مباحث ِعقیدہ(۱۴)مؤمن محمود
عقیدے کے مباحث میں ہم اس وقت اِلٰہیات کے مبحث پرگفتگو کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کون سی صفات کااعتقاد ہمارے حق میں واجب ہے ۔ یعنی ہمیں اللہ کو ماننے کے لیے اس کے بارے میں کیاکیاماننا ضروری ہے۔ یادوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپناکیاتعارف کروایااور اپنی کیاصفات بیان کی ہیں کہ جن کو ہم مان لیں گے توہمارا عقیدہ برحق ہوگااورا گرہم اس کا انکار کردیں گے توہمارا عقیدہ حقیقت نفس الامری کے مطابق نہیں ہوگا۔ یہ اس وقت ہمارامبحث چل رہاہے ۔اس میں ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کو چار یاپانچ حصوں میں تقسیم کیاتھا۔ پہلے ہم نے صفت ِ وجود ی دیکھی جوکہ ’’وجود‘‘ ہے ۔ اس کے بعد ہم نے صفاتِ سلبیہ کوبیان کیا۔صفاتِ سلبیہ وہ صفات ہیں جن میں گویااللہ سبحانہ وتعالیٰ سے کسی نقص ‘ کمی اور احتیاج کی نفی مقصودہوتی ہے ۔ چنانچہ ہم نے قدم ‘ بقاء‘مخالفہ للحوادث‘قیام بالنفس اور وحدانیت پرکلام کیا۔اس کے بعد ہم صفات معانی کی طرف گئے۔ صفاتِ معانی اور صفاتِ سلبیہ میں فرق یہ تھاکہ صفاتِ سلبیہ وجودی صفات نہیں ہیں‘وہ کسی شے کے عدم کانام ہے ۔ اور صفات ِمعانی میں ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حق میں کسی صفت ِوجودی کااثبات کرتے ہیں ۔ یہاں وجودی شاید کچھ لوگوں کو سمجھ نہ آئے توآپ وجودی کو سلبی کے متضاد کے معنی میں لیں کہ یہاں کسی شے کا سلب مرا دنہیں ہے بلکہ کسی شے کا ثبوت مراد ہے ۔ (صفۃ وجودیۃ قدیمۃ ثابتۃ لذات اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ)۔ یہ صفاتِ معانی ہیں ۔ اس کے بعد ہم نے صفت ِ قدرت اور صفت ِارادہ کوبیان کیا۔اور آج ہم صفت علم پرکلام کریں گے ۔
ترتیب ِصفات
کچھ علماء نے صفت ِعلم کو پہلے بیان کیاکہ صفت ِعلم کے بعد صفت ِقدرت اور ارادہ ہے ۔ بعد سے مراد یہاں یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات میں کوئی قبلیت اور بعدیت تو نہیں ہے لیکن منطقی اور ذہنی ترتیب میں صفت ِقدرت اور صفت ِارادہ صفت علم کے بعد آئے گی ۔یعنی علم ہوگا توقدرت ہوگی اور ارادہ ہوگا۔ صاحب ِقدرت اور صاحب ِارادہ بغیر علم کے ہوہی نہیں سکتااوریہ عقلی دلیل بھی ہے ۔ یعنی جوعلماء اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت علم پراپنی دلیل قائم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جوہستی صاحب ِقدرت ہے ‘صاحب ِارادہ ہے ‘مستحیل ہے کہ وہ صاحب ِعلم نہ ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم ہے‘ قدرت ہے ‘ارادہ ہے۔ کچھ علماء اس میں سب سے پہلے صفت ِحیات کو لے کر آتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ صفت ِ حیات کوئی اضافی صفت ِوجودی نہیں ہے لیکن صفت ِحیات شرط ہے باقی تمام صفات کی۔یعنی قدرت وارادہ بغیرعلم کے متصور نہیں ہوگا۔تویہ تقسیمات متفرق ہوسکتی ہیں ۔ تقدیم وتاخیر جوآپ نے صفات میں کرنی ہے اس میں بہت سے زاویے ہوسکتے ہیں ۔کبھی آپ اس کی منطقی اور ذہنی ترتیب کو پیش نظر رکھیں توایک ترتیب بنے گی ‘اہمیت کے اعتبار سے اس کی ترتیب بنائیں توکوئی اور ترتیب بن جائے گی ۔یعنی صفت ِقدرت اور ارادے کاانکار زیادہ ہواہے بنسبت صفت ِ علم کے۔ ہم نے دیکھاکہ معتزلہ کے ہاں قدرت اور ارادے میں مسائل رہے ۔معتزلہ کے ہاں صفت ِعلم میں مسائل نہیں رہے لہٰذا صفت ِعلم کو مؤخرکردیا ۔یہ ذہن میں نہیں رکھناکہ ہرتقدیم اورتاخیرایک ہی بات پردلالت کرتی ہے ۔یعنی کئی دفعہ یہ اشکال پیدا ہوجاتاہے کہ جو شے پہلے آرہی ہے وہ زیادہ اہم ہوتی ہے یاجوشے بعد میں آتی ہے وہ زیادہ اہم ہوتی ہے ۔کبھی پہلی شے بھی اہم ہوسکتی ہے ‘کبھی آخری شے بھی اہم ہوسکتی ہے۔آپ نے اس ترتیب کے پیچھے وجہ ترتیب تلاش کرنی ہے۔ اگر وہ آپ کو معلوم ہوجائے توآپ جان سکتے ہیں کہ یہاں تقدیم اور تاخیرمیں اہمیت کا بیان ہےیا نہیں ۔
اہل ِسُنّت کون ہیں؟
جب ہم اہل سُنّت کالفظ بول رہے ہوتے ہیں تویہ ایک بڑا عنوان ہوتاہے ۔اس میں کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیںکہ جس پراتفاق ہوتاہے اور وہ اصولی باتیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا اہل سُنّت کے دائرہ میں داخل ہونے کے لیے ان اصولی باتوں کو ماننا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان اصولی باتوں کا انکار کردے گاتووہ اہل سُنّت کے دائرے سے خارج ہوجائے گا۔ جیسےہم نے تحسین وتقبیح عقلی یاذاتی کامسئلہ دیکھا‘اس میں ہم نے اصولی بات یہ ذکر کی تھی کہ لَاحَاکِمَ اِلَّا اللّٰہ! یعنی لَاحکم اِلّا للّٰہ!اب کوئی اگر اس مسئلے میں آکرانکارکردے یا اس میں کوئی شبہ پید اکرے توضروری نہیں ہے کہ ہم اس کو اسلام سے خارج کریں گے‘ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ یہ اہل سُنّت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول ہے ‘لہٰذا اس اصول کے انکار کی وجہ سے تم اہل سُنّت سے خارج ہورہے ہو۔ بنیادی اصولوں کو ماننے کے بعدبہت سی ذیلی تقسیمات ہیں ۔ جیسے فقہ کولیں۔فقہ میں اہل سُنّت کے ہاں چند بنیاد ی اصول متفق علیہ ہیں کہ وہ قرآن اور سُنّت کو حُجّت مانتے ہیں ‘اور سُنّت میں خبرواحد شامل ہے ۔پھر وہ اجماع اور قیاس کو حُجّت مانتے ہیں ۔یہ کچھ بنیادی اصول ہیں جن کی بنا پر ایک شخص اہل سُنّت میں داخل ہوجاتاہے ۔ ان اصولوں کو ماننے کے بعد فروعات میں اوران اصولوں کی تفصیلات میں اختلاف ہوجاتاہے۔اس وجہ سے بہت سے مجتہدین ہوئے‘ جن میں امام ابوحنیفہ ‘امام لیث بن سعد‘امام مالک‘ امام سفیان ثوری‘امام شافعی وغیرہ رحمہم اللہ ہیں۔ اس سے پہلے صحابہؓ میں بہت سے مجتہدین تھے اور صحابہ میں بھی اختلاف ہوا۔ ان کا اختلاف اصولی بنیادوں پر نہیں تھاکہ ایک کے نزدیک قرآن حجّت ہو اور دوسراکہہ رہا ہو کہ یہ حُجّت نہیں ہے ۔ یاایک کا قول ہو کہ خبر واحد حُجّت ہوتی ہے دوسرے صحابی فرمارہے ہوں کہ خبرواحد حُجّت نہیں ہے۔ اس طرح کااختلاف نہیں تھا بلکہ ان مسائل میں اختلاف تھا جن میں قطعیت نہیں پائی جاتی۔یعنی ایسا واضح حکم نہیں تھاکہ جس میں کسی قسم کی دوسری رائے کی گنجائش نہ ہو۔یعنی صحابہ سے اجتہادی اور فروعی احکام میں کثرت سے اختلاف ہوا۔
قرآن وسُنّت پرجمع ہونے سے دفع اختلافات کاواہمہ
آج کل ایسی دعوت بھی چلتی ہے کہ یہ فقہی اختلافات اس لیے ہیں کہ ہم قرآن وسُنّت سے ہٹ گئے ہیں‘ اگر قرآن وسُنّت پرجمع ہوجائیں تواختلافات ختم ہوجائیں گے ۔یہ بہت اچھی بات ہے ‘ دل کو بھانے والی بات ہےمگر درست نہیں ہے ۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بہت سی دل کوبھانے والی باتیں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ اس پرغور کرناچاہیے۔اگر قرآن وسُنّت پرجمع ہونے سے اختلاف ختم ہوتاہے توصحابہ میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا۔ وہ توقرآن وسُنّت پر جمع تھے۔ اگر تمہارے قول کے مطابق اختلاف کاسبب قرآن وسُنّت سے ہٹنا ہے توگویاتمہارے قول کے مطابق صحابہ قرآن وسُنّت پرنہیں تھے ۔ ابن قیمؒ اپنی کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ صرف عبداللہ بن مسعوداور سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں سوسے زیادہ فقہی مسائل میں اختلاف ثابت ہے ۔یہ دوبڑے اہل علم صحابہ ہیں جن کے درمیان اتنااختلاف تھا۔ اس کے باوجودعمرؓ کی وفات ہورہی ہے توحضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :مات تسعۃ عشر العلم آج علم کے دس حصوں میں سے نودنیا سے رخصت ہوگئے ۔ یعنی عبداللہ بن مسعودؓ کے دل میں سیدنا عمر ؓکی یہ قدر ہے ‘لیکن اس قدر نے انہیں اس سے نہیں روکا کہ جس مسئلے میں اختلاف ہے وہ بیان نہ ہو۔یہی اختلاف جب دور تدوین میں پہنچاتو فقہی مذاہب کی صور ت میں آگیا۔ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی فقہ اصلاً فقہ حنفی بن گئی اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی فقہ مالکی بن گئی۔پھر مکہ میں سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ تھے۔
بہرحال اہل سُنّت کے اندر جس طرح فقہی فروعی معاملات میں اختلاف ہوااسی طرح عقائد کے فروعی معاملات میں اختلاف ہوا‘لیکن اصولی معاملات میں نہیں ہوا۔ اصولی معاملات میں ان کا اختلاف غیرفرقوں کے ساتھ ہواجس کی بنیاد پر انہوں نے غیرفرقوں کارد بھی کیااور بتایاکہ ان کے فہم میں کیاکیامسائل ہیں ۔ چنانچہ ان فروعی اختلافات کی بنیاد پر فقہی گروہوں کی مانند عقائد میں بھی ایک سے زیادہ گروہ بن گئے ۔ ان گروہوں کو ہم اشاعرہ اورماتریدیہ کہہ دیتے ہیں۔ امام ابوالحسن الاشعری کی طرف نسبت رکھنے والے کواشعری کہہ دیتے ہیں جب کہ جو امام ابوحنیفہ ؒ کی فقہی اور عقیدے کی تفہیم پرہیں‘جس کو بعد کے بڑے امام‘امام ماتریدی نے جو ماوراء النہر خراسا ن کے امام تھے ‘نے تفصیل سے بیان کیا‘ان کو ماتریدی کہہ دیتے ہیں ۔یہ دونوں اہل سُنّت ہیں اور دونوں میں اختلاف معمولی ساہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اس مقام سے آگے نہ جائیںگے جہاں سلف کھڑے تھے اور ہم تاویل اجمالی پرقناعت کریں گے‘ تاویل تفصیلی پرنہیں جائیں گے ‘ان کو ہم اثریہ یامحدثین کہہ دیتے ہیں یاکبھی ان کوحنابلہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بہرحال یہ تینوں گروہ اہل سُنّت کے دائرے کے اندر ہیں اور ان کا اختلاف فروعی ہے اصولی نہیں ہے ۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ یہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کہاں ہوتے ہیں ؟تو فقہ شافعی اورمالکی والے عقیدہ میں اشعری ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ فقہی جہت سے مالکی ہوتے ہیں اورعقیدے کی تفہیم میں اہل سُنّت کے جس دائرے میں ہیں وہ اشعری دائرہ کہلاتاہے۔ اسی طرح ماتریدی عموماً احناف ہوتے ہیں جوعقیدے کے فروعی اختلافات میں امام ماتریدی سے موافقت رکھتے ہیں۔فقہ حنفی ہندوستان ‘سنٹرل ایشیا ‘افغانستان ‘ترکی وغیرہ میں ہے ۔یہ سارے ماتریدی مسلک والے ہیں۔ بہرحال یہی اُمّت کی اکثریت ہے ۔ احناف سب سے زیادہ ہیں اور پھرشوافع اور مالکیہ ہیں ۔پھر سب سے تھوڑے حنبلی ہیں‘ یعنی اثریہ یا حنبلی گروہ ہے۔توجمہور اُمّت اشاعرہ‘ماتریدیہ‘یعنی فقہ حنفی‘مالکی ‘شافعی ہی شمار ہوتی ہے ۔انہی کو اشاعرہ اورماتریدیہ کہتے ہیں اورانہی کواہل سُنّت کہا جاتا ہے ۔ان کااختلاف فروعی ہے۔ اس اختلاف سے کوئی دین سے خارج نہیں ہوتااورنہ اہل سُنّت کے دائرے سے خارج ہو تاہے ۔ان اختلافات کو ایسا نہیں سمجھناچاہیے کہ بڑا مسئلہ ہوگیااور اُمّت اختلاف میں پڑگئی۔ ان معاملات میں اختلاف میں نہیں پڑی کہ جومسائل اصولی تھے ۔اس ضمن میں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کا ایک کتابچہ ہے جس کا مطالعہ مفید رہے گا:’’ مسلمانوں کی فرقہ بندی کافسانہ ‘‘۔اصل میں ہندوستان میں کچھ لوگوں نے بہت شور شرابہ مچایاکہ یہ تواختلاف ہی کی دنیا ہے‘ حق گم ہوگیا ہے‘ ۷۳فرقے اور ان میں سے ایک جنت میں جائے گااور پتانہیں وہ فرقہ کون ساہے ‘کیسے پتا چلے گا؟ تویہ سارے مسائل ہیں جو دین کی حقیقت پرشکوک وشبہات پیدا کرنے کاذریعہ بنتے ہیں ۔کیونکہ اگر حق غائب ہوگیا توپھر شاید د وبارہ نبی کی بھی حاجت ہوجائے ‘ختم نبوت کاتصور بھی ختم ہوجائے ۔ اسلام کی حقانیت اور قیامت تک اس کابرقرار رہنا جیسے مسائل بھی شکوک وشبہات کاشکار ہوجائیں گے ۔ان سب مسائل کے پیچھے ایک فلسفہ کام کررہاہوتاہے :اُمّت کااختلاف۔
اُمّت کااختلاف رحمت ہے
فروعی اختلاف کوصحابہ اور ائمہ نے رحمت کے طور پر دیکھا ہے ۔ایک حدیث روایت کی جاتی ہے: ((اختلاف اُمَّتی رحمۃ))’’میری اُمّت کااختلاف رحمت ہے۔‘‘ یہ حدیث اگرچہ سنداًثابت نہیں ہے‘لیکن اس طرح کے اختلاف صحابہ اور اَئمہ سے ثابت ہیں ۔ یعنی یہ معنی درست ہے کہ اس فروعی اختلاف کو کبھی بھی زحمت نہیں سمجھاگیابلکہ رحمت کے طورپردیکھاگیااوراس کی وجہ سے وسعت پید اہوئی ۔ بلکہ عمربن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ مجھے دنیا ومافیہا مل جائے اس کےبدلےمیں کہ صحابہ اختلاف نہ کرتے ہوں ۔یعنی مجھے صحابہ کااختلاف کرنادنیاومافیہا سے زیادہ پسند ہے‘ کیونکہ اس اختلاف کے نتیجے میں جورحمت اوروسعت پیدا ہوئی وہ دنیا و مافیہا (دُنیوی متاع) سے زیادہ عزیز ہے ۔ اسی طریقے پرامام مالکؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے اقوال ملتے ہیں ۔امام مالک کوجب کہاگیا کہ آپ کی ’’موطا‘‘ کو ملک کا قانون بنادیتے ہیں یعنی اس کونافذ کردیتے ہیں تو انہوں نے منع کیاکہ صحابہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے تھے اور سب کے اپنے اپنے اجتہادات ہیں۔میں نہیں چاہتا کہ میرے اجتہاد کوسب پرلاگو کردیاجائے ۔یہ بات ذہن میں رکھیے اور اس کو پریشان ہوئے بغیر سن لیجیے کہ فروعات میںا ختلاف ہے اوریہ غیرمضر ہے۔ کیونکہ شیطان کئی دفعہ عجیب وغریب شکوک وشبہات پیدا کردیتاہے کہ ان میں کسی چیزپر اتفاق ہی نہیں ہوتا‘ حالانکہ اصلاًاتفاق ہے۔ اہل سُنّت کے عقائد میں اصلاً نوے پچانوے فیصد جوجنت میں داخلے اور جہنم سے دوری کاسبب ہیں ان سب پراتفاق ہے ۔باقی کچھ فروعی مسائل ہیں جن میں اختلا ف ہوجاتاہے جووسعت ِنظری اور وسعت ِظرفی کی دلیل ہے۔
امام بیہقی ؒکی تواضع
صفت علم کے حوالے سے ہم نے طے کیاتھاکہ امام بیہقی کی کتاب سے کچھ مطالعہ کریں گے۔ وہ کتاب ہے : ’’الاسماء الصفات‘‘ جس کو کچھ عرصے پہلے علامہ زاہد الکوثری جو ایک بڑے عالم تھے‘ انہوں نے اپنی تحقیق سے شائع کیاتھا۔امام بیہقی شوافع میں سے تھے ۔ صفت علم کے حوالے سے ایک عجیب بات عرض کردوں کہ ہمارے جوبڑے بڑے علماء تھے اگر ہم ان کے زمانے میں ہوتے توشاید ان کاجوتااٹھانے کی بھی عزت حاصل نہ ہوتی‘ یعنی ان کا جوتا اٹھانے کے لیے جتنےعلم کی ضرورت ہوتی وہ علم بھی ہمارے اندر نہیں ہے ۔ اس درجے تک پہنچنے کے لیے بھی کافی مہارت حاصل کرنی پڑےگی ۔یہ جوبڑے بڑے لوگ تھے ان سے پوری تاریخ بھری ہوئی ہے ۔ ان بڑےائمہ میں امام بیہقیؒ بھی ایک نام ہے۔ یہ سب کے سب صاحبان علم تھے‘لیکن غایت درجے کی تواضع کایہ عالم ہے کہ امام بیہقی ؒکے بارے میں بعض علماء نے کہا کہ فقہ میں بھی اجتہاد مطلق کے درجے تک پہنچے ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کادعویٰ کہیں نہیں کیااور اپنے آپ کو بس شافعی کہلوایاکہ میں امام شافعی ؒ کامقلد ہوں۔ اسی طرح وہ علماء جن کو ہم جانتے ہیں کہ وہ علم کی دنیامیں معراج تک پہنچے ہیں اور کئی دفعہ ان سے ایسے اقوال بھی برآمدہوئے ۔جیسےمثلاًتحدیث ِ نعمت کے طورپرامام غزالیؒ کہ جب ان پرکچھ لوگوں نے آخری زمانے میں کافی اعتراضات کیے توانہوں نے غصہ میں آکریوں کہہ دیاکہ یہ وہ لوگ ہیں جومجھ پر اعتراض کررہے ہیں حالانکہ یہ میری لکھی ہوئی تحریروں کوسمجھ بھی نہیں سکتے۔ یعنی ان کے اندر یہ اہلیت نہیں ہے ۔
موجودہ دور میں بھی یہ کچھ ہورہاہے۔ یوٹیوب پر آپ کو سینکڑوں ویڈیوز دستیاب ہوجائیں گی کہ جن میں ایک لڑکا بیٹھابتارہاہوگاکہ امام غزالی کافر کیوں ہے یابدعتی کیوں تھا۔ اس پرہنسی بھی آتی ہے اور رونابھی کہ کس زوال کاشکار ہوگئے۔اسی طرح بڑے بڑے امام‘مثلاًامام رازیؒ کن بنیادوں پرکافر شمار ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ہم لوگ جومسائل خلافیات میں پڑے ہیں‘جوآج کل کے مسائل ہیں کہ رفع الیدین پرکیادلیل ہے اورعدم رفع الیدین پرکیادلیل ہے؟اورپھرآمین بالجہرکہنی ہے یا نہیں کہنی؟ اور امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہے یانہیں پڑھنی ؟حدیث کی کتابیں کھول کرتحقیقات کررہے ہوتے ہیں ۔توعمرکاایک اچھاخاصا حصہ اس طرح کی خلافیات میں لگ جاتاہے ‘ جس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔آخر میں یہی ہوگاکہ دماغ خراب ہوگااورعمرکاایک حصہ ضائع ہوجائے گا۔اس حوالے سے امام غزالیؒ کتاب العلم (احیاء) میں ایک جگہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ مجھے کیاہے ان مسائل خلافیات سے ‘میں توامام شافعی کامقلد ہوں‘جوانہوں نے فرمایااس پر عمل کرلوں گا۔ ‘‘ یہ امام غزالی فرمارہے ہیں !اوریہ قول ایسا ہے کہ جس کو آج کے دور کا عام آدمی اپنے لیے اہانت سمجھے گاکہ میں اپنے بارے میں یہ کہوں کہ مجھے یہ دلائل سمجھ میں نہیں آتے اور میں فلاں کامقلد ہوں اورمیں توان کے قول پرچل رہاہوں۔یہ تو میں بھی اپنے بارے میں تسلیم نہیں کروں گا۔ میں کہوں گاکہ میں اتناعام آدمی نہیں ہوں ‘میں دلائل کوسمجھ لوں گا اورمیں دیکھوں گاکہ امام ابوحنیفہ ؒ کاقول کن بنیادوں پر ہے‘ اوراگر وہ ان بنیادوں پرٹھیک ثابت نہ ہواتومیںرد کر دوں گا۔ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ علم زوال پذیر ہوتے ہوتے اس سطح پر آچکا ہے کہ اپنے بارے میںعلم کاواہمہ ہوگیااور یہ زوال کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان غرور ‘خناس اور وساوس میںمبتلا ہوجائے اور آج ہم سب اس میں مبتلا ہیں ۔آج ہرآدمی یہ سمجھتاہے کہ وہ کچھ بتانے کے قابل ہے‘ اس کے پاس پوری دنیا کے مسائل کاحل ہے اور دین کے مسائل میں اس کی خاص تحقیق ہے ۔آپ کوچلتے پھرتے سڑک پرایسے لوگ نظر آجاتے ہیں جن سے قرآن سے ناظرہ پوچھیں تووہ صحیح نہیں سناسکیں گے ‘لیکن ان کی ویڈیوز میں تمام مسائل زیربحث آتے ہیں اور وہ دوسروں کو تبلیغ کررہے ہوتے ہیں ۔پھروہ سمجھتے ہیں کہ ہم تودلیل کے پیچھے چل رہے ہیں۔ ان سے پوچھاجائے کہ دلیل کیاہوتی ہے توانہیں کچھ پتا نہیں۔دلیل کیاہوتی ہے ‘دلیل کی شرائط کیاہیں ‘کب وہ قابل قبول ہوتی ہے ‘برہانی دلیل کیاہے ‘جدلی دلیل کیاہے ‘سوفسطائی دلیل کیاہے ؟مقدمہ کیسے بنتاہے ‘دلیل مدلول تک کیسے پہنچاتی ہے‘اس کا پتاکچھ نہیں ہوگا‘ خبرتک نہیں ہوگی ۔ لیکن دعویٰ کریں گے کہ ہم منطق اور دلیل پرچلتے ہیں ‘ہم دلیل سے بات سنتے ہیں۔ اللہ کرے کہ آپ دلیل سے بات سنتے ہوں ۔
صفاتِ خداوندی کے نقیضین کااپنے بارے میں گمان کرنابندہ کے لیے لازمی ہے
بہرحال ہم صفت علم کا مطالعہ کرنے جارہے ہیں تواللہ تعالیٰ کی صفت علم کاتقاضا یہ ہے کہ ہم جیسےامام غزالی فرماتے ہیں کہ ہم اپنے اندر متضاد تصورات پید اکریں‘ اس میں سب سے پہلے اپنے آپ کوجاہل مطلق سمجھنا ہے۔یعنی اگر اللہ ’’العالم‘‘ ہے توتواضع یہ ہے کہ لاعلم لنا۔ جیسے فرشتوں نے کہا:{لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاط}(البقرۃ:۳۲) ’’ہمیں کوئی علم حاصل نہیں سوائے اُس کے جو آپ نے ہمیں سکھادیا ہے۔‘‘ اور رسول ؑ بھی قیامت کے دن یہی کہیں گے ۔ {یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭ} (المائدۃ:۱۰۹) یعنی جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں تمہاری قوموں نے کیاجواب دیا؟تووہ کیاکہیں گے :’’ہمیں کوئی علم ہی نہیں ہے۔‘‘ نعوذباللہ کیاوہ جھوٹ بول رہے ہیں ؟یعنی انہوں نے کیوں کہا۔ کیاانہیں اتنامعلوم نہیں تھاکہ ہم اپنی قوموں کے پاس گئے توانہوں نے یہ کہا‘ہمیں انکار کیا۔ انہیں پتاہوگالیکن پھریہاں ’’لَا عِلْمَ لَنَا‘‘ کیوں کہہ رہے ہیں ؟اور یہاں لائے نفی جنس ہے جس کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہمارے پاس کوئی خاص درجے کاعلم نہیںہے ۔بلکہ ’’ لَا عِلْمَ لَنَا ‘‘ کامطلب ہے کہ جس کو علم کہتے ہیں اس جنس نامی کوئی شے ہی نہیںہے ۔ وہ برحق کہہ رہے ہیں‘ کیونکہ وہ جس کے سامنے کھڑے ہوکرکہہ رہے ہیں واقعی اس کے علم کے مقابلے میں ان کے پاس علم نامی کوئی شے نہیںہے ۔یعنی خدا کے علم کا‘ چاہے وہ رسولوں کا علم ہی کیوں نہ ہو‘کوئی تقابل نہیں ہے !وہ لامحدود علم والا ہے ۔ البتہ رسولوں کاعلم مخلوق میں سب سے بڑھ کرہوتاہے‘ لیکن خالق کے مقابلے میں وہ پھر کالعدم ہوجاتاہے ۔{لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاط} ۔ اس کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی کہ خدا کے سامنے ان پر جو ہیبت طاری ہوگی اس کی وجہ سے وہ یہ کہیں گے۔کیونکہ جب خدا پوچھے گا کہ بتائوتمہارے ساتھ کیاہوا تو ان کوکوئی جواب نہیں سوجھے گاخدا کی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ۔ اور ایسا ہوتا ہےکہ عظمت اور ہیبت کے مقام پر انسان کے تمام علوم رخصت ہوجاتے ہیں‘ اس کوواقعی کچھ سجھائی نہیں دیتا۔تویہ بھی ایک جواب ہے جواس آیت کی تفسیرمیں دیاگیا۔
بہرحال ہم علم حاصل ضرور کریں‘ لیکن اللہ کے رسولؐ کی مستقل دعا مستحضر رہے :رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘اس کامطلب یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے علم میں اپنے آپ کوناقص دیکھ رہے ہیں ۔یعنی وہ ہستی کہ جس نے کہہ دیاہے اور اپنے کہے پرایمان لانااس کے لیے بھی ضروری تھاکہ ((اناأعلمکم باللّٰہ))(صحیح البخاری) ’’میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کوجانتاہوں۔‘‘یعنی اللہ کے بارے میں سب سے بڑھ کرعلم مجھے حاصل ہوا اوروہ ہستی مستقل اس حالت میں ہے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔یعنی وہ سب سے بڑھ کریہ سمجھتاہے کہ یہ کم ہے اور اس میں مزید مستقل اضافہ ہوناچاہیے ۔یہ اللہ تعالیٰ کاحکم بھی ہے :{وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴)}(طٰہٰ)۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی مستقل دعائوںمیں یہ شامل تھی ۔جیسے ہم دعائوں میں پڑھتے ہیں: ((اَللّٰھُمَّ انفَعْنا بِمَا عَلَّمْتَنَا وَعَلِّمْنَا مَا یَنْفَعُنَا وَزِدْنًا عِلْما))اور((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طّیِّبًا وَ عَمَلًا مُتَقَبَّلًا وَدَعْوَۃً مُسْتَجَابًا)) اب ہم اس امام بیہقی ؒ کی کتاب کامطالعہ کرتے ہیں ۔
باب ماجاء فی اثبات صفۃ العلم (ص۱۱۵)
اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے اثبات میں جوکچھ آیااس کا بیان۔
قَوْلُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ: {وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج }’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے مگرجووہ چاہے‘‘ ۔اب یہاں دلیل بنی ہے :عِلْمِہٖ۔ہ کی ضمیرلفظ جلالہ کی طرف لوٹ رہی ہے‘یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ۔نحو کی تعلیم کے دوران ایک ادب سکھایاجاتاہے کہ جب ضمیریں لوٹانی ہوںتو آپ یہ کہیں کہ یہ ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے تویہ کچھ بے ادبی سی شمار ہوتی ہے ۔یہ کہا جائے کہ مفعول کی ضمیر یامضاف الیہ کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے تویہ اچھانہیں لگتا۔ اس کی جگہ آپ کہیں گے ضمیر لوٹ رہی ہے لفظ جلالہ کی طرف۔ اورلفظ جلالہ اللہ کالفظ ہے ۔ علم مضاف ہے ‘مضاف الیہ ضمیر ہے جولفظ جلالہ کی طرف لوٹ رہی ہے‘ توعلم کی نسبت اللہ کی طرف ہو گئی ۔ اور یہی ثابت کرنا تھا:علم اللّٰہ۔اللہ کاعلم ۔توصفت علم کااثبات ہوگیا۔
اللہ کو صرف عالم ماننا کافی نہیں بلکہ صفت علم کااثبات بھی ضروری ہے
صرف اس بات کااثبات نہیں ہوا جومعتزلہ نے کہا :اللہ عالم ہے ‘مان لیتے ہیں لیکن صفت علم کااثبات نہیں کریں گے ۔یہاں اللہ کو صرف عالم نہیں کہابلکہ علمہ آگیا تواب معلوم ہوگیا کہ اللہ نہ صرف عالم ہے بلکہ ’’عالم بعلمہ‘‘ ہے۔ تویہ دلیل بنارہے ہیں ۔اب آگے کچھ شرح بھی کرتے ہیں۔یقول:یعنی اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہے ہیں :لایعلمون الابتعلیمہ! وہ کچھ نہیں جانتے مگر جواللہ سکھادے اور اللہ کے سکھانے سے جانتے ہیں ۔ سادہ سی تفسیر ہے‘ ظاہرہے اللہ کے بتانے سے ہی جاناجاتاہے ۔مگر غور کریں تویہ اصل میں کسی گروہ کا رد کررہے ہیں ۔ اس کو اس طرح دیکھیں کہ جب آپ کسی بھی عالم کی کوئی کتاب یااس کی تفسیر پڑھ رہے ہوںاوراس میں آپ کو کچھ جملے نظر آئیں جوآپ کواپنے ماحول کے اعتبار سے بالکل سادہ سے نظر آئیں گے ۔ہم مانتے ہیں کہ یہ سادہ سی بات ہےکہ اللہ ہی سکھاتاہے توعلم حاصل ہوتاہے ۔ لیکن چونکہ ایک زمانہ ایسا رہاہے جس میں فلاسفہ بہت غالب رہے ہیں ۔امام بیہقی ؒ کے زمانے میں بھی موجود تھے ‘جن کا پورا ایک مدرسہ فکر تھا۔ اسی زمانے میں ابن سینا جیسے لوگ بھی ہیں ۔ان سب کااللہ کے علم کے بارے میں ایک خیال اور تصورتھا۔اور اللہ کے علم کے بارے میں اصل گمراہی کامظاہرہ فلاسفہ نے ہی کیاہے جبکہ معتزلہ یہاں پراللہ کے فضل سے ٹھیک جگہ پر ہیں۔ البتہ معتزلہ کے ایک گروہ قدریہ اوائل نے علم ازلی کاانکار کیاہے لیکن وہ بہرحال ختم ہوگئے ۔ یعنی معتزلہ نے اس opinionکواختیار نہیں کیابلکہ وہ اس بات پرکھڑے تھے کہ اللہ کا علم صادق‘علم ازلی حتمی ہے ۔جوبھی ہوتاہے اللہ کے علم کے مطابق ہوتاہے اورو ہ اس تقدیرکو مانتے تھے ۔ لیکن اہل سُنّت نے کہا کہ تقدیر کو ماننے کے لیے صرف علم نہیں بلکہ صفت ارادہ کابھی اثبات کروکہ جوکچھ ہوتاہے علم کے مطابق ہوتاہے اوراللہ کی مراد بھی ہوتی ہے ۔بس یہ اضافہ ضروری ہے ۔
فلاسفہ کاتصّورِ الٰہ ونبوت
فلاسفہ نے کہا کہ چونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کائنات کی علت اولیٰ ہے۔ ان کے ہاں علت اولیٰ کامطلب یہ تھاکہ جب علت کامل ہوتی ہے تومعلول اس سے خود بخود وجود میں آجاناچاہیے‘ لہٰذا وہاں ارادے کا عمل دخل نہیں ہوتا۔وہ ایجاب‘فیضان‘فیض کے ذریعے معلول وجود میں آتاہی ہے تووہاں سے مستقل فیض ہے ۔ اوریہ فیض کسی کو زیادہ ہورہاہے کسی کوکم ہورہاہے تویہ کیوں ہورہاہے ۔گویا وہاںسے اللہ کی طرف سے علم کافیضان بھی جاری ہے ۔علم کاایک سیلاب ہے اور ایک سمندر ہےجو بہہ رہاہے لیکن کسی کو زیادہ مل رہاہے کسی کو کم مل رہاہے ۔ کیاوہ اللہ کے ارادے سے کم اور زیادہ مل رہاہے ؟وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ارادے سے کم اور زیادہ نہیں مل رہاہے‘ وہاں سے توچیزیںجاری ہورہی ہیں‘ البتہ جس کوکم مل رہاہے اس کو اپنے کسی نقص کی بنیاد پر کم مل رہاہے ‘جس کو زیادہ مل رہاہے اس کو اپنی ہی کچھ طہارت اور صفائی کے اعتبار سے زیادہ مل رہاہے ۔اللہ سے علم لینے کا ذریعہ کیاہے؟وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا ذریعہ یہ ہے کہ اپنے باطن کو پاک صاف کرتے چلے جائو توتمہارے اوپر خود بخودلوح محفوظ سے علوم وارد ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے پھرنبوت کی explanationبھی یہی دے دی۔ انہوں نے کہا کہ نبی بھی اصل میں ایک پاکیزہ نفس ہوتاہے توگویا اس کے لوحِ قلب پرعلوم لوحِ محفوظ سے منقوش ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس میں ان چیزوں کا دخل نہیں ہوتا کہ فرشتہ آیا ‘اس کواللہ نے اپنی مرضی سے بھیجا‘اللہ چاہتا تورسول نہ بناتا۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ رسول واقعی اس طرح کاانسان بن چکا تھاکہ اُس کارسول اس معنی میں بننا ضروری تھا‘ یہ ہوناہی تھا۔انہوں نے اللہ کو فاعل مختار نہیں مانا‘ارادہ نہیں مانا۔کسی کو رسول بنانا یا نہ بنانایہ اللہ کااختیار ہے اور رسالت اصلاًوہبی ہوتی ہے‘ کسبی نہیں ہوتی۔ان کے قول کے مطابق اصلاً رسالت بھی کسبی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ اس کاواضح طور پر اقرار نہیں کرتے لیکن یہ لازمہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر تم علم حاصل کرناچا ہتے ہوتوایسا نہیںہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ اے اللہ مجھے علم دے دے تواللہ اپنی مرضی سے دے دے گا۔ نہیں !وہ کہتے ہیںکہ اپنی ایک خاص ہیئت بنائو‘اپنے اندر ایک خاص قابلیت پیدا کروتوعلوم خودبخود وارد ہوجائیں گے ۔
رسالت کسبی نہیں ہے وہبی ہے
ہمارے علماءاس کا انکارکررہے ہوتے ہیں جب وہ یہ بتاتے ہیں کہ اللہ ہی کی مشیت سے جتناعلم حاصل ہوتاہے‘ ہوتاہے ۔یعنی جب یہ کہہ دیاگیا: {وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّابِمَاشَآءَ} اور یہ جومشیت کالفظ آگیاتوپتاچلا کہ وہاں سے علم فیضان کے طریقے پر‘بہائو کے طریقے پراور ایجاب کے طریقے پر‘علت اولیٰ کے طریقے پر منتقل نہیں ہورہا‘بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت کے تابع ہوکر ہورہاہے ۔وہ جس کو چاہے علم دے دے اور جس کو چاہے علم نہ دے۔ فرمایا:{عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)} (الکہف) یعنی ہم نے بس اپنی طرف سے دے دیا۔ {اَللہُ یَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ط}(الانعام:۱۲۴) اللہ کو پتاہے کہ وہ کہاں رسول بنائے گا اور کہاں نہیں بنائے گا۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ہمارے ہاں رسالت بالکل ایک وہبی شے ہے ۔ او روہبی مانیں گے تب آپ یہ مانیں گے کہ رسالت کا دروازہ اصلاً بند ہوچکا ہے۔ ارشاد ہوتاہے :{اَللہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط} (الحج:۷۵) ’’وہ اللہ ہے جو فرشتوں میں سے بھی رسولوں کو چن لیتاہے اور انسانوں میں سے بھی ۔ ‘‘
اب اگر یہ تفصیل بیان کریں گے تواس کے بعد امام بیہقی کاقول آپ کو عام نہیں لگے گا۔پتاچلے گاکہ اس میں ایک خطرناک قسم کی بات کا رد ہواہے جواُس زمانے میں پھیلی ہوئی بات تھی ۔ جس زمانے میں بھی یہ باتیں پھیلتی ہیں وہ کسی ایک خاص حلقے تک نہیں ہوتیں بلکہ اس کااثر عوام الناس تک پہنچتاہے ۔ لوگ متاثر ہورہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیںکہ فلاسفہ کے دلائل توبڑے زبردست ہیں ۔ جیسے آج کل بھی ہوتاہے کہ کئی دفعہ ہم پختہ علم نہ ہونے کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کوسنتے ہیں اور وہ اصلاً اہل سُنّت سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اُس زمانے میں بھی ایسے لوگ تھے جوکہتے تھے کہ میں اس کی بات سے متاثر ہوگیا ہوں۔ہرچیخنے والا آکر چیختا ہے توا س کے پیچھے چلنے والے لوگ چل پڑتے ہیں ‘ متاثر ہورہے ہوتے ہیں‘ اسی طرح اُس زمانے میں بھی ہورہے تھے ۔معتزلہ اپنے زمانےکے intellectuals تھے‘ ان سے بڑے بڑے دماغ متاثر ہورہے تھے ۔ایسا نہیں تھاکہ وہ عام آدمی تھے۔ اسی طرح فلاسفہ نے بھی بہت بڑے لوگوں کواپنے ساتھ لگالیا۔
اہتمام حفاظت ِاُمّت
چونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اُمّت میں ایک حفاظت کااہتمام فرمایا ہوا تھاتوایسے ایسے لوگ پید اہوتے چلے گئے جنہوں نے اس انحراف کودرست کیااور رد کیا۔چنانچہ اللہ کے فضل وکرم سے وہ سب فرقے غائب ہوتے چلے گئے جوکسی زمانے میں جھاگ کی طرح چھائے ہوئے تھے ۔ آج کل بھی ایسا ہی ہوگا‘ ان شاء اللہ!اگر چہ ہم ضعیف ہیں اور علم میں بھی زوال ہے‘ لیکن چونکہ یہ دین ہمیشہ کے لیے آیاہے‘ اس میں ایک خدائی حفاظت کااہتمام بھی ہوتاہے ۔ ہمیں صرف انسانی نگاہ سے نہیں دیکھناچاہیے کہ لگتاہے کہ زوال کازمانہ آگیا‘مسلمانوں میں کچھ نہیں رہااور دین میں بھی کچھ نہیں رہا۔ ایسا نہیں ہے ۔یہ دین محفوظ ہے او ر اسی وجہ سے ہم جیسے لوگوں کو بھی صحیح باتیں پہنچ گئیں۔اگرچہ کنفیوژن‘ ضلالت‘ گمراہی اور فتنوں کادور ہے لیکن کوئی شخص اگر صحیح نیت سے دین حق کی تلاش میں لگے اور صحیح بات تک پہنچنا چاہے تواس کو مل بھی جائے گی ۔یعنی یہ کوئی فترت کازمانہ نہیں ہے کہ حق بات رخصت ہوچکی ۔ بہرحال امام بیہقی ؒ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ{وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّابِمَاشَآءَ} میں بِمَاشَآءَ کی قید کتنی اہم ہے ‘اس سے بہت سے تصوّرات کارد ہورہاہے ۔ اس کے بعد اگلی آیت لے کرآتے ہیں :وقال جل وعلیٰ:
{قُلْ فاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۳) فَاِ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَـکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَ نَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ وَاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَج فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۴)}(ھود)
آپؐ کہیے کہ اچھا تم لوگ بھی لے آئو اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی اور (اس کے لیے ) بلا لو تم جس کو بھی بلا سکتے ہو اللہ کے سوا‘اگر تم سچے ہو۔پھر اگر وہ (تمہارے مددگار ) تمہارے اس بلانے کو قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ اللہ ہی کے علم سے نازل ہوا ہےاور یہ کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اُس کے۔تو کیا اب تم سرِتسلیم خم کرتے ہو؟‘‘
{فَاعْلَمُوْٓا اَ نَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ } کے دومطلب کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ بامصاحبت کاہے ۔بائے مصاحبت کامطلب ہوگا جوقرآن مجیدنازل ہوا اس میں بھی اللہ کاعلم ہے ۔یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاکلام ہے تواللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علوم کامخزن بھی ہے ۔اس کے اندر بھی اللہ کے علوم موجود ہیں ۔اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ با سببیہ ہے یعنی ایساقرآن اللہ کے علم کی بدولت اترا ہے‘ اللہ کے علم کے سبب اترا ہے ۔یہ سب تعبیریں ہوسکتی ہیں ۔ تویہاں اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ میں اصلاً علم کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے ۔اسی طرح ایک اور آیت کا حوالہ دیا ہے:
{لٰکِنِ اللہُ یَشْھَدُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ ج}(النساء:۱۶۶)
’’بلکہ اللہ توگواہی دیتاہے کہ اُس نے(اے نبی ﷺ ) جو کچھ آپ پراتار اہے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے ۔ ‘‘
اب یہاں بھی بِعِلْمِہٖ کی وہی تفسیر ہے جومیں نے کردی ۔اسی طرح فرمایا:
{اِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِط وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَکْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ ط وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ اَیْنَ شُرَکَآئِ یْ لا قَالُوْٓا اٰذَنّٰکَ لا مَا مِنَّا مِنْ شَہِیْدٍ (۴۷)}(حٰمٓ السجدۃ)
’’اُسی کی طرف لوٹتا ہے قیامت کا علم۔ اور نہیں نکلتے کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہ کسی مادہ کو حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو جنتی ہے‘ مگر اُسی کے علم سے۔اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ وہ کہیں گے :ہم نے تو آپ سے عرض کر دیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں۔‘‘
اس طرح کی آیات سے علماء استدلال کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی علم صرف کلیات کاعلم نہیں ہے بلکہ جزئیات کاعلم ہے ۔ اللہ اپنی مخلوق میں سے ہرجزو کوجانتاہے ‘ ذرے ذرے کے علم کو۔ میںنے سورۃالانعام کی آیت شروع میں تلاوت کی تھی :
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَاحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۵۹)}
’’اوراُسی کے پاس غیب کے سارے خزانے ہیں‘ کوئی نہیں جانتا اُن (خزانوں ) کو سوائے اُس کے ۔ اور وہ جانتا ہے جو کچھ ہے خشکی میں اور سمندر میں۔ اور نہیں گرتا کوئی ایک پتّا بھی (کسی درخت سے)مگر وہ اُس کے علم میں ہوتا ہےاورنہیں (گرتا) کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں ‘ اورنہ کوئی ترو تازہ اور نہ کوئی سوکھی چیز ‘ مگرایک کتابِ مبین میں (سب کی سب) موجود ہیں۔‘‘
اللہ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں (مفاتیح مفتاحکی جمع)جن کواللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس میں بھی مبالغہ کیاہے۔ لَا یَعْلَمُہَامیں ھاکی ضمیر مفاتیح کی طرف جارہی ہے‘ تومبالغہ کیاہوا ؟ یہ بھی ہوسکتاہے کہ کنجیاں اللہ کے پاس ہیں تواللہ کے سوا غیب کوکوئی نہیں جانتا۔ بلکہ فرمایا کہ غیب کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں جن کنجیوں کواللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘توغیب کوتوبالاولیٰ کوئی نہیں جانے گا۔یعنی اس میں مبالغہ ہے۔ یہ جزئیات کے علم کابیان بھی ہے۔ اللہ صرف کلیات کو‘ بڑی بڑی چیزوں کو‘اجمالی مسائل کونہیں جانتا‘بلکہ جو کچھ بروبحر میں ہے اس کوجانتاہے ۔
خالق مخلوق کوجانتا ہے
یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم ہے ۔یعنی ہرجزو کاہرذرے کاوجود میں ہرشے کا علم ہے۔ اس لیے کہ: {اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط}(الملک)’’ کیاوہی نہ جانے گاجس نے پیدا کیا۔‘‘ خالق وہ ہوتاہے جو اپنی مخلوق کوجانتاہے ۔ ہم چونکہ اپنے اعمال کوتفصیلاً نہیں جانتے لہٰذا ہم اپنے اعمال کے خالق نہیں ہیں ۔ خالق وہ ہے جو اپنی مخلوق کی ہرہرشے کوجانتاہے ۔ اسی طرح فرمایا:
{اِنَّمَآ اِلٰہُکُمُ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَط وَسِعَ کُلَّ شَیْ ئٍ عِلْمًا(۹۸) }(طٰہٰ)
’’حقیقت میں تمہارا معبود تو صرف اللہ ہے ‘جس کے سوا کوئی اور معبود ہے ہی نہیں۔اُسے ہر چیز کا علم حاصل ہے۔‘‘
اب یہاں کُلَّ شَیْ ءٍ ہے ۔ اسی لیے علماء نے کہاکہ قرآن مجید کی چندوہ آیتیں جواپنے عموم پرہیں اوران میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے ان میں ایک آیت ہے :اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم۔ بکل شیء میں واقعی کل شیء ہے ‘اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ میں ایک رائے کے مطابق کچھ تخصیص ہے کہ شیء کااطلاق ہوتاہے یانہیں ہوتا‘لیکن بِکُلِّ شَیْء میں‘ چاہے وہ ممکنات ہویامستحیلات ہوں‘واجبات ہوں سب شامل ہیں ۔ اوریہ علم اپنی حقیقت اور اپنی ماہیت میں مخلوق کے علم کی مانند نہیں ہے ۔ مخلوق کاعلم کچھ حدود میں ہے اور کچھ تصورات کے ساتھ ہے ۔اگلی آیت بہت زبردست ہے اور بہت اُمید دلانے والی بھی ہے ۔فرمایا:{ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا} (غافر:۷)’’اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ‘‘
یہ فرشتوں کی دعا ہے ۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ! تونے ہرشے کا احاطہ کیاہے علم اور رحمت کے ساتھ ۔ اس سے ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ جو شے اللہ نے پید اکی ہے‘ جس کو اللہ جانتاہے وہ شے مرحوم بھی ہے‘ اس پر اللہ کی رحمت بھی ہے ۔ یہ اللہ کی رحمت عمومی ہے ۔ اب رحمت اورعلم کاآپس میں جوتعلق ہے اس کوسمجھ لیں ۔ امام بیہقی ؒنے علم کے بیان میں حضرت خضر والی حدیث پوری تفصیلاً ذکر کی ہے ۔اس میں استشہاد یہ کیاگیاکہ چڑیا نے آکراپنی چونچ میں جو پانی لیاتوحضرت خضر نے حضرت موسیٰ علیہما السلام سے کہا کہ میرے اور تمہارے علم کی مثال اللہ کے علم میں وہی ہے جتنا پانی اس چڑیانے سمندر سےاپنے چونچ میں لے لیا ۔یہ مثال بھی اصلاً تقریب کے لیے ہے وگرنہ تو محدود(finite) اورلامحدود ( infinite)میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی ۔ چڑیا نے جتناپانی لیااس کی کوئی نہ کوئی نسبت بن جائے گی سمند رکے ساتھ۔ لیکن یہ بہر حال سمجھانے کے لیے ہے ۔حالانکہ وہ اپنے زمانے کے دو’’أعلم الناس‘‘ تھے یعنی حضرت خضر اور حضرت موسیٰ ۔ ہم ویسے خِضر کہتے ہیں لیکن علماء نے کہا کہ صحیح تلفظ خَضِر ہے۔یعنی خ پرزبراورض کے نیچے کسرہ ہے ۔ بہرحال حضرت خضر کو بھی اللہ نے فرمایا:{ وَاٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)}(الکہف) کہ ہم نے انہیں اپنی جناب سے رحمت اور اپنی جناب سے علم عطا فرمایاتھا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں بھی ہے کہ وہ ہرشے کااحاطہ علم اور رحمت کے ساتھ کرتاہے ۔
ازدیاد علم ازدِیادِ حلم ورحمت کاباعث ہے
بعض علماء جیسے امام غزالی ؒ اور دوسرے اکابر نے اس طرح بیان کیا کہ جس طرح ہم نے کہا کہ علم کے ساتھ ساتھ تواضع بڑھنی چاہیے‘ اسی طرح علم کے ساتھ ساتھ رحمت بھی بڑھنی چاہیے ۔لوگوں کے عذر دیکھنے کا مزاج پیدا ہوناچاہیے۔ جب تک حسن ظن کی گنجائش ہے اور جب تک کوئی عذر نکل سکتاہے وہ عذر تلاش کرناچاہیے ۔ توعلم کے ساتھ حلم ہے ۔ جوعلم میں بڑھے گاوہ حلم میں بھی بڑھے گا۔اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی علم میں بڑھ رہا ہے اور اس کا مزاج سخت سے سخت اور حقارت آمیز ہوتا چلاجارہا ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ مسائل ہیں۔یعنی مزاج میں مسائل ہیں یاعلم میں کچھ مسائل ہیں ۔بہرحال علم کے ساتھ اسی نسبت تناسب کے ساتھ رحمت بھی بڑھے گی اور تواضع بھی بڑھے گی۔ ایک عالم نے بہت زبردست بات کی کہ اگر مجھے کچھ زعم ہوجائے کہ میرے پاس کچھ علم ہے اور میرے خیال میں آپ جاہل ہوں‘ تو آپ مجھ سے بات کریں گے تومجھے غصہ آجائے گاکہ نہ اسے کچھ پتاہے اورمجھ سے بات کرنے آگیا‘اسے چاہیے کہ کچھ علوم پہلے سیکھ لے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ’’ العالم‘‘ ہے لیکن فرشتوں نے کچھ سوال پوچھے تواس کے جواب میں یہ نہیں کہاکہ تم کون ہوتے ہوپوچھنے والے ؟ یہاں تک کہ شیطان اللہ سے مکالمہ کررہاہے کہ آپ نے اس کو سجدہ کرنے کے لیے مجھے کیوں کہہ دیاجب کہ میں تواس سے بہتر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے العالمہوکر سامنے والے ابلیس سے پوچھا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ ہمارے سامنے جوہوتاہے وہ ابلیس تونہیں ہوتا۔ یہاں حلم کااعلیٰ ترین درجہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اللہ چاہتا تواسی وقت ابلیس کو اٹھاکر جہنم میں پھینک سکتاتھا‘اس کا اختیار سب کچھ ہے ۔ لیکن پھربھی اللہ نے پوچھاکہ کیاوجہ بنی؟ اس نے جواب دیا۔پھراللہ نے اس کاجواب دیا۔ اس نے مہلت مانگی۔اللہ نے کہاکہ مہلت بھی دے دیتے ہیں ۔اس نے پھردعویٰ کیا۔اللہ نے یہ نہیں کہاتم دعویٰ کرنے والے کون ہوتے ہو؟بلکہ کہاکہ ٹھیک ہے تم نے دعویٰ کیاہے کہ بہکادوں گا ‘لیکن میرے فلاں بندوں کوتم بہکانہیں سکوگے ۔ بہرحال اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم ہے ‘ رحمت بھی ہے اورحلم بھی ہے ۔بزرگوں نے کہاہے کہ جواللہ کے جتناقریب ہوگااس میں بھی اسی نسبت سے حلم وتواضع بڑھنی چاہیے ۔اورا گریہ نہیں بڑھ رہی توجان لیناچاہیے کہ کچھ مسائل ہیں۔ اسی طرح آگے فرمایا:
{اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ ط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْــرٌلا وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا(۱۲)} (الطلاق)
’’ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے ہیں اور زمین میں سے بھی انہی کی مانند۔ ان کے درمیان (اللہ کا) امر نازل ہوتا ہے تاکہ تم یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیا ہواہے۔‘‘
یہاں دوصفات جاننے کاکہاہے :علم اور قدرت۔اوریہ علم اور قدرت ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ قیامت میں دوبارہ جی اٹھنے پر استدلال فرماتے ہیں۔وہ دوصفات ہیں :{لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْــرٌلا } تاکہ تم جانو کہ اللہ ہرشے پرقادر ہے ۔ دوسری صفت ہے:{وَاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا} توعلم شامل اورقدرتِ شاملہ کی معرفت حاصل کرو۔ ہم نے یہ کائنات بھی تمہارے لیے بنائی ہے تاکہ تم اسے دیکھ کراللہ کے علم شامل اور اللہ کی قدرتِ شاملہ پردلیل پکڑواوراللہ کے قریب ہوجائو۔ تویہ علم اورقدرت کابیان ہے ۔اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ توجواب میں کہاگیا:{اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللہِ}(الملک:۲۶) توجواب عام ہے۔یعنی قیامت کاعلم پوچھاتھاتوکہاجاسکتا تھا:اِنَّمَاعِلْمُہٗ عِنْدَاللہِ۔ جیسے کہ دوسری جگہ پرآیابھی ہے۔لیکن جواب دیا گیاکہ صرف قیامت کانہیں ہرقسم کاعلم اللہ ہی کے پاس ہے ۔
مختلف اسمائے حسنیٰ کابیان جوعلم پردلالت کرتے ہیں
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے جواسمائے حسنیٰ آتے ہیں علم پردلالت کرنے کے لیے وہ مختلف ہیں ۔ وہ علیم ہے:اِنَّ اللہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔ علام ہے :عَلَّامُ الْغُیُوبِ۔
الخبیر:اللہ جانتاہے ۔ اس کوبیان کرتے ہیں : ویختص بہ ان یعلم مایکون قبل ان یکون۔ کہ اصلاًخبیراس کو کہتے ہیں کہ جوکسی شے کے ہونے سے پہلے جان لے کہ وہ شے ہوجائے گی ۔ تویہ سابقہ علم ہے ۔ پھر الحکیم کے بارے میں کہتے ہیں :الحکیم: حکیم وہ ہے جوصرف ظاہری چیزوں کونہ جانے دقائق کوبھی جانے۔ اوصاف:وصف کی جمع۔ پھرکہتے ہیں :
الشہید:یہ بھی اللہ کے علم پردلالت کرتاہے ۔ شہید اس کو کہتے ہیں جوغیب اور حاضر دونوں کو جانے۔ اس کامعنی یہ ہوتاہے کہ اس سے کوئی شے غائب نہیں ہوتی۔ یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ سے کچھ غیب میں ہے اور اللہ کے سامنے کچھ حاضر ہے تواللہ دونوں کوجانتاہے ۔ وہ غائب اور حاضر ہماری نسبت سے ہے تواللہ کی نسبت سے شہید کامعنی کیا بنے گا : لَایَغِیْبُ عَنْہُ شَیْ ۔اس سے کوئی شے غائب نہیں ہوتی۔ الحافظ:حافظ کا ایک معنی ہے حفاظت کرنے والا۔ایک معنی ہے علوم کی حفاظت کرنے والا۔یعنی ہرعلم کو اپنے پاس رکھنے والا۔حافظ وہ ہوتاہے جوجان لے‘ اس کو کبھی بھولتانہیں ۔ اس کی دلیل دیتے ہیں کہ فرعون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مباحثے میں راہِ حق سے ہٹانے کی کوشش کی تو اس نے پوچھا:پرانے لوگوں کاکیاہوگا؟حضرت موسیٰ ؑنے جواب دیا:
{قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ ج لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی (۵۲) }(طٰہٰ)
’’موسیٰ نے کہا کہ ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں موجود ہے۔ میرا ربّ نہ تو بھٹکتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔‘‘
پھرکہتے ہیں :المحصی:احصاء کرنے والا‘شمار کرنے والا۔اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ معلومات کی کثرت اسے علم سے نہیں روکتی ۔ سب کا احصاء کرنے والا۔اس کے بعد فرماتے ہیں :
{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۴)}(الملک)
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ اور وہ بہت باریک بین ہے ‘ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
پھروہ لطیف ہے باریک اشیاء کا جاننے والا‘خبیرہے ہرشے کو پہلے سے جاننے والاہے یاجلائل الامور بڑے بڑے امور کوجاننے والا ہے ۔ اس کے بعد وہ احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کوہم آئندہ دیکھیں گے ۔ اس میں مشہور حدیث دعائے استخارہ والی ہے ۔اس میں الفاظ آتے ہیں:((تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ))جس طرح قدرت کے بارے میں کہاگیا:(( فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ)) اسی طرح کہا گیا:((وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ))
صفت علم کی تعریف
اب آخری بات ‘صفت علم کی تعریف کیا ہے ۔یعنی صفت علم سے ہوتا کیاہے ؟علماء نے کہا:صفۃ قدیمۃوجودیۃ ثابتۃ لذات اللہ سبحانہ وتعالیٰ تنکشف بہ العلوم کلھا انکشافا تاما وہ علم جوصفت وجودی ہے ‘ قدیم ہے ‘اللہ کی ذات کے لیے ثابت ہے جس کے ذریعے تمام علوم مکمل طورپر منکشف ہوجاتے ہیں‘جس میں کسی قسم کاکوئی ا خفاء نہیں ہوتا‘ کوئی جہل نہیں ہوتا۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم کی تعریف ہے ۔ ہم نے دیکھاکہ قدرت اور ارادہ کاتعلق ممکنات سے ہے ۔یعنی ایک واجب ہوتاہے وہ تواللہ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات توکامل اورمکمل ہے۔جوشے ممتنع ہوتی ہے‘ جو ناممکن ہے‘ جس سے عقلی استحالہ لازم آتاہے وہ ہوہی نہیں سکتی‘ وہ شے ہی نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا علم تمام چیزوں سے متعلق ہے ۔یعنی اللہ کا علم متعلق واجبات سے بھی ہے‘ کیونکہ اپنی ذات کو اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا‘بلکہ اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر اللہ کاعلم تمام ممکنات کے بارے میں بھی ہے جواس نے پیدا کیں اور وہ ممکنات کہ جولامحدود ہیں جن کو پید اکیاجاسکتا تھالیکن ابھی پیدا نہیں ہوئیں یانہیں ہوں گی‘ کیونکہ اللہ کاارادہ نہیں ہوا۔ان سب کو بھی اللہ جانتا ہے کہ اگر ہوتیں توکیاہوتیں۔اوریہ بھی جانتاہے کہ جوممکنات ہوگئیں اور اگر یہ نہ ہوتیں توکیاہوتایعنی ممکنات کے جتنے بھی احتمالات ہوسکتے ہیں۔اور ممتنعات جو نہیں ہو سکتے ان سب کوبھی اللہ جانتاہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم علم شامل ہے ‘علم کامل ہے ‘تمام جزئیات ‘تمام کلیات ‘ تمام تفاصیل ‘تمام اجمال ‘تمام ممکنات ‘تمام واجبات ‘تمام مستحیلات سے متعلق ہے۔ اس میں مزید کچھ تفصیلات ہیں کہ کس طریقے سے یہ علم انسانی علم سے مختلف ہے اور کن اعتبار ات سے مختلف ہے ۔ اسی لیے ہم اللہ کے لیے عارف‘ عاقل‘ فقیہہ وغیرہ کے الفاظ نہیں بولتے۔ ان تفصیلات کواگلی نشست میں دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ !
tanzeemdigitallibrary.com © 2024