(اسلام اور سائنس) سائنسی علوم کی ایک مثالی اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت (۶) - ڈاکٹر محمد رفیع الدین

10 /

اسلام اور سائنس
سائنسی علوم کی ایک مثالی اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت(۶)
ڈاکٹر محمد رفیع الدینمحکومی کا سحر
اگر عہد قدیم کے ان مسلمانوں کو جو سائنس کے بانی تھے‘ یہ کہا جاتا کہ سائنس کو خدا کے عقیدہ سے اور خد اکے عقیدہ کو سائنس سے الگ کر دو تو یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آسکتی اور وہ کہنے والے کو دیوانہ یا احمق سمجھتے۔ پھر کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اگر آج کسی مسلمان سائنس دان کو کہاجائے کہ خدا کا عقیدہ سائنس کی لازمی بنیاد ہے جس کے بغیر وہ من کل الوجوہ اور مجموعی طور پر ترقی نہیں کرسکتی تو یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یہ اُلٹی ذہنیت عیسائی مغرب کی کورانہ تقلید سے پیدا ہوئی ہے اور یہ کورانہ تقلید مغرب کی محکومیت اور مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔ محکومی کا خاصہ ہے کہ وہ قوموں کا ضمیر بدل دیتی ہے۔ جو چیز ان کو محکومی سے پہلے اچھی نظر آتی تھی‘ محکومی کے بعد رفتہ رفتہ بری نظر آنے لگتی ہے اور جو چیز محکومی سے پہلے بری نظر آتی تھی وہ محکومی کے بعد رفتہ رفتہ اچھی نظر آنے لگتی ہے۔ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اشتراکیوں کے نزدیک‘ مادّہ اپنی نام نہاد جدلی صفات کے سمیت ایک ایسی ہی یقینی حقیقت ہے جیسی کہ ایک سچّے مسلمان کے نزدیک خدا اور اس کی صفاتِ رحمت و ربوبیت۔ لہٰذا انہوں نے مادّہ اور اس کی مزعومہ جدلی صفات کو اپنی سائنس کا راہ نما تصوّر بنایا ہے‘ یہاں تک کہ اُن کی سائنس اس تصوّر کے دائرہ سے ایک اِنچ باہر نہیں جاسکتی۔ اگر اشتراکی اپنے جھوٹے خدا کے عقیدہ پر سائنس کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو مسلمان کو کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنے سچّے خدا کے عقیدہ پر سائنس کی بنیاد نہیں رکھ سکتا! لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ آج کا فر کو اپنے جھوٹے خدا پر جس قدر یقین ہے مسلمان کو اپنے سچّے خدا پر نہیں۔
پانچواں مغالطہ اس میں یہ ہے کہ خدا کا عقیدہ سائنس دان کے لیے علت اور معلول کے پورے سلسلہ کو دریافت کرنے میں سہولت کی بجائے رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ خدا کے عقیدہ میں یہ بات ہر گز شامل نہیں کہ خدا اپنی تخلیق کے لیے ظاہری اور خارجی اسباب و علل کے ایک سلسلہ سے کام نہیں لیتا‘ بلکہ اس عقیدہ میں یہ بات ایک ضروری عنصر کے طور پر شامل ہے کہ خدا مسبّب الاسباب اور علت العلل اور حقیقت الحقائق ہے اور اس کی تخلیق ظاہری اور خارجی اسباب و علل کے ایک سلسلہ کی صورت اختیار کرتی ہے جو ہمارے مشاہدہ اور مطالعہ میں آسکتا ہے۔ اس سلسلہ کی دریافت ہمارے مشاہدہ اور مطالعہ ٔقدرت پر موقوف ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس مشاہدہ اور مطالعہ کا حق ادا کرنا خود خدا کے عقیدہ کی رُوسے ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے‘ اور یہ کہ مشاہدہ اور مطالعہ سے درست نتائج اخذکرنے کے لیے بھی خدا کا عقیدہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ مظاہر قدرت میں سلسلۂ اسباب و علل کی ہر کڑی یعنی ہر علت اور ہر سبب بذاتِ خود ایک مظہر ِصفاتِ باری تعالیٰ اور ایک آیت اللہ ہے‘ اور ایک مردِ مؤمن کے مشاہدہ اور مطالعہ کا ایسا ہی حق دار ہے جیسے کہ اور مظاہر قدرت‘ کیونکہ وہ بھی اپنی نوعیت یا ماہیت خدا کی صفات کے عمل سے اخذ کرتا ہے اور خدا کی صفات کا آئینہ دار ہے۔ خدا کے عقیدہ کی وجہ سے سائنس دان کی تحقیق پر صرف یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ ہر علت اور سبب کے اندر خدا کی صفات کا جلوہ دیکھتا ہے‘ لہٰذا اس کو پوری طرح سے سمجھتا ہے۔ حضورﷺ کی اس دعا کے مطابق جو اُوپر نقل کی گئی ہے‘ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اشیاء کو اس طرح دیکھے جس طرح کہ وہ فی الواقع ہیں۔ اگر اسباب و علل کا سلسلہ جیساکہ وہ فی الواقع ہے‘ کسی خاص مقام پر نہیں رُکتا تو وہ سائنس دان جو سچا مسلمان ہے اپنی سائنسی تحقیق کو خدا کے عقیدہ کی وجہ سے اسے وہاں روکنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ اسے آگے لے جائے گا اور اس کی انتہا تک پہنچنے کی کوشش کرے گا اور یقین کے معاملہ میں کافر مسلمان پر سبقت لے گیا ہے۔ ؎
کافر بیدار دل پیش صنم
بہ ز دیندارے کہ خفت اندر حرم
[بُت کے سامنے بیٹھا ہوا ایک بیدار دل کافر اُس دیندار (مسلمان) سے بہتر ہے جو کعبہ میں سویا ہوا ہے۔]
غلطی سے رجوع کرنا‘ حالت انحطاط سے نجات کا واحد راستہ ہے
اگر ہم اپنی موجودہ یاس انگیز حالت ِانحطاط سے نجات پانا چاہتے ہیں تو اس کا طریق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہماری جو بڑی غلطی اس کا سبب بنی ہے اس پر اِصرار کرنا ترک کردیں اور اس سے رجوع کریں۔ عیسائی مغرب کی تقلید میں سائنس کو خد اسے اور خدا کو سائنس سے الگ نہ کریں۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق مظاہرِ قدرت کا مطالعہ آیاتُ اللہ کے طور پر کریں۔ تمام سائنسی علوم یعنی مادّی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی اور انسانی علوم کو مقدس اور اسلامی علوم سمجھیں‘ کیونکہ وہ ہمارے خدا کی پیدا کی ہوئی مقدس کائنات کے اور آیات اللہ کے تشریحی علوم ہیں ‘ اور اپنے ان آبائے اوّلین کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے جو دنیا کے سب سے پہلے سائنس دان تھے خد اکے عقیدہ کو پھر اسی طرح سائنس کی اساس بنا دیں جس طرح وہ پہلے تھا۔
سائنسی علوم کی ماڈل اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت
اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے سائنسی علوم کی ایک مثالی اسلامی یونیورسٹی بنائیں جس کی طرز پر بعد میں اور یونیورسٹیاں بنائی جاسکیں۔ اس یونیورسٹی کے لیے ایم ایس سی تک تمام سائنسی علوم کی نصابی کتابوں کو قرآن کے فلسفۂ علم کی روشنی میں نئے سرے سے اس طرح لکھیں کہ خداکی خالقیت اور ربوبیت ِ عالم کا عقیدہ ہر سائنسی علم کا مرکز اور مدار اور محور بن جائے اور طالب علم کو یہ محسوس ہونے لگے کہ وہ اس علم کا مطالعہ نہیں کر رہا بلکہ خدا کی صفاتِ خالقیت اور ربوبیت کا مطالعہ کر رہا ہے‘ جیسا کہ ان کا ظہور کائنات کے اس طبقہ یا حصّہ میں ہوا ہے جس کا علم اس کو بہم پہنچایا جا رہا ہے۔
سائنسی علوم کی تشکیل جدیدکے بنیادی اُصول
اوّل: سائنسی علوم کی تشکیل ِجدید کے دوران میں سب سے پہلی بات جو ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ صحیح تصوّرِ حقیقت کو سائنسی علوم کے اندر سمونے سے تمام غلط سائنسی علوم تبدیل ہوکر درست ہوتے ہیں اور تبدیلی نہ صرف ان علوم کے نقطۂ نظر اور ان کی غرض و غایت میں ہوتی ہے بلکہ ان کا متن یا مواد بھی بدل جاتا ہے۔ لیکن ان کے متن یا مواد کے اندر جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ طبیعیاتی علوم میں بہت کم‘ حیاتیاتی علوم میں اس سے زیادہ اور نفسیاتی یا انسانی علوم میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میںان کے موادکے اندر تبدیلی کی وسعت اسی نسبت سے زیادہ ہوتی جاتی ہے جس نسبت سے کائنات کا وہ طبقہ جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں‘ شعوری مقصدی فعلیت کے وصف سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظریۂ کائنات‘ مقصد ِکائنات کا ایک نظریہ بھی ہوتا ہے اور وہ کائنات کے تینوں طبقوں میں سے کسی طبقہ کے علم کے اندر اتنا ہی داخل ہوسکتا ہے جتناکہ خود اس طبقہ کے اندر کائنات کا مقصد شعوری طور پر آزاد یا آشکار ہو۔ مادّہ مقصدی فعلیت سے بالکل محروم ہے‘ لہٰذا نظریہ کی نوعیت مادّی یا طبیعیاتی علوم پر بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ حیوان غیرشعوری مقصدی فعلیت سے بہرہ ور ہے لہٰذا نظریہ کی نوعیت حیاتیاتی علوم پر مادّی علوم کی نسبت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے‘ لیکن انسان خود شعور ہے اور آزادانہ شعوری مقصدی فعلیت کی استعداد رکھتا ہے۔ لہٰذا نظریہ کی نوعیت نفسیاتی یا انسانی علوم پر حیاتیاتی علوم سے بھی بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک نئے نظریہ کی روشنی میں یہ سائنسی علوم یکسر بدل جاتے ہیں۔ اور یہ سائنسی علوم وہ ہیں جو انسان کی عملی زندگی کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے غلط ہونے سے انسان کی ساری عملی زندگی غلط ہو جاتی ہے‘ یہاں تک کہ وہ دوسرے سائنسی علوم کا بھی صحیح استعمال نہیں کر سکتا‘ اور ان کے درست ہونے سے اس کی ساری عملی زندگی درست ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سائنسی علوم سے بھی پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صحیح تصوّرِ کائنات کے مطابق سائنسی علوم کا تعمیر کرنا یا بدلنا انسان کے لیے کس قدر ضروری ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کسی ایک یا دوسرے نظریہ کو ریاضیات یا طبیعیات ایسے مستیقن(Exact)علوم کے اندر داخل کرنے سے ان علوم کے اندر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی لیکن یہاں میں شہرۂ آفاق حکیم سپینگلر (Spengler) کی کتاب’’The Decline of the West‘‘(زوالِ مغرب)کا ایک حوالہ درج کرتا ہوں جس سے پتا چل جائے گا کہ اس سلسلہ میں غیرجانبدارانہ محققین کی رائے کیا ہے:
’’ہر علمی حقیقت خواہ وہ کیسی ہی سادہ ہو‘ آغاز ہی سے اپنے دامن میں ایک نظریہ کو لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ چیز جسے ہم ایک حقیقت کہتے ہیں ایک نادر الوقوع اثر ہے جو ایک بیدار شخصیت پر پڑتا ہے اور تمام باتوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا وہ شخصیت جس پر یہ اثر پڑ رہا ہے یا پڑ رہا تھا کلاسیکی ہے یا مغربی‘ گاتھکی ہے یا بیرونی۔‘‘ (ص:۳۷۹)
’’ہر مستیقن (Exact )چیز بذاتِ خود بے معنیٰ ہوتی ہے۔ ہر طبیعیاتی مشاہدہ اس طرح سے تشکیل پاتا ہے کہ وہ بعض سابقہ خیالی مفروضات کی بنیاد کو ثابت کرتا ہے اور اس کے کامیاب اتمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سابقہ مفروضات اور زیادہ قابل یقین ہو جاتے ہیں۔ ان مفروضات کے بغیر نتیجہ محض خالی خولی اعداد تک منحصر ہو کر رہ جاتا ہے لیکن درحقیقت ان مفروضات سے نہ توہم الگ ہو تے ہیں اور نہ ہی ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی محقق کوشش کر کے اپنے تمام مفروضات کو جنہیں وہ جانتا ہے‘ طے کرکے ایک طرف رکھ دے تو خواہ وہ یہ سمجھے کہ اب اس کا کام بالکل صاف اور واضح ہو گیا ہے‘ تاہم جونہی وہ اپنی تحقیق کا آغاز کرے گا مفروضات پراس کا یہ تصرف نہ رہے گا کہ وہ ان کو الگ رکھ سکے بلکہ وہ خود ان مفروضات کے غیرشعوری تصرف میں چلا جائے گا‘ کیونکہ تحقیق بہر حال ایک زندہ عمل ہے اور ہر زندہ عمل میں ایک انسان اپنی ثقافت‘ اپنے عصر‘ اپنے مدرسہ اور اپنی روایات کے تابع ہونے پر مجبور ہے۔ ایمان اور علم دراصل باطنی ایقان ہی کے دو پہلو ہیں مگر ان دونوں میں ایمان کو تقدم حاصل ہے اور علم کے تمام اعتبارات پر خواہ وہ کیسے ہی غیرواضح ہوں‘ اس کی بالا دستی کا سکہ رواں ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ نظریات ہیں نہ کہ محض اعداد جو کہ تمام طبیعی علوم کی بنیاد بنتے ہیں۔ ثقافتی انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر اس اصلی سائنس کی لاشعوری طلب کروٹیں لیتی رہتی ہے جو اس کی اپنی ثقافت کی روح کے مطابق ہو اور یہ طلب قدرت کے کسی عالمگیر تصوّر کو سمجھنے اور اس پر حاوی ہونے اور اس کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے کارفرما ہوتی ہے۔ دشوار اور محنت طلب پیمائشیں‘ جو محض پیمائشوں کی خاطر کی جائیں‘ چھوٹے ذہنوں کے لیے باعث اطمینان ہونے کے سوا اور کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
ہرتصوّر جو کسی حالت میں بھی دائرۂ اِمکان میں داخل ہوتا ہے‘ اپنے موجد کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ مقولہ کہ ’’خدا نے انسان کو اپنے نمونہ پر بنایا ہے‘‘ ہر تاریخی مذہب پر صادق آتا ہے لیکن ہر طبیعیاتی علم کے لیے بھی کچھ کم صحیح نہیں‘ خواہ اس علم کی نام نہاد واقعاتی یا تجرباتی اساس کتنی ہی محکم کیوں نہ ہو۔‘‘
(ص:۳۸۱)
’’عالم کی عقلی تشکیل کی اس صورت کو (یعنی علم طبیعیات کو) ایسی ہی دوسری صورتوں پر اوّلیت دینے کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔ ہر تنقیدی علم‘ ہر مذہبی یا غیرمذہبی عقیدہ کی طرح باطنی ایقان پر ہی قائم ہوتا ہے۔ اگرچہ ہیئت اور مزاج کے اعتبار سے اس باطنی ایقان کے مظاہر لاتعداد ہوتے ہیں تاہم وہ اپنے بنیادی اُصول کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے۔ لہٰذا طبیعی علوم کا مذہب کو ہدفِ ملامت بنانا ’’بومرینگ‘‘ ایسے ہتھیار کی طرح ہے جو پھینکنے والے ہی کی سمت میں لوٹ آتا ہے۔
ہر تہذیب خیالات و اعمال کا اپنا منفرد اور ذاتی ہیولیٰ خود تیارکرتی ہے جو اس کے اپنے لیے امر حق ہوتا ہے اور اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ وہ تہذیب خود زندہ رہتی ہے اور اپنے امکانات کو آشکار کرتی رہتی ہے۔ جب کوئی تہذیب اپنے خاتمہ کے قریب پہنچتی ہے اور اس کے تخلیقی قویٰ فنا ہو جاتے ہیں یعنی اس کی قوتِ تخیل اور فکر و زباں کی قوتیں مردہ ہو جاتی ہیں تو صرف بے روح ضابطے اور مردہ نظام ہائے فکر کے ڈھانچے باقی رہ جاتے ہیں جن کو دوسری تہذیب سے وابستہ افراد لفظاً تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کو تہی از معنی محسوس کرتے ہیں یا غیراہم گردانتے ہیں۔ پھر یا تو وہ ان کو میکانکی انداز میں محفوظ کرلیتے ہیں یا حقیر جان کر فراموش کر دیتے ہیں۔ اعداد‘ ضوابط اور قوانین کا کچھ مطلب نہیں اور وہ کچھ نہیں ہوتے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کا کوئی جسد ہو‘ اور صرف ایک ایسی زندہ جماعت ہی جو اپنی زندگی کو ان کے وجود کے اندر اور ان کے وجود کی معرفت وسعت دیتی ہو اور ان کے ذریعہ سے اپنا اظہار کرتی ہو اور اندر ہی اندر ان کو اپناتی ہو اور ان کو اس کی نعمت سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی مطلق علم طبیعیات کاوجود نہیں ہوتا بلکہ الگ الگ علوم طبیعیات کا وجود ہوتا ہےجو اپنی مخصوص تہذیبوں کے گہواروں میں پروان چڑھتے اور مٹ جاتے ہیں۔‘‘(ص:۳۸۲)
’’حسی وقوف میں صرف طول و عرض ہی موجود ہوتا ہے اور یہ تعبیر کا زندہ اور ضروری عمل ہی ہے (اور یاد رہے کہ ہر زندہ چیز کی طرح یہ عمل اپنے اندر سمت‘ حرکت اور رجعت نا پذیری کے وہ تمام اوصاف رکھتا ہے جن کو ہمارا شعور ’’وقت‘‘ کی اصطلاح میں جمع کر دیتا ہے) جو ان کے اندر گہرائی پیدا کرتا ہے اور اس طرح ان کے تار و پود سے حقیقت اور نوعیت عالم کی تشکیل کرتا ہے۔ زندگی ہمارے تجربات میں‘ ایک تیسرے بعد کی حیثیت سے داخل ہوتی ہے۔‘‘
(اوسوالڈسپینگلر : ’’زوالِ مغرب‘‘ جلد اوّل‘ باب 11 ‘انگریزی اشاعت‘ 1944ء)
دوم:سائنس کی درسی کتابوں کو نئے سرے سے لکھتے وقت دوسری بات جو ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سائنسی علوم کو بدل کے اسلام کی اپنی مرغوب اور پسندیدہ تشریح کے مطابق کریں‘ مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ سے بتکلف ایسے نتائج اخذ کریں جو اسلام کی اس تشریح کے مطابق درست ہوں جوہم نے خود کر رکھی ہے۔ ایسا کرنے سے ہمیں ایک طرف سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہم سائنس دان کی امتیازی خصوصیات یعنی مخلصانہ طلب صداقت اور دیانت دارانہ جستجو ئے حقائق سے محروم ہوجائیں گے اور دوسری طرف اسلام کی اس توجیہہ کو جو ہم نے خود کر رکھی ہے خواہ غلط ہی کیوں نہ ہو‘ سائنس کے نام پر پیش کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم سائنس اور اسلام دونوں کو اپنی خواہشات کے مطابق بدل رہے ہوں گے۔ ایسا کرنا ایک بہت بڑا علمی جرم ہوگا‘ جس کا پردہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خودبخود چاک ہو جائے گا۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم کائنات میں خدا کی خالقیت اور ربوبیت اور تمام صفاتِ جلال و جمال کی کارفرمائی کو ایک معلوم اور مسلّم اور بنیادی سائنسی حقیقت کے طور پر سمجھیں اور مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ اس کی روشنی میں کریں۔ پھر ہمارے نتائج جس طرف خودبخودچلتے ہیں‘ چلتے جائیں اور ہم ان کے پیچھے پیچھے چلیں۔ قرآن حکیم کے اندر ہمیں یہی ہدایت ملتی ہے۔
یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ کا مطلب یہ ہے کہ ہم آسمانوں اور زمین کے اندر خد اکی پیدا کی ہوئی چیزوں پر جیسی کہ وہ فی الواقع موجود ہیں‘ غورو فکر کریں‘ نہ یہ کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کی توجیہہ کریں اوراس دعا میں بھی یہی ارشاد مضمر ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ ’’اے ہمارے رب! ہمیں چیزوں کو اس طرح دکھا جس طرح وہ فی الواقع موجود ہیں۔‘‘
دونوں باتوں کا فرق:ایک نظریۂ حیات کے طور پر اسلام کی صداقت مسلّم ہےلیکن اسلام کی مختلف توجیہات کی جاسکتی ہیں اور کی جارہی ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ اسلام کی ہر توجیہہ صحیح ہو کیونکہ اسلام کی صحیح توجیہہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اسے دریافت کرنا اور اسے اپنا راہ نما بنانا ہمارا فرض ہے۔ کسی علم کو جو اسلام کی کسی خاص توجیہہ کے مطابق صحیح نہ ہو‘ بدل کر اسلام کی اس توجیہہ کے مطابق کرنا اور عقیدئہ توحید یعنی خدا کی خالقیت اور ربوبیت کے عقیدہ کی روشنی میں مظاہر قدرت کا بے لاگ اور دیانت دارانہ مطالعہ اورمشاہدہ کرنا دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلا کام اس عالم دین کا ہے جو اسلام کی اس خاص توجیہہ کا حامی ہو جس کے مطابق وہ کسی علم کو بدلنا چاہتا ہے اور دوسرا کام ایک صحیح الخیال سائنس دان کا ہے۔ سائنسی علوم کی اسلامی یونیورسٹی کو پہلے کام سے نہیں‘ بلکہ دوسرے کام سے اپنے آپ کو متعلق کرنا پڑے گا۔ سائنسی علوم کی اسلامی یونیورسٹی کا مقصد فقط یہ ہو گا کہ عقیدئہ توحید کو جیسا کہ قرآن نے اس کی تشریح کی ہے‘ سائنس کی بنیاد بنایا جائے اور اس کی روشنی میں سائنسی حقائق اور مشاہدات کے نتائج کو سمجھا اور سمجھایا جائے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ سائنس دان کی بے لاگ اور دیانت دارانہ سائنسی تحقیق اسے کسی وقت ایسے نتائج پر پہنچا دے جو اسلام کی کسی خاص توجیہہ کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس صورت میں سائنس دان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ہر حالت میں اپنی تحقیق کے نتائج کے ساتھ وابستہ رہے اور سائنسی نتائج کی دنیا سے باہر اسلام کی توجیہات کی دنیا میں علماء دین کے اختلافات سے الگ رہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے نتائج صحیح ہوں تو علماء دین اس کی روشنی میں اپنے اختلافات کو مٹا کر متحد ہو جائیں یا اگر اس کے اپنے نتائج درست نہ ہوں تو وہ مزید سائنسی تحقیق کی روشنی میں اپنے نتائج کو درست کرکے اتفاقاً اسلام کی کسی اور توجیہہ کے ساتھ متفق ہوجائے۔
سوم : سائنس کی سیدھی راہ سے انحراف کا علاج:تیسری بات جو ہمیں مدّ ِ نظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ سائنس کا راستہ فقط ایک ہی ہے اور ایک سیدھی سڑک کی طرح ہے جس کی ہر اگلی منزل پچھلی منزل پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر سائنس کسی مقام پر غلط ہو کر اس راستہ سے ذرا ہٹ جائے تو پھر وہ ایک غلط راستہ اختیار کرتی ہے اور ہر روز اور زیادہ غلط ہوتی جاتی ہے اور اس کا راستہ سائنس کے اصلی راستہ سے ہر قدم پر اور دور ہوتا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک مقام ایسا آجاتا ہے جہاں سے آگے کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا۔ یہاں آکر غلط راستے پر اس کی مزید ترقی رُک جاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر ہم چاہیں کہ سائنس پھر اپنے اصلی اور صحیح راستہ پر آجائے تو ہمیں ا س کو پھر اسی مقام پر واپس لانا پڑے گا جہاں سے اس کا راستہ بدل گیا تھا اور اس غلط سائنسی حقیقت کو درست کرنا پڑے گا جس کی نادرستی کی وجہ سے اس کا راستہ ابتدا میں غلط ہوا تھا اور اس کی مزید غلطیاں ظہور پزیر ہوئی تھیں۔ اس غلط سائنسی حقیقت کو درست کرنے کے بعد خودبخود اس کی ساری بعد کی غلطیوں کی اصلاح ہو جائے گی۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ عیسائی مغرب کے سائنسی علوم میں سے ہر ایک کس کس مقام پر غلط راہ سے چل نکلا ہے جہاں اسے پھر واپس لاکرصحیح راستہ پرڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک ریل گاڑی جو ایک خاص منزل کی طرف جارہی ہو‘ راستہ کے کسی اسٹیشن پر کانٹا غلط بدلنے سے کسی غلط لائن پر آجائے اور پھر دُور تک اسی پر نکل جائے۔ اگر ہم چاہیں کہ اس کو پھر صحیح لائن پر لے آئیں تو ہم اس کو بعینہٖ اس مقام پر جہاں سے اس کا کانٹا غلط طور پر بدل دیا گیا تھا‘ واپس لانے کے بعد ہی ایسا کر سکتے ہیں‘ لیکن جب ہم ایک دفعہ اس کو صحیح راستہ پر ڈال دیں تو پھر وہ خودبخود صحیح راستہ پر چلتی جاتی ہے۔ (جاری ہے)