(فہم القرآن) سُورۃُ اِبْرَاھِیْم - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

10 /

ترجمہ ٔ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ اِبْرَاھِیْمآیات ۲۴تا ۳۰اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ(۲۴) تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ  بِاِذْنِ رَبِّہَاط وَیَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(۲۵) وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶) یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج وَیُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیْنَ قف وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآئُ (۲۷) اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(۲۸) جَہَنَّمَ ج یَصْلَوْنَہَاط وَبِئْسَ الْقَرَارُ(۲۹) وَجَعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ ط قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَکُمْ اِلَی النَّارِ(۳۰)
ف ر ع
فَرَعَ یَفْرَعُ (ف) فَرْعًا : (۱) بلندی پر چڑھنا (۲) پستی میں اُترنا۔
فَرْعٌ (اسم ذات بھی ہے) : کسی چیز کا اوپر کا حصّہ جو اس کی جڑ سے نکلا ہو‘ جیسے درخت کی شاخ۔ زیر مطالعہ آیت۲۴۔
ج ث ث
جَثَّ یَجُثُّ (ن) جَثًّا : بیخ کنی کرنا‘ کسی کی جڑ کاٹنا۔
اِجْتَثَّ (افتعال) اِجْتِثَاثًا : کسی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔ زیر مطالعہ آیت۲۶
ب و ر
بَارَ یَبُوْرُ (ن) بَوْرًا : (۱) کساد بازاری ہونا‘ گھاٹا ہونا۔ (۲)ہلاک ہونا‘ تباہ و برباد ہونا۔ {یَرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ(۲۹)} (فاطر) ’’وہ لوگ اُمید رکھتے ہیں ایسی تجارت کی جس میں ہرگز گھاٹا نہیں ہو گا۔‘‘ {وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ(۱۰)} (فاطر) ’’اور ان لوگوں کی چالبازی‘ و ہی تباہ و برباد ہو گی۔‘‘
بَوَارٌ (اسم ذات) : ہلاکت‘تباہی۔ زیر مطالعہ آیت۲۸۔
بُوْرٌ (یہ اسم الفاعل بَائِرٌ کی جمع بھی ہے اور یہ لفظ خود بھی واحد ‘ جمع‘ مذکر ‘ مؤنث سب کے لیے آتاہے)ہلاک ہونے والا۔{وَکَانُوْا قَوْمًام بُوْرًا(۱۸)} (الفرقان) ’’اور وہ لوگ تھےایک ہلاک ہونے والی قوم۔‘‘
ترکیب
(آیت۲۴) ضَرَبَ کا مفعول مَثَلًا ہے‘ جبکہ کَلِمَۃً طَیِّبَۃً اس کا بدل ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے۔ (آیت۲۶) مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ مرکب اضافی اور مبتدا ہے‘ جبکہ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃٍ اس کی خبر ہے۔ (آیت۲۸) بَدَّلُوْا کے دو مفعول آتے ہیں۔ نِعْمَتَ اللہِ اس کا مفعول اول ہےاور اس کا مفعول ثانی محذوف ہے جو بِسَخَطِ اللہِ یا بِغَضَبِ اللہِ ہوسکتا ہے‘ جبکہ کُفْرًا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہوا ہے۔ (آیت۲۹) یَصْلَوْنَ مادہ ’’ص ل ی‘‘ میں باب سَمِعَ سے مضارع کا جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اگر یہ باب ضَرَبَ سے ہوتا تو یَصْلُوْنَ آتا اور اگر مادہ ’’وص ل‘‘ سے ہوتا تو یَصِلُوْنَ آتا۔
ترجمہ:
اَلَمْ تَرَ : کیا آپؐ نے غور نہیں کیا

کَیْفَ : کیسے
ضَرَبَ اللہُ : بیان کی اللہ نے

مَثَلًا : ایک مثال جو
کَلِمَۃً طَیِّبَۃً : ایک ایسی پاکیزہ بات کی ہے جو

کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ: پاکیزہ درخت کی مانند ہے
اَصْلُہَا : اس کی جڑ

ثَابِتٌ:جمی رہنے والی ہے
وَّفَرْعُہَا : اور اس کی شاخ

فِی السَّمَآئِ:آسمان میں ہے
تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا : وہ دیتا ہے اپنے پھل

کُلَّ حِیْنٍ : ہر وقت
بِاِذْنِ رَبِّہَا :اپنے ربّ کی اجازت سے

وَیَضْرِبُ اللہُ:اور بیان کرتا ہے اللہ
الْاَمْثَالَ :مثالیں

لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے
لَعَلَّہُمْ: شاید وہ لوگ

یَتَذَکَّرُوْنَ: نصیحت حاصل کریں
وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ : اور کسی ردّی بات کی مثال

کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ : ایک ایسے ردّی درخت کی مانند ہے
اجْتُثَّتْ :جس کو اکھاڑا گیا

مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ :زمین کے اوپر سے
مَا لَہَا :نہیں ہے اس کے لیے

مِنْ قَرَارٍ:کوئی بھی ٹھہرائو
یُثَبِّتُ اللہُ :جما دیتا ہے اللہ

الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:ان لوگوں کو جوایمان لائے
بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ :جم جانے والی بات سے

فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا :دُنیوی زندگی میں
وَفِی الْاٰخِرَۃِ :اور آخرت میں (بھی)

وَیُضِلُّ اللہُ :اور گمراہ کرتا ہے اللہ
الظّٰلِمِیْنَ :ظلم کرنے والوں کو

وَیَفْعَلُ اللہُ:اور کرتا ہے اللہ
مَا یَشَآئُ : وہ جو چاہتا ہے

اَلَمْ تَرَ :کیا آپؐ نے غور نہیں کیا
اِلَی الَّذِیْنَ : ان کی طرف جنہوں نے

بَدَّلُوْا :تبدیل کیا
نِعْمَتَ اللہِ :اللہ کی نعمت کو

کُفْرًا:ناشکری کرتے ہوئے
وَّاَحَلُّوْا :اور انہوں نے اُتارا

قَوْمَہُمْ :اپنی قوم کو
دَارَ الْبَوَارِ :تباہی کے گھر میں

جَہَنَّمَ:جو جہنم ہے
یَصْلَوْنَہَا :وہ لوگ گریں گے اس میں

وَبِئْسَ :اور کتنا برا ہے
الْقَرَارُ:یہ ٹھہرنا

وَجَعَلُوْا:اور انہوں نے بنائے
لِلہِ :اللہ کے لیے

اَنْدَادًا :کچھ مدّ ِمقابل
لِّیُضِلُّوْا :تاکہ وہ گمراہ کریں (لوگوں کو)

عَنْ سَبِیْلِہٖ :اس کے راستے سے
قُلْ : آپؐ کہیے

تَمَتَّعُوْا :تم لوگ فائدہ اٹھا لو
فَاِنَّ مَصِیْرَکُمْ : پھر بے شک تمہارا لوٹنا

اِلَی النَّارِ:آگ کی طرف ہے

نوٹ۱: کَلِمَۃً طَیِّبَۃً سے کلمہ توحید اور اس پر مبنی عقائد و نظریات مراد ہیں۔ شَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ وہ درخت جو پھل دینے والا‘ سایہ دار اور نفع بخش ہو۔ درخت چونکہ زمین اور فضا دونوں سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے اس لیے فرمایا :{اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ} یعنی زمین میں اس کی جڑیں اُتری ہوئی ہونے کے سبب سے زمین سے بھی اسے پوری غذا مل رہی ہے اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہونے کی وجہ سے فضا بھی اس کی پرورش میں پورا پورا حصہ لے رہی ہے۔
کلمہ توحید کی تمثیل ایک ایسے درخت سے دے کر قرآن مجید نے ایک حقیقت تو یہ واضح فرمائی کہ اس کی جڑیں انسانی عقل و فطرت کے اندر بھی گہری اُتری ہوئی ہیں اور عند اللہ بھی یہ سب سے زیادہ قدر و قیمت رکھنے والی حقیقت ہے۔ دوسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اس کو انسانی فطرت کے اندر سے بھی برابر غذا اور قوت حاصل ہوتی رہتی ہے اور اوپر سے بھی برابر ترشحات (یعنی سکینت) نازل ہوتے رہتے ہیں۔ تیسری حقیقت یہ واضح فرمائی کہ اس کی برکات ابدی اور دائمی ہیں اور اس کا فیض ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جس کے سینہ میں یہ نور موجود ہے وہ ہمیشہ آسودہ اور شاد کام رہتا ہے۔ (تدبر قرآن)
نوٹ۲: زندگی کی گہما گہمی میں کبھی کبھار اللہ کے کسی ایسے بندے سے ملاقات ہو جاتی ہے جس نے توحید پر مبنی عقائدو نظریات سے اپنے سینے کو آباد کیا ہوا ہے اور ان کے برکات و ثمرات سے فیض یاب بھی ہو رہا ہے‘ تو اس وقت ایک شعر ضرور ذہن میں آتا ہے‘ وہ پیش خدمت ہے۔ جگر مرحوم کا شعر ہے جس میں ایک لفظ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ؎

ہستی مؤمن اللہ اللہ                                                                      فرش نشیں اور عرش نشیمن!

آیات ۳۱ تا ۳۴

قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ(۳۱) اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ ج وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖج وَسَخَّرَ لَکُمُ الْاَنْہٰرَ(۳۲) وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ ج وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ(۳۳) وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ط وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَاط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(۳۴)

ح ص ی
حَصٰی یَحْصِی (ض) حَصْیًا : (۱) کنکری سے مارنا۔ (۲) کنکری پر گنتی کرنا۔
اَحْصٰی (افعال) اِحْصَاءً :(۱) کسی چیز کی گنتی کو پورا کرنا‘ شمار مکمل کرنا۔(۲) کسی کام کا پورا کرنا‘ نباہنا۔ (۳) گھیر لینا‘ احاطہ کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۳۴ ۔ {عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ} (المزمل:۲۰) ’’اس نے (یعنی اللہ نے) جانا کہ تم لوگ ہرگز نہ نباہ سکو گے اس کو تو اس نے شفقت کی تم لوگوں پر۔‘‘ {لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَاج } (الکہف:۴۹) ’’یہ نہیں چھوڑتی کوئی چھوٹی اور نہ کوئی بڑی سوائے اس کے کہ گھیر لیا اس کو۔‘‘
ترکیب
(آیت۳۱) یُقِیْمُوْا اور یُنْفِقُوْا کے نون اعرابی گرے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے لامِ امر محذوف ہیں اور یہ فعل امر غائب کے صیغے ہیں۔ (آیت۳۴) لَا تُحْصُوْھَا میں جو لَا ہے یہ لائے نہی نہیں ہے بلکہ لائے نفی ہے اور تُحْصُوْا دراصل اِنْ کا جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔
ترجمہ:
قُلْ :آپؐ کہہ دیجیے

لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ :میرے ان بندوں سے جو
اٰمَنُوْا : ایمان لائے کہ

یُقِیْمُوا : چاہیے کہ وہ لوگ قائم رکھیں
الصَّلٰوۃَ : نماز کو

وَیُنْفِقُوْا :اور چاہیے کہ وہ لوگ خرچ کریں
مِمَّا :اس میں سے جو

رَزَقْنٰہُمْ :ہم نے عطا کیا ان کو
سِرًّا :چھپاتے ہوئے

وَّعَلَانِیَۃً :اور ظاہر ہوتے ہوئے
مِّنْ قَبْلِ :اس سے پہلے

اَنْ یَّاْ تِیَ :کہ آئے
یَوْمٌ : ایک ایسا دن

لَّا بَیْعٌ فِیْہِ :کوئی سودا نہیں ہے جس میں
وَلَا خِلٰلٌ :اور نہ ہی یارانے

اَللہُ الَّذِیْ:اللہ وہ ہے جس نے
خَلَقَ :پیدا کیا

السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کو
وَالْاَرْضَ :اور زمین کو

وَاَنْزَلَ :اور اس نے اتارا
مِنَ السَّمَآئِ :آسمانوں سے

مَآئً :کچھ پانی
فَاَخْرَجَ بِہٖ :پھر اس نے نکالا اس سے

مِنَ الثَّمَرٰتِ: پھلوں میں سے
رِزْقًا لَّکُمْ: رزق ہوتے ہوئے تمہارے لیے

وَسَخَّرَ :اور اس نے مطیع کیا
لَکُمُ الْفُلْکَ :تمہارے لیے کشتی کو

لِتَجْرِیَ: تاکہ وہ بہے
فِی الْبَحْرِ :سمندر میں 

بِاَمْرِہٖ :اُس کے حکم سے
وَسَخَّرَ :اور اُس نے مطیع کیا

لَکُمُ الْاَنْہٰرَ:تمہارے لیے نہروں کو

وَسَخَّرَ :اور اُس نے کام میں لگایا

لَکُمُ:تمہارے لیے
الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ :سورج کو اور چاند کو

دَآئِبَیْنِ : مسلسل چلنے والے ہوتے ہوئے
وَسَخَّرَ :اور اُس نے کام میں لگایا

لَکُمُ :تمہارے لیے
الَّیْلَ وَالنَّہَارَ:رات کو اور دن کو

وَاٰتٰىکُمْ :اور اُس نے دیا تم لوگوں کو
مِّنْ کُلِّ مَا :اس سب میں سے جو

سَاَلْتُمُوْہُ:تم لوگوں نے مانگا اُس سے
وَاِنْ تَعُدُّوْا :اور اگر تم لوگ گنتی کرو گے

نِعْمَتَ اللہِ :اللہ کی نعمت کی
لَا تُحْصُوْہَا :تو شمار پورا نہ کر پائو گے اس کا

اِنَّ الْاِنْسَانَ :بے شک انسان
لَظَلُوْمٌ: یقیناًبے انتہا ظلم کرنے والا ہے

کَفَّارٌ: انتہائی ناشکرا ہے
نوٹ: {وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ط}کا مطلب قاضی بیضاوی نے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر وہ چیز دے دی جو مانگنے کے قابل ہے ‘خواہ انسان نے مانگی ہو یا نہ مانگی ہو۔ (معارف القرآن)
آیات ۳۵ تا ۴۱وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ(۳۵) رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ج وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ(۳۶) رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ(۳۷) رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ ط وَمَا یَخْفٰی عَلَی اللہِ مِنْ شَیْ ئٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ(۳۸) اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ(۳۹) رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ق رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ(۴۰) رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(۴۱)
ترکیب
(آیت۳۵) وَاجْنُبْ کا مفعول ہونے کی وجہ سے بَنِیَّ حالت ِنصب میں ہے۔ یہ لفظ بَنِیْنَ تھا‘ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو بَنِیْ باقی بچا‘پھر اس پر مضاف الیہ یائے متکلم داخل ہوئی تو بَنِیَّ استعمال ہوا۔ (آیت۳۷) بِوَادٍ نکرہ مخصوصہ ہے اور اس کی خصوصیت یعنی صفت ہونے کی وجہ سے غَیْرِ حالت ِجر میں آیا ہے۔ (آیت۴۰) تَقَبَّلْ کے مفعول دُعَاءِ پر نہ تو لام تعریف ہے‘ نہ تنوین ہے اور یہ حالت ِ جرمیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل مضاف دُعَاءَ تھا۔ اس پر مضاف الیہ یائے متکلم داخل ہوا تو دُعَاءِیْ ہو گیا۔ یہاں یائے متکلم گری ہوئی ہے۔
ترجمہ:
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا

اِبْرٰہِیْمُ :ابراہیمؑ نے
رَبِّ اجْعَلْ : اے میرے رب تُو بنا

ہٰذَا الْبَلَدَ :اس شہر کو
اٰمِنًا :امن میں ہونے والا

وَّاجْنُبْنِیْ:اور تو دور کر دے مجھ کو
وَبَنِیَّ :اور میرے بیٹوں کو

اَنْ نَّعْبُدَ:کہ ہم عبادت کریں
الْاَصْنَامَ:بتوں کی

رَبِّ :اے میرے ربّ
اِنَّہُنَّ :بے شک انہوں نے

اَضْلَلْنَ:گمراہ کیا
کَثِیْرًا :بہتوں کو

مِّنَ النَّاسِ:لوگوں میں سے
فَمَنْ تَبِعَنِیْ :پس جس نے پیروی کی میری

فَاِنَّہٗ مِنِّیْ :تو بے شک وہ مجھ میں سے ہے
وَمَنْ عَصَانِیْ : اور جس نے نافرمانی کی میری

فَاِنَّکَ :تو بے شک تُو
غَفُوْرٌ :بے انتہا بخشنے والا ہے

رَّحِیْمٌ:ہر حال میں رحم کرنے والا ہے
رَبَّنَآ :اے ہمارے رب

اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ : بے شک میں نے بسا دیا
مِنْ ذُرِّیَّتِیْ :اپنی اولاد میں سے (ایک کو)

بِوَادٍ:ایک ایسی وادی میں جو
غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ :کھیتی والی نہیں ہے

عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ: تیرے محترم گھر کے پاس
رَبَّنَا :اے ہمارے ربّ

لِیُقِیْمُوا : تاکہ وہ لوگ قائم رکھیں
الصَّلٰوۃَ :نماز کو

فَاجْعَلْ :پس تو بنا دے

اَفْئِدَۃً : کچھ دِلوں کو

مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے
تَہْوِیْٓ :(کہ) وہ مائل ہوتے ہوں

اِلَیْہِمْ : ان کی طرف
وَارْزُقْہُمْ:اورتُو رزق دے ان کو

مِّنَ الثَّمَرٰتِ :پھلوں میں سے
لَعَلَّہُمْ :شاید وہ لوگ

یَشْکُرُوْنَ : شکر ادا کریں 
رَبَّنَآ اِنَّکَ :اے ہمارے ربّ بے شک تُو

تَعْلَمُ: جانتا ہے
مَا نُخْفِیْ :اس کو جو ہم چھپاتے ہیں

وَمَا نُعْلِنُ : اور اس کو جو ہم آشکار کرتے ہیں
وَمَا یَخْفٰی : اور پوشیدہ نہیں ہوتی ہے

عَلَی اللہِ : اللہ پر
مِنْ شَیْ ئٍ :کوئی بھی چیز

فِی الْاَرْضِ : زمین میں 
وَلَا فِی السَّمَآئِ : اور نہ ہی آسمان میں 

اَلْحَمْدُ : تمام شکر و سپاس
لِلہِ الَّذِیْ :اُس اللہ کے لیے ہے جس نے

وَہَبَ لِیْ : عطا کیا میرے لیے
عَلَی الْکِبَرِ : بڑھاپے کے باوجود

اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ : اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ
اِنَّ رَبِّیْ :بے شک میرا ربّ

لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ: یقیناً دعا کو سننے والا ہے
رَبِّ :اے میرے ربّ

اجْعَلْنِیْ : تُو بنا دے مجھ کو
مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ : نماز کو قائم رکھنے والا

وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ : اور میری اولاد میں سے (بھی)
رَبَّنَا :اے ہمارے ربّ

وَتَقَبَّلْ :اور تُو قبول کر
دُعَآئِ :میری دعا کو

رَبَّنَا: اے ہمارے ربّ
اغْفِرْلِیْ :تُو بخش دینا مجھ کو

وَلِوَالِدَیَّ : اور میرے والدین کو
وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ :اور تمام ایمان لانے والوں کو

یَوْمَ: جس دن
یَقُوْمُ الْحِسَابُ: قائم ہو گا حساب


آیات ۴۲ تا ۴۶وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ(۴۲)مُہْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِہِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُہُمْ ج وَاَفْئِدَتُہُمْ ہَوَآئٌ(۴۳) وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا نُّجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ط اَوَلَمْ تَکُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَکُمْ مِّنْ زَوَالٍ(۴۴) وَّسَکَنْتُمْ فِیْ مَسٰکِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَتَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنَا بِہِمْ وَضَرَبْنَا لَکُمُ الْاَمْثَالَ(۴۵) وَقَدْ مَکَرُوْا مَکْرَہُمْ وَعِنْدَ اللہِ مَکْرُہُمْ ط وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ(۴۶)
ش خ ص
شَخَصَ یَشْخَصُ (ف) شُخُوْصًا : آنکھوں کا کھلا رہ جانا‘ ٹکٹکی لگنا۔ زیر مطالعہ آیت۴۲۔
شَاخِصَۃٌ (اسم الفاعل) : کھلی رہ جانے والی۔ {فَاِذَا ھِیَ شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاط} (الانبیاء:۹۷) ’’تو جب ہی کھلی رہ جانے والی ہیں ان کی آنکھیں جنہوں نے کفر کیا۔‘‘
ھ ط ع
ھَطَعَ یَھْطَعُ (ف) ھَطْعًا : جلدی جلدی چلنا‘ لپکنا‘ دوڑنا۔
اَھْطَعَ (افعال) اِھْطَاعًا : ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔
مُھْطِعٌ : لپکنے والا‘ دوڑنے والا۔ زیر مطالعہ آیت ۴۳
ق ن ع
قَنُعَ یَقْنُعُ (ک) قَنَاعَۃً : جو کچھ حصہ میں آئے اس پر راضی ہونا۔
قَانِعٌ : قناعت کرنے والا۔ {وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّط} (الحج:۳۶) ’’اور تم لوگ کھلائو قناعت کرنے والے کو اور مانگنے والے کو۔‘‘
قَنَعَ یَقْنَعُ (ف) قُنُوْعًا : پہاڑ پر چڑھنا‘ بلند ہونا۔
اَقْنَعَ (افعال) اِقْنَاعًا : بلند کرنا۔
مُقْنَعٌ : بلند کرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت ۴۳۔
ز و ل
زَالَ یَزُوْلُ (ن) زَوَالًا: اپنی جگہ چھوڑ کر کسی جانب مائل ہونا‘ ہٹ جانا‘ ٹل جانا۔ زیر مطالعہ آیت۴۴ و ۴۶۔
ترجمہ:
وَلَا تَحْسَبَنَّ : اور آپؐ ہرگز گمان مت کریں

اللہَ: اللہ کو
غَافِلًا : غافل

عَمَّا یَعْمَلُ : اس سے جو عمل کرتے ہیں
الظّٰلِمُوْنَ : ظالم لوگ

اِنَّمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
یُؤَخِّرُ :وہ مؤخر کرتا ہے (مہلت دیتا ہے)

ہُمْ :ان کو (پکڑنے میں)
لِیَوْمٍ :ایک ایسے دن کے لیے

تَشْخَصُ :کھلی کی کھلی رہ جائیں گی
فِیْہِ الْاَبْصَارُ: جس میں آنکھیں

مُہْطِعِیْنَ:دوڑنے والے ہوتے ہوئے
مُقْنِعِیْ رُءُوْسِہِمْ :اپنے سروں کو اٹھانے والے ہوتے ہیں

لَا یَرْتَدُّ :نہیں پلٹے گی
اِلَیْہِمْ : ان کی طرف

طَرْفُہُمْ:ان کی پلک
وَاَفْئِدَتُہُمْ :اور ان کے دل

ہَوَآئٌ: ڈولتے ہوں گے
وَاَنْذِرِ :اور آپؐ خبردار کریں

النَّاسَ : لوگوں کو
یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ: ایسے دن سے جب پہنچے گا ان کو

الْعَذَابُ :عذاب
فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ :پھر کہیں گے وہ لوگ جنہوں نے

ظَلَمُوْا: ظلم کیا
رَبَّنَآ : اے ہمارے ربّ

اَخِّرْنَآ:تو مہلت دے ہم کو
اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ : ایک قریبی مدت تک

نُّجِبْ:تُو ہم قبول کریں گے
دَعْوَتَکَ :تیری دعوت کو

وَنَتَّبِعِ :اور ہم پیروی کریں گے

الرُّسُلَ: رسولوں کی

اَوَلَمْ تَکُوْنُوْٓا :تو کیا تم لوگ نہیں تھے
اَقْسَمْتُمْ: (کہ) تم لوگوں نے قسم کھائی

مِّنْ قَبْلُ:اس سے پہلے
مَا لَکُمْ : (کہ) تمہارے لیے نہیں ہے

مِّنْ زَوَالٍ:کہیں بھی ہٹ کر جانا
وَّسَکَنْتُمْ: اور تم لوگوں نے سکونت اختیار کی

فِیْ مَسٰکِنِ الَّذِیْنَ :ان کے ٹھکانوں میں  جنہوں نے
ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا

اَنْفُسَہُمْ :اپنی جانوں پر
وَتَبَیَّنَ لَکُمْ : اور واضح ہوا تمہارے لیے

کَیْفَ :(کہ) کیسا
فَعَلْنَا بِہِمْ :ہم نے کیا ان کے ساتھ

وَضَرَبْنَا لَکُمُ: اور ہم نےبیان کیں تمہارے لیے
الْاَمْثَالَ :تمام مثالیں(یعنی لوک کہانیاں)

وَقَدْ مَکَرُوْا : اور وہ چالیں چل چکے
مَکْرَہُمْ :اپنی چالبازی کی

وَعِنْدَ اللہِ :اور اللہ کے پاس (محفوظ) ہے
مَکْرُہُمْ: ان کی چالبازی

وَاِنْ کَانَ :اور اگرچہ تھی
مَکْرُہُمْ : ان کی چال بازی (ایسی)

لِتَزُوْلَ مِنْہُ : کہ ٹل جائیں اس سے
الْجِبَالُ : پہاڑ

نوٹ: آیت۴۵ میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ دوسری قوموں کی مثالیں ہم نے بیان کیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فاعل حقیقی ہے۔ لیکن اسباب و علل کی اس دنیا میں اس کا ظہور اس طرح تھا کہ دوسری قوموں کے حالات و واقعات اللہ تعالیٰ نے لوک کہانیوں میں محفوظ کرا دیے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ عبرت حاصل کریں اور اپنا طرزِعمل درست کریں لیکن لوگوں نے اسے محض ایک تفریح کا ذریعہ بنا لیا۔ وہی حالات و واقعات اب تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ آج بھی لوگ انہیں پڑھتے ہیں بلکہ بڑی بڑی ریسرچ کرتے ہیں لیکن عبرت نہیں پکڑتے ہیں اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہُ۔
آیات ۴۷ تا ۵۲فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ ط اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ(۴۷) یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ(۴۸) وَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(۴۹) سَرَابِیْلُہُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰی وُجُوْہَہُمُ النَّارُ(۵۰) لِیَجْزِیَ اللہُ کُلَّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ ط اِنَّ اللہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۵۱) ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْٓا اَ نَّمَا ہُوَ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۵۲)
ص ف د
صَفَدَ یَصْفِدُ (ض) صَفْدًا : قید کرنا‘ ہتھکڑی لگانا‘ بیڑی ڈالنا۔
صَفَدٌ ج اَصْفَادٌ : ہتھکڑی‘ بیڑی۔ زیر مطالعہ آیت ۴۹۔
س ر ب ل
سَرْبَلَ (رباعی) سِرْبَالًا : قمیص یا کُرتا پہنانا۔
سِرْبَالٌ ج سَرَابِیْلُ (اسم ذات ) : قمیص یا کُرتا خواہ کسی چیز سے بنا ہوا ہو۔ زیر مطالعہ آیت ۵۰۔
ق ط ر
قَطَرَ یَقْطُرُ (ن) قَطْرًا : (۱) کسی کو پہلو پر گرا دینا ۔ (۲) پانی کا جاری ہونا‘ بہنا۔ (کثیر المعانی لفظ ہے)
قُطْرٌ ج اَقْطَارٌ : کسی چیز کا پہلو‘ کنارہ۔ {اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط} (الرحمٰن:۳۳) ’’اگر تمہیں طاقت ہے کہ تم لوگ نکل جائو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے تو نکل جائو۔‘‘
قِطْرٌ : پگھلا ہوا تانبا۔ {وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِط} (سبا:۱۲) ’’اور بہایا ہم نے انؑ کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ۔‘‘
قَطِرَانٌ: ایک روغنی سیال مادہ جو صنوبر جیسے درخت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تارکول‘ گندھک۔ زیر مطالعہ آیت ۵۰۔
ترجمہ:
فَلَا تَحْسَبَنَّ : پس آپؐ ہرگز گمان مت کریں

اللہَ:اللہ کو
مُخْلِفَ وَعْدِہٖ:اپنے وعدہ کے خلاف کرنے والا

رُسُلَہٗ :اپنے رسولوں سے
اِنَّ اللہَ :بے شک اللہ

عَزِیْزٌ:بالادست ہے
ذُوانْتِقَامٍ : انتقام والا ہے

یَوْمَ:جس دن
تُبَدَّلُ :تبدیل کی جائے گی

الْاَرْضُ :یہ زمین
غَیْرَ الْاَرْضِ :اس زمین کے علاوہ سے

وَالسَّمٰوٰتُ :اور سارے آسمان (بھی)
وَبَرَزُوْا :اور وہ لوگ سامنے آئیں گے

لِلہِ:اللہ کے
الْوَاحِدِ :جو یکتا ہے

الْقَہَّارِ: پوری طرح غالب ہے
وَتَرَی :اور آپؐ دیکھیں گے

الْمُجْرِمِیْنَ:مجرموں کو
یَوْمَئِذٍ :اس دن

مُّقَرَّنِیْنَ :جکڑے ہوئے
فِی الْاَصْفَادِ : بیڑیوں میں 

سَرَابِیْلُہُمْ:ان کے کُرتے
مِّنْ قَطِرَانٍ :تارکول میں سے ہوں گے

وَّتَغْشٰی :اور ڈھانپ لے گی
وُجُوْہَہُمُ النَّارُ:ان کے چہروں کو آگ

لِیَجْزِیَ اللہُ :تاکہ جزا دے اللہ
کُلَّ نَفْسٍ :ہر ایک جان کو

مَّا کَسَبَتْ: وہ جو اُس نے کمایا
اِنَّ اللہَ :بے شک اللہ

سَرِیْعُ الْحِسَابِ:حساب لینے کا تیز ہے
ہٰذَا بَلٰغٌ :یہ پہنچانا ہے

لِّلنَّاسِ :لوگوں کے لیے
وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ : اور تاکہ وہ لوگ خبردار کیے جائیں گے اس سے

وَلِیَعْلَمُوْٓا:اور تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ
اَنَّمَا ہُوَ :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ

اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ : یکتا الٰہ ہے
وَّلِیَذَّکَّرَ :اور تاکہ یاد دہانی حاصل کریں

اُولُوا الْاَلْبَابِ: (اوہام سے پاک)عقل والے