(فکر و فلسفہ) حرم کی پاسبانی - ڈاکٹر محمد رشید ارشد

10 /

حرم کی پاسبانیڈاکٹرمحمدرشید ارشد
اسسٹنٹ پروفیسر‘شعبہ فلسفہ ‘جامعہ پنجاب‘لاہور
حرم کی پاسبانی سے متعلق علامہ اقبال کا یہ شعر بہت مشہور ہے: ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
(خضر ِراہ: بانگ درا)
یہ حرم جس کا ذکر علامہ اقبال کی شاعری میں ہوتا ہے‘ اس کے متعلق ایک ضابطہ سمجھ لینا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں بہت سے الفاظ علامت کے طور پر استعمال کیے ہیں۔ مثلاً شاہین‘ لالۂ صحرائی‘ شیخ‘ برہمن وغیرہ۔ ایسے ہی حرم کا لفظ وہ بہت استعمال کرتے ہیں۔ حرم بظاہر ایک جگہ ہے‘ جیسے حرمِ مکی یعنی خانۂ کعبہ ہے جو مسلمانوں کا مرکز ہے۔ پھر حرم سے مراد اُمّت ِمسلمہ بھی ہے۔ اُنہوں نے ’’پیر ِحرم‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور ’’شیخ حرم‘‘ کا بھی۔ ع ’’یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے‘‘۔ ’’بال جبریل‘‘ میں کہا گیا کہ ع ’’ حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ بعض اوقات حرم کا لفظ کسی نظریے‘ کسی ڈسکورس کے لیے بھی بولتے ہیں‘ جیسے ایک جگہ کہا : ؎
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحید اُمم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
(رباعیات: بال جبریل)
’’تہذیب ِ فرنگی بے حرم ہے‘‘ کا مطلب ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی ٹیکسٹ نہیں‘ کوئی نظریہ‘ کوئی ڈسکورس نہیں ہے‘ جبکہ ہمارے پاس ہماری ایک دینی روایت ہے۔ ’’پیر و مرید‘‘ میں جب علامہ نے مشکلات بیان کیں کہ اُمّت ِ مسلمہ کی اس زبوں حالی کی کیا وجہ ہے‘ تو وہاں پیر رومی نے یہی جواب دیا کہ: ؎
دست ہر نااہل بيمارت کند
سوئے مادر آ کہ تيمارت کند!
ہر نا اہل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تم نے اپنے آپ کو بیمار کر دیا ہے‘ ماں کی طرف آؤ کہ وہ تمہاری تیمار داری کرے۔ یہاں ماں کا بالکل صحیح ترجمہ یہ ہو گا کہ جو تمہارا مدر ڈسکورس اور تمہاری روایت ہے‘ اس کی طرف آؤ! علامہ اقبال نے ایک اور جگہ کہا: ؎
مقامِ خویش اگر خواہی دریں دَیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیٰؐ رَو
کہ اس دَیر میں‘ اس بت کدے میں‘ اس دنیا میں اگر کوئی مقام و مرتبہ چاہتے ہو تو حق تعالیٰ کے ساتھ دل لگا لو اور رسول اللہﷺ کے رستے پہ چل پڑو۔ یہاں پر بھی وہ اپنے مرشد ہی کے پیروکار ہیں‘ مولانا روم نے کہا تھا : ؎
من بندهٔ قرآنم اگر جان دارم
من خاکِ درِ محمد مختارم
میں قرآن کا غلام ہوں‘ جب تک میری جان میں جان ہے‘ اورمیں محمد مختارﷺ کی راہ کی خاک ہوں۔ مطلب یہ کہ اس اُمّت کے لیے آبرو مندی کی اگر کوئی راہ ہے تو وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور رسول اللہﷺ کی راہ پر چلنا۔
اب ہم جس اُمّت ِمسلمہ کا حصہ ہیں‘ اس کے بارے میں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اب ایک خیالی اور رومانوی تصوّر ہے‘ اس کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ بات جزوی طور پر ٹھیک ہے‘ یعنی اُمّت ِمسلمہ کے عوام کے اندر تو ابھی بھی اُمّت کا احساس‘ اُمّت کا درد ہے‘ لیکن ان کے حکمران ‘ جو درحقیقت قابض ہیں‘ اُن کے ہاں اُمّت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ پرویز مشرف صاحب جب آئے تھے تو اُنہوں نے ایک نعرہ دیا تھا: ’’سب سے پہلے پاکستان۔‘‘ یوں محسوس ہوا تھا کہ یہ تو بہت عجیب سی بات کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ انہوں نے کہہ دیا‘ جبکہ باقی سب کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ ’’سب سے پہلے ایران‘‘‘ ’’سب سے پہلے ترکی‘‘‘ ’’سب سے پہلے مراکش‘‘‘ ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘‘ ’’سب سے پہلے تیونس‘‘ وغیرہ۔ جنرل مشرف نے برملا کہہ دیا ورنہ اُمّت ِمسلمہ کے جتنے حکمران ہیں‘ اُن سب کا مائنڈ سیٹ یہی ہے۔ وہ بالکل ایک خاص طرح کی قوم پرست ذہنیت (nationalistic mindset)کے اندر کھڑے ہیں۔ ایک مفکر بینیڈکٹ اینڈرسن نے قومی ریاستوں (nation states) کے بارے میں کہا تھا کہ یہ imagined communities ہیں‘ یعنی یہ مصنوعی طور پر بنائی گئی ہیں۔ آج ہمیں بدقسمتی سے لگتا ہے کہ شاید اُمّت کا پورا تصور ایک خیالی کمیونٹی کا سا بن گیا ہے‘ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اب معاملہ یہ ہوا ہے کہ ہم لوگ جو ما بعد ِاستعمار معاشروں میں رہتے ہیں‘ ایک المیے کا شکار ہیں۔ وہ یہ کہ یہاں کے عوام اور یہاں کی ریاست ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں‘ ان کے درمیان ایک ٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ عوام اگرچہ بے عمل ہیں لیکن اُن کے آدرش اور اُن کی تمنائیں نیک ہیں۔ اُن کے احساسات و جذبات ابھی بھی دینی ہیں‘ لیکن ان کے حکمران بنیادی طور پر ایک استعماری دور کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں ہندوستان کے اندر ایک ایسی خاص نسل پیدا کرنی ہے جو اپنی رنگت اور خون میں تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق میں انگریز ہو۔ یعنی ان کی آراء‘ ان کے اخلاق‘ اور ان کی ذہانت پوری طرح انگریزوں جیسی ہو۔ اگر دیکھنا ہو کہ یہ گورا صاحب کہاں پائے جاتے ہیں تو پوسٹ کالونیلز اسٹیٹ کو چلانے والے جتنے بھی بڑے ادارے ہیں‘ مثلاً‘ جوڈیشل بیوروکریسی‘ سول بیوروکریسی‘ ملٹری بیوروکریسی اور ان تینوں کی اکیڈمیز‘ جوڈیشل اکیڈمی‘ سول سروس اکیڈمی اور کاکول اکیڈمی‘ وہاں یہ کالے انگریز پائے جاتے ہیں۔ کالونیل ماسٹرز جو چھوڑ کر گئے تھے‘آج بھی ان کی بالا دستی ہے۔ ان کے تربیت یافتہ لوگ ہی ہم پر مسلط ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں جگر نے کہاتھا: ؎
اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے!
تمام پوسٹ کالونیل سوسائٹیز میں یہ اپنے وارث چھوڑ کر گئے تھے۔ وہی وارث ہم پر مسلط ہیں جو ان کی میراث کو لے کر چل رہے ہیں‘ اور جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں۔ ان کے بارے میں اقبال نے کہا تھا : ؎
ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
(افرنگ زدہ: ضربِ کلیم)
انہوں نے جو تعلیمی نظام دیا ہے‘ اُس سے وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں سی ایس لوئس (مشہور عیسائی مفکر اور فلسفی) نے ۱۹۳۰ء میں اپنے انگلینڈ کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو بچے پل رہے ہیں اور ہم جن بچوں کو وہاں تیارکر رہے ہیں‘وہ’’trousered apes‘‘ یعنی پتلون پہنے ہوئے بندرہیں۔ اسی طریقے سے ہم پر جو لوگ مسلط ہیں‘ بنیادی طور پر وہ مغرب کےنقال ہیں۔ وہ اپنے فرنگی آقا اور مالک کی خوش نودی کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ کالونیل دور سے جو لوٹ مار شروع ہوئی تھی‘ وہ آج تک چل رہی ہے۔ علامہ اقبال کی ایک نظم ہے جس میں وہ مسولینی کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ: ؎
آلِ سیزر چوبِ نَے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشتِ دہقاں‘ تم نے لوٹے تخت و تاج
(مسولینی:ضربِ کلیم)
اہلِ روم گانے بجانے اور کھانے پکانے میں پورے یورپ سے آگے تھے۔ چنانچہ مسولینی یورپ کی استعماری قوتوں سے کہتا ہے کہ تم چاہتے ہو آلِ سیزر محض موسیقی میں مشغول رہیں اور تم بنجر علاقے بھی نہ چھوڑو‘ وہاں پر بھی قبضہ کرلو۔ اب اگلا مصرع بہت زبردست ہے اور یہ گویا پوری جدید تہذیب کی تسوید ہے: ؎
پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے‘ مَیں روا رکھتا ہوں آج
سارے استعماری منصوبے کو تم نے ایک مہذ ّب کارنامے کے طور پر پیش کیا۔ تم نے کہا کہ اصل میں ہم تو مہذب ہوگئے ہیں لیکن یہ لوگ جو جانوروں کی طرح ہیں‘ ہم نے ان کو بھی تہذیب سے آراستہ کرنا ہے۔اس کے لیے تم نے تہذیب کے پردے میں غارت گری اور آدم کُشی کی ہے۔ایک جگہ اقبال نے کہا: ؎
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہرِ ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
(غزل۱۴:بالِ جبریل)
مجھے فطرت نے ملکوتی جوہر عطا کیے ہیں‘ اگرچہ میں خاکی ہوں لیکن خاک سے میرا تعلق نہیں ہے۔ اب جو جدید مغرب ہے‘ اس کے ہاں خاکی ہونا دو طریقے سے ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں ایک لفظ استعمال کیا ہے:Earth rootedness ۔ ایک تصور مغرب کے ہاں ہے کہ وہ انسان کو محض ایک خاکی مادی وجود سمجھتے ہیں جو آب و گل سے بنا ہے۔ وہ انسان کے اندر کسی روحانی عنصر کو نہیں مانتے۔ علامہ اقبال نے کہا :؎
در نگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است
افرنگ کی نگاہ میں آدمی آب و گل کا مجموعہ ہے اور اُس کے تصور میں زندگی کے کارواں کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ ہر چیز آب و گل سے مل کے بنی ہے: ؎
علم و فن‘ دین و سیاست‘ عقل و دل
زوج زوج اندر طوافِ آب و گل
اس دور میں چاہے علم ہو یا فن ---- علم کا لفظ سائنس اور ٹیکنالوجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ---- علم و فن ہو‘ دین و سیاست ہو‘ عقل و دل ہو‘ یہ سب گروہ گروہ‘ آب و گِل‘ مٹی اور پانی کا طواف کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ انسان ایک روحانی وجود ہے‘ یہ چیز اُن کے ہاں سے چلی گئی۔ اقبال نے کہا: ؎
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اُس کا دلِ بے نیاز
(مسجد ِقرطبہ : بالِ جبریل)
انسان کے اندر خاکی عنصر کے ساتھ ایک نوری عنصر بھی ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انسان میں بہیمیت بھی ہے اور مَلَکِیّت بھی ۔ سعدی رحمہ اللہ نے کہا : ؎
آدمی زادہ طرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتہ وز حیوان
یہ آدم زاد ایک عجیب مرکب ہے۔ اس کے اندر فرشتوں کی سرشت بھی ہے اور ایک حیوانی عنصر بھی ہے۔ البتہ فرنگ کے نزدیک انسان محض ایک مادی وجود ہے ۔یہ دنیا کی پہلی تہذیب ہے جو سراسر ایک ظاہری اور مادی تہذیب ہے‘ جو مادے سے آگے کسی چیز کو نہیں مانتی۔ مغرب کے افکار میں تین چیزوں کے مقابل تین چیزیں آ گئیں:خدا کے مقابل کائنات‘ روح کے مقابل جسم‘ اور حیاتِ اخروی کے مقابل حیاتِ دنیوی۔ خدا‘ روح اور آخرت سب کے سب عالم الغیب سے متعلق ہیں جبکہ کائنات‘ جسم اور حیاتِ دنیوی‘ سب کے سب عالمِ شہادت سے متعلق ہیں۔ مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ غیب کا انکار ہے۔ اس نے ہر چیز کو شہود کے طور پردیکھا: ؎
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر؟
(شکوہ: بانگ درا)
یہ جو تصور پیدا ہوا ہے کہ مادیت ہی اصل ہو گئی‘ روحانیت کا انکار کر دیاگیا۔ علامہ اقبال نے ایک اور جگہ کہا کہ تین بڑے سوالات ہوتے ہیں: ؎
عالم از رنگ است و بے رنگی است حق
چیست عالم؟ چیست آدم؟ چیست حق؟
یہ دُنیا رنگین ہے اور حق بے رنگ ہے۔ عالم کیا ہے‘ آدم کیا ہے اور حق کیا ہے؟ عالم بھی مادی ہے کہ یہ مادی دنیا ہے۔ اسی طرح اُنہوں نے آدم کو بھی مادی وجود کہا اور حقیقت کے بارے میں بھی کہا کہ جوانتہائی حقیقت ہے‘ وہ بھی مادہ ہی ہے۔مادے کے سوا کچھ بھی پایا نہیں جاتا۔ مغربی تہذیب میں ایک مسئلہ یہ ہوا ہے کہ وہاں پر انسان کو ایک مادی وجود بنا دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں پر انسانوں کو زمین‘ وطن سے جوڑ دیا گیا ہے۔ پھر نظامِ سرمایہ داری نے اسی فکر ِغرب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا: ؎
ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود
نورِ حق از سینۂ آدم ربود
یہ بینک کا ادارہ چالاک یہودی کے فکر کا شاخسانہ ہے۔ بینکوں نے آدم کے سینے سے نورِ حق کو نکال دیا ہے: ؎
تا تہ و بالا نگردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دین‘ سوداے خام
جب تک یہ نظام تہ و بالا نہیں ہو گا کسی دانش‘ کسی تہذیب‘ کسی دین کا کوئی سوال نہیں۔ لہٰذا اس معاملے پر ہمیں چاہیے کہ غور کریں۔
اس جال سے بچیں کہ خدا نخواستہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ریسورسز نہیں ہیں یا ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے یا ہم معاشی طور پر پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ۔بندۂ مومن کا زوال بے زری سے نہیں ہے۔ پانی جہاں مر رہا ہے‘ وہ ہمیں پتا ہے۔ وہ دین ہے‘ ایمان ہے۔ لہٰذا اُس کی پرواہ کریں‘ اُس کی فکر کریں۔ پھر کوشش کریں کہ اپنی ذات سے اُسوہ بنیں۔ جس دین کو ہم پھیلا رہے ہیں‘ اُس کا نمونہ بنیں۔ اس کی بنیاد پر خیر پر مبنی ایک سماج قائم کریں۔ ایک ایسا نظم مملکت قائم کرنے کی جدوجہد کریں جو حق پر قائم ہو۔ جو لوگ بھی حق پر مبنی نظام قائم کریں گے‘ سب سے پہلے اُنہیں جدید اداروں پر علمی حوالے سے تنقید کرنی ہو گی۔ اسٹیٹ پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے اسے cut to size کرنا ہو گا۔ اسٹیٹ کو بالکل اُس کی صحیح جگہ پر لانا ہو گا۔ پھر جتنے بھی جدید ادارے ہیں‘ اُن کی نہاد میں جو مسائل ہیں‘ جو لادینیت ہے‘ اُن پر غور کرنا ہو گا۔ ہر چیز پر اسلام کی چیپی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اُس کے درون کو دیکھیں کہ یہ اسکول کا ادارہ کہاں سے آیا ہے! یہ بینک کا ادارہ کہاں سے آیا؟ یہ ماڈرن مارکیٹ کہاں سے آئی؟ یہ اسٹاک ایکسچینج کہاں سے آئی؟ یہ پاگل خانے کہاں سے آئے؟ یہ اسپتال کہاں سے آئے؟ یہ سب جدید ادارے ہیں ‘جو انسانوں کو ڈسپلن کرنے اور اُن کو جکڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی نے کہا تھا: ؎
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں‘ مرے اسپتال جا کر
اور : ؎
باپ ماں سے‘ شیخ سے‘ اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے‘ تعلیم دی سرکار نے
ہماری پوری زندگی اداروں میں گزرتی ہے ‘جو سارے کے سارے کالونیل بھی ہیں اور امپیریل بھی‘ مطلق العنان بھی ہیں اور لادینی بھی۔ یہ بات اپنی جگہ کہ ہم پاکستان کو سیکولر نہیں ہونے دیں گے‘ پاکستان میں سیکولر ازم کو نہیں آنے دیں گے‘ پاکستان کے سرکاری نام میں سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ نہیں نکالنے دیں گے‘ آئین سے اسلامی شقیں نہیں نکالنے دیں گے‘ شراب خانے اور قحبہ خانے نہیں کھولنے دیں گے‘ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے پر پابندی نہیں لگوانے دیں گے ‘وغیرہ وغیرہ۔ ماڈرن اسٹیٹ اپنی اصل میں سیکولر ہے‘ تو پاکستان بھی ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اُس میں کچھ چیزیں داخل کر دی گئی ہیں جن کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے Islamizeکر لیا گیا ہے ۔بینک ایک سیکولر ادارہ ہے‘ اُس کو اسلامی نہیں بنایا جا سکتا ۔ میں اسلامی یونیورسٹی میں پڑھا ہوں‘ مجھے پتا ہے کہ وہاں کیا حالت ہوتی ہے۔ جب کسی بھی جدید ادارے پر اسلام کا ٹھپا اور چیپی لگائی جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا‘ بس چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے۔ یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ سانحہ ہو گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یونیورسٹیوں کو مدرسوں کے ماڈل پہ ڈھالا جاتا‘ اس کے بجائے اب مدرسوں کو یونیورسٹی کے ماڈل پہ ڈھالا جا رہا ہے۔ بہر حال‘ پھر وہی بات جو اقبال نے کہی تھی کہ حل یہ ہے: ؎
مقامِ خویش اگر خواہی دریں دَیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیٰؐ رَو!
اگر اس پرانے بت کدے میں‘ اس دنیا میں کوئی مقام بنانا چاہتے ہو تو ایک ہی طریقہ ہے کہ حق تعالیٰ سے اپنے دل کو لگاؤ اور رسول اللہﷺ کے رستے پر چلو۔
جا رجو اگیمبن ایک بہت مشہور اطالوی مفکرہے‘ اس کا ایک ٹویٹ ہے‘ جو اُس نے تیس اکتوبر کوکیا۔ یہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
" Scientists from the School of Plant Sciences at the University of Tel Aviv announce in the last few days that they had recorded with the help of special ultra --- sound micro phones, the screams of pain that plants make when they are cut or lack of water. "

’’تل ابیب یونیورسٹی کے اسکول آف پلانٹ سائنسز کے سائنس دانوں نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے خصوصی الٹرا ساؤنڈ مائیکرو فونز کی مدد سے اس درد کی چیخوں کو ریکارڈ کیا ہے جو پودے کے کٹ جانے یا پانی کی کمی سے پیدا ہوتی ہیں۔‘‘
اُس کے بعد کہتے ہیں: There are no micro phones in Gaza یعنی ’’غزہ میں کوئی مائیکرو فون نہیں ہیں!‘‘ یہ ہے تہذیب جو پیدا کی گئی ہے‘ یعنی وہ طاقت پیدا کر لی کہ پلانٹس کی سسکیاں سنی جا سکیں۔ جو اکبر نے کہا تھا کہ خردبیں اور دور بیں تک ان کی بس اوقات ہے۔ انسان کو یا تو جانور بنا دو یاپھر مشین بنا دو۔ اس مفکر نے کہا کہ تم اتنے ظالم اور سنگ دل ہو کہ پودوں کی چیخیں سننے کے لیے تم نے آلات پیدا کر لیے ہیں جبکہ غزہ کے بچوں کی آوازیں اور اُن کی سسکیاں تمہیں سنائی نہیں دیتیں۔ یہ وہ تہذیب ہے جس پر ہم ناز کرتے ہیں‘ حالانکہ وہ لوگ جو اس تہذیب کے پروردہ ممالک میں رہتے ہیں‘ انہیں شرمندہ ہو نا چاہیے۔ اُن کو شرمندگی کے احساس کے ساتھ رہنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو دنیا کا سب سے ظالمانہ اور سب سے زیادہ غیر انسانی نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پہ رحم کرے!
بہر حال‘ ہمیں کیپیٹل ازم سے لڑنا چا ہیے۔ اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اس کے بدترین کنزیومر بن جائیں۔ اپنے طرزِ زندگی میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ جس سے پتا لگے ہم اس سارے نظام سے کم از کم بےزار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بعض لوگ کہتے ہیں کہ تنقیدی شعور ہونا چاہیے‘مگر مصیبت یہ ہے کہ ساری تنقید روح ‘دین ‘پیغمبر اور آخرت کے گرد گھوم رہی ہے۔ میرے نزدیک تو اس وقت اسلامی جماعتوں کی بہت بڑی خدمت یہ ہو گی کہ وہ نفسِ ’’اسٹیٹ‘‘ کو موضوع بنائیں‘ یعنی جب کبھی وہ اقتدار پر آئیں گی تو سب سے بڑی رکاوٹ اُن کے سامنے اسٹیٹ اور اسٹیٹ کی مشینری ہو گی۔ ابھی تک تو ایسے لگتا ہے کہ ان اداروں کے بارے میں ایسی کوئی آگاہی نہیں ہے۔ میری ناقص رائے میں بات یہاں سے شروع کرنی چاہیے اور ایک نئی ادارہ جاتی صف بندی کرنی چاہیے۔ مسجد کو مرکز بنائیں‘ پنچایت کو زندہ کریں۔ بات یہاں سے شروع ہو گی کہ سب سے پہلے اس مسئلے کی تفہیم پیدا کریں‘ ورنہ آپ کو پہلے بھی حکومت ملتی رہی تو آپ بے بس رہے اور آئندہ بھی بے بس ہی ہوں گے!