(حرفِ اوّل) مزاحمتی عمل اور وجودِ متحقق - ڈاکٹر ابصار احمد

10 /

مزاحمتی عمل اور وجودِ متحققڈاکٹر ابصار احمد

یہ امر واقعہ ہے کہ مزاحمت اور مدافعت کے عمل انسانی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ بہت سے مفکرین ‘ سوشل تھیورسٹس اور فلاسفہ نے مزاحمت (resistance) اور مخالفانہ /مدافعانہ کشاکش کو وجودِ متحقق(پنجاب یونیورسٹی‘ شعبہ فلسفہ کے سابق پروفیسر خواجہ غلام صادق مرحوم نےAuthentic being کے لیے اردو میں ’’وجودِ مصدقہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی جبکہ راقم نے ’’وجودِ متحقق‘‘ کو زیادہ پُرمعنی ہونےکی بنا پر ترجیح دی ہے۔) (authentic being ) کی اصل یا منبع قرار دیا ہے۔ گزشتہ صدی کے کئی عالمی سطح کے دانشوروں نے مزاحمت کے عمل کی اہمیت کو اپنی تحریروں میں نمایاں کیا ہے۔ان میں اطالوی مفکر انٹونیو گرامشی کے علاوہ مشہور یورپی نثرنگار فرانز فانوں‘ سی ایل آر جیمز اور معروف فرانسیسی وجودی مفکر ژاں پال سارتر(۱۸۰۵۔۱۹۸۰ء) اہم ترین ہیں۔ کارل مارکس کے اشتراکی مادیتی فلسفے سے متاثر ان تمام مفکرین کے نظامِ فکر میں مدافعت و مزاحمت کا محور و مرکز اور اساس معاشرے میں موجود طبقاتی کشمکش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہرت اور عالمی پزیرائی رکھنے والے ان حضرات نے مزاحمت کے phenomenon پر دقت ِنظر سے لکھا اور گہرے افکار قلم بندکیے ہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک جبر و استبداد ‘ سیاسی و معاشی جوروستم اور سخت گیری کے خلاف مزاحمت صرف ردّعمل کا نام نہیںبلکہ یہ اپنے کارکنوں میں انفرادی اور جماعتی صورت میں ایک تبدیلی کی ایجنٹ ہے جو ان میں متحقق شناخت اور خودی (authentic identity & self) کا باعث بنتی ہے۔ گزشتہ صدی کے نصف آخر میں وجودیت کا فلسفہ (Existentialism) دنیا بھر (بشمول پاکستان) کی اہم جامعات میں بہت دلچسپی اور گرم جوشی سے پڑھا اور پڑھایا گیا۔ ڈینش فلسفی کرکیگارڈ نے (سارتر سے کم و بیش ایک صدی قبل) ہیگل کی عقل پرستی کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا اور اس طرح وہ وجودیت کا آغاز کنندہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ صداقت موضوعی ہے اور عقل اسے گرفت میں نہیں لے سکتی۔ بالفاظِ دگر عقل کی مطلقیت سے انکار وجودی فکر کا ایک اساسی پہلو ہے۔ وجودیت انسان کے کسی جوہر کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ ہر قسم کے محض تجریدی‘ منطقی و سائنسی فلسفے کی نفی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ فلسفے کو فرد کی زندگی‘ تجربے اور اس تاریخی صورت حال سے گہرے طور پر مربوط ہونا چاہیے جس میں فرد خود کو پاتا ہے۔ وجودیت وہ طرزِفکر ہے جو انسانی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس کی ترکیب کے ذہنی اور عقلی پہلوئوں کی بجائے اس کے جذبی پہلو اور اساسی modes پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ کرکیگارڈ البتہ اپنی تحریروں میں کرسچین مذہبی و الٰہیاتی خیالات اور آسمانی صحیفوں میں بیان کردہ تاریخی واقعات کو اہمیت دیتے ہوئے ذاتِ الٰہ کے حوالے سے مکمل سپردگی اور کمٹ منٹ پر زور دیتا ہے۔
دوسری طرف ژاںپال سارتر اور متذکرہ بالا دانشور اٹھارھویں صدی کے فرانس میں ابھرنے والی تحریکِ تنویر‘ سیاسی انقلاب‘ انڈسٹریل ریولوشن اور الحادی فکر کے زیراثر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر فرد کے صرف خارجی حالات کو اہمیت دیتے ہیں۔ پست اور منفی انسانی احساسات جیسے بوریت‘ nausea‘ خوف اور تشویش کو بنیادی اہمیت دینے کے عملی اطلاقات اور مظاہر ان مفکرین کے ہاں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جدیدیت (modernity) من حیث الکل اور جدید نفسیات انسانی قدروں میں کسی قسم کے مابعد الطبیعیاتی عنصر اور ماورائیت کی یکسر انکاری ہے۔ اس عہد کی مخصوص ذہنی کیفیات بے چینی‘ کشیدگی اور کھچائو ہیں جو ہولناک جنگوں‘ تباہ کن ہتھیاروں ‘ شدید سماجی کایا پلٹ‘ آزادی پسند‘ گروہ پرست اور فرد دشمن عقیدوں اور روحانیت کے زوال کا نتیجہ ہیں۔ اسی کا اظہار غیر مذہبی مادیت پسند وجودی لکھاریوں کے ہاں ہوا ہے۔ مثلاً گرامشی کے فکر میں قیادت و تسلط (hegemony)کاخیال مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے مطابق حکمران طبقے کلچرل‘ نظریاتی اور اخلاقی لیڈر شپ کے ذریعے زیردست طبقات پر اپنا تسلط برقرا رکھتے ہیں جبکہ محکوم لوگ مسلسل مدافعت اور مزاحمت سے مسلط شدہ جبری شناخت اور ظالمانہ نظام کو چیلنج کرتے ہیں اور اس طور اپنے نئے متحقق وجود کا تجربہ حاصل کرتے ہیں۔
استعمار اور استعماری طاقتوں نے جس طرح colonized لوگوں پر مظالم ڈھائے اور ان کی روایات کو تہس نہس کیا ‘سی آر جیمز اور فرانز فانوں دونوں نے اس کا مطالعہ بہت گہرائی سے کیا ہے۔ فانوں اپنی مشہور تصنیف ’’The Wretched of the Earth ‘‘ میں تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح استعماری پروجیکٹ نے کالونائزر اور کالونائزڈ دونوں کو بنیادی جوہر انسانیت سے محروم کیا اور بالخصوص مؤخر الذکر یعنی مستعمرین کو اپنی مصدقہ شناخت سے جدا کر دیا۔ گویا وہ اپنی روایتی متحقق خودی‘ تعلیمی نظام‘ اجتماعی نظم‘ معاشرتی آداب اور ثقافتی اوضاع سے بالکل کاٹ دیے گئے۔ فانوں کے نزدیک مستعمرین کی مزاحمت اور جدّوجُہد سیاسی اور وجودی ہر دو طرح کی کوشش ہے۔ نظامِ ظلم کے خلاف فعال مدافعت و مزاحمت کے ذریعے ہی وہ اپنی مزعومہ مسلّمہ ذات کو بحال کر سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کرکیگارڈ اور دو تین دوسرے فلاسفہ کے علاوہ بیسویں صدی کے تمام یورپی مفکرین بلا استثناء اٹھارھویں صدی کے آغاز سے مذہب و الٰہیات دشمن نقطہ نظر اور الحادی تہذیبی فکر کے زیر اثر رہے ہیں۔ چنانچہ یہ سب خودی یا شخصی شناخت کو صرف مادی اور حیوانی معنی میں لیتے ہیں اور ان کا متحقق وجود بھی صرف نفسی جبلتوں کی تسکین سے مملو ہونے کا نام ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ انسان کے باطن اور ذات کا ایک بہت پست اور گھٹیا نظریہ ہے اور اس کی تان فلسفہ انسانیت ہی نہیں بلکہ انسان کے خاتمے کے آغاز (post-human age) کا اعلان کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس اندوہ ناک اور ہوش ربا منظرنامے (Scenario)کی اختصار کے ساتھ داستان یہ ہے :
گلوبل سطح پر گزشتہ چھ ساڑھے چھ دہائیوں کے دوران الحادی و مادی طرزِ فکر اور زاویۂ نگاہ نے بہت سے چولے بدلے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن لبرل/ سیکولر فکرکے ہیومن ازم‘ کیپٹل ازم‘ امپیریل ازم وغیرہ اور ان پر مبنی اس کے پیراڈائم میں نمو پانے والے سارے علوم نہ صرف کفر و الحاد کا زہر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ مغربی فلسفیوں اور دانش وَروں کے بقول انسانیت کے لیے تباہ کن بھی ہیں۔ جرمن فلسفی ہائیڈیگر‘ ناسا کا چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سائمن رامو‘ ہزرل (Husserl) ‘ امریکی نفسیات دان اور سوشل نقاد ایرک فروم (Erich Fromm) ‘ ہربرٹ مارکوزے‘ اڈورنو (Adorno) اور یاک ہائمر کی اہم کتاب The Dialectic of Enlightenment کا مطالعہ مغرب کے فلسفہ ٔ روشن خیالی کو خرافات قرار دیتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جدید انسان نے مذہب کی زنجیروں سے نکل کر سائنس و ٹیکنالوجی کے مذہب کو اپنا لیا ہے‘ جس سے اس کا نکلنا اب محال ہے۔ پوسٹ ٹروتھ دور میں مطلقیت اور آفاقیت بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ انسانیت‘ بے معنویت‘ بے مقصدیت (Nihilism)‘ بے اطمینانی‘ بددلی اور بے زاری انسان کا مقدر بن گئے ہیں۔ امریکی فلسفی ایڈم کرش (Adam Kirsch) کی کتاب

 The Revolt Against Humanity: Imagining a Future Without Us 

کے مشمولات اس ضمن میں ازحد فکرانگیز اور چشم کشا ہیں۔
متذکرہ بالا کتاب امریکہ کی اہم یونیورسٹی کولمبیا کی Columbia Global Reports سیریز میں گزشتہ سال(۲۰۲۳ء میں) شائع ہوئی ہے۔ اس کا سرعنوان اور sub-title دونوں ہی چونکا دینے والے ہیں: ’’انسانیت کے خلاف بغاوت اور ہمارے (یعنی انسان کے) بغیر مستقبل کی دنیا کا تصور۔‘‘ یورپ میں سترھویں صدی سے شروع ہونے والی تحریکوں نے قرونِ وسطیٰ کے افکار کو چیلنج کرتے ہوئے انسان کو مطالعات اور سوچ بچار میں مرکزی مقام دلایا‘ یہاں تک کہ ایک پوری فکری تحریک کو ہیومن ازم کہاگیا جس میں انسان کو خدا کی جگہ لا بٹھایا گیا۔ علوم کی نشاۃ ثانیہ‘ تحریک تنویر‘ مذہبی ریفارمیشن اور فرد کی آزادی (Liberalism) کی تحریکیں اسی سلسلے کی کڑیوں کے طور پر سامنے آئیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سو سال کے دوران مغرب میں لبرل ازم اور ہیومن ازم کی تنقید میں کثیر تعداد میں مفکرین کی ایسی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سو ڈیڑھ سو سال میں کلائمکس پر پہنچ کر ہیومن ازم کا بخار اتر گیا اور اس کا bubble برسٹ ہو رہا ہے۔ اکیڈیمیا اور تعلیم یافتہ لوگ ایک گہرے sense of crisis کے اعصاب شکن تجربے سے گزر رہے ہیں۔یہ کتاب اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے کہ جب انسان آسمانی ہدایت‘ وحی کی روایت اور مذہبی تعلیمات سے منہ موڑ کر اپنے حواس و عقل سے سوچتا ہے (کتب تفسیر اور عقیدہ کی اصطلاح میں اھواء) تو وہ صرف تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے۔ اس میں ہم اہل اسلام کے لیے عبرت اور سبق آموزی کا بڑا سامان ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ الاعراف‘ آیت ۱۴۶ میں اﷲ تعالیٰ اس ضمن میں صاف اور واضح اصولی رہنمائی فراہم کرتے ہیں:
{سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِہَاج وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًاج وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًاط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِیْنَ (۱۴۶)}

’’مَیں پھیر دوں گا اپنی آیات سے ان لوگوں (کے رُخ) کو جو زمین میں نا حق تکبّر کرتے ہیں۔اور اگر وہ دیکھ بھی لیں ساری نشانیاں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔اور اگر وہ دیکھ بھی لیں ہدایت کا راستہ تب بھی اس راستے کو اختیار نہیں کریں گے۔ اور اگر وہ دیکھیں برائی کا راستہ تواسے وہ (فوراً) اختیار کر لیں گے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایااور ان سے تغافل برتتے رہے۔‘‘
کتاب میں مصنف نے روایتی فکر کی وہ نہج جس میں انسان کے بارے میں کلاسیکل اور دینی لٹریچر میں عظمت‘ کائنات کے گل ِسرسبد اور خلیفۃ ﷲ ہونے کا بیان ہے‘ کو ردّ کرتے ہوئے دو مخالف اور extreme نقطہ ہائے نظر بیان کیے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے نہایت محنت اور وسعت ِنظر کے ساتھ دونوں جانب کے مغربی مفکرین اور اہل ِقلم حضرات و خواتین کے افکار اختصار کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو نہ صرف اپنے خبط ِعظمت اور غرہ سے نکالا جائے بلکہ اس کو عالمی منظر (scene) سے بالکل غائب ہی کر دیا جائے تو یہ باقی موجودات کے لیے بہتر ہو گا۔ فرانسیسی دانش وَر مثل فوکو کا خیال تو یہاں تک ہے کہ انسان ڈیڑھ دو سو سال میں صفحہ ہستی سے غائب (erase) ہو جائے گا۔ان مفکرین کا خیال ہے کہ انسان نے گزشتہ تاریخی ادوار میں نیچر اور sub-human مخلوقات کے ساتھ انتہائی منفی رویہ اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب اس کا یہاں سے غائب اور ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔ اسے یہ حضرات اینتھروپوسین اینٹی ہیومن ازم (Anthropocene Anti-humanism) کا نام دیتے ہیں۔(مغربی ریسرچرز کے مطابق بنی نوع انسان بڑے پیمانے پر نباتاتی اور حیوانی انواع کے خاتمے‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کا ذمہ دار اور مجرم ہے۔ چنانچہ ’’انسانیت‘‘ ہی کے تصور اور تعین کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ ہمیں ’’انسان‘‘ کے اس پورے تصور کو تج دینا ہو گا جو تمام مبنی بر وحی ادیان اور عرفانی لٹریچر میں مذکور ہے۔ یاللعجب!) اس کی عملیstrategy کے ضمن میں اس پوری سوچ سے اتفاق رکھنے والے لوگ دو ماڈلز بیان کرتے ہیں‘ اور دونوں ہی انتہائی مضحکہ خیز اور بودے ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ حضرت انسان سماج‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور تمدن کے معاملات میں پیچھے سے پیچھے چلا جائے حتیٰ کہ فطرت اور حیوانوں کی سطح پر آ جائے۔ مراد یہ ہے کہ ہر اعتبار سے ماضی کی طرف رجوع یعنی primitivism اور تہذیب یافتہ ’’انسانیت‘‘ کو مکمل طور پر ختم (undo) کرنے کی حکمت ِعملی۔ دوسری صورت ٹرانس/ پوسٹ ہیومن ازم کی ہے جس کے مطابق جدیدترین ٹیکنالوجی GNR یعنی Genetic, Nano-technology and Robotics کے ذریعے انسان بائیولوجی کو transcend کر کے موت کو شکست دے دے گا اور جسم سے بھی مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔ مذکورہ ہر دو صورتوں میں جدید انسان reconfigure ہوکر لافانی ہو جائے گا‘ اور یہ ٹرانس ہیومن فیز ہو گا۔
قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے آغاز سے یورپ میں آسمانی ہدایت سے کٹے ہوئے بے خداعلوم اور تمدن نے انسانیت کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا۔مغربی ممالک کا نام نہاد عروج جس کا ڈھنڈورا ہمارے ہاں کے اسلام پسند بھی پیٹتے ہیں‘ بڑے پیمانے پر سفاکی کے ساتھ قتل عام‘ غلاموں کی تجارت اور نوآبادیاتی تسلط کے ذریعے ہوا ۔ ان کے اپنے انصاف پسنددانش وروں نے استعمار کے مظالم اور لوٹ مار کے دستاویزی ثبوت نہ صرف فراہم کیے ہیں بلکہ ان موضوعات پر شرح و بسط سے لکھا ہے کہ کس طرح سائنس‘ٹیکنالوجی اور فلسفہ ٔ مادیت پر مبنی جدیدیت (modernity) نے انسانیت کو اخلاقی زوال اور پستی میں دھکیل دیا۔ چنانچہ سماجی علوم پر دسترس رکھنے والے متعدد دانش وروں میں سے معروف لاطینی امریکن میگ نیلونے The Dark Side of Modernity کے عنوان سے بہت معروف اور چشم کشا کتاب تصنیف کی۔ اسی طرح ایک اور نقادِ تہذیب ِحاضر سٹیفن ٹولمن نے کتاب Cosmopolis:The Hidden Agenda of Modernity شائع کی اور اسے بھی دوسری کئی کتابوں کے ساتھ علمی حلقوں میں خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔
سطوربالا میں مزاحمت کے حوالے سے مغربی اقوام کا صرف خارجی‘ سیاسی‘ معاشی اور کلچرل دبائو اور تسلط یا اجارہ داری کے خلاف برسرپیکار ہونا دکھایا گیا ہے لیکن فرانسیسی وجودی فلسفی سارتر نے انسان کی داخلی کشمکش کو وجودِ متحقق کے ساتھ وابستہ ہونے کے سیاق میں bad faith کا بھی ذکر کیا ہے جس سے اس کے وجودی فلسفے میں ایک نحیف سی اخلاقی جہت بھی سامنے آتی ہے۔ اسے بدعقیدگی کے بجائے بدنیتی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ بے معنویت اور لاشیئیت(nothingness) کا احساسِ زندگی کا عمیق ترین تجربہ سہی لیکن سارتر اس بات کا بھی قائل ہے کہ انسان اس کا زیادہ عرصے تک سامنا نہیں کر سکتا۔ زندگی کے تلخ حقائق مجبور کرتے ہیں کہ ہم کوئی راہِ فرار تلاش کریں‘ جسے سارترBad Faith یا جدّوجُہد برائے وجود ِغیر متحقق (بدنیتی) جیسے ناگوار نام سے پکارتا ہے۔ وجودی فکر کے مطابق انسان کی ایسی دبی ہوئی خواہشات جو محرومی ‘ حسد اور نفرت سے متعلق ہیں اور آسودگی حاصل نہیں کر پاتیں‘ اسے خود فریبی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اس صورت حال میں وہ معاشرے کے دبائو سے نکلنے کے لیے اپنی خلقی آزادی کو تج کر جھوٹی اقدار کو اپنے افعال و کردار میں نمایاں کرتا ہے اور اس طرح ایک غیر حقیقی مصنوعی زندگی گزارتا ہے۔ عمر کے آخری حصے میں سارتر نے کارل مارکس کے اشتراکی فکر اور اقتصادیات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا‘ لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ اس کی اشتراکیت اور فلسفہ ٔ انسان دوستی (Humanism) زندگی سے فرار ہی کی صورتیں ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں سارتر کا فکر اور اس کے تناقضات کا معاملہ کئی اور دانش وروں مثلاً کامیو (Camus)‘ مارسل (Marcel)وغیرہ میں بھی نظر آتا ہے اور وہ ایک طرح سے ان سب کا نمائندہ ہے۔ لغو اور بے مقصد دنیا کے حوالے سے وجودی بحران‘ خوف و تشویش اور اس میں انسانی فرد کا آزادیٔ ارادہ کے ساتھ قدری وجود کا حصول ان سب کے موضوعات ہیں۔ تحریک تنویر (Enlightenment)کی مادیت پرستی کے زیر اثر جدید نفسیات نے فرائیڈ کے افکار کے تحت انسان کو جنسی بیمارفرد قرار دیا جبکہ کرداریت کے مکتب فکر نے انسان کو ایک مشین کی مانند بنا دیا۔ اندریں صورت‘ ہوش مند اور عقل و خرد رکھنے والے حضرات کو اپنے باطنی وجودی/اخلاقی سوالات کا جواب نہیں مل پاتا اور وہ سرگردانی و کرب کی قابل رحم کیفیت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
جدید نفسیات کسی مذہبی مابعد الطبیعیاتی بنیاد (anchoring) کی بجائے فرد کے ہر قسم کے نامعقول اور غیرفطری داعیات‘ احساسات اور جذبات کو اہمیت دے کر الٰہیاتی و روحانی اصلیت سے کاٹ دیتی ہے۔یہ ایک طرح سے انسان کو نفسیانے(psychologization) کا عمل ہے۔ مغربی دنیا میں تو اس کا بہت ہی چرچا اور مطالبہ ہے کہ میرے اندرونی نفسیاتی شعوری و لاشعوری احساسات و تاثرات (feelings) ہی میری جنسی شناخت متعین کریں گے۔ چنانچہ وہاں کے سماج میں یہ جملہ ’’داخلی احساسات کے حوالے سے مَیں ایک خاتون ہوں جو ایک مرد کے جسم میں مقید ہوں‘‘ عام سننے کو ملتا ہے‘ جس کے انتہائی خطرناک نتائج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نکل رہے ہیں ۔یہ جسارت خدائی تخلیق میں بگاڑ کا ایک گھنائونا عمل بھی ہے۔(مزید تفصیل کے لیے : مکرم محمود کا مضمون ’’روایتی علم النفس اور جدید نفسیات‘‘ حکمت قرآن‘ جولائی تا ستمبر۲۰۲۳ء صفحات ۶۵تا ۶۹)
عصر حاضر میں عالمی سطح پر بنی نوعِ انسان مادیت اور جدیدیت کی اندھی تقلید (hegemonic power of modernity) میں جن ذہنی و جذباتی مخمصوں میں ظلمات گردی کا شکار ہے‘ سطور بالا میں راقم نے اس کی مختصر سی جھلک پیش کی ہے۔ اس کا واحد علاج خالق و ربّ انسان کا آخری وحی کی صورت میں خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل کردہ صحیفہ ’’قرآن کریم ‘‘ اور رسول اللہﷺ کی سُنّت ِمطہرہ ہے۔ وحی کےنور سے بے بہرہ اہل مغرب جان لیں کہ ان کے افکار و تہذیب کے شجرئہ خبیثہ کو تو کوئی ثبات نہیں لیکن اسلام اور اہل ِاسلام کی علمی و فکری جڑیں بہت گہری اور شاداب ہیں۔ مذہبی شعور اپنی اصلیت میں ذہن‘ ارادے اور طبیعت کی یکجائی اور یکسوئی سے عبارت ہے۔ انسانی شخصیت اور اس کی تشکیل کا یہ قرآنی تصور شعوراور ارادے کی مرکزیت پر اصرار کرتا ہے۔ اس لیے اپنی ماہیت میں یہ تصور اخلاقی ہے۔ یعنی انسان اپنی خداداد معیاری اور مستحکم حالت میں ایک اخلاقی اور ذمہ دار و مسئول(accountable)وجود ہے۔ تعلق مع اللہ ہی دلوں کو ثبات و جمائو عطا کرتا ہے۔ شخصیت کے نارمل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ جس اساس پر ہوگا وہ بھی اخلاقی ہے اور ظاہر ہے کہ اصولِ اخلاق جن پر شخصیت کا حقیقی سٹرکچر قائم ہے‘ محض انسانی عقل (صحیح معنی میں جہل ِخرد) کے زائیدہ نہیں بلکہ تنزیل ِربانی کی روشنی میں حتمیت اور قطعیت کے ساتھ ہمیں ملتے ہیں۔
ملحد وجودی فلسفیوں کے unauthenticنفسِ بشری کے تلون اور غیر مستحکم وجود کی بجائے قرآنی ایمان و ایقان مومن میں مضبوطی اور جمائو پیدا کرتا ہے۔ حقائق ِعلویہ کی معرفت اس میں بہیمیت کو ختم کر کے اعلیٰ اخلاق اور دنیاو آخرت کی فلاح و کامیابی کے حصول کے لیے عمل پر اُبھارتی ہے۔ اسلام میں انسان کی خودی یا شخصیت کی بحالی اور متوازن تعمیر کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ کارِ رسالت میں متوازن تعمیر خودی (قرآنی الفاظ میں’ ’تزکیۂ نفس‘‘) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پیغمبرﷺ کے عمل تزکیہ کو اوّلاً عربوں اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان قرار دیا ہے :
{لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)}(آلِ عمران)
’’بے شک اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ انہی میں سے ان کے درمیان ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا‘ ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس (کی بعثت) سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘
جب دوسری دعوتی ترجیحات کے پیش نظر آپﷺ نے ایک طالب ِتزکیہ کی طرف توجہ نہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر اظہارِ خفگی فرمایا۔ تزکیہ کی اہمیت اس امر سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مدارِ فلاح اور کامیابی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا(۹) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا(۱۰)} (الشمس)
’’یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا‘اور ناکام ہو گیا جس نے اسے مٹّی میں دفن کر دیا۔‘‘
نیز فرمایا:
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی(۱۴) وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی(۱۵) } (الاعلٰی)
’’تحقیق کامیاب ہوا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا‘ اورجو اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نما ز پڑھتارہا۔ ‘‘
اسلام میں تزکیۂ نفس دراصل انسانی اندروں (قلب و نفس)کی صفائی‘ پاکیزگی اور تجلیے کا نام ہے۔ صرف نفوسِ مزکی ہی آخرت میں اللہ کی رضا‘ اس کے انعام اور جنّت میں داخلہ پا سکیں گے۔
اسلامی تناظر (perspective) میں انسانی وجود مابعد الطبیعی اصولوں سے جڑا ہے اور لادینی فکری خارجیت کی جگہ داخلیت لے لیتی ہے۔ چنانچہ نفس میں خیر اور شر کے داعیات کے درمیان کشمکش اور تنازعہ وہ میدان ہے جس کے ذریعے باطن کی اصلاح اور تزکیہ ہوتا ہے۔تزکیۂ نفس اور حدیث ِجبریل میں بیان کردہ اسلام‘ ایمان اور احسان کی تدریجی حیثیت اور وضاحت ہمارے دور ِسلف سے دینی اساطین کی علمی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ علم النفس کے فلسفے کے نقطہ نظر سے امام حارث المحاسبی کی تصنیف ’’رسالۃ المسترشدین‘‘ امام جوزی کی کتاب ’’صید الخاطر‘‘ ‘ شیخ ابوطالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ ‘ امام غزالیؒ اور حافظ ابن قیمؒ کی انتہائی بصیرت افروز تصانیف اگرچہ تصوف اور احسان کے مضامین پر ہیں لیکن ساتھ ہی وہ نفس انسانی کی ورکنگ (فعالیت) اور احوال کے ضمن میں انتہائی گہری اور مفید معلومات بھی بہم پہنچاتی ہیں جن سے جدید دور کے مسلم نفسیات دان بھی علمی راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاً امام حارث المحاسبی کا یہ جملہ دینی اور حرثِ آخرت کے اعتبار سے بہت اہم ہے: حَاسِبْ نَفْسَکَ فِیْ کُلِّ خَطْرَۃٍ ۔ خاطرہ (جمع خواطر) انسان کے جی‘ ذہن یا قلب پر وارد ہونے والے خیال‘ تخیل یا تصور کو بالکل ابتدا اور پہلی سطح پر ہی جانچنا اور گارڈ کرنا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر شر کے حوالے سے خاطرہ وسوسہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘ اور یہ تو رحمت ِخداوندی ہے کہ وسوسہ کی سطح پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اس پر روک ٹوک نہ کی جائے اور اسے growہونے دیا جائے تو وہ بڑھ کر شہوت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور منفی معنی میں عزیمت اور ہمت کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس سٹیج پر بھی اسے دفع اور جھٹکا نہیں گیا تو پھر وہ آخر کار عمل میں ڈھل جائے گا اور اس کا فاعل پورے طور پر زیر عتاب آئے گا۔ اگر اس کا تدارک برائی کے ضد حسنہ (توبہ‘ استغفار‘ نفل نماز‘ صدقہ‘ ذکر اذکار) سے نہ کیا گیا تو وہ معصیت پختہ ہو کر عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے اور اس کا صدور بے تکلفی سے ہونےلگتا ہے۔ حافظ ابن قیمؒ نے اپنی ایک تحریر میں ’’دافع الخطرۃ‘‘ کامشورہ دیا ہے یعنی معصیت والے خاطرہ کو بالکل آغاز ہی میں اپنے سے دور کرو اور ہٹائو‘ پنپنے نہ دو۔ امام جوزیؒ اور شیخ ابوطالب المکیؒ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اسی کی وضاحت کی ہے۔
ہمارے دینی لٹریچر میں ایک قول ملتا ہے کہ عمل صالح کا آغاز اور اختتام پاک بیں آنکھیں ہیں۔ بیشتر نقصان جو انسان کے نفس کو لاحق ہوتے ہیں‘ جس نقطے سے پیدا ہوتے ہیں وہ نظر ہی ہے۔ نگاہ خیال کو جنم دیتی ہے۔ خیال سوچوں میں ڈھلتا ہے۔سوچیں خواہش کو وجود میں لاتی ہیں۔ خواہش ارادے کو جنم دیتی ہے۔ ارادہ جان پکڑنے لگے تو رفتہ رفتہ عزم بننے لگتا ہے‘ یہاں تک کہ فعل واقع ہو جاتا ہے! اِلا یہ کہ واقع ہونے میں کوئی اور چیز حائل ہو۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ نگاہ نیچی رکھنے پر صبر کر لینا اس سے کہیں آسان ہے کہ آدمی اس سے مابعد مراحل کی الم ناکی پر صبر کرے۔ ہمارے معاشرے میں مخلوط تعلیم گاہوں ‘ بازاروں اور پھر مختلف سکرینوں پر نامحرم خواتین کو دیکھنے سے جس طرح ہماری نگاہیں آلودہ ہوتی ہیں اور یہ بدنظری گناہ کی طرف لے جاتی ہے‘ یہ ہم سب کا تجربہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کے فرامین میں نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔
دل (قلب) جو دراصل انسان کا مرکز ِوجود ہے‘ اگر اپنی فطرتِ صالحہ و سلیمہ پر قائم ہے تو اس پر خیر اور نیکی کے خاطرات آتے ہیں جنہیں مذکورہ بالا متصوفانہ تصنیفات میں ’’الہام‘‘ کہا گیا ہے‘ یعنی نیکی کے فعل کا اشارہ یا انسپیریشن۔ ایک ماثور دعا میں ہمیں رشد و ہدایت کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے : اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ۔ خواطر و افکار کا ہمار ے علم اختیاری کی سطح پر سب سے پہلے تصورات کی شکل میں ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ انگریزی کا محاورہ بھی ہے کہ Ideas have consequences تویہ تصورات ارادات میں ارتقا پزیر ہوتے ہیں جو بالآخر وقوعِ فعل کا اقتضا کرتے ہیں اور ایک غافل‘ تقویٰ سے عاری شخص اس کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ خواطر سے افکار تک اگر چوکنا رہ کر نگہداشت نہیں کی گئی تو پھر لازماً فساد ہی برپا ہو گا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول مشہور ہے: حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تَحَاسَبُوا، وَزِنُوْا قَبْلَ اَنْ تُوزنَوُا، وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْاَکْبَر۔ ’’ اپنے نفس کا محاسبہ کرو‘ قبل اس کے کہ اس کا محاسبہ (آخرت میں) کیا جائے۔ اپنے اعمال کو تولو‘ قبل اس سے کہ ان کا وزن (یومِ حساب کو) کیا جائے‘ اور بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کی تیاری (تزئین) کر لو‘‘۔ قرونِ اولیٰ کے بہت سے زہاد اور عباد کے اقوال اسی مضمون کے ملتے ہیں۔ امام حارث المحاسبیؒ کا قول رَاقِبِ اللّٰہَ فِیْ کُلِّ نَفْسٍ (ہر سانس میں اللہ کا دھیان قائم رکھو)یعنی اللہ کا مراقبہ (اللہ مجھے دیکھ رہا ہے) ہی ہر قسم کی معصیت سے انسان کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
بدقسمتی سے مغرب کے علمی و کلچرل امپیریل ازم نے ہم مسلمانوں کو اپنے انتہائی شان دار علمی ورثے سے لاتعلق کر دیا ہے۔ جدید الحادی نفسیات دانوں کی کاوشیں ایک درجے میں قابل ِتعریف سہی لیکن یہ علم حیوانی و جبلی نفس سے اوپر نہیں اٹھتا۔ اس کا سارا زور تحت الشعور یا لاشعور پر ہے اور اس میں ہمیں اس عنصر سے اعتناء نہیں ملتا جسے ہم مسلمان ’’فؤاد‘‘ یا ’’قلب‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ہمارا علمی و تحقیقی کرافٹ بہت مضبوط اور مستحکم رہاہے ‘اور بحمد اللہ آج بھی ہے۔ عالمی عصری لٹریچر پر ایک نظر ڈالنے سے ہمیں جدید انسان (جواَب ہیومن سے زیادہ روبوٹک مشین ہے) کے اخلاقی اور جذباتی بانجھ پن کی دل دوز تصویر ملتی ہے۔ اس کے لیے باطن ایک جہنم ہے جس کی نشان دہی مغربی ادب کے ایک بڑے حصے میں ہو رہی ہے۔ اس وقت اہل ِاسلام کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ تعلیم و تعلّم قرآن و سُنّت اور تزکیہ پر ترکیز کریں۔ سیاسی غلبہ و اقتدار‘ حصولِ طاقت اور تمکن کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ‘وقت کا تقاضا اب یہ ہے کہ مفروضہ و مزعومہ خلعت ِعروج سے قبل اُمّت کو انفرادی و اجتماعی سطح پر ایمان واحسان کا gown پہنانے کو اہمیت دی جائے۔ ہمارا اصل ہدف معرفت ِربّ‘ تعلق مع اللہ اور حرثِ آخرت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہیے۔ خدا کی صحیح معرفت کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے اندر خدا کی صفات پیدا کرتا ہے اور حدیث کے الفاظ کے مطابق متخلق باخلاق اللہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح راقم کے اس شذرے کے عنوان میں بیان کردہ متحقق وجود (یا خودی) جہاں ایک طرف نفس مزکی ہے‘ وہاں حقیقی معنیٰ میں متخلق باخلاق اللہ بھی ہے۔
قرآن اکیڈمی میں تین ستمبر سے رجوع الی القرآن کورس کی نئی کلاسوں (پارٹI اور پارٹII )کاآغاز بحمداللہ ہو گیا۔ یہ قرآن وسُنّت کے پیامِ حق کو روشن اور درخشاں کرنے کی کوشش ہے۔ دروس‘ خطبات‘ حلقاتِ علم اور اکیڈمی میں مقیم طلبہ کے لیے مصاحبت اور نمازوں کی پابندی ان شاء اللہ ان کے عقول و کردار کی اسلامی ساخت میں مدد کرے گی۔ یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اکیڈمی کے سینئر اساتذہ رسوخ فی العلم کے ساتھ اصالت (ورثہ سلف سے تمسک رکھنا) اور معاصرت (اپنے زمانے کی حقیقتوں کا گہرا فہم) اور تدریسی عمل میں مطلوبہ صفات سے پوری طرح آگاہ اور مزین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازیں۔ آمین!