تذکرہ مرکزی انجمن خدّام القرآنڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن
میں اپنی تحریر کا آغاز اس خیر سے کرنا چاہتا ہوں کہ جو خاصہ خاصانِ رُسل کی تعلیمات کا نچوڑ ہے‘ اُس دین کاجو ’’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ‘‘ کہہ کر خیر کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیتا ہے‘اس اُمت کا جو خیر الامم قرار دی گئی ہے:{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} اور انفرادی سطح پر اس وصف کا جو ایک شخص کو ’’خَیْرُکُمْ‘‘ کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے‘ اور وہ ہے :
((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ))
’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھتا اور سکھاتا ہے۔‘‘
آیئے تو پھر ایسے ہی خیر عظیم کے حامل ایک شخص کا تذکرہ ہو جائے۔ یہ تذکرہ ہے ایک خادم قرآن کا‘ عاشق الفرقان کا اور داعی الی اللہ بالحجۃ والبرھان کا۔ ابتدا کرتا ہوں اپنے اس اولین تعارف کا جو اس ہستی بے بدل سے حاصل ہوا۔ میں اپنی عمر کے بیسویں سال میں قدم رکھ چکا تھا کہ والد محترم‘ استاذی و شیخی‘ مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ کی طرف سے ہدایت ملی کہ میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کا قصد کروں‘ ابا جان کے ہر اول دستے کے طور پر کہ وہ چند ماہ میں وہاں منتقل ہونے کا عزم کر چکے تھے تاکہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے مجوزہ قرآن ہوسٹل میں مقیم طلبہ کو زبانِ عربی اور علومِ اسلامیہ کا رمز شناس بنا سکوں۔ یہ میرا اُن کے ساتھ پہلا تعارف تھا اور ان کے ساتھ برادرم ابصار (کہ اُس وقت ان کے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ نہ تھا) اور برادرم وقار سے بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اس عالم میں دیکھا کہ مطب سے فارغ ہونے کے بعد ان کا اوڑھنا بچھونا‘ ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے قرآن کی سماعت‘ درسِ قرآن کا اہتمام اور جب موقع ملے تو مساجد میں خطبہ جمعہ کے توسط سے قرآن کے رموز و اسرار بلکہ قرآن کی بھرپوردعوت کا ابلاغ تھا۔
ان کی تقاریر میں فصاحت لسانی‘ افکار و خیالات کی روانی‘ قرآنی آیات کا استحضار‘ اشعار کا برمحل استعمال اور پھر آواز کی گھن گرج‘ لہجے کا زیروبم ایک سامع کومسحور کرنے کے لیے کافی رہتا تھا۔ غالباً تین ماہ کے قیام کے بعد مَیں طلب علم کے لیے سوئے مدینہ روانہ ہو گیا اور پھر چار سال کے بعد (یعنی ۱۹۶۶ء میں) فراغت ہوئی تو قضا و قدر کے فیصلے درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے عنوان سے مجھے پہلے مشرقی افریقہ اور پھر جزائر انگلستان کی راہ دکھاتے گئے۔
اس دوران تعطیلات میں والدین سے ملاقات کے لیے مدینہ منورہ آتا جاتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک تفصیلی ملاقات مدینہ منورہ ہی میں ہوئی جب وہ وہاں غالباً ایک ماہ ایک پُرسکون ماحول میں اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں سوچ بچار کرنا چاہ رہے تھے۔ اپنے اس مختصر قیام میں میرے لیے ریاض جانا بھی ضروری تھا۔ ڈاکٹر صاحب بھی میرے ہم رکاب رہے اور یوں اس سفر میں باہمی مکالمہ بھی رہا۔ ان کی زندگی کے نشیب و فراز جاننے کا موقع ملا اور دعوتِ دین کے بارے میں ان کی مساعی‘ ان کی جدّوجُہد اور ان کے آئندہ پروگرام کا عندیہ بھی ملا۔ ڈاکٹر صاحب کی مختصر کتاب ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ میرے ہاتھ لگی۔ پڑھی تو دل و دماغ پر چھا گئی اور اسے عربی کے قالب میں ڈھالنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ چنانچہ پہلے تو اس کا ترجمہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے آرگن ’’البعث الاسلامی‘‘ میں بالاقساط شائع ہوتا رہا اور پھر کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔ غالباً یہی وہ زمانہ تھا کہ جب ڈاکٹر صاحب نے ’’انجمن خدام القرآن‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ گویا انہوں نے اپنے مجوزہ پروگرام کی ’’خشت اول‘‘ کھڑی کر دی تھی۔
وہ پودا جو انہوں نے پچاس سال قبل سرزمین لاہور میں لگایا تھا‘ آج ایک ثمر بار شجر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ جس کے برگ و بار میثاق‘ حکمت قرآن اور پھر ندائے خلافت کی شکل میں پھریرے لہراتے نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ طبیب کی حیثیت سے مسیحا کے روپ میں نظر آئے اور جب قبائے طبابت اُتار پھینکی اور رِدائے خلافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو پھر صرف قرآن کے ہو کر رہ گئے۔وہ عربی زبان کے کوئی سکہ بند طالب علم نہ تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اس سے اتنا تعارف حاصل کر لیا تھا کہ وہ اپنے دروس و محاضرات میں قرآنی الفاظ اور محاورات کی کہیں لُغوی تحقیق اور کہیں ان میں پنہاں معانی کو آشکار کرتے نظر آتے ہیں۔ایک جگہ انہوں نے یہ تحریر کیا ہے کہ قرآن کے بعض الفاظ بظاہر مترادف(synonyms) دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے معانی میں ایک دَقیق فرق ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جس کا تعلق اعجازِ قرآن سے ہے۔
اس ضمن میں قرآن کے تعلق سے ایک معاصر عراقی عالم لغت کا تذکرہ کرتا چلوں کہ الفاظ قرآن کے معانی و مطالب کو جس طریقہ سے وہ واضح کرتے رہے ہیں وہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے خوشہ چین طلبہ اور اہل علم کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔یہ ہیں ڈاکٹر فاضل صالح السامرائی جو اپنے سراپا میں علامہ اقبال کی طرح بے ریش ہیں لیکن انہی کی طرح قرآن کا ذوق و شوق رکھتے ہیں ۔اس بحر کی جو غواصی انہوں نے کی ہے وہ عربی دان حضرات اور شائقین علوم قرآنی کے لیے ایک انمول سرمایہ ہے۔
بطورِ نمونہ چند الفاظ کا تذکرہ کرتا ہوں جن کے معانی و مطالب بلکہ لغوی تحقیق پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے خامہ فرسائی کی ہے اور مَیں اس کا ربط ڈاکٹر فاضل صالح السامرائی کے اٹھائے ہوئے جواہر و دُرَر سے کرنا چاہتا ہوں کہ جس سے قرآن کے لغوی اعجاز کا ایک انمول پہلو ہمارے سامنے واشگاف ہوتا نظر آتا ہے۔
(۱) قرآن میں اخوت کے بیان کے لیے دو لفظ آئے ہیں : إخوۃ اور إخوان
اردو یا انگریزی میں دونوں کو مترادف ہی سمجھا جائے گا‘لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’إخوۃ‘‘ (جمع أخ) سگے برادران یا ایک باپ کی اولاد کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت۱۱ میں جہاں وارثین کے حصص بیان ہوئے ہیں وہاں بھائیوں کے لیے ’’إخوۃ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے ۔ایسے ہی سورئہ یوسف میں {لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰیٰتٌ لِّلسَّاۗئِلِیْنَ(۷)} کہہ کر برادرانِ یوسف کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے کہ جو ایک باپ (سیدنا یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد تھے۔اس کے بالمقابل لفظ ’’إخوان‘‘ سگے بھائیوں کے علاوہ اس بھائی چارے کے اظہار کے لیے بھی لایا گیا ہے جو اہل ایمان کے مابین پایا جاتا ہے‘جیسے ارشاد ہوا: {فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًاج}(آل عمران:۱۰۳) یا ایک قوم کا فرد ہونے کی حیثیت سے ‘جیسے سورئہ ق میں قومِ لوط کی جگہ ’’اِخْوَانُ لُوْطٍ‘‘ کا ذکر کیا گیا۔ سورۃ الحجرات میں جو { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ} (آیت۱۰) کہا گیا تو دراصل اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سگے بھائیوں کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں‘ اس لیے مؤمنین کے ساتھ ’’اِخْوَۃ‘‘ کا لفظ لایا گیا۔
(۲) وصیت کے لیے قرآن میں دو لفظ آئے ہیں: اَوْصٰی اور وَصَّی
بظاہر دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے لیکن قرآن میں جہاں یہ الفاظ آئے ہیں وہاں سیاق و سباق کی روشنی میں ان دونوں میں ایک دقیق فرق پایا جاتا ہے۔ اَوْصٰی اور اس کا مضارع یُوْصِی جہاں بھی آیا ہے وہاں اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح مالی معاملات سے ہے۔ سورۃالنساء کی آیت ۱۱ کا آغاز یوں ہوتا ہے :{یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق} یہاں ایک میت کے ورثہ کے حصص کا بیان ہو رہا ہے جس کا تعلق مال سے ہے ۔ وصیت کے علاوہ ’’یُوْصِیْ‘‘ کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ پانچ دفعہ دہرایا گیا ہے۔اس کے بالمقابل جہاں بھی ’’وصّٰی‘‘ (باب تفعیل)کے ساتھ آیا ہے وہاں اس کے بعد اس وصیت کا بیان ہے جس کا تعلق دین سے یا کسی دینی امر سے ہے‘ چاہے وہ موت سے پہلے ہو یا عمومی طو رپر ایک اچھی بات کی نصیحت ہو۔ جیسے ارشاد فرمایا:
{وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ ط یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۳۲)} (البقرۃ)
’’اور اس بات کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور ایسے ہی یعقوب نے بھی۔ کہا کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً تمہارےلیے دین (اسلام) کو چُن لیا ہے‘ تو تمہیں موت نہ آئے مگر اسلام کی حالت میں۔‘‘
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے لیے بھی یہی الفاظ کہے گئے:
{ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ۚ} (لقمٰن:۱۴)
دین کو تھام لینے ‘اسے قائم کرنے اور تفرقہ بازی نہ کرنے کی ہدایت چند اولوالعزم انبیاء کرام علیہم السلام کو نام لے کر کی گئی اور وہ بھی اسی لفظ ’’وَصّٰی‘‘ کے ساتھ ۔ فرمایا:
{شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۭ} (الشوریٰ:۱۳)
’’(اللہ نے) تمہارے لیے وہی دین قرار دیا ہے جس کی وصیت نوح کو کی تھی اور جس کی وحی آپ کو کی گئی اور جس کی وصیت ہم نے ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ کو کی تھی کہ دین کو قائم کرنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا‘‘
اب یہاں یہ اعتراض وارد ہوسکتا ہے کہ سورئہ مریم میں بزبانِ عیسیٰ ؑ یہ کہلوایا گیا ہے:
{قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ ڜ اٰتٰىنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا (۳۰) وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ ۠ وَاَوْصٰىنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا(۳۱)}
’’اُس نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اُس نے مجھے کتاب عطا کی‘ مجھے نبی بنایا ۔اور مجھے جہاں کہیں بھی ہوں باعث برکت بنایا ‘اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز کا اور زکوٰۃ اداکرتے رہنے کی وصیت کی۔‘‘
اعتراض یہ ہے کہ یہاں ایک دینی امر کی طرف بھی بلفظ ’’اَوْصٰی‘‘ اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہاں ایک مالی عبادت (زکوٰۃ ) کا بھی ذکر ہے تو اس کی مناسبت سے لفظ ’’اوصٰی‘‘ کا لایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
(۳) وصیت کے اسی تعلق سے ایک اور بات سامنے آئی کہ قرآن کی تین آیات میں بلفظ ’’وَصّٰی‘‘ اولاد کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی گئی‘ جیسے :
{ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط} (العنکبوت:۸)
{ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج} (لقمٰن:۱۴)
{ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًاط} (الاحقاف:۱۵)
اور تین دوسری آیات میں بغیر لفظ ’’وَصّٰی‘‘ کے اسی تعلیم کو دہرایا گیا ہے ‘جیسے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط} (الاسراء:۲۳)
{وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا} (النساء:۳۶)
{قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚ} (الانعام:۱۵۱)
البتہ والدین کو اولاد کے لیے وصیت کا حکم صرف ایک ہی آیت میں دیا گیا ہےاور وہ ہے سورۃ النساء کی آیت۱۱ جو وراثت سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا آغاز ہوتا ہے ان الفاظ سے :{یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق}۔ اس فرق کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ والد تو خود اپنی اولاد کی پرورش اور نگہداشت کرتا ہے لہٰذا اسے کسی خصوصی توجہ دلانے کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن جہاں تک اولاد کا تعلق ہے تو انہیں اس امر کی طرف توجہ دلانے کی اشد ضرورت تھی کہ وہ اس وقت اپنے والدین کی خدمت بجالانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں جب وہ حاجت مند اور بے آسرا ہوں‘ کبرسنی اور دوسرے عوارض کی بنا پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں‘ نہ یہ کہ وہ ان کی حیات ہی میں باپ کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے خودوالدین پر عرصۂ حیات تنگ کرنے پر تُلے ہوئے ہوں۔
(۴) قرآن کی چار آیات میں موت کے ذکر سے پہلے ’’حضر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے:
{اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ} (البقرۃ:۱۳۳)
{کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ} (البقرۃ:۱۸۰)
{حَتّیٰٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ} (النساء:۱۸)
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ} (المائدۃ:۱۰۶)
اور اس کے بالمقابل تین آیات میں ’’جَاءَ‘‘ اور ’’اَتٰی‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ جیسے :
{حَتّیٰٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ} (الانعام:۶۱)
{حَتّیٰٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ(۹۹)} (المؤمنون)
{وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ} (المنٰفقون:۱۰)
ان آیات کے مطالعے سے یہ نکات ظاہر ہوتے ہیں:
(i) جہاں جہاں حَضَرَ آیا ہے وہاں کسی دُنیوی معاملے کا ذکر ہے ‘جیسے وصیت کرنا یا توبہ کرنا‘ اور جہاں ’’جَآءَ‘‘ یا ’’اَتٰی‘‘ آیا ہے وہاں موت سے متعلق کسی امر کا ذکر ہے۔
(ii) ان تمام آیات میں ’’موت‘‘ ہی فاعل ہے لیکن موت کا لفظ بعد میں ہے اور جسے موت آ رہی ہے ‘ یعنی انسان اس کی ضمیر پہلے لائی گئی ہے۔ انسان چونکہ موت سے گھبراتا ہے اس لیے موت کے آنے کا ذکر کیا گیا نہ کہ انسان کا موت سے ہم آغوش ہونے کا ۔ جس چیز سے وہ گھبرا رہا ہے اس کا ذکر مؤخر کردیا گیا۔
(iii) انسان کی اس فطرتی خواہش کا خیال رکھا گیا کہ موت یا تو سرے سے نہ آئے‘ یا آئے تو تاخیر سے آئے‘ اس لیے موت کا ذکر ہمیشہ مؤخر ہی رکھا گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ انسان کے ذہن اور شعور میں موت کا تصور کسی دُور پرے کی چیز کا سا ہی ہوتا ہے۔
(۵) سورۃ الحدید کی آیت۲۰ : { اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ.....} میں جن پانچ مراتب کا ذکر کیا گیا ہے‘ ڈاکٹر اسرار احمد ؒنے انہیں ایک انسان کی زندگی کے پانچ مراحل سے جوڑ کر بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ‘جسے مَیں ان کے تفردات میں سے سمجھتا ہوں۔
دُنیوی زندگی کے عہد طفولت میں لَعِبٌ (کھیل کُود) کا ذکر ’’لَہْوٌ‘‘ (غافل کرنے والی اشیاء) سے قبل کیا گیا ہے اور ایسا ہی ان تین آیات میں بھی کیا گیا ہے:
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَعِبٌ وَّلَھْوٌط} (الانعام:۳۳)
{وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَّلَھْوًا} (الانعام:۷۰)
{اِنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌط} (محمد:۳۶)
لیکن دو آیات ایسی بھی ہیں جن میں ’’لہو‘‘ کو ’’لعب‘‘ سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ یعنی سورۃ الاعراف کی آیت۵۱: {الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَھْوًا وَّلَعِبًا} اور سورۃ العنکبوت کی آیت۶۴: {وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَھْوٌ وَّلَعِبٌ ط}۔ یہاں ڈاکٹر فاضل صالح السامرائی کی نکتہ رس طبیعت سے مدد ملتی ہے کہ ایسا کیوں ہے!وہ کہتے ہیں کہ جہاں لَعِب (کھیل کود) کا ذکر ہے تو عہد طفولیت میں کھیل کا غلبہ ہوتا ہے۔ برادران یوسف علیہ السلام نے بھی یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اپنے والد محترم کے سامنے یہی بہانہ تراشا تھا کہ {اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ} (یوسف:۱۲) ’’(اباجان!) اسے ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ کچھ مزے اڑا لے اور کچھ کھیل کود کر لے!‘‘ جہاں تک لہو (غفلت) کا معاملہ ہے تو وہ سن تکلیف (شریعت کے مکلّف ہونے کا زمانہ) کے بعد کا مرحلہ ہے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد فرمایا: {لَاھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ ط وَاَسَرُّوا النَّجْوَی ق}(آیت۳) ’’ان کے دل غافل ہو گئے اور وہ سرگوشیاں کرتے رہے۔‘‘یعنی یہ وہ مرحلہ ہے جو انسان کی زندگی میں عہد طفولیت کے بعد آتا ہے اور اکثر لوگوں کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک رہتا ہے۔
اب سورۃ الاعراف کی آیت ملاحظہ ہو جہاں ’’لَہْو‘‘ کا ذکر پہلے ہے ۔ یہاں مقام الاعراف پر اہل ایمان اور کفار کا محاورہ( ڈائیلاگ) دکھایا گیا ہے جہاں اہل ایمان کفار کے اس مطالبہ پر کہ ہمیں کچھ پانی پلا دو‘ کچھ کھاناکھلا دو‘ انہیں بتا رہے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں اللہ نے کفار پر حرام قرار دے دی ہیں جنہوں نے دین کو لہو اور لعب بنا لیا تھا‘ یعنی ان کے اس آخری عمل (لَہْو) کا تذکرہ پہلے کیا گیا کہ جس پر انہیں موت آئی تھی۔
سورۃ العنکبوت میں دُنیوی زندگی اور اُخروی زندگی کا تقابل بیان کیا گیا ہے۔دُنیوی زندگی کے لیے ’’حیاۃ‘‘ کا لفظ ہے اور اُخروی زندگی کے لیے الف اور نون کے اضافے کے ساتھ ’’لَھِیَ الْحَیَوَانُ‘‘ کے الفاظ لائے گئے ۔ عربی لغت کے مطابق زیادتِ الفاظ زیادت معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ چونکہ دُنیوی زندگی میں سن تکلیف کے بعد غفلت کے لمحات اور ساعات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ’’لَہو‘‘ کا ذکر پہلے لایا گیا۔
یہ مثالیں اس لیے عرض کی گئیں کہ قرآن کی جتنی بھی غواصی کی جائے اتنے ہی ہیرے اور موتی ملتے ہیں۔ ڈاکٹر فاضل صالح السامرائی کی ساری توجہ اعجازِ قرآن کے اس پہلو کی طرف رہی تو وہ اس فن کے امام ٹھہرے اور عالم عرب میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔’’لَمَساتِ بیانیہ‘‘ کے عنوان سے شارقہ ٹی وی پر ان کا سوال و جواب پر مشتمل پروگرام تمام عرب دنیا کے لیے کئی سالوں تک کشش کا باعث رہا۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس اعزاز سے نوازا کہ وہ قرآن کے داعیانہ پہلو کو اُجاگر کریں اور اس آیت {وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (۳۳)}(حٰم السجدۃ) کا مصداق ٹھہریں۔پھر قرآن ہی کی دعوت کی اساس پر ایک ایسی تنظیم کی آبیاری کریں جو اُن کے بعد بھی اس دعوت کا علَم اٹھائے ہوئے ہے۔جہاں انہوں نے مسلمانوں پر قرآن مجید کےحقوقِ خمسہ کی بات کی وہاں جہاد کے پانچ مراحل کی طرف بھی توجہ دلائی۔
آغازِ درس ہی میں انہوں نے قرآن حکیم میں سے ایک منتخب نصاب ترتیب دیا‘ اس رعایت سے کہ قرآن کی دعوت کی اساسات محور کلام بنیں اور سامعین و حاضرین کو اس نصاب کی تکمیل کے بعد آغازِ قرآن سے کتاب اللہ کی تفسیر و تشریح جاننے کا شوق پیدا ہو۔ پھر قرآن کی دعوت کو عام کرنے کے لیے انہوں نے لاہور ہی کیا سارے ملک کے طول و عرض میں دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس میں ان سے فیض یافتہ طلبہ نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ یہ دروس یوں تو سارے سال جاری رہتے لیکن رمضان کی راتوں میں تراویح کی مناسبت سے دو آتشہ ہوجاتے۔
ان کے دروس میں مضامین اور معانی کی جھڑی برستی رہتی۔ تکوینی آیات کے شرح و بسط میں جدید علوم اور سائنس کی مددسے وہ انہیں آسان اور قابل فہم بناتے نظر آتے۔ جہاں تاریخ جھانکتی نظر آتی اور خاص طو رپر جب بنی اسرائیل کا ذکر آتا تو وہ زمانے کی طنابیں کھینچتے نظر آتے۔ بہت سے دقیق اور مشکل فلسفیانہ موضوعات کو انہوں نے اپنی قوت استدلال سے ماءِ زلال بنا کر پیش کیا۔
پاکستان میں نظامِ اسلام کو جمہوریت کی قبا میں روشناس کرانے کے لیے کئی جماعتیں اٹھیں لیکن یہ اعزاز صرف ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو حاصل ہوا کہ انہوں نے خلافت یا رجوع الی الخلافت کی اصطلاح کو زبانِ زدِ عام کیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کا حادثہ جان کاہ ہوا ڈاکٹر صاحب نے یہاں بھی قرآن سے رہنمائی لی۔ سورئہ سبا میں ذکر کردہ دو باغوںکی تمثیل کا سہارا لیا جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے دو سرسبز و شاداب باغات قوم سبا کو عطا کیے گئے تھے ‘لیکن ان کی بداعمالیوں نے انہیں اس انجام تک پہنچایا کہ وہ دونوں ثمر بار باغات ببول‘ جھاڑیوں اور کانٹوں کا عنوان بن گئے۔
وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ جانتے تھے‘ ایسا قلعہ کہ جس میں نقب زنی کے لیے باہر سے اور ’’اندرونِ خانہ‘‘ جس شجرپر بسیرا تھا‘ اُس کی شاخیں کاٹنے والے موجود تھے۔ جہاد کے پانچ محاذوں کا ذکر پہلے آ چکا ہے‘ اور یہ قدرتی بات ہے کہ ہر محاذ کا دفاع ایک فرد یا ایک جماعت کے بس میں نہ تھا اور نہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآنی تعلیمات سے جہالت ‘ عوام الناس میں رائج بدعات و رسومات ‘سیاسی اکھاڑے میں فساد اور کرپشن کے خلاف محاذ سنبھالے رکھا ‘ اور ہر اُس شخص کو جو دین کا کچھ بھی پاس رکھتا ہے اپنی بساط‘ صلاحیتوں اور استعداد کی حد تک کوئی نہ کوئی محاذ سنبھالنے کی طرف توجہ دلائی۔ ان کے دروس اور ارشادات میں احادیث رسولﷺ نگینہ کی طرح جڑی نظر آتی ہیں۔انہوںنے امام نوویؒ کی ’’اربعین‘‘ کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کر کے اسلام کے دوسرے مصدر اساسی کو اپنے خطابات کا موضوع بنایا۔
آخر میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور نظریہ وحدت الوجود کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جو معاصر طلبہ اور علماء کے درمیان بڑی شدت سے بحث و تنقید کا موضوع رہی ہیں۔ میں نے یوٹیوب کی مدد سے ڈاکٹر صاحبؒ کی تفسیر سورۃ الحدید (پہلی چھ آیات) پر مشتمل دروس کو بڑے غور سے سنا ہے کہ جو انہوں نے ستمبر / اکتوبر ۱۹۸۷ء میں قرآن اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے دیے تھے۔
انہوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ابن عربی کے نظریہ وحد ت الوجود کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں گیا اور اسے نظریہ ’’ہمہ اوست‘‘ جو کہ ایک ہندو فلسفہ ہے ‘سے خلط ملط کر دیا گیا ہے جو کہ یقیناً کھلی گمراہی ہے۔ پھر انہوں نے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ ‘ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی تحریرات اور فرمودات کی روشنی میں نظریہ وحدت الشہود اور نظریہ توحید وجودی کو اُن کی پیش کردہ تمثیلات کے ذریعہ واضح کیا ہے۔
مجدد سرہندی ؒکا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ہمیں ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ سے زیادہ فتوحاتِ مدنیہ محبوب ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ابن عربی نے ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ’’لا عین و لا غیر‘‘ کہہ کر ایک غیر محتاط رویہ اختیار کیا ہے‘ لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ جو کچھ اُن کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے اس میں اسماعیلیہ اور باطنیہ کی طرف سے مداخلت کا بھی امکان ہے۔
انہوں نے مذکورہ تین شخصیات کے نظریات اور تمثیلات بیان کرنے کے بعد اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ وہ محض فلسفی ذہن رکھنے والے اہل علم کی تسلی و تشفی کے لیے ان مباحث کو بیان کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق عملی زندگی سے نہیں بلکہ صرف فلسفیانہ موشگافیوں سے ہے۔
صفاتِ الٰہی (جو کہ اسماء اللہ الحسنیٰ میں شامل ہیں) کے بارے میں ڈاکٹر صاحبؒ کا دو ٹوک موقف ہے کہ وہ صفات جن کا تعلق افعال سے نہیں ہے ‘جیسے اللہ تعالیٰ کا عرش‘ ہاتھ‘ چہرہ‘ سمع وبصر کا ہونا ‘یہ سب آیاتِ متشابہات میں سے ہیںکہ ان میں نہ تجسیم کی گنجائش ہے نہ تعطیل و تشبیہ کی‘ بلکہ ہم ان کا اثبات کرتے ہیں کیونکہ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کا اثبات کیا ہے ‘لیکن ہم ان کی کیفیت کو نہیں جانتے۔انہوں نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ان صفات باری تعالیٰ کا بیان تعلق باللہ کے حوالے سے ہونا چاہیے تاکہ ایک مسلمان اپنی زندگی میں ایمان و ایقان کے اعلیٰ مدارج تک پہنچ پائے۔اللہ تعالیٰ کی معیت کا احساس اُسے ایک طرف بے پناہ قوت اور ہمت عطا کرتا ہے تو دوسری طرف اسے ’’ہوشیار باش‘‘ رہنے کا سبق بھی دیتا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحبؒ کا درس ایک اچھا تاثر قائم کرتا ہے لیکن چند پہلوئوں سے ایک تشنگی کا احساس باقی رہتا ہے کہ جن کے ضمن میں مزید وضاحت بہت سے اشکالات کو رفع کر سکتی ہے۔ مَیں ان چندپہلوئوں کا تذکرہ کیے دیتا ہوں:
(۱) جو بات صفات باری تعالیٰ کے بار ےمیں کہی جا رہی ہے وہی ذات باری تعالیٰ پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ یعنی جیسے ہم اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر جانتے ہیں ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق انسان کو بھی سمع و بصرکے وصف سے متصف پاتے ہیں {فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(۲)} (الدھر)۔لیکن کہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سمیع و بصیر ہونا اور کہاں انسان کی سمع و بصر ۔ دونوں میں کوئی مشابہت نہیں۔ اللہ کی صفات لامحدود اور انسان کی انتہا درجے کی محدود‘ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱۱)}(الشوریٰ)
ایسے ہی جب ہم ذات باری تعالیٰ کو واجب الوجود جانتے ہیں تو مخلوق کے وجود کا بھی انکار نہیں کر سکتے مگر دونوں کے وجود میں کوئی نسبت نہیں۔ ایک کا وجود ازلی اور دوسرے کا عارضی۔ لیکن اس عارضیت کا انکار کائنات کی غرض و غایت پر پانی پھیر دیتا ہے کہ وہاں خالق و مخلوق‘ عابد اور معبود‘ ربّ اور مربوب کا ذکر عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔ ’’لا الٰہ الَّا اللّٰہ‘‘ کا تقاضا ’’لا معبودَ الا اللّٰہ‘‘ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ سلف میں سے کسی نے بھی اسے ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سے تعبیر نہیں کیا ہے۔
(۲) ڈاکٹر صاحب ؒنے ایک دوسری خوبصورت بات کہی ہے کہ ذات الٰہی کا ادراک عقل انسانی سے بالاتر ہے‘ یعنی ایک محدود چیز ایک غیر محدود ہستی کا ادراک کیسے کر سکتی ہے! اس لیے ایک مسلمان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ ذات باری تعالیٰ کے بارے میں فلسفیانہ موشگافیوں کا سہارا نہ لے۔
آیت {ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ج } کی تشریح کے ضمن میں ایک دوسرے موقع پر ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ یہ وحدت الوجود کے بارے میں نص قطعی ہے‘ مذکورہ تصریحات کے بالکل منافی ہے۔ سلف صالحین (صحابہ‘ تابعین ‘ تبع تابعین) بلکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے۔ ایسے نازک مقام پر سلف کے فہم تک محدود رہنا ہی باعث سلامتی ہے ‘وگرنہ بقول ڈاکٹر صاحب‘ پھسلنے کا امکان رہتا ہے۔
(۳) متشابہات کے ضمن میں امام مالکؒ (یکے ازائمہ سلف) کا قول ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ جب ان سے ایک شخص نے {ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْش} کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا تھا : الاستواء معلوم (یعنی معنی کے اعتبار سے) والکیف مجہول(کیفیت کے اعتبار سے) والسؤال عنہ بدعۃ۔امام مالک نے جو تین باتیں عرض کی ہیں‘ ان میں تیسری بات قابل غور ہے کہ دورِ سلف میں ایسے سوال اٹھانا بدعت میں داخل تھا‘ اس لیے ان باتوں پر غور و خوض کرنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
(۴) اللہ سبحانہ وتعالیٰ زمان و مکان سے ماوراء ہے‘ لیکن جیسے آدابِ خداوندی کا لحاظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کئی جگہ ضمیر جمع کا صیغہ ‘ جو کہ ضمیر تعظیم کہلاتا ہے‘ ذکر کیا ہے ‘جیسا کہ ارشاد فرمایا: {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)}(الحجر) ’’بے شک ہم ہی نے الذکر(القرآن) کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ ویسے ہی اپنے لیے ’’الاعلٰی‘‘ ‘ ’’العُلٰی‘‘ اور الفاظِ فوقیت کا بھی اثبات کیا ہے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو کے اثبات میں ہچکچاہٹ روا نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے درست کہا کہ انسان کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ اللہ کا تصور کرتے وقت اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں‘ اور پھر نبیﷺ کی اس ادا کا بھی ذکر کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ کے آخر میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے انگلی اٹھائی اور کہا : ’’اللّٰھُمَّ اشْھَد‘‘ اے اللہ گواہ رہنا! (تین مرتبہ ارشاد فرمایا)۔ دعا کے لیے انسان ہتھیلیوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے نہ کہ ہاتھ کی پشت کو‘ یہ اندازِ فطرت بھی ہے اور اتباعِ سُنّت بھی!
(۵) ابن عربی کے عقیدہ وحدۃ الوجود کی صحیح تعبیر کیا ہے؟کیا وہ مخلوق کے وجود کو صرف سایہ یا عکس کی مانند دیکھتے ہیں یا اس سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں؟ انہوں نے زیادہ تر اپنے افکار کو ’’فصوص الحکم‘‘ میں رقم کیاہےلیکن ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کے پہلے صفحہ پر ہی اپنا یہ قطعہ درج کر کے اپنے عقیدے کی طرف اشارہ کر دیا ہے : ؎
الربُّ حَقٌّ وَالعَبدُ حَقٌّ
یا لیتَ شعری مَن الـمُکَلَّف!
إِن قلتُ عبدٌ فذاک مَیْتٌ
او قلتُ ربٌّ أَنّٰی یُکَلَّف!
’’ربّ بھی حق ہے اور بندہ بھی حق ہے تو ہائے! میں کیسے جانوں کہ کون مکلف ہے؟اگر کہوں کہ بندہ ہے‘ تو وہ تو مر جانے والا ہے ‘اور اگر کہوں کہ رب ہے تو اسے کیسے مکلف قرار دیا جائے!‘‘
بالفاظِ ابن تیمیہؒ ‘ ابن عربی کے نزدیک وجود تو ایک ہی ہے ‘ اور وجود واجب عین ہے جس پر حق کا فیضان ہوا ہے‘ اس لیے ہر چیزکا وجود عین وجود حق ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ کلام باطل ہے‘ اس لیے کہ بندہ تو موجود ہے‘ ثابت ہے‘ معدوم نہیں ہے ‘نہ ہی اس کی نفی کی گئی ہے‘ لیکن وہ اللہ ہی ہے جس نے اسے ایک ثابت موجود کی شکل دی ہے۔ یہی مسلمانوں کا دین ہے کہ جو کچھ بھی اللہ کے ماسوا ہے وہ اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے‘ اللہ کے ایجاد کرنے سے اس کا وجودظہور میں آ یا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا وجود اللہ کے ایجاد لانے سے نہ ہو (فتاویٰ مجلد۲:۱۱۳۔۱۱۵) ’’فصوص الحکم‘‘ میں اسے یوں تعبیر کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: {اِنَّمَا اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۸۲)}(یٰس) ’’اُس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کوئی چیز چاہتا ہے تو اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
یہاں ’’شَیْء‘‘ کا ذکر کیا اور اس سے خطاب کیا کہ ’’ہو جا!‘‘تو اس کا مطلب ہے کہ ’’شَیْء‘‘ گو معدوم تھی لیکن یہ معدوم جسے اللہ نے پیدا کرنے کا ارادہ کیا وہ اللہ کے علم ‘ ارادے اور قدرت میں پہچان رکھتی تھی‘ یعنی اس کی ذات خارج میں ثابت شدہ تھی۔ ابن تیمیہ اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی چیز کو اپنے تصور میں لانا‘ چاہے ہم اس کی نفی کر رہے ہوں یا اُسے خارج میں ثابت کر رہے ہوں یا اس کے بارے میں متردد ہوں‘ صرف ہمارے تصور کی بنا پر خارج میں اس کا وجود ثابت نہیں ہو جائے گا ۔ مثال کے طو رپر ہم یاقوت کے پہاڑ کا‘ یا پارے کے سمندر کا یا سونے کے انسان کا یا پتھر کے گھوڑے کا تصور کریں تو خارج میں وہ ایک وجود کی شکل اختیار نہ کر لے گا‘ کیونکہ علم اور تقدیر میں کسی چیز کے ثابت نظر آنے کا یہ مطلب نہیں کہ خارج میں اس کا عین بھی وجود میں آ گیا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ ایک عالم کسی چیز کے بارے میں جانتا ہے‘ پھر اس کے بارے میں بات کرتا ہے اور اسے تحریر میں بھی لے آتا ہے ‘حالانکہ خارج میں نہ اس کا وجود ہوتا ہے اور نہ ہی ثبوت (یہاں ثبوت دلیل کے معنوں میں نہیں‘ بلکہ کسی چیز کے قائم ہونے کے معنیٰ میں ہے)۔
اس لحاظ سے صاحب الفصوص کے نزدیک ان چیزوں کا وجود عین وجود حق ہے ‘کیونکہ یہ ساری اشیاء عدم کے اندر ثابت ہیں اور اس حق کے ساتھ متحد ہیں کہ جو ان کے قیام کا سبب ہے ۔(ص ۱۴۴۔۱۴۵)
چونکہ ابن الفارض جیسے وجودی حلول یا ہمہ اوست کی طرف چلے گئے اور ابن الفارض نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ: ؎
وما الکلبُ والخنزیرُ اِلَّا إلٰـھُنا
وما اللّٰہُ اِلَّا فِی الکَنِیسَۃِ یُعْبَدٗ
’’اور کتا اور خنزیر کچھ نہیں مگر وہ ہمارے الٰہ ہیں ‘اور جس کی عبادت گرجا میں ہو رہی ہے وہ بھی اللہ ہے۔‘‘
اور اسی بنا پر ابن تیمیہ انصاف سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’گو ابن عربی کا یہ قول کفر ہے لیکن ان (قائلین وحدت الوجود )میں وہ اسلام سے قریب تر ہیں ‘ اس لیے کہ ان کے کلام میں بہت سی چیزیں اچھی بھی ہیں اور اس لیے کہ وہ دوسروں کی طرح اتحاد (یعنی وحدت الوجود) پر اتنے ثابت قدم نہیں ہیں جتنے دوسرے لوگ ہیں ‘بلکہ ان کے نزدیک اس بارے میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنے بے پایاں خیال کے ساتھ یوں کھڑے ہیں کہ کبھی انہیں حق نظر آتا ہے اور کبھی باطل‘ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس عقیدے پر فوت ہوئے۔‘‘ (ص۱۴۴)
یہاں مَیں اتنا ضرور کہوں گاکہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے عالم امر اور عالم خلق کی بحث میں بارہا کہا ہے کہ عالم امر میں اشیاء کا وجود میں آنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلمہ ’’کُن‘‘ کی بنا پر ہے‘ گویا پہلے ان کا وجود نہ تھا اور پھر کلمہ کُن سے وہ وجود میں آگئیں۔ اس کے برعکس ابن عربی کا سارا زور کلمہ ’’شیء‘‘ پر ہے کہ چونکہ ’’شیء‘‘ سے خطاب کیا گیا تھا (کہ ہوجا) اس لیے وہ شیء معدوم کی حیثیت سے اپنی ماہیت رکھتی تھی اور وجود ماہیت سے بڑھ کر ایک قدر زائد ہے۔
(۶) مجھے ابن عربی کی ’’الفتوحات المکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ (دانائی کے نگینے) کے سرسری مطالعے کا موقع ملا ہے جس کی روشنی میں ان دونوں کتابوں کے بارے میں چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں:
ابن عربی (ف ۶۳۸ھ) نے اپنی زیارتِ مکہ مکرمہ کے دوران ’’الفُتوحات المکّیہ‘‘ کی تصنیف کی اور اس بات کا ادعا کیا کہ یہ ساری کی ساری کتاب ایک خواب میں اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے املاء کرائی گئی ہے۔ ان کے نزدیک عقیدے کی تین سطحیں ہیں:عوام الناس کا عقیدہ کہ جس میں وہ جمہور کا مسلک روا رکھتے ہیں‘ پھر خواص کا عقیدہ جسے وہ اہل الکلام کا عقیدہ قرار دیتے ہیں‘ پھر اعلیٰ ترین مرتبے پر خلاصۃ الخاصہ کا عقیدہ ہے کہ جس کے وہ خود حامل ہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو باطنی‘ اسماعیلی فرقہ کے عقیدہ ظاہر و باطن کا عکاس ہے اور رموز و اشارات کی زبان میں کتاب کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے ‘لیکن ان کی دوسری کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ میں ان کی آراء زیادہ وضاحت کے ساتھ آ گئی ہیں۔
اس کتاب کی ۲۷ فصلوں میں ہر ایک نبی کے نام کے ساتھ ایک فص (نگینہ) کی نسبت کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک انبیاءِکرام علیہم السلام انسانِ کامل کا مظہر ہیں کہ جن میں حقیقت الٰہیہ اپنی کامل ترین شکل میں تجلی اختیار کرتی ہے۔ ہر فص میں ایک نبی کا بیان ہے جس میں حق تعالیٰ کی ایک خاص صفت کا ظہور ہوتا ہے اور پھر اس نبی سے متعلق آیات کی باطنی تفسیر کی گئی ہے۔جیسے فص ایوبی میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی گئی ہے:
{وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ (۴۱)} (ص)
’’اور ہمارے بندے ایوب کا بھی ذکر کرو‘ جب اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے۔‘‘
ابن عربی نے اس کا معنی یہ بتایا ہے کہ حضرت ایوب ؑکے جس درد اور رنج پہنچنے کا ذکر ہے اس سے مراد حجاب اور حقائق سے لاعلمی کا عذاب ہے۔ غرضیکہ ان کے نزدیک ’’عقل‘‘ ظاہر کی زبان ہے (یعنی عقیدہ عوام) اور ’’ذوق‘‘ باطن کی زبان ہے (یعنی عقیدہ خلاصۃ الخاصۃ) جو کہ ان کا اپنا عقیدہ ہے۔ وحدت الوجود کو انہوں نے مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ ایک تمثیل یہ بیان کی ہے کہ وجودِ عین تو واحد ہے ‘لیکن جوں جوں عدد بڑھتا چلا جاتا ہے اس میں کثرت نظر آتی ہے لیکن اس کثرت میں عدد واحد برقرار رہتا ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ (حق) اور مخلوق (کائنات) کے درمیان عددِ واحد سے ظاہر ہونے والے مزید اعدادو الا تعلق ہے‘ اور جیسے عددِ واحد نے باقی اعداد کو وجود بخشااسی طرح ذات حق نے کثرت کی شکل میں کائنات کو وجود بخشا۔
(۷) ڈاکٹر صاحب نے وحدۃ الوجود کی شرح میں انہی تمثیلات کا سہارا لیا ہے لیکن اس بات کی صراحت بھی کی ہے کہ گو مَیں اس رائے سے (نہ کہ عقیدئہ ہمہ اوست سے) اتفاق رکھتا ہوں لیکن میرے مخاطبین کو پورا حق ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا مسترد کردیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک داعی الی اللہ کو جانچنے کے لیے اس کی ایک شاذ محتمل التاویل رائے کو معیار نہیں بنانا چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس شخص کی اسلام کی حمایت‘ دعوت اور تبلیغ میں کیا خدمات رہی ہیں اور اس لحاظ سے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا قد بہت اونچا ہے۔
پاک و ہند میں اور پوری دنیا کے اردو داں طبقے میں قرآن کے آڈیو/ویڈیو دروس کے حوالے سے جو قبولیت انہوں نے پائی ہے وہ کم ہی کسی دوسرے معاصر عالم کو حاصل رہی ہے۔ مَیں اُن کی علمی‘ دعوتی اور تحریکی خدمات کے چند عنوانات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
(i) انہوں نے اپنی دعوتی زندگی کا آغاز قرآن فہمی کی تحریک سے کیا ۔ پھر اسلامی جمعیت طلبہ‘ جماعت اسلامی‘ انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے قرآن کے دروس کو ایک مقبولیت عامہ کی سطح پر پہنچا دیا۔ اس تحریک میں اُن کی ایک اوّلین کتاب ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا بڑا حصہ ہے۔ قرآنی آیات کی ایک سادہ اور دلنشیں تشریح اور تفسیر کے ساتھ ساتھ آیاتِ کونیہ کی سائنسی اکتشافات کے تناظر میں تشریح اور توضیح عصر حاضر کے اہل علم حضرات کے لیے بہت اطمینان بخش رہی ہے۔اُمت ِمسلمہ کے زوال میں انہوں نے درست طور پر ’’مہجوریٔ قرآن‘‘ کو ایک بنیادی سبب قرار دیا ہے۔
(ii) جہاد بالقرآن کے پانچ محاذوں کے بیان میں جاہلیت قدیمہ اور جدیدہ کے ساتھ بے یقینی اور تذبذب‘ نفس پرستی ‘وساوس اور پھر فرقہ واریت کا تذکرہ ایک علمی جہاد کے مختلف گوشوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے انہیں امام ابن تیمیہؒ سے زیادہ مناسبت ہے نہ کہ ابن عربی ؒ سے۔ مؤخر الذکر کا دامن جہاد کے باب میں بالکل خالی ہے جب کہ اول الذکر نے علمی جہاد کے ساتھ ساتھ عملی جہاد میں بھی حصہ لیا جو بلادِ اسلامیہ پر تاتاری یلغار کے بالمقابل تھا۔
(iii) ملکی سطح پر لبرل ازم‘ انکارِ سُنّت اور ردّ قادیانیت پر ان کی جدّوجُہد کافی وزن رکھتی ہے۔ فتنے سے بچائو کے لیے جو پانچ اصول انہوں نے بیان کیے ہیں ان میں اسلاف سے مضبوط تعلق سرفہرست ہے۔ فقہی معاملات میں اعتدال کی راہ اور علماءِ حق سے رابطہ ان کی دعوت کا اہم ستون رہا ہے۔
(iv) وہ عبادت کا ایک ہمہ گیر تصور پیش کرتے ہیں جس میں انفرادی اصلاح اور کیفیت احسان کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر خلافت حقہ کو قائم کرنے کی جدّوجُہد نمایاں نظر آتی ہے۔ قومیت کے تصوّر پر انہوں نے کاری ضرب لگائی ہے۔ موجودہ دور میں اسلامی ریاست کے لیے تھیوڈیموکریسی(Theo-Democracy) کی اصطلاح مولانا مودودیؒ سے مستعار لی ہے اور نظام ریاست کوچلانے کاایک واضح تصور دیا ہے۔
(v) ایمان کے حقیقی تصور اور قانونی تصور کے بیان کے ضمن میں امام ابوحنیفہؒ کی تعریف ِ’’ایمان‘‘ اور جمہور کی تعریف (definition) میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال انہیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اعمال کی بنیاد پر ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔
(vi) حقیقت ِشرک اور اقسامِ شرک پر انہوں نے تفصیلی گفتگوکی ہے ۔ توحید کے ضمن میں تعلق باللہ ان کی دعوت کا محور رہا ہے۔
بدعت اور مروّجہ تصوف کے مختلف مظاہر کا وہ شدت سے انکار کرتے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔سُنّت یا حدیث کے حوالہ سے ’’اَربعین نوویؒ‘‘ کا مطالعہ اور اس کی شرح ان کا ایک قابل قدر کام ہے۔ تاہم اس موضوع پر ان کے شاگردوں اور متوسلین کو مزید کام کرنے کی ضرورت کا احساس رہنا چاہیے۔
ان کی اس جرأت رندانہ کا اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے حد ِرجم کے بارے میں اپنے استاد اور مربی مولانا امین احسن اصلاحی کے مخالف ِسُنّت موقف کا شدت سے انکار کیا بلکہ ان کے اس موقف کی بنا پر ان سے براءت کا اظہار بھی کیا ‘لیکن ان کے لیے دعائِ مغفرت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
یہ مضمون طویل ہوتا جا رہا ہے ‘اس لیے مزید چند عنوانات کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں جو ان کے علمی جہاد کی عکاسی کرتے ہیں۔
(۱) سورئہ بنی اسرائیل کی روشنی میں قضیہ فلسطین کو یہود کی پوری تاریخ کے ساتھ اجاگر کیا۔
(۲) ’’وحدتِ ادیان‘‘ کے نظریہ پر سخت نکیر کی۔ اب چند سالوں سے ’’دین ابراہیمی‘‘ کے نام پر اس فکر کو خلیج کے مقتدر حلقوں کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہے۔
(۳) صدر ایوب کے جاری کردہ عائلی قوانین کے بارے میں انہوں نے اسلامی فقہی موقف کو نمایاں کیا۔
(۴) اُمت کے پانچ ادوار کے بیان پر مشتمل حدیث کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(۵) مساوات‘ آزادی‘ اخوت کے نعروں پر مشتمل یورپ اورامریکہ کے دساتیر کے مقابلہ میں نبی مکرمﷺ کے خطبہ حجۃالوداع کی اسبقیت اور افضلیت کو آشکار کیا۔
(۶) فکر اقبال کی ترجمانی کاحق ادا کیا ہے۔
(۷) اپنی ساری دعوتی تحریک کو فریضہ اقامت دین کی ایک عملی تعبیر کی حیثیت سے متعارف کرایا۔
(۸) شدید فقہی جمود کے دور میں اپنے اس منہج کا ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ ائمہ اربعہ کی اجتہادی آراء میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے کے مجاز ہوں گے ‘یعنی کسی ایک امام کی رائے کے پابند نہ ہوں گے۔ لیکن اس ضمن میں آٹھ رکعت تراویح پر ان کا اظہارِ تعجب سمجھ سے باہر ہے کہ یہ مسئلہ ائمہ اربعہ سے قبل عہد سلف میں متعارف تھا اور اس پر عمل بھی جاری تھا۔ایسے ہی ان کا شاہ ولی اللہ ؒکی بعض شاذ آراء کا حوالہ دینا جیسے ارواحِ اولیاء اللہ کا فرشتوں کی نچلی سطح پر تدبیر امور کے لیے شامل کیا جانا دلیل کا محتاج ہے۔مزید برآںان کی رائے بابت عالم امر اور عالم خلق اگر امر تکوینی اور امر تشریعی کے حدود میں رہتی تو فہم سلف کی بہتر نمائندگی کرتی۔
خاتمہ کلام
مجھے اپنی زندگی میں منامات (خواب) دیکھنے کا خاطر خواہ حصہ ملا ہے۔ اکثر تو ’’اضغاثُ اَحْلَام‘‘ کی بنا پر طاق نسیاں ہوئے ‘لیکن کئی خواب ایسے بھی دیکھے جن کی تعبیر روزِ روشن کی طرح سامنے آ گئی۔ پھر کچھ خواب ایسے بھی ہیں جو تعبیر کے محتاج ہیں۔ شاید ڈاکٹر اسرار احمد کے بارے میں اپنا یہ خواب مجھے صفحہ قرطاس پر لانے کی ہمت نہ ہوتی مگر یہ کہ انہی دنوں مولانا محمد اسحاق بھٹی ؒکی تصنیف ’’دبستانِ حدیث‘‘ میں بضمن سوانح عمری محدث مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوریؒ(ف۱۹۳۵ء) ان کا اپنا خواب زیر مطالعہ آیا جس کے آخر میں انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’قارئین سے درخواست ہے کہ اگر اس خواب کا شمار ان کے نزدیک اضغاثُ احلام میں نہیں ہوتا اور یہ تعبیر طلب ہے تو {اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(۴۳)} (یوسف)
مجھے اپنا یہ خواب یاد نہ تھا‘ لیکن مَیں چونکہ اسے اپنی ڈائری میں قلم بند کر چکا تھا اس لیے اس کی حکایت میرے لیے آسان ہو گئی۔ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی وفات ۱۴ / اپریل ۲۰۱۰ء کی صبح کو ہوئی۔ میں نے یہ خواب پورے چار ماہ بعد ۱۵ / اگست اتوار کی صبح کو دیکھا تھا۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کو سفید کپڑوں میں ملبوس دیکھا اور جیسے وہ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔ میرے ہاتھ میں ایک تختی ہے ‘گویا کہ وہ ان کی سرجری کی تختی ہے۔ اوپر کسی سطر میں عربی عبارت لکھی ہے اور پھر اگلی سطر میں مَیں خود لفظ (Fee) انگریزی میں تحریر کرتا ہوں۔ اس کے بعد مَیںوہاں ان کا نام اور پھر اپنا نام لکھنا چاہ رہا ہوں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ہم ہر آنے والے پر ۵۰کی فیس پہلی وزٹ پر لگائیں گے اور اس کے بعد اگر وہ دوبارہ آئے تو ہم کوئی فیس چارج نہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عام طو رپر ہر وزٹ کا چارج کرتے ہیں۔ پھر مجھ سے کہا :اپنے نام کے ساتھ ’’فارغ التحصیل جامعہ اسلامیہ‘‘ بھی تحریر کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے نام کے تحت لکھ دوں ’’فیس۳۰ ہے‘‘۔اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔
میں اس خواب کو اس لحاظ سے ایک بشارت سمجھتا ہوں کہ انہیں ایک تخت پرسفید لباس میں ملبوس دیکھتا ہوں۔ باقی رہی تختی اور فیس کی بات تو شاید اس کا تعلق شریعت کونسل (لندن) کے انتظامی امور سے ہو کہ وہاں عائلی مسائل کو نمٹانے کے لیے تھوڑی بہت فیس لی جاتی ہے جو مذکورہ رقوم کی عکاسی کرتی ہے۔ واللہ اعلم!
آخر میں عرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے کوئی مال و متاع چھوڑ کر نہیں گئے‘ صرف دین ہی کو بطور ورثہ چھوڑ گئے ۔ اللہ سے قوی امید ہے کہ ان کی بے پایاں حسنات کے طفیل وہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے‘ اعلاء کلمۃ اللہ اور قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ان کے عظیم کام کو قبولیت سے نوازیں گے اور ان کے لگائے ہوئے صدقۂ جاریہ کو ان کے لیے توشۂ آخرت بنا دیں گے۔
وَصَلَّی اللّٰہ تعالٰی علی نبینا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ وَسَلَّم
tanzeemdigitallibrary.com © 2024