مُقدِّمۃ فی أقسامِ حُکمِ العقل
مقدمہ نگار: محمد اکرم ابوغوش
ترجمہ نگار:مکرم محمود
اثیرالدین الابہری (وفات: ۷۴۵ھ/ ۱۳۴۴ء) کی کتاب’’ 'رساله فی علم الکلام‘‘ کے آغاز میں اس کتاب کے محقق محمداکرم ابوغوش کاایک مفید مقدمہ بعنوان’’ مقدمۃ فی اقسام حکم العقل‘‘ موجود ہے جس میں احکامِ عقلیہ ثلاثہ پر مختصر مگر مفید بحث کی گئی ہے۔آپ کا تعلق اردن سے ہے۔ ایک اشعری متکلم ہیں اور مشہور متکلم سعید عبداللطیف فودہ کے متعلقین میں سے ہیں۔احکامِ عقلیہ ثلاثہ میں وجوب (necessity)‘ امکان‘possibility) )اور امتناع (impossibility) شامل ہیں۔علاوہ ازیں‘ عدم تناقض کا قاعدہ (law of non-contradiction) علم کلام کی مبادیات میں سے ہیں۔علم کلام میں جن حقائق کو ثابت کیا جاتا ہے ان کے ثبوت میں قطعیت انہی احکام اور مبادی سے پید اہوتی ہے۔یعنی یہ احکام اور مبادی وہ بنائے محکم ہیں جن پراس علم میں استدلال کی پوری عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ان کے عدم فہم کی وجہ سے دلائل کی صحیح تفہیم ممکن نہیں ہو پاتی۔اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتاہے کہ علم کلام کے پورے ڈسکورس میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان کو ’’جدلی‘‘‘ ’’خطابی‘‘ اور’’ترجیحی‘‘ قرار دے کر قطعی نہیں سمجھا جاتا۔اس مسئلے پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر علم کلام کی بنائے محکم کے درست فہم کا فقدان ہے ‘اور پھر یہ کہ اس عدم فہم کوبنائے محکم کے عدم وجود پردلیل بھی سمجھ لیاجاتا ہے ۔یہ درست ہے کہ دور حاضر میں یہ طریقۂ استدلال اور یہ اصطلاحات اب ٹھیٹھ روایتی انداز میں استعمال نہیں ہوتیں لیکن ان کا عدم استعمال ان کی عدم واقعیت و محکمیت کی دلیل نہیں ہے۔شاید یہ اسی سوئے فہم کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے ہاں کوئی محکم علمی بنیاد باقی نہیں بچی۔از مترجم
یہ مقدمہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر عقیدہ وکلام کے اکثر مسائل کے فہم کا انحصار ہے۔جس حقیقت پر واجب ‘ ممکن‘ ممتنع ‘واجب عادی اور ممکن عقلی وغیرہ کااطلاق ہوتا ہے اس کے عدم فہم کی بدولت بہت سے مسائل کے بیان کا حقیقی ادراک نہیں ہوپاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سا وقت ایسی چیزوں کے پڑھنے میں ضائع ہو جاتا ہے جن کے معانی کا درست ادراک سرے سے حاصل ہی نہیں ہوتا۔
حکم عقلی کی اقسام کابیان اس مبدأ اوّل (اصول) پر مبنی ہے جو ضروری و بدیہی ہے‘اور وہ اصول ہے تناقض کی نفی۔پس شے یا تو موجود ہوتی ہے یا معدوم‘ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شے بیک وقت موجود بھی ہو اور معدوم بھی ہو اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ موجود بھی نہ ہو اور معدوم بھی نہ ہو۔
باعتبارِ ذات ہر معلوم شے کے وجود و عدم کی صفت سے متصف ہونے کی صحت کے احتمالات کی تقسیم ہم اسی اصل کی بنیاد پر کرتے ہیں۔چنانچہ اس تقسیم سے چار احتمالات حاصل ہوتے ہیں:
۱) وجود سے متصف کرنا صحیح ہو اور عدم سے متصف کرنا صحیح نہ ہو۔
۲) وجود سے متصف کرنا صحیح نہ ہو اور عدم سے متصف کرنا صحیح ہو۔
۳) وجود سے متصف کرنا بھی صحیح ہو اور عدم سے متصف کرنا بھی صحیح ہو۔
۴) نہ وجود سے متصف کرنا صحیح ہو اور نہ عدم سے متصف کرنا صحیح ہو۔
کہا جائے گا کہ چوتھا احتمال تو عین تناقض ہے اور ممنوع ہے لہٰذا اس کا انطباق کسی معلوم پر نہیں کیا جا سکتا۔ پس پہلے احتمال کا مدلول وہ شے بنتی ہے جس پر لذاتہ عدم کااطلاق درست نہ ہو‘ یعنی اس کے لیے اپنی ذات میں معدوم ہونا محال ہو۔وہ ایسا امر ہے جس کے لیے لذاتہ وجود کا ثبوت واجب ہے۔بلاشبہ جب وجود و عدم میں تناقض ہے تو اس پر عدم کا طاری ہونا محال ہے۔پس اس کا موجود ہونا لازم ہے۔چنانچہ یہی وہ امر ہے جس کو ہم واجب الوجود کہتے ہیں۔اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ اس کے لیے وجود واجب ہے اور عدم ممتنع ہے۔
احتمال ثانی کااطلاق اس شے پر ہوتا ہے جس کے لیے وجود سے متصف ہو ناہی درست نہ ہو ‘یعنی وہ اپنی ذات کے اعتبار سے معدوم ہو۔اس کو ہم محال اور ممتنع کہتے ہیں۔اس کی مثال خدا کاشریک ہے اوراللہ اس سے بلند ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو۔
تیسرے احتمال کااطلاق اس شے پر ہوتا ہے جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں۔یہ ممکن ہے کہ ہم اس کوموجود تصور کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس کو معدوم خیال کریں۔اس کو ہم ممکن کہتے ہیں۔اس کی مثال مَیں‘آپ اور یہ عالم ہے۔ہم میں سے کسی کا وجود بھی اپنی ذات میں ضروری (واجب)نہیں ہے بلکہ ہم سب اپنے غیر کی تاثیر سے موجود ہوئے ہیں اور وہ غیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔یہ اشیاء (اور ہم ) جو اب موجود ہیں اور پہلے معدوم تھیں ان پر پھر سے عدم کا طاری ہونا ناممکن (ممتنع) نہیں ہے۔ایک دوسری مثال خروجِ دجّال کی ہے جو ابھی معدوم ہے اور مستقبل میں موجود ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اور اس کے فتنے سے پناہ عطا فرمائے‘ آمین! ایک ہزار سال پہلے بھی اس کا خروج ممکن تھا لیکن وہ ظاہر نہیں ہوا۔ایک اورمثال پارے کے سمندر اور یاقوت کے پہاڑ کی ہے۔یہ اشیاء معدوم ہیں اوران کا وجود ممتنع (ناممکن) نہیں ہے ‘مگر اس کے باوجود یہ عین ممکن ہے کہ یہ کبھی بھی وجود میں نہ آئیں۔
یہ تقسیم معلوم کی ذات کے اعتبار سے ہے یعنی جب تک معلوم وہ ہے جوکہ وہ ہے توحکم (عقلی) اس کی ذات کے لیے ہے۔مثلاً‘اگر ہم کہیں کہ زید انسان ہے تو وہ نہ گھوڑا ہے نہ شیر ہے۔اسی طرح احکامِ عقلیہ ثلاثہ کابھی یہی معاملہ ہے۔واجب عقلی اپنی ذات میں واجب ہے۔پس یہ ناممکن ہے کہ اس کا حکم امکان یا امتناع سے بدل جائے(’’انقلاب حقائق محال ہے‘‘ کا متکلمین کے ہاں یہی مطلب ہے)اور محال کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ واجب یاممکن ہو جائے۔اسی طرح ممکن کے لیے یہ محال ہے کہ وہ واجب یا محال ہوجائے۔
اس تقسیم کے بعد ایک اور تقسیم ہے۔وہ تقسیم یہ ہے کہ حکم عادی ہوتا ہے‘عقلی ہوتا ہے یا وضعی ہوتا ہے۔حکم عقلی قانون عدم تناقض پر مبنی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ الوہیت اپنی ذات میں اس بات کی متقاضی ہے کہ الٰہ واحد ہی ہو۔اگر ایک سے زیادہ خداؤں کو فرض کیاجائے (محال کو فرض کرنا محال نہیں ہے)تویہ بات لازم آئے گی کہ الٰہ اپنی حقیقت میں الٰہ نہیں ہے اور یہ صریح تناقض ہے۔
اسی طرح مثلث کے مثلث ہونے کے لیے لازم ہے کہ اس کے مجموعی زاویے۱۸۰ کے برابر ہوں کیوں کہ مثلث کی حقیقت ہی یہ ہے۔اگر ہم ایسی مثلث فرض کریں جس کے مجموعی زاویے۱۵۰ کے برابر ہوں تو گویا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ مثلث اصل میں مثلث نہیں ہے اور یہ واضح تناقض ہے۔
جہاں تک حکم عادی کا تعلق ہے تو وہ تکرار پرمبنی ہے۔ہم روز یہ دیکھتے ہیں کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس بار بار ہونے کی بنا پر یہ لازم ہے کہ سورج مشرق ہی سے طلوع ہوتا رہے۔عادت ہی کی وجہ سے ہم کسی تانبے سے بنے ہوئے انسان کے وجود کو ناممکن سمجھتے ہیں۔عادت ہی کی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہمیں بھوک اور پیاس نہ لگے۔اسی طرح تمام طبیعی قوانین ہیں(یعنی یہ سب حکم عادی پر مبنی ہیں‘ حکم عقلی پرنہیں)۔
عادت پر مبنی احکام عام طور پر یقین پیدا کرتے ہیں۔جہاں تک قانون عدم تناقض پر مبنی حکم عقلی کی بات ہے تو اس قانون کی رو سے یہ لازم نہیں آتا کہ سورج مشرق ہی سے طلوع ہوتا رہے اور نہ یہ نا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان کو پیدا کردے جو تانبے سے بناہوا ہو۔اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل جنت بھوک اور پیاس سے آزاد ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوان میں شامل فرمائے۔آمین!
اس بحث کاحاصل یہ ہے کہ حکم عادی اور حکم عقلی کے درمیان ایک تعلق ہے۔عقلی واجب کادائرہ عادی واجب کے دائرہ سے خاص ہے۔کچھ عادی واجب مثلاً ہر مہینے چاند کا اپنی منازل طے کرکے چودھویں کاچاند ہوجانا ‘عقل کے نزدیک ضروری نہیں ہے‘جبکہ جو عقل کے نزدیک واجب ہوگا وہ عادت میں بھی لازماًواجب ہوگا۔اسی طرح امتناع کامعاملہ ہے۔عادی ممتنع عقلی ممتنع سے عام ہے(یعنی ممتنع عادی کا دائرہ زیادہ بڑا ہے)۔کچھ ایسے معاملات جو عادتاً محال ہوتے ہیں‘ عقلاً ممکن ہیں۔انسان پتھروں سے غذا حاصل کرے ‘یہ عادتاً تو ممکن نہیں ہے لیکن عقل کے نزدیک ممکن ہے۔
جہاں تک ممکن کا معاملہ ہے تو عقلی ممکن عادی ممکن سے عام ہے (یعنی ممکن عقلی کا دائرہ زیادہ بڑا ہے)۔پس بعض عقلی ممکنات عادی ممکنات ہوتے ہیں‘بعض عادی واجب ہوتے ہیں اور بعض عادۃً ناممکن ہوتے ہیں۔ممکن عقلی وعادی کی مثال زید کاسوناہے(یعنی کسی انسان کا نیند سے مغلوب ہو کر سو جانا ہمارے مشاہدہ میں بھی ہے اور عقل بھی اس کو ممکن قرار دیتی ہے)۔عقلی ممکن اور عادی واجب کی مثال عمر کی موت ہے(کہ موت تو آنی ہی آنی ہے کیوں کہ سب انسان ہی مرتے ہیں مگرموت کانہ آناعقلاً ممکن ہے)۔عقل جس کو ممکن جانے اور عادت میں ایسا ہونا ناممکن ہو ‘اس کی مثال قبر میں سے مُردے کاباہر آجاناہے۔اس عالم میں یہ ہونا عادت کی بنیاد پر ناممکن ہے اور قیامت کے روز ایسا ہونا عادت کی بنا پر واجب ہوگا کیوں کہ( عنقریب) تمام انسانوں کو قبروں سے نکالا جائےگا۔ـ(ان احکامات کو درج ذیل تصویر کی مدد سے سمجھایا گیا ہے:الواجب العادی’’الواجب العقلی الممتنع العادی’’الممتنع العقلی الممکن العقلی الممکن العادی‘‘)
حکم عقلی اور حکم عادی کے علاوہ ایک اور حکم بھی ہے جس کو ہم حکم وضعی کہتے ہیں۔پس یہ وہ ہے جسے اختیار کے ساتھ وضع کیاگیاہو (بنایاگیاہو)۔حکم وضعی کی اقسام میں سے ایک کو ہم وضع شرعی کہتے ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہوتی ہے۔مثلاً نماز کا فرض ہونا اور ظہر کی نماز میں چار رکعات کا ہونا۔ایک قسم وہ ہے جس کو لوگوں نے باہمی رضامندی سے وضع اور مقرر کیاہو۔مثلاً یہ کہ لفظ ’’گاڑی‘‘ ا س میکانکی آلے کے بارے میں بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔اسی (وضع انسانی) میں سے یہ بھی ہے کہ سرخ روشنی والا اشارہ آگے نہ بڑھنے کے معنی دیتا ہے۔اسی پر اور مثالوں کوبھی قیاس کیا جاسکتاہے۔
ممکن کا واجب کا محتاج ہونا
پچھلی (بحث اور) تعریفات کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے کہ ممکن کو اپنی ذات میں وجود کا استحقاق حاصل نہیں ہے۔پس اگر ہمارے نزدیک اس کا وجود ثابت ہے تو لازم ہے کہ اس کا وجود کسی غیر سے صادر ہوا ہو۔اگر اس کو موجود بالذات فرض کیا جائے (یعنی اس کا وجود ذاتی تسلیم کیا جائے) تو یا تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے وجود میں کسی بھی دوسرے کا محتاج نہ ہو۔پس پھر تو وہ واجب الوجود ہو گیا کیوں کہ واجب وہی ہوتا ہے جسے وجود کا استحقاق اپنی ذات کے اعتبار سے حاصل ہو۔لیکن ہم نے تو اسے ممکن فرض کیا تھا لہٰذا یہ کھلا تناقض ہے۔ یا یہ صورت ہوسکتی ہے کہ ممکن وجود میں آ جائے بغیر کسی مرجح کے (امکان کا مطلب ہی یہ ہے کہ جس میں وجود و عدم برابر ہوں۔جہت وجود کو ترجیح دینے کے لیے ایک ترجیح دینے والے کی ضرورت ہے جسے مرجح کہتے ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ ترجیح بلا مرجح محال ہے)۔یہ ضروری طور پر محال ہے۔اس کے محال ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اس کا حادث ہونا(وجود میں آنا) اگر بغیر کسی سبب کے ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ ایک طرف تو ممکن میں باعتبار ذات وجود و عدم مساوی ہو جائیں اور وجود و عدم کے مساوی ہونے کے ساتھ اس میں وجود کی طرف رجحان بھی جمع ہوجائے۔مساوات وجود وعدم کے اثبات کے ساتھ وجود کی طرف رجحان کا جمع ہونا صریح تناقض ہے۔
بس یہ بدیہی بات ہی باقی بچتی ہے کہ جب بھی ہم کسی ممکن الوجود کو فرض کریں گے تو یہ بات لازم آئے گی کہ وہ اپنے کسی غیر کا معلول ہو۔یہاں سے ہم تمام ممکنات کے بارے میں قطعی طور پر جان سکتے ہیں کہ ان کو باعتبار ذات وجود کا استحقاق حاصل نہیں ہے۔اگر ممکن موجود ہے تو وجود کاسبب وہ خود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا ممکن اس کا سبب ہے کیوں کہ یہاں مجموعی طور پر تمام ممکنات کی بات ہورہی ہے۔
پس یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے ممکن کے علاوہ کوئی سبب موجود ہے‘ اور موجود یا تو ممکن ہوتا ہے یا واجب(سبب چونکہ ممکن نہیں ہے لہٰذا قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ) پس یہ سبب موجود واجب ہے۔پس واجب الوجود کا وجود ممکن و واجب کے مابین تفریق سے ہی ثابت ہو جاتا ہے۔[وجود واجب کے اس طریقۂ ثبوت کومتکلمین اسلام کی زبان میں دلیل امکان کہاجاتاہے۔یہ دلیل مشاہدے کے بغیر فکر مجرد پرمبنی ہے۔دوسری مشہور دلیل کو دلیل حدوث کہا جاتا ہے جس میں خارجی کائنات میں تغیر و حدوث کامشاہدہ ہوتا ہے اور اس سے محد ِث کا وجود ثابت کیاجاتا ہے۔اس مقدمے میں اس دلیل کو بیان نہیں کیاگیا۔دلیل امکان تعقل محض پر مبنی ہے جبکہ دلیل حدوث میں مشاہدہ وفکر مجرد دونوں کا امتزاج ہے۔از مترجم]
tanzeemdigitallibrary.com © 2024