(تذکر و تدبر) مِلاکُ التأویل(۳۶) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

10 /

مِلاکُ التأوِیل (۳۶)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن
سُورۃُ الکَہْف(۲۳۲) آیت ۷۱
{لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا(۷۱)}
’’تم نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔‘‘
اور بچے کے قتل کے بعدکہا:
{لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا(۷۴) }
’’تم نے تو یقیناً ایک بہت ہی بری بات کی ہے۔‘‘
یہاں سوال کرنے والا سوال کر سکتا ہے کہ ان دو واقعات کے ذکر کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے ان دونوں اقوال میں اختلاف کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے‘ واللہ اعلم‘ کہ پہلے واقعہ میں خضر علیہ السلام نے صرف کشتی کے چند تختے توڑے تھے تاکہ جو اسے غصب کرنا چاہتا تھا وہ اس عیب کو دیکھ کر اس کشتی پر ناجائز قبضہ کرنے سے باز آ جائے۔ جیسا کہ اس قول سے واضح ہوتا ہے:
{فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَآءَہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا(۷۹)}
’’تو مَیں نے اسے عیب دار کر دیا اور ان کے آگے ایک ایسا بادشاہ تھا جو ہر (صحیح سالم) کشتی کو غصب کر لیا کرتا تھا۔‘‘
ان کا یہ فعل اس لیے تھا کہ بادشاہ کشتی کے عیب کو دیکھ کر اُسے اپنے قبضے میں لینے سے باز آجائے اور کشتی اپنے مالک کے قبضے میں باقی رہے ۔ان کا یہ فعل بچے کے قتل سے بہت کم تر تھا اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس فعل کے لیے ’’اِمْرًا‘‘ (بمعنی سخت حرکت) استعمال کیا ‘لیکن بچے کا قتل تو ایک بھیانک فعل تھا اس لیے اسے ’’نُکْرًا‘‘ (بمعنی بہت بری بات) سے تعبیر کیا۔ اور قتادہ کے قول کے مطابق ’’نُکْرًا‘‘ کا لفظ بمقابلہ ’’اِمْرًا‘‘ زیادہ سخت ہے‘ اس لیے اس دوسرے فعل کی قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے پہلے فعل کے مقابلے میں زیادہ سخت لفظ کا استعمال کرنا بالکل مناسب تھا ‘واللہ اعلم!
(۲۳۳) آیت ۷۲
{اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۲) }
’’کیا مَیں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر) ہرگز صبر نہ کر پائوگے؟‘‘
لیکن بچے کے قتل کے بعد ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ‘‘ (آیت۷۵)کہا یعنی ’’کیا میں نے تم سے یہ نہ کہا تھا ......‘‘
تو یہاں ’’لَکَ‘‘ کااضافہ کیوں کیا گیا؟
اس فرق کو سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی آیات پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کے بعد کہاتھا:
{ہَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(۶۶) }
’’کیا مَیں آپ کی تابعداری کروں‘ کہ آپ مجھے جو کچھ آپ کو سکھایا گیا ہے اس میں سے ہدایت کی باتوں کی تعلیم دیں!‘‘
تو انہوں نے کہا:
{اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۶۷)}
’’بے شک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔‘‘
اور پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ انہوں نے کشتی میں سوراخ کر دیا ہے تو وہ بول اُٹھے:
{اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَاج}(آیت۷۱)
’’کیا تم نے اسے اس لیے عیب دار کیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کر دے!‘‘
تو خضر نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنا یہ قول یاد دلایا:
{اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۲)}
’’کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر پائو گے!‘‘
اس پر موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کرتے ہوئے کہا:
{لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلَا تُرْہِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا(۷۳)}
’’میری بھول چوک پر میرا مواخذہ نہ کرو اور نہ ہی میرے معاملہ میں سختی سے پیش آئو!‘‘
اور پھر جب دیکھا کہ انہوں نے تو ایک بچے کو مار ڈالا ہے تو وہ اور طیش میں آ جاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں:
{اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ ط} (آیت۷۴)
’’کیا تم نے ایک پاک نفس کو بغیر کسی جان کے عوض میں مار ڈالا!‘‘
اور پھر اس بات کی شناعت کو ان الفاظ میں ادا کیا:
{لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا(۷۴) }
’’یہ تو تم نے بہت ہی بُرا کام کیا۔‘‘
اس کے جواب میں خضر نے بطور تاکید کہا: {اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ}(آیت۷۵) یعنی جو بات پہلے بھی کہہ چکے تھے ‘ اس کی خاص طو رپر یاد دہانی کرا دی یہ کہہ کر کہ ’’کیا مَیں نے تم سے یہ نہ کہا تھا؟‘‘
’’ لَکَ‘‘ جار اور مجرور ہے۔ بعض نحویوں کے نزدیک حرف جر ایک فعل مضمر سے متعلق ہے اور بعض کے نزدیک وہ صرف زائد حرف کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی فعل سے متعلق نہیں ہے۔
اور ان کا یہ کہنا کہ ’’اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا‘‘اشارہ ہے ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ‘‘کی طرف ‘ (عربی نحو کے اعتبار سے اسے ’عامل‘ کہا جائے گا اور اگلے جملے کو ’معمول‘ کہا جائے گا)۔میرے نزدیک اسے ایک دوسری طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ‘‘ خود ایک پوری عبارت ہےجس کا معمول محذوف ہے یعنی ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ مَا قُلْتُ‘‘(کیا مَیں نے تم سے نہیں کہا تھا جو کہ مَیں پہلے کہہ چکا تھا )اور اس کے بعد نیا جملہ شروع ہوتا ہے۔
’’اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا‘‘گویا ایک مستقل جملہ ہے اور ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ‘‘ کا معمول نہیں ہے۔ اور ہم کہہ چکے ہیں کہ اس کا معمول حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال سورئہ یونس سے ملاحظہ ہو:
{قَالَ مُوْسٰٓی اَتقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَکُمْ ط } (آیت۷۷)
’’موسیٰ نے کہا کہ کیا تم حق کے بارے میں کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آ پہنچا!‘‘
اس کے بعد کہا: {اَسِحْرٌ ہٰذَاط}’’کیا یہ جادو ہے؟‘‘یہاں بھی قول کا معمول محذوف ہے‘ یعنی ’’اَتقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَکُمْ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘ (کیا تم حق کے بارے میں کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آ پہنچا کہ یہ کھلا کھلا جادو ہے؟)پھر اس کے بعد ان کو ڈانٹنے کے اندا زمیں کہا:{اَسِحْرٌ ہٰذَاطکیا یہی وہ جادو ہے؟تو جس طرح یہاں قولِ موسیٰ کے بعد ’’سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘ محذوف ہے‘ اسی طرح ’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ‘‘ کا معمول ’’مَا قُلْتُ‘‘ بھی محذوف ہے جیسا کہ ہم نے وضاحت کی۔ واللہ اعلم!
(۲۳۴) آیت ۹۷
{فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْہَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَقْبًا(۹۷) }
’’پس نہ تو ان میں (اس دیوار) کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ہی وہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’اِسْتَطَاعُوْا‘‘ (تاء کے ساتھ) اور ’’اسْطَاعُوْا‘‘ (تاء کے حذف کے ساتھ) میں کیا فرق ہے؟
جواباً عرض ہے کہ ’’اِسْتَطَاع‘‘ اصل ہےلیکن اسے ’’اِسْتَاعَ‘‘ اور ’’اِسْطَاعَ‘‘ بھی لایا جا سکتا ہے کہ جن میں ایک حرف کو حذف کر کے فعل میں تخفیف کی گئی ہے۔ دیوارکے اوپر چڑھنا بنسبت دیوار میں سوراخ کرنے سے زیادہ آسان ہے‘ اس لیے پہلے آسان فعل کے لیے فعل مخفف (یعنی بغیر تاء کے) لایا گیا اور دوسرے مشکل کام کے لیے فعل ثقیل (یعنی تاء کے ساتھ)لایا گیا ‘ اور یوں دونوں کاموں کے ساتھ ہر کام کی مناسبت سے فعل لایا گیا کہ جس کا الٹ مناسب نہ تھا۔ دوسرے کام کی نفی کرنے کے لیے پورا فعل (اِسْتَطَاعُوْا) ذکر ہوا کہ یہاں اس بات کی نفی کرنا تھی کہ وہ اس دیوار کے بگاڑنے پر قطعاً کوئی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔

اضافہ از مترجم: یہ دونوں الفاظ موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کےقصے میں بھی آ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے تین مرتبہ خضر کے افعال پر تعجب کا اظہار کیا تھا اور ان سے بار بار یہ سوال کیا تھا کہ ایسا کیوں کیا۔ تو تیسری مرتبہ خضر علیہ السلام نے یہ جواب دیا تھا :{ہٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ ج سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا(۷۸)} ’’ یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت ہے۔ اور اب میں تمہیں بتانے لگا ہوں ان تمام باتوں کی حقیقت جن پر تم صبر نہ کرسکے۔‘‘یہاں لفظ اِسْتَطَاع فعل مضارع نفی کے صیغہ کے ساتھ مَالَمْ تَسْتَطِعْ (تاء کے ساتھ) کی صورت میں ہے۔ اور وہ اس لیے کہ ان تینوں واقعات کی حقیقت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمجھنا مشکل ہو چکی تھی۔ اور پھر جب تینوں باتوں کی حقیقت بیان کر دی گئی تو یہ سارے معاملات موسیٰ علیہ السلام کے لیے بالکل آسان ہوگئے ۔اس لیے خضر علیہ السلام نے آخر میں یہ الفاظ کہے: {وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ط ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا(۸۲)} ’’یہ سب کچھ مَیں نے اپنی رائے سے نہیں کیا‘او ریہ حقیقت ہے ان تمام واقعات کی جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا‘‘۔ یہاں ملاحظہ ہو کہ ’’مَا لَمْ تَسْطِعْ‘‘ (بغیر تاء) کے لایا گیا کہ جس میں تخفیف پائی جاتی ہے۔
(۲۳۵) آیت ۱۱۰
{قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَ نَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌج }
’’کہہ دیجیے کہ مَیں تو صرف ایک انسان ہوں تمہارے جیسا‘ مجھ پروحی آتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود واحد ہے۔‘‘
بالکل ایسی ہی سورئہ حم السجدۃ کی آیت۶ بھی ہے‘ لیکن سورۃالانبیاء کی آیت ۱۰۸ میں یہی آیت بغیر ’’اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ‘‘ کے لائی گئی ہے۔ فرمایا: {قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌجتو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الانبیاء کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ اللہ کے رسول انسانوں ہی میں سے آتے ہیں اور یہ بات کفار کے اس قول کا جواب تھی جو انہوں نے نبی مکرمﷺ کے بارے میں کہی تھی: { ہَلْ ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج }(آیت۳) ’’کیا وہ تمہارے جیسا ایک انسان نہیں ہے؟‘‘اور پھر اگلی آیت میں ان کی بشریت کو واضح کرنے کے لیے مزید الفاظ لائے گئے (جیسے لفظ ’’رِجَال‘‘ آیت۷ اور لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ‘ آیت۳۴) اور سورۃ کے آخر میں نبیﷺ کی توصیف میں اس آیت مبارکہ کا بیان ہوا :{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) } ’’اور ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا:{قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌج } تو یہاں آپﷺ کے لیے لفظ ’’بشر‘‘ کا لانا غیر ضروری تھا کیونکہ ساری سورت میں بشمول رسول اللہﷺ کے کئی دوسرے انبیاء اور ان کی بشری ضروریات کا ذکر تفصیل سے آ چکا تھا۔
جہاں تک سورۃ الکہف کا تعلق ہے تو اس میں ایسا کوئی ذکر پہلے نہیں آیا‘ اس لیے وہاں نبیﷺ کی بشریت کا تذکرہ ‘ آپؐ کے دشمنوں کی ناک رگڑنے کے لیے ضروری تھا ‘اور اس لیے بھی تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر لطف و رحمت کا سائبان بلند کیے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
{وَلَوْ جَعَلْنٰـہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰـہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ(۹) } (الانعام)
’’اور اگر ہم اس کو فرشتہ ہی بھیجتے تب بھی اسے آدمی ہی بنا کر بھیجتے اور پھر ہم انہیں اسی اشکال میں پھنسا دیتے جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
اور اس آیت سے قبل ارشاد فرمایا:
{وَلَـوْ اَنْزَلْـنَا مَلَکًا لَّـقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ(۸) }
’’اور اگر ہم ایک فرشتہ نازل کرتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا اور پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی۔‘‘
رسولوں کا انسانوں میں سے ہونا مخلوقات پر اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں‘ سورۃ الکہف میں خاص طو رپر نبیﷺ کی بشریت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
سُورۃ مَرْیَم(۲۳۶) آیت ۱۴
یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
{ وَبَرًّا بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴) }
’’اور وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا تھا اور وہ سرکش و نافرمان نہ تھا۔‘‘
اور عیسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا :
{ وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ ز وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) }
’’اور اس نے مجھے میری والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے‘ سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔‘‘
دونوں انبیاء کرام علیہم السلام کے وصف میں اختلاف نظر آتا ہے حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی معلوم ہوتا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں پہلے ہی یہ ارشاد کر دیا تھا:{وَکَانَ تَقِیًّا(۱۳)}’’اور وہ ایک پرہیزگار شخص تھا۔‘‘ تَقِیّ بروزن ’’فعیل‘‘ مبالغہ کے صیغوں میں سے ہے‘ یعنی اس میں تقویٰ کے سارے اوصاف پائےجاتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ ایسا شخص گناہوں سے پاک و صاف ہو‘ تو ان کے بارے میں ’’عصِیَّا‘‘ یعنی گناہوں سے مبرا ہونے کا ذکر عین مناسب تھا اور سورئہ آلِ عمران (آیت۳۹) میں  اس مضمون کو ’’سَیِّدًا وَّحَصُوْرًا‘‘ (سردار اور معاصی سے دور) کہہ کر بیان کیا گیا ہے۔
’’حصر‘‘ کا مطلب ہے : روکا جانا‘ کسی چیز کا منع کیا جانا۔مکی بن ابی طالب نحوی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ گناہوں سے رک گئے تھے اور ان سے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا تھا۔ اور جس کسی مفسر نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے روک دیے گئے تھے تو یہ بات صحیح نہیں ہے‘ کیونکہ یہ تو ایک عیب ہے کہ ایک مرد عورت سے تعلق قائم کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ انبیاء تو تمام عیوب سے پاک ہیں ۔ کسی کی تعریف و توصیف کے وقت اس کا عیب ظاہر کرنا تو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ایسے مقام پر تو بجائے عیب کے اس شخص کے کمال اور قوت کو ظاہر کیا جانا چاہیے ‘تو یہاں ’’حصور‘‘ سے مراد ہے : ممنوع عن المعاصی(گناہوں سے ممنوع شخص) ۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’قیامت کے دن سوائے یحییٰ بن زکریا کے ہر بنی آدم کسی نہ کسی گناہ کے ساتھ آئے گا۔‘‘ (ـطبری‘ تفسیر ابن کثیر)
پہلے ’’تَقِیًّا‘‘ بصیغہ مبالغہ کہا‘ پھر ’’جَبَّارًا‘‘ (صیغہ مبالغہ) کی نفی کی گئی اور آخر میں ان کے گناہوں سے بچنے کا بیان کر کے ان کی پاکیزہ زندگی پر مہر ثبت کر دی گئی۔
اب دوسری آیت ملاحظہ ہو جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےبارے میں کہاگیا : {وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲)} (اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا) یہاں عیسیٰؑ کے نام لیوائوں کی اس قابلِ مذمت جرأت کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے عیسیٰ ؑکو اللہ کا بیٹا کہہ ڈالا جب کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس نسبت سے بہت بالا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ان کی بدبختی کا باعث بنا جو کہ ان کے لیے اُخروی عذاب کا ضامن ہو گا۔
آخرت میں تمام لوگ ان دو اقسام ہی سے پہچانے جائیں گے:
{ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ(۱۰۵)} (ھود)
’’اور ان میں بدبخت ہوں گے اور خوش بخت بھی۔‘‘
بالکل ایسے ہی جیسے دنیا میں کافر اور مؤمن کی تقسیم ہے:
{فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ ط} (التغابن:۲)
’’اور تم میں سے (کچھ) کافر ہیں اور (کچھ) مؤمن۔‘‘
یہاں اس بات کا لحاظ رکھا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے پیروکاروں کے اس قول سے قطعاً راضی نہ ہوں گے بلکہ بروز قیامت ایسے لوگوں سے اپنی براء ت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے :
{مَا قُلْتُ لَـہُمْ اِلَّا مَـآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ} (المائدۃ:۱۱۷)
’’مَیں نے تو ان سے وہی کچھ کہا تھا جس کے کہنے کا آپ نے حکم دیا تھا۔‘‘
اور اسی تناظر میں ان کے شقی ہونے کی نفی کی گئی۔ اور یوں واضح ہو گیا کہ دونوں آیات اپنی اپنی جگہ پر بالکل مناسبت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم!
(۲۳۷) آیت ۳۷
{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ  بَیْنِہِمْ ج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۳۷) }
’’تو پھر فرقوں کے درمیان باہمی اختلاف ہو گیا ‘پس بربادی ہو کافروں کی کہ وہ ایک بہت بڑا (ہولناک) دن دیکھنے والے ہیں۔‘‘
اور سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
{فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(۶۵)}
’’تو بربادی ہو ظالموں کی کہ وہ ایک دردناک دن کا عذاب چکھنے والے ہیں۔‘‘
یہاں عبارت میں دو جگہ اختلاف ہے ‘یعنی ’’فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ پہلی آیت میں اور ’’فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘‘ دوسری آیت میں‘ اور ’’ مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ‘‘ ایک جگہ اور ’’ مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ‘‘ دوسری جگہ ۔تو اس کا کیا سبب ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا یا کفر کرنا ہر گناہ سے بڑھ چڑھ کر ہے‘ اور اس کے ہوتے ہوئے اچھے کام بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس لحاظ سے کفر‘ ظلم سے زیادہ بڑا ہے۔
بعض دفعہ کافر کو بھی ظالم کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ صفت ظلم‘ کفر کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ یعنی جو شخص کفر کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ اور اگر کفر کے ساتھ چاہے ‘اس کا صریحاً ذکر ہو یا اشارتاً ذکر ہو‘ ظلم کا اضافہ بھی کر دیا جائے تو گویا تاریکی پر تاریکی کا سماں ہے۔ دیکھئے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ}(آیت۱۶۸)
’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا تو اللہ ان کی مغفرت کرنے والانہیں ہے۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ سورئہ مریم کی مذکورہ آیت سے قبل ارشاد فرمایا تھا:
{ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ج قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ(۳۴) }
’’یہ ہیں عیسیٰ بن مریم‘ اور یہی وہ صحیح بات ہے کہ جس کے بارے میں لوگ شک و شبہ کرتے ہیں۔‘‘
{مَا کَانَ لِلہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍلا سُبْحٰنَہٗ ط اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۳۵) }
’’اللہ کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ ایک بیٹا رکھے‘ وہ پاک ہے۔ جب وہ کوئی بھی کام کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام ہو جاتا ہے۔‘‘
{وَاِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ط ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۳۶) }
’’اور بے شک اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے‘ تو پھر اُسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘
اور اس تفصیلی بیان کے بعد مذکورہ آیت آتی ہے:
{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ  بَیْنِہِمْ ج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۳۷) }
ان مختلف گروہوں کا اختلاف کیا تھا؟کسی نے کہا کہ وہ تو خود الٰہ ہیں۔ کسی نے کہا:نہیں ‘وہ تو اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور کچھ نے کہا کہ وہ تین کےتیسرے ہیں۔تو یہ تھا ان کا اختلاف جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
اور پھر ایک بڑے ہولناک دن اُن کی بربادی کی خبر دی اور اس کاسبب یہ بتایا کہ انہوں نے کفر کا ارتکاب کیا تھا۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ دن بہت بڑا دن ہوگا جس کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
{ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لا لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ(۱۰۳)} (ھود)
’’یہ وہ دن ہے کہ جس کے لیے لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور یہ وہ دن ہےجس میں سب حاضر ہوں گے۔‘‘
اور اسی دن گواہ ان الفاظ میں گواہی دیں گے :
{ ہٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّہِمْ ج اَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ(۱۸) } (ھود)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا ہے۔ خبردار! اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔‘‘
سورۃ الزخرف میں ان کے ظلم کی طرف اشارہ کیا گیا جو کہ ان کے کفر کا ہی ایک حصہ تھا‘ اور مذکورہ آیت سے قبل ان احوال کو بھی بیان کیا گیا جو ان کے لیے عذاب کا باعث بنے۔ فرمایا:
{ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ(۳۶)} (الزخرف)
’’اور جو رحمٰن کے ذکر سے آنکھیں موند لیتا ہے تو ہم اس کے ساتھ ایک شیطان کو نتھی کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔‘‘
اور پھر ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
{ وَلَنْ یَّنْفَعَکُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّکُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ(۳۹)} (الزخرف)
’’اور جب تم سب نے ظلم کیا تو تم سب کا عذاب میں باہمی شریک رہنا تمہیں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا۔‘‘
یہاں یہ ظلم‘ کفر کا ظلم ہے اور اس میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام ہی کی عبادت کرنا شروع کر دی تھی۔ جس کی عبادت کی ‘اس کا ان کے اس فعل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چونکہ یہاں ان کے ظلم کاتذکرہ کیا گیا تھا‘ اس لیے مناسب ہوا کہ ان کے بارے میں کہا جاتا:{فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا} ’’تو پھر بربادی ہو ان کی جنہوں نے ظلم کیا۔‘‘ان کا ظلم کفر ہی کی ایک شکل تھی اور جس مناسبت کا ہم نے پہلے ذکر کیا‘ اسی کی رعایت سے یہاں ان کے لیے ’’ظَلَمُوْا‘‘ کا لفظ لایا گیا۔سورئہ مریم کی آیت میں ایسی کوئی مناسبت نہ تھی اس لیے وہاں ’’کَفَرُوْا‘‘ کا لفظ لانا ہی مناسب تھا۔
اس کے بعد فرمایا:{مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(۶۵)} یعنی ایک دردناک دن کے عذاب سے ان کی بربادی کا حوالہ دیا گیا۔ پہلے اس دن میں ان کے حاضر ہونے کا تذکرہ کیا: {مِنْ مَّشْہَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۳۷) } اور پھر ان کے عذاب کا ذکر کیا۔گو عذاب خود دردناک ہو گا لیکن ’’دردناک دن‘‘ کہہ کر ان کے عذاب کی شدت کی طرف اشارہ کیا گیا۔جیسے عربی محاورے میں کہا جاتا ہے :’’نہارُکَ صَائِمٌ وَلَیلُک قَائِم‘‘ یعنی ’’تمہارا دن روزہ ہے اور تمہاری رات قیام ہے‘‘ (قولِ سیبویہ)یعنی اصل میں تو انسان روزہ رکھتا ہے اور وہی رات کو نما زکے لیے اٹھتا ہے لیکن اس کی عبادت کی مدح یوں کر دی گئی کہ گویااس کا دن روزہ ہے اور رات قیام ہے۔
یہ عذاب اس دن میں دوسرے مرحلے میں ہو گا‘ پہلے مرحلے میں اس دن کی حاضری کا ذکر کیا گیا۔ یہاں کتاب اللہ میں جس طرح سورتوں کی ترتیب ہے‘ اس لحاظ سے جو سورت پہلے آئی ہے (یعنی سورۃ مریم) وہاں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے اور دوسری سورت (یعنی سورۃ الزخرف) جو بعد میں آتی ہے‘ اس میں آخرت کے احوال میں سے دوسرے حال کا ذکر کیا گیا۔ اور یوں ہر آیت اپنی جگہ پر خوب مناسبت رکھتی ہے‘ واللہ اعلم!
(۲۳۸) آیت ۳۹
{وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ }
’’اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب کہ کام کا فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘
اور سورۃ المؤمن میں ارشاد فرمایا:
{وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِکٰظِمِیْنَ ط } (آیت۱۸)
’’اور انہیں قریب آنے والے دن سے ڈرایئے جب کہ دل حلق کو آ جائیں گے اور لوگ غم زدہ (خاموش) ہوں گے۔‘‘
دونوں آیتوں سے قیامت کے احوال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ لیکن پہلی آیت میں ’’یَوْمَ الْحَسْرَۃِ‘‘ کہا گیا اور دوسری آیت میں ’’یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ‘‘ کہا گیا تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے‘ واللہ اعلم‘ کہ قیامت کے دن مقاصد اور جگہ کے اعتبار سے حالات مختلف ہوں گے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو کہ مندرجہ ذیل آیات میں قیامت کے دن کا تذکرہ ہے اور حال یہ ہوگا کہ لوگ بالکل خاموش ہوں گے‘ بات کرنے کی سکت تک نہ ہو گی ۔پھر ایک موقع آئے گا کہ بات بھی کریں گے اور ایک دوسرے سے سوالات بھی کریں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا اور وہ جواب دیں گے۔
{فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلَا یَتَسَآئَ لُوْنَ(۱۰۱)} (المؤمنون)
’’ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ ہی آپس کے رشتے رہیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو سوال کریںگے۔‘‘
{وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ(۲۷) } (الصّٰفّٰت‘الطور:۲۵)
’’اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور سوالات کرنے لگے۔‘‘
{وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ(۲۴) } (الصّٰفّٰت)
’’انہیں ٹھہرائو‘ اس لیے کہ (آج) ان سے پوچھا جائے گا۔‘‘
{فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ (۳۹)} (الرحمٰن)
’’آج کے دن نہ کسی انسان سے اور نہ کسی جِنّ سے اس کے گناہوں کے بارے میں سوال ہو گا۔‘‘
تو صاف ظاہر ہو گیا کہ یہ دو مختلف حالات ہیں جن سے لوگوں کو سابقہ پڑے گا ‘اور اس لحاظ سے ’’یَوْمَ الْحَسْرَۃِ‘‘ سے مراد دن کا وہ حصہ ہے جب لوگوں کو پورا یقین آ جائے گا کہ اب تو ایک ابدی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے ان کا ٹھکانہ جہنّم ہے‘ وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔جب کہ اہل ایمان کو یہ معلوم کر کےکہ ان کا جنّت میں ہمیشہ ہمیشہ قیام رہے گا‘ انتہائی خوشی ہو گی اور ان کے مقابلے میں جہنمیوں کے حسرت و رنج کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔
اس بارے میں (ابن عمر اور ابوسعیدالخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی) صحیح روایات میں آتا ہے کہ جب اہل ِجنّت‘ جنّت میں اور دوزخی آگ میں پہنچ جائیں گے تو ایک ندا سنائی دی جائے گی: اے اہل جنّت! اے اہل نارِ جہنّم! تو لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں گے۔پھر موت کو ان کے سامنے لایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا :کیا تم اسے پہچانتے ہو؟تو وہ کہیں گے: ہاں! (پھر موت جو مینڈھے کی شکل میں ہوگی‘ اُسے ذبح کر دیا جائے گا) اور پھر کہا جائے گا: اے اہل ِ جنّت! اب ابدی زندگی ہے۔ موت ختم ہو چکی ہے اور ایسا ہی دوزخیوں سے بھی کہا جائے گا۔
پھر ان کی حسرت کا اور رنج و غم کا کیا پوچھنا!! پھر اللہ کے رسولﷺ نے یہ آیت پڑھی:
{وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۳۹)}
’’اور انہیں رنج و حسرت کے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ ہو جائے گا۔اور( حال یہ ہے کہ) وہ عالم غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے ہیں۔‘‘
اور پھر نبی اکرمﷺ نے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم)
مَیں کہتا ہوں کہ یہ حدیث معنی و مطالب کے لحاظ سے مشکل احادیث میں سے ہے‘ اور اس کی توجیہہ یوں کی جا سکتی ہے جس سے تمام اشکال دور ہو جاتے ہیں کہ جب فیصلہ ہو جائے گا یعنی جنتی جنّت میں اور دوزخی جہنّم میں چلے جائیں گے تو پھر دوزخیوں کی حسرت و بکا کا کوئی عالم نہ ہو گا۔
اس آیت سے قبل ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے جو اس انجام کو پہنچنے والے ہیں‘ یعنی وہ لوگ جنہوں نے عیسیٰؑ کے بارے میں ایک بہت بڑی بات کہہ ڈالی کہ وہ تو اللہ کے بیٹے ہیں‘ اور چونکہ وہ روزِ قیامت اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے اور اخروی جزا و سزا کو بھی مانتے تھے تو مناسب تھا کہ انہیں ان الفاظ سے ڈرایا جائے تاکہ انہیں عبرت و نصیحت حاصل ہو‘ اور یہاں دوسروں (یعنی ایمان والوں) کا ذکر نہیں ہوا تھا‘ اس لیے مجرمین کے اعتبار سے یومِ حسرت کا ذکر کیا جانا مناسب تھا۔
جہاں تک سورۃ المؤمن کا تعلق ہے تو وہاں پہلے مؤمنین سے خطاب کیا گیا ہے:
{ فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} (آیت۱۴)
’’تو پھر اللہ کو پکارتے رہو‘ اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘
اور پھر سلسلہ کلام جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم آیت۱۸ تک پہنچ جاتے ہیں:
{وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ}
’’اور انہیں اس دن سے ڈراتے رہیے جو قریب آ رہا ہے۔‘‘
انہیں اس بات سے خبردارکیا جا رہا ہے کہ قیامت قریب ہے اور اس کے ساتھ حساب کتاب کاو قت بھی!! فرمایا:
{اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (۱) } (الانبیاء)
’’لوگوں کا حساب قریب آ چکا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔‘‘
اسی طرح سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا:
{اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ (۵۷) لَیْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ (۵۸) }
’’آنے والی آ گئی۔ اللہ کے سوا کوئی اور اسے (وقت ِمعین پر) کھولنےوالا نہیں!‘‘
اور پھر سورۃ المؤمن میں {اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ} (آیت۱۸) بھی ملاحظہ ہو (کہ دل حلق تک آ پہنچے) تومعلوم ہوا کہ ہر آیت اپنی اپنی جگہ پر بالکل مناسبت رکھتی ہے ‘اور اگر اس کا اُلٹ ہوتا تو قطعاً مناسب نہ ہوتا۔واللہ اعلم!
(۲۳۹) آیات ۵۲۔۵۳
{وَنَادَیْنٰـہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَقَرَّبْنٰہُ نَجِیًّا(۵۲) وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) }
’’اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور سرگوشی کرتے ہوئے اسے ہم نے اپنے قریب کر لیا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر عطا کیا۔‘‘
اور سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ وَزِیْرًا(۳۵)}
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔‘‘
دونوں آیتوں کا مقصد ایک ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے تائید دی گئی‘ لیکن ایک آیت میں ان کا وصف ’’نبی‘‘ بیان کیا گیا اور دوسری آیت میں ’’وزیر‘‘ تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کے جواب میں تمہید کے طور پر گزارش ہے کہ قرآن کی چند سورتیں ایسی ہیں جن میں کئی رسولوں کا ذکر ہوا ہے اور پھر ان کی اُمتوں کی سرگزشت‘ ان کا رسولوں کو جھٹلانا اور پھر نتیجتاً ان کا اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنا بیان ہوا ہے۔ اور یہ اسلوب تقریباً ہر سورت میں نظر آئے گا۔ سب سے زیادہ جن سورتوں میں یہ باتیں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں‘ تین ہیں: سورۃ الاعراف‘ سورۃ ھود اور سورۃ الشعراء۔ اور ان کے قریب قریب سورۃ المؤمنون {قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱)} بھی ہے۔اور جہاں کہیں بھی ان کا قصہ بیان ہوا ہے‘ انہی مضامین کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ کہیں کہیں یہ قصص اجمال کے ساتھ بھی بیان ہوئے ہیں لیکن ہر جگہ یہ ضرور بیان ہوا ہے کہ جن قوموں نے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا وہ پھر عذابِ الٰہی کا شکار ہوتے گئے۔
آخر میں وہ سورت جس میں اختصار کے ساتھ ان قوموں کا ذکر ہوا ہے وہ سورۃ القمر ہے اور اس میں ان قوموں کے انجام کا بھی ذکر ہے ‘جیسے پانی میں غرق ہونا‘ تیز وتند آندھی سے مارا جانا‘ وہ کڑک جو جان لیوا ثابت ہوئی‘ پتھروں اور کنکروں کی بارش‘ اور ایسی پکڑ کہ جس کا مقابلہ نہ کیا جاسکے‘ اور اس کے ساتھ بعض لوگوں کے عزّت و اقتدار کا تذکرہ‘ یہ سب باتیں جیسے اس سورت میں بیان کی گئی ہیں‘ وہ کہیں اور نہ نظر آئیں گی۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ہی یہی ہے کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ میں نے یہ تفصیل اپنی کتاب ’’البرہان‘‘ میں بھی بیان کی ہے۔
پھر سورئہ مریم میں بھی چند انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا‘ کہیں تفصیل کے ساتھ اور کہیں اختصار کے ساتھ‘ اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس سورت میں سوائے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے‘ کسی اور نبی کی قوم کے جھٹلانے کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان کے مراتب و مدارج اور منزلت عالیہ ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے احوال میں بھی صرف ان کے والد کا یہ قول نقل کیا گیا:
{اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓـاِبْرٰہِیْمُ ج } (آیت ۴۶)
’’کیا تم میرے خدائوں سے بے رغبتی رکھتے ہو اے ابراہیم!‘‘
اور پھر اُس کی دھمکی آمیز گفتگو کا تذکرہ ہے لیکن ان کی قوم کا نہ پہلے ذکرآیا نہ بعد میں۔ پھر یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ان تمام برگزیدہ اشخاص میں نبوت کا وصف مشترک ہے۔ امانت ِنبوت سے سرفراز کیے جانے میں وہ سب کے سب برابر ہیں جس میں ان کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ہے۔اور وصف ِوزارت کی نہ وہاں خاص اہمیت تھی اور نہ ہی وہ اس وصف سے پہچانے جاتے تھے۔ اس لیے ان تمام انبیاء کے جھرمٹ میں ہارون علیہ السلام کی وزارت کا ذکر غیر ضروری بلکہ غیر مناسب تھا۔
اب آیئے سورۃ الفرقان کی آیت کی طرف جہاں ان کے وزیر ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ اس کا تعلق سورئہ طٰہٰ میں وارد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طلب سے ہے:
{وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ(۲۹)}
’’اور میرے گھر والوں میں سے میرے لیے ایک وزیر بنا دے۔‘‘
گویا سورۃ الفرقان جو کہ بعد کی ایک سورت ہے‘ اس میں اس طلب کے ایفاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور اس طلب اور ایفاء طلب میں سورتوں کی جو ترتیب ہے‘ اسے بھی ذہن میں رکھا جائے۔
ایک دوسری بات بھی ملاحظہ ہو‘ اور وہ ہے دونوں سورتوں کے مقاطع اور فواصل میں مناسبت۔ سورئہ مریم میں  نَبِیًّا‘ عَلِیًّا‘ نَجِیًّا پر آیات ختم ہو رہی ہیں تو وہاں مناسبت ہے۔اور سورۃ الفرقان میں  تَدْمِیْرًا‘ کَثِیْرًا‘ تَتْبِیْرًا کے فواصل پر آیات کا اختتام ہو رہا ہے تو وہاں ’’وَزِیْرًا‘‘ کہنا مناسب تھا۔ واللہ اعلم!
(۲۴۰) آیات ۵۹۔۶۰
{فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًا(۶۰) }
’’تو وہ عنقریب اپنے انجامِ بد کو پہنچیں گے۔ سوائے ان کے جنہوں نے توبہ کی‘ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو وہ لوگ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان سے قطعاً ناانصافی نہیں کی جائے گی۔‘‘
اور سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
{وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا(۶۸) یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا(۶۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط }
’’اور جو یہ کام کرے گا تو وہ سخت وبال کا شکار ہو گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دُہرا کیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہو کر رہے گا ۔سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی‘ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔‘‘
یہاں سوال کرنے والا یہ دو سوال کر سکتا ہے کہ پہلی آیت میں ’’عَمِلَ صَالِحًا‘‘ کہا گیا اور دوسری میں ’’عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا‘‘ کہا گیا (یعنی یہاں’’عَمَلًا‘‘ کا اضافہ ہے) اور ایسے ہی پہلے لوگوں کی جزاء بتائی گئی {فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًا(۶۰) }اور دوسری آیت میں ان کی جزاء کے لیے یہ الفاظ لائے گئے: {فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط }
ا س کا جواب اسی اصول کی روشنی میں نظر آتا ہے کہ جہاں کلام کے پہلے حصے میں اختصار ہو تو جوابِ کلام میں بھی اختصار ہوگا اور جہاں اطناب (طوالت) ہو تو وہاں اس کے جواب میں بھی اضافی الفاظ کے ساتھ طوالت ہوگی۔
اب ملاحظہ ہو کہ سورئہ مریم میں پہلے اس گروہ کا تذکرہ ہے جس پر انعام کیا گیا اور پھر فرمایا:
{فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(۵۹)}
’’تو ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور شہوات کی پیروی کی تو پھر وہ اپنے انجامِ بد کو پہنچیں گے۔‘‘
یہاں ان کے اعمال کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تو پھر ان میں سے توبہ کرنے والوں کے تذکرے میں بھی صرف ’’عَمِلَ صَالِحًا‘‘ کہہ کر اختصار کو ملحوظ رکھا گیا۔
ایک مناسبت تو یہ تھی اور دوسری مناسبت فواصل (آیت کے آخری الفاظ) اور مقاطع (آخری لفظ کا وزن) کی بھی ہے‘ ملاحظہ ہو:{فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(۵۹)} اور اس کے مقابل میں کہا: {وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًا(۶۰) } اور بعض قراء اسے ’’شَیًّا‘‘ بھی پڑھتے ہیں۔(غَیًّا اورشَیًّا کاوزن ایک ہو گیا)
سورۃ الفرقان کی مذکورہ آیت سے قبل چند لوگوں کا تذکرہ ہے ‘اس میں یہ طوالت ملاحظہ ہو:
{وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ج} (آیت۶۸)
’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی وہ جان جس کا مارنا اللہ کی طرف سے حرام ہے اسے ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ ہی زنا کاری میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘
اور اس کے بعد ارشاد فرمایا:
{ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا(۶۸)}
’’اور جو ایسا کرے گا وہ وبال کا مستحق ہو گا۔‘‘
اور پھر ان کی سزا کا بیان بھی قدرے طوالت کے ساتھ بیان ہوا:
{یُضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا(۶۹)}
’’اس کا عذاب دُہرا کیا جائے گا قیامت کے روز اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہو کر رہے گا۔‘‘
پھر جب تائبین کا ذکر آیا تو ’’عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا‘‘ کے اضافی کلمات کہے گئے اور جہاں بدکاروں کے لیے عذاب کے دُہرے دیے جانے کا ذکر تھا وہاں تائبین کے لیے اس کے مقابلے میں ان کے برے اعمال کو اچھے انجام سے بدلے جانے کا تذکرہ کیا گیا۔ یعنی توبہ کی بنا پر ان کے برے اعمال کو مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ دیا جائے گا۔
اُمید ہے ہماری بات واضح ہو چکی ہو گی کہ اِختصارِ کلام کا تقابل اختصارِ جواب کے ساتھ‘ اور طوالت کلام کا تقابل جواب میں طوالت کے ساتھ دینا قرآن مجید کا اسلوب ہے‘ اور اس کا برعکس کیا جانا قطعاً غیر مناسب ہے۔ واللہ اعلم!