(فکر و نظر) ایمان اورعلم کے درمیان تعلق کا مسئلہ - مکرم محمود

24 /

ایمان اور علم کے درمیان تعلق کا مسئلہ
کلامی روایت کی روشنی میں
مکرم محمودایمان اور علم کے درمیان تعلق کا مسئلہ ایک ایسا اساسی مسئلہ ہے کہ جس کے صحیح فہم کے مفقود ہونے کے باعث بہت سے نظری مسائل جنم لیتے ہیں جو دوررس فکری نتائج رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان تعلق کی اگراپنی روایت کی روشنی میں حقیقی معرفت حاصل ہو جائے تو بہت سے نظری مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اگرعلم اور ایمان کی تعریفات اپنی کلامی روایت سے اخذ کی جائیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان میں فرق ضرور ہے مگر یہ فرق نہ تضاد کا ہے اور نہ تباین کا اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ ان میں فرق کے باوجود ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ ان کی باہمی یکجائی نہ صرف ممکن ہے بلکہ کمالِ ایمان کے لیے مطلوب بھی ہے۔ظاہر ہے کہ علم اور ایمان کی تعریفات اور ان کے تعلق یا عدم تعلق کے مبحث کو اگر موضو ع بحث بنایا گیا ہے تو کلامی روایت ہی میں بنایا گیا ہے لہٰذا اس مسئلے میں روایتی موقف کی معرفت کے لیے ائمہ متکلمین کی طرف ہی رجوع کیا جائے گا۔

{اس مبحث کا بہت گہرا تعلق عقل و نقل یاعقل ووحی کے درمیان تعلق کی بحث سے بھی ہے۔ یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے جس پر یہاں تفصیل سے بات نہیں کی جاسکتی لیکن ایک اصولی بات یہ ہے کہ عقلِ صریح (جدید عقل نہیں جو اپنی ماہیت میں عقل عملی ہے) اور نقل صحیح میں جیسے کسی قسم کے تضاد کا کوئی امکان نہیں ہے اسی طرح اصولاً علم(گمان‘ شک اور جہالت کو علم کا نام دینے سے قطع نظر) اور ایمان میں بھی نسبت ِ تضاد نہیں ہے۔ عقل و نقل میں بظاہر جو تضاد پیدا ہوتا ہے متکلمین کے نزدیک وہ قطعیت اور ظنیت کے درمیان ہوتا ہے نہ کہ عقل و نقل میں۔ امام غزالی نے الاقتصاد فی الاعتقاد (القطب الرابع‘ الباب الثانی) میں اور امام رازی نے اساس التقدیس (القسم الثانی‘ الفصل الثانی والثلاثون‘ اس کا ترجمہ ضمیمہ میں دیا جارہا ہے)میں صراحت کے ساتھ اس مسئلے کو بیان کیا ہے۔{
اس کو کلی طور پر نظر انداز کر کے اس موضوع کو زیر ِبحث لانادرحقیقت اپنے زمانے کے معیارات اور تعریفات کو ہی حتمی تسلیم کر لینا ہے۔
یہ مغربی استعمار کی آفاقیت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے کہ ہمارے مستعمَر دماغ علوم‘ مواقف‘ موضوعات اور عمل کا تعین مغربی جدلیات کے دائرے میں کرتے ہیں۔ گویا اس بات کو وہ ممکن بنا دیتے ہیں کہ تمام علمیتوں اور عمل کو جدید جدلیات کے دائرے میں سمو لیا جائے ۔ جدید علمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری دینی روایت کے داخلی موضوعات جو اپنی ایک الگ جدلیات رکھتے ہیں اور بڑے بحث مباحثے‘ قیل و قال کے بعد ایک واضح موقف کی صورت میں سامنے آتے ہیں‘ ان کو جدید جدلیاتی فکر و عمل کے بہاؤ کا حصہ بنا دیا جائے اور پھر جو بھی موقف اورنظریہ ہو وہ وہیں سے برآمد ہو۔ ہماری اپنی داخلی تناظر میں کی گئی بحث اور اس کے حاصلات کو لایعنی اگر نہ بھی کہہ سکیں تو غیر متعلق ضرور قرار دے دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اکثر اس بحث کو موضوع بناتے ہوئے جدید علمی مباحث اور ان کے نتائج کو مکمل طور پر شعوری یا لاشعوری انداز میں اپنا لیا جاتا ہے۔ اگر پہلے اس بات کی تصریح کر دی جائے کہ گفتگو جدید علم کے سیاق و سباق میں ہو رہی ہے تو پھر شاید اتنا مسئلہ نہ ہو‘ لیکن اگر علم اور ایمان کے تعلق کو مطلقاََ زیرِ بحث لایا جائے اور پھر ہماری اپنی روایت میں اس مبحث کو کیسے برتا گیا ہے ‘ ان کے تعلق کو کس طریقے پر بیان کیا گیا ہے اور اس کے کیا فکری نتائج سامنے آتے ہیںان کو جاننے کی کوشش ہی نہ کی جائے یا ان کا بالکل تذکرہ ہی نہ کیا جائے تو یہ مناسب طرزِ فکر ونظر نہیں ہے۔
اس بات کا تعین بھی اس موضوع کو زیر ِ بحث لانے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ علم کی تعریف کہاں سے اخذ کی جا رہی ہے۔ مثلاً علم کی تعریف کارل پاپر سے لی جارہی ہے یا امام غزالی سے؟ اگر تو کارل پاپر سے لی جا رہی ہے اور علم سے مراد سائنسی علم لیا جا رہا ہے تو یقیناً علم اور ایمان میں ایک ایسی مطلق دوئی ہے جس کو کبھی کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علم کی تعریف اپنی کلامی روایت سے لی جائے گی تو بحث کا پورا در و بست تبدیل ہو جائے گا اور علم وایمان میں تفریق برقرار رہتے ہوئے ان کے درمیان تعلق کا پوراایک نیا سیاق و سباق سامنے آجائے گا۔ دراصل ماقبل تصریح اور تحدید کے بغیر علم اور ایمان کو قطعی طور پرالگ قرار دینا ہماری روایت میں پائے جانے والی اس بحث اور اس کے حاصلاتی موقف سے عدم واقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ علم اور ایمان کے مباحث علمِ عقیدہ اور کلام ہی سے متعلق ہیں یعنی ہماری روایت میں اگرکوئی اس کو علمی مبحث کی حیثیت سے زیر بحث لایا ہے تو وہ متکلمین کا ہی گروہ ہے۔ ان کے ہاں اس بحث کے کیا مقدمات اور نتائج ہیں ان سے واقفیت بہم پہنچانا ضروری ہے‘ ورنہ بہت دوررس فکری لغزشیں سر زد ہوسکتی ہیں۔
ہمارے روایتی کلامی موقف سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ علم اور ایمان میں ایک امتیاز کے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تعلق بھی ہے جو ماورائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔ حق کا ظہور اسی ماورائی وحدت میں ہوتا ہے یعنی ان میں امتیازات کے باوجود مشترکات بھی ہیں جہاں پر یہ ایک ہو جاتے ہیں۔ علم اور ایمان کا کسی درجہ پر بھی ایک نہ ہو سکنا باطل کے باطل ہونے کا سبب ہے۔باطل اسی لیے تو باطل ہے کہ وہ کوئی حجت و برہان نہیں رکھتا اور حقیقت کے بالکل غیر مطابق ہے۔ باطل نہ تو انسان کی شعوری ساخت سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ خارجی حقیقت سے۔علم اور ایمان کی اس ایک گونہ یکجائی کو اگر تسلیم نہ کیا جائے تو احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی کوئی ٹھوس بنیاد باقی نہیں رہتی۔ جدیدیت کے اثرسے بنیادوں کے ٹھوس نہ ہونے کے ہم قائل ہو چکے ہیں۔ اب علم کبھی قطعی نہیں ہوتا اور ایمان بس انسانی جذبہ اور ارادے کا اظہار ہے۔ یعنی ایک act of willہے جس میں اصل چیز انسانی ارادہ ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کا ارادہ تو کسی قضیہ یا مفروضہ کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔کسی خاص قضیے یا مفروضے پر ایمان کا ارادہ اور باقی قضایا کو باطل قرار دینا ‘اس کی بنیاد کیا ہو گی؟ یعنی اس کا تعین کیسے ہو گا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل؟ کیا اس کا تعین انسانی ارادہ ہی کرے گا؟ بعض حضرات اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں اور اسی کو انسان کے لیے آزمائش اور بنائے امتحان قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کا خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقیدہ یا ایمان کے لیے کوئی معروضی بنیاد نہیں رہتی اور یہ صرف انسان کا ارادی فیصلہ رہ جاتا ہے۔
بعض لوگ اس نتیجہ کو قبول کرنے میں پس و پیش کرتے ہیں لیکن جب گفتگو کی جائے اور پوچھا جائے کہ اس موقف کا لازمی نتیجہ یہی ہے تو اس تلازم کے رشتے کا انکار آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں تو کوئی جواب نہ پاتے ہوئے اِدھر اُدھر کی کہنے لگتے ہیں اور کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر پاتے‘ یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ بہت سے دلائل کا مجموعی اثر انسان پر یہ ہو گا کہ اس کے لیے کسی ایک خاص قضیہ پر ایمان کا ارادہ کرنا آسان ہو جائے۔ یہ بات اگرچہ قرینِ صواب ہے لیکن ان کے موقف کے مطابق دلائل تو علم کے دائرے کی چیز ہیں ‘ علم کبھی قطعی نہیں ہوتا اور ایمان اور علم میں ایسی دوئی یا تفریق ہے جس کو کسی درجہ یا سطح پر بھی ختم نہیں کیا جاسکتا‘تو بات پھر بالآخر انسانی ارادے پر ہی آکر ختم ہوتی ہے۔ بعض لوگ تو سرے سے ایمان کے محتوی(content)کے حوالے سے دلائل کی اہمیت ہی کے انکاری ہیں اور ایمانی چھلانگ(leap of faith)کے قائل ہیں۔بعض حضرات دلائل کی اہمیت کے قائل تو ہیں مگر ان کو یقینی اور قطعی نہیں سمجھتے بلکہprobableاور ترجیحی قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی محتوی یا قضیہ پر قطعی یا یقینی دلائل قائم ہو جائیں تو پھر اسی کو مان لینا یا اس پر ایمان لانا ضروری ہو جائے گااور اگر ایسا ہو جائے تو پھر انسان مکلّف کس بات کا ہو گا یا پھر اس کا امتحان کیا رہ جائے گا؟ اس صورت میں تو اس کے پاس ایمان نہ لانے کی گنجائش ہی نہیں رہے گی۔ یہ محض ایک مغالطہ ہے اور اس بحث کو روایتی کلامی تناظر میں نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ کسی قضیہ پر یقینی دلائل کا قائم ہو جانا اور نفس کا اس کو مان لینا اور اس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا دو بالکل الگ مظاہر ہیں ۔ انسان صرف عقل تو ہے نہیں ‘ جبلتیں‘ جذبات اور خواہشات اس کے خمیر میں گندھی ہوئی ہیں۔ ان سب کو حق کے تابع کر دینا ہی تو انسان کا امتحان ہے۔بہرحال ایمان اور علم کے معانی جب تک اپنے روایتی علوم سے اخذ نہ کیے جائیں اور اس تناظر میں ان کے بیچ ما بہ الامتیاز اور ما بہ الاشتراک کا صحیح تعین نہ ہو جائے اس طرح کے مغالطوں سے بچنا ممکن نہ ہو گا۔
آئیے اس مسئلے کو امام غزالی کے کلام سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔امام صاحب کے حوالے سے اس مبحث کو سمجھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نہ صرف متکلمین بلکہ صوفیاء کے بھی امام ہیں۔ مجمع البحرین ہونے کی حیثیت سے آپ کی بات کی وقعت و اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس میں ایک اور تناظر بھی ہے کہ حضراتِ صوفیاء کی باتوں سے کچھ ایسا تاثرپیدا ہو تا ہے یا ان کے اقوال سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ہاں فکر و نظر اور انسانی عقل و شعور کی حرکت کی تنقیص کی جاتی ہے۔ نارسائی اور ناطاقتی کو عقل و شعور کی ماہیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور ان میںموجود قبولیت کے مادہ پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس کو کچھ حضرات عدم قطعیت اور عدم معرو ضیت کے ما بعد جدید موقف سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور علم میں قطعیت اور جزم کے نہ ہونے پر صوفیانہ روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں۔صوفیاء کی وہ باتیں فی نفسہ درست ہیں لیکن ان کا محل اور سیاق و سباق بالکل مختلف ہے۔وہاں تقابل وجدان‘ باطنی اذعان و کشف اور عقل و علومِ عقلیہ کے بیچ میں ہے۔ صوفیاء کے ہاں چونکہ باطن پر زیادہ توجہ ہے اس لیے وہ ان پر زیادہ زور دیتے ہیں۔صوفیاء کے ہاں نظرو فکر سے معرو ضی علم حاصل ہوتا ہے لیکن وہ ایک مرتبہ وجود تک محدود ہے۔ کشف و وجدان کی رسائی اگلے مراتب تک بھی ہے۔ اس بحث کا تعلق ان کی جودیات یا علم الوجود سے ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ وہاں نظر و فکر یا دلائل عقلیہ کی اہمیت کا انکار نہیں بلکہ وہ عرفان و کشف کو ایک بڑا دائرہ فرض کرتے ہوئے نظرو فکر کو اس میں ایک چھوٹے دائرے کی حیثیت دیتے ہیں اور اس طرح اس کی محدودیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ٓٓٓآمدم بر سر مطلب ‘امام غزالی نے اپنی کتاب ’’المستصفٰی من علم الاصول‘‘ کے شروع میں ایک طویل مقدمہ منطق پر لکھا ہے اور کہا ہے کہ کتاب کو سمجھنے کے لیے اس مقدّمہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ امام صاحب ’’الفصل الثانی فی دعامۃ الحد‘‘ میں کسی بھی شئے کی حد( تعریف تام) پر بحث کرتے ہیں۔علم کی حد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک مشترک اسم ہے ‘اس کا اطلاق مختلف معانی پر ہوتا ہے اور ہر ایک کی حد اسی حساب سے مقرر کی جائے گی۔ علم کی بہت سی تعریفات بیان کی گئی ہیں لیکن امام صاحب کہتے ہیں کہ علم کی کوئی حد تام مقرر کرنا مشکل ہے ‘اس لیے ایک اسلوب یہ ہو سکتا ہے کہ ایجابی راہ پر چلنے کے بجائے سلبی طریقے سے علم کو بیان کیا جائے ‘یعنی یہ بتایا جائے کہ علم کیا کیا نہیں ہے ‘کیونکہ علم کو کچھ اور معانی کے ساتھ ملتبس کر دیا جاتا ہے حالانکہ درحقیقت وہ ان سے مختلف ہے۔
علم جو ہے وہ ارادہ‘ قدرت اور باقی تمام صفاتِ نفس سے واضح طور پر متمیز ہے۔ اسی طرح علم نہ شک ہے اور نہ ظن ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علم‘ شک‘ ظن اور وہم انسانی نفس اور قضیہ خبریہ کے درمیان تعلق کی مختلف صورتیں ہیں۔ایک قضیہ کا حصول انسانی نفس میں ہو اور اس کے درست اور غلط ہونے کے امکانات برابر ہوں تو اسے شک کہا جاتا ہے۔ اگر غلط ہونے کے امکانات زیادہ ہوں تو وہم کہلاتا ہے اور اگردرست ہونے کے غالب امکان ہوں تو ظنِ غالب ۔ ان میں سے کوئی بھی علم نہیں ہے بلکہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ : العلم عبارۃ عن امرٍ جزمٍ لا تردّد فیہا ولا تجویز یعنی علم قطعی اور یقینی امر ہے ‘اس میں شک اور امکان کا کوئی گزر نہیں۔ (یہاں آپ علم کی جدید تعریف کہ’’ علم کبھی قطعی نہیں ہوتا‘‘ اور اس تعریف میں ایک واضح نسبت ِ تضاد ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ہمارے روایتی تصورِ علم کو epistemology of certitude (ایقانی علمیت) کہا جاسکتا ہے جبکہ جدید تصورِ علم epistemology of doubt and probabilities (ریبی علمیت) ہے‘ اس لیے بعض اہل نظر کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت کاایک بڑا مسئلہ علمیاتی بحران epistemological crisisکا ہے۔)
چنانچہ ارادہ‘ قدرت اسی طرح باقی صفاتِ نفس ‘ظن‘ شک اور وہم سے علم کا متمیز ہونا تو واضح ہے‘ لیکن امام صاحب کہتے ہیں کہ علم اور اعتقاد(امام صاحب اعتقاد کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر وہ ایمان ہی کے معانی میں ہے) میں قربت کی وجہ سے لوگوں کو ایک التباس ہو جاتا ہے کہ یہ ایک ہیں حالانکہ یہ ایک نہیں ہیں۔ ہاں ان میں مشترکات ضرور ہیں۔ ان کے مابین ما بہ الاشتراک یہ ہے کہ دونوں میں ایسے قضیہ جس میں کسی بات کی خبردی جا رہی ہو‘ کا نفسِ انسانی میں حصول سو فیصد ہوتا ہے ‘یعنی دونوں میں نفس کی جانب سے قطعیت اور یقینیت پائی جاتی ہے۔ اسی لیے معتزلہ اس التباس کا شکار ہوئے کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور انہوں نے اس التباس کی بنیاد پر دونوں کو ایک قرار دے دیا۔
ان دونوں میں ایک فرق تو یہ ہے کہ اعتقاد خلافِ واقعہ یا خلافِ حقیقت بھی ہو سکتا ہے یا کہہ لیں کہ بلا دلیل بھی ہو سکتا ہے ‘لیکن علم مطابقِ معلوم ہوتا ہے (یہاں معلوم سے مراد خارجی شئے ہے نہ کہ اس کا ذہنی تصور)۔ یعنی اعتقاد تو مقلد کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن اس کو ان معتقدات کا عالم نہیں کہا جا سکتا۔ مقلد ایمان یا اعتقاد کے محتوی کو تلقین یا تقلید سے حاصل کر لیتا ہے اور اس پر وہ جازم بھی ہوتا ہے ‘اسے نہ کوئی شک ہوتا ہے نہ تردد اور نہ احتمالِ نقیض ہوتا ہے لیکن وہ صاحبِ علم نہیں ہوتا۔
علم اور جہل میں بھی یہ فرق ہے کہ جہل میں بھی نفس کی جانب سے قطعیت اور یقین پایا جاتا ہے لیکن وہ معلوم کے خلاف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں اعتقاد از قسم جہل (اصطلاحی معنوں میں) ہے کہ معلوم کے تغیر سے اعتقاد میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی ‘جبکہ علم معلوم کے تغیر سے لازماً متغیر ہوتا ہے ‘کیونکہ علم ہے ہی کشف و انشراح۔ یہ بنیادی طور پر علم و ایمان کا ما بہ الامتیاز ہے۔ اس سے پہلے ہم ان کا ما بہ الاشتراک متعین کرچکے ہیںاور وہ ہے دونوں کا نفس کی جانب سے قطعی ہونا۔
اسی طرح ایمان یا اعتقاد ارادی ہوتا ہے جبکہ علم ارادی نہیں ہے۔ معلوم کے تغیر سے اگر علم میں تبدیلی آتی ہے (کیونکہ علم معروض یا معلوم کا ایک اعتبار سے کشف و انشراح ہے) تو علم تو ارادی نہ ہوا۔ ہاں خارج یا معلوم میں تغیر سے ایمان میں تغیر واقع نہیں ہوتا۔ امام غزالی اس نہج پر ایمان اور علم کے درمیان امتیاز کو واضح کرتے ہیں‘ کیونکہ ان میں التباس کا امکان تھا ‘لیکن یہ امتیاز نہ ان میں مشترکات کی نفی کرتا ہے اور نہ یکجائی کے امکان کو رد کرتا ہے۔
ایمان اور علم کے تعلق اور یکجائی کی بحث اصلاً اس مبحث سے متعلق ہے کہ کیا مقلدکا ایمان قابلِ قبول ہے یا نہیں؟ متکلمین نے اس کو الگ سے موضوعِ بحث بنایا۔ بہت سی آراء اس ضمن میں ہمارے سامنے آتی ہیں‘ لیکن جمہور کا موقف یہی ہے کہ ایک مقلد کا ایمان قابلِ قبول تو ہو جائے گا لیکن جو مقلد دلیلِ اجمالی بھی نہیں رکھتا وہ گنہ گار ہوگا۔ مقلد سے مراد یہ ہے کہ جو عقائد کو اپنے بڑوں یا پچھلوں کی تقلید کرتے ہوئے مان لیتا ہے‘ وہ ان پر کامل یقین رکھتا ہے اور کسی قسم کا کوئی شک اس کو نہیں ہوتا‘ لیکن اپنے اس ایمان کے لیے وہ کسی دلیل ِ اجمالی یا تفصیلی کا حامل بھی نہیں ہوتا۔کوئی بھی سادہ اور مجمل دلیل اگر انسان اپنے عقیدہ کی مبادیات کے اثبات کے لیے رکھتا ہو تو یہ دلیل اجمالی ہے ‘اور اگر ان پر وارد ہونے والے شبہات کا مکالمے کی صورت میں جواب دینے کی قدرت بھی رکھتا ہو تو یہ دلیلِ تفصیلی ہے۔ متکلمین اہلِ سنت کے ہاں دلیلِ تفصیلی فرضِ کفایہ ہے اور دلیلِ اجمالی فرضِ عین۔ اس فرضِ عین کو اگر آپ ترک کر دیں گے تو آپ کا ایمان قابلِ قبول تو ہو گا لیکن آپ گنہ گار ہوں گے۔ یہ جو بحث ہے یہ علم اور ایمان کے تعلق سے براہِ راست متعلق ہے ‘یعنی ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ایمان کو علم سے مؤید کیا جائے ۔گویا علم کمالِ ایمان کی شرط ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے علم اور ایمان کے درمیان ممکنہ تعلقات پر غور فرمایئے۔ مثلاً علم اور ایمان میں جزئیت یا کلیت کا تعلق بھی نہیں ہے۔ یعنی علم ایمان کا جزء ہو یا ایمان علم کا۔ اسی طرح ان کے درمیان رشتۂ تعلیل بھی نہیں ہے کہ ایمان علم کی علت ہو یا علم ایمان کی۔ ایک اور ممکنہ تعلق شرط اور مشروط کا ہے۔ شرط دو طرح کی ہوتی ہے‘ شرطِ صحت اور شرطِ کمال۔ علم اور ایمان میں شرطِ صحت کا تعلق تو ہو نہیں سکتا (علم کا ایمان کے لیے شرطِ صحت اور شرطِ کمال ہونے میں متکلمین میں اختلاف رہا ہے ۔ جمہور کا موقف تو شرطِ کمال ہونے کا ہی ہے‘ لیکن مثلاََ امام السنوسی جو کہ ایک بڑے متکلم تھے ‘کا موقف یہ ہے کہ علم ایمان کے لیے شرطِ صحت ہے یعنی علم اور ایمان کی یکجائی کے بغیر ایمان قابلِ قبول بھی نہیں ہے) کہ شرط و مشروط میں باہمی تعلق یکطرفہ لزوم کا ہوتا ہے اور اذا فات الشرط فات المشروط۔ شرط کے نہ پائے جانے کی صورت میں مشروط کا نہ ہونا لازمی ہے۔ ایک تعلق رہ جاتا ہے اوروہ ہے شرطِ کمال کا۔ یعنی کمالِ ایمان کا تصور بغیر علم کے نہیں کیا جاسکتا۔ہاں نفس ایمان کا تصور اس کے بغیر ممکن ہے (یعنی مطلق ایمان تو قابلِ قبول ہو گا اور ان شاء اللہ آخرت میں باعث ِ نجات ہو گا‘ لیکن ایمان میں کمال بغیر علم کے ساتھ اس کی یکجائی کے ممکن نہیں۔ اب یہ علم جن دلائل سے مؤید ہو گا وہ ظاہری و باطنی‘ انفسی و آفاقی ‘ عقلی ووجدانی ہر دو طرح کے ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات ہم دیکھ چکے ہیں کہ امام غزالی علم کو کشف و انشراح سے تعبیر کرتے ہیں)۔
شرط خارج از ماہیت بھی ہوتی ہے یعنی علم ایمان کی ماہیت میں داخل نہیں ہے مگر علم کے ساتھ یکجائی کے بغیر کمالِ ایمان کا حصول بھی ممکن نہیں۔ گویا علم اور ایمان کا اجتماع مطلوب ہے اور یہی کمالِ ایمان ہے۔ یعنی ہم اللہ کو علیٰ وجہ البصیرہ مانتے ہیں اور اسی کا ہم سے مطالبہ کیا گیاہے۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر علم اور ایمان ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ مثلاً:{ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ}(الروم:۵۶) تو یہاں ان کا مطلب ایک دوسرے سے فرق ہے اور ان امتیازات کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ مگر بہت سے مقامات پر جہاں ان کا ورود الگ الگ ہوا ہے وہاں کبھی علم سے مراد ایمان ہوتا ہے اور کبھی ایمان سے مراد علم۔ مثلاً: { وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ}(القصص:۸۰)اور { اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭ}(فاطر:۲۸)۔
خلاصہ یہ ہے کہ کلامی روایت کی رو سے علم اور ایمان کو جمع کرنے کے ہم مکلّف ہیں‘ چاہے یہ اجتماع دلیلِ اجمالی کی سطح پر ہی ہو۔ حضرات متکلمین اس پر آیت {فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ}(محمد:۱۹) سے بھی استدلال فرماتے ہیں کہ اس میں یہ جاننے کا حکم فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔
آخر میں سعید فودہ صاحب کی کتاب ’’بحوث فی علم الکلام‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اس بحث کو کسی قدر تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ شیخ نے ایک مقام پر اس بارے میں مختصر مگر جامع بحث کی ہے جس سے کلامی سیاق و سباق میں علم اور اعتقاد کے تعلق کی تمام جہات اور جملہ مواقف سامنے آجاتے ہیں ۔ آگے جو ہم مبحث بیان کر رہے ہیں اس کو ترجمانی اور استفادہ کہنا مناسب ہو گا۔ اس بحث کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مقلد کے دل میں جوایمان کے محتویات(contents)پائے جاتے ہیں ان پر علم کا اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں؟
اگر علم کے مفہوم میں دلیل کو لازماً شامل کیا جائے تو مقلد کے ایمانی محتویات کو علم نہیں کہا جاسکتا‘ لیکن اگر دلیل کو علم کی ماہیت میں شامل نہ سمجھا جائے تو پھر یہ علم ہیں۔ بعض علماء نے اس دوسرے موقف کو اختیار کیاہے‘ کیونکہ ان کے نزدیک غور و فکر اور دلیل سے مقصود صحیح مفاہیم تک پہنچنا ہے ‘اور نہ صرف پہنچنا بلکہ ان سے ایسا جزمی اور یقینی تمسک اختیار کرنا کہ جانب مخالف کا احتمال تک نہ ہو اور ان کے آگے سر تسلیم خم بھی ہو۔ فرض کریں کہ ایک مقلد جس کو فکر ِ سلیم حاصل ہے اس کو یہ تمام امور حاصل ہو گئے ہیں اگرچہ وہ دلیل نہ رکھتا ہو تو اُس کو عالم ہی کہا جائے گا۔ اس بات میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ’ دلیل سے جاہل‘ کو عالم کیسے کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ علم اساسی طور پر ادراکِ جازم ہے جو واقعہ کے مطابق ہو۔ ہاں علم کا کمال یہ ضرور ہے کہ دلیل اس کی مؤید ہو۔ اس موقف کے مطابق صحیح العقیدہ مقلد کے پاس اتناعلم ہے کہ اس کے اسلام میں دخول کے لیے کافی ہو اور اس دخول کو صحیح سمجھا جائے اور آخرت میں وہ نجات کا مستحق بھی ہو۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایمان کے قبول کرنے اور علم کے مفہوم میں فرق کرتے ہیں۔ ایمان میں قطعیت درکار ہے مگر دلیل کے ساتھ۔ اس موقف میں دلیل کو علم کی ماہیت میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس پر اہل سنت کے اس موقف کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے کہ مقلد کا ایمان قابلِ قبول تو ہو گا لیکن اس قبولیت سے اس کے ذمے جو دلیل واجب ہے (دلیلِ اجمالی) وہ ساقط نہیں ہوگی۔
اہل سنت کے جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ علم موجب (لازمی سبب) کے بغیر نہیں ہوتا۔ موجب حواس بھی ہو سکتے ہیں‘ عقلی نظر اور غور و فکر بھی اور نقلی مقدّمات پر اعتماد سے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس موقف کی روسے ایک مجرد تصور جو چاہے واقعہ کے خلاف بھی ہو اور قطعیت بھی رکھتا ہو‘ کو علم نہیں کہا جا سکتا۔ علم قرار دیے جانے کے لیے دلیل سے استمداد ضروری ہے۔ دلیل علم کی ماہیت کا جزء ہے۔ علم کے تین خصائص ہیں:
(۱) جزم یعنی یقینی اور قطعی ہو۔
(۲) مطابقۃ یعنی واقعہ کے مطابق ہو۔
(۳) موجب یعنی اس کا کوئی سبب اور دلیل ہو۔
جزم اور مطابقت پر تو تمام لوگ متفق ہیں کہ یہ علم کی ماہیت میں شامل ہیں (ہماری دینی روایت میں تمام لوگ اس بات پر متفق رہے ہیں۔ اب جدید دور میں ہمارے نظریۂ علم کو بیان کرتے ہوئے نہ جزم کو ضروری قرار دیا جاتا ہے اور نہ مطابقت کو۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر اس موقف کو اختیار کرتے ہوئے کہا جائے کہ فلاں فلاں زمانی اور عصری حاجتوں کے پیشِ نظر ہم اسی موقف کو اختیارکر رہے ہیںاور اس کے یہ دلائل ہیں اور اس سے یہ فوائد حاصل ہوں گے تو ٹھیک ہے اس پر پھر الگ سے بات کی جا سکتی ہے ‘لیکن اس بات کو پیش اس طرح سے کر دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا نظریۂ علم ہے اور علم درحقیقت یہی ہوتا ہے)۔ البتہ یہاں موجب اور دلیل کا مسئلہ محلِ نزاع ہے۔
اب جو لوگ اعتقاد کے لیے علم کو شرط قرار دیتے ہیں اور علم کی ماہیت میں دلیل کو شامل کرتے ہیں ان کے نزدیک مقلد کا ایمان باطل ہے۔ جو حضرات دلیل کو علم کی ماہیت میں شامل نہیں سمجھتے لیکن علم کو اعتقاد کی شرط قرار دیتے ہیں تو ان کے اس موقف کے مطابق بھی مقلد کا اعتقاد بالکل صائب ہے۔ اس نظریہ کی رو سے علم اور اعتقاد کی دوئی ہی متصور نہیں ہے۔ جمہور علمائے اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ مقلد کا اعتقاد صحیح ہے لیکن اس پر دلیل یعنی دلیلِ اجمالی واجب ہے۔ اگر وہ اپنے عقیدہ کے لیے دلیل فراہم نہیں کرتا تو وہ گنہ گار ہو گا۔
حاصل بحث:
اب تک کی بحث سے وہ سیاق و سباق اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا جس سیاق و سباق کے ضمن میں ہماری روایت میں ایمان اور علم کے درمیان مشترکات اور امتیازات کی بات کی جاتی ہے۔ ہم اس بات سے واقف ہیں کہ جدیدیت اور اس کے ما بعد جدیدی نتائج نے علم ‘ حقیقت اور وجود کے تمام روایتی مباحث سے ایک بڑا انحراف کیا ہے اور جزم و قطعیت سے انفس و آفاق ہر دو کو نا آشنا بنا دیا ہے‘ کیونکہ قطعیت اور جزم کی کل بِنا (اس کو ہر طرح کے ما ورائی منبع سے کاٹ کر) انسانی نفس پر رکھ دی گئی تھی۔ انسانی نفس اس بوجھ کو کسی حد تک تو سہار سکتا تھاکہ اس کو عقل و شعور کی نعمت سے نوازا گیا تھا‘ جس کے ذریعے کچھ کلی حقائق کا ادراک ممکن ہے‘ اور وحی کے ذریعے بتائے گئے تفصیلی حقائق اور اَعمال کی قبولیت کی صلاحیت بھی اس میں ودیعت کر دی گئی تھی‘ اگر وہ وحی کی کمک حاصل کرنے پر آمادہ ہو‘ لیکن کُل کا کُل بوجھ ہی اس پر لاد دیا جائے یہ اس کے لیے نا قابلِ برداشت تھا۔ چنانچہ جو نتائج سامنے آنے تھے وہ آئے‘ وہ نتائج جن کو ہم سب بھگت رہے ہیں‘ اور ہم جس دنیا میں زیست کرتے ہیں وہ انہی نتائج کی تشکیل دی ہوئی ہے۔ اس سب کے باوجود اگر ہم کسی ایسے مبحث کو موضوع بناتے ہیں جس کو ہماری روایت میں اس کے متخصّصین نے موضوع بنایا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کوصرف جدیدیت کے علمی در و بست میں ہی رکھ کر زیر ِ بحث لایا جائے گا اور اخذ ِ موقف کا عمل بھی وہیں سے ہو گا؟ کیا اس کو یہ کہہ کر پیش کیا جائے گا کہ ہمارا موقف یہ ہے یا ہمارا تصوّرو نظریہ علم یہ ہے؟ کیا ان مباحث کو جو ہماری روایت کی داخلی علمی جدلیات میں بھی زیرِ بحث رہے ہیں اور جن کے نتیجے میں ایک موقف بھی ہمارے سامنے آتا ہے بالکل درخورِ اعتناء نہیں سمجھا جائے گا؟ یعنی جو کچھ بچے کھچے علمی مواقف ہمارے پاس رہ گئے ہیں ان کو جدیدیت سے لڑتے ہوئے نا دانستگی میں جدیدیت ہی کی شرائط پر تشکیل دے دیں گے اور استعماری جدیدیت کے ان عزائم کی تکمیل کا باعث بنیں گے کہ تمام علمی مواقف کو مغرب کی علمی جدلیات میں رکھ کر ہی سمجھا جائے اور سب اسی میں ضم ہو جائیں۔
( روایت کی طرف واپسی کی آوازیں یوںتو بہت سے فلسفیوں نے بھی اٹھائی ہیں‘ لیکن ان کے ہاں اس کا سبب یہ ہے کہ جب کوئی معروضی‘ ٹھوس اور کلی اساسات انسانی علم و عمل کے لیے نہیں ہوتیں تو جدیدیت کو روایت پر فوقیت دینےکی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے روایت اور روایتی علوم کو پھر سے زندہ کیا جائے اور ان کو جدید علم و عمل کے ڈسکورس میں جگہ دی جائے۔ لیکن ہم جب یہ بات کرتے ہیں تو اس کا بالکل ایک اور مطلب ہوتا ہے۔)
ایک بات یہ کی جاتی ہے کہ ہمارے علمی مواقف کا عصری تقاضوں سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات محض ناسمجھی اور لا علمی کا مظہر ہے۔ اپنے موقف کو عصری طرزِ اظہار میں پیش کرنے کی صلاحیت تو یقیناً مطلوب ہے‘ لیکن عصری شرائط پر اپنے موقف کی تشکیل اپنے تشخص اور اپنی روایت سے دستبرداری کا دوسرا عنوان ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ’’عصری تقاضوں‘‘ کا جو عصری مطلب ہے اس کے حساب سے اسلام بھی عہدِ جدید سے کسی قسم کی کوئی مطابقت نہیں رکھتا اور اسلام پر تجدد کے تیشے اس کو عصرِ حاضر کے مطابق بنانے کے لیے چلائے جاتے رہے ہیں۔ ہاں علمی بحث و مباحثے میں اپنے زمانے کی تعریفات و اصطلاحات کے مطابق گفتگو کرنا یقیناً بعض موقعوں پر اور بعض اعتبارات سے ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ پہلے موضوع کی تحدید کر دی جائے اور اصطلاحات کے معانی کے ماخذ کا بھی تعین کر لیا جائے تاکہ خلط ِمبحث کا امکان نہ ہو اور اس گفتگو اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے موقف کو اپنی روایت کا نمائندہ موقف یا حرفِ آخر نہ سمجھ لیا جائے۔ علمی موقف کی عصری تشکیل بلاشبہ ایک ضرورت ہے لیکن اس ضرورت کا تعلق محتوی (content) سے کم (محتوی کے صرف متغیرات والے پہلو سے ہے‘ ثوابت سے نہیں۔ ثوابت و متغیرات کا تعین اور ان کی تحدیدات کی وضاحت ان علوم کے متخصّصین ہی کی ذمہ داری ہے‘ نہ کہ ہر خاص و عام کی) اور اسلوب‘ اصطلاحات اور طرزِ اظہار سے زیادہ ہے۔
یہ بات بھی اکثرکی جاتی ہے کہ علم تو ہوتا ہی مشترک ہے اور آپ جو اس مسئلے میں روایتی موقف بیان کر رہے ہیں اس کی جدید علمی ڈسکورس میں کوئی جگہ نہیں ہے اور شاید اس کو اب سمجھنا بھی ناممکن ہے۔ اس پر عرض یہ ہے کہ علم کا بالقوۃ (potentially) مشترک ہونا ضروری ہے نہ کہ بالفعل(actually) ۔ یعنی اس میں اگر مشترک ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو وہ پھر علم نہیں کہلا سکتا۔ اس کا واقعی طور پر مشترک ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ہر علمی موقف کا بالفعل مشترک ہونا ضروری قرار دے دیا جائے تو کوئی قطعی اور ٹھوس بات کی ہی نہیں جا سکتی اور علم اور علمی مواقف ہمیشہ تغیر کا شکار رہیں گے۔ اب یہی بات کی جاتی ہے اور اس مسلسل تغیر کو قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے اور اس کو ایک قدر کی حیثیت دی جاتی ہے۔ ہمارے کچھ لوگ بھی اس کے لیے دلائل فراہم کرتے رہتے ہیں‘ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہماری علمی روایت سے یہ بات کسی قسم کی کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔
(علم کا اب معرفت ِ وجود سے زیادہ ایجاد و تخلیقِ وجود سے تعلق ہے۔ تمام علوم اور اس کے حاصلات کو پہلے اس کام میں کھپایا گیا یعنی علم کا استعمال ایک نئی دنیا تشکیل دینے کے لیے اور پھر اس تشکیل دی ہوئی دنیا اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نظام کی تفہیم ہی اب علم کے مقاصد رہ گئے ہیں۔ نفس کی داخلی ہم آہنگی ‘ نفس اور خارج (کائنات اور انسان) کے مابین ہم آہنگی اور نفس اور خدا کے درمیان نقطۂ تعلق و اتصال کی یافت جو روایتی علوم کے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ بنیادی اور اصل مقاصد تھے‘ اب علمی منظرنامے سے مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔)
بارِ دگر عرض ہے کہ جدید تصوّرات ِ علم کو موضوع بنانا اور ان کو سمجھنا اور اس ڈسکورس میں گفتگو کرنے کے قابل ہونا (بالفعل گفتگو کے لیے ان کی اصطلاحات اور ڈسکورس کو برتنا یہ بہر حال ایک اختلافی مسئلہ ہے) یقیناً وقت کی ایک ضرورت ہے۔ اسی طرح جدید علم اور اس کے نظری اور علمی حاصلات کو ایک نظاماتی تناظر میں یا بالفاظِ دیگر کلی تناظرمیں دیکھنا یا دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا یا جدید علم اور سسٹم کے تلازمات کو جاننا بلاشبہ بہت اہم ہے۔ لیکن یہ سب اگر اپنی روایت اور علمی مواقف کی قربانی کی قیمت پر ہو تو افسوسناک ہے اور جدیدیت کی مرادات کی تکمیل ہی کا بندوبست ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہمارے علمی مواقف جن کا تعلق براہِ راست متنِ الٰہی اور سنت ِ نبی سے نہیں ہے بلکہ ہمارے روایتی نظری اور اصولی علوم سے ہے وہ تو خود ہدایت اور زمان و مکان کے جدلیاتی تعامل کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں‘ تو ان پر اصرار کی اور ان کے بارے میں کسی تبدیلی کے روادار نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟ عرض یہ ہے کہ یہ بات جزوی طور پر تو درست ہے کہ ہمارے کچھ روایتی نظری اصولی علوم عصری تقاضوں ہی کے نتیجے میں سامنے آتے رہے ہیں‘ لیکن اس بات کو مکمل طور پر مان لینا بہت خطرناک فکری و عملی نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کی تفہیم کے اصول بھی انہی علوم میں بیان ہوتے ہیں۔ عقیدہ کو تنزیہ کی اصل پر قائم رکھنے کے اصول بھی یہیں بیان کیے گئے ہیں۔ بہت سی تحریفات و تعبیرات کا دروازہ بھی انہی کے ذریعے بند کیا گیا ہے۔ اگر ان کو مکمل طور پر زمانی و مکانی جدلیاتی تعامل کا نتیجہ قرار دے دیا جائے تو پھر ایک طرف متن ہو گا اور دوسری طرف انفرادی انسانی دماغ۔ اور پھر جو تشریحاتی غارت گری ہو گی اس سے ہم سب واقف ہیں اور اس کے بہت سے نمونے ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان علوم میں ثوابت و متغیرات کی ایک فہرست ہے اور ان میں امتیاز پایا جاتا ہے لیکن ان کا تعین ان علوم کے متخصّصین کریں گے یا جدید فکر و فلسفہ کے فارغین؟ظاہر ہے کہ یہ کام ان متخصّصین ہی کا ہے۔ اگر وہ عصری علوم اور صورتحال سے صحیح واقفیت نہیں رکھتے کہ اس کے بغیر متغیرات کا صحیح تعین نہیں ہو سکتا تواس صورت میں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی بنیادی معرفت کے حصول کی کاوش کریں۔ اسی طرح عصری فکر و علوم کے ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو آگاہ کرنے اور واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ ثوابت بہرحال ہدایت اور امت کے اجتماعی فہم سے اخذ کردہ کچھ اصول ہیں۔ ان کو اگر عہدِ جدید کے جدید اور بظاہر ’ روایت پسند ‘مفکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو کچھ نہیں بچے گا۔
ضمیمہ
اساس التقدیس: الفصل الثانی والثلاثون (بتیسویں فصل)
فی انّ البراھین العقلیۃ اذا صارت معارضۃ لظواھر النقلیۃ فکیف یکون الحال فیہا

(اس بات کے بیان میں کہ اگر قطعی عقلی دلائل نقل کے ظواہر سے ٹکرا رہے ہوں تو کیا معاملہ ہو گا)
یہ امام رازی کے اس قانون کلی فی تاویل المتشابہات کا بیان ہے جس پر ان کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اس قانون میں یہ عقل کو نقل پر مقدّم رکھتے ہیں۔ حالانکہ فصل کے عنوان سے بھی یہ بات بالکل واضح ہے اور ذیل میں دیے گئے فصل کے ترجمہ سے بھی‘ ان شاء اللہ‘ یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ نقل کے ثبوت کے لیے تو عقل کی حاجت ہے۔ ان معنوں میں عقل یقیناً نقل سے پہلے ہے‘ لیکن بعد از ثبوت مسئلہ عقل و نقل کے تقدّم و تاخر کا نہیں ہے بلکہ ظنیت اور قطعیت کا ہے۔ قطعی دلیل چاہے عقلی ہو چاہے نقلی اس کے مقابلے میں دلیل اگر ظنی ہو ترجیح قطعی کو ہی دی جائے گی۔ دو قطعیا ت میں تعارض تو ناممکن اورغیر متصور ہے۔ جو حضرات اس تعارض کو ممکن سمجھتے ہیں ان کو اس کی کوئی ٹھوس مثال پیش کرنی چاہیے۔ (از مترجم)
ترجمہ: جان لو کہ جب کچھ قطعی عقلی دلائل کسی شئے یا بات کو ثابت کر رہے ہوںمگر پھر کچھ ایسے نقلی دلائل سامنے آئیں جو بظاہر اس کے خلاف ہوںتو اس صورتحال میں چار ہی امکانات پائے جا سکتے ہیں:
(۱) ہم عقل اور نقل ہر دو کی تصدیق کر دیں۔ لیکن اس سے دو متناقض باتوں کا بیک وقت صحیح ہونا ماننا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ یہ محال ہے۔
(۲) ہم دونوں کو ہی باطل قرار دے دیں۔ اس سے نقیضین کا بیک وقت غلط ہونا لازم آئے گا۔ یہ بھی محال ہے (جس طرح اجتماعِ نقیضین(law of non contradiction)محال ہے اسی طرح ارتفاعِ نقیضین (law of excluded middle) بھی ناممکن ہے)۔
(۳) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہم ظواہر نقلیہ کی تصدیق کر دیں اور عقلی ظواہر کو باطل قرار دے دیں۔ یہ بھی باطل ہے‘ اس لیے کہ نقل کے صحیح ہونے سے ہم تب ہی واقف ہوسکتے ہیں جب ہم عقلی دلائل کے ذریعے کائنات کے بنانے والے‘ اس کی کچھ صفات اور معجزہ جو رسول کے سچے ہونے کی دلیل ہے‘ اس دلیل کی صدقِ رسول پر دلالت کو نہ جان لیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی جان لیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے معجزات کا ظہور ہوا ہے۔ اگر ہم قطعی عقلی دلائل پر بھی تنقید کو روا رکھیںتو عقل قابل اعتماد اور اس کے نتائج قابل قبول نہ رہیں گے۔ اگر معاملہ ایسا ہو تو یہ اصول بھی غلط ثابت ہو جائے گا (کہ نقل کی اصل کو عقلی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے)۔ یہ اصول اگر صحیح نہ ہو تو نقلی دلائل غیرمفید ہو جائیں گے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اگر نقل کے ظواہر کو ثابت کرنے کے لیے قطعی عقلی دلائل پر بھی اعتراض وارد کرنے کو گوارا کر لیا گیا تو عقل و نقل دونوں ہی نہ بچیں گے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ باطل ہے۔
(۴) جب ان تین صورتوں کا غلط ہونا ثابت ہو گیا تو ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم قطعی عقلی دلائل کے مقتضیات کو تو درست تسلیم کریںاور نقل کے ظواہر کو یا تو ہم نا درست قرار دیں (یعنی اگر وہ سنداً صحیح نہ ہو) یا یہ کہیں کہ یہ ہیں تو صحیح لیکن ان سے ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں۔پھر اگر ہم ان نصوص(متشابہات) کی تاویل کو جائز سمجھیں تو ہم ان تاویلات کی تفصیلات کو بھی بیان کر سکتے ہیںاور اگر تاویل جائز نہ ہو تو ان کے معانی کو اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کر دیا جائے گا۔
یہ وہ قانون کلی ہے جس کی طرف متشابہات کے معاملے میں رجوع کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے۔

( اسی لیے امام غزالی نے اپنی کتابوں میںبہت سی جگہوں پر نقل صریح جو متن اور سند دونوں اعتبارات سے صحیح ہو‘ کے عقل سے تعارض کو ناممکن قرار دیا ہے‘ کیونکہ علم اور علم (یعنی قطعیات) کا آپس میں تعارض نہیں ہو سکتا۔ مثلاً امام صاحب اپنی کتاب ’قانون التاویل‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’منقول اور معقول کی بحث میں متوسط طبقہ وہی ہے جو دونوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے‘ شرع اور عقل کے درمیان تعارض کا منکر ہے اور شرع کو حق قرار دیتا ہے۔ جس نے عقل کو جھٹلایا اس نے شرع کو جھٹلایا ۔ عقل ہی کے ذریعے شرع کے صدق کو جانا جا سکتا ہے۔قطعی عقلی دلیل ہی اگر صحیح نہ ہو تو نبی اور متنبی (نبوت کا جھوٹا مدّعی) کے درمیان فرق نہیں کیا جا سکتا....‘‘)