ترجمہ ٔ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح
افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ الْحِجْر
آیات ۴۵تا ۵۰{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ(۴۵) اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۴۶) وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۴۷) لَا یَمَسُّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ وَّمَا ہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِیْنَ(۴۸) نَــبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۴۹) وَاَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰) }
ترکیب
ان آیات میں قیامت کے واقعات کاذکر ہے‘ اس لیے جملہ اسمیہ یعنی حال اور فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔ (آیت۴۶) اٰمِنِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے ۔ (آیت۴۷) اِخْوَانًا سے پہلے کوئی فعل محذوف مانا جائے گا۔ اِخْوَانًا اس کا حال ہے۔ مُتَقٰبِلِیْنَ بھی حال ہے۔ (آیت۴۹) اَنَا الْغَفُوْرُ میں اَنَا ضمیر فاصل ہے۔ (آیت۵۰) ھُوَ الْعَذَابُ میں بھی ھُوَ ضمیر فاصل ہے۔
ترجمہ:
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ : یقیناً تقویٰ کرنے والے
فِیْ جَنّٰتٍ : باغوں میں
وَّعُیُوْنٍ : اور چشموں میں ہوں گے
اُدْخُلُوْہَا :(کہا جائے گا:) تم لوگ داخل ہوجائو ان میں
بِسَلٰمٍ : سلامتی کے ساتھ
اٰمِنِیْنَ:امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے
وَنَزَعْنَا :اور ہم کھینچ نکالیں گے
مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ :اس کو جو ان کے سینوں میں ہے
مِّنْ غِلٍّ : کوئی بھی کدورت
اِخْوَانًا :(وہ بیٹھیں گے) بھائی ہوتے ہوئے
عَلٰی سُرُرٍ :تختوں پر
مُّتَقٰبِلِیْنَ :آمنے سامنے
لَا یَمَسُّہُمْ : نہیں چھوئے گی ان کو
فِیْہَا نَصَبٌ : اس میں کوئی مشقت
وَّمَا ہُمْ مِّنْہَا :اور وہ نہیں ہوں گے اس سے
بِمُخْرَجِیْنَ:نکالے جانے والے
نَــبِّئْ :آپؐ خبر دیں
عِبَادِیْٓ :میرے بندوں کو
اَنِّیْٓ :کہ مَیں
اَنَا الْغَفُوْرُ :ہی بے انتہا بخشنے والا ہوں
الرَّحِیْمُ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہوں
وَاَنَّ عَذَابِیْ :اور یہ کہ میرا عذاب
ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ: ہی دردناک عذاب ہے
آیات ۵۱ تا ۶۰{وَنَبِّئْہُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ(۵۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ(۵۲) قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۵۳) قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰٓی اَنْ مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ(۵۴) قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ (۵۵) قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(۵۶) قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ(۵۷) قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(۵۸) اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ ط اِنَّا لَمُنَجُّوْہُمْ اَجْمَعِیْنَ(۵۹) اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآلا اِنَّہَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۶۰) }
ق ن ط
قَنِطَ یَقْنَطُ (س) قَنَطًا وَقَنَطَ یَقْنِطُ (ض) قُنُوْطًا و وَقَنُطَ یَقْنُطُ (ک) قَنَاطَۃً : مایو س ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۵۶۔
قَانِطٌ (اسم الفاعل) : مایوس ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۵۵۔
قَنُوْطٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) :بے انتہا مایوس ہونےو الا‘ انتہائی مایوس۔ { وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ(۴۹) } (حٰم السجدۃ) ’’اور اگر چھوئے اس کو برائی تو انتہائی ناامید انتہائی مایوس ہے۔‘‘
ترجمہ:
وَنَبِّئْہُمْ :اور آپؐ خبر دیں ان کو
عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ:ابراہیمؑ کے مہمانوں کے بارے میں
اِذْ دَخَلُوْا : جب وہ داخل ہوئے
عَلَیْہِ :انؑ پر
فَقَالُوْا : پھر انہوں نے کہا
سَلٰمًا :سلام
قَالَ : (ابراہیمؑ نے)کہا
اِنَّا مِنْکُمْ: کہ ہم تم لوگوں سے
وَجِلُوْنَ : خوف زدہ ہیں
قَالُوْا:انہوں نے کہا
لَا تَوْجَلْ : آپؑ مت ڈریں
اِنَّا :بے شک ہم
نُبَشِّرُکَ : خوشخبری دیتے ہیں آپؑ کو
بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ: ایک صاحب علم لڑکے کی
قَالَ : (ابراہیمؑ نے) کہا
اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ :کیا تم لوگوں نے خوشخبری دی مجھ کو
عَلٰٓی اَنْ :اس کے باوجود کہ
مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ:چھوا مجھ کو بڑھاپے نے
فَبِمَ :تو کس چیز کی
تُبَشِّرُوْنَ :تم لوگ خوشخبری دیتے ہو
قَالُوْا :انہوں نے کہا
بَشَّرْنٰکَ :ہم نے خوشخبری دی آپؑ کو
بِالْحَقِّ :حق کے ساتھ
فَلَا تَکُنْ :تو آپؑ مت ہوں
مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ :مایوس ہونے والوں میں سے
قَالَ :(ابراہیمؑ نے) کہا
وَمَنْ یَّقْنَطُ :اور کون مایوس ہوتا ہے
مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ: اپنے ربّ کی رحمت سے
اِلَّا الضَّآلُّوْنَ :سوائے گمراہ ہونے والوں کے
قَالَ :(ابراہیمؑ نے) کہا
فَمَا خَطْبُکُمْ :تو کیا تم لوگوں کا مدعا ہے
اَیُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے بھیجے ہوئے لوگو
(یعنی فرشتو)
قَالُوْٓا :انہوں نے کہا
اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : کہ ہم کو بھیجا گیا ہے
اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ : ایک مجرم قوم کی طرف
اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ : سوائے لوطؑ کےپیروکاروں کے
اِنَّا :بے شک ہم
لَمُنَجُّوْہُمْ:ضرور نجات دینے والے ہیں ان کو
اَجْمَعِیْنَ :سب کے سب کو
اِلَّا امْرَاَتَہٗ:سوائے انؑ کی عورت کے
قَدَّرْنَآ :ہم نے مقررکیا
اِنَّہَا:بے شک وہ
لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ:لازماً پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے
آیات ۶۱ تا ۶۶{ فَلَمَّا جَآئَ اٰلَ لُوْطِ نِ الْمُرْسَلُوْنَ(۶۱) قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ (۶۲) قَالُوْا بَلْ جِئْنٰکَ بِمَا کَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ(۶۳) وَاَتَیْنٰکَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۶۴) فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَہُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ(۶۵) وَقَضَیْنَآ اِلَیْہِ ذٰلِکَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ ہٰٓؤُلَآئِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ(۶۶)}
ترجمہ:
فَلَمَّا جَآئَ :پھر جب آئے
اٰلَ لُوْطِ نِ: آلِ لوطؑ کے پاس
الْمُرْسَلُوْنَ :بھیجے ہوئے (فرشتے)
قَالَ اِنَّکُمْ:تو (لوطؑ نے) کہا :بے شک تم لوگ
قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ :ایک اجنبی قوم ہو
قَالُوْا :انہوں نے کہا
بَلْ جِئْنٰکَ :بلکہ ہم آئے آپؑ کے پاس
بِمَا:اس کے ساتھ
کَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ:جس میں یہ شک کرتے تھے
وَاَتَیْنٰکَ :اور ہم پہنچے آپؑ کے پاس
بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ
وَ اِنَّا :اور بے شک ہم
لَصٰدِقُوْنَ : یقیناً سچ کہنے والے ہیں
فَاَسْرِ :تو آپؑ لے کر نکلیں
بِاَہْلِکَ : اپنے گھر والوں کو
بِقِطْعٍ :ایک حصہ میں
مِّنَ الَّیْلِ :رات میں سے
وَاتَّبِعْ :اور آپؑ پیچھے چلیں
اَدْبَارَہُمْ :ان کی پیٹھوں کے
وَلَا یَلْتَفِتْ :اور چاہیے کہ مڑ کر نہ دیکھے
مِنْکُمْ اَحَدٌ :تم میں سے کوئی ایک بھی
وَّامْضُوْا: اور تم لوگ گزر جائو
حَیْثُ :جہاں سے
تُؤْمَرُوْنَ :تمہیں حکم دیا جاتا ہے
وَقَضَیْنَآ :اور ہم نے فیصلہ کیا
اِلَیْہِ :اس کی طرف
ذٰلِکَ الْاَمْرَ :اس بات کا
اَنَّ دَابِرَ ہٰٓؤُلَآئِ : کہ ان لوگوں کی جڑ
مَقْطُوْعٌ : کاٹی جانے والی ہے
مُّصْبِحِیْنَ: صبح کرنے والے ہوتے ہوئے
نوٹ۱: فرشتوں کا یہ کہناکہ ہم اس چیز کے ساتھ آئے ہیں جس میں یہ شک کرتے تھے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس سے آپؑ اپنی قوم کو ڈراتے رہے ہیں لیکن وہ برابر شک میں ہی پڑے رہے۔(تدبر ِقرآن)
نوٹ۲:حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے گھر والوں کے پیچھے چلنے کی ہدایت اس غرض سے کی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی ٹھہرنے نہ پائے۔ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی ہدایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جائو گے‘ جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شوروغل سن کر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھہرجانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کوئی گزند پہنچ جائے۔ (تفہیم القرآن)
روایات میں آتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہﷺ کو معذب قوموں کی بستیوں پر سے گزرنے کا اتفاق پیش آتا تو آپؐ وہاں سے تیزی سے گزرجاتے اور دوسروں کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے۔ (تدبر قرآن)
آیات ۶۷ تا ۷۹{وَجَآئَ اَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷) قَالَ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(۶۸) وَاتَّقُوا اللہَ وَلَا تُخْزُوْنِ(۶۹) قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَنْہَکَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۷۰) قَالَ ہٰٓؤُلَآئِ بَنٰتِیْٓ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۷۱) لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ(۷۲) فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ(۷۳) فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ(۷۴) اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ(۷۵) وَاِنَّہَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(۷۶) اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۷۷) وَاِنْ کَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ لَظٰلِمِیْنَ(۷۸) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ م وَاِنَّہُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ(۷۹)}
ف ض ح
فَضَحَ یَفْضَحُ (ف) فَضْحًا : کسی کو ذلیل و خوار کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۶۸۔
و س م
وَسَمَ یَسِمُ (ض) وَسْمًا : کسی چیز پر نشان لگانا‘ داغ دینا۔ {سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ} (القلم) ’’ہم داغ دیں گے اس کو ناک پر۔‘‘
تَوَسَّمَ (تفعل) تَوَسُّمًا :نشان او ر علامات دیکھ کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرنا‘ صاحب ِفراست ہونا۔
مُتَوَسِّمٌ (اسم الفاعل) : صاحب ِفراست۔ زیر مطالعہ آیت۷۵۔
ء ی ک
أَیِکَ یَیْئُکُ (ک) اَیْکًا : درختوں کا گھنا اور گنجان ہونا۔
اَیْکَۃٌ (صفت) : گھنا درخت۔ زیر مطالعہ آیت۷۸۔
ترجمہ
وَجَآئَ : اور آئے
اَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ : شہر کے لوگ
یَسْتَبْشِرُوْنَ :خوشی مناتے ہوئے
قَالَ :(لوطؑ نے) کہا
اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ :بے شک یہ لوگ
ضَیْفِیْ:میرے مہمان ہیں
فَلَا تَفْضَحُوْنِ :تو تم لوگ خوار مت کرو مجھ کو
وَاتَّقُوا اللہَ : اور ڈرو اللہ سے
وَلَا تُخْزُوْنِ :اور رسوا مت کرو مجھ کو
قَالُوْٓا :ان لوگوں نے کہا
اَوَ :تو کیا
لَمْ نَنْہَکَ :ہم نے منع نہیں کیا تھا آپؑ کو
عَنِ الْعٰلَمِیْنَ : تمام جہان والوں (کی حمایت) سے
قَالَ :(لوطؑ نے) کہا
ہٰٓؤُلَآئِ : یہ
بَنٰتِیْٓ :میری بیٹیاں ہیں
اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو
فٰعِلِیْنَ :کام کرنے والے
لَعَمْرُکَ : آپؐ کی عمر کی قسم
اِنَّہُمْ:بے شک یہ لوگ
لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ : یقیناً اپنی مدہوشی میں
یَعْمَہُوْنَ:بھٹکتے ہیں
فَاَخَذَتْہُمُ :پھر پکڑا ان کو
الصَّیْحَۃُ :چنگھاڑنے
مُشْرِقِیْنَ :اشراق ہوتے ہوئے
فَجَعَلْنَا :پھر کر دیا ہم نے
عَالِیَہَا :اس کے بلند ہونےو الے کو
سَافِلَہَا:اس کا نیچے ہونے والا
وَاَمْطَرْنَا :اور برسائے ہم نے
عَلَیْہِمْ :ان پر
حِجَارَۃً :کچھ پتھر
مِّنْ سِجِّیْلٍ:سخت مٹی میں سے
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ : بے شک اس میں
لَاٰیٰتٍ : یقیناً نشانیاں ہیں
لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ:صاحب ِفراست لوگوں کے لیے
وَاِنَّہَا :اور بے شک وہ (بستی)
لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ: یقیناً ایک سیدھے راستے کے ساتھ ہے
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ:بے شک اس میں
لَاٰیَۃً : یقیناً ایک نشانی ہے
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لیے
وَاِنْ کَانَ :اور بے شک تھے
اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ :گھنے درخت والے
لَظٰلِمِیْنَ:یقیناً ظلم کرنے والے
فَانْتَقَمْنَا :پھر انتقام لیا ہم نے
مِنْہُمْ :ان سے
وَاِنَّہُمَا :اور بے شک وہ دونوں (بستیاں)
لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ: ایک واضح راستہ کے ساتھ ہیں
آیات۸۰ تا ۸۹{وَلَقَدْ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ(۸۰) وَاٰتَیْنٰہُمْ اٰیٰتِنَا فَکَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ(۸۱) وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(۸۲) فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ(۸۳) فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(۸۴) وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ ط وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(۸۵) اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۶) وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷) لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) وَقُلْ اِنِّیْٓ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ(۸۹)}
خ ف ض
خَفَضَ یَخْفِضُ (ض) خَفْضًا : کسی چیز کو پست کرنا۔
اِخْفِضْ (فعل امر) : تو پست کر‘ نیچا رکھ۔ زیر مطالعہ آیت۸۸۔
خَافِضٌ (اسم الفاعل) : پست کرنے والا۔ {خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ(۳)} (الواقعۃ) ’’پست کرنے والی‘ بلند کرنے والی۔‘‘
ترجمہ:
وَلَقَدْ کَذَّبَ :اور یقیناً جھٹلا چکے ہیں
اَصْحٰبُ الْحِجْرِ :حجر والے
الْمُرْسَلِیْنَ :رسولوں کو
وَاٰتَیْنٰہُمْ:اور ہم نے دی تھیں ان کو
اٰیٰتِنَا :اپنی نشانیاں
فَکَانُوْا عَنْہَا:تو وہ لوگ تھے ان سے
مُعْرِضِیْنَ :اعراض کرنے والے
وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ :اور وہ تراشتے تھے
مِنَ الْجِبَالِ :پہاڑوں سے
بُیُوْتًا:کچھ گھر
اٰمِنِیْنَ :امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے
فَاَخَذَتْہُمُ : پھر پکڑا ان کو
الصَّیْحَۃُ :چنگھاڑنے
مُصْبِحِیْنَ :صبح کرنے والے ہوتے ہوئے
فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ :پھر کام نہ آیا ان کے
مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ:وہ جو وہ لوگ کماتے تھے
وَمَا خَلَقْنَا :اور نہیں پیدا کیا ہم نے
السَّمٰوٰتِ :آسمانوں کو
وَالْاَرْضَ :اور زمین کو
وَمَا بَیْنَہُمَآ :اور اس کو جو ان دونوں کے درمیان ہے
اِلَّا بِالْحَقِّ :مگر حق کے ساتھ
وَاِنَّ السَّاعَۃَ: اور یقیناً وہ گھڑی (یعنی قیامت)
لَاٰتِیَۃٌ :ضرور آنےو الی ہے
فَاصْفَحِ : تو آپؐ نظر انداز کریں
الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ :خوبصورت نظر انداز کرنا
اِنَّ رَبَّکَ:بے شک آپؐ کا رب
ہُوَ الْخَلّٰقُ :وہی خوب تخلیق کرنے والا ہے
الْعَلِیْمُ :جاننے والا ہے
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ:اوریقیناً ہم نے دی ہیں آپؐ کو
سَبْعًا:سات (آیتیں)
مِّنَ الْمَثَانِیْ:دُہرائی جانے والیوں میں سے
وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ: اور عظیم ترین قرآن
لَا تَمُدَّنَّ :آپؐ ہرگز دراز مت کریں
عَیْنَیْکَ:اپنی دونوں آنکھوں کو
اِلٰی مَا :اس کی طرف
مَتَّعْنَا بِہٖٓ:ہم نے برتنے کودیاجو
اَزْوَاجًا :کچھ جوڑوں کو
مِّنْہُمْ :ان میں سے
وَلَا تَحْزَنْ :اور آپؐ غم مت کھائیں
عَلَیْہِمْ:ان (کافروں) پر
وَاخْفِضْ :اور آپؐ نیچا رکھیں
جَنَاحَکَ:اپنے پہلو کو
لِلْمُؤْمِنِیْنَ :ایمان والوں کے لیے
وَقُلْ اِنِّیْٓ:اور آپؐ کہیں کہ مَیں
اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ:ہی واضح(طور) پر خبردارکرنے والا ہوں
نوٹ۱:المنجد میں مادہ ’’خ ف ض‘‘ کے افعال کے معانی باب سَمِعَ اور باب کَرُمَ کے تحت دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا فعل امر تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ اِخْفِضْ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں یہ لفظ باب ضَرَبَ یا باب حَسِبَ سے آیا ہے۔ غالب امکان کے پیش نظر ہم نے اس کے معنی باب ضَرَبَ کے تحت دیے ہیں۔
نوٹ۲: ’’حجر‘‘ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہراہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں مگر نبی کریمﷺ کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قومِ ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں۔ ان مکانات میں اب بھی گلی سڑی ہوئی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ (تفہیم القرآن)
نوٹ۳: سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ سے کیا مراد ہے‘ اس ضمن میں مختلف اقوال ملتے ہیں لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورۃ الفاتحہ ہی مراد ہے۔ امام بخاریؒ نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی کریمﷺ نے سبع مِنَ الْمَثَانِیْ سے مراد سورۃ الفاتحہ بتائی ہے۔ (تفہیم القرآن)
آیات۹۰ تا ۹۹{کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ(۹۰) الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱) فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹۲) عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۳) فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ(۹۴) اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِ یْنَ(۹۵) الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَج فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۹۶) وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(۹۷) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۹۸) وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(۹۹)}
ع ض و
عَضَا یَعْضُوْ (ن) عَضْوًا : متفرق کرنا‘ الگ الگ کرنا۔
عِضْۃٌ ج عِضُوْنَ : حصہ‘ ٹکڑا۔ زیر مطالعہ آیت۹۱۔
ص د ع
صَدَعَ یَصْدَعُ (ف) صَدْعًا :(۱) پھاڑنا مگر جدا نہ کرنا۔ شگاف ڈالنا۔ (۲) کھول کر بیان کرنا‘ ظاہر کرنا۔
صَدْعٌ (اسم ذات) : شگاف‘ دراڑ۔ {وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ(۱۲)} (الطارق) ’’قسم ہے زمین کی جو دراڑ والی ہے۔‘‘
اِصْدَعْ (فعل امر) : تو کھول کر بیان کر‘ ظاہر کر۔زیر مطالعہ آیت۹۴۔
صَدَّعَ (تفعیل) تَصْدِیْعًا : کثرت سے شگاف ڈالنا۔ اس کے مجہول صُدِّعَ یُصَدَّعُ کے لفظی معنی بنتے ہیں: کثرت سے شگاف ڈالا ہوا ہونا۔ پھر اس سے مراد لیتے ہیں دردِ سر لاحق ہونا۔ {لَا یُصَدَّعُوْنَ عَنْھَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ(۱۹)} (الواقعۃ) ’’ان کو دردِسر نہیں ہوگا اس سے اور نہ وہ مدہوش ہوں گے۔‘‘
تَصَدَّعَ (تفعل) تَصَدُّعًا : بتکلف پھٹ کر ٹکڑےٹکڑے ہونا۔ (۱) پھٹنا۔ (۲) الگ الگ ہونا۔ {یَوْمَئِذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ(۴۳)} (الروم) ’’اس دن وہ لوگ الگ الگ ہو جائیں گے ۔‘‘
مُتَصَدِّعٌ(اسم الفاعل) :پھٹنے والا‘ الگ الگ ہونے والا۔ {لَرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا} (الحشر:۲۱) ’’تو آپؐ ضرور دیکھتے اس کو جھکنے والا ‘ پاش پاش ہونے والا ہوتے ہوئے۔‘‘
ترجمہ:
کَمَآ اَنْزَلْنَا : اس کی مانند جوہم نے اتارا
عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ:تقسیم کرنے والوں پر
الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے
جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ:بنایا قرآن کو
عِضِیْنَ:ٹکڑے ٹکڑے
فَوَرَبِّکَ:تو قسم ہے آپؐ کے رب کی
لَنَسْئَلَنَّہُمْ :ہم لازماً پوچھیں گے ان سے
اَجْمَعِیْنَ:سب کے سب سے
عَمَّا :اس کے بارے میں جو
کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ:یہ لوگ کرتے تھے
فَاصْدَعْ :تو آپؐ کھول کر بیان کریں
بِمَا :اس کو جو
تُؤْمَرُ :آپؐ کو حکم دیا جاتاہے
وَاَعْرِضْ :اور آپؐ اعراض کریں
عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ :شرک کرنے والوں سے
اِنَّا کَفَیْنٰکَ :یقیناً ہم نے کفایت کی آپؐ کی
الْمُسْتَہْزِئِ یْنَ:مذاق اڑانے والوں سے
الَّذِیْنَ:وہ لوگ جو
یَجْعَلُوْنَ :بناتے ہیں
مَعَ اللہِ:اللہ کے ساتھ
اِلٰہًا اٰخَرَ :کوئی دوسرا الٰہ
فَسَوْفَ :تو عنقریب
یَعْلَمُوْنَ :وہ جان لیں گے
وَلَقَدْ نَعْلَمُ :اور بے شک ہم نے جان لیا ہے
اَنَّکَ یَضِیْقُ :کہ تنگ ہوتا ہے
صَدْرُکَ :آپؐ کا سینہ
بِمَا یَقُوْلُوْنَ :اس سے جو یہ لوگ کہتے ہیں
فَسَبِّحْ :پس آپؐ تسبیح کریں
بِحَمْدِ رَبِّکَ :اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ
وَکُنْ:اور آپؐ ہوں
مِّنَ السّٰجِدِیْنَ :سجدہ کرنے والوںمیں سے
وَاعْبُدْ:اور آپؐ بندگی کریں
رَبَّکَ :اپنے ربّ کی
حَتّٰی :یہاں تک کہ
یَاْتِیَکَ :آئے آپؐ کے پاس
الْیَقِیْنُ:وہ یقینی بات (یعنی موت)
نوٹ۱: مُقْتَسِمِیْنَ سے مراد یہود ہیں جنہوں نے دین کو تقسیم کرڈالا‘ اس کی بعض باتوں کو مانا اور بعض کو نہ مانا۔ ان کے ’’قرآن‘‘ سے مراد تورات ہے جو ان کو دی گئی تھی جس طرح ہمیں یہ قرآن دیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)
نوٹ۲:آیت ۹۷۔۹۸ سے معلوم ہوا کہ جب انسان کو مخالفین کی باتوں سے رنج پہنچے اور دل میں تنگی پیش آئے تو اس کا روحانی علاج یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و عبادت میں مشغول ہو جائے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور فرما دیں گے۔(معارف القرآن)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024