مِلاکُ التأوِیل (۳۸)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسنسُورۃُ طٰہٰ(۲۴۵) آیت ۵۳
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَکَ لَکُمْ فِیْہَا سُبُلًا }
’’جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے کھول دیے۔‘‘
اور سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّجَعَلَ لَکُمْ فِیْہَا سُبُلًا}(آیت۱۰)
’’جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنا دیے۔‘‘
اب سوال کرنے والا سوال کر سکتا ہے کہ مضمون ایک ہی ہے لیکن ایک جگہ ’’سَلَکَ‘‘ کہا اور دوسری جگہ ’’جَعَلَ‘‘ تو اس کا کیا سبب ہے؟اور ہر دو سورتوں میں ایک خاص لفظ استعمال ہوا تو یہ کیا معنی رکھتا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں الفاظ کے معنی قریب قریب ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان نعمتوں کے بیان کے بارے میں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے عطا کی ہیں اور جن کا تذکرہ سورۃ الملک کی اس آیت میں بھی بیان ہوا ہے :
{ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا.......}(آیت۱۵)
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم بنا دیا تو اس کے کندھوں پر چلو پھرو.......‘‘
دوسری بات کہ سورئہ طٰہ میں خاص طور پر لفظ ’’سَلَکَ‘‘ کیوں استعمال کیا گیا ٍ‘تو اس کاجواب یہ ہے کہ سورئہ طٰہ میں پہلے دعوت الی اللہ کے لیے نرم انداز اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے مخاطب ہیں کہ جب تم فرعون کے پاس جائو تو {فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا}(آیت۴۴) ’’تو تم دونوں اس سے نرم انداز میں بات کرو‘‘۔ اور پھر اس بات چیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان ہوا۔ فرمایا:
{ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً ط فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی(۵۳) کُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ ط }
’’اور اُسی نے آسمان سے پانی اتارا ۔پھر ہم نے اس سے طرح طرح کی سبزیاں اُگائیں۔ کھائو اور اپنے چوپائوں کو بھی چرائو۔‘‘
یہاں یہ سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں کہ اندازِ بیان میں نرمی اور لطیف انداز پایا جاتا ہے اور اس اسلوب بیان کے ساتھ ’’سَلَکَ‘‘ کالفظ زیادہ مناسبت رکھتا ہے کہ جس میں راستوں کو اپنانے اور ان میں چلنے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ جس سے لوگ اپنی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ گو دوسری آیت میں اسی مفہوم کے لیے لفظ ’’جَعَلَ‘‘ لایا گیا لیکن ’’سَلَکَ‘‘ میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے کہ نہ صرف کسی چیز کو بنایا بلکہ اسے پوری طرح آراستہ و پیراستہ بھی کیا۔ تو یہاں اس لفظ کا لایا جانا سورت کے عمومی اسلوب کے ساتھ موافقت رکھتا ہے۔
اب رہی سورۃ الزخرف کی آیت تو اس میں کُفّارِ عرب کی ہٹ دھرمیوں کے مقابلہ میں دھمکی آمیز اسلوب اپنایا گیا ہے۔ ذرا ان آیات کو دیکھئے:
{اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ(۵)}
’’کیا پھر ہم تم لوگوں سے اس نصیحت کوہٹالیں‘ اس وجہ سے کہ تم لوگ حد سے بڑھ جاتے ہو!‘‘
اور پھر پچھلی اُمتوں میں سے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا ذکر کیا:
{وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ(۷)}
’’اور ان کے پاس کوئی بھی نبی آتا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘
اور پھر ارشاد فرمایا:
{ فَاَہْلَکْنَآ اَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشًا} (آیت۸)
’’پھر ہم نے ان میںسے سب سے زیادہ زورآور لوگوں کو ہلاک کر دیا۔‘‘
یعنی نبی اکرمﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکذبین کا یہ انجام ہوتا رہا ہے۔ گویا یہاں منکرین رسالت اور دشمنانِ نبی کی کھنچائی کی جا رہی ہے۔
اس سورت کے افتتاحی کلمات بھی ملاحظہ ہوں ‘جہاں فرمایا گیا:
{ اِنَّا جَعَلْنٰـہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّـعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۳)}
’’ہم نے اسے ایک عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو۔‘‘
’’تَعقّل‘‘ (سمجھنے) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر ایمان اور ہدایت حاصل ہو جائے گی۔ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
{اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّـؤْمِنُوْا لَــکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵)} (البقرۃ)
’’کیا تم اس بات کی طمع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ انہی میں ایسے لوگوں کا ایک گروہ بھی موجود ہے جو اللہ کا کلام سنتے ہیں‘ پھر اسے سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کرتے ہیں اور وہ اس بات کو خوب جانتے ہیں۔‘‘
تو ’’لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘‘ (شاید کہ تم سمجھ جائو) کا مقام اور ہےجب کہ ’’لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ‘‘ (شاید تم ہدایت پاجائو) اور ’’لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘ (شاید کہ تم کامیاب ہو جائو) اور ’’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ (شاید کہ تم نصیحت پکڑ پائو) کا مقام اور ہے ۔
ذرا ان آیات میں غور فرمائیں تو آپ کو ان تمام تراکیب میں فرق نظر آجائے گا کہ ’’جَعَلَ‘‘ میں ایک چیز کو معرضِ وجود میں لانے کا ذکر ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔
ایک تیسری بات یہ بھی ہے کہ سورۃ الزخرف میں ’’جَعَلَ‘‘ کی تکرار ہے۔ یعنی اس سورت میں جَعَلَ کا مفہوم غالب ہے۔ ملاحظہ فرمائیں‘ شروع ہی میں ارشاد ہوا:
{اِنَّا جَعَلْنٰـہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا}
اور اس کے بعد کی آیات میں ارشاد ہوا:
{وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ(۱۲)}
’’اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپائوں کی شکل میں سواریاں بنائیں۔‘‘
تو یہاں ’’جَعَلَ‘‘ ہی مناسب تھا نہ کہ ’’سَلَکَ‘‘۔یعنی ہر سورت میں وہ لفظ لایا گیا جو اس سے مناسبت رکھتا تھا۔ واللہ اعلم!
(۲۴۶) آیت ۱۱۲
{وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا(۱۱۲)}
’’اور جو شخص بحالت ِایمان نیک اعمال کرے گا تو اسے خوف نہ ہوگا‘ نہ ظلم کا اور نہ ہی کسی نقصان کا۔‘‘
اور سورۃ الانبیاء میں ارشاد فرمایا:
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج وَاِنَّا لَہٗ کٰتِبُوْنَ(۹۴) }
’’پس جو شخص حالت ِایمان میں نیک اعمال کرےگا تو اس کی کمائی کو رائیگاں نہ ہونے دیا جائے گا ‘اور ہم اسے لکھ لیں گے۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ سورئہ طٰہ کی آیت حرف وائو کے ساتھ پچھلی آیت پر معطوف ہے اور سورۃ الانبیاء کی آیت میں حرفِ فاء لایا گیا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق پچھلی آیت سے متصل ہے اور اسی کی تفصیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دونوں آیات کا آخری حصہ مختلف ہے‘ ایک میں فرمایا:’’فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا‘‘ اور دوسری میں فرمایا: ’’فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ‘‘ تو اس اختلاف کا کیا سبب ہے؟ حالانکہ دونوں آیات کا مقصود ایک ہے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورئہ طٰہ کی آیت پچھلی آیت سے واو ِنسق کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی پچھلی آیت میں جو مضمون بیان ہوا تھا اسی کا ایک اور پہلو پیش کر رہی ہے۔ فرمایا:
{وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ط وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا(۱۱۱) }
’’اور تمام مخلوق اللہ حی قیوم کے سامنے منہ کے بل جھکی ہوئی ہو گی۔ اور ناکام ہو گا ہر وہ شخص جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا تھا۔‘‘
عربی میں ’’العانی‘‘ اسیر ِزندان کو کہتے ہیں‘ یعنی وہ شخص جو حالت ِذلت میں ہو۔ یہاں قیامت کا بیان ہو رہا ہے کہ اس دن تمام مخلوق اللہ کے سامنے عاجزی کرتی دکھائے دے گی ‘تو جو شخص ناانصافی کرتا رہا ہو گاوہ توناکام ہو جائے گا اور اس کے بالمقابل جس نے نیک اعمال کیے ہوں گے تو اسے کسی ظلم (یعنی اس کی برائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے ) کا خدشہ نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی نیکیوں میں کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا۔ تو یہاں دونوں آیات ’’وائو‘‘ کے ذریعے ایک تقابلی نقشہ پیش کر رہی ہیں‘ اور یہاں فاءِ تعقیب کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اور سورۃ الانبیاء کی آیت میں پہلے ارشاد ہوا تھا :
{وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ ط }(آیت۹۳)
’’اور آپس کے تعلقات انہوں نے توڑ دیے۔‘‘
مراد یہ ہے کہ لوگ مذاہب اور ادیان کے اعتبار سے تفرقے کا شکار ہو گئے تو اس کی بنیاد پر ان کے لیے جزا و سزا تجویز کی گئی۔ اور فاءِ تعقیب کے ساتھ اس کا ان الفاظ کے ساتھ اظہار کیا گیا:
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج } (آیت۹۴)
اور اس کے بعد مخالف گروہ یعنی بدکاروں کے حشر کا ذکر کیا:
{وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(۹۵) }
’’اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا تو اب اس کے لیے ناممکن ہے کہ وہ دوبارہ آئے (یعنی اس دنیا میں دوبارہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنی بداعمالیوں کی تلافی کر سکے)۔‘‘
اور اس کے بعد کی آیات میں جزا و سزا کا یہ مضمون جاری رہتا ہے۔ تو یہاں لفظ ’’فاء‘‘ لا کر مفہوم واضح ہو گیا کہ ایک عمل ہو گا تو اس کے نتیجے میں جزا و سزا واقع ہو گی اور اس لحاظ سے یہاں ’’وائو‘‘ کا لانا مناسب نہ تھا۔
باقی رہی دوسری بات کہ دونوں آیات کا آخری مقطع مختلف کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سورئہ طٰہ میں انس و تأنیس (اندازِ لطافت) غالب ہے کہ جس کا اظہار اس آیت سے بھی ہوتا ہے جو اس سے پہلے ہے:{وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ط} تو اس لیے یہاں ’’ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا‘‘ کے الفاظ لائے گئے۔ لیکن سورۃ الانبیاء میں اس قسم کا مضمون نہیں ہے‘ اس لیے وہاں دوسرے الفاظ لائے گئے۔اور یوں ہر آیت کا اختتام اس سورت کے مضمون سے مناسبت رکھتا ہے‘ اس لیے آیت کے اختتامی کلمات اپنی اپنی جگہ بہترین مناسبت رکھتے ہیں‘واللہ اعلم!
(۲۴۷) آیت ۱۲۸
{اَفَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ کَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی(۱۲۸)}
’’کیا انہیں اس بات نے بھی راہ نہ دکھائی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی بستیاں ہلاک کر دی تھیں کہ جن کی رہائش گاہوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں؟ بے شک اس بات میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
اور سورۃ السجدۃ میں ارشاد فرمایا:
{اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ } (آیت۲۶)
’’کیا انہیں اس بات نے ہدایت نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی بستیوں کو ہلاک کر دیا تھا؟‘‘
سوال یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں پہلے حرفِ استفہام ہے کہ جس سے مراد ایک حقیقت کی نشان دہی بھی ہے اور ڈانٹ بھی‘ اور اس کے بعد حرفِ عطف ہے ‘لیکن پہلی آیت میں یہ حرفِ عطف ’’فاء‘‘ ہے اور دوسرے میں ’’وائو‘‘ تو اس کا کیا سبب ہے ؟ ایسے ہی سورۃ السجدہ کی آیت میں ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہے:’’ مِنْ قَبْلِہِمْ‘‘۔
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم!) کہ پہلی آیت سے قبل ایسا کوئی جملہ نہیں ہے کہ جس پر اس آیت کا عطف قرار دیا جا سکے بلکہ یہاں ایک نئے کلام کی ابتدا ہو رہی ہے۔ ملاحظہ ہو کہ اس سے قبل آیات میں ان لوگوں کا حال بتا یا جا رہا ہے جنہوں نے اللہ کے ذکر سے منہ پھیرا تھا۔ ارشاد فرمایا:
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(۱۲۴) }
’’اور جو شخص ہماری یاد دہانی سے منہ پھیرے گا اسے ایک تنگ زندگی کا سامنا کرنا ہوگا اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘
{قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵) }
’’وہ کہے گا : اے میرے رب! تُو نے مجھے اندھا بنا کے کیوں اٹھایا جب کہ میں تو بینا تھا؟‘‘
{قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَاج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی(۱۲۶) }
’’اللہ فرمائے گا : یہ اس لیے کہ تجھ تک ہماری آیات آئیں تو تُو انہیں بھلا بیٹھا‘ تو اسی طرح آج تُو بھی بھلا دیا جائے گا۔‘‘
{وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰی(۱۲۷) }
’’اور ہم ایسے ہی ہر اُس شخص کو بدلہ دیتے ہیں جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہیں لاتا ہے۔ اور بے شک آخرت کا عذاب زیادہ سخت بھی ہے اور دیر تک باقی رہنے والا بھی ہے۔‘‘
اور اس کے بعد وہ مذکورہ آیت ہے جس میں ایک نئے کلام کا آغاز ہے لیکن پچھلے کلام سے اتنا تعلق ضرور ہے جیسے کہا جا رہا ہو کہ تم یہ ساری باتیں دیکھتے ہو اور پھر بھی تمہیں عبرت حاصل نہیں ہوتی! اور یہاں پر کُفّارِ قریش مخاطب ہیں کہ تم عاد اور ثمود کی تباہ شدہ بستیوں میں چلتے پھرتے ہو ‘ ان کی ہلاکت شدہ بستیو ں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو تب بھی تمہیں نصیحت حاصل نہیں ہوتی!! اس قسم کے اسلوبِ بیان میں ’’فاء‘‘ کو بطور استیناف (نئے کلام کے آغاز) کے لیے لایا جانا معروف ہے (ابومحمد ابن عطیہ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے)۔ یہ اسلوبِ بیان ایسے ہی ہے جیسے سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا:
{اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ یَشَآئُ اللہُ لَہَدَی النَّاسَ جَمِیْعًاط }(آیت۳۱)
’’کیا اہل ِایمان اس بات سے مایوس نہیں ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا!‘‘
یعنی کیا ایمان والوں کو اس بات پر اطمینان نہیں کہ اگر اللہ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے۔اس آیت میں بھی پچھلی آیت پر عطف نہیں ہے بلکہ پچھلی آیت کے معانی و مطالب کی طرف ایک قسم کا اشارہ ہے‘ یعنی جیسے پہلے کہا گیا کہ اگر قرآن کی برکت سے پہاڑوں کو بھی چلا دیا جاتا‘ یا زمین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ‘یا مردے بولنے لگتے تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ تو جان لو کہ یہ سارے کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں جان لو اے ایمان والو! کہ تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ وہ چاہتا تو تم تمام لوگوں کو ہدایت دے سکتا تھا۔ ایسے ہی سورۃ القتال (ـسورئہ محمد) میں ارشاد فرمایا:
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(۲۴) }
’’وہ کیوں نہیں تدبر کرتے قرآن میں! کیا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
یہاں بھی نئے کلام کی ابتداء ہو رہی ہے جو کہ پچھلے کلام پر معطوف نہیں ہے‘ البتہ معنی و مطالب کے اعتبار سے تعلق پایا جاتا ہے۔
اب رہی سورۃ السجدۃ کی آیت تو یہاں پچھلی ایک آیت ملاحظہ ہو:
{ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَاط } (آیت۲۲)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا کہ جسے اُس کے رب کی آیات سے نصیحت کی گئی تو پھر اُس نے ان سے مُنہ پھیرا۔‘‘
گویا اگلی چند آیات کے بعد ’’اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ‘‘ سے پہلے اس طرح کا ایک جملہ مقدر مانا جائے گا :’’اَفَلَا یَذَّکَّرُوْا‘‘ تو کیا پھر انہیں نصیحت نہیں ہوئی؟ اور یہ کہ انہوں نے منہ کیوں پھیرا؟ اور اس جملے پر اگلی آیت وائوعطف کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی ’’اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ‘‘ تو کیا انہیں اس بات سے ہدایت حاصل نہیں ہوئی کہ ہم نے ان سے یعنی اہل مکہ سے قبل کتنی بستیوں کو ہلاک کیا ہے کہ جن میں وہ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔یہاں واو العطف ہی مانا جائے گا کیونکہ ’’وائو‘‘ نئے کلام سے قبل نہیں لایا جاتا۔ اس بیان سے وضاحت ہو گئی کہ دونوں آیات (سورئہ طٰہٰ اور سورۃ السجدۃ) کے مقاصد میں اختلاف ہے‘ اس لیے ایک میں فاء ہے اور دوسرے میں وائو ہے۔
اب رہی یہ بات کہ سورۃ السجدۃ کی آیت میں ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہے (مِنْ قَبْلِہِمْ) تو اس سے عمومیت کا مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ اس سے چند آیات قبل مؤمن اور فاسق کی تقسیم کا بیان ہوا ہے۔
{اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًاط} (آیت۱۸)
’’تو کیا جو شخص ایمان لاتا ہے وہ اُس کی مانند ہو سکتا ہے جو فاسق ہو؟‘‘
اور پھر مذکورہ آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا تھا:
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ط اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ(۲۶) }
’’بے شک اس میں نشانیاں ہیں ۔تو کیا یہ لوگ نہیں سنتے؟‘‘
یہاں عموم پایاجاتا ہے ‘جبکہ اس کے مقابلے میں سورئہ طٰہ کی آیت میں ارشاد ہوا تھا:
{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُو لِی النُّہٰی(۱۲۸) }
’’بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔‘‘
اور اس اعتبار سے سورۃ السجدہ کی آیت کے عموم کو ظاہر کرنے کے لیے ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ کیا گیا‘ واللہ اعلم!
(۲۴۸) آیت ۱۳۰
{فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَاج }
’’تو آپ صبر کریں ان باتوں پر جو یہ لوگ کہتے ہیں‘ اور اپنے ربّ کی تسبیح اور تعریف بیان کرتےرہیے سورج کے نکلنے سے پہلے بھی اور اس کے غروب ہونے سے قبل بھی۔‘‘
اور سورئہ قٓ میں ارشاد فرمایا:
{فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَـبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَـبْلَ الْغُرُوْبِ(۳۹)}
’’تو آپ صبر کریں ان باتوں پر جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے رہیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے۔‘‘
اور سورۃ الطور میں ارشاد فرمایا:
{وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ (۴۸) وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ(۴۹)}
’’اور اپنے رب کے حکم کے (انتظار میں) صبر سے کام لیجئے ‘بے شک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کریں جب آپ (صبح کو) اٹھیں اور رات کو بھی اسی کی تسبیح بیان کریں اور ستاروں کے ڈوبنے کے بعد بھی۔‘‘
تو ان آیات میں الفاظ اور ضمائر کا فرق کیوں ہے؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے ‘ واللہ اعلم کہ یہاں آیات کے فواصل اور مقاطع (آخری الفاظ) کا بظاہر خیال رکھا گیا ہے۔ اب دیکھئے کہ سورئہ ق کی آیت ’’الْغُرُوْب‘‘ پر ختم ہوتی ہے ‘اور اس سے قبل جو آیت ہے اس کا آخری لفظ ’’لُغُوْب‘‘ہے‘ فرمایا:
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ق وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّــغُوْبٍ(۳۸)}
’’اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ ان سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا‘ اور ہمیں کچھ تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی۔‘‘
اور جہاں تک سورئہ طٰہ کی آیت ہے تو اس سورت کی آیات ایسے لفظ پر ختم ہوتی ہیںکہ جن کے آخر میں الف مفتوح ہے (جیسے النُّہٰی‘ مُسَمّٰی‘ تَرْضٰی‘ اَبْقٰی)اور اسی کے دوران ’’قَبْلَ غُرُوْبِھَا‘‘ (الف کے ساتھ) کے الفاظ لائے گئے۔[مؤلف نے سورۃ الطور کی آیات کا ذکر نہیں کیا ۔ اس میں بھی آخری دو آیات کے مقاطع یکساں ہیں: یعنی ’’حِیْنَ تَقُوْمُ‘‘ اور ’’اِدْبَارَ النُّجُوْمِ‘‘ ۔]
پھر مؤلف یہاں آیت کے معانی و مطالب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہاں نبی اکرمﷺ مخاطَب ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کُفّار کی اذیت بھری باتوں پر صبر کریں‘ جیسے انہوں نے نبیﷺ کو کبھی کاہن کہا‘ کبھی مجنون اور کبھی ساحر‘ اور بھی نہ جانے کیا کچھ کہا۔ اور پھر سورۃ البقرۃ میں دو چیزوں کا ذکر کیا کہ جو ان کی استقامت میں کام دیں گی۔ فرمایا:
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط} (آیت۴۵) ’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘
یہاں (یعنی آیات مذکورہ میں بھی) ان دونوں باتوں کا بیان ہو گیا۔ صبر کا بھی اور نماز کا بھی کہ جس کا اظہار تسبیح و تحمید سے ہو رہا ہے۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے ۔اور اگر تسبیح اور تحمید کے لفظی معنی بھی مراد لیے جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ اگر سورۃ صٓ کی آیت کو لیا جائے تو وہاں اشکال واقع ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
{اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِج اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ(۱۷)}
’’اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان پر صبر کیجیے اور ہمارے بندے دائود کو یاد کیجیے ‘ جو بڑی طاقت والے تھے اور بہت زیادہ رجوع کرنے والے بھی تھے۔‘‘
اشکال یہ ہے کہ یہاں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور اس ضمن میں حضرت دائود علیہ السلام کی مثال دی گئی ہے کہ وہ قوت اور دبدبہ بھی رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ کثرت سے توبہ بھی کیا کرتے تھے‘ تو ان دونوں باتوں میں کیا مناسبت ہے۔
مؤلف نے یہاں زمخشری کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے جو توجیہہ بیان کی ہے‘ وہ درست نہیں ہے‘ اس لیے میں اس موضوع کو سورۃ ’’صٓ‘‘ کی آیات کے ضمن میں تفصیل سے بیان کروں گا۔
سُورۃُ الانبیاء(۲۴۹) آیت ۲
{مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَہُمْ یَلْعَبُوْنَ(۲) }
’’اور جو بھی نئی نصیحت ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے آتی ہے ‘ وہ اسے کھیل کود کے عالم میں سنتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ الشعراء میں ارشاد فرمایا:
{وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا کَانُوْا عَنْہُ مُعْرِضِیْنَ (۵) }
’’اور جو بھی نئی نصیحت ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے آئی‘ انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا۔‘‘
یہاں پہلی آیت میں نصیحت کے بارے میں ’’مِّنْ رَّبِّہِمْ‘‘(ان کے رب کی طرف سے) کے الفاظ آئے اور دوسری آیت میں ’’مِّنَ الرَّحْمٰنِ‘‘ کے الفاظ آئے‘ تو یہ فرق کیوں روارکھا گیا‘ حالانکہ دونوں آیات کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس نصیحت پر توجہ نہ دی۔
اس کا جواب ‘ واللہ اعلم‘ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ دونوں عظمت والے نام کئی جگہ ساتھ ساتھ آئے ہیں‘ جیسے سورۃالفاتحہ‘ اور دوسری بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا نام ’’الرَّحمٰن‘‘ اکثر جگہ جہاں بھی آیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے معاف کرنے‘ احسان کے ساتھ سلوک کرنے‘ بندوں کے ساتھ نرمی‘ شفقت اور انسیت کے ساتھ پیش آنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ملاحظہ ہو بسملہ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ‘ اُمّ القرآن (سورۃ الفاتحہ) ‘ سورئہ طٰہ کی شروع کی آیات ‘سورۃ الشعراء کی مذکورہ آیت اور وہ آیات جو سورۃ الفرقان کی اس آیت کی مانند ہیں:
{وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ ......} (آیت۶۰)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمٰن کے لیے سجدہ کرو......!‘‘
ان آیات کو سمجھنے کے لیے ہماری ان گزارشات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔
اسم ’’رب‘‘ ترغیب اور ترہیب دونوں کے لیے آتا ہے۔ ترغیب کا عنصر تو بالکل واضح ہے ۔ جہاں تک ترہیب (ڈرانے) کامسئلہ ہے تو وہ اس لحاظ سے ہے کہ یہ لوگ کیوں نہیں اس بات پر غور کرتے کہ اللہ ان کا مالک ہے۔ وہی تو ہے جس نے انہیں وجود بخشا ہے‘جو انہیں بے پناہ رزق سے نوازتا ہے ‘اور ان تمام باتوں میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ‘تو پھر وہ کفر کیوں کرتےہیں؟یہاں (سورۃ الانبیاء)صفت ’’الرحیم‘‘ لانے کا موقع نہ تھا۔ سورۃ کا آغاز ہی ان باہیبت الفاظ کے ساتھ ہو رہا ہے :
{اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (۱) }
’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ مُنہ پھیر ے ہوئے غفلت میں پڑے ہیں۔‘‘
دیکھئے یہاں کس قدر خوف دلایا جا رہا ہے ‘اور پھر یہاں ’’لِلنَّاسِ‘‘ کہہ کر تمام بنی نوعِ بشر مراد ہیں‘ صرف مؤمنین مراد نہیں ہیں ۔ یہ اسلوب عام طور پر اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب ڈرانا ‘دھمکی دینا‘ راہِ عبادت پر لانا اور اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دینا مقصود ہو۔اس کے بعد یہ جو اوصاف بیان ہوئے کہ وہ غفلت میں پڑے رہے‘زندگی کو کھیل کود سمجھتے رہے تو اس سے مراد کُفّار ہیں۔ یہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ مکی سورت ہے اور یہاں کُفّار مکہ ہی کا تذکرہ ہے جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ظالم ہیں‘ سرگوشیاں کرتے ہیں:
{وَاَسَرُّوا النَّجْوَیق الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاق } ’’اور ظالم لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں۔‘‘
اور جنہوں نے کہا:
{ہَلْ ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(۳) }
’’کیا یہ شخص تمہارے جیسا ایک بشر نہیں ہے‘ اور تم دیکھتے بھالتے اس کے جادومیں آجاتے ہو۔‘‘
اور جہاں تک سورۃ الشعراء کی آیت کا تعلق ہےتو اس کی بنیاد نبی مکرمﷺ کو تسلی دینا اور ان کی دل دہی کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ ان کی قوم کا ایمان لانے سے رک جانا بربنائے تقدیر الٰہی ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں بڑی سے بڑی نشانی دکھا سکتا تھا ‘جیسے بنی اسرائیل کے اوپر پہاڑ کو جھکا دیا تھا۔ اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
{اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ(۴) }
’’اگر ہم چاہتے تو ان کے اوپر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیتے کہ جس کے آگے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں۔‘‘
اب جبکہ نبیﷺ سے ایک خطابِ مرحمت مقصود ہو اور یہ بتایا جا رہا ہو کہ ان مکذبین سے عذاب اس لیے مؤخر کیا گیا ہے تاکہ جن کے نصیب میں ایمان مقدر ہو وہ ایمان لا سکیں تو یہاں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ’’الرحمٰن‘‘ لانا مناسب تھا‘اور اسی لیے اس آیت میں الرحمٰن کا ذکر کیا گیا:
{وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا کَانُوْا عَنْہُ مُعْرِضِیْنَ(۵) }
اور یوں واضح ہو گیا کہ پہلی سورت میں ’’ربّ‘‘ کا ذکر مناسب تھا اور دوسری میں ’’الرحمٰن‘‘ کا‘ واللہ اعلم!
(۲۵۰) آیت ۳۶
{وَاِذَا رَاٰکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًاط اَہٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِہَتَکُمْ ج وَہُمْ بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ(۳۶) }
’’اور (اے نبیﷺ !)جب انکار کرنے والے آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے دیوتائوں کو (برا بھلا) کہتا ہے؟ اور وہ خودالرحمٰن کو یاد کرنے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
{وَاِذَا رَاَوْکَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًاط اَہٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللہُ رَسُوْلًا(۴۱) اِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْہَاط}
’’اور (اے نبیﷺ !)جب وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے مسخرہ پن ہی کرتے ہیں ‘(اور کہتے ہیں) کہ کیا یہ وہی شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ یہ تو قریب تھا کہ ہمیں اپنے دیوتائوں سے بہکا دیتا‘ وہ تو ہم ہی تھے جو ان کی (عبادت پر) جمے رہے۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
(۱) پہلی آیت میں فاعل (یعنی الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا) کو ظاہر کیا گیا جب کہ دوسری آیت میں اس کی طرف ضمیر جمع سے اشارہ کیا گیا ـ(رَاَوْکَ)۔
(۲) دونوں آیات کے آخری کلمات مختلف ہیں۔
تو اس کا کیا سبب ہے؟
پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ الانبیاء کی آیت سے قبل ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں خاص طور پر نبیﷺ کے معاصر کُفّار کی تعیین کی گئی ہو‘ کہ یہاں وہی مراد ہیں اور کوئی دوسرے اہل کفر مراد نہیں ہیں۔ البتہ آیت۳۰ میں کُفّار کا عمومی تذکرہ ہے۔ فرمایا:
{اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَاط }
’’کیا وہ لوگ جو انکار کرتے ہیں‘ یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے تو ہم نے ان دونوں کو پھاڑ دیا!‘‘
تو یہاں ہر طرح کے کُفّار کی طرف اشارہ ہے جو کہ مکلّف اور عقل و شعور رکھنے والے تھے‘ اب چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب‘ معاصر ہوں یا نہ ہوں‘ سب ہی مراد ہو سکتے ہیں‘ اور بعد کی آیات میں بھی کسی آیت سے اس عموم کی نفی نہیں ہوتی۔اس لیے ضروری تھا کہ آیت مذکورہ میں فاعل (الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا) کو ظاہر کیا جاتا۔ لیکن اگر صرف ضمیر لائی جاتی اور کہا جاتا ’’وَاِذَا رَاَوْکَ‘‘ تو یہ ضمیر آیت۳۰ میں مذکور کُفّار کی طرف لوٹتی کہ جو نبیﷺ کے معاصر کُفّار کے ساتھ خاص نہیں ہے‘ اور یہ بات مناسب نہ تھی۔ لیکن سورۃ الفرقان کی آیت سے قبل ارشاد فرمایا:
{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃًج } (آیت۳۲ )
’’اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ اس (نبیﷺ) پر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا کیوں نہ نازل ہوا؟‘‘
یہ بات تو واضح ہے کہ اس قول کے کہنے والے نبی اکرمﷺ ہی کے زمانے کے لوگ تھے ‘ اس لیے جب دوبارہ انہی کا ایک دوسرا قول پیش آیا تو اس کی طرف ضمیر جمع لا کر اشارہ کر دیا گیا کہ یہ عام عربی اسلوب ہے جس میں اختصار پایا جاتاہے۔
یعنی سورۃ الفرقان کی آیت میں ضمیر کا لایا جانا اور سورۃ الانبیاء میں فاعل کا اظہار کرنا ہی سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا تھا۔ واللہ اعلم!
اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الانبیاء کی مذکورہ آیت سے قبل کئی آیات میں اٰلِہَۃ (دیوتائوں) کا ذکر ہے۔ فرمایا:
{اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنْشِرُوْنَ(۲۱) }
’’کیا انہوں نے زمین میں ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں؟‘‘
{لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَاج } (آیت۲۲)
’’اگر زمین و آسمان میں متعدد الٰہ ہوتے اللہ کے سوا تو وہ سب درہم برہم ہو کے رہ جاتے۔‘‘
{اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃًط } (آیت۲۴)
’’کیا انہوں نے اللہ کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں؟‘‘
تو اس لیے مناسب تھا کہ کہا جائے : {اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ} (آیت۳۶)
اور سورۃ الفرقان کی مذکورہ آیت سے قبل ’’رسول‘‘ کا ذکر آتا ہے۔ فرمایا:
{مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط } (آیت۷)
’’یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے!‘‘
تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ رسول ایک بشر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے مذکورہ آیت میں بھی ’’رسول‘‘ کا ذکر کیا گیا: {اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللہُ رَسُوْلًا (۴۱)}
یہاں بھی ان کے اسی زعم باطل کا اظہار ہو رہا ہے کہ کیانوعِ بشر میں سے رسول ہو سکتا ہے؟ اور ان کے اس اعتراض کا جواب بھی آیت ۲۰میں دیا گیا:
{وَمَآاَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ ۭ}
’’اور جو بھی تم سے قبل ہم نے رسول بھیجے تھے وہ بھی کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتےتھے۔‘‘
اور یوں ان دونوں الفاظ کے اپنی اپنی جگہ پر آنے کی مناسبت واضح ہو گئی۔ واللہ اعلم!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024