(حرفِ اوّل) ماہمہ افسونی ٔتہذیب غرب - ڈاکٹر ابصار احمد

10 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہمہ افسونیٔ تہذیبِ غربڈاکٹر ابصار احمد

مؤسس انجمن خدام القرآن لاہور و بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ۱۹۶۷ء میں شائع شدہ اپنی ایک اہم تحریر بعنوان ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ میں دس بارہ ذیلی عنوانات میں سے ان دو پر بھی اپنے خیالات پیش کیے ہیں:
(i فکر ِ مغرب کا ہمہ گیر استیلاء
(ii عالم اسلام پر مغرب کی سیاسی و فکری یورش
مغرب اور مغربی اقوام ہی فی الحقیقت وہ علاقے اور ان میں بسنے والی اقوام ہیں جنہیں حدیث مبارکہ میں ’’روم‘‘ اور ’’بنی الاصفر‘‘ (white-skinned nations) کہا گیا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ملت ِروم کی مختلف شاخوں یعنی یورپین اقوام نے تقریباً تمام اسلامی مملکتوں کو اپنی نوآبادیاں بنا کر نہ صرف ان کے مادی وسائل پر قبضہ کیا اور ان کے تہذیب و تمدن‘ دین‘ دینی روایات اور زبانوں کو مسخ کیا بلکہ ان پر جدیدیت اور مادی فلسفیانہ افکار بھی مسلط کیے۔ ’’روم‘‘ (نام نہاد عیسائی یورپ اور ایک حدیث میں وارد ملت ِروم کے متعدد ’’سینگوں‘‘ میں سے آخری سینگ ریاست ہائے متحدہ امریکہ) دراصل اسی عالم جبر اور اسی ملت ِالحاد کا تسلسل ہے جسے ہم عصر حاضر میں مجموعی طور پر ’’مغرب‘‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔
گلوبل سطح پر گزشتہ چھ ساڑھے چھ دہائیوں کے دوران الحادی و مادی طرزِ فکر اور زاویۂ نگاہ نے بہت سے چولے بدلے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن لبرل/ سیکولر فکر نے ہیومن ازم‘ کیپیٹل ازم‘ امپیریل ازم وغیرہ اور ان پر مبنی اس کے پیراڈائم میں نمو پانے والے سارے علوم نہ صرف کفر و الحاد کا زہر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ مغربی فلسفیوں اور دانش وَروں کے بقول انسانیت کے لیے تباہ کن بھی ہیں۔ جرمن فلسفی ہائیڈیگر‘ ناسا کا چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سائمن رامو‘ ہزرل (Husserl) ‘ امریکی نفسیات دان اور سوشل نقاد ایرک فروم (Erich Fromm) ‘ ہربرٹ مارکوزے‘ اڈورنو (Adorno) اور یاک ہائمر کی اہم کتاب The Dialectic of Enlightenment کا مطالعہ مغرب کے فلسفہ ٔ روشن خیالی کو خرافات قرار دیتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جدید انسان نے مذہب کی زنجیروں سے نکل کر سائنس وٹیکنالوجی کے مذہب کو اپنا لیا ہے‘ جس سے اس کا نکلنا اب محال ہے۔ پوسٹ ٹروتھ دور میں مطلقیت اور آفاقیت بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ انسانیت‘ بے معنویت‘ بے مقصدیت (Nihilism)‘ بے اطمینانی‘ بددلی اور بے زاری انسان کا مقدر بن گئے ہیں۔ امریکی فلسفی ایڈم کرش (Adam Kirsch) کی کتاب The Revolt Against Humanity: Imagining a Future Without Us کے مشمولات اس ضمن میں ازحد فکرانگیز اور چشم کشا ہیں۔
متذکرہ بالا کتاب حال ہی میں امریکہ کی اہم یونیورسٹی کولمبیا کی Columbia Global Reports سیریز میں اسی سال(۲۰۲۳ء میں) شائع ہوئی ہے۔ اس کا سرعنوان اور سب ٹائٹل دونوں ہی چونکا دینے والے ہیں: ’’انسانیت کے خلاف بغاوت اور ہمارے (یعنی انسان کے) بغیر مستقبل کی دنیا کا تصور۔‘‘ یورپ میں سترھویں صدی سے شروع ہونے والی تحریکوں نے قرون وسطیٰ کے افکار کو چیلنج کرتے ہوئے انسان کو مطالعات اور سوچ بچار میں مرکزی مقام دلایا‘ یہاں تک کہ ایک پوری فکری تحریک کو ہیومن ازم کہا گیا جس میں انسان کو خدا کی جگہ لا بٹھایا گیا۔ علوم کی نشاۃ ثانیہ‘ تحریک تنویر‘ مذہبی ریفارمیشن اور فرد کی آزادی (Liberalism) کی تحریکیں اسی سلسلے کی کڑیوں کے طور پر سامنے آئیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سو سال کے دوران مغرب میں لبرل ازم اور ہیومن ازم کی تنقید میں کثیر تعداد میں مفکرین کی ایسی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سو ڈیڑھ سو سال میں کلائمکس پر پہنچ کر ہیومن ازم کا بخار اتر گیا اور اس کا bubble برسٹ ہو رہا ہے۔ اکیڈیمیا اور تعلیم یافتہ لوگ ایک گہرے sense of crisis کے اعصاب شکن تجربے سے گزر رہے ہیں۔زیرتبصرہ کتاب اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے کہ جب انسان آسمانی ہدایت‘ وحی کی روایت اور مذہبی تعلیمات سے منہ موڑ کر اپنے حواس و عقل سے سوچتا ہے (کتب تفسیر اور عقیدہ کی اصطلاح میں اھواء) تو وہ صرف تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے۔ اس میں ہم اہل اسلام کے لیے عبرت اور سبق آموزی کا بڑا سامان ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ الاعراف‘ آیت ۱۴۶ میں اﷲ تعالیٰ اس ضمن میں صاف اور واضح اصولی رہنمائی فراہم کرتے ہیں:
{سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِہَاج وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًاج وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًاط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِیْنَ (۱۴۶)}

’’میں پھیر دوں گا اپنی آیات سے ان لوگوں (کے رُخ) کو جو زمین میں نا حق تکبّر کرتے ہیں۔اور اگر وہ دیکھ بھی لیں ساری نشانیاں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔اور اگر وہ دیکھ بھی لیں ہدایت کا راستہ تب بھی اس راستے کو اختیار نہیں کریں گے۔ اور اگر وہ دیکھیں برائی کا راستہ تواسے وہ (فوراً) اختیار کر لیں گے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایااور ان سے تغافل برتتے رہے۔‘‘
کتاب میں مصنف نے عصری فکر کی وہ نہج جس میں انسان کے بارے میں کلاسیکل اور دینی لٹریچر میں عظمت‘ کائنات کا گل سرسبد اور خلیفۃ ﷲ ہونے کا بیان ہے‘ کو ردّ کرتے ہوئے دو مخالف اور extreme نقطہ ہائے نظر بیان کیے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے نہایت محنت اور وسعت نظر کے ساتھ دونوں جانب کے مغربی مفکرین اور اہل قلم حضرات و خواتین کے افکار اختصار کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو نہ صرف اپنے خبط ِعظمت اور غرہ سے نکالا جائے بلکہ اس کو عالمی منظر (scenario) سے بالکل غائب ہی کر دیا جائے تو یہ باقی موجودات کے لیے بہتر ہو گا۔ فرانسیسی دانش وَر مثل فوکو کا خیال تو یہاں تک ہے کہ انسان ڈیڑھ دو سو سال میں صفحہ ہستی سے غائب (erase) ہو جائے گا۔ان مفکرین کا خیال ہے کہ انسان نے گزشتہ تاریخی ادوار میں نیچر اور sub-human مخلوقات کے ساتھ انتہائی منفی رویہ اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب اس کا یہاں سے غائب اور ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔ اسے یہ حضرات اینتھروپوسین اینٹی ہیومن ازم (Anthropocene Anti-humanism) کا نام دیتے ہیں۔(مغربی ریسرچرز کے مطابق بنی نوع انسان بڑے پیمانے پر نباتاتی اور حیوانی انواع کے خاتمے‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کا ذمہ دار اور مجرم ہے۔ چنانچہ ’’انسانیت‘‘ ہی کے تصور اور تعین کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ ہمیں ’’انسان‘‘ کے اس پورے تصور کو تج دینا ہو گا جو تمام مبنی بر وحی ادیان اور عرفانی لٹریچر میں مذکور ہے۔ یاللعجب!) اس کی عملی سٹریٹیجی کے ضمن میں اس پوری سوچ سے اتفاق رکھنے والے لوگ دو ماڈلز بیان کرتے ہیں‘ اور دونوں ہی انتہائی مضحکہ خیز اور بودے ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ حضرت انسان سماج‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور تمدن کے معاملات میں پیچھے سے پیچھے چلا جائے حتیٰ کہ فطرت اور حیوانوں کی سطح پر آ جائے۔ یعنی ہر اعتبار سے ماضی کی طرف رجوع یعنی primitivism اور تہذیب یافتہ ’’انسانیت‘‘ کو مکمل طور پر ختم (undo) کرنے کی حکمت ِعملی۔ دوسری صورت ٹرانس/ پوسٹ ہیومن ازم کی ہے جس کے مطابق جدیدترین ٹیکنالوجی GNR یعنی Genetic, Nano-technology and Robotics کے ذریعے انسان بائیولوجی کو transcend کر کے موت کو شکست دے دے گا اور جسم سے بھی آرٹیفشل intelligence کی مدد سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔ مذکورہ ہر دو صورتوں میں جدید انسان reconfigure ہوکر لافانی ہو جائے گا‘ اور یہ ٹرانس ہیومن فیز ہو گا۔ جگہ کی تنگی کے باعث راقم نے اس تخیلاتی گردوں کی ہلکی سی جھلک تحریر کی ہے۔ قارئین اس کی دلچسپ تفصیلات اور گہرا علمی تجزیہ و تبصرہ قرآن اکیڈمی کے استاذ اور سکالر ڈاکٹر رشید ارشد سلمہ کی گھنٹے گھنٹے کی دو ویڈیوز میں سن سکتے ہیں۔
Book Talk by Dr. Rasheed Arshad/ The Revolt Against Humanity by Adam) Kirsch.https://www.youtube.com/live/3uAoVRRR1fo?feature=share
https://www.youtube.com/live/rc2UOmwdxVE?feature=share)

سطورِبالا میںراقم نے مغرب کی جاہلیت ِجدیدہ کی کچھ جھلکیاں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ امت ِمسلمہ کے کثیر دانش وَر بھی مغرب کے تہذیب و افکار سے متاثر ہو کر آسمانی ہدایت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ تمدن‘ اجتماعِ انسانیت اور لیڈرشپ کے بارے میں قرآن و سُنّت سے ملنے والی روشن ہدایت کے مقابلے میں وہ جان لاک‘ ہابز‘ روسو اور دوسرے غیرمسلم اور سیکولر لبرل مفکرین کے خیالات کو فخر کے ساتھ اپنا رہے ہیں۔ یوں سیکولرائزیشن کا عمل تیزی سے عالمی سطح پر اپنے قدم جما رہا ہے۔ اعلانیہ مسلم اکثریتی ریاستوں (confessional Muslim states) کا سیاسی سٹرکچر اور داخلی حکومتی نظام پورے طور پر مغربی لادینی جمہوری اصولوں کے تحت اور سودی معیشت پر مبنی ہے‘ تاہم کم از کم اہل سُنّت کے منبر و محراب سے قرآن و سُنّت کی بے آمیز اصولی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں‘ اور دین کو اصالت و صلابت (قرآن و سُنّت اور ورثہ سلف سے تمسک وکلیت) کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
راقم عالم اسلام اور ملت اسلامیہ پر کفر و الحاد کے سیلاب بلاخیز کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک پچاس (۵۰)صفحات پر مبنی ایک بہت ہی دھماکا خیز تحریر واٹس ایپ پر پی ڈی ایف شکل میں ملی‘ جس کا عنوان ہے:
Reclaim Political Islam from the Islamists to Raise Moderate Muslim Voices
یہ تحریر Tony Blair Institute for Global Change نے جون ۲۰۲۳ء میں جاری کی ہے۔ ٹائٹل پر مصنّفین کے دو نام اسامہ حسن اور میتھیو گوڈون دیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر اسامہ حسن راقم کے دوست و استاذ ڈاکٹر مولانا صہیب حسن صاحب کے صاحب زادے ہیں‘ جن کا مضمون بھی قارئین حکمت قرآن کے زیرنظر شمارے میں پڑھیں گے۔
اسامہ حسن کی پیدائش اور پھر ساری تعلیم انگلینڈ میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم ڈاکٹریٹ لیول تک انہوں نے لندن کے امپیریل کالج اور کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ حافظ قرآن ہیں اور مساجد میں خطابِ جمعہ اور امامت کرتے رہے ہیںـ۔ البتہ ٹونی بلیئر (سابق وزیراعظم برطانیہ) کے ادارے میں راہ و رسم کے بعد جو تحولِ عظیم ان کے افکار میں آیا ہے‘ وہ انتہائی حیران کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ مذکورہ تحریر میں وہ پورے طور پر ’’فضائے مغرب‘‘ گزیدہ نظر آتے ہیں۔ موڈریٹ مسلم نقطہ نظر کو اپنانے میں انہوں نے اسلام کے چودہ سو سالوں کے دوران شان دار علمی و فکری کام (جو ہمارے مشاہیر اسلاف نے بہت محنت اور انتہائی گہری اور عمیق نظر کے ساتھ کیا) کو قرون وسطیٰ کا فرسودہ اور گھساپٹا (outdated) فکر کہہ کر ردّ کر دیا ہے۔ پھر یہ کہ دین کی بنیادی اصطلاحات مانند خلافت‘ شریعت اور جہاد کو بالکل سیکولر اور compromised انداز میں redefine کیا ہے‘ جو ایک روایتی عقیدے پر کھڑے مسلمان کے لیےقابل قبول نہیں ہو گا۔
میں یہاں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے مدیر ’’ایقاظ‘‘ جناب حامد کمال الدین کے اس خیال کا ذکر کروں گا جو میرے اندازے میں عصر حاضر کی گلوبل صورت حال کی صحیح عکاسی کرتا ہے: ’’ہمارے اس دَور میں تہذیبوں اور ملتوں کے فرق تیزی کے ساتھ مٹ رہے ہیں‘ اور ایک یک رنگی انسانیت پراسس میں ہے۔‘‘ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ آسمانی ہدایت کو ماننے والے شخص کے لیے یہ قطعاً ممکن نہیں ہے کہ وہ اہل ایمان اور اہل کفر و الحاد کے درمیان binary (فرق و تفاوت) کو کسی طور پر بھی ختم کر سکے۔
جناب حامد کمال الدین نے موجودہ سیاسی و عمرانی مسائل کے ضمن میں امام ابن تیمیہؒ کے مجموع الفتاویٰ میں سے خلافت و ملوکیت سے متعلق فصول کا بہت گہرا مطالعہ اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ اردو ترجمہ کیا ہے۔ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں عرض مترجم کے تحت انہوں نے دقت ِنظر سے بعض اہم اور قیمتی افکار پیش کیے ہیں‘ جو قارئین کے نظر و مطالعہ کے لیے من و عن نقل کیے جا رہے ہیں۔ میری دانست میں انہوں نے گلوبلائزیشن اور اس کے dynamics کی صحیح نباضی کرتے ہوئے تحریک اسلامی اور احیائے ملت کے کارکنوں کو بہت سنجیدہ اور وقیع رہنمائی دی ہے۔ وہ ایک خلاق ذہن کے ساتھ genuine inspirer ہیں‘ اور محض cultist نہیں ہیں:
’’ان فصول میں ہماری دلچسپی کی ایک خاص وجہ: ابن تیمیہؒ کے یہ مقالات اسلام کے تصورِ اجتماع کو ایک اعلیٰ ضبط دینے میں مفید ہیں۔ ہماری دانست میں اصحابِ نظر اس سے ایک ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ کی بنیاد پا سکتے ہیں۔ ’’اجتماع‘‘ کے وہ تصورات جنہیں الحاد پر کھڑی ایک تہذیب نے اپنی تعلیم و تحقیق کی heavy industry کے ذریعے آج ’’بدیہات‘‘ کا رنگ دے ڈالا ہے‘ دورِ آخر کا ایک واقعہ ہیں‘ جس سے ماضی میں ہمیں واسطہ نہیں پڑا؛ پس یہ تو ممکن نہیں کہ ان (ہیومن اسٹ) ’’بدیہات‘‘ کے بطلان پر متقدمین سے کوئی باقاعدہ مواد لائیں۔ یہ کام تو ان معاصر عقول کے سر رہا جنہیں ’’سُنّت و جماعت‘‘ کے اوزاروں پر دسترس ہو۔ ابن تیمیہؒ کے یہاں‘ بس بعض جگہوں پر ہمیں کچھ touch ملتے ہیں جو اس کام کو ایک گونہ آسان کریں۔ کتاب کا یہی پہلو ہمیں سب سے اہم لگا۔ لہٰذا ترجمہ کے علاوہ کچھ کاوش ہم نے اسی حوالہ سے کی:
(۱) ہیومن اسٹ تصورات کے بطلان پر جہاں جہاں ابن تیمیہؒ کے کلام میں ہمیں کچھ ٹچ ملے‘ حاشیوں میں ہم نے اس کی تھوڑی نشان دہی کر دی۔
(۲) البتہ ایسے مقامات جو کسی قدرکھولنا ضروری تھے‘ یا کچھ مباحث جن پر ان مقامات کا کھلنا منحصر تھا‘ وہاں ہم نے ’’تعلیقات‘‘ کا سہارا لیا‘ جو ایک علیحدہ کتاب میں شائع ہوں گی‘ ان شاء اﷲ‘ بعنوان ’’مملکت ِ اسلام بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘ خلافت‘ ملوکیت مؤلفہ ابن تیمیہؒ کی روشنی میں۔‘‘
نوواردات کے حوالہ سے: آج عالم اسلام کے اندر ہمیں دو مسائل کا بیک وقت سامنا ہے:
(۱) ایک وہ مسلمان جو ہیومن ازم کے گھاٹ سے پی پی کر اسلام کی دریافت ِنو (rediscovering Islam) کی مشق فرماتے آ رہے ہیں۔ یہ درجہ بدرجہ کئی طبقے ہیں۔حاشیوں اور تعلیقات میں ہماری زیادہ توجہ انہی کی طرف رہی‘ کیونکہ یہ اسلام کے مسخ ہی کا آلہ ٔ کار بنے جاتے ہیں جبکہ اس وقت کا سب سے بڑا محاذ ہماری نظر میں اسلام کو خالص رکھنا ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں کہ یہ ’’ری فارمسٹ روش‘‘ دی گئی صورت حال میں مسلمانوں کو ایک حل نکال کر دینے کی کوشش ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ’’اسلام کی تفسیرنو‘‘ کا ایک بھیانک عمل ہے‘ جس کے لیے ان کا استیحاء (inspiration) جدید تصورِ اجتماع سے ہو رہا ہے۔ جب بھی یہ اپنے تئیں پہلے کام کی طرف بڑھے گی (مسلمانوں کو اندریں حالات ایک راہ بنا کر دینا)‘ لامحالہ دوسرا کام کر آئے گی (اسلام ہی کا ایک نیا ورژن نکالنا)۔ اس لیے کہ کچھ ہیومنسٹ مسلمات جو اسلام کے ساتھ اس کے صمیم (core) میں ہی متعارض ہیں‘ یہاں اذہان کی تہ میں اتر کر‘ دلوں میں کھُب گئے ہوئے ہیں (اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ)۔ نتیجتاً ایک ’’دی گئی صورتِ حال‘‘ میں اسلام کو راہ بنا کر دینا ان کا مسئلہ نہیں رہا‘ اگرچہ یہ کسی وقت ایسا سمجھ رہے ہوں گے‘ بلکہ مسئلہ ہو گیا ہے الحاد کی کوکھ سے برآمد ہونے والے ایک جہانی عمل کو ’’اسلام‘‘ میں راہ بنا کر دینا۔ اس طبقے کا ہر ذہن اور ہرshade دانستہ یا نادانستہ‘ تھوڑی دیر میں عالم اسلام کے اندر ہمارے دشمن کیمپ ہی کا ہراول ہو کر رہے گا۔ لہٰذا اس سے ہوشیار رہنا ہماری اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت!
(۲) دوسرا‘ ہمارے اسلامی تراث سے وابستہ طبقوں میں پایا جانے والا وہ ایک جامد یا آئیڈیالسٹ عنصر جو کچھ اصول و قواعد کو لاگو کرنے میں زمانے اور احوال کے فرق کو قطعی غیرمتعلقہ جانتا ہے۔ تراث سے ملنے والے یہ اصول و قواعد جو بے شک حق ہیں‘ البتہ ایک الجھی صورتِ حال کے اندر جہاں حسنات و سیئات خلط ہوں‘ یا جہاں حق کے ان بہت سے ابواب کو قائم رکھنے کے لیے درکار ’’قدرت‘‘ مفقود ہو۔ اپنے اسلامی تراث سے ملنے والے یہ اصول و قواعد وہاں کتنے مختلف طریقوں سے لاگو ہوں گے اور وہاں ہمیں اسلام کے کس مطلوب کو کس مطلوب کی قیمت پر حاصل کرکے رہنا ہو گا‘ یہ سب مباحث ان حضرات کے کوچے میں داخلہ نہیں پاتے۔ نتیجتاً ’’الجماعہ‘‘ کے سب یا اکثر زریں مطالب ان کے یہاں ’’زورِ بیان‘‘ یا ’’امید و آرزو‘‘ (رومانس) کی چیز بن رہتے ہیں (جس کا ایک کلائمکس ’’انتظارِ مہدی‘‘ ہے)؛ جبکہ یہ نرے عزلت نشین‘ زندگی کی دوڑ سے باہر بلکہ زندگی کی روانی کے آگے بند باندھنے والے۔ اس (آئیڈیلسٹ) کے رُخ پر جانے والا ایک طبقہ ماضی کے محاکمہ کی طرف بڑھتا ہے اور نبیﷺ کی رحلت کے تیس سال بعد اسلام کا سیاسی وجود کرۂ ارض پر ختم ٹھہراتا یا اس پر کچھ سنگین سوالات اٹھاتا ہے‘ جبکہ اس (آئیڈیلسٹ) رُخ پر جانے والا ایک دوسرا طبقہ حال کی طرف متوجہ ہوتا ہے جہاں مسلمانوں کے بہت پیچھے رہ جانے (نیز استعمار کا مفتوح ہو جانے) کے نتیجے میں زندگی کے اکثر ندی نالے سرے سے کفار کے رُخ پر بہنے لگتے ہیں؛ اور جنہیں پھر سے اسلام کے رُخ پر بہانے کے لیے شاید صدیوں کی جہد اور صبر درکار ہو اور بیچ کا یہ عرصہ (خالص اسلام پر اصولی و اعتقادی طور پر جمے رہ کر) عمل کے میدان میں ’’مصالح اور مفاسد‘‘ کے ایک ہر دَم بدلتے موازنہ کی بنیاد پر راستہ بناتے چلے جانے کی ضرورت.... تو یہاں یہ (آئیڈیلسٹ) ذہن زمانے کو اپنے انہی زریں اصول و قواعد کی بنیاد پر بدل جانے کا ’’نوٹس‘‘ دیتا.... اور تاوقتیکہ زمانہ اس کی شرطوں پر نہیں آتا‘ یہ یہاں کے اجتماعی/ سیاسی عمل میں اسلام اور مسلمان کا کوئی کردار نہیں دیکھتا۔ نتیجہ: اہل عزلت‘ منفیت‘ یاسیت‘ سردمہری اور بے دلی۔ یا پھر ایک بھڑکیلی جذباتیت‘ کہ اس سے بھی بڑی فرسٹریشن کا پیش خیمہ۔ جبکہ اسلام کے اجتماعی مطالب‘ جن سے امت ایک دن لاتعلق نہیں رہ سکتی‘ ایک ’’غیرمعینہ‘‘ مدت تک معطل! اس جامد یا آئیڈیلسٹ ذہن کے لیے بھی ابن تیمیہؒ کے ان مقالات میں بہت کچھ آیا ہے‘ جس پر ہم اپنے حاشیوں یا تعلیقات میںکچھ نشان دہی کریں گے۔ یہ ہر دو پہلو نظر میں رہیں تو یہ کتاب ہمیں دو متحارب تباہ کن راہوں سے بچ نکلنے کے لیے ایک محفوظ متوازن سمت دیتی ہے۔‘‘
یہاں ڈاکٹر اسامہ حسن کا موازنہ انگلستان ہی میں پلے بڑھے‘ پاکستان سے ۱۹۶۰ء کے اوائل میں بریڈفورڈ نقل مکانی کرنے والے بس ڈرائیور کے صاحب زادے ڈاکٹر شبیر اختر سے چشم کشا ہو گا۔ ان کا گزشتہ ماہ (۲۵ جولائی کو) صرف ۶۳ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ! ان کی متعدد تصنیفات میں سے کم از کم دو نے اکیڈیمیا میں اسلام کی پولیٹکل اور empowered religion کی حیثیت سے دھاک بٹھائی ہے:
٭ پہلی کتاب۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی‘ بعنوان The Quran & The Secular Mind
٭ دوسری۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی: Islam as Political Religion: The Future of an Imperial Faith
یہ دونوں کتابیں خاصی ضخیم اور انتہائی علمی زبان میں کثیرالجہتی ٹھوس مواد لیے ہوئے ہیں۔ مصنف عبرانی اور کئی دوسری کلاسیکل زبانوں بشمول عربی سے واقفیت کے ساتھ ان میں چھپے ہوئے لٹریچر پر عبور اور ان کے مکمل ریفرنس دینے پر قادر تھے۔ انگلستان کی اعلیٰ تعلیم گاہوں کے لبرل‘ ہیومن اسٹ اور ملحدانہ ماحول اور بریڈفورڈ اور لندن کے بہت معمولی اور پس ماندہ ghettos میں بودوباش کے باوجود ڈاکٹر شبیر اختر نے نہ صرف مغربی فلسفہ اور سماجی علوم میں گہری بصیرت اور ناقدانہ نظر حاصل کی بلکہ اسلامی علوم اور معارف کا وسیع اور عمیق مطالعہ کر کے ’’اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر‘‘ پر پختہ یقین و ایقان کا حصول کیا جو ان کی طبع شدہ تصنیفات میں بولتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں کتابیں کسی معمولی پبلشر نے نہیں بلکہ انگلینڈ‘ کینیڈا اور امریکہ میں شاخیں رکھنے والے عالمی سطح کے معروف اور بڑے پبلشر Routledge نے شائع کی ہیں۔ اہل علم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بڑے پبلشر کسی بھی کتاب کو peer reviews کے سخت اور طویل مرحلے سے گزارنے کے بعد ہی اسے قابل اشاعت قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شبیر اختر نے اسلام کو امپیریل فیتھ کسی جبر اور استحصال اور مبنی بر شرک و الحاد کے نظام کے عالمی غلبے اور قتل و غارت کے معنی میں نہیں لیا‘ بلکہ دین حق کے نظریہ توحید‘ عبادتِ رب اور اُخروی فوز و فلاح کے پیغام کو پوری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے اور انہیں ایک الٰہ واحد کے آگے جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کے جہاد کے مفہوم میں لیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ٹھیٹ قرآنی اور ختم نبوت کے بعد ہم اُمتیوں پر عائد فرائض کے عین مطابق ہے۔ راقم کا حسن ظن ہے کہ اگر ڈاکٹر اسامہ حسن نے ان دو کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہوتا تو وہ ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ کے تحت stateless domesticated Islam کے پیش کنندہ بننے سے بچ جاتے!
اس تحریر کا عنوان بننے والے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی لائق توجہ ہے: ع ’’کشتہ افرنگیاں بے حرب و ضرب۔‘‘ راقم نے یہ شعر علامہ اقبالؒ کی آخری فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ سے منتخب کیا ہے‘ جس کا اردو میں منظوم ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس طرح کیا ہے: ؎
ہم سب پر حاوی ہے تہذیب مغرب کا سحر
بے ضرب و حرب ہیں افرنگی کے آگے ڈھیر
اس تحریر سے کسی کی تحقیر مقصود نہیں بلکہ احقاقِ حق اور دینی حمیت کی خاطر یہ چند سطور رقم ہوئیں۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین!