(قرآنیات) ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے منہج ِتفسیر میں نظم قرآن کی اہمیت اور استعمالات - ڈاکٹر صاحبزادہ باز محمد/عبدالسلام

10 /

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے منہج ِتفسیر
میں نظم ِقرآن کی اہمیت اور استعمالات
ڈاکٹر صاحبزادہ باز محمد عبدالسلامAbstract
The complete Quran was revealed over a period of 22 years, portion by portion as and when it was required. The sequence of the ayaat as they appear in the Mushaf is different from its chronological order of revelations. Most of the surahs in the Quran form pairs, because of the similarities of the subjects addressed in them. There are also some unique surahs which don’t form a pair with any surah. The surahs have also been divided into seven Makkan-Madinan groups; each group starting with one or more Makkan surahs and ending with one or more Madinan surahs. Every group has a central theme.
In Doctor Israr Ahmad's Manhaj-e-Tafseer, Nazm-e-Quran has primary importance. He explains the relation between surahs and the ayahs before every surah. He forms pairs because of the similarities of the subjects addressed in these surahs.
I have tried my level best to explain the importance and uses of Nazm-e-Quran in his method of Tafseer.
Key words: revealed, similarities, pairs, groups, central subject.


ابتدائیہ
محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ (۱۹۳۲ء تا ۲۰۱۰ء) ان خوش نصیب انسانوں میں سے تھے جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کلام عزیز کی خدمت کے لیے چن لیا تھا۔آپؒ نے ساری عمر قرآن پاک پڑھنے پڑھانے میںصَرف کردی۔ آپؒ کے منہج تفسیر کی یہ خوبی ہے کہ اس میں اسلاف کی ’’اصل ثابت‘‘ سے بھی رشتہ قائم رہتا ہے اور دورِ جدید کے جملہ مسائل کا حل بھی قرآن پاک کی روشنی میں سامنے آتاہے۔یعنی آپؒ تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے (محمود) کی حدود میں رہتے ہوئے‘ دورِ جدید کے محاورے اور اسلوب کو اعلیٰ علمی سطح پر استعمال فرماتے ہیں۔ چنانچہ آپؒ کے طرزِ تفسیر میں شیخ الہندؒ کی جامعیت‘ ابوالکلام آزادؒ کی ادبیت‘ مولانا مودودیؒ کی تحریکیت‘ علّامہ اقبال کی ملّی شاعری و فلسفہ‘ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے جدید فلسفیانہ افکار اور دورِ حاضر کی سائنس کے ساتھ ساتھ مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحیؒ کے نظم قرآن کا استعمال بھی کثرت سے ملتا ہے۔
آپ ؒنے نظم قرآن کا مجموعی ڈھانچا مولانا فراہیؒ اور ان کے شاگرد رشید مولانا اصلاحیؒ سے لیا تھا (البتہ آپؒ نے مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی کے تفردات سے بچتے ہوئے اس کا استعمال فرمایا ہے‘ اور اس میں کہیں کہیں کمی بیشی بھی فرمائی ہے)۔ نظم قرآن کے اس تصور کو اس خوبی سے اپنے منہج تفسیر میں استعمال فرمایا ہے کہ جہاں اس سے حکمت و معرفت قرآنی کے نئے نئے موتی سامنے آتے ہیں‘ وہیں یہ آپؒ کی تفسیر کا جزوِ لاینفک بن گیاہے۔ذیل میں ہم نے آپؒ کے منہج تفسیر میں نظم قرآن کی اہمیت اور استعمالات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ واللّٰہ المعین والمستعان۔
نظم ومناسبہ کے لغوی معنی
نظم : منظم کرنا (۱) ‘ نظمًا ونظامًا اللؤلوء (۲): موتی پرونا‘ اور مناسبت کے معنی ‘ ناسبہ مناسبۃ:(۳) مشابہ ہونا‘ مناسب ہونا‘ تعلق‘ تقریب ۔(۴)
المناسبۃ فی اللغۃ المشاکلۃ والمقاربۃ
’’لغت میں مناسبت سے مراد مشاکلت و مقاربت ہیں۔‘‘(۵)
والمناسبۃ فی اللغۃ : المقاربۃ، یقال فلان یناسب فلانًا ای یقرب منہ ویشاکلہ
’’لغوی طور پر مقاربت کسی شخص کی دوسرے سے مناسبت و مشاکلت رکھنے کو کہتے ہیں۔‘‘(۶)
نظم و مناسبہ کے اصطلاحی معنی
واما فی الاصطلاح علمٌ یبحث فی المعانی الرابطۃ بین الآیات بعضھا ببعض، وبین السور بعضھا ببعض، حتی تُعرف عللُ ترتیب اجزاء القرآن الکریم(۷)
’’اصطلاحاً اس علم سےمراد یہ ہے کہ ایسا علم جس میں آیات کے باہمی ربط و تعلق اور سورتوں کے مابین ربط و تعلق کی بحث کی جائے یہاں تک کہ قرآن کریم کے اجزاء کی ترتیب کی وجوہات سمجھ آجائیں۔‘‘
والمراد بالمناسبۃ ھنا : وجہ الارتباط بین الجملۃ والجملۃ فی الآیۃ الواحدۃ أو بین الآیۃ والآیۃ فی الآیات المتعددۃ، او بین السورۃ والسورۃ۔(۸)
’’مناسبت سے مراد ایک آیت میں جملوں کا ربط یا آیات کا آیات سے ربط یا سورتوں کا سورتوں سے ربط و تعلق واضح کرنا ہے۔‘‘
علم مناسبت کا موضوع اور ضرورت و اہمیت
اس علم کا موضوع قرآن کریم اور اس کی سورتیں اور آیات ہیں۔ یعنی قرآن کریم کی سورتوں کا باہم متصل و مربوط ہونا ‘ایک سورت کا اپنی ماقبل اور مابعد سورت سے ربط و اتصال واضح کرنا اور آیات کے مابین ارتباط کو ظاہر کرنا کہ جس سے کلام الٰہی ایک وحدتِ کلی کے طو رپرسامنے آجائے۔ علّامہ حمید الدین فراہیؒ رقم طراز ہیں:
فمرادنا بالنظام ان تکون السورۃ کاملًا واحدًا، ثم تکون ذات مناسبۃ بالسورۃ السابقۃ واللاحقۃ، او بالتی قبلھا او بعدھا علی بعد ما، کمَا قدمنا فی نظم الآیات بعضھا مع بعض، فیمکن ان الآیات ربما تکون معترضۃ، فکذلک ربما تکون السورۃ معترضۃ، علٰی ھذا الاصل تری القرآن کلہ کلمًا واحدًا، ذا مناسبۃ وترتیب فی اجزاءہ من اول الی الآخر۔(۹)
’’نظم سے ہماری مراد سورۃ کے اجزاء کی ایسی مناسبت ہے جس سے پوری سورۃ ایک وحدت میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے‘پھرسورۃ کی مناسبت سابق اور ملحق سورتوں اور پہلی اور بعد میں آنے والی سورتوں سے واضح ہوجاتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے بعض آیات جملہ معترضہ کے طور پر کلام میں آجاتی ہیں ایسے ہی بعض سورتیں بھی آتی ہوں‘ البتہ نظم واضح ہوجانے کے بعد اوّل سے آخر تک پورا قرآن مناسبت و ترتیب رکھنے والا وحدت سے متصف کلام نظر آئے گا۔ ‘‘
عادل بن محمد ابو العلاء اپنی تحریر ’’مصابیح الدرر فی تناسب آیات القرآن الکریم والسور‘‘ میں لکھتے ہیں :
فاننا ندرک ان موضوع علم المناسبۃ ھو آیات القرآن الکریم وسورہ، من حیث بیان اتصالھا وتلاحمھا، بما یظھر اجزاء الکلام متصلۃ، آخذا بعضھا باعناق بعض، مما یقوی بادراکہ ادراک الارتباط العام بین اجزاء الکتاب الکریم، ویصیر حال التالیف الالھی کحال البناء المحکم المتناسق الاجزاء(۱۰)
اس علم کی ضرورت و اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے‘ ا س لیے آیات و سورتوں میں نظم و ربط سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے اور اس سے اعجازِ قرآن میں بلاغت‘ بیان اور انتظامِ کلام کے ساتھ ساتھ اسالیب قرآن کے پہلوئوں کا سمجھنا آسان تر ہوجاتا ہے۔
ولمعرفۃ المناسبۃ فائدتھا فی ادراک اتساق المعانی، واعجاز القرآن البلاغی، واحکام بیانہ، وانتظام کلامہ، وروعۃ اسلوبہ{کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ (۱)} (۱۱)
َْ قرآن کریم کی سورتوں اور آیات کے درمیان ربط و مناسبت کبھی واضح اور نمایاں ہوتا ہے‘ کبھی چھپا ہوا ہوتا ہےاور کبھی انتہائی پوشیدہ ہوتا ہے کہ دِقت نظر اور مسلسل غور و فکر کرنے سے ہی معلوم کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح سورتیں اپنے مضمون ‘اسلوب اور مزاج کے اعتبار سے جوڑے کی صورت میں بھی ہوتی ہیں اور کبھی کوئی سورت منفرد بھی ہوتی ہے۔آیات میں ایک آیت دوسری آیت کے اجمال کی تفصیل یا بیان ‘ حصر اور استثناء کے لیے آتی ہے‘ یا پھر مثال‘ تشبیہ‘تکرار‘مضادہ‘استطراد اور حسن التخلص کے لیے ہوتی ہیں۔آیت میں جملوں کے باہمی ربط‘آیات کے باہمی ربط‘ما قبل و ما بعد کی آیات سے ربط وتعلق ان سب امور کو مدّ ِ نظر رکھ کر نظم و مناسبت اور حسن کلام کو واضح کیا جاتا ہے۔(۱۲)
علّامہ فراہی اس بارے میں رقم طراز ہیں:
’’قرآن مجید میں ایک ہی چیز کبھی عمود کی حیثیت سے آتی ہے‘کبھی ضمنی مضمون کی حیثیت سے۔کبھی وہی چیز اجمال کے ساتھ آتی ہے‘کبھی تفصیل کے ساتھ کبھی ایک چیز مؤخر ہوتی ہے ‘کبھی مقدم۔کبھی تنہا ہوتی ہے‘ کبھی اپنے مقابل کے ساتھ۔کبھی کسی چیز کےساتھ اس کا جوڑ ہوتا ہے‘کبھی کسی چیز کے ساتھ۔بالکل یکساں مضمون مختلف سورتوں میں مختلف ترتیبوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ایک ہی شے اپنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے جلوہ گر ہو گی تو اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے اور پوری طرح پہچان لینے میں تمہیں دِقت نہیں ہوگی۔اگر ایک ادا سے نگاہ چوک گئی‘دوسرا جلوہ سامنے آجائے گا۔قرآن مجید کی اسی صفت کو ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے: {اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ (۱۶۵)} ‘‘(۱۳)
محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے منہج تفسیر میں جس لحاظ سے نظم قرآن کی ترتیب قائم فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:
سورتوں کے گروپس
(۱) معنوی اعتبار سے مکی مدنی سورتوں کے سات گروپس
(۲) ہر گروپ کا مرکزی مضمون اور مرکزی مضمون کا ربط و تدریج
(۳) گروپ میں شامل سورتوں کا اپنے گروپ کے مرکزی مضمون سے ربط و تعلق
٭ سورتوں کی نسبت زوجیت (الربط بین السور) میں جن امور کو مدّ ِنظر رکھا گیا ہے:
(۱) سورتوں کے فواتح و خواتیم سور میں ربط و تعلق
(۲) حروف مقطعات کے ساتھ اور ان کے بغیر آغاز کرنے والی سورتیں اور ان میں معنوی ربط
(۳) سورت کے نام کی اپنے مضمون سے مناسبت
(۴) سورتوں کےمضامین کی باہمی مناسبت اور تدریجی تکمیل
(۵) آیات کی تعداد‘سورت کے حجم اور تقسیم آیات میں مناسبت
(۶) سورتوں کے اسالیب میں یکسانیت کے پہلو
(۷) سورت کا صوتی آہنگ
(۸) گروپ کے مضمون کے ساتھ سورت کے مضمون کا ربط
(۹) دو سورتوں میں دو مختلف پہلوؤں سے مضمون کی تکمیل کا انداز
٭سورتوں کے داخلی نظم میں پیش نظر امور
(۱) سورت کا عمود یا مرکزی مضمون
(۲) آیات کا عمود سے ربط و تعلق اور معرفت کے نئے پہلو
(۳) آیات کا باہمی ربط و تعلق
(۴) سورت کاحجم و ترتیب و تقسیم آیات
(۵) سورت کی اپنے نام سے مناسبت
(۶) آیات کا صوتی آہنگ اور ردھم
(۷) اسلوب سورت اور اس کا مضمون سے ربط
ذیل میں ہم کچھ مختصر مثالیں درج کریں گے تاکہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے منہج تفسیر میں نظم قرآن کے استعمالات واضح ہو سکیں۔
سورتوں کے گروپس
’’بیان القرآن‘‘ میں محترم ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’تلاوت کے لیے سات منزلوں کے علاوہ قرآن حکیم میں سورتوں کی ایک معنوی گروپنگ بھی ہے۔اس اعتبار سے بھی سورتو ں کے سات گروپ ہیں اور ہر گروپ میں مکی اور مدنی دونوں طرح کی سورتیں شامل ہیں۔ہر گروپ میں ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتیں اور اس کےبعد ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتیں ہیں۔ایک گروپ کی مکی اور مدنی سورتوں میں وہی نسبت ہےجو ایک جوڑے کی دو سورتوں میں ہوتی ہے۔جیسے ایک مضمون کی تکمیل ایک جوڑے کی سورتوں میں ہوتی ہے ‘یعنی ایک رخ ایک فرد میں اور دوسرارخ دوسرے فرد میں ‘اسی طرح ہر گروپ کا مرکزی مضمون اور عمود ہےجس کا ایک رخ مکی سورتوں میں اور دوسرا رخ مدنی سورتوں میں آجاتا ہے۔‘‘(۱۴)
ذیل میں ہم گروپوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔محترم ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں :
’’ سب سے بڑا گروپ پہلا ہے جس میں مکی سورت صرف ایک ہے یعنی سورۃ الفاتحہ جبکہ مدنی سورتیں چار ہیں جو سوا چھ پاروں پر پھیلی ہوئی ہیں‘یعنی سورۃالبقرہ‘آل عمران‘النساء اور المائدۃ۔
دوسرا گروپ اس اعتبار سے متوازن ہے کہ اس میں دو سورتیں مکی اور دو مدنی ہیں۔سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف مکی ہیں‘جبکہ سورۃ الانفال اور سورۃ التوبۃ مدنی ہیں۔
تیسرے گروپ میں سورۃ یونس سے سورۃ المؤمنون تک چودہ مکی سورتیں ہیں۔یہ تقریباً سات پارےبن جاتے ہیں۔اس کے بعد ایک مدنی سورت سورۃ النورہے۔
چوتھے گروپ میں سورۃ الفرقان سے سورۃ السجدۃ تک مکیات ہیں۔پھر ایک مدنی سورت سورۃ الاحزاب ہے۔
پانچویں گروپ میں سورۃ سبا سےسورۃ الاحقاف تک مکیات ہیں۔ پھر تین مدنی سورتیں سورۃ محمد‘ سورۃ الفتح اور سورۃالحجرات ہیں۔
چھٹے گروپ میں سورۃ ق سے سورۃ الواقعۃ تک سات مکیات ہیں۔ان کے بعد دس مدنیات ہیں: سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم۔
ساتویں گروپ میں بھی پہلے مکی سورتیں ہیں اور آخر میں دو مدنی سورتیں ہیں۔
اس طرح یہ سات گروپ بنتے ہیں۔‘‘(۱۵)
گروپس کے مضامین ‘اور ان کا باہمی ربط و تعلق
٭ پہلا گروپ (سورۃ الفاتحہ :مکی‘ سورۃ البقرۃ تا سورۃالمائدۃ: ۴ مدنیات)
اس گروپ کے مضامین و معنوی ربط و تعلق کی تفصیل ڈاکٹر صاحبؒ کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
’’اس گروپ میں جو مکی سورت ہے وہ صرف سورۃ الفاتحہ ہے۔یہ حجم کے اعتبار سے بہت چھوٹی لیکن اپنے مقام و مرتبہ اور فضیلت کے لحاظ سے بہت بڑی ہے‘یہاں تک کہ اسے’’القرآن العظیم ‘‘بھی کہا گیا ہے۔گویا یہ اپنی جگہ پر خود ایک قرآن عظیم ہے..... سورۃ الفاتحہ منفرد ہے‘اس کا کوئی جوڑا نہیں ہے ..... سورۃ الفاتحہ کے بعد جو چار سورتیں ہیں یہ جوڑوں کی شکل میں ہیں۔سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران ایک جوڑا ہے جبکہ سورۃ النساء اور المائدۃ دوسرا جوڑا ہے۔‘‘(۱۶)
پہلے گروپ کے مضامین
اس گروپ میں شامل واحد مکی سورت ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ اپنےا سلوب کےاعتبار سے دعائیہ ہے‘ جس میں انسان گھٹنے ٹیک کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حضور ہدایت اور سیدھے راستے کی دعا کرتا ہے۔ وہ راستہ جو منعم علیہم کا ہو‘ نہ کہ ان کا جن پر غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔اسی دُعاکا جواب پورے قرآن مجید کی شکل میں عطا فرمایا گیا ہے۔(۱۷) البتہ پہلے گروپ کی مدنی سورتوں کےدو مضامین ہیں جو ان میں متوازی چلتے ہیں:
(۱) پہلا مضمون شریعت اسلامی کا ہے‘ یعنی ان سورتوں میں شریعت کا بنیادی ڈھانچا دے کر رفتہ رفتہ تکمیل کی طرف لے جایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’تو بلیو پرنٹ جوہے شریعت ِ محمدیﷺ کا وہ سورۃ البقرۃ میں ہے‘ پھر سورۃ النساء میں اس کے اندر مزید اضافہ ہوتا ہے‘ اور سورۃ المائدۃ میں شریعت کے تکمیلی احکام آتے ہیں۔‘‘
(۲) دوسرا مضمون ہے اہل کتاب سے خطاب۔ سورۃ البقرۃ میں یہود اور سورۃ آل عمران میں نصاریٰ سے خطاب ہے۔(۱۸)
٭دوسرا گروپ (سورۃ الانعام وسورۃ الاعراف : مکیات ‘سورۃ الانفال وسورۃالتوبۃ:مدنیات)
دوسرے گروپ کا مرکزی مضمون ایمان بالرسالت ہے(۱۹)۔ ڈاکٹر صاحبؒ اس گروپ کے مضامین کا ربط یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اس گروپ کی چاروں سورتوں میں معنوی ربط یوں ہے کہ پہلی دو مکی سورتوں(الانعام اور الاعراف )میں مشرکین عرب پر رسول اللہ ﷺ کی مسلسل دعوت کے ذریعے اتمام حجت ہوا اوربعد کی دو مدنی سورتوں (الانفال اور التوبۃ)میں اس اتمامِ حجت کے جواب میں ان لوگوں پر عذاب کا تذکرہ ہے۔موضوع کی اس مناسبت کی بنا پر یہ چاروں سورتیں دودو کے دو جوڑوں کے ساتھ ایک گروپ بناتی ہیں۔‘‘(۲۰)
٭تیسرا گروپ (سورۃ یونس تاسورۃ المؤمنون: ۱۴ مکیات‘سورۃ النور:ایک مدنی)
اس گروپ کا مرکزی مضمون بھی ایمان بالرسالت ہے۔ان سورتوں میں چودہ مکیات ہیں ۔ان میں اکثر وبیشتر تین تین سورتوں کے ذیلی گروپ بھی بنتے ہیں‘جن میں پہلی دو سورتیں جوڑے کی شکل میں ہوتی ہیں جبکہ تیسری سورت مضمون کے اعتبار سے منفرد ہوتی ہے۔اس گروپ میں انباء الرسل کا خاص بیان ملتا ہے‘جن میں قوموں کی رسولوں کے ساتھ رد وقدح‘اوررسولوں کی طرف سے اتمامِ حجت اور عذابِ الٰہی کا ذکر ہوا ہے۔ اس کےعلاوہ التذکیر بالآء اللہ اور التذکیر بایام اللہ کا بیان ہے۔ سورۃ یوسف اپنے مزاج کے اعتبار سے منفرد ہے اور اس میں قصص النبیین میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔(۲۱) مدنی سورت النور میں معاشرتی احکامات خصوصاً ستر وحجاب اور استیذان کابیان ہے مگر شروع سورہ میں ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں حدود ِزنا و قذف کا بیان ہوا ہے۔(۲۲)
٭چوتھا گروپ: (سورۃ الفرقان تا سورۃالسجدہ: ۸ مکیات‘ سورۃ الاحزاب:ایک مدنی)
چوتھے گروپ کا مرکزی مضمون توحید ہے۔(۲۳)اس گروپ میں شامل مدنی سورت الاحزاب ہے جو معنوی اعتبار سے سورۃ النور کا جوڑا ہے۔اس میں اسلام کے معاشرتی احکامات کا بیان ملتا ہے۔(۲۴)
٭پانچواں گروپ (سورۃ سبا تا سورۃ الاحقاف :۱۳ مکیات‘سورئہ محمد تا سورۃالحجرات:۳ مدنیات)
اس گروپ کا مرکزی مضمون بھی ایمان باللہ یعنی توحید ہےاور خصوصاً توحید عملی کو ’’مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔خاص طور پر سورۃ الزمر اور سورۃ المؤمن میں یہ مضمون دو پہلوئوں سے بیان ہوتا ہے جن میں ایک توحید فی العبادۃ اوردوسرا توحید فی الدعاء کا ہے۔پھر یہ مضمون تدریجاً فرد سے اجتماعیت کی طرف بڑھتا ہے۔(۲۵)
ڈاکٹر صاحبؒ رقم طراز ہیں:
’’ان سورتوں میں’’توحید عملی‘‘ کے تقاضوں کو ایک فرد سے تدریجاً اجتماعیت کی طرف بڑھایا گیا ہے۔سب سے پہلےسورۃ الزمر میں توحید عملی کے ظاہری پہلو(عبادت) پر زور دیا گیا ہے۔یعنی اللہ کی عبادت کرو‘اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔پھر سورۃ المومن میں توحید عملی کے داخلی پہلو یعنی دعا کے بارے میں تاکید آئی ہے۔ سورۃ الزمر میں ’’فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ کے الفاظ کی تکرار ہے جبکہ سورۃ المومن میں ’’فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ کے الفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں۔اس طرح ان دونوں میں توحید عملی کو عبادت اور دعا کی صورت میں معاشرے کے پہلے درجےیعنی انفرادی سطح پر متعارف کرایا گیا ہے۔پھر سورئہ حٰم السجدۃ میں دعوت توحید کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ دعوت و تبلیغ کی بھر پور تحریک کے ذریعےزیادہ سے زیادہ لوگوں کو توحید کا قائل کیا جائے اور ان کے دلوں میں توحید کا سبق جا گزیں کرایا جائے۔پھر جب لوگوں کی ایک معقول تعداد عملی طور پر توحید پر کار بند ہو جائے تو ان کو منظم کر کے نظام توحید کے قیام کی جدّوجُہد کے لیے تیار کیا جائے۔اس ترتیب کے حوالے سے ہم دیکھیں گے کہ سورئہ حٰم السجدۃ میں دعوتِ توحید کی بات ہو گی اور پھر سورۃ الشوریٰ میں معاشرے کے اندر اجتماعی طور پر نظام توحید کے قیام (اقامت دین)کا حوالہ آئے گا۔اس گروپ کی مدنیات میں سورئہ محمد(ﷺ) میں نبی اکرمﷺ کے مرحلہ اقدام کے آغاز کا ذکر ہے اور سورۃ الفتح میں تکمیل کا۔سورۃ الحجرات میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست کا آئینی ڈھانچا و اصول دیے گئے ہیں۔‘‘ (۲۶)
٭چھٹاگروپ : (سورئہ ق تا سورۃ الواقعۃ:۷ مکیات‘سورۃالحدید تا سورۃالتحریم:۱۰ مدنیات)
آخری دو گروپس کا مرکزی مضمون ایمان بالآخرۃ یعنی التذکیر بالموت وما بعدہ ہے۔البتہ چھٹے گروپ میں شامل دس مدنیات سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم اُمّت ِمسلمہ سے خطاب کے ضمن میں اہم ترین مقام ہیں۔محترم ڈاکٹر صاحب ؒ ان سورتوں سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔آپؒ نے’’مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ‘‘میں ان سورتوں کو شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ آپ رقم طراز ہیں:
’’اس ضمنی گروپ میں دس مدنی سورتیں ہیں۔ان سورتوں کا حجم تقریباً سوا چار پارے کے برابر ہے‘لیکن تعداد کے اعتبار سے یہ پورے قرآن میں مدنی سورتوں کا سب سے بڑا گلدستہ ہے … ان مدنی سورتوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے پانچ سورتوں کا آغاز سَبَّحَ لِلہِ یا یُسَبِّحُ لِلہِ سے ہوتا ہے‘ یعنی ان کے آغاز میں اللہ کی تسبیح کا ذکر فعل ماضی میں بھی ہے اورفعل مضارع میں بھی ----گویا پورے زمانے کا کلی طور پر احاطہ ہو گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے اندر جو چیز بھی ہے اس نے ہمیشہ اللہ کی تسبیح بیان کی ہے‘ہر چیز اب بھی اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ اس کی تسبیح کرتی رہے گی… ان مدنی سورتوں کے بارے میں تیسری اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہ سب سورتیں(سوائے سورۃ التغابن کے)آنحضورﷺ کے مدنی دور کے نصف آخر میں یعنی سن پانچ ہجری کے بعد نازل ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کی صفوں میں جوش جہاد ‘ذوق شہادت‘جذبہ انفاق وغیرہ کے حوالے سے بحیثیت مجموعی ضعف و اضمحلال کے آثار نمایا ں ہورہے تھے …بہر حال واقعہ یہ ہے کہ ان دس سورتوں میں پورے قرآن کے مضامین کا عطر کشید کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ‘‘(۲۷)
٭ساتواں گروپ (سورۃ الملک تا سورۃ الاخلاص:۴۶ مکیات ‘معوذتین:۲ مدنیات)
اس گروپ کا مرکزی مضمون ایمان بالآخرۃ ہے۔ اس گروپ میں اکثر و بیشتر سورتیں وہ ہیں جو ابتدائی مکیات میں سے ہیں‘جن میں آخرت کے حوالے سے جھنجھوڑنے کا انداز نمایاں ہے۔ (۲۸)
سورتوں میں نسبت زوجیت
’’ بیان القرآن‘‘ میں محترم ڈاکٹر صا حب نے جہاں ہر گروپ کے مضمون ‘اس کے عمود‘اور سورتوں کے باہمی ربط کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ‘وہیں ہر سورہ کے آغاز میں ہی دوسری سورت کے ساتھ اس کی نسبت زوجیت کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔آپ دوران تفسیر جا بجا اس نسبت کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔
نسبت زوجیت سے مراد:
’’ دو جنسوں یا دو چیزوں کے مابین نسبت زوجیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بعض پہلوئوں سے ان میں باہم مشابہت ہونے کے علاوہ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی خصوصیت کی حامل ہیں ‘یعنی دونوں مل کر کسی خاص مقصد کی تکمیل کرتی ہیں۔‘‘ (۲۹)
سورتوں کی باہمی نسبت سے متعلق آپؒ رقم طراز ہیں:
’’قرآن حکیم کی سورتوں کے جوڑے ہونے کا معاملہ قرآن مجید میں بعض جگہوں پرتو بہت ہی نمایاں ہے۔ ’’المعوذتین‘‘آخری دو سورتیں ہیں جو تعوذ پر مشتمل ہیں: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (۱) اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(۱)۔اسی طرح ’’الزھراوین‘‘ دو نہایت تابناک سورتیں‘ سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمرآن ہیں۔حضورﷺ نے ان دونوں کو بھی ایک نا م دیا۔ اسی طرح سورۃ المزمل و سورۃ المدثر اور سورۃ الضحیٰ و سورۃ الم نشرح میں معنوی ربط ہے۔سورۃ الطلاق اور سورۃ التحریم میں تو یہ ربط بہت ہی نمایاں ہے۔دونوں سورتوں کا آغاز با لکل ایک جیساہے: { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَج}(الطلاق) اور {یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَـآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ج}(التحریم)۔ مضمون کے اندر بھی بڑی گہری مناسبت ہے۔اس کے بعد سورۃ الصف اور سورۃ الجمعۃ کا جوڑا ہے۔ سورۃ الصف سَبَّحَ لِلہِ سے اور سورۃ الجمعہ یُسَبِّحُ لِلہِ کے الفاظ سے شروع ہورہی ہے۔ سورۃ الصف کی مرکزی آیت جو رسول اللہﷺ کے مقصد ِبعثت کو معین کر رہی ہے {ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(آیت۹) ہے جبکہ سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت جو حضورﷺ کے انقلاب کا اساسی منہاج معین کر رہی ہے {ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق}(آیت۲) ہے ۔
بہرحال سورتوں کا جوڑا ہونا ‘ سورتوں کا گروپ کی شکل میں ہونا‘ ان گروپس کا اپنا ایک عمود اور ایک مرکزی مضمون ہونا‘ پھر اس کے دو رخ بن جانا جو اس کی مکیات اور مدنیات میں آتے ہیں‘ قرآن مجید کے علم و حکمت کے خزانے کے وہ دروازے ہیں جو اب کھلے ہیں۔‘‘(۳۰)
ذیل میں ہم ’’بیان القرآن‘‘ سے سورتوں کے جوڑے ہونے کی نسبت کو مختلف مقامات سےبطور امثال درج کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ آں محترمؒ نے اپنے منہج تفسیر میں نظم قرآن کو کیسے ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔
سورۃ البقرۃ اور سورۃ آلِ عمران میں نسبت ِزوجیت
سورۃ البقرۃ کے آغاز میں لکھتے ہیں :’’سورۃ البقرۃ اور سورہ آل عمران کا یہ جو جوڑا ہے‘ان دونوں کو رسول اللہﷺ نے ’’الزھراوین‘‘ کا نام عطا فرمایا ہے----- یعنی دو انتہائی تابناک اور روشن سورتیں ۔اس کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ اور آل عمران دونوں کا آغاز حروف ِمقطعات ’’الم‘‘سے ہوتا ہے۔‘‘(۳۱)
آغاز و اختتام میں مشابہت :
’’سورۃ البقرۃ اور آل عمران میں مشابہت کے نمایاں پہلو یہ ہیں کہ دونوں حروف مقطعات ’’الم‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔دونوں کے آغاز میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے‘اگرچہ سورہ آل عمران میں اس کے ساتھ ہی تورات اور انجیل کا بیان بھی ہے۔پھر یہ کہ دونوں کے اختتام پر بڑی عظیم آیات آئی ہیں۔سورۃ البقرہ کے اختتام پروارد آیات ہم پڑھ چکے ہیں۔اس کی آخری آیت کو قرآن حکیم کی عظیم ترین دعائو ں میں سے شمار کیا جا سکتا ہے{رَبَّـنَا لَا تُؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَاج…} ۔سورئہ آل عمران کے آخری رکوع میں بھی ایک نہایت جامع دعا آئی ہے جو تین‘ چار آیتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔‘‘(۳۲)
درمیانی مضامین میں مشابہت کے پہلو:
’’پھر جیسے میں نے آپ کو بتایا ‘سورۃ البقرہ بھی سورۃ الامتین ہے‘دو اُمتوں سے خطاب اور گفتگو کر رہی ہے‘اور یہی معاملہ سورئہ آل عمران کا بھی ہے۔فرق یہ ہے کہ سورۃ البقرہ میں زیادہ تر گفتگو یہود اور سورئہ آلِ عمران میں نصاریٰ کے بارے میں ہے۔تو گویا اس طرح اہل کتاب سے گفتگو کی تکمیل ہورہی ہے۔اہلِ کتاب میں سے’’یہود‘‘اہم تر طبقہ تھا اور دینی اعتبار سے ان کی اہمیت زیادہ تھی‘خواہ تعداد میں وہ کم تھے اور کم ہیں۔دوسرا طبقہ عیسائیوں کا ہے‘جن کا تذکرہ سورۃ البقرۃ میں بہت کم آیا ہے‘لیکن سورئہ آل عمران میں زیادہ خطاب ان سے ہے۔‘‘(۳۳)
تقسیم وترتیب میں مشابہت :
’’ پھر جیسے سورہ البقرۃ کے دو تقریباً مساوی حصے ہیں‘پہلا نصف ۱۸ رکو ع اور۱۵۲ آیات پر مشتمل ہے اور نصف ثانی ۲۲ رکوع لیکن ۱۳۴ آیات پر مشتمل ہے‘وہی کیفیت سورئہ آل عمران میں بتمام وکمال ملتی ہے۔ سورہ آل عمران کے بھی دو حصےہیں‘جو بہت مساوی ہیں۔اس کےکل ۲۰ رکوع ہیں ‘۱۰ نصف اوّل میں اور ۱۰ ہی نصف ثانی میں۔ پہلے دس رکوع میں ۱۰۱ آیات اور دوسرے دس رکوعوں میں ۹۹ آیات ہیں۔یعنی صرف ایک آیت کا فرق ہے۔پھر جیسے سورۃ البقرہ میں نصف اول کے تین حصے ہیں ویسے ہی یہاں بھی نصف اول کے تین حصے ہیں‘لیکن یہاں تقسیم رکوعوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ آیات کے اعتبار سے ہے۔‘‘(۳۴)
الفاظ اورجملوں کی مشابہت :
’’ان دونوں سورتوں کے مابین نسبت زوجیت کے حوالے سے آپ دیکھیں گے کہ بعض مقامات پر تو الفاظ بھی وہی آرہے ہیں‘وہی انداز ہے۔ جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت۱۳۶ میں فرمایا گیا :{قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ}’’(اے مسلمانو!)تم کہو ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور جو کچھ ہم پر نازل کیا گیا اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل کیا گیا…‘‘ بالکل یہی مضمون سورئہ آل عمران کی آیت ۸۴ میں آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی دونوں سورتوں میں ملتا ہے ۔ یہود کے بارے میں {ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق…} والی آیت سورئہ آل عمران میں بھی ہے‘ ذرا ترتیب کا فرق ہے۔‘‘(۳۵)
سورۃ النساء اورسورۃ المائدۃ کی نسبت زوجیت
اس جوڑے کی نسبت کے حوالے سے محترم ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں:
٭ افتتاح و اختتام میں یکسانیت:
’’ ان دو جوڑوں میں ایک نمایاں فرق یہ نظر آئے گا کہ سابقہ دوسورتوں میں پہلے حروفِ مقطعات ہیں اور پھر قرآنِ مجید اور کتب ِسماویہ کی عظمت کا بیان ہے‘ جبکہ ان دو سورتوں میں اس طرح کی کوئی تمہیدی گفتگو نہیں ہے بلکہ براہِ راست خطاب ہو رہا ہے۔ البتہ نسبت ِ زوجیت کے اعتبار سے ان میں یہ فرق ہے کہ سورۃ النساء کے آغاز میں صیغۂ خطاب ’’یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ‘‘ (اے لوگو) ہے‘ یعنی خطاب عام ہے جبکہ سورۃ المائدۃ کا آغاز ’’یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘  کے صیغے سے ہوتا ہے ‘ یعنی یہاں خطاب خاص طو رپر انسانوں میں سے اُن لوگوں سے ہے جو ایمان کے دعوے دار ہیں۔ باقی جس طرح سورۃ البقرۃ اور سورۂ آلِ عمران نصفین میں منقسم ہیں اس طرح کا معاملہ ان دونوں سورتوں کا نہیں ہے۔‘‘(۳۶)
٭سورتوں کے اسالیب میں ہم آہنگی:
سورۃ البقرۃ سے سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ کے اسلوب کا موازنہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اپنے اسلوب کے اعتبار سے یہ دونوں سورتیں سورۃ البقرۃ کے نصف ِثانی کے مشابہ ہیں۔ یعنی چند مضامین کی لڑیاں چل رہی ہیں لیکن ایک رسی کی طرح آپس میں اس طرح بٹی ہوئی اور گتھی ہوئی ہیں کہ وہ لڑیاں مسلسل نہیں بلکہ کٹواں نظر آتی ہیں…سورۃ البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں مَیں نے بتایا تھاکہ یہ گویا چار لڑیاں ہیں‘جن میں دو کا تعلق شریعت سے ہے اور دو کا جہاد فی سبیل اللہ سے۔شریعت کی دو لڑیوں میں سے ایک عبادات کی اور دوسری معاملات کی ہے‘جبکہ جہاد فی سبیل اللہ کی لڑیوں میں سے ایک جہاد بالمال یعنی انفاق فی سبیل اللہ اور دوسری جہاد بالنفس کی آخری شکل یعنی قتال فی سبیل اللہ ہے۔ یہاں سورۃ النساء میں بھی آپ دیکھیں گے کہ تین لڑیاں اسی طرح آپس میں گتھی ہوئی ہیں اور ان کے رنگ کٹواںنظر آتے ہیں‘لیکن اگر آپ ان سب کو علیحدہ علیحدہ کر لیں تو ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک الگ مضمون بن جائے گا۔‘‘ (۳۷)
آگے چل کے فرماتے ہیں کہ سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں نسبت زوجیت کیسے باعث تکمیل مضمون ہے۔
٭ تکمیل مضامین کا دوسرا انداز:
’’سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ کےمابین ایک فرق نوٹ کر لیجیے۔انسانی تمدن میں سب سے بنیادی چیز معاشرہ ہے‘اور معاشرے میں بنیادی اہمیت عورت و مرد کے تعلق کو حاصل ہے۔دوسرے یہ کہ معاشرے میں کچھ کمزور طبقات ہوتے ہیں ‘جن کے حقوق کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔یہ مضمون آپ کو سورۃ النساء میں ملے گا… تو اس طریقے سے تمدن کی بنیادی منزل پر گفتگو ہو رہی ہے۔سورۃالمائدہ میں تمدن کی بلند ترین منزل ریاست زیربحث آئے گی اور اعلیٰ سطح پر عدالتی نظام کے لیے ہدایات دی جائیں گی کہ چوری‘ڈاکا وغیرہ کا سد ِباب کیسے کیا جائےگا۔اس ضمن میں حدود و تعزیرات بھی بیان کی جائیں گی۔‘‘(۳۸)
سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف کا جوڑا
’’سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف دونوں مل کر ایک حسین و جمیل جوڑا بناتی ہیں۔قرآن عظیم کے وسط میں یہ دو سورتیں حکمت قرآنی کے دو عظیم خزانے ہیں۔ان دونوں کے درمیان کئی حوالوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور کئی پہلوئوں سے ان کی آپس میں نسبت زوجیت بھی ظاہر ہوتی ہے…اس سلسلے میں اہم نکات درج ذیل ہیں:
(۱) سورئہ بنی اسرائیل کا آغاز اللہ کی تسبیح (سُبْحَانَ الَّذِیْ …) سے ہوتا ہے ‘ جبکہ سورۃ الکہف بھی اللہ کی تحمید (اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ) سے شروع ہوتی ہے۔ ان دونوں کلمات کا تعلق اس حدیث سے واضح ہوتا ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا: ’’التسبیح نصف المیزان والحمد للّٰہ یملؤہُ‘‘ ’’تسبیح نصف میزان ہے اورالحمدللہ اسے بھر دیتا ہے‘‘۔یعنی سبحان اللہ کہنے سے معرفت خداوندی کی میزان آدھی ہو جاتی ہے اور الحمدللہ کہنے سے یہ میزان مکمل طور پر بھر جاتی ہے۔گویا یہ دونوں کلمات مل کر کسی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے اثاثے کی تکمیل کرتے ہیں۔
(۲) سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مذکور ہے کہ’’اللہ اپنے بندے کو لے گیا‘‘جبکہ سورۃ الکہف کی پہلی آیت میں فرمایا کہ’’اللہ نے اپنے بندے پر کتاب اتاری‘‘۔گویا دونوں مقامات کی باہم متلازم (Reciprocal) نسبت ہے۔
(۳) سورئہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں نبی اکرمﷺ کے لیے ’’رسول‘‘ کے بجائے ’’عبد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
(۴) سورئہ بنی اسرائیل کی آخری دو آیات کا آغاز لفظ ’’قُلْ‘‘ سے ہوتا ہے اور اسی طرح سورۃ الکہف کی آخری دو آیات بھی لفظ ’’قُلْ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ نیز ان دونوں مقامات کی دو دو آیات کے مضامین میں باہم متلازم (Reciprocal) نسبت ہے۔
(۵) یہ دونوں سورتیں ریل کے ڈبوں کی طرح آپس میں جڑی ہوئی(inter-locked)ہیں۔ وہ اس طرح کہ سورئہ بنی اسرائیل کی آخری آیت ایک حکم پر ختم ہورہی ہے : {وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ …} ’’اور کہیے کہ کل حمد اور تعریف اُس اللہ کے لیے ہے …‘‘جبکہ سورۃ الکہف کی پہلی آیت کے مضمون سے یوں لگتا ہے جیسے یہ اس حکم کی تعمیل میں نازل ہوئی ہے:{الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ …}(۳۹)
(۶) دونوں سورتوں کے بارہ بارہ رکوع ہیں اور آیات کی تعداد بھی تقریباً برابر ہے۔
(۷) دونوں کے عین وسط میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے اور اس ضمن میں اس حد تک مشابہت ہے کہ نہ صرف دونوں سورتوں کے ساتویں رکوع کا آغاز اس واقعہ سے ہوتا ہے بلکہ دونوں جگہوں پر واقعہ کی ابتدا بھی ایک آیت سے ہو رہی ہے۔‘‘(۴۰)
سورۃ الصف اور سورۃ الجمعۃ کا جوڑا
سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔
٭آغاز میں ربط و تعلق :
’’ان دونوں سورتوں کے آغاز میں تسبیح کے صیغے ان کی نسبت زوجیت کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔سورۃ الصف کی پہلی آیت میں تسبیح کے ذکر کے لیے ماضی کا صیغہ {سَبَّحَ لِلہِ …} آیا ہے‘جبکہ سورۃ الجمعہ کے آغاز میں مضارع کا صیغہ{یُسَبِّحُ لِلہِ …}۔ فعل مضارع میں زمانہ حال اور زمانہ مستقبل دونوں کامفہوم پایا جاتا ہے۔ اس طرح ان سورتوں کے آغاز کی آیات میں تینوں زمانے (ماضی‘ حال اور مستقبل) اکٹھے ہونے سے تسبیح کے دائمی اور ابدی ہونے کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے‘ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یہ تسبیح ہمیشہ سے ہورہی ہے ‘ ہر دم ہو رہی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہے گی …‘‘(۴۱)
٭مضامین میں ربط وتکمیلی شان:
’’ یہ دونوں سورتیں نبی ﷺکی بعثت کے دو پہلوئوں سے بحث کرتی ہیں۔ان کے مضامین کی تقسیم اس طرح ہے کہ سورۃالصف میں انقلاب کے تکمیلی منہاج (مرحلہ تصادم)‘ جبکہ سورۃ الجمعہ میں اساسی منہاج (مرحلہ تیاری) کا ذکر ہے۔سورۃ الصف کا مرکزی مضمون نبی اکرمﷺ کا مقصد بعثت ہے‘جبکہ سورۃ الجمعہ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس مقصد ِبعثت کے حصول اور اس عظیم مشن کی تکمیل کے لیے آپﷺ کا بنیادی طریقہ کار کون سا تھا۔‘‘ (۴۲)
نوٹ :سورتوں میں نسبت زوجیت کے لیے ضروری نہیں کہ سورتیں مصحف میں ایک ساتھ ہوں یا ایک ہی گروپ میں شامل ہوں‘ کیونکہ نسبت زوجیت کا دارومدار مضمون کی ہم آہنگی پر ہوتا ہے۔ذیل میں ہم ایک ایسی ہی مثال درج کرتے ہیں۔
سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب کی نسبت زوجیت
’’سورۃ النور مکی مدنی سورتوں کے تیسرے گروپ کی واحد مدنی سورت ہےجس کا جوڑا چوتھے گروپ کی واحد مدنی سورت ‘سورۃ الاحزاب ہے۔دونوں سورتوں میں مندرجہ ذیل اعتبارات سے مطابقت پائی جاتی ہے:
(۱) زمانۂ نزول متصل ہے۔سورۃ الاحزاب سن۵ھ میں غزوئہ احزاب کے بعد نازل ہوئی‘جبکہ سورۃ النور سن۶ ھ میں غزوئہ بنی مصطلق کے بعد نازل ہوئی۔
(۲) دونوں سورتوں میں رکوعوں کی تعداد ۹ ہے۔
(۳) دونوں سورتوں کا موضوع ایک ہے یعنی اسلام کے معاشرتی احکامات‘ خصوصاً ستر و حجاب کے احکامات۔ اس حوالے سے سورۃ النور میں گھر کے اندر کے پردے کا ذکر ہے جبکہ سورۃ الاحزاب میں گھر کے باہر کے پردے کا ذکر ہے۔
(۴) دونوں سورتوں میں منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے جنسی بہتانوں کا ذکر ہے۔سورۃ النور میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف اور سورۃ الاحزاب میں نبی اکرمﷺ کے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کرنے کے خلاف۔
(۵) دونوں سورتوں میں منافقین کے کردار کو واضح کیا گیا ہےاور شدید مذمت کی گئی ہے‘دوسری طرف مومنین کی مدح و ستائش کی گئی ہے۔
(۶) دونوں سورتوں کا پانچواں رکوع چھ آیات پر مشتمل ہےاور انتہائی اہم ہے۔ اس میںمو جود آیت ۳۵ (دونوں سورتوں میں) ایمان حقیقی کے موضوع پر انتہائی اہم آیت ہے۔‘‘(۴۳)
سورتوں کا داخلی نظم
محترم ڈاکٹر صاحب ؒ اپنے منہج تفسیر میں نظم قرآن کے حوالے سے سورتوں کے داخلی نظم کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔یعنی :
(۱) قرآن حکیم کی ہر سورت کا ایک خاص مرکزی مضمون ہوتا ہے جو اس سورت کا عمود کہلاتاہے۔
(۲) سورت کی ہر آیت عمود سے تعلق رکھتی ہے۔
(۳) ہر آیت اپنی جگہ اللہ کے علم و حکمت کا ایک خزانہ ہے لیکن جب اسے ایک سلسلہ کلام کی لڑی میں پرو دیا جاتا ہے اور اس کا ربط مرکزی مضمون سے قائم کیا جاتا ہے تو حکمت ومعرفت کے نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔
ذیل میں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:
سورۃ البقرۃ کا داخلی نظم
(۱) سورۃ البقرۃ پہلی مدنی سورت ہے ۔
(۲) اس سورت کا جوڑا سورۃ آل عمران ہےاور ان دونوں سورتوں کو نبی اکرمﷺ نے ’’الزھراوین‘‘ کا نام دیا ہے۔
(۳) سورۃ البقرۃ جس گروپ میں شامل ہے اس کا مرکزی مضمون ’’احکامِ شریعت‘‘ ہے۔
ـ(۴) سورۃ البقرۃ ’’سورۃ الامتین‘‘یعنی دو امتوں والی سورت کہلاتی ہے۔اس کے نصف اول میں اصل روئے سخن امت سابق یہود کی طرف ہے‘جو اُس وقت اللہ کے نمائندے تھے اور زمین پر وہی اُمت مسلمہ کی حیثیت رکھتے تھے‘لیکن انہوں نے اپنی بد اعمالی کی وجہ سے اپنے آپ کو اس مقام کا نا اہل ثابت کیا‘ لہٰذا وہ معزول کیے گئے اور ایک نئی اُمّت‘اُمّت ِ محمدیہﷺ اس مقام پر فائز کی گئی ۔چنانچہ نصف ثانی میں خطاب اُمّت ِ محمدیہﷺسے ہے اور اس اُمت کی تاج پوشی کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نئی شریعت عطا کی جا رہی ہے۔
(۵) اس کا ربط اپنے گروپ کے مرکزی مضمون سے یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ میں احکام شریعت کی ابتدا ہے ـ(جسے ڈاکٹر صاحب جدید اصطلاح میں شریعت ِمحمدیؐ کا بلیوپرنٹ بھی کہتے ہیں)۔ پھر سورۃ النساء میں اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور سورۃ المائدۃ میں شریعت کے تکمیلی احکامات آتے ہیں ‘یعنی سورۃ المائدۃ تکمیل شریعت کی سورت ہے۔
(۶) مضامین کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ نصف اول کے ۱۸رکوع ہیں۔ان کی تقسیم عمودی (vertical)ہے۔ ان ۱۸رکوعوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے چار رکوع تمہیدی ہیں۔پھر دس رکوع میں بنی اسرائیل سے خطاب ہے۔پھر چار رکوع تحویلی(یعنی تحویل قبلہ سے متعلق ) ہیں۔
نصف آخر کے ۲۲ رکوع ہیں۔ ان کی تقسیم افقی (horizontal)ہے۔ اس حصےمیں چار مضامین تانے بانے کی طرح بُنے ہوئے ہیں: عبادات‘ احکامِ شریعت یعنی حلال و حرام (خاص طور پر عائلی قوانین) ‘انفاق فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ۔ (۴۵)
ان مضامین کو ایک خوبصورت مثال کے ذریعے بیان کرتے ہوئےڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’اب ان چاروں مضامین یا چار لڑیوں کو ایک مثال سے سمجھیے۔فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے‘ایک پیلی ہے‘ایک نیلی ہےاور ایک سبز ہے‘اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔پہلےسرخ ‘پھر پیلا ‘پھر نیلااور پھر سبز نظر آئےگا۔لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔‘‘ (۴۶)
سورۃ الصف کا داخلی نظم
(۱) سورۃ الصف مدنی سورت ہے اور اپنے زمانہ نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کے نصف آخر کی سورت ہے۔
(۲) سورۃ الصف کا جوڑا سورۃ الجمعۃ ہے۔سورۃ الصف میں سیرت النبیﷺ کا ایک رُخ بیان ہوا ہے‘ یعنی نبی اکرمﷺ کا مقصد بعثت:غلبہ ٔدین حق۔ سورۃ الجمعۃ میں سیرت النبیﷺ کا دوسرا رخ بیان ہوا‘ یعنی غلبہ دین کے لیے نبی اکرمﷺ کا اساسی طریقہ کار۔
(۳) یہ چھٹے گروپ کی دس مدنیات میں شامل ہے۔ان دس مدنیات میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور کفار کا ذکر ضمنی طور پر ہے‘ جبکہ اہل کتاب کا ذکر بطور عبرت ہے۔
(۴) چھٹے گروپ کا مرکزی مضمون ایمان بالآخرۃ ہے۔
(۵) سورۃ الصف کا عمود آیت ۱۳ ہے جس میں نبی اکرمﷺ کا مقصد بعثت بیان ہوا ہے۔یوں یہ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔
(۶) مضامین کے اعتبار سے سورۃ الصف کی آیات کا تجزیہ اس طرح ہے:
آیات ۱ تا ۴ :غلبہ ٔ دین حق کے لیے جہاد کی دعوت ‘ترہیب کے انداز میں۔
آیات ۵ تا ۸ :تاریخ بنی اسرائیل کے تین ادوار۔غلبہ ٔدین حق کے لیے جہاد سے اعراض کا بیان بطور عبرت۔
آیت۹: نبی اکرمﷺ کا مقصد بعثت ‘یعنی غلبہ ٔ دین حق۔
آیات ۱۰ تا ۱۳ :غلبہ ٔدین حق کے لیے جہاد کی دعوت‘ترغیب کے انداز میں۔
آیت ۱۴:غلبہ دین حق کی خاطر جہاد کرنے والوں کے لیے عظیم سعادت ‘اللہ کے مدد گار ہونے کا اعزاز۔
(۷) اپنے گروپ کے مرکزی مضمون سے ربط یہ ہے کہ اس سورہ میں آخرت کی کامیابی کواللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے اور جہاد کرنے سے مشروط قرار دیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)} (۴۷)
سورۃ التغابن کا داخلی نظم
(۱) سورۃ التغابن نظم قرآن کے لحاظ سے ایک شاہکار سورت ہے۔
(۲) اس کا جوڑا سورۃالمنافقون ہے۔
(۳) اس کا مرکزی مضمون ’’ایمان حقیقی اور اس کے ثمرات‘‘ہے۔آیات کے تجزیہ سے نظم قرآن کا اسلوب نمایاں ہوتاہے۔
(۴) آیات کی تقسیم کچھ یوں ہے:
رکوع اول (۱۰ آیات) کی ذیلی تقسیم : ۷ آیات
وضاحت ایمان‘ پھر ۳ آیات دعوت ایمان۔
رکوع دوم (۸ آیات) کی ذیلی تقسیم : ۵ آیات ایمان کے ثمرات و تقاضے ‘پھر تین آیات ایمان کے تقاضے ادا کرنے کی دعوت۔ (۴۸)
نتائج بحث
مندرجہ بالا توضیحات سے یہ بات سامنے آتی ہےکہ محترم ڈاکٹر صاحبؒ کے منہج تفسیر میں نظم قرآن کی اہمیت بنیادی نوعیت کی ہے۔آپ نظم قرآن کے تحت ترتیب وتقسیم آیات و سور میں‘سورتوں کے گروپس اور ان گروپوں کے مرکزی مضامین کا ذکر فرماتے ہیں۔گروپ میں شامل سورتوں کا گروپ کے مرکزی مضمون سےربط و تعلق واضح فرماتے ہیں۔پھر سورتوں میں نسبت زوجیت کےمختلف پہلو اُجاگر فرماتے ہیں۔آغازواختتام میں یکسانیت‘ درمیانی مضامین میں مشابہت‘اسلوبِ سور میں یکسانیت و مشابہت‘ترتیب و تقسیم آیات میں باہمی مشابہت و مقاربت‘اور الفاظ و جملوں کی مشاکلت ومشابہت واضح فرماتے ہیں۔
اس کے بعدسورت کا داخلی نظم آپ کے منہج تفسیر میں اہمیت کا حامل ہے۔سورت کا مرکزی مضمون یا عمود ذکر کرنے کے بعد آیات کا عمود کےساتھ ربط اور آیات کا باہمی ربط بیان فرماتے ہیں۔ پھر مضامین کے اعتبار سے آیات کی تقسیم و ترتیب واضح فرماتے ہیں۔ نظم قرآن کےحوالے سے معرفت وحکمت کے نئے خزانوں کاذکر فرماتے ہیں۔ گویا آپ کے دروس قرآن ہوں یا آپ کی تفسیر بیان القرآن دونوں میں نظم قرآن کا پہلو ایسا نمایاں اور واضح ہے کہ سورہ سے قبل ‘اس کے دوران اوراختتامِ سورہ پر جگہ جگہ یہی انداز نظرآتا ہے۔
حوالہ جات
(۱) کیرانوی‘ قاسمی‘ وحید الزماں‘ القاموس الجدید : ۸۹۷‘ ادارہ اسلامیات‘ ۱۴۱۰ھ
(۲) لوئیس معلوف‘ المنجد : ۹۰۴‘ مکتبہ قدوسیہ لاھور ‘ ۲۰۰۲ء
(۳) لوئیس معلوف‘ المنجد :۸۸۸‘ مکتبہ قدوسیہ لاھور ‘ ۲۰۰۲ء
(۴) کیرانوی‘ قاسمی‘ وحید الزماں‘ القاموس الجدید :۸۸۷‘ ادارہ اسلامیات‘ ۱۴۱۰ھ
(۵) السیوطی’ عبدالرحمٰن بن ابی بکر‘جلال الدین’ الاتقان فی علوم القرآن۲ : ۳۷۱ الھئۃ العصریۃ‘ ۱۳۹۴ھ / ۱۹۷۴ء
(۶) القطان‘ مناع بن خلیل‘ مباحث فی علوم القرآن:۹۶‘ مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۱۴۲۱ھ
(۷) ابو العلاء‘عادل بن محمد‘ مصابیح الدرر فی تناسب آیات القرآن الکریم والسور :۱۸ الجامعۃ الاسلامیۃ‘ المدینۃ المنورۃ:۱۴۲۵ھ
(۸) مباحث فی علوم القرآن‘ ۹۶۔
(۹) الفراھی‘ حمید الدین ابو احمد عبد الحمید الانصاری‘دلائل النظام:۷‘ الدائرۃ الحمیدیہ‘اعظم گڑھ‘۱۳۸۸ھ ۔
(۱۰) مصابیح الدرر فی تناسب آیات القرآن الکریم والسور:۱۸

(۱۱) مباحث فی علوم القرآن:۹۶۔
(۱۲) الاتقان فی علوم القرآن:۳۷۶

(۱۳) مجموعہ تفاسیر فراھی:۴۷‘۴۶۔
(۱۴) اسرار احمد‘ڈاکٹر بیان القرآن‘ج۱‘ص۱۲ انجمن خدام القرآن سرحد‘پشاور‘۲۰۰۸ء
(۱۵) بیان القرآن‘ج۱ ص ۶۱۔

(۱۶) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص ۱۹۹۔
(۱۷) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص۱۹۴‘۱۹۵۔

(۱۸) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص ۲۰۱‘۲۰۲۔
(۱۹) بیان القرآن‘ ج۳ ‘ ص ۱۰۔

(۲۰) بیان القرآن‘ ج۳‘ ص ۲۰۷۔
(۲۱) بیان القرآن‘ ج۴‘ ص ۷‘۱۰۳۔

(۲۲) بیان القرآن‘ ج۵‘ ص ۱۹۵۔
(۲۳) بیان القرآن‘ج۵‘ ص ۲۴۱۔

(۲۴) بیان القرآن‘ ج۶‘ ص ۶‘۷۔
(۲۵) بیان القرآن‘ ج۶‘ ص ۲۳۸‘۲۳۷‘۱۹۸‘۱۹۷۔

(۲۶) بیان القرآن‘ ج۶‘ ص ۲۳۸
(۲۷) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۱۲۱‘۱۱۸۔

(۲۸) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۴۸۲۔
(۲۹) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۲۱۵۔

(۳۰) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص ۶۳‘۶۲۔
(۳۱) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص ۲۰۰۔

(۳۲) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص ۷۔
(۳۳) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص۷

(۳۴) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص۷
(۳۵) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص۷۸۹۔

(۳۶) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص ۱۱۸
(۳۷) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص۱۱۸۔

(۳۸) بیان القرآن‘ ج۲‘ ص۱۱۹۔
(۳۹) بیان القرآن‘ ج۴‘ ص ۲۸۱‘۲۸۲۔

(۴۰) بیان القرآن‘ ج۴‘ ص ۳۴۱۔
(۴۱) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۲۱۵۔

(۴۲) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۲۳۱۔
(۴۳) بیان القرآن‘ ج۶‘ ص۷۔

(۴۴) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص۲۰۲۔
(۴۵) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۶۲۔

(۴۶) بیان القرآن‘ ج۱‘ ص۶۳‘۲۶۲۔
(۴۷) ڈاکٹر‘ اسرار احمد‘ منتخب نصاب‘ ج۲‘ ص ۱۳۹‘۸۸‘۷۴‘ مرکزی انجمن خدام القرآن‘ لاھور‘۲۰۱۰ء
(۴۸) بیان القرآن‘ ج۷‘ ص ۲۵۶۔