(تعلیم و تعلم) مِلاکُ التأویل(۳۳) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

10 /

مِلاکُ التأوِیل (۳۳)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن

 

سُورۃُ النَّحْل(۲۱۲) آیت ۳۴
{فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ (۳۴)}
’’پس انہیں ان کے بُرے اعمال کے نتیجے مل گئے اور جس کی ہنسی وہ اُڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔‘‘
اور سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
{فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْاط} (آیت۵۱)
’’پس انہیں ان کی کمائی کے نتیجے مل گئے۔‘‘
یہاں ’’مَا عَمِلُوْا‘‘ اور ’’مَاکَسَبُوْا‘‘ دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ دونوں کا مطلب ایک جیسا ہے۔ اور اس کا سبب پہلے جو آیات آئی ہیں ان سے مناسبت ہو سکتی ہے۔ سورۃ النحل کی آیت میں مشرکین کے بارے میں کہاگیا: {الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ص فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓئٍ ط بَلٰٓی اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۸)}’’وہ جن کی فرشتے اَرواح قبض کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں ‘تو پھر وہ جھک جاتے ہیں (اور کہتے ہیں )کہ ہم تو کوئی بُرائی نہیں کرتے تھے۔ نہیں! اللہ بے شک جانتا ہے جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔‘‘
اس کے بعد کلام کا رُخ کُفّارِ عرب کی طرف موڑ دیا کہ آیا وہ بھی اسی وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب فرشتے ان کی رُوح قبض کرنے کے لیے آئیں گے ‘جیسے کہ پہلے والوں نے کیا تھا؟ فرمایا: {ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ ط کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط}(آیت۳۳)’’کیا وہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ فرشتے ان تک پہنچیں یا تیرے ربّ کا حکم نازل ہو جائے۔ پچھلے والوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔‘‘یعنی جیسے انہوںنے کہا تھا : {مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓئٍ ط’’ہم تو کوئی بُرائی نہیںکرتے تھے۔‘‘ اور اسی سیاق میں پھر کہا گیا:{فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْاط’’پس انہیں ان کے اعمال کی بُرائیوں نے آ لیا۔‘‘تو اس طرح سورۃ النحل کی آیت میں ’’مَا عَمِلُوْا‘‘ کا لایا جانا بالکل مناسب تھا۔
اب رہی سورۃ الزمر کی آیت تو اس سے قبل کی آیات ملاحظہ ہوں:
{وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ    ۭ وَبَدَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ (۴۷) }
’’اوراگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو رُوئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو تو بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں گے‘ اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہو گا جس کا انہیں گمان بھی نہ تھا۔‘‘
{وَبَدَا لَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ (۴۸) }
’’اور ان کے لیے جو کچھ انہوں نے کمایا تھا اس کی بُرائیاں ظاہر ہو گئیں اور انہیں گھیر لیا ان چیزوں نے جن کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔‘‘
اور پھر ایک آیت کے بعد فرمایا:{قَدْ قَالَہَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(۵۰)} ’’اور ان سے اگلے بھی یہی بات کر چکے ہیں تو ان کے کچھ کام نہ آیا جو کچھ کمائی وہ کر رہے تھے۔‘‘ اور اس کے بعد انہی آیات کی مناسبت سے ’’مَاکَسَبُوْا‘‘ کے الفاظ ہی اگلی آیت میں لائے گئے: {فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْاط وَالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ ہٰٓؤُلَآئِ سَیُصِیْبُہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْالا وَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِینَ(۵۱)} ’’تو پھر جو کمائی انہوں نے کی تھی اس کی برائیوں نے انہیں آ لیا‘ اور ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انہیں بھی ان کی کمائی کی برائیاں آلیں گی اور وہ ہمیں عاجز کرنے والے نہیں۔‘‘
اور یوں ظاہر ہوگیا کہ سورۃ النحل کی آیات میں ’’وَمَا عَمِلُوْا‘‘ اور سورۃ الزمر میں ’’وَمَا کَسَبُوْا‘‘ کی تکرار سیاق و سباق کے اعتبار سے ہے۔ واللہ اعلم!
(۲۱۳) آیات ۵۳ تا ۵۵
{ وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ(۵۳) ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْکُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُوْنَ(۵۴) لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰہُمْط فَتَمَتَّعُوْاقف فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (۵۵)}
’’تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں ‘ پھر جب تمہیں کوئی دُکھ پہنچتا ہے تو تم اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہو ۔ پھر جب وہ اس دُکھ کو تم سے دُور کر دیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنا شروع کر دیتا ہے ۔تاکہ وہ اس کی ناشکری کرے جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ۔ تو پھر مزے اڑا لو‘ پس عنقریب تم جان لو گے۔‘‘
اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا:
{فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڬ فَلَمَّا نَجّٰىھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ(۶۵) لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ ڌ وَلِیَتَمَتَّعُوْا ۪ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (۶۶)}
’’ پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے۔ تو جب وہ انہیں خشکی کی طرف لا کر نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ شرک کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ تاکہ وہ ناشکری کریں ان تمام چیزوں کی جو ہم نے انہیں عطا کیں ‘اور تاکہ وہ مزے اڑا سکیں‘ تو پھر عنقریب وہ جان لیں گے۔‘‘
اور سورۃ الروم کے الفاظ یہ ہیں:
{لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ ط فَتَمَتَّعُوْاوقفہ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۳۴)}
’’تاکہ و ہ ناشکری کریں ان سب چیزوں کی جو ہم نے انہیں عطا کیں ۔تو پھر مزے اڑا لو ‘پس عنقریب تم جان لوگے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ العنکبوت کی آیت میں لام کے ساتھ ’’ لِیَتَمَتَّعُوْا‘‘ (تاکہ وہ مزے اُڑائیں) کہا گیا ہے اور باقی دونوں سورتوں میں فاء کے ساتھ ’’فَتَمَتَّعُوْا‘‘ (پس وہ مزے اُڑائیں) کہا گیا ہےتو کیا ان آیات میں ایسا کوئی فرق ہے کہ جس کی وجہ سے ان دونوں آیات میں لام نہیں لایا گیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ سورۃ العنکبوت کی آیت کے آخر میں صیغہ عموم کے ساتھ کہا گیا :{اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ(۶۵)} ’’تو وہ پھر شرک کرنے لگے۔‘‘جب کہ دونوں دوسری آیات میں صیغہ خاص کے ساتھ کہا گیا:{اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْکُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُوْنَ(۵۴)} ’’تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگا۔‘‘
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ لام مذکور اس لیے لایا گیا ہے کہ اس سے ایک قسم کی دھمکی مقصود ہے۔ جیسے سورئہ ہود میں شعیب علیہ السلام کا قوم سے یہ خطاب نقل کیا گیا ہے :{اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌط} (آیت۹۳) ’’تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو‘ مَیں بھی عمل کرتا رہوں گا‘‘اور سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا : {وَمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ} (آیت۲۹) ’’اور جو چاہے سو کفر کرتا پھرے‘‘۔یعنی ان دونوں آیات کے طرزِ خطاب میں کُفّار کو دھمکی دی گئی ہے کہ تم مصیبت کے عالم میں ہمیں پکارتے ہوتو ہم تمہاری مدد کرتے ہیں اور تمہاری مصیبت سے تمہیں نکال دیتے ہیں‘ لیکن دوبارہ پھر تم شرک کرنے لگتے ہو تو پھر جائو اور دنیا کے مزے اڑائو۔تم خود ہی اپنا انجام دیکھ لو گے!
اب آیئے دوسرے سوال کی طرف ‘ سورۃ النحل کی آیت میں خطاب تو عام ہے‘ کہا جا رہا ہے:’’اور تم پر جو بھی نعمتیں ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں‘ پھر جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو تم اسی کی طرف پناہ طلب کرتے ہو اور جب وہ تم سے یہ مصیبت ہٹا دیتاہے تو تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘
سورۃ الروم کی آیت میں بھی اس سے ملتا جلتا مضمون ہے:
{ وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّہُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَہُمْ مِّنْہُ رَحْمَۃً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُوْنَ(۳۳)}
’’اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں‘ اسی کی طرف جھکتے ہوئے‘ پھر جب وہ انہیں اپنی طرف سے رحمت سے نوازتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیتا ہے ۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ خطاب عام ہے ‘اور چونکہ اس کے مخاطب بہت سے لوگ ہیں اس لیے اس خطاب کے سننے والے ہر طرح کا ردّ ِعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنی حالت ِزار کے بارے میں متفکر ہوں گے توکچھ لوگ اس کی مخالفت کریں گے‘ اس لیے سورۃ النحل اور سورۃ الروم دونوں میں اس بات کی صراحت کر دی گئی کہ ان میں سے کچھ لوگ پھر بھی باز نہیں آئیں گے بلکہ شرک میں مبتلا رہیں گے‘ یعنی کچھ دوسرے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو شرک نہیں کریں گے ۔ پھر بعد میں جو دھمکی آمیز کلمات کہے گئے‘ ان کے مخاطب پہلے گروہ کے لوگ ہی ہوں گے ‘تاہم چونکہ خطاب عام ہے تو گویا یہ ڈراوا ہے جو سب کو دیا جا رہا ہے لیکن ہے انہی کے لیے جو اپنے شرک پر ڈٹے رہے۔
سورۃ العنکبوت میں ایک خاص تمثیل ذکر کی جا رہی ہے اور وہ ان چند لوگوں کی ہے جو کشتی میں سوار ہیں‘ بھنورمیں پھنس جاتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی التجائوں کو سن لیتا ہے اور انہیں مصیبت سے نجات دے دیتا ہے‘ لیکن وہ دوبارہ شرک کی طرف عود کر آتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا گروہ ہے جس کی تمثیل بیان کی جا رہی ہے اس لیے یہاں سب کے سب مراد ہیں‘ یعنی جو دھمکی آخر میں دی گئی ہے وہ سب کے لیے ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ آیت باقی دونوں سورتوں سے ایک مختلف انداز رکھتی ہے اور اسی لیے اندازِ بیان میں بھی اختلاف واقع ہوا۔ واللہ اعلم!
(۲۱۴) آیت ۶۰
{وَلِلہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۶۰)}
’’اور اللہ ہی کے لیے برتر مثال ہے ۔اور وہ غلبہ رکھتا ہے ‘حکمت والا ہے۔‘‘
اور سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:
{وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۲۷)}
’’اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے برتر مثال ہے ۔اور وہ غلبہ والا ‘ حکمت والا ہے۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الروم کی آیت میں بمقابلہ سورۃ النحل ’’فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘کا اضافہ ہے‘ حالانکہ یہ بات سورۃ النحل کی آیت سے بھی سمجھی جا سکتی ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ النحل کی آیت سے قبل یہ الفاظ تھے :{لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْئِ ج} ’’جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ایک بری مثال ہے۔‘‘اس کے مقابلے میں کہا گیا:{وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی}’’اور اللہ کے لیے تو برتر مثال ہے‘‘۔اور چونکہ اس سے قبل آسمانوں اور زمین کا ذکر نہیں تھا اس لیے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا۔
سورۃ الروم کی مذکورہ آیت سے قبل فرمایا:
{وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ (۲۶)}
’’اور اُس کے لیے ہےجو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے‘ ہر ایک اُس کا اطاعت گزار ہے۔ ‘‘
پھر اس کے بعد ارشاد ہوا:
{وَھُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہِ ۭ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ }
’’وہی اللہ ہے جو خلق کو شروع کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ لوٹاتا ہے اور یہ کام اس کے لیے بہت آسان ہے۔ اور اسی کے لیے آسمانوں اور زمین میں برتر مثال ہے۔‘‘
اور یوں واضح ہو گیا کہ دونوں آیات میں اپنی اپنی جگہ پوری مناسبت پائی جاتی ہے۔
(۲۱۵) آیت ۶۱
{وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج }
’’اور اگر اللہ لوگوںکو ان کے ظلم کی بنا پر گرفت کرتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو بھی نہ چھوڑتا ‘لیکن وہ انہیں ایک مقررہ وقت تک ڈھیل دیتا ہے۔‘‘
اور سورۃ الملائکہ(فاطر) میں ارشاد فرمایا:
{وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَھْرِھَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ}(آیت۴۵)
’’اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کیے کرائے اعمال پر گرفت کرتا رہتا تو روئے زمین پر کوئی ایک جانور کو بھی نہ چھوڑتا ‘لیکن وہ انہیں ایک مقررہ وقت تک ڈھیل دیتا ہے۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں: پہلی آیت میں ’’بِظُلْمِہِمْ‘‘ (ان کے ظلم کی بنا پر) اور دوسری آیت میں ’’بِمَا کَسَبُوْا‘‘ (جو کچھ انہوںنے کمائی کی) کے الفاظ ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پہلی آیت میں ’’عَلَیْہَا‘‘(اُس یعنی زمین پر) اور دوسری آیت میں ’’عَلٰی ظَھْرِھَا‘‘ (اس کی پیٹھ پر) کہا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
جواباً عرض ہے کہ سورۃ النحل کی آیت سے پہلے ارشاد ہوا:
{وَاِذَا بُشِّرَاَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ (۵۸) یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ۭ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ۭ }
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتاہے اور وہ جی ہی جی میں گھٹتا رہتا ہے۔ لوگوں سے چھپا پھرتا ہے کہ کیسی بری خوشخبری اسے بتائی گئی ہے۔ (اور سوچتا ہے کہ) کیا اسے ذلت کے ساتھ رہنے دوں یا اسے مٹی میں دبا دوں!‘‘
یہ اشارہ ہے عرب جاہلیت کی اس بُری روایت کی طرف کہ وہ بچی کی ولادت پر ہرگز خوش نہ ہوتے تھے بلکہ اسے زندہ دفن کرنے کے درپے ہوجاتے تھے‘حالانکہ اس بچی کا نہ کوئی جرم تھا اور نہ کوئی ادنیٰ شبہ بھی کہ جو اس کے قتل کے لیے جواز کا باعث بنتا۔ اور اس مناسبت سے یہاں ظلم کا لفظ لایا گیا۔
’’عَلَیْہَا‘‘ میں ضمیر زمین کی نسبت سے لائی گئی ہے جو سیاقِ کلام سے سمجھی جا سکتی ہے اور ان کا جرم اتنا بڑا تھا کہ اس کے لیے ظلم کا صراحت کے ساتھ ذکر کرنا ضروری تھا۔ جہاں تک سورۃ الملائکہ (یا سورۃ فاطر) کا تعلق ہے تو مذکورہ آیت سے ماقبل ایسے کسی جرم کا بیان نہیں ہوا ‘بلکہ یہ الفاظ آئے ہیں:
{وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَھْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَاۗءَھُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَھْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَھُمْ اِلَّا نُفُوْرًا(۴۲)}
’’اور ان کافروں نے بڑی زوردار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آیا تو وہ کسی بھی اُمّت سے زیادہ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ لیکن جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آگیا تو ان کی نفرت میں ہی اضافہ ہوا۔‘‘
{اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّءِ ۭ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّءُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ۭ فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ۚ } (آیت۴۳)
’’زمین میں تکبر کرتے ہوئے اور برائی کا دائو لگاتے ہوئے۔ اور بُرادائو اس کے کرنے والے ہی کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ تو کیا پھر وہ اگلے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اسی کے انتظار میں ہیں۔‘‘
اب یہاں ان کی چند بُری صفات اور بُرے اعمال کی طرف اشارہ ہے‘ اس لیے ’’بِمَا کَسَبُوْا‘‘ کہہ کر ان کے کرتوتوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور پھر’’مَا تَرَکَ عَلٰی ظَھْرِھَا‘‘ (اور نہیں چھوڑا کسی بھی جاندار کو اس کی پیٹھ پر) کے الفاظ زمین کے لیے لائے گئے ۔دونوں جگہ مضمون ایک ہی ہے ‘لیکن سورۃ النحل میں فردِ جرم کے لیے صرف ایک لفظ (ظلم)لایا گیا کہ وہاں ایک خاص ظالمانہ گناہ کا تذکرہ تھا۔اور اس مناسبت سے صرف ’’عَلَیْہَا‘‘کا مختصر لفظ لایا گیا‘ جب کہ سورۃ فاطر میں مضمون بھی طویل تھا‘ اس لیے فردِ جرم کے لیے بھی دو لفظ ’’بِمَا کَسَبُوْا‘‘ لائے گئے اور زمین کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بھی ’’عَلٰی ظَھْرِھَا‘‘کہہ کر الفاظ میں اضافہ کیا گیا ۔یہ بات ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ دو مماثل آیات میں جہاں اندازِ بیان مختصر ہو وہاں  سیاقِ کلام میں الفاظ بھی کم لائے جاتے ہیں اور جہاں بیان میں پھیلائو ہو تو وہاں الفاظ کی بھی فراوانی ہوتی ہے۔
(۲۱۶) آیات ۶۵ تا ۶۹
{وَاللہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَاط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ (۶۵)}
’’اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو زندہ کیااس کی موت کے بعد۔ بے شک اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔‘‘
{وَاِنَّ لَـکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃًط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ  بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ(۶۶) }
’’اور بے شک تمہارے لیے چوپایوں میں بڑے غور و فکر کا مقام ہے۔ ہم تمہیں پلاتے ہیں جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے‘ اس سے خون اور گوبر کے درمیان میں سے وہ دود ھ جو خالص اور پینے والوں کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔‘‘
{وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًاط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۶۷) }
’’اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے تم نشہ بھی بناتے ہو اور اچھی کمائی بھی۔ بے شک اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جوعقل رکھتے ہیں۔‘‘
{وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ(۶۸) }
’’اورآپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کو یہ سجھا دیا کہ وہ پہاڑوں میں اپنے گھر بنائے‘ اور درختوں میں بھی اور ان چھپروں میں بھی جو لوگ بناتے ہیں۔‘‘
{ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًاط یَخْرُجُ مِنْ  بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (۶۹) }
’’ پھر (کہاکہ) تمام پھلوں میں سے کھا اور پھر اپنے رب کی آسان راہوں میں چلتی پھرتی رہ۔ ان کے پیٹوں میں سے ایسا مشرو ب نکلتا ہے جس کے طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں اور اس میں لوگوں کے لیے شفا ہوتی ہے۔ بے شک اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔‘‘
ان پانچ آیات میں تین سوال ابھرتے ہیں۔دیکھا جائے تو مضمون کے اعتبار سے یہ تین مجموعہ آیات ہیں:
آیت ۶۵ جس کے آخر میں {لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ} لایا گیا۔
آیت ۶۶ اور ۶۷ جس کے آخر میں {لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ} لایا گیا۔
آیت ۶۸ اور ۶۹ جس کے آخر میں {لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ} لایا گیا۔
پہلا سوال: تینوں مجموعہ آیات کے آخر میں ’’اٰیَۃً‘‘ صیغہ مفرد کے ساتھ لایا گیا ہے حالانکہ دوسرے مجموعہ آیات میں ایک سے زائد نعمتیں بیان ہوئی ہیں‘ یعنی مادہ جانوروں کے دودھ کا ذکر ہے اور پھر پھلوں میں سے نشہ آور مشروب بنانے اور اچھا رزق حاصل کرنے کا ذکر ہے۔
دوسرا سوال : تینوں آیات کے اختتامی کلمات (یَسْمَعُوْنَ ‘ یَعْقِلُوْنَ ‘ یَتَفَکَّرُوْنَ) مختلف ہیں۔
تیسرا سوال : {نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ} یہاں لفظ ’’ بُطُوْنِہٖ‘‘میں ضمیر مذکر ہے جو لفظ ’’الْاَنْعَامِ‘‘ کی طرف لوٹتی ہے جو کہ جمع ہے۔ اور اس کے بالمقابل سورۃ المؤمنون میں کہا گیا:
{وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا} (آیت۲۱)
’’اور تمہارے لیے چوپایوں میں سامانِ غور و فکر ہے۔ ہم تمہیں پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے۔‘‘
یہاں ’’بُطُوْنِہَا‘‘ میں ضمیر مؤنث لائی گئی ہے جو لفظ ’’الْاَنْعَامِ‘‘ کی طرف لوٹتی ہے ‘ تو یہ فرق کیوں ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ دوسر ےمجموعہ آیات میں گو دو نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ‘لیکن آخر میں {لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ} کہہ کر اشارہ دوسری نعمت کی طرف ہے اور وہ ہے کھجور اور انگور سے نشہ آور مشروب کشید کرنا اور اسے بطور رزق استعمال کرنا۔ اور جہاں تک پہلی نعمت کا تعلق ہے یعنی چوپایوں کے پیٹوں میں سے گوبر اور خون کے درمیان میں سے خالص اور خوشگوار مشرو ب دودھ کی شکل میں نکالا‘ تو اس کی طرف تو آیت کے آغاز ہی میں ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کر دیا گیا تھا : { وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط}’’تمہارے لیے چوپایوں میں سامانِ عبرت (یعنی مقامِ غور و فکر) ہے‘‘ تو اس لیے لفظ ’’اٰیۃً‘‘ کی جگہ ’’اٰیٰت‘‘ لانے کی چنداں ضرورت نہ تھی‘ اور یوں تینوں مجموعہ آیات میں ایک ایک نعمت کو بطور نشانی بیان کیا گیا۔پہلی آیت میںآسمان سے پانی اتارے جانے کی طرف اشارہ ہے اور تیسری آیت میں شہد کی مکھی کی طرف اس قدرت کے ودیعت کیے جانے کا تذکرہ ہوا کہ جس کے بموجب وہ پھلوں کا رس چوس چوس کر شہد کے چھتے بناتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر تین آیات میں ایک ایک نعمت کا ذکر ہوا ہے اور اگر کچھ تفصیلی بیان بھی ہوا ہے تو وہ اس نعمت کا حال یا اس کے وصف کے طور پر ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت کے اختتام پر کہا گیا:
{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ (۶۵)}
’’اس میں نشانی ہے ایسے لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔‘‘
اس آیت سے قبل ارشاد ہوا تھا:
{ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ}
’’اور(اے نبیﷺ!) ہم نے آپ پرکتاب نہیں اتاری مگر اس لیے کہ آپ انہیں کھول کھول کر بتائیں وہ تمام باتیں جن میں انہوں نے اختلاف کیا۔‘‘
اور پھر کہا:
{وَہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴) }
’’اور اسے ہدایت اور رحمت بنایا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘
کتاب کا اتارنا‘ پانی کے اتارنے کے ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا۔ کتاب کو بندوں کے لیے رحمت قرار دیا اور ایسے ہی پانی کو بھی رحمت کہا گیا۔ اور پھر اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ جیسے آسمان سے اترنے والا پانی تمہارے لیے باعث ِرحمت ہے ایسے ہی کتاب کے ضمن میں جو کچھ اتارا گیا وہ بھی تمہارے لیے رحمت کا موجب ہے‘ اور ان دونوں چیزوں کے درمیان جو مماثلت ہے‘ اُسے سمجھنے کے لیے زیادہ غو ر وفکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جس طرح مردہ زمین پانی کی بوچھاڑ سے لہلہا اٹھتی ہے‘ اسی طرح وحی سماوی سے مُردہ دل جاگ اٹھتے ہیں۔
نازل شدہ کتاب سے کیسے فائدہ اٹھایا جاتا ہے؟ صرف اس کے سننے سے! اور اسی لیے کُفّار لوگوں کو قرآن کے سننے سے منع کیا کرتے تھے:{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ} (حٰمٓ السجدۃ:۲۶) ’’اور کافروں نے کہا اس قرآن کو نہ سنو!‘‘اور پھر جنوں کا یہ قول نقل کیاگیا جو قرآن سن کر ہدایت پا گئے تھے:{اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(۱) } (الجن) ’’ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔‘‘اور اس قرآن کی سماعت سے وہی متاثر ہوتا ہے جو اس سے بھاگ نہ رہا ہو بلکہ کان لگا کر سن رہا ہو۔ اور ایسا ہی شخص جب آسمان سے پانی اتارے جانے کے بارے میں سنے گا تو اس سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کرے گا۔ اس لحاظ سے آیت کے آخر میں ’’لِقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ‘‘ کا کہنا بالکل مناسب تھا کہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنتے ہیں۔ واللہ اعلم!
جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو اس میں کھجور اور انگور سے شراب کشید کرنے اور رزقِ حسن حاصل کرنے کا بیان ہے۔ کیا حواس سے یا صرف غور و فکر سے اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے ؟ چنانچہ یہاں آخر میں ’’لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ کہا گیا کہ ایسی بات جس کی علت (سبب) معلوم نہ ہو بشرطیکہ وہ ناممکنات میں سے نہ ہو‘ ایسی بات کہ بشر اس کے فہم سے عاجز ہوں‘ صرف اللہ تعالیٰ ہی اسے جانتا ہو‘تو پھر عقل کے ذریعہ ہی اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
رہی تیسری آیت کہ جس میں شہد کی مکھی اور اس کے کارناموں کا ذکر ہے تو وہ قابل مشاہدہ چیز ہے او راس میں غور و فکر کرنے کا بہت بڑا موقع ہے اور اس نسبت سے آیت کے آخر میں ’’لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ‘‘ کا ذکر کیا گیا۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’ بُطُونِہٖ‘‘ میں ضمیر مذکر ’’الانعام‘‘ (چوپایوں) کی طرف لوٹتی ہے۔ بقول سیبویہ لفظ ’’الانعام‘‘ اہل عرب کے ہاں مذکر بھی بولا جاتا ہے یعنی ’’ھو الانعام‘‘ کی ترکیب بھی موجود ہے۔ یہاں اشارہ جنس انعام کی طرف ہے۔ اس کے بالمقابل سورۃ المؤمنون میں عام عربی قاعدے کے مطابق جمع مکسر کو مؤنث مانا جاتا ہے اس لیے الانعامجو کہ جمع مکسر ہے اس کے لیے ’’بُطُوْنِھَا‘‘ میں ضمیر مؤنث لائی گئی ہے اور ملاحظہ ہو کہ اس ایک آیت میں چار دفعہ اسی مضمون کو بیان کرنے کے لیے ضمیر مؤنث کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ پھر آیت کی قراء ت کر لیں:
{نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ(۲۱) وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ(۲۲)}
اضافہ از مترجم: ہر جمع (یعنی جمع مکسر) مؤنث شمار ہوتی ہے‘ اس کے بارے میں یہ شعر یاد رکھیں ۔ شاعر اپنا ماجرا بیان کر رہا ہے کہ ایک موقع ایسا آیا کہ ساری قوم اس کے قتل کے درپے تھی‘ تو وہ کہتا ہے:
اِنَّ قَوْمِیْ تَجْمَعُوْا

وَبقتلی تَحَدَّثُوا
’’میری قوم جمع ہو گئی ہے اور مجھے قتل کرنے کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
لَا اُبَالِی بِجَمعھِم

کُلُّ جَمْع مُؤنّثُ
’’مَیں ان کے جمع ہونے کی پرواہ نہیں کرتا‘ اس لیے کہ ہر جمع مؤنث ہوتی ہے۔‘‘
(۲۱۷) آیت ۷۰
{وَاللہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمْ قف وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًاط اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ (۷۰)}
’’اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں وہ وفات دیتا ہے ‘اور تم میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو پھر بدترین عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ جاننے بوجھنے کے بعد ایسے ہوجائیں کہ جیسے کچھ نہ جانتے تھے۔ بے شک اللہ جاننے والا ‘ قدرت والا ہے۔‘‘
اور سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا:
{ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ  بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًاط } (آیت۵)
’’پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو ‘اور تم میں سے وہ ہیں جو اٹھا لیے جاتے ہیں اور تم میں سے وہ ہیں جو بدترین عمر کو لوٹا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ جاننے بوجھنے کے بعد ایسے ہو جائیں جیسے کہ وہ کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘
سوال یہ بنتا ہے کہ دونوں آیات کا مضمون ایک جیسا ہے لیکن سورۃالحج کی آیت میں ’’لِکَیْ لَا یَعْلَمَ‘‘ کے بعد ’’مِنْ‘‘ کااضافہ ہے‘ کہا گیا ’’مِنْ  بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا‘‘۔ لیکن سورۃ النحل کی آیت میں ’’مِنْ‘‘ ساقط ہے‘ کہا گیا:’’ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا‘‘ تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب سورۃ الحج کی آیت کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ جس میں  ’’مِنْ‘‘ کی تکرار ہے اور اس لحاظ سے سیاق وسباق کا‘ الفاظ کی مناسبت کا‘ نظم آیات میں مشابہت کا اور حروف و معانی کی رعایت کا تقاضا تھا کہ ایسا کیا جاتا۔
اب آیئے اس آیت پر ایک نظر ڈال لیں:
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ}
’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) دوبارہ اٹھائے جانے کے بارے میں شک کرتے ہو تو (سنو) کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔‘‘
{ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَـیِّنَ لَـکُمْ ط }
’’پھر منی کے قطرے سے ‘پھر جونک نما جمے خون سے ‘پھر گوشت کے لوتھڑے سے کہ کچھ کی صورت گری ہوجاتی ہے اور کچھ کی نہیں ہوتی تاکہ ہم تمہارے لیے (اپنی قدرت کو) ظاہرکر سکیں۔‘‘
{وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج}
’’اور ہم بچہ دانی میں اسے ٹھہرا دیتے ہیں جب تک چاہیں ایک معلوم مدت تک‘ پھر ہم تمہیں بچے کی شکل میں نکالتے ہیں ‘پھر یہ کہ تم اپنی جوانی کی عمر کو پہنچو۔‘‘
{وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ  بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًاط}
’’اور تم میں سے کچھ اٹھالیے جاتے ہیں اور تم میں سے کچھ نکمی عمر کی طرف لوٹا دیےجاتے ہیں تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد ایسے ہو جائیں جیسے کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘
{ وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ  بَہِیْجٍ(۵) }
’’اورتُو زمین کو خشک و بیابان دیکھتا ہے ‘پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ جاگ اٹھتی ہے اور اُبھرنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر ہر طرح کے خوشنما جوڑے اگاتی ہے۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ {لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ  بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًاطسے قبل سات دفعہ ’’مِنْ‘‘ کا حرف آیا ہے اور اس کے بعد بھی ایک دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اور ہر جگہ ’’مِنْ‘‘ اپنا معنی رکھتا ہے سوائے اس جگہ کے ‘ اگر نہ بھی لایا جاتا تو معنی میں کوئی فرق نہ پڑتا ‘لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا‘ نظم کلام اس بات کا مقتضی ہوا کہ اسے لایا جائے۔
جہاں تک سورۃ النحل کی آیت کا تعلق ہے تو وہاں نظم کلام میں ایسی کوئی وجہ نہ تھی کہ حرف ’’مِنْ‘‘ کو لایا جاتا‘ اس لیے وہاں اصل پر باقی رہنے دیا گیا۔
ایک بات اور عرض کرتے چلیں کہ آیت کے آغاز میں ’’مِنَ الْبَعْثِ‘‘ کہا گیا۔ یہاں ’’مِنْ‘‘ ابتداءِ غایت کے لیے ہے (یعنی جہاں جانا ہے اس کی ابتداء کہاں سے ہے) اور اس کے بعد سوائے ’’مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ‘‘ کے‘جتنے بھی حروف ’’مِنْ‘‘ آئے ہیں وہ تبعیض (یعنی کچھ) کا معنی رکھتے ہیں۔اور ’’مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ‘‘ میں وارد ’’مِنْ‘‘ زائد شمار ہوگا لیکن اسے لَا نافیہ کی مناسبت سے لایا گیا جو اس سے قبل ذکر کیا گیا ہے۔
(۲۱۸) آیت ۷۲
{اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللہِ ہُمْ یَکْفُرُوْنَ(۷۲) }
’’تو کیا باطل پر وہ ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ انکار کرتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا:
{ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ط اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُوْنَ(۶۷)}
’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ایک امن سے بھرپور حرم بنا دیا ہے اور ان کے ارد گرد لوگوں کو اُچک لیا جاتا ہے۔ تو پھر وہ باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
ایک سائل سوال کر سکتا ہے کہ پہلی آیت میں ضمیر منفصل ’’ہُمْ یَکْفُرُوْنَ‘‘ کے ساتھ اس آیت کا اتمام ہوتا ہے اور سورۃ العنکبوت کی آیت میں وہی مضمون ہے لیکن وہاں ’’یَکْفُرُوْنَ‘‘ سے پہلے ضمیر منفصل کیوں ساقط کی گئی؟
اس کا جواب یہ ہے‘ واللہ اعلم‘ کہ اس آیت سے قبل ایک نعمت کا تذکرہ ہے جس میں اولاد اور بیٹوں‘ پوتوں کے دیے جانے کاذکر کیا گیا ہے۔فرمایا:
{وَاللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً وَّرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ط} (آیت۷۲)
’’اور اللہ نے تمہاری ہی جنس سے تمہار ےلیے جوڑے بنائے اور تمہارے لیے تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق بہم پہنچایا۔‘‘
ان آیات کے فوراً بعد پھر کہا گیا:
{اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللہِ ہُمْ یَکْفُرُوْنَ(۷۲) }
’’پھر کیا وہ باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ انکار کرتے ہیں!‘‘
اب خدشہ اس بات کا تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘ اور ’’یَکْفُرُوْنَ‘‘سے مراد یہی لوگ ہیں جن کا تذکرہ ان اختتامی آیات میں کیا گیا ہے‘ بلکہ یہاں تذکرہ ان لوگوں کا ہے جن کا ان آیات سے بہت پہلے آیت۵۶ سے آیت ۶۲ تک کیا گیا تھا۔ ہم یہاں ان مجموعہ آیات کے آغاز اور اختتام کا ذکر کیے دیتے ہیں تاکہ مضمونِ آیات واضح ہو جائے۔ فرمایا:
{وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰـہُمْ ط تَاللہِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ(۵۶)}
’’اور یہ لوگ اس رزق میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے ان(بتوں )کے لیے جن کے بارےمیں وہ کچھ نہیں جانتے ‘ ایک حصہ مقرر کر دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! تم سے پوچھا جائےگا کہ تم سب یہ جھوٹ کیسے باندھتے تھے۔‘‘
{وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَہٗ لا وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ(۵۷)}
’’اور وہ اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں‘ اللہ اس سے پاک ہے‘ اور اپنے لیے وہ قرار دیتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔‘‘
اور پھر بیٹیوں کے تعلق سے ان کے اپنے قبیح طرزِعمل کا ذکر کیا گیا اور پھر آخر میں ارشاد فرمایا:
{وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ مَا یَکْرَہُوْنَ} (آیت۶۲)
’’اور اللہ کے لیے وہ کچھ قرار دیتے ہیں جسے وہ خودناپسند کرتے ہیں۔‘‘
اور پھر دس آیات کے بعد انہی لوگوں کا تذکرہ ہے جن کے بارے میں کہا گیا کہ ’’کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں!‘‘چونکہ ان دونوں مجموعہ آیات میں ایک طویل فصل واقع ہو گیا تھا اس لیے مناسب ہوا کہ ضمیر منفصل لا کر کہا جائے : {وَبِنِعْمَتِ اللہِ ہُمْ یَکْفُرُوْنَ(۷۲) } اور اس ضمیر کے لانے سے وہ خدشہ باقی نہیں رہا کہ آیت ۷۲ میں جن لوگوں کا تذکرہ اچھے پیرائے میں ہوا ہے‘ ان کی طرف ضمیر لوٹائی جائے۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آپ نے جس خدشے کا ذکر کیا ہے وہ اس وقت قابل ملاحظہ ہوتا اگر اس آیت میں بجائے ’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘اور ’’یَکْفُرُوْنَ‘‘(بصیغہ غائب) کے ’’تُؤْمِنُوْنَ‘‘اور ’’تَکْفُرُوْنَ‘‘(بصیغہ حاضر) کہاجاتا ‘اور وہ اس لیے کہ آیت ۷۲ کے شروع میں تو حاضرین کو ہی خطاب کیا گیا ہے نہ کہ غائبین کو۔ وہاں تو ’’جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ‘‘ اور ’’وَرَزَقَکُمْ‘‘ کہا گیا کہ یہ سب ضمائرخطاب کے لیے ہیں نہ کہ غائبین کے لیے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کی یہ بات اس وقت درست تسلیم کی جا سکتی تھی اگر عربی زبان میں اسلوب ’’التفات‘‘ نہ پایا جاتا۔ ’’التفات‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسلوبِ کلام کو خطاب سے ایک دم صیغہ غائب سے بدل دیا جائے‘ یا صیغۂ غائب سے کلام کا آغاز ہو اور اسے پھر فوراً صیغہ حاضر سے بدل دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہم (امرؤ القیس کے) یہ اشعار نقل کرتے ہیں:
تطَاوَل لَیْلُکَ بِالْأثْمَدٖ

وَنَامَ الْخَلِیُّ وَلَمْ تَرْقُدٖ
’’تیری رات سرمہ کے ساتھ طول کھینچتی گئی ‘اور دوست تو سو گیا لیکن تُو نہ سو سکا۔‘‘
وباتَ وباتَتْ لَہُ لَیْلَۃٌ

کلَیْلَۃِ ذی الْعَائِـرِ الأرمدٖ
’’اُس نے رات گزاری اور اس کی رات ایسے گزری جیسے اس شخص کی رات جو بدبختی اور چندھیائی ہوئی آنکھ کا شکار ہو۔‘‘
وذٰلِکَ مِنْ نباٍ جَاءَنِی

وَخُبِّرتُہ عَنْ اَبِی الأسْوَدٖ
’’اور یہ مجھے اس خبر کی وجہ سے ہوا جو مجھے ابوالاسود کی طرف سے موصول ہوئی۔‘‘
اب ملاحظہ ہو کہ شاعر پہلے خطاب کا صیغہ لا رہا ہے (لَیْلُکَ‘ وَلَمْ تَرْقُدٖ) پھر غائب کے صیغے سے کلام کر رہا ہے (باتَ‘باتَتْ لَہُ)اور پھر کلام کا رُخ متکلم کے صیغے کے ساتھ اپنی طرف پھیر دیتا ہے (جَاءَنِی۔خُبِّرتُہ) ۔
کتاب اللہ میں تو اس کی بہت سی مثالیں ہیں‘ صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ سورئہ یونس میں ارشاد فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ ج وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ......} (آیت۲۲)
’’وہی (اللہ) ہے جو تمہیں خشکی اور پانی میں چلاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور پھر وہ کشتیاں ان کے ساتھ خوشگوار ہوا میں چلتی ہیں......‘‘
دیکھئے آغازِ کلام صیغہ خطاب سے ہوا تھا اور پھر صیغہ غائب میں منتقل ہو گیا۔ اور اس تمہید سے یہ واضح ہو گیا کہ سورۃ النحل کی آیات میں بھی چونکہ اسی طرح بطرزِ التفات کلام کیا گیا ہے اور اسی لیے یہ خدشہ بدستور باقی رہا کہ
’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘اور ’’یَکْفُرُوْنَ‘‘سے کہیں وہ لوگ مراد نہ لیے جائیں جن کا تذکرہ اس آیت کے شروع میں ہوا تھا ‘ یعنی جن پر بیٹوں اور پوتوں سے نوازنےکا ذکر کیا گیا تھا‘ اسی لیے ضروری ہوا کہ ضمیر منفصل (ھُمْ) لا کر اس بات کا یقین دلایا جائے کہ یہاں وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کا دس آیات قبل ذکر ہوا تھا۔
اب آیئے سورۃ العنکبوت کی آیت کی طرف‘ ارشاد ہوا:
{ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ط }
’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے امن سے بھرپور ایک حرم بنا دیا ہے اور ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لیے جاتے ہیں۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا:
{اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُوْنَ(۶۷)}
’’تو کیا پھر وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کو ٹھکراتے ہیں!‘‘
یہاں سورۃ النحل کی مانند کوئی ایسے لوگ مراد نہیں ہیں جن کا ذکر کہیں دُور دراز ہوا ہو‘ یعنی یہاں تو وہی لوگ مراد ہیں جن کا ذکر اسی آیت میں ہوا ہے‘ اس لیے یہاں ضمیر منفصل لانے کی قطعاً کوئی حاجت نہ تھی۔ اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر دو آیات کا مضمون اپنی اپنی جگہ پر کامل و مکمل ہے اور اگر اس کا اُلٹ کیا جاتا تو وہ مناسب نہ ہوتا۔ واللہ اعلم!
(۲۱۹) آیت ۷۸
{وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَلا لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۷۸) }
’’اور اس نے تمہارے لیے سماعت (کان)‘ آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
اور سورۃ المؤمنون میں ارشاد فرمایا:
{وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلًا مَّاتَشْکُرُوْنَ(۷۸)}
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے سماعت‘ آنکھیں اور دل بنائے‘ لیکن تم بہت کم شکرا دا کرتے ہو۔‘‘
اور سورۃ الملک میں ارشاد فرمایا:
{قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ(۲۳) }
’’کہہ دیجیے وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے سماعت‘ آنکھیں اور دل بنائے۔ (لیکن) تم بہت ہی کمشکریہ ادا کرتے ہو ۔‘‘
اس دوسری آیت سے ان کے شکر کرنے کی نفی کی جا رہی ہے یا بتایا جا رہا ہے کہ وہ بہت کم شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور سورۃ النحل کی آیت میں ان کے شکر کرنے کی امید دلائی جا رہی ہے‘ تو اس فرق کی کیا وجہ ہے‘ حالانکہ دونوں جگہ مضمون ایک ہی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ النحل کی آیت سے قبل ارشاد ہوا تھا:
{وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ  بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا} (آیت ۷۸)
’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا جب کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘
یہاںایسے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو ابھی سن تکلیف کو نہیں پہنچے‘ اور ظاہر ہے کہ جو شخص ابھی اس دنیا میں آیا ہے ابھی وہ اس عمر تک نہیں پہنچا کہ حکم بجا لائے‘ جس چیز سے روکا جا رہا ہے اس سےرک جائے‘ ایسے شخص سے تو امید ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائے گا۔لیکن باقی دونوں آیات میں ایسے لوگ مخاطب ہیں جو سن تکلیف کو پہنچ چکے ہیں‘ خطاب کو سمجھتے ہیں‘ بار بار ان کو یاد دہانی کرائی جاتی رہی ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملاحظہ ہو کہ سورۃ المؤمنون کی آیت سے قبل ارشاد ہوا تھا:
{وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ(۷۶)}
’’اور ہم نے انہیں اپنے عذاب کا مزا بھی چکھایا لیکن وہ پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ جھکے‘ نہ گڑگڑائے۔‘‘
ایسے ہی سورۃ الملک کی آیت سے قبل بھی تین آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے احسانات گنوائے گئے ہیں اور ان کی ناشکری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
{اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ جُنْدٌ لَّــکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ط اِنِ الْکٰفِرُوْنَ اِلَّا فِیْ غُرُوْرٍ(۲۰)}
’’کیا رحمٰن کو چھوڑ کر تمہارا کوئی ایسا لشکر ہے جو تمہاری مدد کر سکے۔ بے شک کافر دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
{اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُـکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ ج   بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّ وَّ نُفُوْرٍ(۲۱)}
’’کیا وہ جو تمہیں روزی دیتا ہے اگر اپنی اس روزی کو روک لے؟ لیکن یہ لوگ عناد کا شکار ہیں اور بدکتے رہتے ہیں۔‘‘
{اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُکِبًّا عَلٰی وَجْہِہٖٓ اَہْدٰٓی اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۲۲) }
’’کیا وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے جو اپنے منہ کے بل چلتا ہے یا وہ جو بالکل سیدھا کھڑا ہوا سیدھے راستے پر چلتا ہے?؟‘‘
یہاں بھی ان کے اوپر متعدد احسانات گنوائے گئے ہیں لیکن انہوں نے ان احسانات کی قدر نہ کی‘ اس لیے ’’قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ‘‘ کہہ کر ان کے شکر ادا نہ کرنے کی طرف اشارہ کرنا مناسب تھا۔
(۲۲۰) آیت ۷۹
{اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآئِ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللہُ ط }
’’کیا وہ نہیں دیکھتے پرندوں کو کہ وہ فضائے آسمانی میں کیسے پابند ِحکم (اڑتے) ہیں۔ انہیں سوائے اللہ کے اور کون تھامے ہوئے ہے؟‘‘
اور سورۃ الملک میں ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط} (آیت۱۹)
’’کیا وہ اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ پَرکھولے ہوئے اور (کبھی) انہیں سمیٹتے ہوئے (اڑتے رہتے) ہیں۔ سوائے رحمٰن کے اور کون ان کو تھامے ہوئےہے؟‘‘
دونوں آیات کا مضمون ایک ہی ہے لیکن پہلی آیت میں ’’اللہ‘‘ کا ذکر ہے جو انہیں تھامے ہوئے ہے اور دوسری آیت میں لفظ ’’رحمٰن‘‘ کا ذکر ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الملک میں پرندوں کی دو حالتوں کا ذکر ہے: بسط کا اور قبض کا۔یعنی کبھی تو پَر پھیلاتے ہوئے ان کی اُڑان جاری رہتی ہے اور اس کے بعد استراحت کا ایک وقفہ آتا ہے جس میں وہ اپنے پَر سمیٹ کر بھی اُڑتے رہتے ہیں۔ ان کی حالت تیرنے والے کی سی ہوتی ہے‘ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو انہیں عطا ہوئی ہے اس لیے یہاں ’’رحمٰن‘‘ کا اسم الٰہی لانا مناسب تھا۔
سورۃ النحل میں اس تفصیل کا ذکر نہیں ہے یعنی قبض و بسط کے درمیان استراحت کا ہونا تو وہاں صرف اسم جل جلالہ (اللہ) کا لانا مناسب ہوا‘ واللہ اعلم!