(فہم القرآن) ترجمہ ٔ قرآن مجید،مع صرفی ونحوی تشریح - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

24 /

ترجمۂ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سورۃ یوسف
آیات ۸۸ تا ۹۳
{فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَھْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰىۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا ۭ اِنَّ اللہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ(۸۸) قَالَ ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰھِلُوْنَ(۸۹) قَالُوْٓا ءَاِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ ۭ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَھٰذَآ اَخِیْ ۡ قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْنَا ۭ اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۹۰) قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللہُ عَلَیْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِئِیْنَ(۹۱) قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۭ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ ۡ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (۹۲) اِذْ ھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا ۚ وَاْتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹۳) }
ز ج و
زَجَا یَزْجُوْ (ن) زَجْوًا : کسی کو ہانکنا‘ چلانا۔
اَزْجٰی (افعال) اِزْجَاءً : یہ ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔ ہانکنا‘ چلانا۔ {اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُزْجِیْ سَحَابًا} (النور:۴۳) ’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہانکتا ہے بادل کو۔‘‘
مُزْجَاۃٌ (اسم المفعول) : ہانکی ہوئی چیز‘ حقیر و ذلیل چیز۔ زیر مطالعہ آیت۸۸۔
ث ر ب
ثَرَبَ یَثْرِبُ (ض) ثَرَبًا : کسی کے کام کو بُرا سمجھنا۔
ثَرَّبَ (تفعیل) تَثْرِیْبًا : کسی کو اس کے کام پر سرزنش کرنا‘ عتاب کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۹۲۔
ترجمہ:
فَلَمَّا :پھر جب

دَخَلُوْا : وہ لوگ داخل (حاضر) ہوئے
عَلَیْہِ : اُن ؑ پر

قَالُوْا :تو انہوں نے کہا
یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ : اے عزیز!

مَسَّنَا :چھوا ہم کو
وَاَھْلَنَا :اور ہمارے گھر والوں کو

الضُّرُّ:سختی نے
وَجِئْنَا :اور آئے ہم

بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰىۃٍ : ایک حقیر سی پونجی کے ساتھ
فَاَوْفِ لَنَا:پس آپؑ پورا کریں ہمارے لیے

الْکَیْلَ :پیمانہ بھرنے کو
وَتَصَدَّقْ: اور آپؑ حق سے زیادہ نچھاور کریں

عَلَیْنَا:ہم پر
اِنَّ اللہَ : بے شک اللہ

یَجْزِی : جزا دیتا ہے
الْمُتَصَدِّقِیْنَ:حق سے زیادہ دینے والوں کو

قَالَ:(یوسفؑ نے) کہا
ھَلْ عَلِمْتُمْ : کیا تم لوگوں نے جانا

مَّا فَعَلْتُمْ :اس کو جو تم لوگوں نے کیا
بِیُوْسُفَ :یوسف کے ساتھ

وَاَخِیْہِ :اور اس کے بھائی کے ساتھ
اِذْ اَنْتُمْ :جب تم لوگ

جٰھِلُوْنَ:غلط سوچ والے تھے
قَالُوْٓا : ان لوگوں نے کہا

ءَاِنَّکَ :کیا بے شک
لَاَنْتَ یُوْسُفُ :تُو ہی تو یوسف ہے!

قَالَ :انہوںؑ نے کہا
اَنَا یُوْسُفُ :میں یوسف ہوں 

وَھٰذَآ اَخِیْ:اور یہ میرا بھائی ہے
قَدْ مَنَّ اللہُ :احسان کیا ہے اللہ نے

عَلَیْنَا: ہم پر

اِنَّہٗ :حقیقت یہ ہے کہ

مَنْ یَّتَّقِ : جو تقویٰ کرتا ہے
وَیَصْبِرْ :اور صبر کرتا ہے

فَاِنَّ اللہَ:تو بے شک اللہ
لَا یُضِیْعُ :ضائع نہیں کرتا

اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ : خوب کاروں کے اجر کو
قَالُوْا تَاللہِ :اُن لوگوں نے کہا اللہ کی قسم

لَقَدْ اٰثَرَکَ:یقیناً ترجیح دی ہے آپؑ کو
اللہُ :اللہ نے

عَلَیْنَا:ہم پر
وَاِنْ کُنَّا :اور بے شک ہم تھے

لَخٰطِئِیْنَ :یقیناً غلطی کرنے والے
قَالَ :انہوںؑ نے کہا

لَا تَثْرِیْبَ :کوئی بھی عتاب نہیں ہے
عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ :تم لوگوں پر آج

یَغْفِرُ اللہُ: مغفرت کرے گا اللہ
لَکُمْ :تم لوگوں کی

وَھُوَ :اور وہ
اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ : رحم کرنے والوں کا سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

اِذْ ھَبُوْا: تم لوگ جائو
بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا :میری اس قمیص کے ساتھ

فَاَلْقُوْہُ:پھر ڈالو اس کو
عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ :میرے والد کے چہرے پر

یَاْتِ :تو وہ آئیں گے
بَصِیْرًا :دیکھنے والا ہوتے ہوئے

وَاْتُوْنِیْ: اور تم لوگ آئو میرے پاس
بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ :اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ

نوٹ: قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْنَا سے معلوم ہوا کہ جب انسان کسی تکلیف و مصیبت میں گرفتار ہو اور پھر اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرماکر اپنی نعمت سے نوازیں تو اب اس کو گزشتہ مصائب کا ذکر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان کا ذکر کرنا چاہیے جواب حاصل ہوا ہے۔ مصیبت سے نجات اور انعامِ الٰہی کے حصول کے بعد بھی پچھلی تکلیف و مصیبت کو روتے رہنا ناشکری ہے اور ایسے ناشکرے کو قرآن مجید میں کُنُوْدٌ کہا گیا ہے۔ (العادیات:۶) یعنی ایسا شخص جو احسانات کویاد نہ رکھے‘ صرف تکلیفوں اور مصیبتوں کو ہی یاد رکھے۔ (معارف القرآن)
آیات ۹۴ تا ۹۸{وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْھُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(۹۴) قَالُوْا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ (۹۵) فَلَمَّا اَنْ جَاۗءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ ڌ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۹۶) قَالُوْا یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیْنَ(۹۷) قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمَ(۹۸) }
ف ن د
فَنِدَ یَفْنَدُ (س) فَنْدًا : ضعیف العقل ہونا‘ بہکی بہکی باتیں کرنا۔
فَنَّدَ (تفعیل) تَفْنِیْدًا : کسی کو بہکا ہوا قرار دینا یا سمجھنا۔ زیر مطالعہ آیت۹۴
ترجمہ:
وَلَمَّا :اور جب

فَصَلَتِ الْعِیْرُ :روانہ ہوا قافلہ
قَالَ اَبُوْھُمْ :کہا ان لوگوں کے والد نے

اِنِّیْ لَاَجِدُ :کہ میں پاتا ہوں
رِیْحَ یُوْسُفَ :یوسفؑ کی مہک کو

لَوْ لَآ اَنْ :اگر نہ ہو کہ
تُفَنِّدُوْنِ :تم لوگ بہکا ہوا سمجھو مجھ کو

قَالُوْا :ان لوگو ںنے کہا
تَاللّٰہِ اِنَّکَ :اللہ کی قسم بے شک آپ

لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ : اپنی پرانی گمراہی میں ہی ہیں
فَلَمَّا اَنْ جَاۗءَ :پھرجیسے ہی آیا

الْبَشِیْرُ:بشارت دینے والا
اَلْقٰىہُ :تو اُس نےڈالا اس کو

عَلٰی وَجْہِہٖ :ان کے چہرے پر
فَارْتَدَّ :تو وہ لوٹے

بَصِیْرًا:دیکھنے والے ہوتے ہوئے
قَالَ :انہوںؑ نے کہا

اَلَمْ اَقُلْ :کیا میں نے نہیں کہا تھا
لَّکُمْ :تم لوگوں سے

اِنِّیْٓ اَعْلَمُ:کہ میں جانتا ہوں
مِنَ اللہِ :اللہ (کی طرف ) سے

مَا لَا تَعْلَمُوْنَ:اُس کو جو تم لوگ نہیں جانتے
قَالُوْا یٰٓاَبَانَا :ان لوگوں نے کہا اے ہمارے والد

اسْتَغْفِرْلَنَا:آپؑ مغفرت مانگیں ہمارے لیے
ذُنُوْبَنَآ :ہمارے گناہوں کی

اِنَّا کُنَّا :بے شک ہم تھے
خٰطِئِیْنَ :غلطی کرنے والے

قَالَ:انہوںؑ نے کہا
سَوْفَ :عنقریب

اَسْتَغْفِرُ:میں مغفرت مانگوں گا

لَکُمْ:تم لوگوں کے لیے

رَبِّیْ:اپنے رب سے
اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ: بے شک وہ ہی بخشنے والا ہے

الرَّحِیْمَ: رحم کرنے والا ہے
آیات ۹۹ تا ۱۰۱{فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِیْنَ(۹۹) وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا ۚ وَقَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا ۭ وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاۗءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ ۭ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَاۗءُ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(۱۰۰) رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۣ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱) }
ترکیب
(آیت۹۹) مِصْرَ غیر منصرف آیا ہے اس لیے اس سے مراد ملک مصر ہے۔ دیکھیں البقرۃ:۶۱ مادہ ’’م ص ر‘‘۔ (آیت۱۰۰) مِنْ قَبْلُ کے آگے رَءَیْتُھَا محذوف ہے۔ (آیت۱۰۱) فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ میں فَاطِرَ کی نصب منادیٰ مضاف ہونے کی وجہ سے ہے ‘یعنی اس سے پہلے حرفِ ندا ’’یَا‘‘ محذوف ہے۔
ترجمہ :
فَلَمَّا :پھر جب

دَخَلُوْا :وہ لوگ داخل (حاضر ) ہوئے
عَلٰی یُوْسُفَ :یوسفؑ پر

اٰوٰٓی اِلَیْہِ:تو انہوںؑ نے جگہ دی اپنے پاس
اَبَوَیْہِ :اپنے والدین کو

وَقَالَ:اور انہوںؑ نے کہا
ادْخُلُوْا :آپ لوگ داخل ہوں

مِصْرَ : ملک ِمصر میں
اِنْ شَاۗءَ اللہُ :اگر چاہا اللہ نے (تو)

اٰمِنِیْنَ:امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے
وَرَفَعَ :اور انہوںؑ نے بلند کیا

اَبَوَیْہِ : اپنے والدین کو
عَلَی الْعَرْشِ :تخت پر

وَخَرُّوْا لَہٗ: اور وہ لوگ گر پڑے انؑ کے لیے
سُجَّدًا:سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے

وَقَالَ :اور انہوںؑ نے کہا
یٰٓاَبَتِ : اے میرے والد

ھٰذَا:یہ ہے
تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ : میرے خواب کی تعبیر

مِنْ قَبْلُ : اس سےپہلے (جو مَیں نے دیکھا)
قَدْ جَعَلَھَا : بنا دیا ہے اس کو

رَبِّیْ حَقًّا :میرے رب نے سچ
وَقَدْ اَحْسَنَ :اور اس نے احسان کیا ہے

بِیْٓ:مجھ پر
اِذْ اَخْرَجَنِیْ :جب اُس نے نکالا مجھ کو

مِنَ السِّجْنِ :قید خانہ سے
وَجَاۗءَ بِکُمْ :اور وہ لایا آپ لوگوں کو

مِّنَ الْبَدْوِ :گائوں سے
مِنْۢ بَعْدِ اَنْ:اس کے بعد کہ

نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ :ناچاقی ڈالی شیطان نے
بَیْنِیْ :میرے درمیان

وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ:اور میرے بھائیوں کے درمیان
اِنَّ رَبِّیْ :بے شک میرا رب

لَطِیْفٌ :غیر محسوس تدبیر کرنے والا ہے
لِّمَا یَشَاۗءُ :اُس کی جو وہ چاہتا ہے

اِنَّہٗ :بے شک وہ

ھُوَ الْعَلِیْمُ: ہی جاننے والاہے

الْحَکِیْمُ:حکمت والا ہے
رَبِّ :اے میرے رب

قَدْ اٰتَیْتَنِیْ :تُو نے دیا ہے مجھ کو
مِنَ الْمُلْکِ :حکومت میں سے

وَعَلَّمْتَنِیْ:اور تُو نے علم دیا مجھ کو
مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ :خوابوں کی تعبیر میں سے

فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : اے زمین اور آسمانوں کو وجود بخشنے والے
اَنْتَ وَلِیّٖ : تُو میرا کارساز ہے

فِی الدُّنْیَا :دنیا میں 
وَالْاٰخِرَۃِ :اور آخرت میں 

تَوَفَّنِیْ:تُو وفات دے مجھ کو
مُسْلِمًا :فرمانبردار ہوتے ہوئے

وَّاَلْحِقْنِیْ :اور تُو ملا دے مجھ کو
بِالصّٰلِحِیْنَ : صالح لوگوں کے ساتھ

نوٹ:بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے خاندان کے جو افراد مصر گئے وہ ۶۷ تھے۔ اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں۱۷ سال زندہ رہے۔ پھر جب تقریباً پانچ سوسال کے بعد وہ لوگ مصر سے نکلے تو لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائبل میں ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال صحرائے سینا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد۵۵۱ ۱۳, ۶, تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت ‘ مرد‘ بچے سب ملا کر وہ کم از کم بیس لاکھ ہوں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ۶۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہو سکتی ہے ؟اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پانچ سو سال میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے۔ حضرت یوسفؑ خود بھی پیغمبر تھے اور چار پانچ صدی تک اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ اس دوران یقیناً انہوں نے مصر میں اسلام کی تبلیغ کی ہوگی۔ اہل مصر میں سے جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا پوراطرزِ زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہو گیا ہوگا۔ مصریوںسے وہ سب ایسے ہی الگ ہو گئےہوں گے جیسے ہندوستان میں ہندی مسلمان ہندوئوں سے الگ ہیں۔ ان کے اوپر اسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کر دیا گیا ہو گا جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر ’’محمڈن‘‘ کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے۔ اور وہ خود بھی دینی و تہذیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے کٹ کر بنی اسرائیل سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہوں گے۔ پھر جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ لپیٹ لیے گئے۔اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ نکلے۔
ہمارے اس قیاس کی تائید بائبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثلاً ’’خروج‘‘ میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہوا ہے ‘ بائبل کا مصنف کہتا ہے کہ ’’ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی‘‘ (۱۲:۳۸)۔ اسی طرح ’’گنتی‘‘ میں وہ پھر کہتا ہے کہ ’’جوملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی‘‘ (۱۱:۴)۔ پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے اجنبی اور پردیسی کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ چنانچہ توراۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ’’تمہارے لیے اور اُس پردیسی کےلیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہوں جیسے تم ہو۔تمہارے لیے او ر پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو (گنتی ۱۵:۱۵۔۱۶)۔ ’’جو شخص بے باک ہو کر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا (گنتی۱۵:۳۰)۔ ’’خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا۔‘‘ (استثنا:۱:۱۶)
اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الٰہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے ترجمہ کرنے والوں نے ’’پردیسی ‘‘بنا کر رکھ دیا ۔ (تفہیم القرآن)

آیات ۱۰۲ تا ۱۰۸{ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ۚ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَھُمْ وَھُمْ یَمْکُرُوْنَ(۱۰۲) وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۰۳)وَمَا تَسْئَلُھُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۴) وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ (۱۰۵) وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ(۱۰۶) اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِیَھُمْ غَاشِیَۃٌ مِّنْ عَذَابِ اللہِ اَوْ تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (۱۰۷) قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللہِ ۣ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۱۰۸)}
ترکیب
(آیت۱۰۲) نُوْحِیْہِ کی ضمیر مفعولی ذٰلِکَ کے لیے ہے۔ اگر اَنْبَاءِ کے لیے ہوتی تو ھَا کی ضمیر آتی۔ اَجْمَعُوْا میں شامل ھُمْ کی ضمیر فاعلی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے لیے ہے۔ (آیت۱۰۵) اَیٌّ پر حرف جار ’’ک‘‘ داخل ہوا تو یہ کَاَیٍّ ہے جسے نونِ تنوین ظاہر کر کے کَاَیِّنْ لکھا گیا ہے اور یہ کَمْ خبریہ کا ہم معنی ہے۔ فرق یہ ہے کہ  کَمْ خبریہ مِنْ کے ساتھ بھی آتا ہے اور مِنْ کے بغیر بھی جبکہ کَاَیٍّ عام طو رپر مِنْ کے ساتھ آتا ہے۔ (آیت۱۰۸) ایک امکان یہ ہے کہ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ کو اَدْعُوْا کا حال ماناجائے۔ ایسی صورت میں اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ کو اَدْعُوْا کی وضاحت مانا جائے گا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ کو مبتدأمؤخراور عَلٰی بَصِیْرَۃٍ کو اس کی قائم مقام خبر مقدم مانا جائے ۔ دونوں طرح کے ترجمے درست تسلیم کیے جائیں گے۔ ہم پہلے امکان کو ترجیح دیں گے۔
ترجمہ:
ذٰلِکَ :یہ

مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ :غیب کی خبروں میں سے ہے
نُوْحِیْہِ : ہم وحی کرتے ہیں اس کو

اِلَیْکَ :آپؐ کی طرف
وَمَا کُنْتَ :اور آپؐ نہیں تھے

لَدَیْھِمْ :اُن کے پاس
اِذْ اَجْمَعُوْٓا :جب ان لوگوں نے اتفاق کیا

اَمْرَھُمْ:اپنے کام پر
وَھُمْ :اس حال میں کہ وہ لوگ

یَمْکُرُوْنَ :خفیہ تدبیر کر رہے تھے
وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ:اور نہیں ہے لوگوں کی اکثریت

وَلَوْ حَرَصْتَ:اور اگرچہ آپؐ شدید خواہش کریں
بِمُؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والے

وَمَا تَسْئَلُھُمْ :اور آپؐ نہیں مانگتے ان سے
عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ :اس پر کوئی بھی معاوضہ

اِنْ ھُوَ اِلَّا :نہیں ہے یہ مگر
ذِکْرٌ :ایک یاد دہانی

لِّلْعٰلَمِیْنَ: تمام جہانوں کے لیے
وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ :اور کتنی ہی نشانیاں

فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : آسمانوں اور زمین میں ہیں
 یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا:یہ لوگ گزرتے ہیں جن پر سے

وَھُمْ عَنْہَا: اس حال میں کہ وہ لوگ ان سے
مُعْرِضُوْنَ :اعراض کرنے والے ہوتے ہیں

وَمَا یُؤْمِنُ :اور ایمان نہیں لاتے
اَکْثَرُھُمْ :ان کے اکثر

بِاللہِ :اللہ پر
اِلَّا وَھُمْ :مگر اس حال میں کہ وہ لوگ

مُّشْرِکُوْنَ:شرک کرنے والے ہوتے ہیں
اَفَاَمِنُوْٓا :تو کیا وہ لوگ امن میں ہو گئے

اَنْ تَاْتِیَھُمْ :(اس سے) کہ پہنچے ان کے پاس
غَاشِیَۃٌ :کوئی چھا جانے والی(آفت)

مِّنْ عَذَابِ اللہِ :اللہ کے عذاب میں سے

اَوْ تَاْتِیَھُمُ :یا پہنچے ان کے پاس

السَّاعَۃُ :وہ گھڑی (یعنی قیامت)
بَغْتَۃً :بے گمان (اچانک)

وَّھُمْ :اس حال میں کہ وہ لوگ
لَا یَشْعُرُوْنَ :شعور نہ رکھتے ہوں

قُلْ :آپؐ کہہ دیجیے
ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ : یہ میرا راستہ ہے

اَدْعُوْٓا :میں بلاتا ہوں
اِلَی اللہِ :اللہ کی طرف

عَلٰی بَصِیْرَۃٍ : عام فہم دلیل (کی بنیاد) پر
اَنَا :مَیں (بھی)

وَمَنِ:اور وہ(بھی) جس نے
اتَّبَعَنِیْ :پیروی کی میری

وَسُبْحٰنَ اللہِ :اور پاکی اللہ کی ہے
وَمَآ اَنَا :اور مَیں نہیں ہوں

مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ:شرک کرنے والوں میں سے
نوٹ۱: آیت۱۰۶ میں ہے کہ اکثر لوگ اللہ پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی کرتے ہیں۔ ابن کثیرؒ نے فرمایا کہ اس آیت کے مفہوم میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جو ایمان کے باوجود مختلف قسم کے شرک میں مبتلا ہیں۔ ایک حدیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک فرمایا (بحوالہ ترمذی)۔ ریاء کوبھی شرک اصغر فرمایا (بحوالہ مسند احمد)۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کی منت اور نیاز ماننا بھی باتفاقِ فقہاء اس میں داخل ہے۔ (منقول از معارف القرآن)
مذکورہ مسلمانوں کے علاوہ اس آیت میں بہت سے دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں‘ کیونکہ تمام مذاہب میں اس کائنات کی ایک خالق اور مالک ہستی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ قریش مکہ بھی اللہ کو تو مانتے تھے ‘البتہ اس کے ساتھ پھر دوسروں کو شریک کرتے تھے (ترجمہ قرآن کیسٹ)۔ حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے البقرۃ:۶۲‘ نوٹ۱ کو دوبارہ دیکھ لیں۔
نوٹ۲: آیت ۱۰۸میں  وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں اور ہر وہ شخص شامل ہے جو قیامت تک رسول اللہﷺ کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کی خدمت میں مشغول ہو۔ جو شخص رسول اللہﷺ کی پیروی کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ وہ آپؐ کی دعوت کو لوگوں میں پھیلائے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرے (معارف القرآن) ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری اور جواب دہی اس کے ظروف و احوال اور استعداد کے مطابق ہو گی۔
آیات ۱۰۹ تا ۱۱۱{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَھْلِ الْقُرٰی ۭ اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (۱۰۹) حَتّٰٓی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَاۗءَھُمْ نَصْرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۱۰) لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ۭ مَاکَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (۱۱۱)}
ترکیب:
(آیت۱۱۰) اَلرُّسُلُ کے بعد مِنْھُمْ محذوف ہے۔ وَظَنُّوْا میں ھُمْ کی ضمیر فاعلی اَھْلِ الْقُرٰی یعنی رسولوں کے اُمتیوں کے لیے ہے جبکہ جَآءَھُمْ میں ھُمْ کی ضمیر رسولوں کے لیے ہے۔ (آیت۱۱۱) لَقَدْ کَانَ میں کَانَ کا اسم عِبْرَۃٌ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور فِیْ قَصَصِھِمْ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ مَا کَانَ کا اسم اس میں ھُوَ کی ضمیر ہے اور حَدِیْثًا اس کی خبر ہے۔ تصدیق سے پہلے کَانَ محذوف ہے اور تَصْدِیْقَ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے۔ جبکہ تَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ ‘ ھُدًی‘ رَحْمَۃً یہ سب بھی اسی کَانَ کی خبر ہونےکی وجہ سے حالت ِنصب میں ہیں۔
ترجمہ:
وَمَآ اَرْسَلْنَا :اور نہیں بھیجا ہم نے

مِنْ قَبْلِکَ :آپؐ سے پہلے
اِلَّا رِجَالًا :مگر کچھ ایسے مَرد وں کو

نُّوْحِیْٓ :ہم وحی کرتے تھے
اِلَیْھِمْ :جن کی طرف

مِّنْ اَھْلِ الْقُرٰی :بستیوں والوں میں سے
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا:تو کیا ان لوگوں نے سیر نہیں کی

فِی الْاَرْضِ : زمین میں 
فَیَنْظُرُوْا : تاکہ وہ دیکھتے

کَیْفَ کَانَ :کیسا تھا
عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ :ان لوگوں کا انجام جو

مِنْ قَبْلِھِمْ :ان سے پہلے تھے
وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ :اور یقیناً آخرت کا گھر

خَیْرٌ:بہترین ہے ان کے لیے
لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا :جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا

اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ :تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟
حَتّٰٓی :یہاں تک کہ

اِذَا اسْتَیْئَسَ :جب مایوس ہوئے
الرُّسُلُ : رسول (لوگوں سے)

وَظَنُّوْٓا :اور لوگوں نے گمان کیا
اَنَّھُمْ : کہ ان سے

قَدْ کُذِبُوْا :جھوٹ کہا گیا ہے
جَاۗءَھُمْ : تو آئی اُن(رسولوں) کے پاس

نَصْرُنَا : ہماری مدد
فَنُجِّیَ : پھر بچا لیا گیا

مَنْ نَّشَاۗءُ: اُس کو جس کو ہم نے چاہا
وَلَا یُرَدُّ :اور لوٹائی نہیں جاتی

بَاْسُنَا :ہماری سختی
عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ: جرم کرنے والے لوگوں سے

لَقَدْ کَانَ :یقیناً ہو چکی ہے
فِیْ قَصَصِھِمْ : ان لوگوں کا قصہ سنانے میں

عِبْرَۃٌ :ایک عبرت

لِّاُولِی الْاَلْبَابِ: خالص (غیر متعصب) عقل والوں کے لیے

مَا کَانَ حَدِیْثًا:یہ نہیں ہے کوئی ایسی بات جو
یُّفْتَرٰی :گھڑی گئی

وَلٰکِنْ :اور لیکن
تَصْدِیْقَ الَّذِیْ : (یہ ہے) تصدیق کرنا اُسی کی جو

بَیْنَ یَدَیْہِ : اس سے پہلے ہے
وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ : اور ہر چیز کی تفصیل بیان کرنا ہے

وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً : اور ہدایت اور رحمت
لِّقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لیے جو

یُّؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں
نوٹ۱: آیت۱۰۹ سے معلوم ہوا کہ نبوت خواتین میں نہیں رہی۔ اس کی وضاحت المائدۃ:۷۵‘ نوٹ۲ میں کی جاچکی ہے۔
نوٹ۲: آیت۱۱۱ میں تَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ کا مطلب ہے ہر اُس چیز کی تفصیل جو انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہو۔ بعض لوگ اس سے دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل مراد لے لیتے ہیں ‘ پھر ان کو یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ قرآن میں دوسرے علوم و فنون کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ (تفہیم القرآن)