(فہم القرآن) ترجمہ ٔ قرآن مجید،مع صرفی ونحوی تشریح - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

10 /

ترجمۂ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سورۃ الرعدآیات ۱ تا ۴

{الۗمّۗرٰ    ۣتِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ ۭ وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۱) اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ (۲) وَھُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْھٰرًا ۭ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (۳) وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۴)}
ص ن و
ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔
اَصْنٰی (افعال) اِصْنَاءً : درخت کا جڑ سے دو شاخیں نکالنا۔
صِنْوٌ : کسی درخت کی جڑ سے پھوٹنے والی مختلف شاخوں میں سے ہر ایک کو صِنْوٌ کہتے ہیں۔ تثنیہ صِنْوَانِ۔ جمع صِنْوَانٌ ۔ زیر مطالعہ آیت۴۔
ترکیب
(آیت۱) اَلْحَقُّ خبر معرفہ ہے۔ اس سے پہلے ھُوَ محذوف ہے۔ (آیت۲) تَرَوْنَھَا کی ضمیر مفعولی اَلسَّمٰوٰتِ کے لیے ہے۔
ترجمہ:
الۗمّۗرٰ : ا‘ ل‘ م‘ ر

تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ: یہ کتاب کی آیات ہیں
وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ :اورجو اتارا گیا

اِلَیْکَ:آپؐ کی طرف
مِنْ رَّبِکَ :آپؐ کے رب (کی طرف) سے

الْحَقُّ:(وہ ہی) حق ہے
وَلٰکِنَّ :اور لیکن

اَکْثَرَ النَّاسِ :لوگوں کے اکثر
لَا یُؤْمِنُوْنَ :ایمان نہیں لاتے

اَللہُ الَّذِیْ :اللہ وہ ہے جس نے
رَفَعَ السَّمٰوٰتِ : بلند کیا آسمانوں کو

بِغَیْرِ عَمَدٍ:ستونوں کے بغیر
تَرَوْنَھَا :تم لوگ دیکھتے ہو جن کو

ثُمَّ اسْتَوٰی:پھر وہ متمکن ہوا
عَلَی الْعَرْشِ :عرش پر

وَسَخَّرَ :اور اس نے مطیع کیا
الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ : سورج کو اور چاند کو

کُلٌّ یَّجْرِیْ :سب رواں ہیں 
لِاَجَلٍ مُّسَمًّی :ایک معیّن مدت کے لیے

یُدَبِّرُ:وہ تدبیر کرتا ہے
الْاَمْرَ :تمام کاموں کی

یُفَصِّلُ :وہ کھو ل کھول کر بیان کرتا ہے
الْاٰیٰتِ :نشانیوں کو

لَعَلَّکُمْ:شاید تم لوگ
بِلِقَاۗءِ رَبِّکُمْ :اپنے ربّ کی ملاقات پر

تُوْقِنُوْنَ :یقین کرو
وَھُوَ الَّذِیْ :اور وہ ‘وہ ہے جس نے

مَدَّ الْاَرْضَ :پھیلایا زمین کو
وَجَعَلَ فِیْھَا :اور اُس نے بنایا اس میں

رَوَاسِیَ :پہاڑوں کو

وَاَنْھٰرًا : اور نہروں کو

وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ:اور سب پھلوں میں سے
جَعَلَ فِیْہَا :اس نے بنایا ان میں

زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ :دو جوڑے
یُغْشِی :وہ ڈھانپتا ہے

الَّیْلَ:رات سے
النَّھَارَ :دن کو

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ :بے شک اس میں
لَاٰیٰتٍ :یقیناً نشانیاں ہیں

لِّقَوْمٍ:ایسے لوگوں کے لیے جو
یَّتَفَکَّرُوْنَ :سوچ بچار کرتے ہیں

وَفِی الْاَرْضِ :اور زمین میں 
قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ : باہم متصل قطعات ہیں

وَّجَنّٰتٌ :اور باغات ہیں
مِّنْ اَعْنَابٍ :انگوروں میں سے

وَّزَرْعٌ:اور کھیتی ہے
وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ :اور ایک جڑ سے کئی شاخوں والے کھجور ہیں

وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ :اور کئی بغیر شاخوں والے ہیں
یُّسْقٰی :ان کو پلایا جاتا ہے

بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ :ایک (ہی) پانی
وَنُفَضِّلُ :اور (پھر) ہم فضیلت دیتے ہیں

بَعْضَھَا:ان کے بعض کو
عَلٰی بَعْضٍ :بعض پر

فِی الْاُکُلِ :پھلوں (کے ذائقے) میں 
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ :بے شک اس میں

لَاٰیٰتٍ:یقیناً نشانیاں ہیں
لِّقَوْمٍ :ایسے لوگوں کے لیے جو

یَّعْقِلُوْنَ:عقل استعمال کرتے ہیں
نوٹ: آیت۳ میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس کائنات کے ہر گوشہ میں‘ ہر چیز میں‘ آسمان اور زمین‘ سورج اور چاند‘ رات اور دن وغیرہ میں جس طرح کا تضاد اور پھر ساتھ ہی جس طرح کی موافقت پائی جاتی ہے وہ صاف صاف شہادت ہے کہ یہ کائنات مختلف دیوتائوں کی رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ اس پر ایک ہی قادرِ مطلق کا ارادہ کارفرما ہے۔ ’’مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ‘‘ کے الفاظ سے تضاد اور موافقت کے اس قانون کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ ہے کہ جس شب و روز کے اندر یہ قانون کارفرما ہے اسی طرح ایک ایک پھل اور ایک ایک دانے کے اندر بھی کارفرما ہے‘ خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔گندم کے ایک دانے کو دیکھیں تو وہ بھی دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے‘ تاہم دونوں میں پوری وابستگی اور پیوستگی پائی جاتی ہے۔کائنات کے ہر گوشہ کی یہ شہادت اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ دنیا بھی تنہا نہیں ہے بلکہ اس کا بھی جوڑا ہے‘ اور وہ ہے آخرت۔ اپنے اس جوڑے کے ساتھ مل کر ہی یہ اپنی غایت کو پہنچتی ہے‘ ورنہ اس کا وجود بے مقصد ہوکر رہ جاتا ہے۔ (تدبر قرآن)
آیات ۵ تا ۹{ وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ ءَاِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ڛ اُولٰۗئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ ۚ وَاُولٰۗئِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ۚ وَاُولٰۗئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (۵) وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھِمُ الْمَثُلٰتُ ۭ وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِھِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ (۶) وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (۷) اَللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ(۸) عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(۹)}
ترجمہ:
وَاِنْ تَعْجَبْ :اور اگرآپؐ تعجب کریں

فَعَجَبٌ :تو عجیب ہے
قَوْلُھُمْ :ان لوگوں کی بات (کہ)

ءَاِذَا :کیا جب
کُنَّا :ہم ہوجائیں گے

تُرٰبًا :مٹی
ءَاِنَّا :(تو)کیا ہم

لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ : ضرور ایک نئی مخلوق میں ہوں گے
اُولٰۗئِکَ :وہ لوگ ہیں

الَّذِیْنَ کَفَرُوْا :جنہوں نے انکار کیا
بِرَبِّھِمْ : اپنے ربّ کا

وَاُولٰۗئِکَ :اور وہ ہیں (کہ)
الْاَغْلٰلُ :طوق ہیں

فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ :ان کی گردنوں میں
وَاُولٰۗئِکَ :اور وہ لوگ

اَصْحٰبُ النَّارِ :آگ والے ہیں
ھُمْ فِیْھَا :وہ اس میں

خٰلِدُوْنَ :ہمیشہ رہنے والے ہیں
وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ : اور وہ لوگ جلدی مانگتے ہیں آپؐ سے

بِالسَّیِّئَۃِ :برائی کو
قَبْلَ الْحَسَنَۃِ :بھلائی سے پہلے

وَقَدْ خَلَتْ :حالانکہ گزر چکی ہیں
مِنْ قَبْلِھِمُ :ان کے پہلےسے

الْمَثُلٰتُ :عبرتناک سزائیں
وَاِنَّ رَبَّکَ :اور بے شک آپؐ کا رب

لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ :یقیناً مغفرت والا ہے
لِّلنَّاسِ :لوگوں کے لیے

عَلٰی ظُلْمِھِمْ :ان کے ظلم کے باوجود
وَاِنَّ رَبَّکَ :اور بے شک آپؐ کا رب

لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ:یقیناً پکڑنے کا سخت ہے

وَیَقُوْلُ : اور کہتے ہیں 

الَّذِیْنَ کَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا
لَوْ لَآ : کیوں نہیں 

اُنْزِلَ :اتاری گئی
عَلَیْہِ اٰیَۃٌ :انؐ پر کوئی نشانی

مِّنْ رَّبِّہٖ:انؐ کے رب(کی طرف) سے
اِنَّمَآ اَنْتَ :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ آپؐ

مُنْذِرٌ:خبردار کرنے والے ہیں
وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ : اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے

اَللہُ یَعْلَمُ:اللہ جانتا ہے
مَا تَحْمِلُ :اس کو جو اٹھاتی ہے

کُلُّ اُنْثٰی : ہر مؤنث
وَمَا تَغِیْضُ :اور اس کو جو سکیڑتی ہیں

الْاَرْحَامُ:بچہ دانیاں
وَمَا :اور اس کو جو

تَزْدَادُ :وہ بڑھاتی ہیں
وَکُلُّ شَیْءٍ :اور ہر چیز

عِنْدَہٗ: اُس کے پاس ہے
بِمِقْدَارٍ: ایک مقدار سے

عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ: (وہ) ظاہر اور پوشیدہ کا جاننے والا ہے
الْکَبِیْرُ : جو سب سے بڑا ہے

الْمُتَعَالِ:جو سب سے بلند ہے
نوٹ۱: آیت۵ میں ہے کہ ان کی گردنوں میں طوق ہیں۔ گردن میں طوق ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان کی گردنوں میں طوق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت‘ ہٹ دھرمی‘ خواہشاتِ نفس اور آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔ ان کو ان کے تعصبات نے جکڑ رکھا ہے۔(تفہیم القرآن)
نوٹ۲: آیت۷ میں جو یہ ارشاد ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے ‘ اس سے ثابت ہوا کہ کوئی قوم اور کوئی خطۂ ملک اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہدایت کرنے والوں سے خالی نہیں ہو سکتا‘خواہ وہ نبی ہو یا اُس کے قائم مقام نبی کی دعوت کو پھیلانے والا ہو۔ جیسا سورئہ یٰسین میں نبی کی طرف سے کسی قوم کی طرف دو شخصوں کو دعوت و ہدایت کے لیے بھیجنے کا ذکر ہے‘ جو خود نبی نہیں تھے اور پھر تیسرے آدمی کو ان کی تائید کے لیے بھیجنا مذکور ہے۔ اس لیے اس آیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہندوستان میں بھی کوئی نبی و رسول پید اہوا ہو۔ البتہ دعوت کو پہنچانے والے علماء کا یہاں آنا بھی ثابت ہے اور پھر یہاں ایسے ہادیوں کا پیدا ہونا سب کو معلوم ہے۔ (معارف القرآن)
آیات ۱۰ تا ۱۵{سَوَاۗءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَھَرَ بِہٖ وَمَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّھَارِ (۱۰) لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ ۭ اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَمَالَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (۱۱) ھُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّیُنْشِیُٔ السَّحَابَ الثِّقَالَ(۱۲) وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰئِۗکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ ۚ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِھَا مَنْ یَّشَاۗءُ وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللہِ ۚ وَھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ(۱۳) لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ ۭ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَاۗءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھُوَ بِبَالِغِہٖ ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(۱۴) وَلِلہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ(۱۵)}
س ر ب
سَرَبَ یَسْرُبُ (ن) سُرُوْبًا : پانی کا جاری ہونا‘ گھستے چلے جانا۔
سَرِبَ یَسْرَبُ (س) سَرَبًا : پانی کا برتن سے بہہ نکلنا‘ نشیب میں اُترنا۔ {فَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا(۶۱)} (الکھف) ’’تو اُس نے (یعنی مچھلی نے) بنایا اپنا راستہ پانی میں‘ نشیب میں گھستے ہوئے۔‘‘
سَارِبٌ (اسم الفاعل) : بہنے والا‘ چلنے پھرنے والا۔زیر مطالعہ آیت۱۰
سَرَابٌ: بہتے پانی کی طرح نظر آنے والی ریت ۔ دھوکہ‘ فریب۔ {اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍۢ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ۭ}(النور:۳۹) ’’ان کے اعمال ایک سراب کی مانند ہیں ریتلے میدانوں میں‘ پیاسا اس کو گمان کرتا ہے پانی۔‘‘
م ح ل
مَحَلَ یَمْحَلُ (ف) وَمَحِلَ یَمْحَلُ (س) مِحَالًا : کسی کے خلاف تدبیر کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۱۳۔
ترکیب
(آیت۱۱) لَہٗ ‘ یَدَیْہِ اور خَلْفِہٖ کی ضمیریں گزشتہ آیت میں مَنْ کے لیے ہیں۔ مُعَقِّبٰتٌ صفت ہے‘ اس کا موصوف مَلَائِکَۃ محذوف ہے ۔ یَحْفَظُوْنَہٗ کی ضمیر فاعلی ھُمْ‘ مَلَائِکَۃ کے لیے ہے۔ یہ مؤنث غیر حقیقی ہے اس لیے مذکر کا صیغہ بھی جائز ہے۔ (آیت۱۲) خَوْفًا اور طَمَعًا حال نہیں بن سکتے اس لیے یہاں یہ مفعول لَہٗ ہیں۔ (آیت۱۴) اگر وَالَّذِیْنَ کو یَدْعُوْنَ  کا فاعل مانیں تو اس کا مفعول محذوف مانا جائے گا اور لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ کی ضمیر فاعلی مفعول محذوف کے لیے ہو گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وَالَّذِیْنَ کو مفعول مقدم مانا جائے۔ ایسی صورت میں یَدْعُوْنَ کا فاعل اس کی ضمیر فاعلی ہو گی اور لَایَسْتَجِیْبُوْنَ کی ضمیر فاعلی وَالَّذِیْنَ کے لیے ہو گی۔ ترجمہ میں ہم دوسری صورت کو ترجیح دیںگے۔
ترجمہ:
سَوَاۗءٌ :برابر ہے

مِّنْکُمْ :تم لوگوں میں سے
مَّنْ :وہ جس نے

اَسَرَّ الْقَوْلَ :چھپایا بات کو
وَمَنْ :اور وہ جس نے

جَھَرَ بِہٖ :نمایاں کیا اس کو
وَمَنْ ھُوَ :اور جو وہ ہے (کہ)

مُسْتَخْفٍۢ :چھپنے والا ہے
بِالَّیْلِ :رات میں

وَسَارِبٌۢ :اور چلنے پھرنے والا ہے
بِالنَّھَارِ :دن میں

لَہٗ : اس کے لیے ہیں
مُعَقِّبٰتٌ : پہرہ دینے والے (فرشتے)

مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ:اس کے سامنے سے
وَمِنْ خَلْفِہٖ :اور اس کے پیچھے سے

یَحْفَظُوْنَہٗ :وہ حفاظت کرتے ہیں اس کی
مِنْ اَمْرِ اللہِ :اللہ کے حکم سے

اِنَّ اللہَ:بے شک اللہ
لَا یُغَیِّرُ مَا :نہیں بدلتا اس کو جو

بِقَوْمٍ :کسی قوم کے ساتھ ہے
حَتّٰی یُغَیِّرُوْا :یہاں تک کہ وہ لوگ بدلیں

مَابِاَنْفُسِھِمْ:اُس کو جو اُن کی نفسیات میں ہے
وَاِذَآ :اور جب کبھی

اَرَادَ اللہُ :ارادہ کرتا ہے اللہ
بِقَوْمٍ :کسی قوم سے

سُوْءًا :کسی برائی کا
فَلَا مَرَدَّ :تو کوئی بھی لوٹانے کی جگہ(یعنی امکان) نہیں ہے

لَہٗ:اس کو
وَمَالَھُمْ : اور نہیں ہے ان کے لیے

مِّنْ دُوْنِہٖ : اس کے علاوہ

مِنْ وَّالٍ : کوئی بھی حمایتی

ھُوَ الَّذِیْ :وہ‘ وہ ہے جو
یُرِیْکُمُ : دکھاتا ہے تم لوگوں کو

الْبَرْقَ :بجلی کی چمک
خَوْفًا :خوف کے لیے

وَّطَمَعًا :اور اُمید کے لیے

وَّیُنْشِیُٔ :اور وہ اٹھاتا ہے

السَّحَابَ الثِّقَالَ :بھاری بادلوں کو
وَیُسَبِّحُ :اور تسبیح کرتی ہے

الرَّعْدُ :باد ل کی گرج
بِحَمْدِہٖ :اُس کی حمد کے ساتھ

وَالْمَلٰئِۗکَۃُ :اور فرشتے (بھی)
مِنْ خِیْفَتِہٖ :اُس کے خوف سے

وَیُرْسِلُ:اور وہ بھیجتا ہے
الصَّوَاعِقَ : گرنے والی بجلیاں

فَیُصِیْبُ بِھَا :پھر وہ لگاتا ہے ان کو
مَنْ یَّشَاۗءُ :اسے جس کو وہ چاہتا ہے

وَھُمْ:اس حال میں کہ وہ لوگ
یُجَادِلُوْنَ :مناظرہ کرتے ہیں

فِی اللہِ : اللہ میں 
وَھُوَ : اور وہ

شَدِیْدُ الْمِحَالِ : تدبیر کرنے کا سخت ہے
لَہٗ : اُسی کے لیے ہے

دَعْوَۃُ الْحَقِّ : حق کی پکار
وَالَّذِیْنَ :اور جن لوگوں کو

یَدْعُوْنَ : یہ لوگ پکارتے ہیں 
مِنْ دُوْنِہٖ :اُس کے علاوہ

لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ : وہ جواب نہیں دیتے
لَھُمْ : ان کے لیے

بِشَیءٍ :کسی چیز کا

اِلَّا:سوائے اس کے کہ

کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ: (وہ) اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پھیلانے والے کی مانند ہے
اِلَی الْمَاۗءِ :پانی کی طرف

لِیَبْلُغَ:کہ وہ پہنچے
فَاہُ :اُس کے منہ کو

وَمَا ھُوَ :حالانکہ نہیں ہے وہ
بِبَالِغِہٖ :پہنچنے والا اس کو

وَمَا :اور نہیں ہے
دُعَاۗءُ الْکٰفِرِیْنَ :کافروں کی دعا

اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ : مگر گمراہی میں 
وَلِلہِ :اور اللہ کے لیے ہی

یَسْجُدُ :سجدہ کرتے ہیں 
مَنْ : وہ جو

فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : زمین اور آسمانوں میں ہیں 
طَوْعًا :تابعدار ہوتے ہوئے

وَّکَرْھًا : اور ناپسند کرتے ہوئے
وَّظِلٰلُھُمْ :اور ان کے سائے (بھی)

بِالْغُدُوِّ :صبح میں 
وَالْاٰصَالِ:اور شام میں

آیات ۱۶ تا ۱۷{قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللہُ ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِھِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ ڏ اَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ڬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاۗءَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ ۭ قُلِ اللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ(۱۶) اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌۢ بِقَدَرِھَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا ۭ وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْیَۃٍ اَوْمَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ ۭ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ڛ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَاۗءً ۚ وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ ۭ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ(۱۷)}
س ی ل
سَالَ یَسِیْلُ (ض) سَیْلًا : پانی کا بہہ نکلنا۔ زیر مطالعہ آیت ۱۷
سَیْلٌ (اسم ذات) : بہتا پانی‘ سیلاب۔ زیر مطالعہ آیت۱۷
اَسَالَ یُسِیْلُ (اِفعال) اِسَالَۃً: رقیق چیز کو بہانا‘ جمی ہوئی چیز کو پگھلانا۔ {وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِط} (سبا:۱۲) ’’اور ہم نے پگھلایا ان کے لیے تانبے کے چشمے کو۔‘‘
ز ب د
زَبَدَ یَزْبِدُ (ض) زَبْدًا : دودھ کا مکھن نکالنا‘ پانی کا جھاگ نکالنا۔
زَبَدٌ (اسم ذات) : دھاتوں کا میل‘ پانی کا جھاگ۔ زیر مطالعہ آیت۱۷
ج ف ء
جَفَأَ یَجْفَؤُ (ف) جَفْئًا : ہانڈی کا ابل کر کناروں سے بہہ نکلنا۔ کسی چیز کا رائیگاں جانا‘ بے فائدہ ہوجانا۔
جُفَاءٌ(فُعَالٌ کے وزن پر صفت) : بے فائدہ‘ رائیگاں۔ زیر مطالعہ آیت۱۷
م ک ث
مَکَثَ یَمْکُثُ (ن) مَکْثًا : کسی جگہ رکنا‘ ٹھہرنا۔ زیر مطالعہ آیت۱۷
مُکْثٌ (اسم فعل) : رکنے کا عمل‘ ٹھہرائو۔ {لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ} (الاسراء:۱۰۶) ’’تاکہ آپؐ پڑھ کر سنائیں اسے لوگوں کو ٹھہرائو پر یعنی رُک رُک کر۔‘‘
مَاکِثٌ (اسم الفاعل) : رُکنے والا ‘ ٹھہرنے والا ۔ {مَاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا(۳)} (الکہف) ’’ٹھہرنے والے ہیں اس میں ہمیشہ۔‘‘
ترجمہ:
قُلْ مَنْ :آپؐ کہیے کون ہے

رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:زمین اور آسمانوں کا ربّ
قُلِ اللہُ :آپؐ کہیے (وہ) اللہ ہی ہے

قُلْ : آپؐ کہیے
اَفَاتَّخَذْتُمْ :توکیا تم لوگوں نے بنائے

مِّنْ دُوْنِہٖٓ:اُس کے علاوہ
اَوْلِیَاۗءَ :کچھ ایسے کارساز

لَا یَمْلِکُوْنَ :جو مالک نہیں ہیں 
لِاَنْفُسِھِمْ :اپنی جانوں کے لیے (بھی)

نَفْعًا:کسی نفع کے
وَّلَا ضَرًّا :اور نہ ہی کسی نقصان کے

قُلْ :آپؐ کہیے
ھَلْ یَسْتَوِی :کیا برابر ہوتا ہے

الْاَعْمٰی :اندھا
وَالْبَصِیْرُ : اور دیکھنے والا

اَمْ ھَلْ :یا کیا
تَسْتَوِی :برابر ہوتے ہیں 

الظُّلُمٰتُ :اندھیرے
وَالنُّوْرُ : اور نور

اَمْ جَعَلُوْا :یا ان لوگوںنےبنایا
لِلہِ : اللہ کے لیے

شُرَکَاۗءَ :کچھ ایسے شریک
خَلَقُوْا :جنہوں نے پیدا کیا

کَخَلْقِہٖ :اُس کی مخلوق کی مانند
فَتَشَابَہَ :پھر باہم ملتی جلتی ہو گئیں

الْخَلْقُ:تمام مخلوقیں
عَلَیْھِمْ : ان پر

قُلِ اللہُ:آپؐ کہیے اللہ
خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ: ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے

وَّھُوَ :اور وہ
الْوَاحِدُ :یکتا ہے

الْقَھَّارُ:زبردست ہے

اَنْزَلَ :اُس نے اتارا

مِنَ السَّمَاۗءِ :آسمان سے
مَاۗءً :کچھ پانی

فَسَالَتْ :تو بہہ نکلیں
اَوْدِیَۃٌۢ :وادیاں

بِقَدَرِھَا:اپنے اندازے (یعنی گنجائش) کے مطابق
فَاحْتَمَلَ :تو اٹھایا

السَّیْلُ :بہتے پانی نے
زَبَدًا رَّابِیًا :اُبھرنے والا کچھ جھاگ

وَمِمَّا :اور اس (دھات) میں سے
یُوْقِدُوْنَ :وہ لوگ چمکاتے (یعنی پگھلاتے) ہیں 

عَلَیْہِ :جس کو
فِی النَّارِ :آگ میں

ابْتِغَاۗءَ حِلْیَۃٍ : کسی زیور کی تلاش میں
اَوْمَتَاعٍ :یا کسی سامان کی‘

زَبَدٌ :کچھ جھاگ ہوا
مِّثْلُہٗ :اس کے جیسا

کَذٰلِکَ :اس طرح
یَضْرِبُ اللہُ :بیان کرتا ہے اللہ

الْحَقَّ :حق کو
وَالْبَاطِلَ:اور باطل کو

فَاَمَّا:پس وہ جو
الزَّبَدُ :جھاگ ہے

فَیَذْھَبُ :تو وہ جاتا ہے
جُفَاۗءً :رائیگاں ہوتے ہوئے

وَاَمَّا:اور وہ جو ہے
مَا یَنْفَعُ :جو نفع دیتا ہے

النَّاسَ :لوگوں کو
فَیَمْکُثُ :تو وہ ٹھہرتا ہے

فِی الْاَرْضِ :زمین میں
کَذٰلِکَ :اس طرح

یَضْرِبُ اللہُ :بیان کرتا ہے اللہ
الْاَمْثَالَ:مثالوں کو