(اقبالیات) علامہ اقبال اور ابن عربی - محمد شفیع بلوچ

10 /

علّامہ اقبال اور ابن عربی
(گریز و کشش کی روداد)
محمد شفیع بلوچ

پروفیسر آسن پلکوس (Asin Palacios)کی رائے میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی ؒسے فکری مماثلت رکھتے ہیں۔۱۹۳۳ء میں میڈرڈیونیورسٹی کےجس اجلاس میں علامہ اقبال نے ’’اندلس اوراسلام کی فکری کائنات‘‘کے عنوان سے لیکچردیاتھا‘اس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر موصوف نے کہاتھا:
’’ابن عربی کی طرح سر محمد اقبال نے بھی شعر و آہنگ کے سانچے میں اپنے فلسفیانہ افکار ڈھالنے میں کامیابی حاصل کی اور اس خوبصورت شعر پارے کو ’’اسرارِ خودی ‘‘کامعنی خیز عنوان دیا۔‘‘(۱)
علامہ اقبالؒ اورمحی الدین ابی عربیؒ کے درمیان ذہنی روابط اورفکری فاصلوں کے حوالے سے گریزوکشش کی سی صورت نظرآتی ہے ۔شیخ کے افکاروخیالات کے بارے میں علامہ کی رائے مختلف ادوارمیں مختلف رہی۔ علامہ اقبال اوائل عمری میں(۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۰ء تک ) ابن عربی کے نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘کے قائل تھے اوروجودی صوفیہ کی طرح نفئ ہستی اورفنافی اللہ پرمحکم یقین رکھتے تھے۔اس دورمیں وہ حسن ازل کو ہمہ گیر اور کائنات کے تمام مظاہرمیں جاری وساری خیال کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ حسن ازل کی طلب و جستجو میں  کائنات کےذرّے ذرّے کادل دھڑک رہاہے ۔بقول پروفیسرمحمدشریف‘ اس دورمیں علامہ اقبال :
’’خداکوحسن ازلی سے تعبیرکرتے ہیں جس کاوجود ہرذرّہ سے پہلے اورہرذرّہ سے آزاد ہونے کے باوجود ہرایک میں جلوہ گرہے ۔آسمان کی رفعتوں اورزمین کی بستیوں‘چاند‘سورج‘ستاروں‘گرتے ہوئے قطرہ ہائے شبنم‘بروبحر‘شعلہ و آتش‘جمادات و نباتات‘طیوروحیوانات‘نغمہ دریاحین سب میں وہ مشہور موجود ہے۔‘‘(۲)
’’بانگ ِدرا‘‘ کی بعض نظمیں اسی نظریہ کی غمازی کرتی ہیں:
حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے‘ غنچے میں وہ چٹک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے‘ وہ پھول میں مہک ہے
(جگنو)
اور: ؎
دلِ ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
(.......کی گود میں بلی دیکھ کر)
علی عباس جلال پوری کے مطابق :
’’اقبال کودوواسطوں سے وحدتِ وجود یاہمہ اوست کانظریہ ذہنی اورذوقی میراث میں ملاتھا۔ ایک تو وہ برہمن نژاد تھے اورسریان کاتصور صدیوں سے ان کے آباءواجدادکے ذہن وعقل میں نفوذ کر چکا تھا۔ دوسرے اُن کے والد ایک صاحب کشف وحال صوفی تھے جن کے احوال وکرامات کاذکراقبال اپنے دوستوں میں کیاکرتے تھے ۔‘‘ (۳)
۱۹۰۵ء میں علامہ اقبال یورپ گئے ۔وہاں انہوں نے ایرانی فلسفہ اورتصوف کامطالعہ کیا۔’’ایران میں مابعدالطبیعیات کاارتقاء‘‘پرمقالہ لکھا۔اس میں انہوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ قرآن حکیم میں بعض آیات ایسی ہیں جن سے وحدت الوجود کاعقیدہ مستنبط ہوسکتاہے ۔
’’میرے خیال میں یہ ثابت کیاجاسکتاہے کہ قرآن واحادیث صحیحہ میں صوفیانہ نظریہ کی طرف اشارات موجودہیں لیکن وہ عربوں کی خالص عملی ذہانت کی وجہ سے نشوونماپاکربارآورنہ ہوسکے۔ جب ان کو غیر ممالک میں موزوں حالات میسر آگئے تووہ ایک جداگانہ نظریہ کی صورت میں جلوہ گرہوئے ۔ قرآن نے ایک مسلم کی حسب ذیل تعریف کی ہے:
{وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(۲۰) وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۲۱)} (الذّٰریٰت)
’’اور زمین میں صاحبانِ ایقان (یعنی کامل یقین والوں) کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)‘ سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو!‘‘
اورپھر کہا ہے:{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶)} (قٓ)’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
اسی طرح قرآن کی تعلیم ہے کہ اس ’’ غیب‘‘ کی اصل ماہیت خالص نور ہے ۔{اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط} (النور:۳۵)’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘
اس سوال کے متعلق کہ آیا نورِ اولیٰ شخصی ہے‘ قرآن نے شخصیت کے تصور کو مختلف عبارتوں میں پیش کرنے کے باوجود مختصر الفاظ میں یہ جواب دیا ہے کہ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌج} (الشوریٰ:۱۱)’’ اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
یہ چند خاص آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے۔‘‘(۴)
دوسرے دور میں‘ جو ۱۹۱۷ء تک محیط ہے ‘انہوں نے ابن عربی اور ان کے نظریات سے اختلاف کیا۔ پروفیسر محمد شریف اس دور کو علامہ اقبال کی ذہنی و فکری نشو و نما کا دور کہتے ہیں۔(۵)اس دور میں علامہ کو شیخ کے نظریہ وحدت الوجود کے سلسلے میں قرآنی تفسیر کا طریقہ ٔ رمز و تاویل ‘جس میں شیخ ِاکبر قرآن کے ظاہری معنی سے باطنی معنی نکالتے تھے‘ اختلاف تھا۔ علاوہ ازیں نظریۂ قدم ارواحِ کملاء یعنی اولیاء و انبیاء کی روحیں قدیم یالا فانی ہیں اور وجود کے مراتب ِستہ یا تنزلات‘ وغیرہم جیسے مسائل سے بھی عدم موافقت تھی۔ان فکری تفاوت کی روداد درج ذیل مکتوبات و نثر پاروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۹ جولائی ۱۹۱۴ء کو منشی سراج الدین کو ایک خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے جس نے لمعات میں فصوص الحکم کی تعلیمات کو نظم کیا ہے ۔جہاں تک مجھے علم ہے‘ فصوص میں سوائے زندقہ اور الحاد کے اور کچھ نہیں۔‘‘ (۶)
علامہ نے خواجہ حسن نظامی کو بھی تصوف‘ حافظ شیرازی‘ وحدت الوجود اور شیخ الاکبر کے بارے میں اپنے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے متعدد خطوط لکھے۔ ان میں سے ایک خط (مرقومہ۳۰ ستمبر ۱۹۱۵ء )تو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں لکھتے ہیں:
’’…… شیخ ابن عربی کے ذکر سے ایک بات یاد آگئی جس کو اس لیے بیان کرتا ہوں کہ آ پ کو غلط فہمی نہ رہے۔ میں شیخ کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سے سمجھتاہوں۔ مجھے ان کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیونکہ جو عقائد ان کے ہیں (مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) ان کو انہوں نے فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرآن حکیم سے مستنبط کیا ہے۔ پس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط‘ قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انہوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا منقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط۔ میرے نزدیک ان کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر صحیح نہیں ہے اس لیے گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتاہوں مگر ان کے عقائد کا پیرو نہیں ہوں۔‘‘(۷)
شاہ سلیمان پھلواروی کو اپنے ایک خط (محررہ۲۴ فروری ۱۹۱۶ء) میں شیخ اکبر سے اپنی محبت و اختلاف کی داستان یوں بیان کرتے ہیں:
’’ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کوئی بد ظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کو فتوحات اور فصوص سے کمال تشغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روزشریک ہوتا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا‘ میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات قرآن کے مطابق ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں سے میرا یہی خیال رہا ہے کہ مَیں غلطی پر ہوں ‘ گو اب میں سمجھتاہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے پر پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں ۔اس واسطے بذریعہ عریضہ ٔہذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ از راہِ عنایت و مکرمت چند اشارات تسطیر فرمادیں۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا۔‘‘(۸)
اپنے ایک مضمون ’’اسرارِ خودی اور تصوف ‘‘میں علامہ رقم طراز ہیں:
’’ مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں‘ اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواحِ کملاء‘ مسئلہ وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلاتِ ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب ’’انسانِ کامل‘‘ میں کیا ہے ۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے‘ گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے۔‘‘(۹)
’’اسرارِ خودی‘‘ کے دیباچہ میں علامہ اقبال نے شنکر اور شیخ الاکبر کو نہ صرف ہم خیال گردانا بلکہ وحدت الوجود کو عالم اسلام کے لیے ذوقِ عمل سے محرومی کی وجہ بھی قرار دیا۔ لکھتے ہیں:
’’ مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس نکتۂ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی‘ اُسی نکتہ ٔ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی‘ جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔ شیخ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ انتھک مفسر تھے ‘اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا ۔ اوحدالدین کرمانی اور فخر الدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعراء اس رنگ میں رنگین ہو گئے ۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہوسکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے! انہوں نے جزو اور کل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کر کے ’’ رگِ چراغ‘‘ میں خونِ آفتاب کا اور شرارِ سنگ میں جلوۂ طورکا بلا واسطہ مشاہدہ کیا ۔ مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعراءنے اس مسئلے کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا‘ یعنی انہوں نے دل کو اپنی آماج گاہ بنایا۔ ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا۔‘‘(۱۰)
۱۱ جون ۱۹۱۸ء کو اکبر الٰہ آبادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے حضرت علائو الدولہ سمنانی یہی بات لکھ چکے ہیں ۔ حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں ۔ میں نے تو شیخ محی الدین ابن عربی اور منصور حلاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سمنانی اور جنید نے ان بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں ‘ ہاں میں نے ان کے عقائد اور خیالات سے بیزاری ضرور ظاہر کی ہے۔‘‘(۱۱)
متذکرہ بالا مندرجات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ علامہ اقبال نے فصوص اور فتوحات جیسی مشکل‘ مبہم اور رمزی و عارفانہ کتب کی تفہیم کے لیے نہ تو کسی مستند شرح سے استفادہ کیا اور نہ ہی کسی متصوف عالم سے رجوع کیا۔ ان کے سامنے شیخ کے افکار کے بنیادی مصادر اور مستند تفہیمی کتب کی بجائے ان کے ناقدین (ابن تیمیہ‘ علاؤالدین سمنانی اور حضرتِ مجدد و غیرہم) کے محض تبصرے موجود تھے ۔ محمد سہیل عمر کا خیا ل ہے کہ:
’’ علامہ اقبال نے دیگر مفکرین کی طرح شیخ اکبر کی تعلیمات پر اپنے ردعمل کا اظہار ضرور کیا ہے کیونکہ یہ افکار مسلم تاریخ فکر کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں ۔ علامہ کے موقف اور ان کی آراء کا تعین بالعموم شیخِ اکبر کی تصانیف کے براہِ راست مطالعے سے نہیں ہوا۔علامہ کی آراء اس وسیع ذخیرہ فکروعمل پرایک تبصرے اوران فکری رویوں کے ایک جواب کی حیثیت رکھتی ہیں جوان تک ان کے عہدکے فکری اوضاع اور متقدمین کے مباحث وافکارکے وسیلے سے منتقل ہوا تھا۔ان میں ابن عربی کے مکتب فکرکے شارحین اورپیروکاروں کے (صحیح یاغلط )نمائندے بھی شامل تھے۔‘‘(۱۲)
ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ سے واپسی پرعلامہ اقبال کے وحدت الوجود سے گریز کااہم موڑ آتا ہے ۔انہوں نے اس خالص متصوفانہ اورمابعدالطبیعیاتی فکرکومغربی فلسفے کے آئینے میں دیکھا۔یہ شاید ان کی مجبوری یافطرتِ ثانیہ تھی‘جیساکہ اپنے ایک خط میں اس کااظہار بھی کرتے ہیں:
’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اوریہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیاہے۔دانستہ یانادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کامطالعہ کرتاہوں۔‘‘(۱۳)
مستشرقین اورمغربی مفکرین نے وحدت الوجود کے لیے Pantheism کالفظ استعمال کیاہے۔یہ ایک فلسفیانہ نظام ہے جونشاۃِ ثانیہ کے بعد کی مغربی دنیا میں سامنے آیا جب کہ وحدت الوجود ایک مابعدالطبیعیاتی تصور ہے ۔علامہ نے بھی اس زمانے میں انگریزی خطوط اورتحریروں میں وحدت الوجود کے لیے فلسفے کی اصطلاح ’’پین تھی ازم‘‘ ہی استعمال کی اوراسی کوہرجگہ شیخ اکبر(اورفخرالدین عراقی)کی تعلیمات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے برتا ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم ازکم اس زمانے میں علامہ وحدت الوجود کے مشرقی تصوراور’’پین تھی ازم‘‘ کی مغربی فلسفیانہ اصطلاح اورنظریے کو ایک ہی قراردیتے تھے ۔ اسلامی اصطلاح میں ’’پین تھی ازم ‘‘کااگر کوئی صحیح ترجمہ ہوسکتا ہے تو وہ حلول یاسریان ہے جس کامطلب یہ ہے کہ خدا کائنات میں مل گیاہے اوراس کاکوئی مستقل وجود باقی نہیں رہا۔یہ عقیدہ سراسرغیراسلامی ہے ۔یوں اس دور میں علامہ وحدت الوجود کوحلول وسریان ہی کاہم معنی سمجھ کر اس پرتنقید کررہے تھے۔وحدت الوجود کاانگریزی میں اگر کوئی مترادف لفظ ہوسکتاہے تو وہ Monism یا Unity of Existence ہے‘جس کامطلب ہے کہ کائنات کاوجود غیر حقیقی ‘وہمی‘یاظلی ہے جبکہ حقیقی و اصلی وجود صرف اللہ تعالیٰ کاہے اورکائنات اسی ذاتِ حقیقی کاجلوہ ہے ۔
ابن عربی کے تصورِ وحدت الوجود کے سلسلے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کی وضاحت ڈاکٹر سیدحسین نصر کے حوالے سے ہوچکی ‘جس میں یہ بتایاگیاہے کہ ابن عربی کے مابعدالطبیعیاتی عقائد کو محض فلسفیانہ موشگافی سمجھ کراس پر تنقید کی گئی۔
علامہ اقبال کاشیخ اکبرسے فکری اختلاف ضروررہالیکن جہاں تک ان کی عظمت ومحبت کاتعلق ہے‘ علامہ نے اس کااعتراف اپنے متعدد خطوط اورتحریروں میں کیاہے ۔اپنے مقالہ’’ عبدالکریم جیلی کاتصور توحید مطلق‘‘ مطبوعہ انڈین اینٹی کیوری بمبئی ‘شمارہ ۱۹۰۰ء کے حاشیہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’شیخ اکبرابن عربی اُمت محمدی کے عظیم ترین صوفیاء میں سے تھے ۔حیرت ناک حد تک کثیر التصانیف تھے۔ ان کا اعتقاد تھاکہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے اورسمندرپار ایک اوردنیاہے۔‘‘(۱۴)
اسی طرح ’’فلسفہ عجم‘‘ میں ایک جگہ لکھا:
’’تصوف کاوہ طالب علم جسے اصولِ توحید کی ایک جامع تفسیراورتعبیرکی تلاش ہواُسے چاہیے کہ اندلس کے ابن العربی کی ضخیم کتابوں سے رجوع کرے جس کی عمیق تعلیمات اس کے ہم وطنوں کے روکھے پھیکے اسلام سے عجب تضادرکھتی ہیں۔‘‘(۱۵)
اپنے خطبات ’’تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ ‘‘کے ساتویں خطبہ ’’مذہب کاامکان ہے؟‘‘میں علامہ لکھتے ہیں:
’’اسلامی اندلس کے مشہور صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی کایہ قول کیاخوب ہے کہ وجودِمدرک تو خدا ہے۔ کائنات تومعنی مفہوم ہے یعنی خداتواحساس ہے اوردنیاایک تصویر۔‘‘(۱۶)
خطبات کے ان اقتباسات سے اس امر کاثبوت ملتا ہے کہ علامہ ۱۹۲۸ء میں ابن عربی کی تعلیمات کواستحسان کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔انہوں نے اپنے ایک خط(۸/۱۹۳۳ء)میں مولاناسیدسلیمان ندویؒ سے شیخ اکبرکی تعلیم ’’حقیقت ِزمان‘‘ کے متعلق دریافت کرنے اوراس سلسلے میں ان کی رہنمائی کے طلب گار ہونے کااظہار کیا۔علامہ دراصل شیخ اکبراوران کی تعلیمات کے حوالے سے انگلستان میں لیکچردینے کے خواہش مند تھے۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۳۲ء میں حضرت مجددالف ثانی پرایک لیکچردے چکے تھے جوبہت سراہا گیا تھا۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’مخدومی !السلام علیکم ۔چندضروری اموردریافت طلب ہیں جن کے لیے زحمت دے رہاہوں۔ازراہِ عنایت معاف فرمائیے ۔
۱۔حضرت محی الدین ابن عربی کے فتوحات یاکسی اورکتاب میں حقیقت ِزمان کی بحث کس کس جگہ ہے؟ حوالے مطلوب ہیں۔
۲۔حضراتِ صوفیہ میں اگرکسی اوربزرگ نے بھی اس مضمون پربحث کی ہوتواس کے حوالے سے بھی آگاہ فرمائیے ۔
۳۔متکلمین کے نقطۂ خیال سے حقیقت زمان یاآنِ سیال پرمختصراورمدلل بحث کون سی کتاب میں ملے گی ؟ امام رازی کی مباحث مشرقیہ مَیں آج کل دیکھ رہاہوں ۔
۴۔ہندوستان میں بڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں اورملامحمودجون پوری کوچھوڑ کرکیااورفلاسفہ بھی ہندوستانی مسلمانوں میں پیداہوئے؟ ان کے اسماء سے مطلع فرمائیے۔ اگرممکن ہوتوان کی بڑی بڑی تصنیفات سے بھی ۔
اُمیدہے کہ مزاج بخیروعافیت ہوگا۔والسلام ۔ محمداقبال ‘‘(۱۷)
اس قسم کے مضمون کاایک خط (مورخہ ۱۸/اگست۱۹۳۳ء)علامہ نے پیرمہرعلی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی لکھا۔پیرصاحب اس وقت عالمِ استغراق میں تھے ‘اس لیے جواب نہ دے سکے ۔علامہ کے ساتھ بھی زندگی نے وفانہ کی اوروہ شیخ اکبرپرلیکچردینے کی خواہش دل میں لیے واصل بحق ہوئے۔وفات تک علامہ ‘شیخ اکبرکی تعلیمات کوسمجھنے کی کوشش میں مصروف رہے ۔پیرصاحب کولکھتے ہیں:
’’مخدوم ومحترم حضرت قبلہ ! السلام علیکم ۔اگرچہ زیارت اوراستفادہ کاشوق ایک مدت سے ہے‘تاہم اس سے پہلے شرفِ نیاز حاصل نہیں ہوا۔اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں‘ گومجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کاجواب لکھنے یالکھوانے میں جناب کوزحمت ہوگی۔ بہرحال جناب کے وسعت ِاخلاق پربھروسا کرتے ہوئے یہ چندسطورلکھنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھرمیں کوئی اوردروازہ نہیں جوپیشِ نظرمقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے۔میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجددالف ثانی پرایک تقریر کی تھی جووہاں کے اداشناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی ۔اب پھر اُدھرجانے کا قصد ہے اوراس سفر میں حضرت محی الدین پرکچھ کہنے کاارادہ ہے ۔نظربایں حال چنداموردریافت طلب ہیں ‘جناب کے اخلاقِ کریمانہ سے بعید نہ ہوگا اگرسوالات کاجواب شافی مرحمت فرمایاجائے۔
(۱) حضرت شیخ اکبر نے تعلیم حقیقت ِزمان کے متعلق کیاکہاہے اوریہ ائمہ متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے؟
(۲) یہ تعلیم شیخ اکبر کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اورکہاں کہاں ؟ اس سوال کامقصود یہ ہے کہ سوالِ اوّل کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کامطالعہ کرسکوں۔
(۳) حضرات صوفیہ میں اگرکسی بزرگ نے بھی حقیقت ِزمان پربحث کی ہوتو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں ۔مولوی سیدانورشاہ صاحب مرحوم ومغفور نے مجھے عراقی کاایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا‘ اس کانام تھا’’درائیۃ الزّمان‘‘۔جناب کوضرور اس کاعلم ہوگا۔میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس لیے مزید روشنی کی ضرورت ہے ۔میں نے سنا ہے کہ جناب نے درس وتدریس کا سلسلہ ترک فرمادیاہے اس لیے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا لیکن مقصود چونکہ خدمت ِاسلام ہے‘مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب معاف فرمائیں گے ۔باقی التماسِ دعاہے۔‘‘(۱۸)
آخری دور میں جوعلامہ کی فکری پختگی کازمانہ کہلاتاہے ‘انہوں نے پیامِ مشرق (۱۹۳۳ء)سے ارمغانِ حجاز (۱۹۳۸ء)تک اپنی تصانیف میں مسلسل وحدت الوجودی افکار کوسمویاہے ۔چندمثالیں دیکھیں :
تلاشِ او کنی جُز خود نہ بینی

تلاشِ خود کنی جُز او نیابی’’اُس کی تلاش کروگے تواپنے سوااورکچھ نہیں دیکھوگے‘اپنی تلاش کروگے تواس کے سوائے کسی اورکونہیں پاؤ گے۔‘‘(پیام مشرق:۱۹۲۴ء)
بضمیرت آرمیدم تو بجوشِ خود نمائی

بکنارہ بر فگندی دُرِ آبدارِ خود را’’ مَیں آپ کے ضمیر کے اندر آرام کر رہا تھا‘ پھر آپ نے خود نمائی کے جوش میں اپنے اس چمک دار موتی کو کنارے پر پھینک دیا۔‘‘(ایضاً)
در خاکدانِ ما‘ گُہر زندگی گم است

ایں گوہرے کہ گم شدہ مائیم یاکہ اوست؟’’ ہمارے خاک دان میں زندگی کاموتی گم ہے‘یہ گم شدہ موتی ہم ہیں یاوہ ؟‘‘(زبورِ عجم: ۱۹۲۷ء)
اگر زیری زخود گیری‘ زبر شو

خدا خواہی؟ بخود نزدیک تر شو’’اگرتوکمزورہے توتسخیر ِ انفس سے زبردست ہوجا‘اگرتواللہ تعالیٰ کاقرب چاہتاہے توپہلے اپنے قریب ہوجا۔‘‘(گلشن راز جدید:۱۹۲۷ء)
عبدہٗ از فہم تو بالاتر است

زانکہ او ہم آدم و ہم جوہر است
لا اِلٰہ تیغ و دمِ او عبدہٗ

فاش تر خواہی؟ بگو ھو عبدہٗ!’’ عبدہٗ کا مقام تیرے فہم سے بالا تر ہے کیونکہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی‘ لا الٰہ تیغ ہے اور اس کی دھار عبدہٗ ہے‘ فاش تر کہیں تو وہ خود ہی عبدہٗ ہے۔‘‘ (جاویدنامہ :۱۹۳۱ء)
از ضمیر کائنات آگاہ اوست

تیغِ لَا مَوجُودَ اِلَّا اللّٰہ اوست’’ ایسا مسلمان ہی ضمیر کائنات سے آگاہ ہوتا ہے‘ وہی لا موجود الا اللہ کی تیغ بنتا ہے۔‘‘(مسافر:۱۹۳۱ء)
یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بے زار ہو اپنی کرن سے!
اور : ؎
تُو شاخ سے کیوں پھوٹا‘ میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اِک جذبۂ پیدائی! اک لذتِ یکتائی
غواصِ محبّت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
(بال جبریل:۱۹۳۵ء)
اگر نہ ہو تجھے اُلجھن تو کھول کر کہہ دوں
وجودِ حضرتِ انساں نہ روح ہے نہ بدن!
(ضرب کلیم)
مردِ مومن از کمالاتِ وجود
او وجود و غیر اُو ہر شے نمود
’’ مردِ مومن کمالاتِ وجود (کے شاہکاروں میں) سے ہے‘وہی وجود (حقیقی) ہے باقی ہر شے صرف (وجود) نظر آتی ہے۔‘‘(پس چہ باید کرد: ۱۹۳۶ء)
تو اے ناداں دلِ آگاہ دریاب
بخود مثلِ نیاگاں راہ دریاب
چساں مومن کند پوشیدہ را فاش
ز لَا مَوجُودَ اِلَّا اللّٰہ دریاب
زمین و آسمان و چار سو نیست
دریں عالم بجز اللہ ہو نیست
’’ اے نادان! تُو دِلِ آگاہ حاصل کر‘ (اور) اپنے بزرگوں کی مانند اپنے آپ تک رسائی حاصل کر۔ مومن پوشیدہ رازوں کو کس طرح فاش کرتا ہے‘ یہ نکتہ لَا مَوجُودَ اِلَّا اللّٰہ سے سیکھ۔ نہ وہاں زمین و آسمان ہیں‘ نہ چہار اطراف‘ اس جہاں میں سوائے اللہ ہو کے اور کچھ نہیں۔‘‘(ارمغانِ حجاز :۱۹۳۷ء)
اپنے شہرۂ آفاق عالمانہ خطبات(تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ )جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے‘ میں لکھتے ہیں:
’’اجمالاً پوچھیے تومذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہوجاتی ہے :اس میں پہلادورعقیدہ (Faith)کاہے‘ دوسرافکر (Thought) کا اور تیسرا (Discovery)کا۔اس تیسرے دور میں انسان کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ حقیقت ِمطلقہ سے براہِ راست اتحاد واتصال پیدا کرے۔‘‘(۱۹)
ایک اورجگہ کہتے ہیں :
’’یہ صرف وجودِ حقیقی ہے جس سے اتصال میں خودی کواپنی یکتائی اورمابعدالطبیعی مرتبہ ومقام کاعرفان ہوتاہے۔‘‘(۲۰)
درج بالااشعار اورنثری ٹکڑوں سے یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ علامہ اقبال نے ایک خاص مرحلے کے علاوہ کبھی بھی وحدت الوجود کی مخالفت نہیں کی بلکہ آخرمیں تو وہ وحدت الوجودی بن کے رہ گئے تھے ۔ ڈاکٹرالف د نسیم‘علامہ کے شیخ اکبر کے افکار‘ خصوصاً وحدت الوجود سے گریز و کشش کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال اپنے بچپن‘ لڑکپن اور ابتدائے شباب میں تصوف اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔فلسفہ عجم ویورپ کے مستشرقین اورمغرب زدہ مصنّفین کی تحریروں سے اسلامی تصوف اورعجمی تصوف میں مشابہت اوریگانگت کے مغالطے کی بناپروہ اسلامی تصوف اوروحدت الوجود کے خلاف ہوگئے ۔جب ان کاواسطہ چندصحیح الخیال ہم عصر بزرگوں کے اعتراضات سے پڑاتواحساس ہوا کہ کہیں میری غلط فہمی نہ ہو۔اس لیے خط کتابت کے ذریعے حقیقت سے آگاہ ہونے کی خلوصِ دل سے سعی کی ۔ اس خط کتابت سے قاری کو دوچیزوں کاعلم ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ علامہ اقبال کوتصوف ووجود کی مخالفت کے زمانے میں اسلامی تصوف ‘ثقہ صوفیہ اوران کے خیالات وافکار خصوصاً ابن عربی اوران کے متبعین کے خیالات اورمذہب کے بعض رخوں سے مکمل اورصحیح واقفیت نہ تھی ۔تصوف اوروجود کے صحیح رخ سے تعارف اوراس کے سمجھنے کے لیے رفتہ رفتہ اقبال میں ایسا اضطراب پیداہوچکاتھاجس نے انہیں وہ اقبال بنادیاجو تصوف اوروجود کاشیدائی تھا۔‘‘(۲۱)
علامہ‘شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود اور’’تصوّرِ ابلیس ‘‘ سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کے خوشہ چین بھی تھے‘ جیسا کہ محمد شریف بقا’’اقبال اورتصوف ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’علامہ موصوف کانظریہ وحدت الوجود کافی حد تک مولانا روم کی طرح ابن عربی سے متاثر نظر آتا ہے۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے وحدت الشہود کے تصور کواپنالیا تھالیکن پھر بھی وہ پوری طرح وحدت الوجود کے تصور سے چھٹکارا نہ پاسکے ۔ضرب کلیم کی ایک نظم ’’تقدیر‘‘میں زیادہ تر محی الدین ابن عربی کے تصورِ ابلیس پرروشنی ڈالی ہے ۔یہ ابن عربی سے ماخوذ ہے۔ ‘‘(۲۲)
علامہ کورومی کے ہاں عشق اورابن ِعربی کے ہاں انسانی عظمت کاتصورپسندہے ۔انسانِ کامل کے تصور کے حوالے سے انہوں نے ابن ِعربی سے بھرپوراستفادہ کیاہے ۔ابن ِعربی پہلے مسلم مفکر ہیں جنہوں نے انسانِ کامل کی اصطلاح وضع کی ۔وہ انسانِ کامل کوکبھی انسانِ حقیقی بھی کہتے ہیں۔ اسے زمین پرحق تعالیٰ کانائب اورآسمان پرفرشتوں کامعلم قرار دیتے ہیں۔انہوں نے انسانِ کامل کے جو اوصاف اورمقامات تحریر کیے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں :

٭انسانِ کامل اکمل ِموجودات ہے ۔ ٭ واحد مخلوق ہے جومشاہدے کے ساتھ حق تعالیٰ کی عبادت بجالاتی ہے۔ ٭ صفاتِ الٰہیہ کاآئینہ ۔ ٭ مرتبہ حد ِامکان سے بالااورمقام خلق سے بلند ۔ ٭حادثِ ازلی اوردائم ابدی اورکلمہ فاصلہ جامعہ ہے ۔ ٭ حق تعالیٰ سے وہی نسبت ہے جوآنکھ کو پتلی سے ۔ ٭ عالم کے ساتھ اس کی نسبت انگشتری میں نگینے کی مانند ۔ ٭ رحمت کی جہت سے اعظمِ مخلوقات ۔ ٭انسانِ کامل عالم کی روح ہے اورعالم اس کاقالب ۔‘‘(فتوحات اورفصوص الحکم کے مختلف حوالے )

ابن ِعربی کے نزدیک اگرکوئی انسانِ کامل ہے توحضورﷺ کی ذات بابرکاتِ ہے جنہیں وہ ’’حقیقت ِ محمدیہ‘‘اور’’عقل ِاوّل ‘‘کہتے ہیں ۔عقل ِاوّل تمام حقائق ِاشیاء پرمحیط ہے اوراسے نورِمحمدی بھی کہتے ہیں جب کہ ذات ِمحمدی رسول اللہﷺ کی ذات کوکہتے ہیں جوعبد ہے ۔اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء وصفات کے بے شمار مظاہرپیدا کیے ہیں اوران میں سے سب بڑا مظہر خود انسان ہےجسے اس نے اپنی شکل پرپیدا کیا۔اس کامل مظہر کامطلق انسانِ کامل خود حضورﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے اوریہ اوّل و آخر بھی ہے۔ احدیت آپ کی حقیقت اوربشریت آپ کی ذات ہے۔سیدعلی عباس جلال پوری لکھتے ہیں:
’’ابن عربی ’’حقیقت محمدیہ ‘‘کوحقیقت الحقائق ‘‘روحِ محمد‘عقل اوّل‘العرش‘ روح الاعظم‘ قلم الاعلیٰ‘ انسانِ کامل‘اصول العالم‘آدم حقیقی‘البرزخ الہیولیٰ کہہ کربھی پکارتے ہیں اورکہتے ہیں کہ عالم کی تخلیق کااصول ِاوّل بھی وہ ہیں ۔ابن عربی حقیقت الحقائق یاحقیقت ِمحمدیہ کوعقلِ کل کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں جوکائنات کے تمام مظاہروشئون کی تخلیق کاباعث ہوئی ۔وہ اسے تکوینِ کائنات کی علت ِاوّل بھی سمجھتے ہیں اورخداکی تخلیقی قوت (حقّ المخلوق بہٖ) بھی قراردیتے ہیں۔ وہ اسے قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں اورانسان کامل بھی ۔(۲۳)
فصوص الحکم میں خودشیخ الاکبرلکھتے ہیں:
’’آدم سے ہماری مراد وہ نفسِ واحد ہے جس سے بنی نوعِ انسان پیدا ہوئی۔ اسے بعض لوگ وحدت وحقیقت ِمحمدیہ کہتے ہیں ۔[انا من نور اللّٰہ وکلھم من نوری]۔سر ذاتِ محمد فردیت ہے ۔چونکہ آپؐ اس نوعِ انسانی کے کامل ترین فرد ہیں لہٰذا حقیقت ِ نبوت آپﷺ ہی سے شروع ہوئی اورآپﷺ پرہی ختم ہوئی ۔آپﷺ نبی تھے جب آدم ہنوز آب وگل میں تھے ۔اپنی نشست اورخلقت ِعنصری کے لحاظ سے خاتم النبیین ہیں۔اوّل افراد کاتین کا عدد ہے‘ اس کے سوا جتنے افراد ہیں وہ اسی فردِ اوّل سے صادر ہیں‘ لہٰذا رسول اللہﷺ اپنے رب پرپہلی دلیل ہیں ۔ حضرت کواللہ تعالیٰ نے جو امع الکلم یعنی کلیات واصول عطاکیے۔‘‘(۲۴)
یونانی مفکر ہر اقلیطس کے نظریہLogosکوابن عربی حقیقت الحقائق اورحقیقت ِمحمدیہc کہتے ہیں‘ جیسا کہ اردودائرہ معارفِ اسلامیہ میں لکھا ہے:
’’ابن عربی وہ پہلے مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے الکلمۃ یاکلام الٰہی (Logos)اورانسانِ کامل کے بارے میں ایک مکمل نظریہ پیش کیا:’’فصوص الحکم ‘‘اور’’التدبیرات الالہٰیۃ ‘‘ کامرکزی موضوع یہی ہے ‘اگرچہ فتوحات اوران کی دیگر تصانیف میں بھی اس کے بعض پہلومعرض بحث میں آگئے ہیں۔ مابعدالطبیعی نقطۂ نظرسے کلامِ الٰہی کائنات میں ایک معقول اورزندہ اصل ہے یعنی وہ کسی حد تک رواقیوں کی عقلِ کُل کا مماثل ہے جوتمام اشیاء میں جلوہ گرہے ۔ ابن عربی اسے حقیقت الحقائق کے نام سے یادکرتے ہیں۔ متصوفانہ اورروحانی نقطۂ نظرسے وہ اسے حقیقت محمدیہ کامترادف قرار دیتے ہیں۔ اس کی اعلیٰ ترین اورمکمل ترین تجلی ان تمام انسانوں میں ملتی ہے جنہیں ہم انسانِ کامل کے زمرے میں شمار کرتے ہیں جس میں تمام انبیاء ‘اولیاء اور خودآں حضرت ﷺ شامل ہیں۔انسانِ کامل وہ آئینہ ہے جس میں تمام اسرارِ الٰہیہ منعکس ہوتے ہیں اوروہ واحد تخلیق ہے جس میں تمام صفاتِ الٰہیہ ظاہر ہوتی ہیں ۔انسانِ کامل خلاصہ کائنات (عالم ِ اصغر)ہے‘ اس زمین پرخداکانائب اوروہ ہستی ہے جسے خداکی صورت میں بنایاگیاہے ۔‘‘ (۲۵)
علامہ اقبال‘ابن عربی کے’’ انسانِ کامل ‘‘کے کس پہلوسے متأثر تھے‘ اس ضمن میں واجد رضوی رقم طراز ہیں:
’’شیخ محی الدین ابن العربی کاانسانِ کامل بجائے خود ایک عالم ہے کیونکہ وہ خدا کی تمام صفات اورکمالات کامظہر ہے ۔وہ حقیقت کی ایک مختصر تصویرہے ۔ خدا سے مکمل اتحاد ویگانگت کے باعث اُسے یہ مقام نصیب ہوتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانِ کامل کا کمال کیاہے ؟وہ اپنے علم میں کامل ہوتا ہے یااپنے وجودمیں؟ یا ان دونوں میں کمال حاصل کرتا ہے؟ یاخداکاکامل مظہر ہونے کی وجہ سے کامل ہے؟ یامحض اپنی عارفانہ کیفیت میں وہ خداسے یگانگت محسوس کرتا ہے؟ابن عربی ان صورتوں کومخلوط کردیتے ہیں۔‘‘(۲۶)
اپنی کامل حیثیت میں انسان خدا کاایک عکس ہے ۔وہ ایک آئینہ ہے جوخداکی تمام صفات کومنعکس کرتاہے۔روحانی تربیت اورصوفیانہ مشقت سے یہ کمال حاصل ہوتا ہے ۔اس ترقی کے تین مدارج ہیں۔ پہلے درجہ میں انسان خدا کے اسماء پرغورکرتا ہے۔دوسرے میں اس کی صفات کوجذب کرکے معجزانہ طاقت حاصل کرتا ہے۔تیسرے درجہ میں وہ اسماء اور صفات سے متجاوز ہوکر جوہر کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے اورانسانِ کامل بن جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس کی آنکھ خدا کی آنکھ‘اس کی زبان خدا کی زبان‘اس کاہاتھ خدا کاہاتھ اور اس کی حیات خداکی حیات بن جاتی ہے ۔اسی تصوّر کوعلامہ اقبال نے حسین پیرایہ میں اس طرح پیش کیاہے :
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں‘ کارکشا‘ کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
عقل کی منزل ہے وہ‘ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ(۲۷)
ابن عربی کا’’انسانِ کامل‘حقیقت ِمحمدیہ یاحقیقت الحقائق ‘‘کایہی تصور‘علامہ نے ’’جاویدنامہ‘‘میں ’عبدہ‘‘ کے نام سے پیش کیا:
پیشِ او گیتی جبیں فرسودہ است
خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است
عبدہٗ از فہمِ تو بالاتر است
زانکہ او ہم آدم و ہم جوہر است
جوہرِ او نَے عرب نَے اعجم است
آدم است و ہم ز آدم اقدم است
عبدہٗ صورت گرِ تقدیر ہا
اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا
عبدہٗ ہم جاں فزا ہم جا ستاں
عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں
عبد دیگر عبدہ‘ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظَر
عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ ست
ما ہمہ رنگیم و او بے رنگ و بوست
کس ز سرّ عبدہ‘ آگاہ نیست
عبدہٗ جز سِرّ اِلّا اللّٰہ نیست
لا الٰہ تیغ و دمِ اُو عبدہٗ
فاش تر خواہی بگو ہو عبدہٗ
مدّعا پیدا نگردد زیں دو بیت
تا نہ بینی از مقامِ مَا رَمَیْت
’’حضور ﷺ کی شان یہ ہے کہ زمانہ آپؐ کے سامنے پیشانی رگڑتا ہے‘لیکن وہ اپنے آپ کوعبدہ کہتے ہیں۔ عبدہ کے معنی تیری سمجھ سے بالاترہیں ۔ وجودِ مطلق کا تعیّن ِ اوّل ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ مخلوق ہیں۔آپ ﷺ آدم بھی ہیں‘ یعنی آپ ﷺ میں ناسوتی شان کے ساتھ ساتھ لاہوتی شان بھی پائی جاتی ہے ۔آپ ﷺ کاجوہر یعنی آپﷺ کی حقیقت تمام مادی یاجسمانی علائق سے بالاتر ہے۔اس کی جلوہ گری نے فرشتوں کو حیرت زدہ کررکھا تھا۔ اُن کاسینہ اس تجسّس کی آگ سے پُرسوز تھاکہ یہ کس نور کاجلوہ ہے جوآدم کی پیدائش سے بہت پہلے اپنی چمک سے آنکھوں کوخیرہ کررہاہے ۔اس وقت آدم کی آفرینش پانی اورمٹی کے مراحل میں تھی۔عبدہ تقدیر کاصورت گرہے۔اس کے اندرویرانے بھی ہیں اورتعمیرات بھی ہیں ۔عبدہٗ جاں فزا بھی ہے اورجاں نشاں بھی ۔شیشہ بھی ہے اورسنگ گراں بھی۔عبد ہے اورعبدہٗ اور۔عبد اورعبدہٗ میں فرق یہ ہے کہ عبد‘خدا کی توجہ کامنتظر رہتا ہے اورعبدہٗ کی شان یہ ہے کہ خود خدایہ دیکھتا رہتا ہے کہ میرا بندہ (عبدہٗ)کیاچاہتا ہے!عبدہ ٗدراصل دہر(زمان )ہے اوردہر‘عبدہ ہے۔ عبدہ زمان ومکان‘دونوں کی قید سے بالاتر ہے ۔اگر صاف لفظوں میں سمجھنا چاہوتو سنو! ’’ھُو عبدہ‘‘ یعنی جسے عبدہٗ کہتے ہیںوہ دراصل ھُوہے‘ گویا ھُوہی عبدہٗ ہے ۔جب تک توعبدہ کومقامِ ’’مَا رَمَیْتَ‘‘ [’’اورجب آپ( ﷺ) نے کنکریاں پھینکی تھیں تو آ پ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ خود ہم نے پھینکی تھیں‘‘ (۸:۱۷) کی طرف اشارہ ہے]سے نہ دیکھے توحقیقت ِحال تجھ پر منکشف نہیں ہوسکتی ۔اگرتوعبدہ کی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو وجود میں غرق ہوجایعنی ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کر۔‘‘(۲۷)
’’بہشت اوردوزخ‘مقامات نہیں بلکہ کیفیات کانام ہے۔‘‘یہ رمزی تاویل ابن عربی کی ہے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ اقبال اس تاویل سے کلی طور سے متفق ہیں ۔پروفیسر محمدفرمان ’’اقبال اورتصوف ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’اقبال اورابن عربی دونوں اس بات پرمتفق ہیںکہ بہشت ودوزخ مقامات نہیں بلکہ دوزخ اوربہشت روح اوردماغ کی کیفیات ہیں ۔قرآن میں ان کابیان ایک حالت ِشعوری کاہے جسے انسان اپنے اندراپنے اعمال کے مطابق محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اپنے بیان کے انداز میں مختلف ہیں لیکن دونوں کااس امر پراتفاق ہے کہ وہ statesہیں‘ localitiesنہیں ہیں۔جنت مقامِ تفریح نہیں ہے ‘وہاں توروح دائمی طورپرعمل کرتے ہوئے مزیدمراحل طے کرتی ہے۔‘‘(۲۶)
ابن عربی کانظریہ ہے کہ کائنات خداتعالیٰ کی حرکت ِعشق کی بدولت معرضِ وجود میں آئی ہے ۔ خالق کائنات نے اپنے حُسن مطلق کے اظہار کے لیے اس کائنات کوتخلیق کیا۔اظہارِ حُسن کی خواہش جذبۂ حب پرمبنی تھی اس لیے دنیا کی آفرینش دراصل عشق ومحبت کالازمی نتیجہ ہے ۔علامہ اقبال بھی ابن عربی کی ہم نوائی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
بہ ضمیرت آرمیدم‘ تُو بجوشِ خود نمائی
بہ کنارہ برفگندی‘ دُرِ آبدارِ خود را
’’ اے خدا! میں تیرے ضمیر میں آرام کررہاتھا لیکن تو نے اپنے حُسن کے اظہارکے جوش میں اپنے قیمتی موتی (انسان )کوساحل پرپھینک دیا۔‘‘(۲۹)
افکارکے انہی اتحاد اوراقبال کی ابن عربی سے استفادے کی بنیاد پر’’تلمیحاتِ اقبال‘‘میں سید عابدعلی عابد نے پتے کی بات کہی :
’’علامہ نے ایران کے مابعدالطبیعیات اوراپنے خطبات میں ابن عربی سے استفادہ بھی کیا اوران کی تردیدبھی کی۔ ‘‘(۳۰)
شیخ الاکبر اوران کے فلسفہ وحدت الوجود کے سلسلے میں علامہ کے خیالات میں بتدریج تبدیلی آگئی‘ جیساکہ ڈاکٹر وزیرآغالکھتے ہیں :
’’اقبال نے آغازِ کار میںیہ کہاتھا:تصوف نوافلاطونیت سے متاثرہے اورابن عربی اورشنکرمتحدالخیال ہیں۔ اس کامطلب یہ تھا کہ وہ وحدت الوجود کے سلسلے میں ان تینوں مکاتیب کو متحدالخیال سمجھتے تھے مگر بعدازاں جب انہیں محسوس ہوا کہ شنکرکافلسفہ نفی خود پرمنتج ہوتا جب کہ شیخ محی الدین ابن العربی عالم کوفریب نظر سمجھتا بلکہ اس مظہر حق قرار دیتا ہے(میکش اکبرآبادی‘نقداقبال‘ص۷۸)تو وحدت الوجود کے خلاف ان کے رد عمل میں تبدیلی آگئی۔‘‘ (۳۱)
اس پوری بحث کو اگرسمیٹاجائے تووہ عبداللہ فاروقی کے الفاظ میں یوں ہوگی :
’’اقبال نے ۱۹۱۰ء کے بعد نظریہ وحدت الوجود کی بھرپور مخالفت شروع کردی تھی لیکن ۱۹۲۲ء کے بعد وہ پھر اسی نظریے کے حامی نظرآتے تھے ‘البتہ ان کااظہارفلسفے کی حدود کے اندر رہا۔مذہبی اعتبار سے وہ توحید ہی کے علم بردار رہے ۔فلسفے کی حدود کے اندر ان کے اورشیخ اکبرکے وجودی تصورات میں خاصی ہم آہنگی اورمماثلت نظرآتی ہے ۔مثلاً شیخ اکبر کے نزدیک وجود فردِ واحد ہی میں منحصرہے یعنی اس زمین سے آسمان تک بجز ذاتِ حق‘اور کوئی شے موجود نہیں ہے ۔یعنی کائنات معدوم ہےلیکن اللہ تعالیٰ کی تجلی صفات پڑنے سے موجود ہوگئی ہے ۔ذات باری کی جملہ صفات‘عین ذات ہیں۔ اگر ذات وصفات میں عینیت نہ ہوتی تو دوئی لازم آجاتی جومحال ہے ۔واضح ہوکہ ابن عربی کائنات کو تجلیٔ صفات یاظہورِ ذات کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کائنات اپنے ظہورمیں عین ذاتِ باری ہے ۔علامہ بھی انہی نظریات کے علم بردار اورترجمان ہیں‘کہتے ہیں :
مَیں کہاں ہوں تو کہاں ہے ؟یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
یہ جہاں میرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟
’’۱۹۱۶ء میں جیسا کہ گزرچکاہے علامہ نے واضح طورربتایاتھاکہ مسئلہ وحدت الوجود ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے جس کامذہب سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن حیرت یہ ہے کہ ۱۹۳۰ء میں وہ اپنے خطبۂ صدارت الٰہ آباد میں اسی نظریہ وحدت الوجود کومذہبی نقطۂ نظر سے بھی حق قرار دیتے ہیں ۔چناں چہ فرماتے ہیں:مذہب ِ اسلام کی روسے خدا‘کائنات‘کلیسا‘ریاست‘مادہ اورروح‘ایک ہی کل کے مختلف اجزاء ہیں ۔‘‘(۳۲)
یہ بات قطعیت سے نہیں کہی جاسکتی کہ علامہ کواپنی زندگی کے کسی دور میں شیخ اکبر کے عقائد ونظریات کابغور مطالعہ کرنے کاموقع ملاہو ۔ان کے خطوط اوردیگرشواہد سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شیخ اکبر کے افکار و خیالات کی تفہیم کی بہت جستجورہی مگر انہیں ان سے استفادہ کابہت کم موقع ملا۔ایسی صورت میں یہ کہناکہ وہ شیخ کے بارے میں کسی خاص نتیجہ پر پہنچ چکے تھے‘بہت دشوارہے۔
حوالہ جات:
(۱) بشیر احمد ڈار (مرتب)’’ مکتوبات و نگارشاتِ اقبال‘‘ (انگریزی)‘ اقبال اکادمی‘ کراچی‘ ۱۹۶۹ء‘ ص ۷۹۰
(۲) پروفیسر میاں محمد شریف‘ مقالاتِ شریف‘ بزمِ اقبال‘ لاہور‘ ۱۹۹۴ء‘ ۱۳‘ ۱۴
(۳) سیّد علی عباس جلال پوری‘ اقبال کا علم کلام‘ کتاب نما‘ لاہور‘ ۱۹۷۲ء‘ ص ۸۳‘ ۸۴
(۴) علامہ محمد اقبال‘ ’’ فلسفۂ عجم‘‘ مترجم: میر حسن الدین‘ نفیس اکیڈمی کراچی‘ ۱۹۷۴ء‘ ص ۱۰۸ تا ۱۱۰
(۵) مقالاتِ شریف‘ محو لہ بالا‘ ص ۱۸
(۶) عطاء اللہ شیخ (مرتب) ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اوّل‘ شیخ محمد اشرف‘ لاہور‘۱۹۴۵ء‘ ص ۴۰
(۷) رفیع الدین ہاشمی‘ (مرتب) ’’ خطوط اقبال‘‘ خیابانِ ادب‘ لاہور‘ ۱۹۷۶ء‘ ص ۱۱۷
(۸) بشیر احمد ڈار‘ ’’ انوارِ اقبال‘‘ اقبال اکادمی لاہور‘ طبع دوم‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۱۷۷
(۹) سیّد عبدالواحد معینی‘‘محمد عبداللہ قریشی (مرتبین) ’’ مقالاتِ اقبال‘‘ آئینہ ادب لاہور‘ لاہور‘ ۱۹۸۸ء‘ ص ۲۰۱۔ ۲۰۲
(۱۰) ایضاً‘ ص ۱۹۵‘ ۱۹۶
(۱۱) عطاء اللہ شیخ (مرتب) ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم‘ لاہور‘۱۹۵۱ء‘ ص ۳۴
(۱۲) ابن عربی اور اقبال‘ مقالہ از محمد سہیل عمر‘ محو لا بالا‘ ص ۳۶
(۱۳) اقبال نامہ‘ جلد ۱‘ محو لہ بالا‘ ص ۴۷
(۱۴) ابن عربی اور اقبال‘ مقالہ از محمد سہیل عمر‘ محولہ بالا‘ ص ۳۸
(۱۵) فلسفہ عجم‘ محو لہ بالا‘ ص ۱۰
(۱۶) علامہ اقبال‘ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘ (ترجمہ: سیّد نذیر نیازی)‘ بزمِ اقبال لاہور‘ ۱۹۹۴ء‘ ص ۲۸۱
(۱۷) طاہر تونسوی‘ اقبال اور سید سلیمان ندوی‘ مکتبہ عالیہ لاہور‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۸۹‘ ۹۰
(۱۸) اقبال نامہ‘ جلد ۱‘ ص ۴۴۳
(۱۹) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘ محولہ بالا‘ ص ۲۷۸۔ ۲۷۹ (۲۰) ایضاً‘ ص ۲۸۳
(۲۱) ڈاکٹر الف د نسیم‘ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال‘ بزمِ اقبال لاہور‘ ۱۹۹۲ء‘ ص ۱۵۷‘ ۱۵۸
(۲۲) محمد شریف بقا‘ اقبال اور تصوف‘ جنگ پبلشرز لاہور‘ ۱۹۹۱ء‘ ص ۱۴۲
(۲۳) سیّد علی عباس جلالپوری‘ اقبال کا علم کلام‘ ص ۱۰۵‘ ۱۰۶
(۲۴) فصوص الحکم‘ مترجم: محمد برکت اللہ لکھنوی فرنگی محلی‘ ص ۲۷۷‘ ۲۷۸
(۲۵) اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد اوّل‘ محولہ بالا‘ ص ۶۱۲
(۲۶) سیّد واجد رضوی‘ دانائے راز‘ مقبول اکیڈمی لاہور‘ طبع دوم ۱۹۶۹ء‘ ص ۱۴۴‘ ۱۴۵
(۲۷) یوسف سلیم چشتی‘ شرح جاوید نامہ‘ عشرت پبلشنگ ہائوس لاہور‘ سن ندارد‘ ص ۹۱۲تا ۹۲۳
(۲۸) پروفیسر محمد فرمان‘ اقبال اور تصوف‘ بزمِ اقبال لاہور‘ طبع سوم ۱۹۸۴ء‘ ص ۹۶
(۲۹) ایضاً‘ ص۱۴۲
(۳۰) ڈاکٹر سیّد عابد علی عابد‘ تلمیحاتِ اقبال‘بزم اقبال لاہور‘ طبع سوم‘ ۱۹۸۵ء‘ ۱۵۱
(۳۱) ڈاکٹر وزیر آغا‘ تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں‘ اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘ ۱۹۸۷ء‘ ص ۱۶۵‘ ۱۶۶
(۳۲) اختر النساء‘ (مرتبہ) ’’ مقالاتِ یوسف سلیم چشتی‘‘ بزمِ اقبال لاہور‘ ۱۹۹۹ء‘ ص ۱۴۴‘ ۱۴۵
(مضمون بحوالہ کتاب : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی‘ مصنف : محمد شفیع بلوچ‘ مکتبہ جمال لاہور‘اشاعت:۲۰۰۶ء)
نوٹ:یہ تحریر مصنف کے علمی ذوق کی عکاس ہے۔ ادارئہ حکمت ِقرآن کا اس کے تمام نکات سے اتفاق ضروری نہیں۔ اسے ’’مرآۃ العارفین انٹرنیشنل (شمارہ اپریل۲۰۱۵ء)کے شکریہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔