(حرفِ اوّل) فَأَنّٰی يُسْتَجَابُ لِذٰلِكَ ؟ - حافظ عاطف وحید

10 /

بسم اللہ الرحمن الرحیمفَأَنّٰی يُسْتَجَابُ لِذٰلِكَ ؟

بعض الٰہی ضابطے قرآن مجید میں ایک سے زائد مرتبہ بیان ہوئے ہیں۔ ان ضابطوں کے تکرار اور اعادے کو اہل تفسیر عملی اعتبار سے نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ضابطہ سورۃ الانفال کی آیت۵۳ میں بیان ہوا جسے ایک قدرے مختلف اسلوب کے ساتھ سورۃ الرعد کی آیت ۱۱ میں بھی واضح کیا گیا۔ دونوں مقامات کے متعلقہ حصّہ جات کو مع ترجمہ سطورِ ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:
{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔۔۔ }(الانفال:۵۳)
’’یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ اُس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ (قوم) اُس چیز کو نہ بدل ڈالے جس کا تعلق خود اُس سے ہے۔‘‘
{اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔۔۔۔}(الرعد:۱۱)
’’ اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ (قوم) خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کرلے۔ ‘‘
ان مقاماتِ قرآنی میں قوموں کے عذاب کے ضمن سُنّت اللہ بیان ہوئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر انعام فرماتا ہے تو یہ random انداز میں نہیں ہوتا بلکہ کچھ شرائط اور صفات و کردار سے مشروط ہوتا ہے۔ قوم اگر اپنے آپ کے اُن صفات و اخلاق سے محروم کرلے جن کی بنا پر وہ مستحق ِانعام ٹھہری تھی تو عطا کردہ انعام کا استحقاق جاتا رہتا ہے۔ یعنی جب کوئی قوم خود اپنی روش بدل لیتی ہےاور تنبیہہ و اِنذار کے باوجود متنبہ نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب بھیجتا ہے جسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ انہی مقاماتِ قرآنی سے ایک دوسرا مفہوم بھی اخذ کیا گیا ہے‘ جسے مولانا ظفر علی خان نے یوں بیان کیا ہے:؎
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایک آزاد خطہ ٔارضی کی نعمت بھی بلا شرائط نہیں تھی۔ ہمیں مغالطہ لاحق ہوا اگر ہم نے یہ سمجھا کہ اپنی سمت درست کیے بغیر اور اپنے اخلاق‘ کردار اور صفات کو مطلوبہ معیارات پر لائے بغیر اس عظیم نعمت کا استحقاق باقی رہ سکتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص اور ہر معاشرے کو بایں طور متنبہ فرمایا ہے‘ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے :
((إنَّ اللّٰهَ تَعَالٰى طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا ، وَإنَّ اللّٰهَ أَمَرَ الْمُؤمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ المُرْسَلِينِ؛ فَقَالَ تَعَالٰى:{يٰٓاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا} [المؤمنون: ۵۱]، وقال تعالٰى: {يٰٓاَیُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ} [البقرة:۱۷۲]، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ ، أَشْعَثَ ، أَغْبَرَ ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّماءِ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ ، وَمَلْبَسُهُ حَرامٌ ، وَغُذِيَ بِالْحَرامِ ، فَأَنّٰى يُسْتَجابُ لَهُ؟!))(رواه مسلم، عن أبي هريرةؓ)

’’اللہ تعالیٰ طیب (پاک) ہے اور طیب کو ہی قبول فرماتا ہے۔ اور اللہ نے مسلمانوں کو بھی انہی باتوں کا حکم فرمایا ہے جن کا حکم انبیاء و رسل کو فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! ہم نے جو پاکیزہ نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں انہیں استعمال کرو (یعنی خبائث کا ارتکاب مت کرو)۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک گرد و غبار سے اَٹے ہوئے شخص کا ذکر فرمایا جو بہت طویل سفر کر کے (بیت اللہ شریف) پہنچا اور دونوں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اللہ سے دُعا کرنے لگا: اے ربّ! اے ربّ!! حالانکہ اُس کا کھانا حرام کا‘ پینا حرام کا‘ لباس حرام کا اور جس خوراک سے اس کا وجود پلا بڑھا وہ بھی حرام کا۔ تو ایسے شخص کی دعا قبول ہو تو کیوں کر؟‘‘
علّامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے : ـ؎
فطرت افراد سے اِغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملّت کے گناہوں کو معاف!
موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بادنیٰ تامل سمجھ میں آجاتی ہے کہ قوموں کی نجات و فلاح کے لیے قومی جرائم سے توبہ تائب ہونا لازم ہے۔ سودی نظامِ معیشت پر استمرار و دوام اور ٹرانس جینڈر ایکٹ ایسے حیا سوز قوانین کا اِجراء ہمارے قومی جرائم اور اجتماعی گناہ ہیں۔ {فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہَ وَرَسُوْلِہٖ } کی وعید اور ’’فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ‘‘ کی تلوار ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا ادراک‘ سچی توبہ و استغفار اور روش درست کرنے کی تشخیص ‘ اس کا شعور کیسے پیدا ہوگا.......!
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!