(فکر و نظر) روایتی علم النفس اور جدید نفسیات - مکرم محمود

10 /

روایتی علم النفس اور جدید نفسیاتمکرم محمودانسان کے اندر معرفت ِنفس کا داعیہ اور اپنے آپ کو جاننے کا جذبہ فطری ہے۔ اس جذبے کی پرورش کا سامان فلسفیانہ اور صوفیانہ دونوں روایتوں میں مبادیات‘ ساخت اور مقاصد کے فرق کے باوجود بیک آن پایا جاتا ہے۔ یونان میںڈیلفی کے اپالو مندر کی عمارت پر Know Thy Selfکا کنداں ہونا یا صوفیاء کے ہاں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کی روایت کا شائع و ذائع ہونا اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اسی طرح اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو فلسفیانہ الٰہیات یا ما بعد الطبیعیات کا بنیادی سوال کہ وجود کیا ہے؟ بھی اس بات کو نظر انداز کر کے کہ سوال کرنے والا کون ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یعنی وجود کیا ہے کا سوال اگر :انسان کیا ہے؟ انا کیا ہے؟ شعور کیا ہے؟ کے سوالات کے ساتھ ہو تو پھر با معنی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی بھی تہذیب کی داخلی بنیاد ان تین سوالات کے جوابات پر ہوتی ہے: انسان کیا ہے؟ کائنات کیا ہے؟ خدا کیا ہے؟ پھر انہی سوالات سے کچھ ضمنی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً :ان میں باہمی رشتہ کیا ہے؟ ان میں مرکزی حیثیت کس کو حاصل ہے؟ خدا‘ انسان اور کائنات میں باہمی تعلق کی نوعیت اور ان میں سے کسی ایک کی مرکزی حیثیت کا تعین انسان کی کل زندگی کی سمت طے کرتا ہے اور کسی تہذیب کے خارجی مظاہر اور علوم و فنون اور ترجیحات کے تعین کا سبب بنتا ہے۔ذیل میں چند نکات کی صورت میں روایتی علم النفس اور جدید نفسیات کی چند اساسات کا مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔مقصود اکیڈمک گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے جدید علم النفس کی کچھ بنیادوں اور عملی مظاہر کا مختصر بیان ہے۔ روایتی علم النفس کا تذکرہ ضمنی ہے کہ یہ اس کی ضد ہے اور ضد کے ذریعے ہی کسی شئے یا تصورکی صحیح معرفت ممکن ہو تی ہے۔ تُعرف الاشیاء باضدادھا۔
۱) مسلمانوں کے ہاں علم النفس کی نشو و نمااصلاً صوفیاء کے ہاں ہوئی ہے اور یہ ان کے تصورِ حقیقت یا جہانی تصور (worldview)کے تابع تھی۔انسان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی موجودگی کی غرض و غایت اگر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت ہے اور اس کے قرب کا حصول ہے تو عرفانِ نفس کی غایت بھی یقیناً یہی ہوگی کہ انسان اپنے اس مقصود و مطلوبِ حقیقی کو حاصل کر سکے اور اس کے موانع یا حائل رکاوٹوں کو دور کر سکے۔ ہمارے ہاں علم النفس کی غرض و غایت تزکیہ اور تہذیبِ نفس رہی ہے۔ معرفت ِنفس گویا ایک اعتبار سے معرفت ِرذائل و فضائل نفس ہے۔
۲) علوم ایک خلا میں وجود نہیں پاتے بلکہ وہ کسی غالب تصورِ حیات سے ایک بدیہی تعلق رکھتے ہیں ۔ جدید علم النفس(psychology)بھی اس کی ایک مثال ہے۔اس کا جدید تہذیب اور جدید نظامِ سیاست و معاشرت و معیشت سے ایک فوری اور فطری تعلق ہے۔ جدید انسان ایک فرد ہے‘ تمام رشتوں اور اجتماعیتوں سے کٹا ہوا ایک فرد جو اسیرِ جبلت ہے اور باقی انسانوں اور نظمِ اجتماعی کے ساتھ طاقت اور مفاد کے رشتے میں منسلک ہے۔ یہ انسان جو کہ ایک تصور نہیں بلکہ حقیقت ہے‘ جدید نفسیات اس انسان کو فطری اور نارمل مان کر اپنے علمی اور عملی سفر کا آغاز کرتی ہے اور اس تصورِ انسان سے انحراف کو ابنارمیلٹی قرار دیتی ہے۔
۳) جبلت اور ذہن کے مابین ہم آہنگی کی خواہش انسان کے لیے فطری ہے۔ اس کے بغیر باطنی ٹھہرائوممکن نہیں ہے اور داخلی نفسی کشمکش کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہم آہنگی جبلت اور ذہن ہر دو کی مرکزیت پر ممکن ہے۔ جدید نفسیات جبلت اور ذہن کی ہم آہنگی کو جبلت کے اصول پر دریافت کرتی ہے اور جبلت کی اصل آزادی کو قرار دیتی ہے(جبلت اگرچہ بذات خود ایک جبر ہے مگر یہاں آزادی سے مراد ہے کہ جبلت کسی خارجی قید یاجبرکو قبول نہیں کرے گی اور جبلت کے داخلی جبر کو انسان اپنے جملہ وسائل استعمال کر کے کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔جبلت کا ہر ممکن اظہار دائرہ فطرت میں آتا ہے)۔ یعنی شعور تابعِ جبلت ہو جائے یا دوسرے لفظوں میں شعور آزادی کی قدر کو اپنی قدر الاقدار قرار دے دے۔ اس تصورِ ہم آہنگی جبلت و ذہن میں بعض اوقات جبلت کو ذہن کے تابع بھی کیا جاتا ہے مگر یہ کسی دوسری جبلت کی تسکین کے لیے ہوتا ہے نہ کہ کسی اخلاقی اصول کی بنیاد پر جو اپنی جڑیں آسمانی ہدایت میں رکھتا ہو۔ جبلتوں کے مابین لین دین بھی مفاد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس لین دین اور جبلتوں کے داخلی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے شعور کو کام میں لایا جاتا ہے۔
۴) جدید نفسیات انسان کی مادی تعبیر کے اصول پر استوار ہے۔ یعنی مادہ کے اصول سے انسان کے تمام ظاہری و باطنی قویٰ کی توجیہہ کی گئی ہے۔ شعور بھی مادہ ہی کا ایک انفجائی(emergent) مظہر ہے۔شعور کا ظہور گویا ایک خاص مادی ترتیب کا نتیجہ ہے ۔اس ترتیب کو ختم کر دیا جائے تو شعور معدوم ہو جائے گا کہ گویا تھا ہی نہیں۔ انسان کی یہ تعبیر نفسیات نظری ہو یا عملی ہر دو میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ یہی تعبیر اور اس کے مختلف مظاہر انسانی نفس کی تفہیم‘ نارمیلٹی اور ابنارمیلٹی کا تعین اور علاج کے منہج کو متعین کرتے ہیں۔ جدید مادی تصورِ حیات نے انسانی نفس کی مادی تعبیر کو ممکن بنایا ‘جو انسانی نفس کے فہم اور اس کے علاج کے منہج کو طے کرتی ہے۔اسی کے ضمن میں وہ کلیدی اقدار اور تصورات آتے ہیں مثلاًآزادی ‘ انفرادیت پرستی وغیرہ جو جدید نفسی طریق علاج میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ نفسیاتی صحت اور عدم صحت کے معیارات کا تعین کرتے ہیں۔اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو نفسیاتی صحت اور عدم صحت کے معیارات کا تعلق نظاماتی مطابقت سے ہے۔ یعنی حاضر و موجود نظام ‘ اس کی اقداراور طرزہائے احساس و عمل سے اگر آپ ہم آہنگی محسوس کرتے ہیںتو آپ نارمل ہیں۔ اگر آپ ان پر ہی سوال اٹھانا شروع کر دیں تو آپ اور کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن نارمل کہلائے جانے کے مستحق نہیں۔سسٹم کے نمائندے آپ کو ان سوالات کے جوابات بھی اپنے تئیں فراہم کرتے ہیں مگر ان کی اصل کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی پیدائش کے عمل کو اپنی بنیاد میں ہی ختم کر دیا جائے یا اس پر قابو پا لیا جائے یعنی آپ کو دوبارہ سے نارمل بنا دیا جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ مادی تعبیر سے بظاہر کچھ اختلاف رکھنے والی جدید نفسیاتی تعبیرات بھی اپنی رسائی نفس تک ہی رکھتی ہیں اور نفس کی کچھ باطنی اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرلینا ہی ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ انسان جسم سے کچھ بلندی تو حاصل کرلیتا ہے یعنی نفسی ماورائیت کا ایک گونہ حصول تو ممکن ہو جاتا ہے لیکن روح جو اصلی ماورائیت کی حامل ہے‘ ان تعبیرات کے دائرے سے یکسر خارج ہی رہتی ہے۔
۵) عصرِ رواں میں انسان کے نفسی احساسات کو ایک بہت ہی بنیادی اہمیت دے دی گئی ہے۔ ہر نفسی احساس کو فطری قرار دے دیا گیا ہے۔ان احساسات کی پیدائش کا عمل جدید معاشرتی صف بندی اور سسٹم کی تاثیرات سے خالی نہیں ہوتا لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ ان احساسات کا واحد منبع انسانی نفس ہے ‘جو انسانی فطرت کا مکمل اظہار ہے۔ یعنی ہر وہ خیال جو سوچا جا سکتا ہے اور ہر وہ احساس جو محسوس کیا جا سکتا ہے اور ہر وہ کام جو کیا جا سکتا ہے‘ فطری ہے۔ گویا فطرت کوئی معیار نہیں ہے بلکہ انسان کی امکانی صلاحیت فکر و احساس و عمل کا نام ہے۔انسانی احساسات کو بنیادی اہمیت دینے کے عملی اطلاقات اور مظاہر آج کل کے دور میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً gentle parentingکے جو اصول بتائے جاتے ہیں اس میں سے ایک یہ ہے کہ بچے کیfeelingsکو hurtنہ کیا جائے اس سے وہtraumaکا شکار ہو جائے گااور بچپن کے تجربات اور traumasکو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں کیا مسئلہ ہے ‘ٹھیک ہی تو بات ہے لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ کوئی اخلاقی اصول نہیں ہیں ‘ گناہ ثواب کا کوئی تصور نہیں ہے ۔اصل چیز اندرونی احساسات ہیں اورtraumaسے بچنا ہے۔بات یہ ہے کہ اگر رو ک ٹوک نہیں ہو گی توبچے کی تربیت کیسے ممکن ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ دیکھیں تو جدید counsellingاور psychotherapyبھی انہی اصولوں پر کھڑی ہے جو انسانی سوچ‘ احساس اور اظہار کی آزادی کو مرکزی اہمیت دیتی ہے۔خاندان میں اگر کسی فرد کو کچھ مسائل کا سامنا ہے تو نفسیات دان ان مسائل کا حل یہ کبھی نہیں بتائے گا کہ آپ قربانی دیں یا کوئی اخلاقی حل پیش نہیں کرے گا بلکہ اس کی انا کو مزید ابھارے گا۔ اس کی انفرادیت کو اجاگر کرکے اس کے اظہار کی صورت میں ان مسائل کا سامنا کرنے کے طریقے سکھائے گا ۔اس انفرادیت کے اظہار کا نتیجہ اگر باقی خاندان والوں سے لاتعلقی ہو‘جو اس کے کسی مادی مفاد سے ٹکراتی نہ ہو تو وہ اس کو یہی مشورہ دے گا۔
۶) سسٹم یا نظام‘ انسانی اقدار و تصورات اور ان کا خارجی عملی اظہار‘ جو صرف انفرادی انسانی اعمال کی شکل میں نہ ہو بلکہ اجتماعی اداروں کی شکل میں بھی ہو ‘سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ان اداروں میں سیاسی‘ سماجی اور معاشی ادارے ہیں جو انسانی زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں۔ نظاماتی تاثیرات صرف انسانی اعمال تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ وہ انسانی تصورات‘ جذبات اور احساسات تک بھی اپنی رسائی رکھتی ہیں۔ جدید سماجی علوم میں ایک اصطلاح system integrationکی استعمال ہوتی ہے ۔اس کا اگر سادہ اور سیدھا ترجمہ کیا جائے تو کچھ یوں مناسب رہے گا:’’ـ ـ ـــنظامِ قائمہ کا ایک چلتا پُرزہ بن جانے کا عمل‘‘۔ اس عمل میں دو جدید اداروں کا محوری کردار ہے۔ ایک جدید نظامِ تعلیم ہے جو اپنی بنیادوں میں ایک سیاسی عمل ہے ‘اخلاقی نہیں۔سیاسی عمل سے مراد یہ ہے کہ یہ فرد کو نظمِ اجتماعی کاکامیاب حصہ بنادیے جانے کی ایک ریاستی کوشش ہےاس بات سے قطعِ نظر کہ وہ نظم اجتماعی کن اصولوں پر اپنی اساس رکھتا ہے‘ وہ اصول اپنی کوئی ماورائی اساس رکھتے ہیں یا انسانی فکرو شعور کی اختراع ہیں۔ اچھی تعلیم کے حصول کا مطلب ہے کہ ایک فرد کے اندر سسٹم کے چلتے پُرزے بن جانے کی صلاحیت مکمل طور پر پیدا ہو جائے۔تعلیم یافتہ ہو جانے اور ایک دفعہ سسٹم کا حصہ بن جانے کے بعد سسٹم ان کو اتنا ــــ’’تر‘‘رکھتا ہے کہ پُرزوں کو کوئی رگڑ نہیں لگتی اور نہ ہی کوئی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ نظام ایک ہموار طریقے سے چلتا رہتا ہے۔دوسرا ادارہ جدید نفسیات اور اس کے ضمنی طرق ہائے فہم و علاج ہیں۔یہ بھی system integrationہی کا ایک میکانزم ہے مگر یہ ثانوی ہے۔ ثانوی ان معنوں میں کہ اس کا کام جدیدتعلیم کی عمل داری کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جدید نظامِ تعلیم اگر کسی کو کامیابی کے ساتھ سسٹم کا حصہ نہ بنا سکا یا اگر حصہ تو بن گیا ہے مگر ’’رگڑ‘‘ اور ’’حرارت‘‘ پیدا ہو رہی ہے(رگڑ سے مرادکارکردگی کا تسلی بخش نہ ہونا یاinefficiencyہے۔ یہ مرض متعدی ہے یعنی باقی پُرزوں کے کام کو بھی متاثر کرتا ہے۔ حرارت سے مرادسسٹم یا نظام کے خلاف باغیانہ جذبات کا پیدا ہونا ہے۔) تو سائیکو تھراپی اس مسئلے کا حل ہے اور وہ فرد کو آزادی اور انفرادیت پرستی کے نام پر دوبارہ سسٹم کا حصہ بنانے اور نظام کو ہموار اور رواں چلتے رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ نظامِ تعلیم گویا پیچھے سے زور لگاتا ہے اور عملی نفسیات کا ادارہ آگے سے قابو میں رکھتا ہے۔ بنظرِ غائر اگر دیکھا جائے تو اس میں ایک تیسرا عامل بھی ہے اور اس کا کردار بھی اساسی ہے۔وہ عاملmotivational speakingکا ہے۔ اس کا کردار وسطی اور درمیانی ہے۔ یہ مشین کے چلتے پُرزوں کو مسلسل تیل دینے کا عمل ہے تاکہ سسٹم کی رواں کارکردگی برقرار رہے۔اس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ جو تم کر رہے ہو یہی تمہارے فائدے میں ہے اور جتنا کام تم کرو گے اتنا ہی پھل تمہیں ملے گا۔’’کامیابی‘‘ ہمیشہ سے تمہاری منتظر ہے۔ بس تمہیں ہی تھوڑی ہمت دکھانی ہے۔لوگوں کو ان باتو ں کا یقین دلانے کے لیے مذہب‘ تصوف‘ روحانیت‘ اخلاقیات ‘ طبیعی اور سماجی علوم‘ نفسیات وغیرہ کا ایک حسین اور دلکش ملغوبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو ان میں سے کسی ایک خانے میں بھی صحیح نہیں بیٹھتا۔ جدید علمِ نفسیات یہاں بھی خوب کام دیتا ہے۔
۷) جدید نفسیات میں انسان کے اندرون کی بہت اہمیت ہے۔ اندرو ن یہاں کوئی صوفیانہ معنوں میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ اس سے انسان کی جبلتوں سے متعلقہ داعیات‘ احساسات اور جذبات مراد ہیں۔ آج کل تو اس کا بہت ہی چرچا ہے کہ میری اندرونی نفسیاتی زندگی ہی میری شناخت کا تعین کرے گی۔یہ گویا انسان کو نفسیانے(psychologization)کا عمل ہے جس کے بہت سے خطرناک نتائج کا ہمیں سامنا ہے۔ ان نتائج میں سے ایک موجودہ جینڈر ڈسکورس ہے جس میں انسان کے جینڈر کے تعین یا اس کی ضمنی شناخت کو اس کے ارادہ و شعور اور اس کے اندرونی احساسات کے تابع کر دیا گیا ہے اور اس کو ایک سیاسی مسئلہ بنا کر شناخت کی سیاست politics identity سو جوڑ دیا گیا ہے۔ Psychologization کا لازمی نتیجہ انسانی وجود پر اس کے نفس کی حاکمیت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کا تعلق بھی آزادی کے اس مطلق تصور سے ہے جس پر کُل جاہلیت ِجدیدہ کی بنیاد ہے کہ ’’میرا جسم اور میری مرضی ‘‘یا صنفی شناخت بھی مجھ پر ایک جبر ہے اس کو بھی میری آزادی کے دائرہ میں آنا چاہیے۔ نفسیات اس کے لیے بہت حد تک مدد فراہم کرتی ہے اور ٹیکنالوجیائی ترقی بہت سی حیاتیاتی قدغنوں کو کم سے کم کرتی جارہی ہے۔
۸) ’’Living a lie‘‘یا’’coming out‘‘کے جو آج کل عام سلوگنز ہیں یہ تعینِ شناخت میں اندرونی نفسیاتی احساسات کی مرکزیت کو ہی ظاہر کرتے ہیں۔ میری حقیقت تو میرے احساسات ہی سے طے ہو گی۔ میرا جسمانی ظاہر اگر میرا ساتھ نہیں دیتا آیا تو یہ جھوٹ پر مبنی زندگی تھی۔ اب مجھے اپنی حقیقی ذات کو ظاہر کرنا ہے اور ظاہر کو اپنی حقیقت کے مطابق بنانا ہے۔اس مطابقت میں جو نفسیاتی الجھنیں اور حیاتیاتی رکاوٹیں حائل ہیں ان کو دستیاب ذرائع سے دور کرنا ہے۔
۹) انسانی نفس کی بہت سی تفہیمات ہماری روایت میں کی گئی ہیں ۔ان میں سے جو ایک عام ہے اور امام غزالیؒ نے بھی جس کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی نفس تین قوتوں سے مل کر وجود میں آتا ہے:
۱) قوتِ عقلیہ یا علمیہ ۲) قوتِ غضبیہ ۳) قوتِ شہویہ
ان کو اگر جدید اصطلاح میں بیان کیا جائے تو ذہن‘ ارادہ اور طبیعت بھی کہا جا سکتا ہے۔ذہن کا تعلق قوتِ عقلیہ یا علمیہ سے ہے‘ ارادہ کا قوتِ غضبیہ سے اور طبیعت کا قوتِ شہویہ سے۔ روایتی نفسی علوم (چاہے ان کا تعلق کسی بھی روایت سے ہو) جن کا بنیادی تعلق انسانی نفس کی تہذیب و اصلاح سے تھا قطعِ نظر اس سے کہ یہ تہذیب و اصلاح خدا سے قرب کے لیے ہے‘ انکشافِ حقائق کے لیے ہے یا انسانی سعادت و کمال کے حصول کے لیے ‘ سب کے ہاں ان تین میں تابع و متبوع ہونے کی ترتیب متعین تھی یعنی طبیعت ارادہ کے تابع ہونی چاہیے اور ارادہ ذہن کے۔(ذہن کسی کے تابع ہو گا ‘یہ ایک الگ بحث ہےاور ہر روایت میں اس کو الگ طریقے سے دیکھا گیا ہے۔ مثلاًوحی کے‘ کلی اخلاقی اصولوں کے‘ بزرگوں سے چلی آنے والی تعلیمات کے وغیرہ وغیرہ)۔
انسانی وجود کو نفسیانے(psychologization)کا عمل اس ترتیب کو لازماًالٹ دیتا ہے اور ذہن اور ارادے کو طبیعت کے تابع کر دیتا ہے(ویسے ذہن خارج میں کسی شے کے تابع نہ ہو تو طبیعت یا خواہش کے تابع ہو نا اس کا مقدر ہے)۔نہ صرف یہ بلکہ اس ترتیب کو فطری اور معیاری بھی قرار دیتا ہے اور مطلق آزادی کی قدر کے داخلی اور خارجی تحقق کے لیے ضروری بھی۔
۱۰) جدید نفسیات میں انسانی اندروںکسی بھی قسم کی ماورائیت سے یکسر خالی ہےجبکہ ہماری صوفیانہ روایت میں اندروںکی ساری معنویت ہی اس میں ماورائی عنصر کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے‘ اگرچہ دوسرے نفسانی اور جبلی عناصر کا انکار نہیں کیا جاتا۔تہذیب و تزکیہ نفس اصل میں ماورائی اور نفسانی عناصرکے مابین ہم آہنگی ہی کا نام ہے۔ جبلی اور نفسانی کا ماورائی کے تابع ہو جانا ہی نفس کا مہذب بن جانا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ اس اصول پر نفس کو ملکیت اور بہیمیت کے دو رجحانات کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ایک رجحان علوی ہے اور دوسرا سفلی ۔کسی کے نفس میں ملکیت کمزور ہوتی ہے اور بہیمیت طاقتور جبکہ کسی کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔اسی طرح کسی کے ہاں ملکیت اور بہیمیت میں ہم آہنگی ہوتی ہے مگر کوئی ان کے درمیان مسلسل جنگ اور کشمکش کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔شاہ صاحبؒ کشمکش کے حامل لوگوں کو ’’اہل تجاذب ‘‘کہتے ہیں اور ہم آہنگی کے حاملین کو ’’اہل اصطلاحــ‘‘۔ملکیت اور بہیمیت کے کمزور اور طاقتور ہونے اور ان کے درمیان ہم آہنگی اور کشمکش کی بنیاد پر شاہ صاحبؒ انسانی شخصیت کی آٹھ قسمیں بیان کرتے ہیں جو انسانی نفس پر ان کی گہری بصیرت اور عمیق نظر کو ظاہر کرتی ہیں۔یہاں مقصود اس کی تفصیل بیان کرنا نہیں بلکہ صرف اس تضاد کو ظاہر کرنا ہے جو ہمارے روایتی علم النفس اور جدید نفسیات میں پایا جاتا ہے۔غرض یہ کہ روایتی علم النفس اور جدید نفسیات دونوں بالکل متضاد مابعدالطبیعیاتی اور نظاماتی سیاق و سباق رکھتے ہیں اور دو یکسر مختلف معاشرتی نتائج اور انسانی شخصیات کو جنم دیتے ہیں۔