(تعلیم و تعلم) مباحث ِعقیدہ (۱۸) - مؤمن محمود

10 /

مباحث ِعقیدہ(۱۸)مؤمن محمودخالق و مخلوق میں رابطے کا مسئلہ
آج ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت ِکلام پرگفتگو کاآغاز کریں گے ۔جتنی بھی صفات اب تک ہم دیکھ چکے ہیں یہ تمام صفات المعانی ہیں یعنی اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ایک وجودی صفت کی نسبت کرتے ہیں ۔ یہ عقیدے کا وہ مبحث ہے جس میں ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے واجب صفات کامطالعہ کرتے ہیں ‘ یعنی وہ صفات جن کااعتقاد رکھنااللہ سبحانہ وتعالیٰ کےبارے میں ہمارےلیے واجب ہے۔صفت ِکلام ا س لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ابھی تک ہم نے اللہ تعالیٰ کی جوصفات پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق ہے‘ واجب الوجودہے‘ اُسی نے اس کائنات کو وجود دیا‘وہ قدرت رکھتاہے‘وہ ارادہ رکھتاہے‘اُس کاعلم شامل ہے‘علم محیط ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جواپنے جلال اورکمال میں عروج پرہے اورتمام صفاتِ کمال اپنے اندر رکھتا ہے ‘ کیاوہ ہم سے بھی کوئی رابطہ کرتے ہیں؟ یعنی کیاایسا بھی ہوتاہے کہ وہ انسان جومٹی سے نکلاہے اورپانی کاایک بلبلاہے ‘ اس سے وہ ہستی رابطہ کرےاور اس کو کوئی پیغام پہنچائے کہ جواس کائنات کا خالق اورمالک ہے ؟ کچھ لوگوںنے جب اس زاویہ سے دیکھاکہ وہ کہاں اورانسان کہاں! جیسے کہتے ہیں : وما لرب الارباب والانسان‘ کہاں انسان ہے اورکہاں ربّ الارباب ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ تعلق نہیں ہوسکتا‘یہ تکلیف کاتعلق واقع نہیں ہوسکتااوریہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان کے خلاف ہے ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ یقیناًاس سطح پرنہیں اُتر سکتے کہ وہ انسان سے انسانی کلام میں گفتگو فرمائیں اوراسے کچھ پیغام دیں۔ چنانچہ ماضی اور حال میں بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ خدا کو توہم مان لیں گے اور خدا یقیناً اس کائنات کاخالق اورمالک ہوگا اور کچھ عقل ہمیں وہاں تک پہنچادیتی ہے لیکن ہم اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کوئی وحی بھی اُترتی ہےاوراللہ تعالیٰ انسانوں کو بتاتاہے ۔
دین فطرت کا نظریہ (Deism )
مجھے اس فلسفے کے بارے میں پڑھنے کا موقع ملا۔جب روشن خیالی کازمانہ تھا‘اس وقت یہ فلسفہ شروع ہورہا تھااور ان کے اندر بہت سے ٹرینڈز ہیں ۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کہاکہ کوئی خالق‘مالک‘رازق ہے لیکن سب کے درمیان مشترک وصف وحی (revelation)کاانکار ہے کہ ہم وحی کو نہیںمانتے بلکہ انسان کوعقل دی گئی ہے جواس کے پاس reasoningکی ایک قوت ہے ‘اس کے ذریعے وہ حقیقت ِ اعلیٰ تک پہنچ سکتاہے ۔لہٰذا نیچرل religion کاایک تصوّر پید اہوا۔ نیچرل تھیالوجی ہے‘نیچرل مورالٹی ہے ۔پھراُس زمانے میں خدا کے لیے جوالفاظ وضع کیے گئے ان پراگر غور کریں تووہ اسی تصور کوظاہر کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں جواصطلاحات قائم کی گئیں ان میں Distant Godہےیعنی وہ بہت فاصلے پرہے‘وہ ہم سے تعلق نہیں رکھے گا۔ پھرWatch Makerکی اصطلاح بھی اسی زمانے کے ایک فلسفی نے دی ۔ اسی طریقے سے یونانی فلسفہ کی اصطلاحات Prime Mover and First Moverبھی اس زمانے میں بولی گئیں ۔ان سب میں یہ تصور پایاجاتاہے کہ وہ واچ میکر توہے‘ اس نے واچ بنادی اور بنانے کے بعد قوانین کی چابی بنادی گئی جوچلتی رہتی ہے تواب خدا براہِ راست اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتاکہ آپ کہیں کہ ہروقت وہ تدبیرفرمارہاہے ۔ اس کویہ فرصت نہیں ہے ۔ وہ بہت بلند شخصیت ہے اور کائنات سے براہِ راست تعلق رکھنا اس کی شان کے خلاف ہے ۔بہرحال یہ تصورات پیدا ہوئے جن میں مشترک بات یہی تھی کہ وحی کو ہم نہیں مانتے‘یہ رسالت کاسلسلہ ٹھیک نہیں ہے بلکہ اصلاً ایک نیچرل ریلیجن تھاجوبالکل ابتدا میں تھا۔ انہوں نے تاریخ کابھی ایک تصور پیش کیا۔ بعد میں جب یہ ساری باتیں شروع ہوگئیں کہ خدا رسول بھیجتاہے اوررسول آکریہ بتاتے ہیں‘پھراختلافات شروع ہوگئے۔ یہ سب جھگڑا ہے ‘اس کوچھوڑ دواوراپنی عقل کے ذریعے کچھ اخلاقیات تک پہنچ جائو۔ ان میں کچھ لوگوںنے کہا کہ ہوسکتاہے کہ قیامت بھی آجائے ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اجربھی دے دیں گے اوروہ اجر اس بنیاد پردیں گے کہ جوآپ نے اپنی عقل کو استعمال کرکے کچھ اخلاقیات حاصل کر لیں‘ اس پراگر آپ نے عمل کیاتوآپ کو اجرمل جائے گا۔اگر آپ نے اس یونیورسل مورالٹی پرعمل نہ کیاتوآپ کو اجرنہیں ملے گااور جہنم میں بھی جاسکتے ہو‘اگرجہنم ہے تو‘کیونکہ ان کے ہاں جہنم کوئی شے نہیں ہے۔بس کچھ سزاہے جومل سکتی ہے ۔ جہنم کا تصور تونبی سے ملے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں بھی وحی کے انکار کاتصوّر پیدا ہورہاہے۔
ایمانیاتِ ثلاثہ میں سے کسی ایک کا انکار :خدا کا انکار
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الانعام کی تین آیات میں ان مختلف نظریات کو بیان کر دیا جو انسان وحی کے حوالے سے رکھتا ہے۔ ار شاد باری تعالیٰ ہے ـ:
{وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْ ئٍ ط } (الانعام:۹۱)
’’انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظمت کونہیں پہچانا‘اس کی قدر نہیں کی جیساکہ کرنی چاہیے تھی‘ جب انہوں نے یہ کہہ دیاکہ اللہ نے انسان پرکچھ نہیں اتارا۔‘‘
یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ وحی نہیں بھیجتے۔جن لوگوں کے منہ سے یہ قول برآمد ہواانہوں نے خدا کی عظمت کاحق ادا نہیں کیا۔ یہ آیت قرآن مجید میں تین جگہوں پرآئی ہے :{وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ} اورتینوں جگہوں پرایک ایک ایمانیات کے ساتھ‘جنہیں ہم ایمانیاتِ ثلاثہ کہتے ہیں ‘یعنی توحید‘رسالت اورآخرت۔ یہاں {وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ} رسالت کے باب میں آگیا۔ فرمایا:{اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْ ئٍ ط}۔ گویارسالت کاانکار اللہ تعالیٰ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہے ۔ اسی طرح سورۃ الحج میں اس آیت کے ساتھ توحید کابیان ہورہاہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ ط اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ط وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ(۷۳) مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ط اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(۷۴)}
’’اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے‘ پس اسے ذرا توجّہ سے سنو! یقیناً (تمہارے وہ معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی تخلیق نہیں کر سکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے۔ کس قدر کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی! انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اُس کی قدر کا حق تھا۔یقیناً اللہ بہت طاقت والاسب پر غالب ہے ۔‘‘
یعنی جس نے اپنامطلوب ایک ایسی ہستی کوبنالیاجوخود کمزور ہے ‘بتوں کی مانند ہے توکتناہی ضعیف ہوگاطالب بھی اور مطلوب بھی‘ عابد بھی اورمعبود بھی ۔انہوںنے اللہ کے سواکسی اورکو آئیڈیل کیوں بنالیا؟ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی ۔ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ یہاںوہی آیت توحید کے بیان میں آرہی ہے۔ تیسری جگہ سورۃ الزمر ہے جہاں آخرت کے بیان میں یہ آیت آئی ۔فرمایا:
{وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ق وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ  بِیَمِیْنِہٖ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۶۷) وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہُ ط }
’’اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا ‘جب کہ زمین پوری کی پوری اُس کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اُس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند و بالاہے اُس تمام شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اور صور میں پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہوجائیں گے جو کوئی بھی ہیں آسمانوں میں اور زمین میں مگر جسے اللہ چاہے۔‘‘
بہرحال یہ آیت جن تین جگہوں پرآرہی ہے وہاں تینوں ایمانیات کابیان ہے ۔اس میں اشارہ یہ ہے کہ جس نے ایمانیاتِ ثلاثہ میں سے کسی ایک کاانکار کیااس نے اللہ کو نہیں پہچانا۔اس میں ایک اورنکتہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے رسالت یا وحی کاانکار کیا‘یاخدااوربندے کے درمیان اس تعلق کاانکار کیاوہ اپنے تئیں خدا کی عظمت کابیان کررہے تھے ۔یعنی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ خدا اپنی عظمت میں اتنا بلند ہے کہ اس کے شایان شان نہیں کہ وہ انسان سے تعلق قائم کرے یاانسان کوکچھ بتائے یاانسان کومکلف کرے ۔لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ نہیں‘ یہ خدا کی شان کابیان نہیں بلکہ اس کی شان میں نقص کابیان ہے ۔اگر یہ خدا کی قدر کرتے جیسے کہ قدر کرنے کاحق ہے تویہ نہ کہتے۔
مباحث ِالٰہیات اور قیاس الغائب علی الشاھد
اس میں اہم بات جوہمارے علماء کلام نے بیان کی کہ جہاں بھی اس قسم کے تصورات پیدا ہوتے ہیں وہاں اصلاً قیاس الغائب علی الشاہد ہوتاہے‘یعنی غائب کو شاہد پرقیاس کرنا۔آپ نے کچھ دیکھا‘اس پراس کو قیاس کیاجس کوآپ نے نہیں دیکھا۔ یہ قیاس بہت سے معاملات میں ٹھیک ہوتاہے لیکن علم الکلام اورعلم العقیدہ میں کہتے ہیں کہ الٰہیات میں یہ قیاس نہیں چلتا۔ یعنی آپ نے انسانوں کامشاہد ہ کیا‘انسانوں کی کسی اعتبار سے کچھ عظمت دیکھی تووہی عظمت خدا کے لیے ثابت کردی‘ ایسا نہیں ہوگا۔مثال کے طورپردنیا میں ہربادشاہ اپنی رعایا میں سے ہرفرد سے تعلق قائم نہیں کرتاکہ اس کوجاکرہرایک چیز بتائے بلکہ وہ خود بیٹھا ہوتا ہے اور اپنے کچھ وزراء اورہرکاروں کوبھیج دیتاہے تووہ جاکرپیغام دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خدا توان سے بھی زیادہ بڑا ہے توخداکس طریقے پر تدبیر امر یوں فرمائے گاجیساکہ ایک عام شخص کرتاہے۔ لہٰذا خدا نے بھی کچھ قوانین بنادیے‘ کچھ ذمہ داریاں سونپ دیں اوربس۔ خدا اس طریقے پر کائنات کوچلارہاہے اوراسے یہ غرض نہیں ہے کہ اپنے ہرہربندے کی تدبیر کرے‘ ہر ہر بندے سے کلام فرمائے ۔ یہ جوا نسانی کمال کاتصورپیدا ہوایہ انسان کے فقیرانہ وجود سے پید ا ہورہا ہے کیونکہ بادشاہ جومرضی کرلے وہ واقعی اپنی رعایا میں سے ہرہرفرد کی تدبیرامر نہیں کرسکتا۔یعنی اس کے اندر قدرت بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کی شان یہی تھی کہ وہ نیچے کچھ ہرکارے بنادے ۔اس طریقے پربہت سے کمالات ایسے ہوتے ہیں کہ جوانسان کے فقر سے‘احتیاج سے برآمد ہورہے ہوتے ہیں توانہیں ہم اللہ تعالیٰ کے حق میں ثابت نہیں کریںگے ۔ اللہ تعالیٰ توخالق ہے‘رب ہے‘ربوبیت فرمارہاہے ۔ اس کے بغیرتوکائنات ایک لمحہ ٹھہر نہیں سکتی۔ یہ سارے تصوّرات جوپیدا ہوتے ہیں یہ اصلاًانسانی نقص سے پیدا ہونے والے کمال کوقیاس الغائب علی الشاہدکے تحت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کواس سے متصف کردینے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ بہرحال یہاں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے کسی بشر پرکوئی شے نہیں اتاری۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک جواب دیتے ہیں ‘ جو بہت منطقی ہے۔ فرمایا:
{قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْـکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ.....} (الانعام:۹۱)
’’آپؐ پوچھئے کہ پھر کس نے اُتاری تھی وہ کتاب جو موسیٰ لے کر آئے تھے جو خود نور (روشن) تھی ا ور لوگوں کے لیے ہدایت بھی تھی؟ تم نے اسے ورق ورق کر دیا .....‘‘
جواب دوطرح کے ہوسکتے تھے ۔ ایک جواب تھاکہ آپ جوازِ عقلی بیان کریں۔ لیکن ان آیات پرغور کریں تویہ اعلیٰ درجہ کاجواب ہے ۔ ہوسکتاہے کسی بیوقوف شخص کویہ جواب نظر نہ آئے ۔انہوں نے کہا کہ کسی بندے پرکچھ نہیں اتارا۔وہ کہتاہےکہ موسیٰ پر بھی تو اتارا ہے۔ منطقی اعتبار سے دیکھاجائے گاتوآپ کہیں گے کہ جو موسیٰ پراتاراہے یہ خدا کاکلام ہے کہ نہیں؟اسی پرتوہماری گفتگو ہے کہ اللہ نے کچھ اتارا ہے کہ نہیں!آپ مثال دے رہے ہیں کہ دیکھوموسیٰ پرکیااتارا ہے ۔علماء نے کہاکہ ایک ہے کہ کوئی شخص آپ کے پاس آکرکسی شے کاانکار کرے کہ یہ شے نہیں ہوسکتی تو آپ اس کو جواز عقلی کابیان کریں کہ دیکھوعقلاًاس کوماننے میں کوئی استحالہ لازم نہیں آتا‘لہٰذا یہ ہو سکتا ہے۔ دوسری یہ ہے کہ اس کے واقع ہونے کا ثبوت دے دیں۔یعنی ہواہے اوریہ سامنے ہے ۔تم جواز عقلی کی کہاں بات کررہے ہو‘یہ توشے ہی سامنے پڑی ہے ۔ تم آکرمجھ سے پوچھتے ہوکہ فلاں پھل کاوجود ہے؟تواس کا میں جواب دوںکہ ہاں اس کا وجود ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘وہ ہوسکتاہے ۔ ایک یہ ہے کہ میں اپنی دراز سے نکال کردکھادوں کہ یہ پھل ہے ۔ لہٰذا جواز عقلی توبالاولیٰ ثابت ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمایہ رہے ہیں کہ یہ کتاب اورموسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی کتاب اس بات پرشاہد ہیں کہ یہ کلامِ بشر نہیں ہے‘یہ انسان کاکلام نہیں ہے ۔ لہٰذا اگرقرآن مجید انسانی کلام ہوتاتوہم تمہیں چیلنج کرچکے ہیں کہ تم اس کاجواب دو‘اس کے مانند کوئی کلام لے آئولیکن وہ توتم لے کر نہیں آسکے۔ لہٰذا خود قرآن کاثبوت‘وقوع اورنزول اس بات پردلیل ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ بشرپرکچھ اتارتاہے ۔ لہٰذا یہ جواب ہے ۔
مشاہدہ سے جواز بالاولیٰ ثابت ہونا
اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا:
{وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ مُبٰـرَکٌ}
’’اور (اسی طرح کی) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے‘ بڑی با برکت ہے۔‘‘
تویہ بالکل صحیح جواب ہے کہ دیکھو ہم جوازِ عقلی کوچھوڑتے ہیں‘جوازِ عقلی کو بالاولیٰ ثابت کردیں گے قرآن دکھاکر کہ یہ اللہ کاکلام ہے ۔ اس پردلائل واضح ہیں‘شواہد اورامارات ظاہر ہیں کہ یہ اللہ کے سوا کسی اور کاکلام نہیں ہے ۔ لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کہ اللہ نے بندے پرکچھ نہیں اتارا‘ ٹوٹ جاتاہے اورباطل ثابت ہوجاتاہے اس قرآن کے ثبوت سے ۔تویہ طریقہ ہے جو قرآن نے اختیار کیا۔
اللہ تعالیٰ کی وحی یاکلام اللہ کے حوالے سے ایک رویہ یہ ہوسکتاہے کہ اللہ نے کچھ نہیں اتارا۔ یہ توکلی طور پر گمراہی ہے ۔ دوسری صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ نے اتارا ہے لیکن میں اس کی ایسی تاویلات اورتعبیرات کردوں کہ جوخدا کے منشا اورمراد کے خلاف ہوں۔ لہٰذا اس کواللہ تعالیٰ نے تعبیرکیا:
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَـیْہِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ ط}(آیت۹۳)
’’اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جس نے کوئی بات گھڑ کر اللہ سے منسوب کر دی یا ( اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا) جو یہ کہے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے جب کہ اس پر کچھ بھی وحی نہ کی گئی ہو اور جو کہے کہ میں بھی اتار سکتا ہوں جیسا کلام اللہ نے اُتار اہے ۔‘‘
اس کے بعد یہ بھی ہوسکتاہے کہ انسان جھوٹی نبوت کادعویٰ کردے ۔ ایک تویہ ہے کہ وہ کہے کہ کچھ نہیں اتارا‘دوسرا یہ کہ اتارا ہے لیکن اس کواپنی ہوائے نفس کے مطابق موڑ دے ۔ تیسرا یہ ہے کہ وہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی حالانکہ درحقیقت نہیں ہوئی ۔ یہ بھی ایک صورت حال ہے ۔ چوتھا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ جوہدایت قرآن نے یااللہ نے اتاری ہے اس تک میں خود پہنچ سکتا ہوں۔یعنی میرے پاس بھی اختیار ہے‘قوت ہے‘عقل ہے۔میں بھی اپنی فکردوڑا کران باتوں تک پہنچ سکتا ہوں۔وہ ہدایت لے کر آسکتا ہوں جواللہ لے کر آیا۔ تواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ ساری آپشنز ختم کردیں۔پہلایہ تھاکہ بندوں پرکچھ نہیں اتارا۔ دوسرا یہ کہ اللہ پر جھوٹ باندھاجائے‘ یہ یہود کی طرف خصوصی طورپراشارہ ہے کیونکہ ان کے پاس وحی تھی اوراس کے ہوتے ہوئے جھوٹ باندھتے تھے ۔ تیسرا جھوٹی نبوت کادعویٰ ہے ۔چوتھایہ ہے کہ میں اپنی عقل کی بنیاد پرپہنچ سکتا ہوں اوروحی کی حاجت نہیں ہے ۔ان ساری باتوں کی اللہ تعالیٰ نے نفی کردی ۔اس کے بعد فرمایا:
{وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ ج اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط }
’’اور کاش تم دیکھ سکتے جبکہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہو ں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ آگے بڑھا رہے ہوں گے (اور کہہ رہے ہوں گے) کہ نکالو اپنی جانیں!‘‘
کاش کہ آپ دیکھیں جب یہ ظالم (یہ چار اقسام سب ظالم ہیں )موت کی مدہوشیوں میں‘موت کے اندھیروں میں‘ موت کی سختیوں میں‘موت کے سکرات میں ہوں   گے اورفرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے کہ اپنی جانوں کونکالو‘اپنی ارواح کو نکالو۔
{ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ(۹۳)}
’’ آج تمہیں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس کے جو تم کہتے رہے تھے اللہ کی طرف منسوب کر کے ناحق باتیں اور جو تم اللہ کی آیات سے متکبرانہ اعراض کرتے رہے تھے۔‘‘
یاتواللہ پر ناحق بولتے تھے یاجوآیات آتی تھیں ان کاانکار کرتے تھے استکبارکی وجہ سے۔ عَذَابَ الْہُوْنِ:ذلت کا عذاب۔ یہاں علماء نے تفسیر یہ بیان کی کہ اوپرجو چار صورتیں بیان ہوئی ہیں رسالت کے انکار کی ‘ان سب کامنشا تکبّرہے۔ انسان اپنے جیسے انسان کے سامنے سرنہیں جھکاناچاہتا۔ یعنی تکبرکی بنا پر نبی کاانکار کیا تھا‘ کبر (بڑائی) حاصل کرنے کے لیے۔ تو الجزاء من جنس العمل تم بڑائی چاہتے تھے‘ تمہیں ذلت ملے گی نبی کے انکار کی وجہ سے۔ تو{اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ}آج کے دن تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا ۔ بہرحال اس ساری گفتگو کامقصد یہ تھا ۔ یعنی قرآن کااس حوالے سے بھی مطالعہ کریں توسارا کچھ مل جاتاہے ۔ قرآن نے یہ ساری آپشنز دکھائی ہیں کہ لوگ اس اس طرح کے ہوتے ہیں ۔کچھ کہتے ہیں کہ وحی نہیں اترتی‘کچھ دین پرجھوٹ باندھتے ہیں جن کوہم علماء سوء کہتے ہیں ۔کچھ نبوت کے جھوٹےدعوے دار بن کرکھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کچھ اس بات کے دعویدار ہوتے ہیں کہ جورسالت سے ملتاہے وہی ہم اپنی عقل سے بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ ان سب کاانکار کردیا۔ سب کی بنیادی علت استکبار بتائی ۔یہ بتادیاکہ اس قول کامنشا اصلاً اللہ کی عدم قدر ہے۔اگر اللہ کی معرفت ٹھیک ہوتی توایسے فضول اقوال برآمدنہ ہوتے۔ یہ علم کی خرابی بھی ہے اورنفسانی تکبربھی ۔بہرحال یہاں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ قیاس الغائب علی الشاہد کے نتیجے میں اس طرح کے تصوّرات پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے لیے صرف کمال محض کااثبات
ہمارے متکلمین یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہرکمال کااثبات نہیں کرتے بلکہ کمال محض کا۔یہ بات اہم ہے اورپہلے بھی گزر چکی ہے کہ انسان میں جوبھی کمالات ہیں محض ان کمالات کااثبات اللہ کے حق میں نہیں ہوتا بلکہ کمال محض کاہوتاہے ۔ ایساکمال کہ جس میں کسی بھی جہت سے کوئی نقص نہ ہو‘کوئی احتیاج نہ ہوتواس کمال کا اثبات ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے کرتے ہیں ۔ باقی اللہ تعالیٰ نے تواپناتصوّر وحی کے ذریعے پیش کیاہے ۔یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ عقل کے نتیجے میں آپ ایک شخصیت تک توپہنچ جاتے ہیں جواس کائنات کی خالق ومالک ہوگی ۔ تاہم اس کی تفصیلی صفات کیاہیں‘وہ ہم سے کیاچاہتاہے‘ہمیں کیاکرناہے‘میراکمال کس میں ہے‘انسان کی ترقی کس میں ہے اور زوال کس میں ہے ‘ نفس کی حقیقت کیاہے‘یہ سب باتیں وحی کے ذریعے پتاچلیں گی ۔ وحی کےبغیر زندگی گزارنے کاکوئی طریقہ معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے برٹرینڈ رسل نے کہا کہ بس سوالات میں مگن رہو۔
{ بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ یَّلْعَبُوْنَ (۹)} (الدخان)’’لیکن یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔‘‘
آ پ کوایک زندگی ملی ہےاور اس میں آنے کے بعدآپ کو ادھر پھینک دیا گیا۔ آپ نے وحی کو توماننا نہیں ہے ۔ اب آپ کے پاس وقت بہت کم ہے کہ تمام ممکنات کوآزما کر دیکھیں کہ ہوسکتاہے کہ میرا کمال اس راہ میں چلنے میں ہو‘یامیرا کمال اُس راہ پہ چلنے میں ہو۔ ایک زندگی ملی ہے ‘ اس نے بار بار نہیں آنا۔ لہٰذا اگر اس کی قدر وقیمت ہے توفوری طورپرکچھ حقیقت کامعلوم ہوناضروری ہے کہ میں نے زندگی گزارنی کیسے ہے۔میں کس طریقے پرترقی اور فوز وفلاح کو حاصل کروں!
ترقی کے تصوّر کا منزل اور حقیقت سے تعلق
ترقی کبھی بھی منزل اورحقیقت کے بغیر معلوم نہیں ہوتی۔یعنی اگر آپ نے کسی بھی شے کی ترقی طے کرنی ہے توپہلے اس شے کی حقیقت جاننا ضروری ہے وگرنہ ترقی کے تمام تصورات بے معنی ہوں گے ۔گھوڑے کی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنا اصل کام کرے‘ یعنی تیز دوڑے ۔ اسی طرح وحی کی روشنی میں انسان کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اصلاً عبدہے ۔اس کی حقیقت عبودیت ہے ۔ اس کی تمام ترقی عبودیت میں ہوگی ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان بڑی ترقی کررہاہے ‘پتانہیں کہاں پہنچ گیا ہے ۔ توانسان کی ترقی اس کی حقیقت کے بیان کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے ؟لہٰذا اگر مغرب نے کہہ دیا کہ انسان جانور ہے توپھرحیوانی ترقی ہوگی‘ اوریقینی طورپرایسا ہو بھی رہا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کوپورا کرنے کے لیے نت نئے طریقے بنائے چلے جارہے ہیں ۔اگر یہ بتایاگیاکہ وحی کی روشنی میں ہماری اصل عبدیت ہے توترقی بھی عبودیت میں ہوگی۔ میری ترقی کیاہے؟میراکمال کیاہے ؟یہ سب نبی آکر بتاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے کلام فرمائیں‘ہمیں امردیں‘ہمیں نہی فرمائیں‘یعنی امرونہی ہی کوکلام کہتے ہیں‘اس کی ہمیں حاجت ہے ‘خدا کو نہیں۔ سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی تفسیر یوں کی:
{اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی(۳۶) } (القیامۃ)
’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اُسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘
بمعنی انہ لا یؤمر ولا ینھٰی کہ انسان کونہ حکم دیاجائے گااورنہ روکاجائے گا؟ سُدًی کامطلب یہ ہے ۔ یعنی انسان کومکلف نہیں بنایاجائے گا؟ انسان کاخیال یہ بن گیاہے کہ وہ مکلف وجود نہیں ہے ۔ خدا اسے مکلف نہیں کرے گا۔ فرمایا:
{اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی(۳۷) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی(۳۸) فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی(۳۹)} (القیامۃ)
’’کیا وہ حقیر پانی کی ایک بوند نہیں تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکائی جاتی ہے؟پھر وہ ایک علقہ بنا پھر اللہ نے اس کو بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے۔پھر اسی سے اُس نے دو زوج بنائے‘ نراورمادّہ۔‘‘
یہ تصوّرات کہ انسان کواللہ سے اس ڈائریکٹ تعلق کی کوئی حاجت نہیں ہے ‘درحقیقت جہالت پر مبنی ہیں اوراللہ کی حقیقی معرفت سے دوری کی وجہ سے ہیں ۔ آپ غور کرتے چلے جائیں تونظرآئے گاکہ اللہ نے احسان کے پیرائے میں ہرجگہ بتایاہے کہ میں نے رسول اورقرآن بھیجاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ.....} (آلِ عمران:۱۶۴)
’’درحقیقت اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے اہل ایمان پر جب اُن میں اٹھایا ایک رسولؐ ان ہی میں سے جوتلاوت کر کے انہیں سناتا ہے اُس کی آیات.....‘‘
یہ دوچیزیں ہوگئیں‘یعنی رسول اورتلاوت آیات۔ اسی طرح فرمایا:
{قَدْ اَنْزَلَ اللہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا(۱۰) رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُـبَـیِّنٰتٍ.....} (الطلاق)
’’ اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کر دیا ہے۔(یعنی) ایک رسولؐ جو اللہ کی آیاتِ مبینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے.....‘‘
ہم نے تم پرذکراتاراا ور ذکرہے رسول‘جوتم پرآیات مبینات پڑھتے ہیں ۔چنانچہ ذکرمکمل ہوتا ہے آیات اور رسول سے۔ سورۃالبینہ کی مشہور آیت ہے :
{.....حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ(۱) رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً(۲)}
’’.....جب تک کہ ان کے پاس البیّنہ نہ آ جاتی ۔(یعنی) ایک رسول (ﷺ) اللہ کی جانب سے جو تلاوت کرتے ہیں پاکیزہ اوراق کی ۔‘‘
بینہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺواضح صحیفے ‘پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سناتے ہیں ۔ یاسورۃالکہف دیکھ لیں تواللہ تعالیٰ اپنی حمدبیان فرمارہے ہیں :
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا(۱)}
’’کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے نازل کی اپنے بندے پر کتاب اور اس میں اُس نے کوئی کجی نہیں رکھی۔‘‘
سورۃالرحمٰن شروع کریں توفرمایا:
{اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴) }
’’رحمٰن نے قرآن سکھایا‘ اُسی نے انسان کو بنایا‘اس کو بیان سکھایا ۔‘‘
رحمان کی رحمانیت کاسب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ اُس نے قرآن کی تعلیم دی ۔اللہ تعالیٰ ہرجگہ امتنان فرمارہے ہیں۔ احسان کے پیرائے میں بیان فرمارہے ہیں کہ میں نے تمہارے اوپرکلام اتاراہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کلام فرماتے ہیں ۔
متکلمین کامنہج
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کومتکلم ماننا یعنی صاحب ِکلام ماننا‘رسالت کی بنیادہے ۔اگر کسی بنیاد پریاکسی وجہ سے کوئی اللہ کی صفت کلام کاانکار کردے تورسالت کاانکار لازم آجاتاہے۔ہمارے علمائے کلام ایک خاص منہج رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ہروہ شے جس پر ثبوت ِرسالت کادارومداراور انحصار ہے اس کوہم نے رسالت سے ثابت نہیں کرنا۔یہ ان کااپناایک منہج ہے ‘جو یقیناً بہت قوی ہے ۔وگرنہ دور لازم آئے گا۔ یعنی اگر آپ قرآن سے ثابت کریں کہ رسول آسکتے ہیں ۔کیونکہ اللہ نے کہاہے کہ رسول آسکتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی قرآن توخود اتاری ہوئی شے ہے ۔ یہ تواس وقت ثابت ہوگی ناجب رسول بھیجنے کا عقلی جواز ثابت ہوجائے گا۔ لہٰذا تم رسول بھیجنے کا عقلی جواز خودقرآن سے ثابت کرکے نہ دکھائوبلکہ اس کے لیے عقلی دلیل چاہیے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہروہ شے کہ جس کوماننے پررسالت کادارومدار ہے تواس کوہم رسالت سے ثابت نہیں کریں گے‘ قرآن سے نہیں کریں گے ۔ مثال کے طورپررسول اسی وقت آئے گاجب خدا کا وجود ثابت ہوگا۔ اگر خدا کا وجود ہی ثابت نہیں تورسول کیسے آسکتاہے؟ خدا کاوجود ثابت ہونارسول کے آنے سے پہلے ضروری ہے ۔ خدا کاقادر ہونا‘اسی طریقے پرخدا کامرید یعنی صاحب ارادہ ہونا‘یہ جوصفات عقلیہ ہم پڑھ رہے ہیں ‘ان سب کا اصلاًان کے ہاں اثبات ضروری ہے کہ ہم رسالت کااثبات کرسکیں ۔ان کامنہج یہ ہے کہ ہم ان باتوں کے اثبات میں نقلی دلیل سے مدد نہیں لیں گے ‘ ہم قرآن سے مدد نہیں لیں گے‘ حدیث سے مدد نہیں لیں گے‘جب ہم ثابت کررہے ہیں ان لوگوں کے سامنے کہ جوقرآن وحدیث کو نہیں مانتے۔ہاں !جب ہم مسلمان آپس میں گفتگو کریں گے توہمارے لیے یہ حُجّت ہے۔ ہمیں تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ قرآنی دلیل دیں‘نقلی دلیل دیں‘ حدیث سے دلیل دیں ۔ انہوں نے کہا کہ پھرکیسے اثبات کریں صفت کلام کا ؟یعنی خدا جب واجب الوجود ہے اور یقیناً اس کے اندر صفت قدرت اور ارادہ اور علم ہوناچاہیے توصفت کلام بھی ہونی چاہیے۔کیااس کے نہ ماننے کے نتیجے میں کچھ ایسی باتیں لازم آجاتی ہیں کہ جوخدا کی خدائی کے خلاف ہیں‘ جس کی وجہ سے خدا واجب الوجود نہ رہے یاقدرت رکھنے والا نہ رہے؟ اس میں کئی طریقے ہیں؟یعنی عقلی طورپرصفت کلام کے اثبات میں ہمارے متکلمین نے ایک سے زیادہ طریقے اختیار کیے ہیں۔
امام الحرمین کا طریقہ استدلال
امام الحرمین ابوالمعالی محمدالجوئنی رحمہ اللہ نے ‘جوامام غزالی علیہ الرحمہ کے استاد تھے‘ ایک طریقہ اختیار کیا۔ امام غزالی ؒ نے ایک اورطریقہ اختیار کیا۔دوسرے متکلمین میں سے کسی نے امام صاحب کے طریقے کو اختیار کیااورکسی نے ان کے استادکے طریقے کو اختیار کیا۔ وہ سارے کے سارے درست ہیں لیکن متکلمین ایک دوسرے پرانکار بھی کرتے رہتے ہیں کہ تمہارے طریقے میں یہ مسئلہ ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ کوئی بھی طریقہ ثابت نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ متکلمین بہت زیادہ کھلا دماغ رکھتے تھے ۔ اگر ان کو اپنی عقلی دلیل میں یااپنے استاد کی دلیل میں کوئی مسئلہ نظر آرہاہے توواضح طورپربیان کردیتے تھے ۔یہاں تک کہ امام غزالی علیہ الرحمہ نے’’الاقتصاد‘‘میں اپنے استاد کے طریقے کو کہاکہ یہ توفضول طریقہ ہے ۔ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ دنیاکے بہت بڑے بڑے دماغوں میں سے ایک امام الحرمین الجوئینیؒ تھے ۔ان کا طریقہ یہ ہے‘ اور اس کا انکار نہیں کیاامام غزالی نے کہ ہروہ صفت جس کاحصول مخلوقات کے لیے ممکن ہو‘اس پرقدرت اللہ کے لیے واجب ہوتی ہے ۔ قدرت واجب ہونے کامطلب ہے کہ قدرت ہونا‘کردیناضروری نہیں ہے ۔
مثال کے طورپرتین وجود ہوتے ہیں :واجب الوجود‘ممکن الوجود اور ممتنع الوجود۔ واجب الوجود وہ ہوتاہے جہاں عدم نہیں آسکتا۔ ممتنع الوجود وہ ہوتاہے جہاں وجود نہیںآسکتا۔ ممکن الوجود وہ ہوتاہے جہاں وجود بھی ہوسکتاہے اور عدم بھی ہوسکتاہے ۔ جہاں وجود اور عدم ہوتاہے تومیںوجود بھی رکھ سکتاہوں یہ میری ممکن صفت ہے اور عدم بھی ہوسکتاہے میرے اندر۔گویامیرے اندر جب یہ ممکن صفت ہوئی توخدا کے اندر واجب صفت یہ ہوئی کہ وہ مجھے وجود دے بھی سکتاہے اور لے بھی سکتاہے۔ خدا کے اندر یہ ممکن صفت نہیں ہوگی بلکہ واجب ہوگی‘ کیونکہ ممکن الوجود پرجب یہ صفت ممکن تھی توخدا پریہ وجوب ہوجائے گی۔ خدا مجھے مردہ بھی پیدا کرسکتاتھا‘جماد بھی بناسکتا تھا‘پتھربھی بناسکتاتھا جس کے اندر حیات نہیں ہے۔گویااحیاء اور اماتہ کی صفت اللہ سبحانہ وتعالیٰ میں وجوب کے درجے میں ہوگی کیونکہ میرے اندر یہ ممکن تھا۔ اسی طرح باقی چیزیں دیکھتے چلے جائیے ۔میرے اندر یہ ممکن تھاکہ میں چھوٹے قد کاہوتا‘بڑے قد کاہوتا‘موٹا ہوتا‘جیسامرضی ہوتا۔ جتنی بھی میرے اندر ممکن صفات ہیں ‘ان پرجوقدرت ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں واجب ہوگی۔ واجب سے مراد ہے کہ اس کی نسبت اللہ کے لیے واجب ہوگی۔ واجب کامطلب خدا پرواجب نہیں بلکہ خدا کے حق میں واجب ہے ۔یعنی ضروری نہیں ہے کہ خدا ہرممکن کو وجود دے کیونکہ وہ صاحب ارادہ ہے لیکن ہرممکن کووجود دینے کی قدرت کا ہوناوہاں واجب ہے ۔
امام الحرمین ابوالمعالی الجوئینیؒ نے کہاکہ یہ بھی انسان کی صفت ہے ’’ممکن‘‘کہ مجھے حکم دیاجائے یانہ دیاجائے ۔ یعنی مجھے ماموریامکلف بنایاجائے یانہ بنایا جائے ‘یہ میرے اندر امکان ہے اور اس امکان کوماننے سے کوئی عقلی استحالہ لازم نہیں آرہا۔ یہ امام صاحب کا استدلال ہے اور اس سے کلام ثابت ہوتاہے ۔ امام غزالی ؒ نے کہا کہ یہ دوردراز کی بات ہے‘ البتہ انکار نہیں کیا‘یعنی رد کرکے کوئی دلیل نہیں دی ۔ اس میں انہوں نے سادہ طریقے سے ثابت کردیا۔ انہوں نے کہاکہ جب مجھے حکم بھی دیاجاسکتاہے ‘مکلف ہونامیرے لیے ممکن ہے توخدا کے اندر ایسی صفت کااثبات ممکن ہے جس کے ذریعے وہ مجھے مکلف کرسکے ۔ جس طرح میرے اوپرآنے والے تمام ممکنات کے متوازی ایک صفت کااثبات اللہ کے لیے واجب ہے کہ جس کی بناپرمیرے اندر وہ ممکن صفت وجود میں آسکے تواسی طریقے پرمیرا مکلف بننابھی ممکنات میں سے ہے ۔ مجھے حکم دیاجائے یامجھے روکاجائے ‘یہ ممکنات میں سے ہے ۔خداکے ہاں اس کے متوازی صفت اس کے حق میں واجب ہوگی کہ جس کی بناپروہ مجھے مکلف بناسکے۔ اسی کوہم صفت کلام کہتے ہیں۔ یہ وہ صفت ہے جس کی وجہ سے خدا مُکلِّف بنتاہے اور ہم مُکلَّف بنتے ہیں۔یعنی خداہمیں تکلیف دیتاہے۔ تکلیف سے مراد احکامِ شرعیہ ہیں‘اور ہم مکلف وجود بن جاتے ہیں ۔ یاجس کی بناپرخدا آمراور ناہی ہوتاہے‘حکم دینے والااور روکنے والاجبکہ ہم وہ ہوتے ہیں جس پرامراورنہی وارد ہو رہے ہوتے ہیں۔بہرحال یہ امام صاحبؒ کے عقلی استدلال کاطریقہ تھاجو مختصراًبیان کردیاگیا۔اس کے ذریعے وہ خدا کاعقلی اثبات کررہے ہوتے ہیں ۔
قرآن نے جو اثبات کیاتھاوہ عقلی نہیں کیابلکہ خدا نے وقوع دکھادیا‘اور وہ بھی بالکل درست طریقہ تھا۔ ایک ہے کہ آپ اس طریقے پر اثبات کریں اور ایک یہ ہے کہ قرآن پکڑا دیں کہ ٹھیک ہے ابھی تم نہیں مان رہے کہ یہ خدا کاکلام ہے لیکن ذرا پڑھ کے دیکھواور غور کرو۔ ہوسکتاہے خود قرآن بتادے کہ میں اللہ کا کلام ہوں۔اس میں اس عقلی طریقے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ آپ کہیں کہ خدا متکلم کیساہے ۔
امام غزالی ؒ کا طریقہ استدلال
امام غزالی ؒ کا طریقہ بڑا سادہ ساہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ صفت کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں تک اپنی بات پہنچاسکے‘ صفت کلام ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ یاتوکمالِ محض ہوگایااحتیاجِ محض ہوگا۔امام صاحب اس طریقے پر حصر قائم کرتے ہیں کہ یاکمالِ محض ہوگایانقصانِ محض(نقص محض ‘ احتیاجِ محض)۔یا یہ کہ نہ کمال ہے‘ نہ نقصان ہے۔یہ تین تقسیمی ںہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ یہ نہ نقصان ہے اورنہ کمال ہے‘بالکل واضح نہیں ہے کیونکہ بہرحال اپنی بات دوسروں تک پہنچاناکمال ہے ۔ یہ کہناکہ یہ نقص ہے تواس پربھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ نقص ہے۔ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ کمال ہے ۔ تواللہ کے لیے صفت کمال جوکمال محض ہو‘اس کا اثبات ہوجائے گااور نقص کی نفی کردیں گے ۔ نقص یہ ہے کہ اس کو زبان چاہیے‘حروف چاہئیں۔ ان ساری باتوں کی نفی کرکے صفت ِکلام کااثبات کردیں گے۔ اس طریقے پر صفت کلام کااثبات ہورہاہے علٰی طریقۃ الکمال کہ اللہ کے لیے یہ صفت کمال ثابت ہے۔ یہ صفت کمال ہے یاتم بتادو کہ صفت کمال نہیں ہے ۔دلائل سے ثابت کردو توہم کہہ دیں گے کہ اللہ کے لیے ثابت نہیں ہے۔ جب بات واضح ہے کہ یہ صفت کمال ہے تویہ بات بھی دلائل عقلیہ سے ثابت ہوگئی کہ جواس کائنات کا خالق ومالک ہے وہ ہرقسم کے کمالات سے متصف ہے ۔اگر یہ صفت کمال ہے تواس سے بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ متصف ہیں۔ یہ امام غزالی ؒ کا طریقہ ہوگیا۔
صفت کلام کاانکار کرنے والے گروہ
ہمارے ہاں صفت ِکلام کے حوالے سے کس نے انکار کیا ہے؟اہل سنت تویقیناً انکار نہیں کرتے لیکن ایسے فرقے ضرورر ہے ہیں کہ جن کے قول کے لوازم میں صفت کلام کاا نکار ہے ۔ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو فاعل مختار نہیں مانا‘کیونکہ صفت کلام اصلاً منحصر ہے خدا کے فاعل مختار ہونے پرکہ خدا چاہے کلام کرے‘ چاہے نہ کرے ۔ خدا کے حق میں یہ واجب نہیں ہے ‘جوائز میں سے ہےکہ کرسکتاہے اگر چاہے تو۔ قدرت تواس کے لیے واجب ہے لیکن کرے نہ کرے یہ اس پر واجب نہیں ہے ۔ا گراس کو واجب قرار دے دیں توپھروہ فاعل مختار نہیں رہے گا۔لہٰذا معتزلہ جنہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر عقل کی بنیاد پرکچھ چیزیں واجب کررکھی ہیں کہ خداکے لیے ایسا کرناضروری ہے‘ ان میں سے ایک چیزجوانہوں نے واجب کی ہے وہ وجوب بعثت رسل بھی ہے۔ اس کی رُو سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ضروری ہے‘واجب ہے‘اس کے لطف کاتقاضاہےیا اس کی رحمت کا تقاضاہے کہ وہ رسولوں کو بھیجے۔ گویاانہوں نے رسولوں کابھیجناجوائز سے نکال کرواجبات میں داخل کردیا۔ یعنی رسول نے آنا ہی آناہے‘ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ نہ آئے ۔ قرآن وحدیث کی روسے دیکھیں تویہ فضول سی بات ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کر رہا ہے: { لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ} اس کامطلب یہ تھاکہ یہ احسان ہے ۔اگر آپ کہیں کہ یہ توہوناہی ہوناتھاتو پھراحسان کیسے ہوا؟یہ توواجب علی اللہ تھا۔ نعوذباللہ!اہل سنت کے ہاں وجوب علی اللہ کوئی اصطلاح ہی نہیں ہے کہ اللہ پرکوئی شے واجب ہے ۔ ہم صفت ارادہ کے بیان میں دیکھ چکے ہیں کہ ہروہ شے جس سے ارادے پرکوئی قدغن لگتی ہے‘ ان سب کا انکار اہل سنت نے کردیا۔لہٰذا وجوب علی اللہ نہیں ہے ۔ جب ہم کہہ رہے ہوتے ہیں ’’خدا کے حق میں‘‘ تووہ وجوب فی حق اللہ ہے ۔وہ خدا کے حق میں واجب ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ خداکے اندر یہ صفات ہوتی ہیں ۔ خدا پرکوئی شے واجب نہیں ہے ۔ خدا کے اندر قدرت ہے ‘جس کے نتیجے میں یہ واجب نہیں ہے کہ وہ لازماًمخلوق بنائے۔ یہ اس کاکمال ہے۔ بنانا کمال نہیں ہے ‘قدرت کمال ہے ۔ جن لوگوں نے کہہ دیاکہ رسولوں کا بھیجناواجب ہے تواہل سنت نے کہا کہ تم نے اس میں اصل بات نکال لی ۔وہ اللہ تعالیٰ کااحسان تھا‘اللہ تعالیٰ بھیج بھی سکتا تھا‘ نہیں بھی بھیج سکتاتھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فاعل مختار ہے۔ چاہے توبھیجے ‘چاہے تونہ بھیجے ۔ لہٰذا تم نے رسالت کاانکار تونہیں کیا‘البتہ تاویلات کرلی ہیں۔ لہٰذا ہم تمہیں کافر تونہیں کہتے لیکن تمہاری بات درست نہیں ہے۔یہ گمراہی کی بات ہے کہ تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرکوئی بات واجب کرو۔اس کے نتیجے میں گویارسالت کاآناہرصورت میں ضروری ہو گیا تو رسالت کی روح نکل گئی ۔ یہ تومعتزلہ تھے ۔
دوسراگروہ اللہ تعالیٰ کو صراحتاً فاعل مختار نہیں مانتا ۔ معتزلہ توفاعل مختار مانتے ہیں لیکن ان کے کچھ لوازم عجیب وغریب ہیں ۔ فلاسفہ کاایک گروہ تھا‘جیسے الفارابی‘ابن سینا‘الکندی اور ابن رشد وغیرہ اوربیچ میں اوربھی ہیں ابن ملکہ اور ابوالبرکات البغدادی وغیرہ‘ان فلاسفہ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو موجب بالذات مانا‘یعنی اس سے چیزوں کاصدور علت اولیٰ کے اصول کے تحت ہوتا رہتاہے ۔ وہاں اختیار وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔وہ علت تامہ ہے‘علت کاملہ ہے۔جہاں علت ہوگی‘ معلول لازماًہوگااگر وہ علت تامہ ہے ۔وہ موجود ہے تواس کے ساتھ معلول بھی موجودہے۔ لہٰذا مادہ(substance) ہمیشہ سے موجود ہے اوراس پرصورتیں آتی رہتی ہیں۔ افلاک کی حرکت کی وجہ سے ان کی پوری ایک کاسمولوجی ہے ۔جب وہ مان رہے ہیں کہ خدا سے صدورعلیٰ طریقۃ الوجوب ہوتاہے توپھروہاں رسالت بھیجنے کاتصور ہی نہیں ہے ‘لیکن رسالت کو پھربھی مانتے ہیں ۔ لہٰذاا ن کے نزدیک جورسول ہوتاہے وہ ایک بڑا ولی اللہ ہوتاہے جوریاضتوں کے ذریعے اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچتا ہے۔ خدا کی طرف سے علوم توبلا اختیار صادر ہوہی رہے ہیں لیکن یہاں چونکہ قلب کاشیشہ زنگ آلود تھاتووہ منعکس نہیں ہورہے ۔ لہٰذا جو اپنے اس زنگ کو صاف کرتا چلاجاتاہے تواس پروہ خود بخودمنعکس ہوتے چلے جائیں گے۔ سورج کے سامنے آپ شیشہ رکھ دیںاوروہ زنگ آلود ہوتوسورج کی شعائیں وہاں منعکس نہیں ہوں گی لیکن جیسے جیسے آپ اس کو صیقل کرتے چلے جائیں گے‘ شعائیں سورج کے ارادے کے بغیر خودبخود اس پر منعکس ہوں گی کیونکہ سورج موجب بالذات ہے روشنی کا۔وہ ارادے سے نہیں بھیج رہا‘اس سے روشنی نکلنی ہی نکلنی ہے۔اسی طریقے پرآپ اپنے نفس کو پاک صاف کرتے چلے جائیں تو علوم وارد ہوجاتے ہیں‘ اورنبی وہ ہوتاہے جس نے اپنے آپ کوسب سے بڑھ کرپاک کرلیاہوتاہے۔وہ یہ ضرور مان رہے ہیں کہ نبی کے اندر ایک خاص خاصیت یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خوب پاک صاف کرلیا‘نبی سے بڑھ کر کسی نے پا ک صاف نہیں کیا ہوتا‘ تو اس کونبوت حاصل ہوجاتی ہے‘ بمعنی یہ کہ اس کا شیشہ اتناصیقل ہوجاتاہے کہ وہاں حقائق کامل طریقے پرمنعکس ہوجاتے ہیں۔ اصلاً اس میں بھی نبوت کا انکار ہے۔یہاں نبوت ایک خاص درجے میں کسبی شے تصور کی گئی ہے ۔ یعنی وہ ہمارے اوپرمنحصر ہے کہ ہم کتنا اپنے آپ کو پاک صاف کریں ۔ اہل سنت کاتصور بلکہ جودین کاتصور ہےاس میں نبوت کو کسبی ماننے کے نتیجے میں کفر لازم آتاہے۔ صراحتاًتوانہوں نے نہیں کہاکہ نبوت کسبی ہے لیکن بہرحال لوازم یہی ہیں۔ اہلِ سُنّت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو پسند فرمالیتے ہیں‘ہاں کچھ خصوصیات کی بنیاد پروہ ایسا کرتے ہیں‘ وہ خصوصیات بھی خود رکھتے ہیں۔ یعنی وہ خصوصیات اللہ کی طرف سے دی گئی ہوتی ہیں اور پھراصطفاء ہوجاتا ہے ۔ارشاد ہوتاہے : {اَللہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌ  بَصِیْرٌ(۷۵) } (الحج)’’اللہ چُن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی ۔ یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا‘ دیکھنے والا ہے۔‘‘اور {اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ} (الشوریٰ:۱۳) ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے)چُن لیتا ہے۔‘‘ مَنْ یَّشَاءُ یعنی یہ مشیت پر ہے۔ یہ علیٰ طریق الایجاب نہیں ہے‘علیٰ طریقۃ الصدور نہیں ہے اور یہ علیٰ طریق الوجوب بھی نہیں ہے ۔ معتزلہ کاخیال ہویافلاسفہ کا۔بلکہ یہ علیٰ طریق المشیۃ ہے‘الارادہ ہے۔{اَللہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ} اللہ جس کو چاہتا ہے ‘پسند کرتاہے ۔
{اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ط } (الانعام:۱۲۴)
’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کا کام کس سے لے اور کس طرح لے!‘‘
کیونکہ انہوں نے کہا کہ ادھرکیوں نہیں اُترگیا؟ اللہ نے کہاکہ وہ جانتاہے کہ اس نے کہاں نبوت رکھنی ہے ۔اہل سنت کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو فاعل مختار مانتے ہیں توہم ہی متکلم مختار بھی مانتے ہیں۔اللہ اپنے ارادے سے مخلوق کے ساتھ رابطہ کرتاہے۔وہ انہیں مکلف ٹھہراتا ہے اوراس کا ارادہ نہ ہوتونہیں ٹھہراتا۔ یہ اصول ہے ۔
صفت ِکلام کی تعریف
صفت ِکلام کیاہے ؟مجھے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کافی جھجک ہورہی ہے کیونکہ ان مباحث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جوشاید ہم لوگوں کے لیے مفید نہیں ہیں ۔ ایک مبحث تاریخ میں بھی رہا ہے ‘ عباسی دور میں ‘جسے ہم ’’فتنہ خلق قرآن‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی کلام اللہ کامخلوق ہونا یاغیرمخلوق ہونا۔ایک معتزلہ کاموقف ہے اورایک اہلِ سُنّت کاکہ اہلِ سُنّت نے اس کوکس طرح سمجھاہے۔ پھرایک اور گروہ ہے جس کو ہم مجسمہ یامشبہہ کہتے ہیں‘ ان کااس کے بارے میں ایک الگ نقطہ نظر ہے ۔ کئی دفعہ ایک عام آدمی اس طرح کی باتیں سنتاہے تواس کوتشویش لاحق ہو سکتی ہے کہ پتانہیں کلام اللہ کے بارے میں کیاباتیں ہورہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی منع فرمایاہے کہ اس طرح کی باتیں نہ کی جائیں ۔لہٰذا میں بھی کوشش کروں گاکہ بہت مختصراً اورزیادہ تفصیل میں جائے بغیرکچھ بنیادی باتیں عرض کردی جائیں ۔اس ضمن میں امام غزالی ؒ کاایک کلام بھی ہم دیکھیں گے کہ صفت کلام صفت قدیمہ ہوتی ہے :
صفۃ وجودیۃ قدیمۃ ازلیۃ ثابتۃ لذات اللّٰہ او قائمۃ بذات اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ یکون اللّٰہ بھا آمرًا وناھیًا
یعنی ایک ایسی صفت وجودی جو قدیم ہے‘ہمیشہ سے ہے ‘ ازل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات سے ازلی طور پر متصف ہے جس کے ذریعے اللہ آمر اورناہی ہوتاہے ۔ امر و نہی: یہ کرویہ نہ کرو۔اللہ کا حکم ہے ۔کسی نے کہا : مُکلِّفا‘یاجس کے ذریعے اللہ تکلیف دیتاہے ۔ تکلیف کامعنی بھی یہی ہے کہ حکم شرعی کانزول فرماتاہے جس کے ذریعے کچھ چیزیں واجب ہوجاتی ہیں‘فرض ہوجاتی ہیں‘کچھ حرام ہوجاتی ہیں‘کچھ مباحات میں رہتی ہیں‘اورکچھ مکروہات میں ہوجاتی ہیں ۔ ایک تعریف تو یہ کی گئی ۔دوسری تعریف زیادہ دقیق(مشکل) ہے کہ :
صفۃ قدیمۃ ثبوتیۃ قائمۃ لذات اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ تتعلق بکل الجائزات والممتنعات والواجبات
جس طرح صفت علم تمام کومحیط تھی ‘یہ بھی تمام کومحیط ہے ۔ اس کاتعلق تھا:تعلق انکشاف ووضوح‘جس کے ذریعے اللہ کے لیے ہرشے منکشف ہوجاتی ہے۔ اس سے کیاہوتاہے : تعلق دلالۃ وبیان‘اس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں اور دلالۃ(راہنمائی) فرماتے ہیں ۔یعنی وہ صفت جوہرممکن‘ہرواجب اورہرممتنع سے متعلق ہے۔ان واجبات اور ممتنعات اور ممکنات کے ساتھ ہوتا کیاہے ؟اس کابیان اور وضاحت ہوتی ہے ۔کس کے لیے ہوتی ہے؟ انسانوں کے لیے ۔ممتنع کی کیسے وضاحت ہوتی ہے ؟اللہ نے قرآن میں وضاحت کی ہے ‘مثلاًکچھ ممتنع الوجود چیزیں بھی بیان کیں۔ جیسے فرمایا:{لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَاج } (الانبیاء:۲۲) ’’اگر اللہ کے سوا کائنات میں کوئی اورالٰہ ہوتے تودونوں فساد کاشکار ہوجاتے( زمین وآسمان)‘‘تواس میں ممتنع الوجود کابیان ہے ۔ ممکن کاتونہیں ہے ۔اللہ کے سوا توالٰہ ہوہی نہیں سکتے۔ بہرحال اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں ۔ کس کو؟ہرایک کوبیان کرسکتے ہیں ۔ممکن الوجود کوبھی‘ممتنع الوجود کوبھی اورواجب الوجود کوبھی ۔واجب الوجود کو ایسے بیان کیا کہ اپنی ذات کواپنی صفات بیان کیں ۔ممکن الوجود ہم ہیں‘مخلوقات ہیں‘کائنات ہےجس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان فرمایا۔بیان میں امرونہی اوراخبارسب شامل ہیں۔ لہٰذا بعض نے کہاکہ آمر اورناہی کہنے سے اخبار کہاں گئی‘ توکہاکہ یہ تعلق جودلالت وبیان ہے اس میں اخبار بھی شامل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے خبریں بھی تودی ہیں ۔ اپنے بارے میں خبردی ہے‘قیامت کے بارے میں خبردی ہے۔امربھی دیاہے‘تکلیف بھی ہے‘ اخبار بھی ہیں‘وعظ بھی ہیں‘مواعظ بھی ہیں۔ لہٰذابیان کے اندر سارا کچھ آجاتاہے ۔ بہرحال اس کی تعریف یہ کی گئی کہ :
صفۃ ازلیۃ ثبوتیۃ قائمۃ بذات اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ تتعلق بکل الجائزات والممکنات والممتنعات تعلق دلالۃ بیان
کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قدرِ عُقُوْلِھِمْ
اہل سنت علماء نے کلام کودوحصوں میں تقسیم کیاہے ۔وہ کہتے ہیںکہ اس کوبیان نہیں کرنا ہوتاسوائے درسی مجالس میں ۔ یعنی جہاں آپ کوئی چیز پڑھارہے ہوں وہاں بیان کرسکتے ہیں ۔اب چونکہ عجیب وغریب قسم کی درسی مجالس ہیں جن میں سننے والے کوجانتے بھی نہیں ہوتے۔ یعنی کون سن رہاہے‘کہاں سن رہا ہے‘ کیسے سن رہاہے ‘ لیٹا ہوا ہے یاغلط سلط سن لے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ بات جوکہی گئی تھی اس کے بالکل الٹ سمجھی گئی ۔اس لیے اب جوہم بات کریں اس کوآپ لوگ بے شک نہ سمجھیں اور اگر سمجھ بھی آجائے تواپنی سمجھ کے مطابق بیان بھی نہ کیجیےگاکیونکہ یہ چیزیں صرف درس وتدریس کی حدتک بیان کی جاتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی خفیہ علوم ہیں‘ اسرار ہیں جوسب کو بیان نہیں کرنےبلکہ یہ بالکل کھلی سی باتیں ہیں لیکن کہیں سوء فہم نہ ہوجائے‘اس وجہ سے کچھ چیزوں کو روک لیاجاتاہے ۔اس ضمن میں اللہ کے رسولﷺ سے ہدایات بھی مروی ہیں‘اگر چہ روایت ضعیف ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:((کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِم)) (مرقاۃ المفاتیح‘۹/۳۷۳)’’لوگوں سے ان کے عقول کے مطابق گفتگو کرو‘‘۔ ایسا نہ ہوکہ ان کوایسی باتیں بتادوجوان کے لیے فتنے کا باعث ہوں۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:((حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ‘ اَتُحِبُّوْنَ اَنْ یُکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ))(صحیح البخاری‘ کتاب العلم)’’لوگوں کو وہ چیز بتائو جووہ جان لیں‘پہچان لیں۔کیاتم پسند کرتے ہوکہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی تکذیب ہوجائے؟‘‘ یعنی کوئی ایسی بات بتادوجوا س کے فہم میں نہ آئے اوروہ رسول ﷺ کے متعلق سوء ِظن قائم کرلے اور پھربالآخر رسول ﷺ کی تکذیب ہوجائے ۔ نعوذباللہ !یہاں بھی اللہ کے نبی ﷺ فرق مراتب کا بیان فرمارہے ہیں کہ ہربات ہرایک کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس آج کل ہربات ہرایک کے لیے ہے ۔ عجیب وغریب دقیق کلامی مباحث فیس بک کے پیجز پر نشرہورہے ہوتے ہیں۔ہرایرا غیرااس کوپڑھ رہا ہوتاہے اوراپنے مسائل اس میں سے نکال رہا ہوتاہے ۔ کسی کو فہم حاصل ہورہاہے‘ کسی کونہیں ہورہا۔یعنی اب ہرشے سب کے لیے ہے ۔البتہ ہمارے ہاں ہرچیز سب کے لیے نہیں ہوتی ۔ قرآن مجید پرغور کرناچاہیے اصلاًکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس سے ہمارا تعلق کیساہے ۔
کلام ِنفسی اور کلام ِلفظی کی تقسیم
ایک ہوتاہے :کلامِ لفظی اورایک ہوتاہے :کلامِ نفسی۔حروف اوراصوات سے مل کرجوکلام بنتاہے اس کو ہم کلام لفظی کہتے ہیں ۔جیسے وجود کی مختلف اقسام ہوتی ہیں ۔ایک وجود خارج میں ہوتا ہے‘ ایک وجود ذہنی ہوتاہے ‘ ایک وجود لسانی ہوتاہے اورایک وجود کتابی ہوتاہے ۔ا س میں ترتیب یہ ہے کہ خارج میں ہے توذہن میں ہے‘ اور ذہن میں ہے تونطق پہ ہے‘نطق پہ ہے توکتابت پہ ہے ۔یہ وجود کے مراتب شمار ہوتے ہیں ۔کئی دفعہ ہم بولتے ہیں کہ فلان یتکلم ‘فلاں شخص بول رہا ہے توبولنے سے مراد یہ لیاجاتاہے کہ وہ منہ سے کچھ نکال رہا ہے ۔یعنی حروف‘ الفاظ اوراصوات نکل رہے ہیں تویہ کلامِ لفظی ہے۔اہلِ سُنّت علماء نے کہاکہ کلام کی حقیقت کلامِ لفظی نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی شے سے آوازیں برآمد ہورہی ہیں‘جیسے روبوٹ ہے یاٹیپ ریکارڈر ہے یاٹی وی ہے اس میں سے آواز نکل رہی ہے ‘اس کو آپ متکلم نہیں کہیں گے‘ اس لیے کہ اگرچہ اصوات اورحروف توبرآمد ہورہے ہیں لیکن اس کاکلام نفسی نہیں ہے ۔کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتاہے کہ جومنہ سے آواز نہ نکال سکتا ہولیکن وہ متکلم شمار ہوگا‘کیونکہ اسے کلامِ نفسی حاصل ہے ۔
اس حوالے سے آج کل کے ایک متکلم سعید فودہ صاحب نے ایک مثال دی ۔ جیسے بچہ ہوتاہے‘ابھی حروف اوراصوات اس نے سیکھے نہیں ہوتے‘نہ وہ الفاظ نکال سکتاہے نہ اس کاکوئی تخیل ہوتاہے ۔ ایک اشکال یہ پیش کیاجاتاہے کہ جب آپ نفس میں اپنے آپ سے باتیں کررہے ہوتے ہیں‘یعنی معنی آپ کے جی میں ہوتے ہیں وہاں بھی تو حروف اور اصوات آپ کے ذہن میں آرہے ہوتے ہیں ۔ وہ تو ہماراتعلق حروف اوراصوات سے اتناقوی ہوچکا ہے کہ جب سوچتے بھی ہیں توتخیل میں وہ حروف اوراصوات آجاتے ہیں لیکن بچے کو تونہیں آسکتے ‘ کیونکہ ابھی اس نے کچھ سیکھانہیں ہے ۔ بچہ کچھ ذریعوں سے آپ تک بات پہنچاتاہے تووہ کیاپہنچارہاہے ؟ اگر کلام صرف نطقی ہوتاتونطق اس کو آتا ہی نہیں ۔پتاچلاکہ کچھ معانی اس کے داخل میں ہیں جنہیں وہ آپ تک پہنچا رہا ہے کسی اشارے کے ذریعے‘ کسی بھی چیز کے ذریعے ۔ یاصرف آنکھوں سے آپ پہچان لیتے ہیں کہ اس کے اندر اس وقت کیاہے ۔ کلام کی اصل حقیقت یہ معانی ہیں جونفس میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان متکلم ہے اوریہی صفت کلام ہے۔ اس کا اظہار نطق سے ہوتاہے ‘جس کا اظہار الفاظ اور حروف سے ہوتاہے ۔لہٰذا الفاظ اورحروف کو بھی ہم کلام کہہ دیتے ہیں لیکن صفت کلام اس معانی نفسیہ کے لیے بھی بولی جاتی ہے ۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔یعنی انسان اپنے آپ سے کلام کرتاہے یاذہن میں جومعانی گھوم رہے ہوتے ہیں۔ جیسے سورۃالمجادلہ میں کہاگیاکہ جب وہ اللہ کے رسولﷺ کی مجلس میں آتے تھے اورکہتے تھے : السام علیکم (نعوذباللہ) کہ آپ ﷺ کوموت ہو‘توپھراللہ کے رسولﷺ ان کے ساتھ کچھ نہیں کرتے تھے تو وہ اپنے دل میں کیا کہتے تھے :
{وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللہُ بِمَا نَقُوْلُ ط } (آیت۸)
’’اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہمارے اس طرح کہنے پر؟ ‘‘
اپنے جی جی میں کہتے تھے کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتاہمارے اس کہنے کی وجہ سے۔ ہم نے رسول اللہﷺ کوگالی دے دی ۔ نعوذباللہ!اس کے نتیجے میں ہم پرعذاب آناچاہیے ‘لیکن نہیں آرہا۔ لیکن وہ منہ سے نہیں کہہ رہے ۔وہ حروف اور اصوات نہیں ہیں۔اس کے لیے اللہ نے ’’قول ‘‘ کالفظ ارشاد فرمایا:یَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ۔گویاجونفس میں معانی ہے ‘جوابھی نطق اورحرف و الفاظ اورصوت کالبادہ پہن کرباہر نہیں نکلا‘اس پربھی اللہ نے لفظ قول کااثبات کیا۔ سورۃ یوسف کاقصہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس بھائی آئے ‘آپؑ نے اپنے بھائی کو اپنے پا س رکھنے کے لیے ایک تدبیرکی‘پھر ان کے کجاوے میں سے ایک پیالہ نکال لیاتواس موقع پر بھائیوں نے کہہ دیاکہ اس کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی ۔قرآن کاارشاد اس طرح ہے :
{قَالُوْٓااِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ ج فَاَسَرَّہَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِہٖ وَلَمْ یُبْدِہَا لَہُمْ ج قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًاج }(یوسف:۷۷)
’’ وہ کہنے لگے: اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کا بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔ اس کو چھپائے رکھا یوسف ؑنے اپنے جی میں اور اُن پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔آپؑ نے (دل ہی دل میں) کہا کہ تم بجائے خود بہت بُرے لوگ ہو۔‘‘
اس بات کوحضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے جی میں چھپالیااوران سے نہیں کہا۔یعنی یہ الفاظ منہ سے نہیں نکالے لیکن دل میں کلام کیااورجودل میں کلام ہوااس کوبھی اللہ نے قَالَ کہہ کربیان کیا۔ میں اس بات کوزیادہ اہمیت اس لیے دے رہاہوں کہ ہمارے ہاں کچھ بزرگوں نے کہاکہ کلام نفسی کچھ شے نہیں ہوتی بلکہ اصلاً کلام صوت اور حروف کو کہتے ہیں۔ یہ معتزلہ کے ساتھ بھی جھگڑا ہے اوربعد میں آنے والے کچھ مشبہہ حضرات کاموقف بھی رہا ہے۔وہاں ہمارے علماء عموماایک شاعر کی دلیل دیا کرتے تھے ۔ اختل نامی ایک شاعر گزرا ہے جونصرانی تھا۔ اس کاشعر ہے :
اِنَّ الکلام لفی الفؤاد وانما جعل اللسان علی الفواد دلیلا
’’اصلاًتوکلام دل میں ہوتاہے‘ زبان تواس دل کے کلام پردلیل ہوتی ہے ‘‘۔
کچھ بزرگوں نے کہا کہ عقیدہ کے معاملات میں اختل کے شعرسے استدلال فرمارہے ہیںجبکہ وہ توتھاہی نصرانی! اس کاتودین مذہب ہی کوئی نہیں ہے‘ وہ توویسے بھی کچھ مانتانہیں ہے ۔ شعر سے استدلال دین اور مذہب کی وجہ سے نہیں ہورہا ہوتا۔اگر ایسا ہی ہے توہم دورِ جاہلیت کے شعراء کے اشعار سے کیوں استدلال کرتے ہیں؟ وہ توسارے مشرک تھے‘لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ان شعراء کو پڑھنے کا حکم دیاکہ اس کے ذریعے سے قرآن کی تفسیر کریں گے ۔ پھرہمارے علما ء نے کہا ‘ٹھیک ہے ‘ ہم قرآن مجید کی آیات سے اور بہت سی احادیث میں اس کا جو ذکر ہے وہ بیان کر دیں گے۔ مثال کے طورپرثقیفہ بنی ساعدہ والی حدیث کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کوپتاچلاکہ خلافت کاکوئی معاملہ ہورہا ہے اورانصار جمع ہوگئے ہیں تواب دونوں جارہے ہیں ۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ انی ذورت فی نفسی مقالۃً ’’میںنے اپنے دل میں ایک کلام تیار کرلیا ہے جومیں وہاں جاکرکہوں گا۔‘‘بعدمیں جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر کی توکہتے ہیں کہ جومیں نے تیار کیا تھاتواس سے بہتر سیدنا ابوبکرؓنے وہاں فرمادیا۔اس کوبھی انہو ں نے مقالہ کہاہے ۔بہرحال اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جواللہ کے لیے بلاتشبیہہ صفت ثابت کرتے ہیں وہ کلام نفسی کی ہے‘کلام لفظی کی نہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جوٹھیک بات ہے وہ سمجھ میں آجائے ۔