اور شعر بھی ہے: ؎
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
آج بھی آپ دیکھ لیں کہ جو نئے نئے متجدد ومحقق ہیں‘ ان کو اصلاًمتحقق کہنا زیادہ بہتر ہے‘ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مغرب کو کسی طرحIslamizeکر لیں‘ اسلام کوWesterniseکر لیں۔حالانکہ ان لوگوں کے اندر اجتہاد کی کوئی صلاحیت کا سرے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ بلکہ ان کا کردار بھی مشکوک ہوتا ہے۔بہرحال‘ اجتہاد کے لیے اہلیت بہت ضروری ہے۔ یہاں ایک بات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے‘ یہ جو اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ:
((إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ اَجْرَانِ‘ وَاِذَا حَكَمَ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ)) (صحیح البخاری‘ح:۷۳۵۲)
’’جب حاکم یا قاضی فیصلہ کرتا ہے اور اجتہاد کرتا ہے اور پھر صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے ‘تواُس کے لیے دوہرا اجر ہے ‘اور اگر وہ فیصلہ کرتا ہے‘ اس میں اپنی پوری کوشش کرتا ہے اور چوک جاتا ہے تو اس کے لیے اکہرا اجر ہے۔‘‘
پیچھے ہم نے حدیث میں دیکھا تھاکہ اہل‘ علمائے کرام جب اُٹھ گئے تو نا اہلوں کو لوگوں نے پیشوا بنا لیا۔اب یہ جو حدیث میں آیا کہ اجتہاد میں درست فیصلہ کرنے والے کو دہرا اجر ملے گا اور خطا کرنے والے کو اکہرا اجر ملے گا‘ تو اس کا انحصار بھی اہلیت پر ہے۔ ابن المنذررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وانما يُؤجر الْحَاكِم اِذا اَخطَأ اِذا كَانَ عَالما بِالِاجْتِهَادِ فاجتهد وَاَمّا اِذا لم يكن عَالما فَلَا (فتح الباری)
’’جب حاکم اجتہاد کے لائق عالم ہو پھر وہ اجتہاد کرےتو اُسے خطا پر اَجر دیا جائے گا اور جب کہ وہ عالم نہ ہو تووہ اجر کا حق دار نہیں ہے۔‘‘
چنانچہ یہ بہت اہم بات ہے کہ وہ حاکم جس کو خطاپراجر دیا جائے گا ‘ یہ وہ ہے جو اجتہاد کا علم واہلیت رکھتاہو ‘اور جو عالم ہی نہیں ہےتو اُس کے اجتہاد کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے‘ بلکہ اس کو اجتہاد کی اجازت ہی نہیں ہے‘تو وہاں اجر کا کیا سوال ہے۔ پھر علامہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیاہے:
((اَلْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: قَاضِيَانِ فِي النَّارِ وَقَاضٍ فِي الْجَنَّةِ. قَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ ‘ وَقَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ مُتَعَمِّدًا فَھُوَ فِي النَّارِ‘ وَقَاضٍ قَضَى بِغَيْرِ عِلْمٍ فَھُوَ فِي النَّارِ)) (مستدرک حاکم)
’’قاضی تین ہوتے ہیں: دو قاضی تو دوزخ میں جائیں گے اور ایک قاضی جنت میں ہوگا۔ ایک قاضی وہ ہے جو حق کو پہچانتا ہے اور اُسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا ‘اور ایک قاضی وہ ہے جو حق کو جانتا ہے لیکن جان بوجھ کرناحق فیصلہ کرتا ہے یہ دوزخ میں جائے گا ‘اور تیسرا قاضی وہ ہے جوبغیر علم کے فیصلہ کرتا ہے یہ بھی دوزخ میں جائے گا۔‘‘
یہاں دیکھیں کہ تیسرے قاضی کے فیصلے کے درست یا غلط ہونےکے بارے میں بات نہیں کی گئی‘ بلکہ اُس کی اہلیت پر بات کی گئی کہ وہ بغیر علم کے فیصلے کررہا ہے تو اُسے دوزخ کی وعید سنائی گئی۔ یہ وہ قاضی ہے جو نہ رشوت لے رہا ہے‘نہ جان بوجھ کر غلطی کر رہا ہے اور نہ ہی اس کی نیت میں خرابی ہے‘ بلکہ وہ یہ کام بالکل نیک نیتی سے کر رہا ہے‘ لیکن اُس کے پاس علم کی کمی اور اہلیت کا فقدان ہے‘ جس کی وجہ سے اس کا سارا کام غلط قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا صرف نیک نیتی کافی نہیں ہے‘ بلکہ کسی دینی امر میں گفتگو کرنے کے لیے مطلوبہ اہلیت وصلاحیت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مخلصین دین کی بات کر رہے ہیں‘احادیث کے بارے میں کلام کر رہے ہیں اور کوئی بری نیت نہیں ہے‘ کوئیmal intentionنہیں ہے‘ لیکن محض صحیح نیت‘ صحیح علم کا قائم مقام نہیں ہے۔چنانچہ بغیر اہلیت کے جو رائے دی جائے وہ بہرحال تفسیر بالرائے الفاسد کہلائے گی اور تفسیر بالرائے المذموم ہی کہلائے گی۔ اجتہاد کے بارے میں امام خطانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انما يُؤجر الْمُجْتَھد اِذا كَانَ جَامع الآلة الِاجْتِھَاد فَھُوَ الَّذِي نعذره بالْخَطَأ بِخِلَافِ الْمُتَكَلّف فيخاف عَلَيْهِ (فتح الباری)
’’مجتہد کو اس صورت میں اجر دیا جائے گا کہ جب وہ آلہ ٔاجتہاد کا جامع ہو‘(اجتہاد کے لیے جو بھیtools درکار ہیں‘ وہ اس کے پاس موجود ہیں) اجتہاد میں خطا ہونےپر ایسے ہی شخص کا عذر قبول کیا جائے گا‘ برخلاف متکلّف کے کہ اس پر تو عذاب کا اندیشہ ہے۔‘‘
امام خطابی رحمہ اللہ کے قول میں متکلّف کا لفظ آیا ہے‘ جو ہمارے علمی ورثے کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ے کسی چیز کے بارے میں سوال پوچھا گیا‘ جو واضح نہیں تھی‘ توآپ ؓ نے فرمایا:
((نُھِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ)) (صحیح البخاری)
’’ہمیں تکلف سے روکا گیا ہے۔‘‘
متکلّف وہ ہے کہ جسے علم وفہم کچھ بھی نہیں ہے‘ معلوم کچھ نہیں ہے‘ نہ اس نے علوم سیکھے‘ نہ زبان آتی ہے‘ نہ اس کو طریقہ استنباط کا کچھ پتا ہے‘ لیکن بس اپنی Gut feeling(چھٹی حس) سے یا حالات کو دیکھ کر ایکfeeling
سے یا اپنی طرف سے کوئی بات نکال کر کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے اکہرے ثواب کا کیا سوال‘ بلکہ ڈر ہے کہ ہو سکتا ہےکہ اسے آخرت میں دُرّے لگیں۔متکلف کی عام عادت یہ ہے کہ اس سے چاہے پوچھا نہ جائے پھر بھی آگے بڑھ کر جواب دینے کی کوشش کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ:
((لَا يَقُصُّ اِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ))(سنن ابی داوٗد‘ ح: ۳۶۶۵)
’’کسی اہم معاملے میں گفتگو نہیں کرے گا سوائے امیر یا اُس کی طرف سے مامور یا کوئی متکبر شخص۔‘‘
وعظ یا دینی بات نہیں کرے گا مگر یا تو حکمران جو اتھارٹی رکھتا ہے یا وہ جسے حکمران مامور کرتا ہے‘ جبکہ اولو الامر میں حکمران اور علماء دونوں شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کسی اتھارٹی پر نہیں ہے‘ نہ دینی اتھارٹی ہے اور نہ ہی سیاسی اتھارٹی پر‘ لیکن اس کے باوجود پیشوائی جتلا رہا ہے تو یہ متکلّف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ:
((لَا يَقُصُّ عَلَى النَّاسِ اِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُرَاءٍ))(مسند احمد‘ح:۶۶۶۱)
’’لوگوں میں وعظ و بیان نہ کرےمگریا تو امیر یااُس کا مقررکردہ کوئی شخص یاشیخی خور۔‘‘
یہ تیسرا آدمی دکھاوا کرنے والا ہے یا شیخی خور ہے‘ show offکرتا ہے‘ تو کہا کہ کوئی آدمی خود سے آگے بڑھے تو یہ بھی اچھی بات نہیں ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے:
((مَنْ اُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ اِثْمُهُ عَلَى مَنْ اَفْتَاهُ)) (سنن ابی داوٗد‘ ح: ۳۶۵۷)
’’جس شخص کو کسی دوسرے نے بغیر علم کے فتوی دے دیا (اور اس سے کوئی غلط کام ہو گیا) تو اس کا گناہ غلط فتویٰ دینے والے کو ہوگا۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اہلیت کا سوال عموماً ہر موضوع میں پیدا ہوتاہے‘ مگر دین کی بات بہت زیادہ حساسیت کی حامل ہے۔ اس لیے یہ سوال دین کے ہر موضوع میں پیدا ہو گا‘ احادیث اور احادیث فتن اور اشراط الساعۃ میں بھی پیدا ہو گا کہ آپ جو ان موضوعات پر کلام کر رہے ہیں‘ ٹھیک ہے آپ صحافی ہوں گے‘ آپ دانشور ہوں گے‘ آپ بیوروکریٹ ہوں گے‘ آپ نام نہاد مفکر ہوں گے‘آپ جدید معنوں میں intellectual ہوں گے۔ آپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اور دوسری چیزوں میں بہت کارنامے انجام دیےہوں گے۔ لیکن یہ آپ کی فیلڈ نہیں ہے ۔یہاں آپ کو گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے ‘یہاں آپ کے لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔
علم دین معتبر اساتذۂ فن سے حاصل کیا جائے
اہلیت کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہےکا آپ نے دین کا علم کہاں سے حاصل کیا‘ کن کن اساتذہ سے رجوع کیا اور کیا سیکھا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ علم دین سینہ بسینہ منتقل ہوا ہے اور یہی اس کا معتبر ذریعہ ہے۔ ہو سکتا ہے کسی شخص نے ماہر اساتذہ کی نگرانی کے بغیر محض اپنے ذاتی مطالعے سے علم حاصل کیا ہو‘ مگر وہ زیادہ معتمد ذریعہ نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا امکان ہے کہSelf taught لوگ ہوتے ہیں اور خود سے کتابیں پڑھ پڑھ کر بہت اچھی استعداد بھی پیدا کر لیتے ہیں‘ لیکن بہر حال‘ یہ معاملہ خطرناک ہے۔ اس موضوع کے اعتبار سے امام شاطبی رحمہ اللہ نے’’الموافقات‘‘ کے شروع میں کچھ مقدمات لکھے ہیں‘ وہ سارے پڑھنے چاہئیں‘ لیکن خاص طور پر مقدمہ نمبر بارہ میں انہوں نے اس بحث کو موضوع بنایا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ علم کے حصول کا سب سے زیادہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ محققین سے لیں۔ ساتھ ساتھ وہ ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا بغیر معلّم کے علم حاصل ہو سکتاہے؟ امکان تو اس کا بہرحال موجود ہےاورہو سکتا ہے‘ مگر علم کو معلّم ہی سے لینا چاہیے‘ کیونکہ یہ زیادہ محفوظ راستہ ہے۔ اسی طرح اگر آپ بڑے علماء سے علم لیں‘ تو پھر بھی یہ سوال رہے گا کہ علماءکو بھی تو عصمت حاصل نہیں ہے‘ بربنائے طبع بشری ایک بڑے عالم سے بھی چوک ہو سکتی ہے‘ کیونکہ ہر عالم کی ضلات ہوتی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہاں بھی دونوں باتیں صحیح ہیں‘ لیکن بہر حال علم کو معلّم ہی سے لینا چاہیے۔
چنانچہ دوسرے سوال کے جواب میں وہ کچھ ہدایات ارشاد فرماتے ہیں کہ محقق عالم کون ہے اور اس کی تفصیل میں وہ فرماتے ہیں: الْعَمَلُ بِمَا عَلِمَ‘ ’’اپنے علم پر عامل ہو‘‘۔ تفصیل میں لکھتے ہیں کہ عالم معلّم کے قول وفعل میں مطابقت ضروری ہے اور اگر ان میں تضاد ہو تویہ اس لائق نہیں ہے کہ اس سے علم حاصل کیا جائےاور نہ اس لائق کہ اس کی پیروی کی جائے۔ دوسری شرط بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں: أَنْ يَكُونَ مِمَّنْ رَبَّاهُ الشُّيُوخُ فِي ذٰلِكَ الْعِلْمِ ’’معلّم نے اس علم کے شیوخ اور ماہرین سےملازمت رکھی ہو اور ان سے علمی تربیت پائی ہو۔‘‘ تفصیل میں انہوں نےصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین اور سیرت کے کچھ واقعات سے استشہاد کیا ہے۔ تیسری شرط عملی اور اخلاقی تربیت کے متعلق ہے ‘فرماتے ہیں: الِاقْتِدَاءُ بِمَنْ أَخَذَ عَنْهُ وَالتَّأَدُّبُ بِأَدَبِهِ ’’معلّم نےاپنے اساتذہ کی اقتدا کی ہو اور ان سے آداب سیکھے ہوں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نےمحققین اہل علم سے اخذ ِعلم کے دو طریقے بیان کیے ہیں:
وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ أَخْذِ الْعِلْمِ عَنْ أَهْلِهِ‘ فَلِذٰلِكَ طَرِيقَانِ: أَحَدُهُمَا: الْمُشَافَھَةُ ‘ وَهِيَ أَنْفَعُ الطَّرِيقَيْنِ وَأَسْلَمُهُمَا.
’’جب یہ ثابت ہو چکا کہ علم اہل لوگوں سے حاصل کرنا چاہیے تو اس کے دو طریقے ہیں‘ان میں پہلا طریقہ توبالمشافہ علم حاصل کرنا ہے ‘اوریہ دونوں طریقوں میں سےبہتر اور محفوظ تر طریقہ ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے کچھ احادیث وآثار سے اپنی بات کو محقق کیا ہے۔ پھر دوسرے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوسرا طریقہ مصنّفین کی کتابوں اور مُدَوّنات کامطالعہ ہے جو کچھ شرطوں کے ساتھ فائدہ مند ہے۔ پہلی شرط کےمطابق آپ بتاتے ہیں کہ پہلے انسان کو چاہیے کہ جس میدان کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے‘ اس کی ابتدائی باتیں سیکھ لے اور اس میدان کی علمی اصطلاحات سے واقفیت پیدا کر لے۔ اب یہ جو واقفیت ہے یہ کہاں سے آئے گی؟ فرماتے ہیں: وذلك يحصل بالطريق الأول‘ ومن مُشَافَھَةِ الْعُلَمَاءِ. ’’یہ حصول علم کے پہلے طریقے یعنی علمائے کرام سے بالمشافہ حاصل ہو گی‘‘۔ اب یہ بات خاصی اہم ہے یعنی کتابوں سے علم حاصل کر نے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا سارے کا سارا انحصار کتابوں کے مطالعے پر ہو‘ بلکہ ابتدائی علم تو آپ کو بہرحال اساتذۂ کرام ہی سے حاصل کرنا ہے تاکہ مزید مطالعے کے لیے آپ کی بنیادیں مضبوط ہو سکیں۔ لہٰذا سب سے بہتر تو یہ ہے کہ بالمشافہ ملیں‘ یعنی براہ راست (direct)اساتذہ سے لیں‘ یہ بہترین طریقہ ہے۔ البتہ دوسرے درجے میں کتابوں سے بھی لیاجا سکتا ہے۔ لیکن کتابوں سے لینے کی بھی کچھ احتیاطیں ہیں‘ ان کو برتنے کی ضرورت ہے۔ توجن حضرات کو بھی اس موضوع سے شغف ہے تو وہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کے مقدمات میں سے خاص طور پر بارہ نمبر مقدمہ کو دیکھ لیں۔
پاپائیت کا الزام اور اس کی حقیقت
بہر حال‘ خلاصہ یہ ہے کہ ہر علم میں یا ہر ڈسپلن میں کلام کرنے کے لیے یا کوئی رائے رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اہلیت درکار ہوتی ہے۔ جبکہ آج کل دین کے معاملے میں کئی لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں تو بس Free for all والا معاملہ ہے‘ کوئی بھی شخص کوئی بھی بات کرسکتا ہے۔اور اگر کہیں کسی کو توجہ دلائی جائے اور بتایا جائے کہ آپ کو اس حوالے سے گفتگو کرنے کا حق نہیں ہے یا آپ کے اندر اہلیت نہیں ہے‘ تو جھٹ سے ایک بات کہی جاتی ہے کہ یہ تو پاپائیت ہے اور آپ دین میں پاپائیت قائم کر رہے ہیں۔اگر پاپائیت سے مراد کوئی ایسی کلاس یا کوئی ایسی شخصیت ہے جس کو عصمت کا مقام حاصل ہو یا جس کو روح القدس گائیڈ کرتے ہوں‘جو ہر طرح کی غلطی اور کوتاہی سے پاک ہو اور اس کا کہا گویا خدا کا کہا ہو‘ اور اُس کی بات کا انکار کرنا یا اُس کی بات پر کوئی سوال اٹھانا یا اُس کی بات پر کوئی اعتراض کرنا یا اس کی بات کے بارے میں کوئی اشکال کسی کے ذہن میں پیدا ہونا ناجائز ہو‘ تو ان معنوں میں تو پاپائیت اسلام میں نہیں ہے۔ مگر اس طعنے سے اہلیت کی شرط ختم نہیں کی جاسکتی‘ خواہ معاملہ دین کا ہو یا کسی اور دنیوی فیلڈ کا ہو اہلیت بہرحال شرط ہے۔ آپ کے علم ميں ہو گا کہ یہ پاپائیت کی اصطلاح ایک توہین آميز اصطلاح (derogative term) اور یہ اصطلاح پروٹسٹنٹس فرقے کی طرف سے سامنے لائی گئی تھی۔ چونکہ کیتھولک ازم ((Catholicism میں پوپ کا ایک خاص مرتبہ ہے اور اس کے وہ اوصاف ہیں جو ماقبل بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی کیتھولکس یہ سمجھتے ہیں کہ پوپ ملہم اور انسپائرڈ (Inspired )ہے یعنی اس پر الہام ہو رہا ہے‘ القا ہو رہا ہے‘ مقدّس روح (Holy ghost )یا ہولی اسپرٹ (Holy spirit )پوپ کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس طرح پوپ کو تقریباً ایک بے خطاہستی سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ مقام ومرتبہ صرف انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ (appointed)ہوتے ہیں اورمعصوم ہوتے ہیں۔انبیاء علیہم السلام مفترض الطاعۃ ہوتے ہیں یعنی ان کی اطاعت فرض ہوتی ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج } (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی‘ اُس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کا اطاعت کی۔‘‘
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ اے نبی!آپ ملول ہوتے ہیں کہ یہ آپ کی توہین و تضحیک کر رہے ہیں اورآپ کی بات کو قبول نہیں کر رہے ہیں‘تو فرمایا:
{فَاِنَّـہُمْ لَا یُـکَذِّبُوْنَکَ وَلٰـکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ(۳۴)} (الانعام)
’’(اے نبی ﷺ)! یہ آپ کو تھوڑی جھٹلاتے ہیں بلکہ یہ ظالم لوگ تو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا نبی کی بات گویا اللہ کی بات ہوتی ہے:
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبدالله بود
بہرحال‘ اسلامی تعلیمات کی رو سے ’’عصمت‘‘ خاصۂ نبوت ہے اور رسول اللہﷺ خاتم النبیّین بھی ہیں اور خاتم المعصومین بھی ہیں۔ اہل تشیّع کے ہاں جو تصوّرِ امامت ہے اس میں بھی عصمت پائی جاتی ہے اور یہ عصمت رسول اللہﷺ کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ وہ بارہ ائمہ کے بارے میں عصمت کے قائل ہیں۔ ان کے ہاں کل تعداد معصومین کی ویسے تو اور بھی زیادہ ہے‘ لیکن چودہ ہستیوں کو وہ بڑے معصومین مانتے ہیں۔ ایک تو رسول اللہ ﷺ ہیں‘ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں اور پھر بارہ ائمہ ہیں۔ البتہ اہل السنۃ کا معاملہ یہ نہیں ہے‘ بلکہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی جو اہل السنّۃ کے نزدیک انبیا ء علیہم السلام کے بعد افضل البشر ہیں‘ تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے بھی کوئی غیر نبی شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کا نہیں ہے‘ ان کو بھی عصمت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ جب رسول اللہﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپؓ نے بھی یہ کہہ دیا کہ اب وحی کا دروازہ بند ہو گیا ہے‘ اگر میں تمہیں اللہ کی کتاب کے مطابق چلاؤں تو میری بات مانو اور اگر میں اس سے انحراف کروں تو میری بات تم نے نہیں ماننی۔یہ انتہائی اہم بات ہمارے سامنے ایک اشکال کی صورت میں سامنے آئی جو حقیقت بھی ہےکہ اسلام میں کوئی پاپائیت نہیں ہے۔ لیکن یہ بات کہ کوئی درجہ بندی (hierarchy )ہی نہیں ہے‘ کوئی مراتب ہی نہیں ہیں‘ تو یہ بات بھی انتہائی خلاف ِحقیقت ہے۔
دنیا میں کوئی بھی سماج ایسا نہیں ہوتا جو classlessہو۔ کارل مارکس نے ایک کلاس لیس سوسائٹی کا خواب دیکھا تھا اور پھر مزید آگے بڑھ کر ایک سٹیٹ لیس سوسائٹی کاخواب بھی دیکھا کہ سٹیٹ بھی جھڑ(wither away) جائے گی اور کلاسز (classes) ختم ہوجائیں گی۔ یہ کارل مارکس کا خواب ہی تھا اور خواب ہی رہا‘ کیونکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ دنیا میں مراتب ہوتے ہیں‘ درجہ بندیاں ہوتی ہیں۔ اورمزید یہ کہ بحیثیت مسلمان ہم تو یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ درجہ بندیاں نہ صرف یہ کہ دنیا میں ہیں اور رہیں گی بلکہ آخرت میں بھی ہوں گی‘ یعنی جنت بھی کوئی سپاٹ مقام نہیں ہے‘ جنت کے بھی مراتب ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں مطلع فرمایا ہے کہ جو نچلی جنت والے ہوں گے وہ اعلیٰ درجے کے جنت والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان میں کوئی بہت دور کے ستارے کو دیکھتے ہو۔ اسی طرح سے جہنم بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ کلاس لیس ہے‘ اس کے بھی درجات ہیں‘ یعنی جس طرح جنت کے درجات ہیں‘ ایسے ہی جہنم کے بھی درجات ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ درجہ بندی جس طرح ہر میدان میں ہے اسی طرح علمی دنیا میں بھی ہے‘چنانچہ ہمارے یہاں درجہ بندی کی بنیاد مطلوبہ اہلیت ہے۔ علمائے دین میں سے جو حضرات مطلوبہ اہلیت کے حامل ہیں تو انہیں اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ دین کی تعلیمات کی تشریح کریں اور ان میں کلام کریں۔ جس طرح آپ دنیا کے ہرعلم میں اتھارٹی اورhierarchy کو قبول کرتے ہیں اسی طرح دین میں بھی آپ کویہ مراتب قبول کرنے چاہئیں۔ ذرا سا غور کریں تو یہ بات انتہائی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ دینی علم میں اتھارٹی کےنظام کوتوآپ گالی دیتے ہیں اور ’’پاپائیت‘‘کی توہین آمیز اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔اگر یہ پاپائیت ہے تو پھریہ بتائیے کہ طبیعیات (Physics) میں پاپائیت کیوں ہے؟ فلکیات (Astronomy) میں کیوں ہے؟ کیمیا (Chemistry ) میں کیوں ہے؟ ریاضی (Mathematics) میں‘ نفسیات ((Psychology میں‘ عمرانیات (Sociology) میں پاپائیت کیوں ہے؟ یعنی جس معنیٰ میں آپ دینی علم میں اتھارٹی کے نظام کو پاپائیت کہتے ہیں‘ اس طرح کی ’’پاپائیت‘‘ تو آپ ہر ڈسپلن میں مانتے ہیں۔ اور جب کوئی بھی آدمی کوئی کلام کرتا ہے یا کوئی کتاب لکھتا ہے یا کوئی مکالمہ (article) لکھتا ہے‘ تو پہلے اس سے آپ اس کی اسناد (credentials) پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے پڑھے ہیں ‘آپ کی کیا اہلیت وقابلیت ہے؟ تو اسی اصول کو دین کے معاملے میں کیوں تسلیم نہ کیا جائے؟
بہرکیف‘ اصل بات یہ ہے کہ جس طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی میں یہ اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ جو جس شعبے سے وابستہ ہے اور اس میں اسے مہارت ہے‘ اسے اس کے لیے اہل سمجھا جاتا ہے کہ اسے یہ حق ہے کہ وہ اس کے متعلق کلام کرے اور اس کے متعلق اپنی رائے پیش کرے۔ اسی طرح یہ اصول‘ دین کے متعلق بھی تسلیم کیا جائے گا کہ اس میں بھی وہ لوگ گفتگو کریں گے جو اصحابِ علم ہیں‘ اس سے وابستہ ہیں اور جنہوں نے اپنی زندگیاں اسے سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کی ہیں‘کیونکہ اُن ہی کے اندر اس کی اہلیت واستعداد ہے۔ ظاہر بات ہے یہ ایک معقول رویّہ ہے کہ ہر صاحب فن کو اپنے فن کے متعلق کلام کرنے کا حق دیا جائے ‘اور ایسے لوگوں کو جنہیں کسی فن کی مبادیات بھی پتا نہ ہوں انہیں یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ رائے زنی کریں اور اپنی طرف سے بلا سوچے سمجھے گفتگو کریں۔ اور جب یہ اصول ایسے شعبوں میں جن کا تعلق دُنیوی معاملات سے ہے‘ تسلیم کیاگیا ہے تو دین کامعاملہ تو ہر لحاظ سے بڑا نازک ہے‘ اس لیے یہاں تو اسی اصول کی پیروی عقلی اور شرعی دونوں اعتبار سے بھی ضروری ہے‘اسے پاپائیت قرار دینا محض جہالت ونادانی ہے۔