(تذکر و تدبر) مِلاکُ التأوِیل (۳۲) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

24 /

مِلاکُ التأوِیل (۳۲)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن
سُورۃ الحجر(۲۰۲) آیت ۱
{ الۗرٰ ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ (۱)}
’’ا ‘ل‘ ر۔یہ(اللہ کی) کتاب اور قرآنِ مبین کی آیات ہیں۔‘‘
اور سورۃ النمل کی پہلی آیت :
{تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ(۱)}
’’یہ قرآن اور کتابِ مبین کی آیات ہیں۔‘‘
پہلی آیت میں ’’الْکِتٰبِ‘‘ پہلے اور’’قُرْاٰن‘‘ کا ذکر بعد میں ہے‘جبکہ سورۃ النمل کی آیت میں ’’الْقُرْاٰن‘‘ پہلے اور ’’کِتٰب ‘‘ کا ذکر بعد میں ہے۔
اس اختلاف کی وضاحت سورۃ الرعد میں کی جا چکی ہے‘ وہاں ملاحظہ ہو۔
(۲۰۳) آیت ۱۰۔۱۱
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۰) وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُ وْنَ(۱۱)}
’’اور ہم نے تم سے قبل پچھلی اُمتوں میں کتنے رسول بھیجے۔ اور ان کے پاس جو کوئی رسول آتا تو وہ اس کا مذاق اُڑاتے۔‘‘
اور سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
{وَکَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ (۶) وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ(۷)}
’’اور پچھلے لوگوں میں ہم نے کتنے نبی بھیجے ۔اور ان کے پاس جو کوئی نبی آتا تو وہ اس کا مذاق اُڑاتے۔‘‘
یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ سورۃ الحجر میں’’مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ کہا اور سورۃ الزخرف میں ’’مِنْ نَّبِیٍّ‘‘ ارشاد فرمایا ‘ حالانکہ دونوں کا مضمون ایک ہی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ الزخرف کی آیت کے شروع میں ’’کَمْ‘‘ کا لفظ ہے اور اس سے مراد کسی چیز کی کثرت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے اور اس مناسبت سے اس کے بعد لفظ ’’نَبی‘‘ لایا گیا ہے اور اس میں تمام نبی شامل ہو گئے‘ چاہے وہ صرف نبی ہوں یا نبی کے ساتھ ساتھ رسول بھی ہوں۔ لیکن سور ۃ الحجر کی آیت میں کسی بھی لفظ کے ساتھ کثرت کا اظہار نہیں کیا گیا‘ بلکہ ہمارے رسولﷺ کے ساتھ اُنسیت اور تسلی کے احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ جہاں کُفّار نے انہیں ’’ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ‘‘ کہا تو آپ کے لیے لفظ ’’رسول‘‘ لا کر آپؐ کی ہمت بڑھائی گئی اور بتایا گیا کہ آپﷺ سے قبل جو رسول آئے تھے‘ ان کے ساتھ بھی یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ تو معلوم ہوا کہ یہاں لفظ رسول کا لایا جانازیادہ مناسب تھا۔ اور یوں ہر دو آیت میں نبی اور رسول کا لفظ اپنی اپنی جگہ بالکل مناسب ہے۔ واللہ اعلم!
(۲۰۴) آیت۱۲
{کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۲)}
’’اور اسی طرح ہم ـاس (بات )کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ الشعراء میں یہی بات ماضی کے صیغے کے ساتھ بیان کی گئی ۔ فرمایا:
{ کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(۲۰۰)}
’’اور ایسے ہی یہ( بات) ہم نے مجرموں کے دلوں میں داخل کر دی۔‘‘
یہاں فرق ماضی اور حال کا ہے۔ سورۃ الشعراء میں پچھلی قوموں کے بعد پھر ان کے دلوں میں وحی الٰہی کی حقیقت جاگزیں ہونے کی طرف اشارہ ہے اور سورۃ الحجر میں نبیﷺ کے زمانہ نبوت میں قرآن کا انکار کرنے والوں کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ قرآن ان کے دلوں میں کھبا جا رہا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سورۃ الحجر کے آغاز ہی سے کُفّار ِقریش کے رویوں کا تذکرہ ہے۔ وہ ایمان لانا چاہتے ہیں ‘لیکن ایمان نہیں لاتے ہیں۔ انہیں بطور دھمکی کہا گیا ہے :{ ذَرْھُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْھِھِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳)} ’’آپ انہیں چھوڑ دیں‘ وہ کھاتے رہیں‘ مزہ لیتے رہیں‘ اُمیدیں انہیں بہکاتی رہیں اور عنقریب وہ جان لیں گے۔‘‘اور پھر رسول اللہﷺ کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: {وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ (۶)}’’اور انہوں نے کہا: اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا‘ بے شک تُو تو ایک دیوانہ ہے۔‘‘اور مذکورہ آیت سے قبل پچھلی اُمتوں کا کوئی تفصیلی حال بیان نہیں ہوا۔ صرف یہ اجمالی بیان آیا ہے کہ ہم نے پچھلی اُمتوں کو ایک محدودمدّت عطا کی اور پھر وہ اس مدّت میں اپنی تکذیب کی بنا پر ہلاک کی گئیں۔جو مدّت جس اُمّت کے لیے مقرر کی گئی تھی‘ اس سے ایک لحظہ وہ آگے یا پیچھے نہ کی گئیں۔
یہی وہ اللہ کی سُنّت ہے جس کا بیان سورۃ فاطر میں ہوا:{فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ۚ} (آیت۴۳) ’’تو کیا وہ اس دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے!‘‘
اور پھر سورۃ الحجر میں مذکورہ تین آیات آتی ہیں اور تیسری آیت میں ارشاد فرمایا:{کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۲)}’’اور اس طرح ہم اس (رویے) کو مجرموں کے دلوں میں رچا بسا دیتے ہیں۔‘‘مراد یہ ہے کہ ہم اس قرآن کو مجرمین کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں ‘یعنی دل سے وہ قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں‘ قرآن کے عمدہ نظم اور اسلوب‘ قرآن کی بلاغت اور اعجاز‘ اور اس کی فوقیت کے وہ قائل ہوتے جاتے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ گو قرآن ان ہی کی زبان میں اُترا ہے ‘لیکن وہ اس کے ہم پلّہ کسی کلام کو پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنےپر مجبور ہیں کہ یہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے۔ اور یہی وہ بات ہے جسے سورۃ الانعام کی اس آیت میں نبی کریمﷺ کوبطور تسلی بتایا گیا:{فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ(۳۳)}’’بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلا رہے لیکن یہ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔‘‘اب چونکہ وہ ایسا قرآن لانے پر قادر نہ ہو سکے تو ان پر اللہ کی حُجّت قائم ہو گئی‘اور پھر جیسا کہ ان کے بارے میں پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا ‘ وہ ایمان لانے سے محروم رہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۹۶) وَلَوْجَاۗءَتْھُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ} (یونس) ’’یقیناً وہ لوگ جن کے حق میں آپؐ کے ربّ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگرچہ اُن کے پاس ہر نشانی آ جائے.......‘‘
اب چونکہ یہ بات قریش کی ہو رہی ہے جو کہ بوقت نزولِ قرآن موجود تھے‘ اور وہ اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے تھے تو بصیغہ حال ’’نَسْلُکُہٗ‘‘ کہہ کر امر واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے کہ اس وقت ان کی قلبی کیفیات کیا ہیں‘ اور پھر ’’ لَا یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ کہہ کر بتا دیا کہ وہ ایمان لانے والےنہیں ہیں۔
رہی سورۃ الشعراء کی آیت کہ جہاں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے تو وہاں سیا ق و سباق دیکھ لیا جائے کہ اس آیت سے قبل پچھلی قوموں جیسے قومِ نوح‘ ہود‘ صالح‘ لوط‘ شعیب اور دیگر اُن قوموں کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے انبیاء کو جھٹلایا‘ وحی کو نہ مانا۔ اور پھر جب کلام کا رُخ نبیﷺ کی طرف موڑا گیا تو فرمایا:{ وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۹۶)} ’’اوراگلے (نبیوں) کی کتابوں میں بھی اس (قرآن) کا تذکرہ ہے۔‘‘اور پھر یہ آیت آتی ہے :{کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(۲۰۰)} تو یہاں مناسب تھا کہ اسے ماضی کے صیغے کے ساتھ لایا جاتا۔ اور یوں  ہر دو آیات اپنے سیاق و سباق کے اعتبار سے اپنی اپنی جگہ مناسبت رکھتی ہیں۔
(۲۰۵) آیت ۳۴۔۳۵
{قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ(۳۴) وَّاِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۳۵)}
’’کہا:پس تُو یہاں سے نکل جاکہ تُو راندئہ درگاہ ہے ۔اور تجھ پر لعنت ہے حساب کتاب کے دن تک۔‘‘
اور سورئہ ص میں ارشاد فرمایا:
{وَاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸)}
’’اور تجھ پر میری لعنت برستی رہے گی حساب کتاب کے دن تک۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الحجر میں ’’اللَّعْنَۃَ‘‘ الف لام کے ساتھ آیا ہے جب کہ سورئہ ص میں یہی لفظ اضافت کے ساتھ وارد ہوا ہے‘ حالانکہ مقصود ایک ہی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ الحجر میں الف لام کے ساتھ لفظ ’’لعنۃ‘‘ کو لایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنس لعنت اس کے لیے مقدّر ہو چکی ہے‘ اس میں حصر کا بھی مفہوم ہے کہ یہ لعنت اُسی کے لیے ہے اور اس میں ایک طرح کا مبالغہ بھی پایا جاتا ہے ۔ اور جہاں تک سورئہ ص کا تعلق ہے تو اس آیت سے قبل یہ الفاظ آئے ہیں: {مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۭ} (آیت ۷۵) ’’تجھے کس بات نے روکا اُسے سجدہ کرنے سے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا؟‘‘تو اس لفظی مناسب کی رعایت کرتے ہوئے لعنت کی اضافت بھی اللہ ہی کی طرف کی گئی‘ یعنی مَیںنے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تُو نے سجدہ سے انکار کیا تو اب میری لعنت قیامت تک تجھ پر سوار رہے گی۔ یوں ہر آیت اپنے سیاق و سباق کے اعتبار سے اپنی جگہ پوری پوری مناسبت رکھتی ہے۔ واللہ اعلم!
(۲۰۶) آیت ۵۳
{اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۵۳)}
’’ہم تمہیں ایک صاحب ِعلم بچے کی بشارت دیتے ہیں۔‘‘
اور ایسے ہی سورۃ الذاریات میں ارشاد فرمایا:
{ قَالُوْا لَا تَخَفْ ۭ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۲۸)}
’’انہوں نے کہا: ڈرو مت! اور اُسےایک صاحب علم بچےکی بشار ت دی۔‘‘
لیکن سورۃ الصافات میں ارشاد فرمایا:
{فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)}
’’اور ہم نے اُسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔‘‘
پہلی دو آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند کے لیے صفت ِعلم کی بشارت ہے‘ جب کہ تیسری آیت میں صفت ِحلم کی بشارت ہے ‘تو اس اختلاف کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ الصافات میں مذکورہ آیت سے قبل بطور تمہید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ذبیح علیہ السلام (یعنی اسماعیلؑ) کا محاورہ (مکالمہ) درج کیا گیا ہے‘ جس کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے:{فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ} (آیت۱۰۲) ’’اور جب وہ (بچہ) اس کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تمہیں ذبح کرتے دیکھتا ہوں‘‘۔توفرزند ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کی بات کو صبر ‘ قبولیت اور رضامندی کے ساتھ سنا ------ ابن عطیہ ’’حلیم‘‘ کی تفسیر میں کہتے ہیں:’’صبر کرنے والا‘ برداشت کرنے والا‘ بہت ہی عقلمند۔ حِلم عقل کو کہا جاتا ہے ‘‘ ------تو انہوں نے اپنے والد کو نہایت شائستگی سے جواب دیا کہ جس میں خود اپنے آپ کو بھی تسلی دی گئی ہے اور ثواب کی امید بھی رکھی گئی ہے۔ان کا یہ طرزِعمل صفت ِحلم کا تقاضا کرتا ہے اور باقی دو آیات میں چونکہ ذبح کا ذکر نہیں آیا‘ اس لیے وہاں صرف صفت ِعلم کا ذکر کیا گیا جو کہ تمام انبیاء کا وصف ہے۔ اور اس لحاظ سے ہر آیت کے الفاظ اپنی اپنی جگہ مناسبت رکھتے ہیں۔
تبصرہ از مترجم:یہاں معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف سے سہو ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک تینوں آیات کا مقصود ایک ہی شخص ہے۔ انہوں نے اس بات کی صراحت نہیںکی کہ ذبیح علیہ السلام سے کون مراد ہے؟ کیا اس سے مراد اسماعیل علیہ السلام ہیں یا اسحاق علیہ السلام ؟
ابن کثیر نے سورۃ الصافات کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں دونوں اقوال پیش کیے ہیں اور پھر اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ذبیح سے مراد اسماعیل علیہ السلام ہی کی ذات ہے‘ اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان آیات میں پہلے قصہ ذبیح بیان ہوا ہے جس میں فرزند ابراہیم علیہ السلام کا خواب نقل کیا گیا ہے کہ جس کی بنا پر انہیں وصف حلم سے نوازا گیا اور اس کے بعد ارشاد فرمایا:{ وَبَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (۱۱۲)} ’’اور ہم نے اسے بشارت دی اسحاق کی جو کہ نیکوکاروں میں سے ایک نبی ہوگا۔‘‘اور سورئہ ہود میں ارشاد فرمایا:{ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ(۷۱)}’’اور ہم نے اُسے اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بھی۔‘‘اسحاقؑ کی بشارت دینا اور پھر اسحاق کے بیٹے یعقوبؑ کی بھی بشارت دینا اس بات کا اعلان تھا کہ اسحاق ؑکی زندگی کی ضمانت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے بیٹے یعقوب کو دیکھنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ اور اگر ایسی ضمانت دی جا چکی تھی تو پھر ان کے ساتھ ذبح کیے جانے کا واقعہ کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سورۃ الحجر اور سورۃ الذاریات میں ابراہیم علیہ السلام کے جس بیٹے کا ذکر ہے اور جسے ’’غُلٰمٍ عَلِیْمٍ‘‘ کہا گیا ہے وہ اسحاق علیہ السلام ہیں اور سورۃ الصافات میں جس فرزند کا ذکر ہے وہ اسماعیل علیہ السلام ہیں کہ جنہیں ’’غُلٰمٍ حَلِیْمٍ‘‘ کے وصف کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔
----------------- -------------
(۲۰۷) آیت ۷۵تا۷۷
{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ (۷۵) وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(۷۶) اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۷۷) } (الحجر)
’’بے شک اس واقعے میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور یہ بستی ایسی راہ پر ہے جو عام گزرگاہ ہے۔ اور اس میں مؤمنوں کے لیے ایک نشانی ہے۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:آیت کے پہلے حصے میں ’’اٰیٰت‘‘ بصیغہ جمع لایا گیا ہے اور آخری ٹکڑے میں ’’اٰیَۃ‘‘ بصیغہ مفرد لایا گیا ہے۔اور ایسے ہی پہلے آیات کو ’’مُتَوَسِّمِیْنَ‘‘ (عبرت حاصل کرنے والوں) کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور آخری حصے میں’ ’اٰیَۃ‘‘ کو مؤمنین کے ساتھ خاص کیا گیا ہے ‘تو اس کی کیا وجہ ہے؟
جواباً عرض ہے کہ آیت کے پورے سیاق کو ملاحظہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کا آنا‘ اور پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگوں کے ہجوم سے ڈرتے نہیں تھے‘ خلیل الرحمٰن کے وصف کے حامل تھے‘ قوی اور طاقتور تھے‘ انہیں کچھ خوف محسوس ہوا‘ پھر فرشتوں نے انہیں کبرسنی کے باوجود بیٹے کی خوشخبری دی۔ پھر جب انہوں نے ان کی آمد کا مقصد پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ قومِ لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں اور قومِ لوط کی آبادی حضرت ابراہیمؑ کے مسکن سے زیادہ دور نہ تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام باقی انبیاء اور رسولوں کی مانند نرمی اور شفقت کے جذبات رکھتے تھے‘ اس لیے انہوں نے قومِ لوط کو بچانے کے لیے باقاعدہ اللہ سے مجادلہ کیا جسے قرآن میں ان الفاظ سے ادا کیا گیا ہے: {فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرٰھِیْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ(۷۴)}(ھود) ’’اور جب ابراہیم کا ڈر جاتا رہا اور اسے خوشخبری بھی مل گئی تو وہ ہمارے ساتھ قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگا‘‘۔مجادلہ یہ تھا کہ فرشتوں سے پوچھا کہ اگر قومِ لوط میں کچھ مؤمن بھی پائے گئے تو کیا پھر بھی اللہ انہیں ہلاک کردیں گے؟ اور پھر وہ اسی سوال و جواب میں رہے ‘یہاں تک کہ فرشتوں نے انہیں بتایا کہ سوائے لوط علیہ السلام کی بیوی کے‘ اُن کے گھر کے باقی افراد بچا لیے جائیں گے۔اور پھر باقی قصہ بیان فرمایا کہ یہ فرشتے بعد ازاں لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے‘ تو آپؑ انہیں پہچان نہیں پائے۔ یہاں تک کہ خود انہوں نے بتایا کہ وہ بشر نہیں فرشتے ہیں۔اور پھر بیان کیا کہ کیسے فرشتوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ گھر والوں کو لے کر نکلیں‘ سب ان کے آگے آگے چلیں‘ کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے ‘کیونکہ صبح ہوتے ہی ان کی قوم پر عذاب آنے والا ہے۔
اور یہ بھی بیان کیا کہ جونہی اُن کی قوم نے سنا کہ لوط علیہ السلام کے پاس کچھ مہمان آئے ہیں‘ وہ بھاگے بھاگے چلے آئے ‘ اورآپؑ کو بہلانے پھسلانے لگے کہ وہ اپنے مہمانوں کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ ان سے بدفعلی کر سکیں جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ لوط علیہ السلام نے انہیں اللہ سے ڈرایا ‘بلکہ یہاں تک کہا:{ اِنَّ ھٰٓؤُلَاۗءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ (۶۸) وَاتَّقُوْا اللہَ وَلَا تُخْزُوْنِ(۶۹)}(الحجر)’’اُس نے کہا :یہ میرے مہمان ہیں تو مجھے رسوا نہ کرو! اللہ سے ڈرو اور مجھے بے آبرو نہ کرو!‘‘مزید کہا :{ھٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِیْٓ......} ’’یہ میری بیٹیاں ہیں......‘‘ اشارہ تھا کہ قوم کی بیٹیاں اُن کی بیٹیوں کی مانند ہیں‘ چونکہ نبی اپنی قوم کے لیے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اپنی جنسی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں تو حلال طریقے سے وہ انہیں اپنا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی التجا قوم کو رام نہ کر سکی اور وہ اپنی ضد اور عناد پر قائم رہے۔ ایسے وقت میں ان کی زبان سے یہ درد بھرے الفاظ نکلتے ہیں:{قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ(۸۰)}(ھود)’’اس نے کہا: کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا مَیں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔‘‘یعنی کاش میری برادری یا قبیلہ ہوتا جو اس آڑے وقت میںمیرے کام آتا۔ اور پھر فرشتوں نے انہیں تسلی کے یہ الفاظ کہے: {اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ} (ھود:۸۱) ’’ہم تمہارے ربّ کے فرستادہ ہیں وہ تم تک ہرگز نہ پہنچ پائیں گے۔‘‘یعنی ان کی کیا مجال کہ وہ انہیں چھو بھی سکیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے ان کی آنکھوں میں پھونک دیا‘وہ اندھے ہو کر بھاگے اور چلّاتے گئے کہ لوط کے پاس تو آدمی نہیں ‘جادوگر آئے ہیں۔ پھر ایک ہول ناک چیخ کے ساتھ عذاب کی آمد ہوئی۔ فرمایا: {فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ(۸۲)} (ھود) ’’اور پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کے اوپر کے حصے کو نیچے کر دیا اور ہم نے اس پر تہ بہ تہ کنکریلے پتھروں کی بارش برسا دی‘‘۔اب ملاحظہ ہو کہ یہاں عبرت پکڑنے والوں (مُتَوَسِّمِیْن) کے لیے سامانِ عبرت ہے یا نہیں؟ایک کے بعددوسرا واقعہ‘ ایک نشانی کے بعد دوسری نشانی‘ بصیرت کی نگاہ رکھنےوالا دیکھے گا کہ آگے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ تو پھر یہ کہنا بالکل مناسب تھا:{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ (۷۵)} ’’اوربے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں!‘ ‘
اس کےبعد ملاحظہ ہو کہ ان کی بستیاں اُلٹا پلٹا دی گئیں‘ بعد میں آنے والے لوگ ان خانہ بربادوں کے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے‘ اور کیوں نہ دیکھتے کہ وہ ان کی شاہرا ہ پر تھے۔ فرمایا:{وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(۷۶)} ’’اور وہ بستی ایسی شاہراہ پر ہے جو عام گزر گاہ ہے۔‘‘یعنی جو کچھ اُن کےساتھ ہوا‘ اسے دیکھنے والے دیکھ سکتے تھے۔ چونکہ یہ خبر ایک صاد ق و امین شخص کے ذریعے اُن تک پہنچی تھی‘ جس پر وہ ایمان رکھتے تھے تو اُن کے لیے وہ نصیحت حاصل کرنے کے لیے کافی تھی۔ اور پھر اس بات کو یوں ارشاد فرمایا: {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۷۷) }’’بے شک اس میں مؤمنوں کے لیے ایک نشانی ہے۔‘‘اور یہاں مناسب تھا کہ لفظ ’’اٰیَۃ‘‘ مفرد لایا جاتا‘ اور اس کے بعد مؤمنین کا ذکر کیا جاتا جو کہ وحی الٰہی پر ایمان رکھتے تھے ‘یعنی جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وحی نے اُسے آشکارکر دیا تھا۔ اور یوں آپ نے دیکھا کہ لفظ ’’مُتَوَسِّمِیْنَ‘‘ اٰیٰت کے ساتھ اپنی جگہ مناسبت رکھتا ہے‘ اور لفظ ’’مُؤْمِنِیْنَ‘‘ اٰیۃ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے ‘واللہ اعلم!
تبصرہ از مترجم:مؤلف کتاب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجادلے کا انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ابن کثیرؒ اور قرطبیؒ نے بروایت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے تفصیل سے نقل کیا ہے۔ مولانا اصلاحی نے تورات کے حوالے سے پورا قصہ یوں نقل کیا ہے :
’’پر ابراہام خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا۔ تب ابراہام نے نزدیک جا کر کہا: کیا تُو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا؟ شاید اُس شہر میں پچاس راست باز ہوں۔ کیا تُو اُسے ہلاک کرے گا اور اُن پچاس راست بازوں کی خاطر جو اُس میں ہوں اُس مقام کو نہ چھوڑے گا؟ اَیسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دُنیا کا انصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟ اور خداوند نے فرمایا کہ اگر مُجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راست باز ملیں تو مَیں اُن کی خاطر اُس مقام کو چھوڑ دُوں گا۔ تب ابراہام نے جواب دِیا اور کہا کہ دیکھئے! مَیں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی‘ اگرچہ مَیں راکھ اور خاک ہوں۔ شاید پچاس راست بازوں میں پانچ کم ہوں۔ کیا اُن پانچ کی کمی کے سبب سے تُو تمام شہر کو نیست کر دے گا؟ اُس نے کہا اگر مُجھے وہاں پینتالیس ملیں تو مَیں اُسے نیست نہیں کروں گا۔ پھر اُس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں۔ تب اُس نے کہا کہ مَیں اُن چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروںگا۔ پھر اُس نے کہا:خُداوند ناراض نہ ہو تو مَیں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس ملیں۔ اُس نے کہا: اگر مُجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی مَیں اَیسا نہیں کروں گا۔ پھر اُس نے کہا :دیکھئے! مَیں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی۔ شاید وہاں بیس ملیں۔ اُس نے کہا: مَیں بیس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کروں گا۔تب اُس نے کہا:خداوند ناراض نہ ہو تو مَیں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں۔ اُس نے کہا :مَیں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔‘‘(پیدائش‘باب۱۸:۲۳۔۳۲)
(۲۰۸) آیت ۸۸
{ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)}
’’اور مؤمنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رکھیں۔‘‘
اور سورۃ الشعراء میں ارشاد فرمایا:
{وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۱۵)}
’’اور اپنا بازو جھکائے رکھو ہر اُس مؤمن شخص کے لیے جو تمہاری پیروی کر رہا ہے ۔‘‘
اس آیت میں ’’لِمَنِ اتَّبَعَکَ‘‘ کا اضافہ ہے تو اس کی کیا وجہ ہے ‘حالانکہ مضمون ایک ہی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الحجر کی آیت سے قبل خاص طو رپر کسی مدعُوّ (یعنی جن کو دعوت دی جا رہی تھی) کا ذکر نہیں ہےبلکہ صرف نبی علیہ السلام کو لوگوں کی بے رخی کی بنا پر تسلی دی جا رہی تھی اور اہل ِایمان کے ساتھ نرمی برتنے کی ہدایت کی جا رہی تھی۔ فرمایا: {وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)}’’اور ان پر افسوس نہ کرو اور اپنا بازو مؤمنوں کے لیے جھکائے رکھو!‘‘ اس لیے یہاں مذکورہ زائد الفاظ کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن سورۃ الشعراء کی آیت سے قبل ارشاد فرمایا: {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(۲۱۴)} ’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراتےرہو!‘‘ انذار یعنی ڈرانے کے اندر خوف اور بڑائی کا عنصر شامل ہے‘ اس لیے یہاں خاص طور پر ’’لِمَنِ اتَّبَعَکَ‘‘ کہہ کر ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا اظہار کیا گیا ہے جو نبیﷺ ہی کی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور ایمان لےآئے تھے۔لیکن ’’لِمَنِ اتَّبَعَکَ‘‘ کے الفاظ سے ان تمام لوگوں کو شامل کر لیا گیا جو چاہے آپ کی برادری سے تعلق رکھتے تھے یا عام ایمان لانے والوں میں سے تھے ‘ اور اگر صرف {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)} کہا جاتا تو یہ عمومی معنی حاصل نہ ہوتا۔ گویا یوں کہاجا رہا تھا کہ آپ صرف اہل ِایمان کے لیے اپنے پہلو کو جھکائے رکھیے اور اس سے مراد صرف انہی کے قبیلے کے لوگ بھی ہو سکتے تھے اور دوسرے بھی۔ لیکن سورۃ الشعراء کی آیت میں جب اپنے قرابت دار اہل ِقبیلہ کو ڈرانے کا ذکر کیا گیا تو’’لِمَنِ اتَّبَعَکَ‘‘ کے اضافے کی ضرورت اس لیے پڑی تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ اب جو تسلی کے الفاظ کہے جا رہے ہیں وہ صرف انہی کے قرابت دار لوگوں کے لیے ہیں۔ نہیں‘بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو تمہاری پیروی کر رہے ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کے فوراً بعد یہ الفاظ آئے ہیں:
{فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(۲۱۶)}
’’اور اگر یہ لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو: مَیں تمہارے کرتوتوں سےبیزار ہوں!‘‘
تویہاں ’’عَصَوْکَ‘‘ کی ضمیر جمع‘ کیا نبیﷺ کے قبیلے کی طرف اشارہ نہیں کرتی ؟ تو’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے مراد خصوصی طو رپر وہی لوگ ہوئے‘ نہ کہ تمام ایمان لانے والے ؟
اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ضمیر جمع کا ’’عَشِیْرَتَک‘‘ کی طرف راجع ہونا لازمی نہیں ہے۔ اس سے مراد سبھی ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی جو کفر میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے اور وہ بھی جو آپؐ کی پیروی کرنےوالوں میں سے تھے‘ یعنی ایمان لا کر مرتدہو گئے تھے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{ کَیْفَ یَھْدِی اللہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ } (آل عمران:۸۶)
’’اللہ اُس قوم کو کیسے ہدات دے جو ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے!‘‘
اس لیے ضمیر جمع کا اُن تمام افراد پر راجع ہونا زیادہ مناسب ہے۔ اس میں وہ اہل ایمان بھی آ سکتے ہیں جنہوں نے صرف نافرمانی کی‘ کفر نہیں کیا‘کیونکہ لفظ معصیت میں کفر بھی آ جاتا ہے اور کفر سے کم درجے کے اعمال بھی۔ واللہ سبحانہ اعلم!
سُورۃُ النَّحل(۲۰۹) آیت ۱۱ تا۱۳
{ یُنْۢبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَ الزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۱۱) وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِہٖ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۲) وَمَا ذَرَاَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ(۱۳)}
’’اسی سے وہ تمہارے لیے اُگاتا ہے کھیتیاں‘ زیتون‘ کھجور‘ انگور اور ہر طرح کے پھل۔ بے شک اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔اور اس نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے رات اور دن کو‘ سورج اور چاند کو‘ اور ستارے بھی اُس کے حکم کے پابند ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔ اور وہ سب کچھ جو اس نے تمہار ے لیے زمین میں رنگ برنگ پیدا کیا ہے ‘ اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ پہلی اور تیسری آیت میں لفظ ’’اٰیَۃً‘‘ مفرد لایاگیا ہے‘ صرف دوسری آیت میں بصیغہ جمع ’’اٰیٰت‘‘ لایا گیا ہے۔دوسرا سوال یہ کہ تینوں آیات کے اختتامی کلمات مختلف ہیں یعنی یَتَفَکَّرُوْنَ‘ یَعْقِلُوْنَ اور یَذَّکَّرُوْنَ۔
پہلے سوال کا جواب ملاحظہ ہو:سب سے پہلی آیت میں آسمان سے نازل شدہ پانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان الفاظ کے ساتھ ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ‘‘جبکہ آسمان سے پانی کے نازل ہونے کا ذکر اس آیت سے قبل کیا گیا تھا :
{ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ(۱۰)}
’’اُسی نے تمہار ےلیے آسمان سے پانی اتارا ہے‘ جو تم پیتے ہو اور اس سے جو درخت اُگتا ہے اس سے اپنےجانور چراتے ہو۔‘‘
اور پھر اس سے اگلی آیت میں یہ بیان ہوا کہ اسی پانی سے وہ تمہارے لیے اگاتا ہے کھیتیاں‘ زیتون‘ کھجور‘ انگوراور ڈھیر سارے باقی پھل۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ پانی ایک ہی طرح کا ہے لیکن اس سے اُگنے والے پھل اورسبزیاں طرح طرح کی ہیں۔ تو جب یہ کہا گیا ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً‘‘ تو مقصود یہی تھا کہ پانی کی طرف دیکھو۔ وہ ہر جگہ ایک ہی صفت رکھتا ہے لیکن اس سے جلا پا کر اُگنے والے پھل اور ترکاریاں اپنے رنگ و بو اور ذائقے میں گلہائے رنگا رنگ کا نقشہ پیش کرتے نظر آتے ہیں‘ تو اس سے بڑھ کر اور کیا نشانی ہو گی!
ایسے ہی تیسری آیت میں کہا گیا:{ وَمَا ذَرَاَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ط’’اور جو کچھ اُس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کیا ہے طرح طرح کے رنگ و روپ کا۔‘‘یہاں ’’مَا‘‘ کا لفظ بطور جنس ہے یعنی جو کچھ بھی زمین کی سطح پر اُگتا یا پیدا ہوتا ہے وہ جنس کے اعتبار سے تو اکائی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن افراد کے اعتبار سے اپنے رنگ اور ذائقے کی بنا پر مختلف اشکال میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے ‘اور یوں یہاں بھی اشارہ مفرد کی طرف تھا اس لیے لفظ اٰیَۃ کو بھی مفرد لایا گیا۔
جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو وہاں پانچ مختلف چیزوں کا ذکر کیاگیا ہے کہ جن میں غورکرنا مطلوب ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہماری معیشت سنورتی ہے‘ ہمارے حالات سدھرتے ہیں اور ہمیں حساب کتاب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہ پانچ چیزیں ہیں: دن اور رات‘ سورج اور چاند ‘اور ستارے۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں غور کر نے سے نظر و فکر کی بہت سی راہیں کھلتی ہیں۔ رات راحت اور سکون کے لیے ہے‘ دن کمانے‘ مختلف کام انجام دینے اور گھومنے پھرنے کے لیے ہے‘ سورج روشنی اور حرارت کا منبع ہے‘ چاند سے ایک لطیف نور اور ٹھنڈک کا احساس وابستہ ہے اور ان دونوں سے ماہ و سال کا حساب بھی لگایا جاتا ہے۔فرمایا:
{ لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ ۭ} (یٰسٓ:۴۰)
’’نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘
ستاروں سے تو بر و بحر کے سفر میں راستے طے کیے جاتے ہیں۔ ان پانچوں چیزوں میں غور وفکر کے ایسے پہلو موجود ہیں کہ ان کی طرف ’’اٰیٰت‘‘ بصیغہ جمع سے اشارہ کرنا بالکل مناسب تھا۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ تینوں آیات میں اللہ تعالیٰ کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور ان سے عبرت حاصل کرنے کا سبق دیا گیا ہے ‘لیکن اس کے لیے پہلی آیات میں اُن لوگوں کا تذکرہ ہے جو غور و فکر کرتے ہیں‘ دوسری آیت میں اُن کا جو عقل سے کام لیتے ہیں اور تیسری آیت میں اُن کا جو نصیحت پکڑنا چاہتے ہیں۔
اب ذرا غور فرمایئے ‘پہلی آیت میں آسمان سے برسنے والے پانی کا ذکر ہے جو اپنی نوع کے اعتبار سے ایک چیز ہے لیکن اس سے طرح طرح کے پھل اورسبزیاں‘ مختلف رنگ اور ذائقے والی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بات معمولی غو ر وفکر سے بھی حاصل ہو جاتی ہے‘ شرط صرف یہ ہے کہ انسان غفلت کا شکار نہ ہو۔اس سے اگلی آیت میں رات دن کے آنے جانے کا اور شمس و قمر اور ستاروں کے مسخر کیے جانے کا ذکر ہے۔ یہاں صرف غور و فکر سے کام نہیں چلے گا ‘بلکہ عقل کے گھوڑے دوڑانے ہوں گے۔ رات دن چھوٹے بڑے کیسے ہوتے ہیں‘ سورج‘ چاند اور ستارے کیسے اللہ کے حکم کے پابند ہیں‘ یہ سب بہت دَقیق اُمور ہیں جن کے بارے میں حکماء و فلاسفہ ہمیشہ سے دُور دُورکی کوڑیاں لائے ہیں۔
اس آیت سے ملتی جلتی سورۃ البقرۃ کی یہ آیت ہے جس کا اختتام بھی ’’ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ پرہوا ہے۔ فرمایا:
{ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَ نْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَاۗ بَّۃٍ ۠ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (۱۶۴) } (البقرۃ)

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں‘ اور کشتیوں(اور جہازوں) میں جو سمندر میں لوگوں کے فائدے کے لیے رواں ہیں‘اور جوکچھ آسمان سے اللہ نے پانی اتارا ہے کہ جس سے اس زمین کو زندہ کیا جو مُردہ ہو چکی تھی‘ اور جو کچھ جانور اس میں پھیلا دیے‘ اور ہوائوں کے رخ بدلنے میں‘ اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں (ان سب میں) نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
چونکہ ان تمام چیزوں کی حکمتیں پردئہ راز میں چھپی ہوئی ہیں اس لیے انہیں عقل کی روشنی ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسری آیت میں زمین سے پیدا شدہ رنگ برنگی غذا کا ذکر ہوا ہے‘ جس میں غور و فکر بھی کیا جا سکتا ہے جس کا ذکر پہلی آیت کے ضمن میں آ چکا ہے اور اس سے نصیحت و عبرت بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔اور یوں ہر سہ آیات کا اختتام جس وصف کے ساتھ ہوا ہے وہی وہاں مناسب تھا۔
(۲۱۰) آیت ۱۴
{وَھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ۚ وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۱۴)}
’’اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھا سکو اور اس میں سے پہننے کے لیے زیورات نکال سکو‘ اور اس میں تم تیرتی ہوئی کشتیاں دیکھتے ہو‘ اور تاکہ تم اُس کا فضل تلاش کر سکو اور اس کی شکر گزاری بھی کرسکو۔‘‘
اور سورۃ الملائکہ (فاطر)میں ارشاد فرمایا:
{ وَمِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ۚ وَتَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۱۲)}
’’اور ان میں ہر ایک (پانی) سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور ایسے زیورات نکالتے ہو جسے تم پہن سکتے ہواور تم اس میں کشتیوں کو (پانی)چیرتے ہوئے دیکھتے ہو‘ تاکہ تم اُس کا فضل تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں آیات ایک جیسی ہیں‘ لیکن دونوں میں تین الفاظ کی وجہ سے فرق واقع ہوا ہے:

سورۃ النحل

(۱)
مَوَاخِرَ فِیْہِ
(مجرور کو بعد میں لایا گیا)

(۲)
وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ
(وائو کا اثبات ہے)

(۳)
وَتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً
( مِنْہُ کا اضافہ ہے)

 

سورۃ الملائکۃ (سورۂ فاطر)

(۱)
فِیْہِ مَوَاخِرَ
(مجرور کو پہلے لایا گیا)

(۲)
لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ
(وائو کا سقوط ہے)
(۳)
وَتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً
( مِنْہُ کے بغیر ہے)


سوال ۱ کا جواب: سورۃ النحل میں جار مجرور کا متعلقہ لفظ کے بعد میں لائے جانے کا رجحان ہے۔ جیسے لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ وَتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ ‘ مَوَاخِرَ فِیْہِ‘ اور اگر یہاں جار مجرور پہلے لایا جاتا یعنی یوں کہا جاتا : ’’فِیْہِ مَوَاخِرَ‘‘ تو وہ سورۃ النحل کے اندازِ بیان سے جدا ہوجاتا ------- مَوَاخِرَ لفظ مَـخَر سے نکلا ہے‘ یعنی وہ کشتیاں جو اپنے سینے سے دریا یا سمندر کے پانی کو پھاڑتی ہوئی اپنا راستہ بناتی ہیں۔اور سورۃ الملائکہ میں جار مجرور اپنے متعلق سے پہلے لایا گیا ہے۔ اسی آیت کے شروع میں کہا گیا تھا : ’’ وَمِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا‘‘ تو مناسب تھا کہ اس کے بعد ’’فِیْہِ مَوَاخِرَ‘‘ کہا جاتا تاکہ کلام میں تناسق (مناسبت)قائم رہے۔
سوال ۲ کا جواب: سورۃ النحل کی آیت میں اللہ تعالیٰ کی چند نعمتوں کا ذکر آیا ہے تاکہ لوگ ان نعمتوں کی قدر کریں۔ فرمایا: {وَھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا} ’’اور اُسی نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاسکو۔‘‘یہ پہلی نعمت کا بیان تھا۔ اس کے بعد وائو عطف کے ساتھ دوسری نعمت کا بیان ہوا : { وَتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ۚ} ’’اور اس سے زیور نکال سکو جسے تم پہنتے ہو‘‘۔اور پھر وائو عطف کے ساتھ تیسری نعمت کا: {وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ}’’اور تم اس میں کشتیاں دیکھتے ہو جو (پانی کو) چیرتی جاتی ہیں۔‘‘ اور پھر وائو عطف کے ساتھ چوتھی نعمت کا: {وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ} ’’اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کر سکو!‘‘تو یہاں اللہ تعالیٰ کی چار نعمتوں کابیان ہوا اور پھر کہا: { وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} ’’اور تاکہ تم شکر گزار بن سکو‘‘-------لیکن سورۃ الملائکہ میں اگرچہ چند نعمتوں کا بیان ہے‘ جیسے ارشاد فرمایا:
{وَاللہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا ۭ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ ۭ وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ ۭ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ(۱۱)}
’’اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا مٹّی سے‘ پھر نطفے سے ‘پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا۔اور جو کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو وہ اس کا علم رکھتا ہے ‘ اور جو بڑی عمر والا عمر پاتا ہے اور جس کی عمر کم کر دی جاتی ہے تووہ سب ایک کتاب میں ہے۔ اور یہ سب اللہ کے لیے بڑا آسان ہے ۔‘‘
اور اس کے بعد پھر دو طرح کے پانیوں کا ذکر کیا:
{وَمَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ڰ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَاۗئِغٌ شَرَابُہٗ وَھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ}
’’اور دونوں پانی برابر نہیں‘ ایک تو ٹھنڈا میٹھا ہے ‘پینا اس کا خوشگوار ہے‘ اور دوسرا نمکین اور کڑوا۔‘‘
یہاں گو تسخیر سمندر کا ذکر نہیں ہے ‘ لیکن زورِ بیان میں یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ہم نے تمہارے لیے سمندر کے پانیوں کو بھی مسخر کر دیا ہے‘ چاہے وہ دریا کا ٹھنڈا میٹھا پانی ہو یا سمندر کاکڑوا نمکین پانی ہو‘ اور ان میں سے ہر ایک سے تم تازہ تازہ گوشت (مچھلی) کھاتے ہو اور ایسے ہی تم اس سے زیور (گھونگھے‘ سیپیاں‘موتی) نکال کر پہنتے ہو اور پھر تم اس میں کشتیوں کو سمندر کا پانی پھاڑتے ہوئے دیکھتے ہو۔اور اس کے بعد ارشاد فرمایا:{لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ} ’’تاکہ تم اس کے فضل میں سےتلاش کر سکو!‘‘تو یہاں تسخیر سمندر کی غایت کے طور پر آخر میں بتایا گیا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اللہ کے بے پایاں فضل میں سے کچھ نہ کچھ حاصل کر سکو۔
اس لحاظ سے دونوں سورتوں کی آیات میں فرق واضح ہو گیا۔ یعنی سورۃ النحل میں نعمتوں کے تعد ّد کا بیان ہے جس میں ایک اللہ کے فضل کو چاہنا بھی ہے اور سورۃ الملائکہ میں ’’اللہ کے فضل کو چاہنا‘‘ بطور غایت یا مقصد بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے یہاں وائو عطف لانا مناسب نہ تھا۔
سوال ۳ کا جواب : سورۃ الملائکہ کی آیت جہاں ارشاد فرمایا:
{ وَمِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ۚ}
’’اور ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو کہ جسے تم پہنتے ہو۔‘‘
اس میں کوئی ابہام نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسرے معنی کا احتمال ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں طرح کے پانیوں سے تمہارا کھاجا بھی ہے اور پہناوے کا زیور بھی ہے ۔بالکل مبتدا ٔخبر کی طرح کا پورا جملہ ہے۔ سورۃ النحل کی آیت ملاحظہ ہو جہاںـ ’’مِنْہُ‘‘ دو دفعہ آیا ہے:{وَھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ۚ}’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو تابع کر دیا ہےتاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھائو اور اس میں سے زیورات نکالو کہ جسے تم پہنتے ہو۔‘‘اس آیت میں اگر’’تَسْتَخْرِجُوْا‘‘ کے بعد ’’مِنْہُ‘‘
نہ ہوتا تو اس میں ایک خفیف سا احتمال رہ جاتا کہ ’’تم زیورات نکالو‘‘یعنی خاص طور پر سمندر ہی سے نکالو۔ گویا یہ احتمالِ خفیف ہے ‘کیونکہ سیاق ظاہر ہے سمندر ہی سے نکالے جانے کے بارے میں ہے‘ پھر بھی ’’مِنْہُ‘‘ لا کر اس احتمال کی بھی نفی کر دی گئی۔ اور جیسا ہم نے کہا کہ سورۃ الملائکہ ہی کے آغاز میں ’’وَمِنْ کُلٍّ‘‘ کے الفاظ اتنے واضح ہیں کہ وہاں کسی قسم کے احتمال کی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے وہاں مِنْہُ نہیں لایا گیا۔ واللہ اعلم!
(۲۱۱) آیت ۲۹
{فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۲۹)}
’’تو پھر جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جائو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘ اور کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔‘‘
اور سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
{ قِیْلَ ادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۚ فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۷۲)}
’’اور کہا گیا جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جائوہمیشہ ہمیشہ کے لیے ‘ تو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔‘‘
اور سورۃ المؤمن میں ارشاد فرمایا:
{ اُدْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۚ فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۷۶)}
’’داخل ہو جائو جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘ اورکیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔‘‘
یہاں سائل یہ سوال کر سکتا ہے کہ سورۃ النحل کی آیت میں’’بِئْسَ‘‘ سے پہلے ’’لام‘‘ کا اضافہ ہے‘ لیکن باقی دونوں سورتوں میں یہ ’’لام‘‘ ساقط ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
جواباً عرض ہے کہ سورۃ النحل کی مذکورہ آیت سے قبل پانچ آیات میں ان لوگوں کے اوصاف و اطوار کو بیان کیا گیا ہے جنہیں بالآخر جہنم کی راہ دکھائی گئی ہے۔ابتداآیت ۲۴ سے ہو رہی ہے:
{ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ مَّا ذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۴)}
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا اُتارا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ سب اَگلوں کی کہانیاں ہیں۔‘‘
اور پھر آیت ۲۹ میں انہیں کہا گیا : {فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط}۔اور جس تفصیل اور طوالت کے ساتھ ان کا ذکر کیاگیا تو ان کے لیے یہ زائد لام جو کہ قسم کے معنی میں ہے‘ کا لانا مناسب تھا۔
لیکن سورۃ الزمر کی آیت سے قبل صرف دو آیات ہیں جن کی ابتدا آیت۷۱ سے ہوتی ہے:
{ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ زُمَرًاط}
’’اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ جہنم کی طرف ہنکائے گئے۔‘‘
یہاں ان کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی آسمانی کتب کے بارے میں ان کییہ بے ہودہ بات کہی گئی ہے جو کہ سورۃ النحل میں نقل کی گئی ہے کہ یہ سب پچھلوں کی کہانیاں ہیں ۔ چونکہ ان کے وصف میں اختصار سے کام لیا گیا‘ تو یہاں ’’بِئْس‘‘ کے ساتھ لامِ قسم لانے کی ضرورت نہ تھی۔اور یہی بات سورۃ المؤمن کی آیت کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ وہاں بھی مذکورہ آیت سے قبل ان لوگوں کا کوئی تفصیلی بیان نہیں لایا گیا۔ صرف ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ہمارے معبودانِ باطلہ تو ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر غائب ہو گئے۔اور اس لیے یہاں بھی لامِ قسم لانے کی ضرورت نہ تھی۔ واللہ اعلم!